Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

احمد علی اور کافکا

ممتاز شیریں

احمد علی اور کافکا

ممتاز شیریں

MORE BYممتاز شیریں

    کافکاکی گہری رمزیت اور کافکا کا انداز اگر ہمارے ہاں کسی ادیب میں ہے تو وہ احمد علی میں ہے۔ ممکن ہے احمد علی کافکا سے شعوری طور پر متاثر نہ ہوئے ہوں اور اظہار کی مطابقت ادبی مزاج کی مطابقت کا نتیجہ ہو۔ چنانچہ ابھی ایک نئے فرانسیسی ادیب کی تخلیق Amindab کا کافکا کی تخلیقات سے موازنہ کرتے ہوئے ژاں پال سارتر نے لکھا ہے کہ مصنف کو خود کافکا کے اثر سے انکار ہے، بلکہ اس کا یہ کہنا ہے کہ جن دنوں یہ تحریر ہوئی اس نے کافکا کو پڑھا تک نہیں تھا۔ تو پھر ژاں پال سارتر کی رائے میں یہ مطابقت اور بھی حیرت انگیز ہے۔

    کافکا کی جینس کچھ ایسی غیر معمولی اور یکتا تھی کہ وہ ایک myth ہی بنارہا۔ عام ادیبوں کی رسائی سے بہت دور۔ ایک پیہم کشش اور ترغیب۔ ژاں پال سارتر کے الفاظ میں :

    “He remained on the horizon a perpetual temptation

    Kafka cold not be imitated.”

    لہذا کافکا کی فکر سے مناسبت اور کافکا کا سارمزی طریقہ اظہار، خواہ وہ شعوری ہو یا غیرشعوری، بہت بڑی بات ہے اور ایک مشابہ جنئس کا تقاضا کرتی ہے۔

    ہمارے افسانہ نگاروں میں احمد علی کی جنئس غیرمعمولی ہے اور وہ ہمارے وقیع ترین افسانہ نگار ہیں، گو وہ منٹو یا کرشن چندرکی طرح مقبول عام نہیں۔ منٹو کی تحریروں کی اپیل خاص و عام کے لیے یکساں تھی لیکن احمد علی کی تحریریں اپنی نوعیت میں esoteric ہیں جنہیں معدودے چند، ادب کا صحیح ذوق رکھنے والی ہی پسند کرسکتے ہیں۔ احمد علی کی رمزی تحریروں کے علاوہ دوسری تحریریں بھی ایک خاص پایہ اور مقام رکھتی ہیں لیکن احمد علی کا مخصوص لب و لہجہ اور رنگ رمزی اور فلسفیانہ ہے۔ رمزیت کو انہوں نے شروع ہی سے اپنایا تھا۔ نئے ادب کی سب سے پہلی کتاب ’’انگارے‘‘ میں بھی ان کے افسانے سرریلزم اور آزاد تلازم خیال کے مظہر تھے۔ ’’پریم کہانی‘‘ میں انہوں نے محبت کا فلسفہ پیش کیا۔ ’’قلعہ‘‘ میں سیاست کو بھی فلسفیانہ رنگ دیا۔ ’’گزرے دنوں کی یاد‘‘ میں انہیں وقت کی، ماضی کی، پراسرار، حیران کن آواز آئی۔ ان کے یہ افسانے بڑی شدت اور گہرائیوں کے حامل ہیں۔

    احمد علی کی جن تحریروں میں خاص طور پر کافکا کی رمزیت اور طریقہ اظہار پایا جاتا ہے وہ ’’قیدخانہ‘‘، ’’ہمارا کمرہ‘‘ اور ’’موت سے پہلے‘‘ ہیں جن میں کافکا کے افسانوں سے نہیں بلکہ The Castle اور The Trail سے مناسبت پائی جاتی ہے۔ فکشن میں رمزیت کے پیش رو اگرچہ امریکی ناول نگار ہرمن میل دل میں (موبی ڈک) جن کے لیے ساری دنیاہی ایک سمبل تھی لیکن جدید رمزیت کا سرچشمہ کافکا ہی سے پھوٹا ہے۔ کافکامیں ایک حقیقت نگار کے مشاہدے کی گہرائی اور باریک بینی بھی ہے اور ایک شاعر کی قوت تخیل بھی۔ وہ اشاریت کو ایک طرح کی الہامی بے خودی کی حدتک لے جاتا ہے جس میں تصورات ایسے ہوتے ہیں جو ظاہری حقیقت سے دور ہوتے ہوئے بھی ان چیزوں کی اندرونی تہوں اور ان کی اصلی فطرت کو ظاہر کرتے ہیں۔ ان میں ہمیں سطحی نہیں بلکہ عمیق گہری حقیقت ملتی ہے۔

    ’’کاسل‘‘ تک سفر کائنات کے اسرار و رموز کی کرب ناک جستجو بن جاتا ہے : ایک وجود مطلق کی جستجو: خدا اور انسان کے درمیان ایک صحیح رشتے کی جستجو: ایک صحیح طرز زندگی کی جستجو۔ کافکا کے ہاں تلاش کی ر اہیں بظاہر آسان ہونے کے باوجود اتنی دشوار گزار ہیں کہ انسان جیسے بھول بھلیوں میں کھوکر رہ جاتا ہے۔

    احمد علی کے ’’قیدخانہ‘‘ میں ایک انسانی روح جکڑی ہوئی ہے۔ ایک قید کے اندر دوسری قید: دائرے تنگ ہوتے جاتے ہیں : گھٹن بڑھتی جاتی ہے۔ حتی کہ انسان کا جسمانی وجود ہی ایک قید ہے۔ ’’قیدخانہ‘‘ میں احساس مجسم بن گیا ہے۔ اس افسانے کا کردار ہی ایک حساس آدمی کا ذہن ہے۔ اس احساس کے زیر اثر نہ صرف ذہن سوچتاہے اور آنکھ دیکھتی ہے بلکہ احساس جسم کے رگ و پے میں سرایت کرگیا ہے۔ ذہن، جسم و روح، سب اس کرب، گھٹن اور قید میں جکڑے ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔ اور ’’موت سے پہلے‘‘ ایک طرح کا بھیانک رمزیہ خواب ہے۔ اس میں The Trial کی کیفیت ہے۔

    کافکا کا ایک ’’ماورائے ادراک حقیقت‘‘ پر ایمان تھا۔ حقیقت۔ جس کی جستجو میں انسانی ذہن و روح بھٹکتے ہیں ایک لیکن جو انسان کی رسائی سے بہت دور ہے۔

    اسی حقیقت کی تلاش میں میل ول نے بحر بے کراں کی وسعتوں میں سفر کیا اور عمیق۔ وسیع و عریض سمندر کو گنج معانی اور ان رازہائے سربستہ کا سمبل بنایا جن کی تلاش میں انسانی عقل بھٹکتی پھرتی ہے۔ ’’موبی ڈک‘‘ کے کپتان (اہب) کو اس بحر بے کراں میں اتنی دور جانے کی سوجھی جہاں کسی اور سیاح کی رسائی نہ ہو۔ اور وہ ایک ناقابل شکست، ناقابل فہم، ایک Opaque دبیز سفیدی (جس کی سفید وہیل مچھلی سمبل ہے) سے ٹکراکر فناہوگیا۔ میل ول کی Prophecy میں ایک حقیقت مطلق کی جستجو اور زندگی کے معانی پانے کی کوشش انسان کو فناتک لے جاتی ہے۔

    اسی Fatalityکااحساس کافکا کے ہاں بھی ہے

    جہاں احمد علی کے ادبی مزاج نے کافکا کی گہری رمزیت میں یگانگت محسوس کی وہاں عزیز احمد نے ایملی زولا کی نیچریت اور غیرمشروط حقیقت نگاری میں کشش پائی۔

    مأخذ:

    سوغات،بنگلور (Pg. 348)

      • ناشر: مکتبہ سوغات، بنگلور
      • سن اشاعت: 1994

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے