Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

میرزا یگانہ کی شاعری

سلیم احمد

میرزا یگانہ کی شاعری

سلیم احمد

MORE BYسلیم احمد

    یگانہ صاحب کے انتقال پر ایک تعزیتی نوٹ لکھتے ہوئے میں نے ان کی شاعرانہ اہمیت اور قدروقیمت کے بار ے میں بھی اپنے تاثرات قلم بند کرنے کی کوشش کی تھی۔ اس موقع پر میں نے لکھا تھا کہ اردو شاعری کی محدود مختصر دنیا میں بیسویں صدی کے بعض بنیادی مسائل کی تفہیم اوران کا حسیاتی ادراک یگانہ کے مطالعے کے بغیر نہیں ہو سکتا۔ اب کم وبیش چوتھائی صدی کے بعد اپنی اس رائے کو دوبارہ دیکھتے ہوئے میں نے کئی سوالوں پر غور کیا۔ کیا یہ رائے یگانہ کی شاعری کو ان کے دیگر معاصرین اور ان کے بعد آنے والے شعرا کی موجودگی کا احساس کیے بغیر دی گئی تھی یا ان کے تقابل میں بھی اس رائے کی کوئی اہمیت ہے۔ دوسرے لفظوں میں کیاہم فانی، اصغر، جگر، جوش، فیض، میراجی اور راشد کے باوجود یہ کہہ سکتے ہیں کہ بیسویں صدی کے جن مسائل کو یگانہ نے چھوا، انہیں کسی اور شاعر نے ہاتھ نہیں لگایا۔

    یہ سوال یگانہ سے پہلے اقبال اور یگانہ کے بعد فراق کی موجودگی میں اور زیادہ اہمیت حاصل کر لیتا ہے۔ میرے نزدیک چونکہ کسی شاعر کا حقیقی تجزیہ تقابلی مطالعے ہی کے ذریعے ممکن ہے، اس لیے یہ سوالات میر ے لیے اور زیادہ اہم بن جاتے ہیں۔ اس لحاظ سے غور کرتے ہوئے میں نے یگانہ کی شاعری کو ازسرنو دیکھا اور اس نتیجے پر پہنچا کہ یگانہ کے ہاں معاصر زندگی کی جو مخصوص روح کارفرما ہے، وہ ہمیں نہ اقبال میں ملتی ہے نہ فراق میں۔ فیض، راشد اور میراجی بیسویں صدی سے زیادہ متاثر ہونے کے باوجود بھی اس کے مرکزی مسائل کو اس طرح نہیں دیکھتے، جس طرح یگانہ نے انہیں دیکھاہے۔ یہ عجیب بات ہے کہ اس زاویے سے انہیں دیکھتے ہوئے مجھے باربار ان کے معاصرین اور بعد میں آنے والوں کی بجائے غالب کی طرف لوٹنا پڑا۔ غالب اردو کا وہ واحد شاعر ہے جس میں ہمیں وہ روح کارفرما نظر آتی ہے جس کا اظہار بعد میں یگانہ کی شاعری میں ہوتا ہے۔

    میں نے اپنے ایک مضمون میں، جو یگانہ صاحب کی زندگی میں لکھا گیا تھا اور وہ ماہ نامہ ’’ساقی‘‘ کے ۱۹۵۱ء کے سال نامے میں شائع ہوا تھا، یگانہ اور غالب کی اس مماثلت پر روشنی ڈالی تھی اور غالب سے یگانہ کے لاگ اور لگاؤ کو اسی کے حوالے سے سمجھنے کی کوشش کی تھی۔ اس مضمون کودوبارہ پڑھتے ہوئے مجھے احساس ہوا کہ میں اگر یگانہ پر دوبارہ بھی کچھ لکھوں تو اس میں چندضمنی باتوں کے علاوہ بنیادی طور پر کوئی اضافہ نہیں کر سکوں گا۔

    ایک بات جو میں بہ طور خاص کہنا چاہتا ہوں، وہ یہ ہے کہ اردو کی بیشتر شاعری کے مقابلے پر جب ہم یگانہ کو پڑھتے ہیں تو ہمیں احساس ہوتا ہے کہ یگانہ کے ہاں وہ فرد جس کی ابتدا غالب کی شاعری میں ہوئی تھی، اپنے ارتقا کی کئی منزلیں طے کر لیتا ہے اور اس کے ساتھ ہی انسانی زندگی کے مرکزی سوالات اپنی صورت گری کے ایک نئے مرحلے سے دوچار ہو جاتے ہیں۔ یہ فرد، جس کا ذکر میں نے غالب کے حوالے سے کیا ہے، ہماری شاعری میں روایتی تہذیب کی شکست وریخت سے پیدا ہوا اور ہم اپنے زمانے تک آتے آتے اسے اس کے پورے قدوقامت میں دیکھ سکتے ہیں۔

    یہ روسو کا وہ انسان ہے جو آزاد پیدا ہوا تھا مگر ہر جگہ زنجیروں میں جکڑا ہوا تھا۔ روسو کے بعدکی پوری تاریخ اس انسان کی آزادی کی تاریخ ہے۔ بیسویں صدی میں ہم اس انسان کو دو مختلف پس منظروں کے درمیان دیکھتے ہیں۔ ایک طرف یہ انسان سرمایہ دارانہ نظام میں قدیم روایات اور تہذیبوں کو توڑتا ہے اور ان کے مذہبی، اخلاقی، معاشرتی، سیاسی اور معاشی اوضاع کو مسترد کرکے بالآخر تنہائی، احساس مغائرت، مکمل منفیت اور زندگی کی مہملیت سے دوچار ہوتا نظر آتا ہے اور دوسری طرف اشتراکی نظام میں ایک نئی جبریت اور خارجی تنظیم کے ایک دباؤ کا سامنا کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔

    غالب کی شاعری میں ہمیں اس انسان کی چندایسی جھلکیاں نظر آتی ہیں جن کو دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ غالب کے تخیل نے اس وقت کس طرح دیکھ لیا تھا جب ہمارے یہاں یہ انسان ابھی تاریخ کی گود ہی میں تھا۔ بعدمیں یگانہ ہمیں کئی آگے کی منزلیں دکھاتے نظر آتے ہیں اور جن چیزوں کو ہم غالب کے ہاں چند اشاروں کی صورت میں دیکھتے ہیں، وہ یگانہ کے ہاں تفصیلی رنگ اختیار کر لیتی ہیں۔ غالب اور یگانہ دونوں کے ہاں یہ انسان مروجہ مذہبی، اخلاقی اور تہذیبی اقدار سے لڑنے اوران کی صداقت کو ازسرنو دریافت کرنے کے عمل میں مبتلا نظر آتا ہے۔ غالب اور یگانہ دونوں کے ہاں صداقت کا آخری معیار ان کا ذاتی تجربہ ہے اور دونوں اپنی انا کے ذریعے اپنے وجود کو حقیقت کے مقابل رکھ کر دیکھتے اور ان کے ذریعے ایک نئے انکار اور نئے اثبات کی بنیاد رکھتے نظر آتے ہیں۔

    غالب کے یہاں اقدار کی تخریب اور نفی کا عمل اتنا زیادہ نمایاں نہیں ہے جتنا یگانہ کے ہاں ہے۔ اس کے علاوہ آخر آخر غالب تعمیر کی نئی بنیادوں تک بھی پہنچ جاتا ہے۔ جب کہ یگانہ تخریب کے مرحلے میں اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا اظہار کرتے ہیں۔ یہ ساری باتیں اختصار لیکن وضاحت کے ساتھ آپ کو اس مضمون میں مل جائیں گی جو میرے اس نوٹ کے ساتھ ذیل میں شائع کیا جا رہا ہے۔

    آخر میں صرف ایک بات اور کہوں گا کہ میرے نزدیک جدید شاعری اگر بیسویں صدی کی حقیقی روح کو جذب کرتے ہوئے آگے بڑھنا چاہتی ہے تو اسے یگانہ اور غالب کو اپنی روح میں اتارنا پڑےگا اور تخریب کے اس زہر کو پینا پڑےگا جس کو رومانی جذبات پرستی نے ہماری نظروں سے اوجھل کر دیا ہے۔

    یگانہ صاحب کوان کی خودپرستی نے مشہور کم کیا اور بدنام زیادہ۔ یہ خودپرستی ’’آیات وجدانی‘‘ کے دیباچہ نگار کے بیا ن کے مطابق اہل لکھنؤ کے بےجا غرور، کم نظری اور حسد شعاری کی پیداکردہ ہے۔ لیکن ہمیں ان کی شاعرانہ شخصیت کے متعلق بیرونی شواہد کی تلاش میں زیادہ وقت صرف نہیں کرنا چاہئے، اس لیے کہ ضروری نہیں ہے کہ ایک فنکار اپنی تخلیقات میں بھی ہو بہو وہی ہو جو وہ اپنی عام زندگی میں نظر آتا ہے۔ فنکار کی عام شخصیت اپنی عام زندگی میں جو تجربات کرتی ہے، فنکار کا تخیل اسے کچھ سے کچھ بنا دیتا ہے۔ یگانہ صاحب کی ذاتی خودپرستی اور ان کی شاعرانہ خودپرستی، دو الگ الگ چیزیں ہیں اور ان دونوں کی الگ الگ قدروقیمت ہے۔ کوئلے اور ہیرے دونوں میں اصل جزوکار بن ڈائی آکسائڈ کا ہوتا ہے۔ لیکن کوئلے کو کوئلہ کہا جاتا ہے اور ہیرے کو ہیرا۔

    ممکن ہے کہ یگانہ صاحب کی ذاتی خودپرستی کی مذمت کے لیے مختلف جواز تلاش کرنے کی ضرورت پڑے لیکن ان کی شاعرانہ خودپرستی کسی جواز کی محتاج نہیں۔ اس لیے کہ اسی خودپرستی نے یگانہ صاحب کو ان شاعروں کی فہرست میں شامل کر دیا ہے جو حسن، حقیقت اور ضمیر کے مروجہ تصورات کو قبول نہ کرکے نئے جہان اقدار کی تلاش میں نکلتے ہیں یا کم از کم مروجہ اقدار کے ناقابل اطمینان ہونے کا اعلان کرکے ان کے خلاف بغاوت کرتے ہیں اور اپنے بعد آنے والوں کے لیے جہان اقدار کو ڈھونڈ نکالنے کے کام میں آسانیاں فراہم کر جاتے ہیں۔ اس لحاظ سے یگانہ صاحب مزاجا ً ’’غالبی‘‘ ہیں۔

    کیونکہ اردو شاعری میں یگانہ صاحب سے پہلے غالب ہی وہ واحد شخصیت ہے جس نے مروجہ اقدار سے بغاوت کی اور حسن، ضمیر اور صداقت کے متعلق نئے تصورات کی تخلیق کی کوشش کی اور میرے خیال میں غالب کے متعلق یگانہ صاحب کے حریفانہ رویے کی وجہ بھی یہی ہے۔ وہ اپنے تجربات اور غالب کے تجربات میں تو مطابقت دیکھتے ہیں، لیکن ان کا دعوی یہ ہے کہ غالب ان تجربات کے فنکارانہ اظہار میں ان کے برابر نہیں، یا کم از کم غالب اور ان کی حیثیت مساوی ہے،

    صلح کر لو یگانہ غالب سے

    وہ بھی استاد تم بھی اک استاد

    ’’آیات وجدانی‘‘ کے دیباچے میں یگانہ صاحب کی غالب شکنی کا جواز یہ کہہ کر پیش کیا گیا ہے کہ غالب کے مرتبے سے ناآشنا لوگ جھوٹ موٹ غالب کی تعریفیں کیا کرتے ہیں اور خواہ مخواہ آتش پر منہ آیا کرتے ہیں اور حالانکہ یگانہ صاحب غالب کے بھی معتقد تھے، مگر وہ آتش کے فدائیوں میں ہیں۔ اس لیے مقامی ضرورتوں نے مجبور کر دیا کہ ’’غالب کی حقیقت بھی واضح کر دی جائے۔‘‘ مجھے معلوم نہیں کہ اس بیان سے یگانہ صاحب کہاں تک متفق ہیں اور غالب شکنی کا جواز فراہم کرنے میں ان کا استدلال کیا ہے مگر مجھے اس بیان کے قبول کرنے میں بوجوہ انکار ہے۔ اولا ًیہ کوئی انصاف نہیں ہے کہ نافہم غالب پرستوں کی حرکات کی سزا غالب کو ملے۔ دوسرے اس بیان سے غالب کے متعلق یگانہ صاحب کے اس ذاتی حریفانہ رویے پر کچھ روشنی نہیں پڑتی، جس کا اظہار انہوں نے یوں کیا ہے،

    غالب اور میرزا یگانہ کا

    آج کیا فیصلہ کرے کوئی

    اور تیسری وجہ تو اتنی اہم ہے کہ اگر یگانہ صاحب خود اس بیان کی با اصرار تصدیق کریں تو بھی میں اسے تسلیم کرنے سے انکار ہی کرتا ہوں گا۔ وجہ یہ ہے کہ اس بیان سے یگانہ صاحب کے مزاج کے متعلق ہمیں بجز اس کے اور کچھ معلوم نہیں ہوتا کہ وہ زیادہ سے زیادہ ’’خدائی فوج دار‘‘ بننے کی کوشش کرتے ہیں۔ حالانکہ یگانہ صاحب کی شاعرانہ ذہنیت پر اس مسئلے کا جس طرح اثر پڑا ہے اور وہ جس طرح اپنی شاعری میں بار بار غالب اور اپنے موازنے کی طرف لوٹ آتے ہیں، وہ کم از کم اس کا تو اظہار کرتا ہی ہے کہ غالب سے ان کی لاگ سطحی اور صرف بیرونی واقعات کی پیدا کردہ نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق خودان کی اپنی شاعرانہ شخصیت سے بہت گہراہے۔ آگے چل کر میں دکھاؤں گا کہ اپنے مزاج اور تجربات کے لحاظ سے وہ غالب کے کتنے مشابہ ہیں۔

    غالب کے علاوہ اردو کے دوسرے شاعر اور وہ بھی وہ شاعر، جو چند محسوسات یا جذبات کی عکاسی یا ان کی مختلف صورتوں کے بیان میں الجھ کر نہیں رہ جاتے، بلکہ انسانی زندگی کو بحیثیت مجموعی سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں، انفرادیت و اجتماعیت کی کشمکش میں باوجود اپنی تمام محرومیوں، ناکامیوں اور مایوسیوں کے مروجہ اقدار سے بغاوت اور حسن، ضمیر اور صداقت کے ان وسیع تر تصورات کی تلاش نہیں کرتے جو فردوجماعت کی کشمکش کو یقیناً کم کر سکیں، بلکہ بالعموم مرکھپ کر اپنی ذات ہی کو، مروجہ اقدار سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش میں مصروف رہتے ہیں۔ ان کے یہاں وہ ’’تخریبی جذبہ‘‘ نہیں ملتا جو عمارت کی کہنگی ا ور خامی کو دیکھ کر اس کی بنیادکو ویران کر دینے کے خیال کی طرف لے جاتا ہے۔ غالب اس تخریبی جذبے کے پہلے شاعر ہیں۔ ان کے تجربات نے انہیں مروجہ اقدار کے ناقابل قبول ہونے کا یقین دلا دیا ہے اور ہر وقت وہ اس بنیادی مسئلے سے الجھتے رہتے ہیں کہ اس بکھری ہوئی، منتشر اور بعض اوقات تکلیف دہ حد تک بے معنی زندگی میں ان کی اپنی ذات کی کیا حیثیت ہے اور زندگی کی تنظیم کس طرح کی جا سکتی ہے اور اس میں کس طرح ’’معنی‘‘ پیدا کیے جا سکتے ہیں۔ وہ تنہا صرف ومحض اپنی شخصیت اور اس کے تجربے کے بل بوتے پر ان مسائل کو حل کرنا چاہتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس صورت میں ان کے یہاں ہر چیز کی قدروقیمت کو پرکھنے کی واحد کسوٹی ان کی اپنی ذات اور ان کے اپنے تاثرات ہی رہ جاتے ہیں،

    ہنگامہ زبونی ہمت ہے انفعال

    حاصل نہ کیجئے دہر سے عبرت ہی کیوں نہ ہو

    یگانہ صاحب کے یہاں بھی یہی تخریبی جذبہ عمل کرتا نظر آتا ہے۔ وہ بھی غالب کی طرح مروجہ اقدار سے بغاوت کرتے ہیں اور اس بغاوت کے تمام پہلوؤں کی جھلکیاں ہمیں ان کی شاعری میں دکھائی دیتی ہیں۔ غالب کے مقابلے میں ان کے تجربات محدود ضرور ہیں (جس کے متعلق آگے چل کربحث کروں گا) مگر اپنے تجربات کے متعلق ان کا بیان، غالب سے زیادہ مکمل اور منظم ہے۔ وہ اپنے تجربات کی کسی کڑی کو چھوڑتے نہیں۔ ہم اگر غالب کے ذہنی سفر کی تمام منزلوں کو بیان کرنا چاہیں تو ہمیں ان کی شاعری کے باہر دوسرے شواہد بھی ڈھونڈنے پڑیں گے لیکن یگانہ صاحب کے یہاں اس کی ضرورت نہیں پڑےگی اور ہمیں ان کی شاعری میں ہر اس منزل کی جھلک مل جائےگی جو ان کی گزرگاہ بن چکی ہے۔ اس سلسلے میں غزلوں کے مختلف اشعار کے علاوہ ان کی ایک مثلث کا مطالعہ دلچسپی سے خالی نہ ہوگا، جس میں انہوں نے اپنے ذہنی تجربات کا تقریباً مکمل اظہار کر دیا ہے،

    امیدوبیم میں کٹے تو کیا مزا شباب کا

    ہوائے دہر دیتی ہے پیام انقلاب کا

    الٹ نہ جائے ناگہاں ورق مری کتاب کا

    کسی کی کیا مجال ہے جو چرخ پیر سے لڑے

    امنڈ رہا ہے ابرغم نہ جانے کب برس پڑے

    رندھا ہوا ہے چار سمت بادل انقلاب کا

    ہوائے تند دل جلوں کے دل کو روندتی ہے کیا

    قفس پہ میرے بے دھڑک یہ برق کوندتی ہے کیا

    چلےگا بے دلوں سے کچھ نہ زور اضطراب کا

    نہ مبتدا کی کچھ خبر، نہ کچھ خبر کا مبتدا

    دل شکستہ گم ہوا تو پھر کہاں کا سلسلہ

    یہی ورق نکل گیا تو مول کیا کتاب کا

    نگاہ تشنہ کام میں حرام بھی حلال ہے

    نہ کوئی امر ممتنع نہ کوئی شے محال ہے

    فریب مجھ سے پوچھئے کرشمہ سراب کا

    پکارنے سے کام ہے، پکارتا ہوں بار بار

    دیار حسن میں ہو یاس کیوں کوئی امیدوار

    جواب بے صواب یا جواب باصواب کا

    اس مثلث میں چھ بند ہیں اور ہر بند میں بظاہر الگ الگ مضمون ہے لیکن ان مضامین کو حرکت کی ایک رو ایک دوسرے سے منسلک کیے ہوئے ہے۔ اس حرکت کو یگانہ صاحب نے مثلث کی تکنیک استعمال کرکے ظاہر کیا ہے، جس میں ہر شعر اپنی جگہ مکمل نہیں ہوتا، بلکہ ایک تیسرے مصرعے کی مدد سے اپنا سلسلہ دوسرے شعر سے ملا دیتا ہے۔ مثلث کی تکنیک کے استعمال کے علاوہ یگانہ صاحب نے یہ کوشش بھی کی ہے کہ اپنے تجربات کو ترتیب واربیان کریں تاکہ ان کی بےترتیبی، ان کے خیال کی حرکت کو منقطع نہ کر دے۔ پہلے بند میں انہوں نے جذبہ تشکیک کا اظہار کیا ہے جو اپنی ابتدائی صورت میں اپنی زندگی سے بےاطمینانی کا شخصی تجربہ ہے۔ دوسرے بند میں یہ شخصی تجربہ عمومیت اختیار کر لیتا ہے یعنی وہ بحیثیت مجموعی زندگی میں فن کے معدوم ہو جانے کا اظہار کرتے ہیں اور یہ دکھاتے ہیں کہ کسی میں ہمت باقی نہیں رہی ہے کہ زندگی کو اپنے لیے سازگار بنا سکے۔

    تیسرے بند میں اس زندگی کے خارجی عمل کے مہلک اثرات سے اپنی ذات کو بچانے کی کوشش کا اظہار کرتے ہیں جو ان کی خوداعتمادی اور اپنی قوت کے احساس کی پیداکردہ ہے۔ چوتھا بند اس کوشش میں ناکام رہنے اور شکست کھا جانے کا آئینہ دار ہے۔ پانچویں بند میں اس شکست کے اثرات کی تفصیل ہے۔ یعنی مقابلہ کرنے والے کی زندگی کی ہر قدر حتی کہ خیروشر کے تصورات سے بھی بیزاری۔ چھٹے بند میں وہ مروجہ اقدار سے مایوس ہوکر نئے تصورات واقدار کی تخلیق کی ایک ایسی کوشش کی ابتدا کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو کامیابی یا ناکامی کے تصورات سے بلند ہے۔

    میرے خیال میں یہ مثلث ان کے تجربات کے بیان میں اتنی مکمل ہے کہ اگر ہم یگانہ صاحب کی شاعری کو کیفیات کے اعتبار سے مختلف حصوں میں بانٹیں تو اس مثلث کا ایک ایک بند، ایک ایک حصے کے عنوان کا کام دےگا۔ اس مختصر سے مضمون میں اس کی گنجائش نہیں ہے کہ میں ان کے کلام کے اقتباسات سے اس دعوے کا ثبوت دے سکوں۔ مگر جس شخص نے بھی یگانہ صاحب کے کلام کو مجموعی حیثیت سے پڑھا ہوگا، اس کے لیے یہ بیان ناقابل قبول نہ ہوگا۔

    ہاں تو میں یہ کہہ رہا تھا کہ یگانہ صاحب غالب کی طرح تخریبی جذبے کے شاعر ہیں۔ وہ مروجہ اقدار سے بغاوت کرتے ہیں۔ اس بغاوت کی اصل حقیقت کو دیکھنا ہو تو ان اشعار کو نہ دیکھئے جن کا طمطراق ان کے قاری کی توجہ کو اس طرح اپنی طرف کھینچ لیتا ہے کہ اسے دوسری طرف توجہ کرنے کا موقع ہی نہیں ملتا۔ یہ اشعار اس لحاظ سے دلچسپ ہوں تو ہوں کہ ان میں اس یگانہ کی، جو اپنی عام زندگی میں لوگوں کے عام تصور کے مطابق اپنی ’’اکڑفوں‘‘ کی وجہ سے بدنام ہے، کوئی جھلک نظر آ جاتی ہو، ورنہ ان اشعار نے ان کی شاعرانہ بغاوت کی اصل اہمیت کو چھپایا ہی ہے، ظاہر نہیں کیا ہے۔ ملاحظہ فرمائیے،

    کون دیتاہے ساتھ مردوں کا

    حوصلہ ہے تو باندھ ٹانگ سے ٹانگ

    اندھیرے اجالے کہیں تو ملیں گے

    وطن سے ہمیں در بہ در کرنے والے

    علاج اہل حسد زہر خند مردانہ

    ہنسی ہنسی میں توان احمقوں کو ڈستا جا

    جو زہر کھائیں تو پہلے کھلائیں دشمن کو

    اکیلے کھائیں گے ایسے تو ہم گنوار نہیں

    عدو کیا زہر دیتا ہے ہم ایسے تشنہ کاموں کو

    لہو کا گھونٹ اتر جاتا ہے یاں شیروشکر ہوکر

    گریباں میں منھ ڈال کر خود تو دیکھیں

    برائی پہ میری نظر رکھنے والے

    کوئی شبہ نہیں کہ یہ اور اس قسم کے اور دوسرے اشعار، جو یگانہ صاحب کا ذکر کرتے ہی لوگوں کی زبان پر آ جاتے ہیں، یگانہ صاحب کی عام شخصیت کی ترجمانی کے باعث دلچسپ ہیں۔ لیکن اگر یگانہ صاحب کا کلام اسی قسم کے اشعار کا مجموعہ ہوتا تو میں غالباً یہ مضمون نہ لکھتا، کیونکہ ان اشعار کا تیور، ان کا کڑاپن اور کھراپن، باوجود اپنے نئے پن کے، میرے لیے وہ اپیل نہیں رکھتا جو ان کے ان اشعار میں ہے، جن میں انہوں نے بعض ایسے تصورات وجذبات کو بیان کر دیا ہے جن کو زبان سے سنانے کی ہمت کسی کو نہیں ہوئی،

    سلامت آپ کا یہ حسن لازوال مگر

    ہم آج ہی کے ہیں کل کے امیدوار نہیں

    حسن کافر گناہ کا پیاسا

    بے گناہوں کو ساننے والا

    مجال تھی کوئی دیکھے تمہیں نظر بھرکے

    یہ کیا ہے آج پڑے ہو ملے دلے کیوں کر

    سمجھ کا پھیر ہے یا وقت کا تقاضا ہے

    وہی برے نظر آنے لگے بھلے کیوں کر

    الگ تھلگ کی ملاقات کر کری کیوں ہو

    کھلے تو عشق کھلے، دل لگی کھلے کیوں کر

    گھل گئے جیسے موم کی مریم

    کیوں بڑھایا تھا دل جلوں سے تپاک

    دیکھئے عشق میں نبھے کیوں کر

    آپ نازک مزاج ہم بے باک

    بدل نہ جائے زمانے کے ساتھ نیت بھی

    سنا تو ہوگا جوانی کا اعتبار نہیں

    تو کیا ہمیں ہیں، گنہ گار حسن یا رنہیں

    لگاوٹوں کا گناہوں میں کیا شمار نہیں

    یہ اشعار یقیناً عشقیہ اشعار نہیں، مگر’’حسن‘‘ اور ’’عشق‘‘ کے تصورات کے متعلق یہ باکانہ رویہ اپنے اندر ایک گہری معنویت رکھتا ہے۔ اردو غزل میں حسن، عشق اور وفا وغیرہ کے الفاظ، اپنے لغوی معنوں میں استعمال نہیں ہوتے بلکہ ایک تہذیب کی چند مستقل اقدار کا علامتی اظہار کرتے ہیں اور جب کوئی شاعر حسن سے اپنے مستقل لگاؤ، اپنے عشق کی پائیداری اور اپنی وفاشعاری کا تذکرہ کرتا ہے تو اس کے معنی یہ نہیں ہوتے کہ وہ کسی مرد یا عورت سے ہمیشہ تعلقات رکھنے کا بیان کرتا ہے، بلکہ ان تصورات واقدار سے جو ایک تہذیب کی مرکزی روح کے ترجمان ہوتے ہیں۔ چنانچہ ان اشعار میں یگانہ صاحب ہرگز اپنے محبوب سے مخاطب نہیں ہیں، بلکہ یہ اشعار صرف اس امر کا اشارہ ہیں کہ شاعر بڑی سے بڑی تہذیبی قدر سے روگردانی کر رہا ہے۔ ان کا ایک اور شعر ملاحظہ فرمائیے جس میں وہ ضمیر کی آواز پردھیان دینے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں، کیونکہ وہ خودا نہیں اقدار کا تخلیق کردہ ہے جن سے وہ خود منکر ہو چکے ہیں،

    چارہ پشیمانی، خوش دلی و خوش کامی

    توبہ از ریا کاراں خندہا ز تن تنہا

    ’’آیات وجدانی‘‘ کے حاشیے میں اس شعر کے متعلق لکھنے والے نے لکھا ہے کہ اس شعر میں مصنف نے اہل مغرب کے دستورالعمل کی تائید کی ہے کہ جذبہ پشیمانی کا بہترین فیصلہ خوش دلی اور خوش کامی ہے اور اس امر پر افسوس بھی کیا ہے کہ مصنف نے اس شعر میں اپنے اصول زندگی کے خلاف بات کہی ہے۔ مگر دراصل یہ شعر ہی ان کی بغاوت کی ایک منزل ہے، جہاں پہنچ کر ان کے یہاں زندگی کے خارجی عمل سے ان کی ذات پر ہونے والے اثرات اور خود ان کے عمل سے پیدا ہونے والے نتائج کے متعلق خیر یا شر ہونے کا فیصلہ کسی خارجی یا اجتماعی اصول کے ماتحت نہیں ہوتا بلکہ صرف ان کی اپنی حاصل کردہ لذت یا الم کے لحاظ سے۔ کیونکہ زندگی کی مروجہ اقدار سے بغاوت کرکے خیروشر کو پرکھنے کے لیے ان کے پاس آخری کسوٹی، ان کی اپنی ہی ذات رہ جاتی ہے۔ یہ اشعار ملاحظہ فرمائیے،

    منم کہ آئنہ حق نما برائے خودم

    منم کہ مشتری جنس بے بہائے خودم

    منم کہ چارہ گرو درد آشنائے خودم

    منم کہ درد خدا دادم و دوائے خودم

    منم کہ سرنمی آرم بہ سجدہ ناحق

    منم کہ در رہ حق محو نقش پائے خودم

    منم کہ منتظر انقلاب می باشم

    منم کہ سلسلہ جنبان غم برائے خودم

    منم کہ منزل مقصود زیرپا دارم

    شکستہ پایم و تاہم بہ مدعائے خودم

    قدم زغم کدہ خود چہ می نہم بیروں

    گدائے خاک نشینم و لے گدائے خودم

    ہزار فتنہ بپا گشت ومن خبر نشدم

    ہزار کوہ شد از جا ومن بجائے خودم

    میں نے ابتدا میں کہا تھا کہ یگانہ صاحب اپنے تجربات کی مکمل ترجمانی کرتے ہیں۔ مگر یگانہ صاحب کی بغاوت کی تمام منزلوں کی ترجمانی مکمل نہ ہوتی اگر ہمیں ان کے کلام میں اس شکست کی عکاسی نہ ملتی جو اس باغیانہ دوڑ دھوپ کے نتیجے کے طور پر فرد کو حاصل ہوتی ہے۔ فرد اپنے ماحول سے بغاوت کرکے اس کی تمام اقدار کو توڑ پھوڑ سکتا ہے، مگر خود بھی تھکن اور اضمحلال کے اثرات سے بچ نہیں سکتا۔ یہ وہ مقام ہوتا ہے جہاں فنکار زندگی کے ابتدائی تعلقات کی طرف رجوع کرتا ہے اور اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ زندگی کے لیے نئی معنوی اقدار کی تخلیق اگر ہو سکتی ہے تو عام انسانی زندگی کو قبول کرکے ہی ہو سکتی ہے۔ ایک فرد اپنی ذات کے بل بوتے پر اس کام کو انجام نہیں دے سکتا۔ یگانہ صاحب اس منزل تک نہیں پہنچتے ہیں۔

    وہ تھکن اور اضمحلال کو تو محسوس کرتے ہیں مگر اپنی خود پرستی کے اس مغالطے سے جو ان کے ذہنی سفر کے لیے ابتدا میں ضروری تھا لیکن جسے اس منزل پر آکر حقیقت کے ایک نئے تصورسے ٹکراکر، اس لیے ٹوٹ جانا چاہئے تھا کہ واقعی ان کا نیا ’’جہان انداز‘‘ پیدا ہو سکے۔ ان کی شاعری، ایک ایسے فرد کی شاعری بن جاتی ہے جس نے اپنی ذات پر پردے لٹکائے ہوں اور اس میں اتنی جرأت نہ ہوکہ ان پردوں کو ہٹاکر دنیا کو دیکھنے دے کہ ان تجربات کے بعد اس شخص پر کیا گزری ہے۔ وہ اپنی انا، اپنی خوئے خودپرستی اور خودداری کے اظہار کے سلسلے میں انتہائی محتاط ہو جاتے ہیں اور نتیجتاً ہمارے لیے آخر میں چند ایسے اشعار ہی چھوڑتے ہیں جن سے خواہ ہم ان کی تھکن اور شکست کا اندازہ لگا لیں، لیکن اس سے زیادہ اور کچھ حاصل نہیں کر سکتے،

    مڑ کے دیکھا نہ گلستاں کی طرف

    خون ہو ہو کے دل میں رہ گئی یاد

    کون دیتا ہے داد ناکامی

    خون فرہاد برسر فرہاد

    ہرصبح ہوئی شام کو اک خواب فراموش

    دنیا یہی دنیا ہے تو کیا یاد رہے گی

    یکساں کبھی کسی کی نہ گزری زمانے میں

    یادش بخیر بیٹھے تھے کل آشیانے میں

    یہاں پہنچ کر یگانہ صاحب غالب سے پیچھے رہ جاتے ہیں۔ وہ غالب کی طرح اپنی شخصیت کو زندگی کے دوسرے عناصر کے تقابل میں رکھ کر دیکھنے کی تاب نہیں لاتے اور آنکھیں بند کرکے اپنے ’’بڑک پن‘‘ سے متعلق ہانکنے لگتے ہیں۔ اس بات کو یہ کہہ کر رد نہیں کیا جاسکتا کہ انہوں نے اپنی زندگی میں واقعی طور پر اپنی خودی کو شکست نہیں ہونے دیا۔ کیوں کہ ہمارے لیے یہ انکشاف اہمیت نہیں رکھتا کہ وہ کتنے خوددار ہیں، بلکہ ہم یہ جاننا چاہتے ہیں کہ ایک ایسے فرد پر جس کے مزاج کی تشکیل بہترین اخلاقی اقدار اور زندگی کی اعلی ترین روایات سے ہو، اجتماعی زندگی میں کیا گزرتی ہے۔ بالفاظ دیگر ہم شاعر و ادیب سے یہ چاہتے ہیں کہ ہمیں دکھائے کہ حسن، ضمیر اور صداقت کے لیے اجتماعی زندگی میں کیا کیا امکانات ہیں اور اجتماعی زندگی کا تجربہ فرد کو کدھر لے جاتا ہے؟ اوراس کے اثرات فرد پر کیا کیا مرتب ہوتے ہیں اور فرد ان اثرات کو کس طرح اجتماعی زندگی کی طرف لوٹا دیتا ہے۔

    لیکن یہ کام اتنا بڑا ہے کہ بغیر ایک متوازی اور حقیقت آگیں تصور زندگی کے انجام نہیں دیا جا سکتا اور یگانہ صاحب کی کمزوری یہ ہے کہ وہ اپنے باغیانہ تجربات کے دوران اپنی شخصیت کے حسن کی ایک آدھ جھلک دیکھ کر ہی اتنے مسحور ہو گئے ہیں کہ اس طلسم سے نکلنا نہیں چاہتے۔ برخلاف اس کے غالب باوصف اپنی تمام خودپرستی کے اس حقیقت کی عکاسی کر دیتے ہیں (خواہ اس سے انہیں کتنا ہی دکھ کیوں نہ پہنچتا ہو) کہ زندگی کے بعض عناصر کے مقابلے میں ان کی شخصیت بہت چھوٹی ہے۔ حتی کہ آخر میں تو وہ یہ تک تسلیم کر لیتے ہیں کہ زندگی کا حسن معنوی (یہ ان کے لیے ان کے تصورات اور آدرشوں کا ایک نام ہے) اور جلوہ صورت (یعنی زندگی جس صورت میں موجود ہے اور عام لوگ اسے جس طرح دیکھتے ہیں) مساوی حیثیت رکھتے ہیں: گربہ معنی نہ رسی، جلوہ صورت چہ کم است۔

    یگانہ صاحب نے کہنے کو تو کہہ دیا تھا،

    برا ہو پائے سرکش کا تھک جانا نہیں آتا

    کبھی گم راہ ہوکر راہ پر آنا نہیں آتا

    اور،

    ازل سے اپنا سفینہ رواں ہے دھارے پر

    ہوا ہنوز نہ گرداب کا نہ ساحل کا

    مگر اس منزل پر آکر، ان کا پائے سرکش تھک جاتاہے اور ان کا سفینہ، ان کی ذاتی خودپرستی کے ساحل کی طرف لوٹ آتا ہے اور وہ اس گرداب تک نہیں پہنچ پاتے جہاں فنکار سے تنکے کا سہارا، یعنی اس کی ذاتی پسند بھی چھن جاتی ہے اور وہ اپنی شخصیت پر بھی عمل تخریب کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ ویسے ان کے یہاں ایک آدھ شعر اس قسم کا تو مل جائےگا جس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ وہ کبھی کبھی خیر کا ایک خارجی اصول وضع کرنے کی کوشش میں اپنی ذاتی لذت سے آزاد ہو جانے کی کوشش کرتے ہیں مگر ناکام رہ جاتے ہیں اور نتیجتاً اس لذت سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ مثلا یہ شعر دیکھئے،

    حلال بھی مرے حق میں حرام واویلا

    نگاہ شوق سے کیا کیا گل و ثمر گزرے

    مگر یہ ان کے مزاج کی کوئی مستقل کیفیت نہیں ہے اورا ن کی شاعری کی آواز پر بالکل اثرانداز نہیں ہوتی ہے، ورنہ ان کے لب ولہجے میں وہ تیقن نہ پیدا ہوتا جو ان کے ان اشعار کو بھی، جن کا موضوع تشکیک ہے، کیفیت کے اعتبار سے بہت بڑی حد تک جامد بنا دیتا ہے۔ حتی کہ ہمیں بعض اوقات یہ گمان ہونے لگتا ہے کہ وہ صرف ومحض خیال بندی کر رہے ہیں۔ پتا نہیں میں اپنے خیال کی وضاحت میں کامیاب بھی ہو سکا ہوں یا نہیں؟ میرا مقصد یہ کہنا ہے کہ یگانہ صاحب کے جذبہ تخریب کا عمل ان کی ذات پر کبھی نہیں ہوتا۔ وہ اپنی شخصیت کو کبھی شک کی نظر سے نہیں دیکھتے اور اپنے ذاتی معیاروں کے متعلق ابتدا ہی سے اتنے پر یقین ہیں کہ اس نے ان کی شاعری کے لہجے سے وہ لچک چھین لی ہے جو ہر فن کار کے یہاں ایک مخصوص جذبے کی عکاسی کے وقت وہی انداز اختیار کر لیتی ہے جو اس جذبے کے اظہار کے لیے ضروری ہو۔

    چنانچہ وہ جب کبھی اس قماش کے جذبات و محسوسات کی ترجمانی کرتے ہیں جو تشکیکی ہوں یا بالواسطہ تشکیک سے متعلق ہوں تو ان کا لب ولہجہ اس کے عین برعکس کیفیت کا حامل ہوتا ہے جوان کے ایسے اشعار کی اصل کیفیت کو زائل کر دیتا ہے۔ مگر میں تسلیم کرتا ہوں کہ اگران کی خودپرستی کی یہ کیفیت نہ ہوتی اور وہ صرف اپنی شخصیت کے بل بوتے پر زندگی کے خارجی عمل سے پیدا ہونے والے ہر قسم کے تاثر کی مزاحمت کرنے کی کوشش نہ کرتے رہتے تو شاید لکھنؤ کی فضا اور اس کے انحطاطی اثرات ہم سے اس منفرد آواز کے شاعر کو چھین لیتے جس کی آواز دور سے پہچانی جاتی ہے، کیونکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ یگانہ صاحب کی آواز کا کڑاپن، اس کے تیور، اس کی تیزی اور کھراپن ان کی لامحدود خودپرستی کی ہی پیدا کردہ ہے۔

    مأخذ:

    مضامین سلیم احمد (Pg. 358)

    • مصنف: سلیم احمد
      • ناشر: اکیڈمی بازیافت، کراچی
      • سن اشاعت: 2009

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے