Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

میری ادبی زندگی

صوفی تبسم

میری ادبی زندگی

صوفی تبسم

MORE BYصوفی تبسم

    میری ادبی زندگی کا آغاز اس وقت سے ہوا جب میں میٹرک کا امتحان پاس کرکے خالصہ کالج امرتسر میں اعلیٰ تعلیم کے لیے داخل ہوا۔ امرتسر یوں تو ایک تجارتی شہر تھا لیکن وہاں قدیم کشمیری گھرانوں اور دوسرے خاندانوں کی علمی روایات قائم ہوچکی تھیں۔ اسی شہر سے روزنامہ ’’وکیل‘‘ شائع ہوتا تھا جس کا شمار اس زمانے کے مقتدر جریدوں میں ہوتا تھا اور جس کی ادارت مولانا ابوالکلام آزاد اور مولانا عبداللہ عمادی ایسے بزرگوں کے ہاتھوں میں رہی تھی۔ شہر کے مختلف گوشوں میں مولوی عبدالجبار غزنوی، مفتی غلام رسول، مفتی عبدالصمد، مفتی غلام مصطفیٰ جیسی جلیل القدر ہستیاں اپنی اپنی مسند علم پر بیٹھی درس و تدریس میں محو تھیں۔ ادبی حلقوں میں علامہ شعری، حضرت حکیمالشعراء طغرائی، شمس مینائی، سردار جہانگیر سنگھ جہانگیر دیوان محسن ایسے بلند پایہ شاعروں کے نام گونج رہے تھے۔

    میرا مدرسہ چرچ مشن ہائی اسکول انگریزی تسلط کے بعد پنجاب کا قدیم ترین سکول تھا اور اس کے نظم و نسق اور تعلیمی معیار کی صوبے بھر میں دھاک تھی۔ خالصہ کالج امرتسر۔ گورنمنٹ کالج اور ایف سی کالج کے برابر کی چوٹ تھا۔

    اس کالج میں داخل ہوتے ہی میری ملاقات پروفیسر ارجن ناتھ نوشہ سے ہوئی۔ وہ کشمیری پنڈت تھے۔ سنسکرت کے پروفیسر تھے اور میرے ٹیوٹر۔ فلسفہ میں بھی تکمیل کی تھی اور عربی اور فارسی کا گہرا مطالعہ کیا تھا۔ فارسی اور اردو میں خوبصورت شعر کہتے تھے۔

    ان کی وساطت سے میں نے کالج کی بزم سخن میں اپنی پہلی اردو غزل پڑھی۔ میرا رجحان زیادہ تر فارسی کی طرف تھا لیکن یہ سادہ سی اردو غزل مشاعرے میں اتنی مقبول ہوئی کہ مجھے اس کی حقیقی کامیابی پہ شبہ سا ہونے لگا۔ انہی دنوں ہمارے فارسی کے استاد مولوی مرتضیٰ حسین ٹونکی نے مجھے ادبی اور تنقیدی مضامین لکھنے کی ترغیب دی۔ یہ مضمون کالج کے رسالے میں چھپے اور ان کی اشاعت نے میرے اندر ایک گونہ خود اعتمادی پیداکردی۔

    مجھے بچپن سے انجمنیں اور سوسائٹیاں بنانے کا شوق تھا۔ میرے والد بزرگوار نے مجھے امرتسر کی مقامی کشمیری انجمن کا رکن بنوادیا اور میں چند مہینوں میں انہی کارکردگی کی بدولت اسی انجمن کا نائب معتمد منتخب ہوا جس کی وساطت سے میرا تعارف مولوی محمد دین فوق مدیر کشمیر میگزین سے ہوا اور انہوں نے مجھے اپنے میگزین کے لیے لکھنے کو کہا۔ میں نے ایک سلسلۂ مضامین شروع کیا جس کا عنوان تھا ’’اہل کشمیر کی علمی کاوشیں اور کارنامے۔‘‘

    میری تعلیمی مصروفیات کے بڑھ جانے سے یہ سلسلہ کچھ دیر کے بعد بند ہوگیا۔ میں نے بی اے میں پہنچ کر علامہ طغرائی سے جو اس زمانے میں جموں میں معلم تھے شعر میں تلمذ اختیار کیا۔ انہی دنوں طغرائی مرحوم کے شاگرد رشید حضرت حکیم محمد حسین عرشی سے راہ و رسم پیدا ہوئی وہ ہمارے محلے میں میرے والد کی دکان کے پاس ایک دکان میں آرہے تھے۔

    اس زمانے میں حافظ، نظیری اور غالب کے دواوین میرے زیر مطالعہ تھے۔ اقبال، اکبر الہ آبادی، کا کلام نظر سے گزرتا تھا اور شبلی، آزاد اور حالی کی کتابیں زیر مطالعہ تھیں۔ اب میری فارسی شاعری زوروں پر تھی۔ داد طلب کرنے کے لیے یہ کہنے کی ضرورت نہ تھی کہ،

    غریب شہر سنخہاے گفتی دارد

    عرشی صاحب سے دن رات صحبت رہتی۔ خوش طبع اور سلیم الذوق احباب کا مجمع ہوتا۔ انہی دنوں ڈاکٹر سیف الدین کچلوکی ترغیب پر میں نے اور میرے عزیز دوست ڈاکٹر شیخ عنایت اللہ نے عربی اور فرانسیسی زبان کا باقاعدہ مطالعہ شروع کیا جس سے نظر او ربھی وسیع ہوئی اور قلم و زبان کا یاراے بیان تیز ہوا۔ طغرائی مرحوم کی نگرانی اور مرزا شجاع شیون مروزی کی ادارت میں ماہنامہ غالب جاری ہوا۔ اور اس میں جی بھر کر لکھنے کا موقع ملنے لگا۔

    ایک سال کے بعد ایک بڑے عزیز دوست کی کشش (جو تقسیم ملک کے وقت بمعہ اہل و عیال شہید ہوگئے) مجھے لاہور کھینچ لائی۔ اسی کی خاطر ایف سی کالج میں داخلہ لیا اور وہیں ڈاکٹر تاثیر، پنڈت دیناناتھ زتشی، پروفیسر بشیر ہاشمی، کرنل مجید سے تعارف ہوا اور ان کی وساطت سے بعد میں پروفیسر پطرس بخاری سے نیاز مندی کاسلسلہ قائم ہوگیا اور یہ خاکسار نیاز مندان لاہور کے زمرے میں شامل ہوا۔

    اس کالج میں پروفیسر مہر چند سوری میرے اور تاثیر کے ٹیوٹر تھے۔ وہ ریاضی کے استاد تھے لیکن طبیعت شعر و ادب میں رچی ہوئی تھی۔ کالج میں ادبی محفلیں مناتے تھے۔ مجھے کالج میں آئے ابھی ایک ہفتہ گزرا تھا کہ تاثیر نے اکبر الہ آبادی پر تنقیدی مقالہ پڑھا۔ میں نے جسارت کرکے آئندہ ہفتے کے لیے ’’غالب کی شاعری‘‘ کا عنوان پیش کیا۔ مقالہ ۴۵ صفحات پر مشتمل تھا۔ پروفیسر سوری نے ہاتھ چومے اور کالج میگزین کے لیے مقالہ چھین لیا۔ دوسرے دن پرنسپل لوکس نے شاباش بھی دی اور ڈانٹ بھی پلائی او رکہا کہ آئندہ ایسا اچھا مقالہ لکھنا ہو تو ہمیں پہلے سے نوٹس دیا کرو تاکہ ہم مزید رقم کا انتظام کرلیا کریں۔

    اب میں ایک نہایت ہی سازگار فضا میں تھا۔ یوں محسوس ہوتاتھا جیسے برسوں کی دبی ہوئی امنگیں ابھرتی چلی آرہی ہیں۔ دن رات کتابوں کے مطالعے اور مضامین کے لکھنے اور شعر کہنے میں گزرنے لگے۔

    ہم ایم اے کی کلاس میں تھے۔ اچانک ایک دن تاثیر نے آکر کہا، ’’صوفی!‘‘

    ’’تیار ہوجا۔ ہمارے ایک دوست رسالہ نکال رہے ہیں ’’نیرنگ خیال‘‘ کے لیے فوراً ایک عدد مقالہ، ایک عدد کہانی، ایک نظم اور ایک تازہ غزل تیار کردو۔ چاروں چیزیں درکار ہیں۔‘‘

    ’’نیرنگ خیال‘‘ کااجرا لاہور کی ادبی زندگی میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس سے کئی ایک نقش ابھرے۔ شعر و ادب و تنقید کا معیار قائم ہوا۔ محترم چغتائی کی مصوری کاتعارف ہوااورلوگوں کواس نازک اور بلند مقام فن کو سمجھنے کا موقع ملا۔ ادبی صحافت نے ایک صحیح سمت کارخ کیا۔

    مجھے تھوڑے ہی عرصے کے بعد لاہور میں پروفیسری کی جگہ مل گئی۔ اسی زمانے میں ابوالاثر حفیظ جالندھری مخزن کے ایڈیٹر مقرر ہوئے۔ انہوں نے مجھے اس رسالے کی اعزازی ادارت میں پھانس لیا۔ خود شاہنامہ اسلام کی تالیف و ترویج میں الجھے تھے۔ اس کا پورا بوجھ میرے مصروف کندھوں پہ آپڑا۔ لیکن یہ کم و بیش دوسال کا عرصہ میرے لیے فقط دوست نوازی ہی نہیں بلکہ اپنی ادبی پیاس کے بجھانے کا دلچسپ مشغلہ بھی تھا۔ چار سال ٹریننگ کالج میں گزارنے کے بعد میرا تبادلہ گورنمنٹ کالج میں ہوا اور یہاں کی ادبی مجلسوں کے انتظامی امور میرے سپرد ہوئے۔ کالج میں بزم عجم اور بزم سخن، فارسی اور اردو کی دو سوسائٹیاں تھیں۔ پروفیسر پطرس بخاری نے اپنے گھر پر مجلس اردو کی بنا رکھ کر بے لاگ تنقیدی مضامین کاسلسلہ شروع کیا۔ جس کے ابتدائی بانیوں اور کارکنوں میں، ن م راشد، فیض احمد فیض، شیر محمد حمید، حفیظ ہوشیارپوری، آغا حمید تھے۔ پروفیسر پطرس بخاری کے ریڈیو میں چلے جانے کے بعد یہ مجلس میرے غریب خانے میں منتقل ہوئی اور اس طرح سے اس کلبۂ درویش کی قسمت جاگ اٹھی۔ اِدھر یہ چھوٹی سی چاردیوری تھی جہاں سید سلیمان ندوی، نواب صدر یارجنگ بہادر، مولانا عطاء اللہ شاہ بخاری سے صحبتیں رہیں۔ ادھر اس دور گورنمنٹ کالج تھا جہاں علم و ادب کے چشمے پھوٹتے تے اور شاگرد اور استاد دونوں فیضیاب ہوتے تھے۔ باہر ایس پی ایس کے ہال کے مشاعرے اور ان کے ہنگامے تھے جن سے زندہ دلانِ پنجاب اور نیاز مندانِ لاہور کانام ملک کے طول و عرض میں گونجنے لگا۔

    ایک طرف ادبی رسالے تھے۔ ہمایوں، شیرازہ، عالمگیر، فردوس، کارواں، اور دوسری طرف روزنامے، احرار، مجاہد اور انقلاب۔ علاوہ بریں، اورینٹل کالج میگزین اور امت مسلمہ امرتسری کا دینی ماہانہ بلاغ۔ اور پھر ریڈیو پر پروگرام، تقریریں، فیچر، ڈرامے، شعر میری ادبی زندگی کادامن ان سب سے وابستہ رہا۔ ان ادبی صحیفوں کے مدیر ہماری ادبی کوششوں کے ممنون تھے اور ہم اس بات پر نازاں تھے کہ ہماری ادبی کاوشوں کی تشکیل انہی کے دم سے ہوئی۔

    مأخذ:

    ادب لطیف،لاہور (Pg. 7)

      • ناشر: دفتر ماہنامہ ادب لطیف، لاہور
      • سن اشاعت: 1963

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے