Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

مصوری

MORE BYعبدالرحمٰن چغتائی

    مسلمانوں نے اصنام تراشی بلکہ ہر جاندار کی تصویر سازی سے احتراز کیا ہے لیکن مصوری کو انہوں نے ہمیشہ فرحت اور آسان طریقہ مفہوم کی ادائیگی کا ذریعہ تصور کیا ہے۔ اسی لیے نہ صرف مصوری کو اختصار سے، بلکہ اسے منتہائے کمال کو پہنچایا ہے۔ مسلمانوں کا نقطۂ نگاہ جمالیات تمام عالم سے ارفع و بالا رہا ہے۔

    مسلمانوں کے ابتدائی دور میں خلفائے بنو امیہ کے زمانے میں۔۔۔ فتوحات سے اسلامی سلطنت میں توسیع ہوئی۔ اس وقت خلیفہ عبدالملک بن مروان نے ساسانی اور بازنطینی پر اپنا سکہ جاری کیا، جس پر اس کی تصویر تھی، جو اس وقت مصلحتاً ضروری سمجھا گیا تھا۔ بقول ابن سعد صاحب طبقات قاضی شریع کی مہر پر دو شعر اور بیچ میں درخت منقش تھے۔ اس ابتدائی دور میں محض جمالیاتی طور پر فرحت اور مسرت حاصل کرنے کے لیے کپڑوں اور ظروف پر کئی قسم کے رنگوں سے نقاشی کی جاتی تھی۔ اس زمانہ کی نقاشی کے مطالعہ سے ہم آج اس زمانہ کے تمدن اور اطوارِ زندگی کا پتہ لگاتے ہیں۔

    مسلمانوں نے ان مصور اشیاء کی جمالیاتی خصوصیات کے لحاظ سے ان کے نام بھی وضع کیے۔ یعنی مرط مرحل اس چادر کو کہا جاتا تھا، جس پر مجمل اور آدمیوں کی تصاویر ہوں۔ شجراف و سجلاط وغیرہ ان چادروں کو کہا جاتا تھا، جن پر درختوں اور زیورات کی تصاویر ہوں۔ محلات کے نام بھی اس کی جمالیاتی کیفیات او رنقاشی کے اعتبار سے رکھے جاتے تھے۔ مسلمانوں نے شہر فزدین میں جب ابتدائی دور میں اول مسجد بنائی تو اس کے لیے ایسے ستون استعمال کیے جن کے سروں پر بیلوں کے نقوش تھے۔ اس کی جمالیاتی خصوصیت کی وجہ سے اس کا نام مسجدِ ثور یعنی بیلوں والی مسجد رکھ دیا تھا۔

    مسلمانوں نے ایسے حسین ماحول کے جمالیاتی اثرات کو پریشان دماغی کیفیات کاعلاج بھی تصور کیا ہے، جس کی اکثر تاریخی شہادتیں ملتی ہیں۔ مثال کے طور پر حکیم بدرالدین قاضی بعلبکی نے اپنی کتاب مفرح النفس میں بیان کیا ہے کہ تمام اطبا حکماء و فضلائے عصر کا اتفاق ہے کہ خوبصورت اور نازک صُوَر کے دیکھنے سے نفس کو ایک گونہ فرحت و مسرت حاصل ہوتی ہے اور ان سے امراض سوداویہ اور پریشان کن افکار دور ہوتے ہیں۔ اسی لیے مشرقِ وسطیٰ میں جب حمام بنائے گئے تو ان کی دیواروں کو نازک تصویروں سے مصور کیا جاتا تھا۔ مثلاً ان حماموں کی دیواروں پر عشقیہ نظاروں، حسین تصویروں اور وحوش کے شکار کے مناظر ہوتے تھے۔

    حکیم رازی نے لکھا ہے کہ مصور شکلوں میں تناسب اور مقدار کو ملحوظ رکھ کر دیدہ زیب رنگوں مثلاً سرخ، سبز، زرد اور سفید کے ساتھ مصور کیا جائے تو یقینی طور پر مفید ثابت ہوں گی اورتمام ہموم و غموم کو دور کریں گی اور خوشی کا سامان پیدا کریں گی۔ کیونکہ نفس انسانی اس قسم کے صورِ حسینہ کو دیکھ کر بہرہ اندوز ہوتاہے۔

    ہماری جمالیاتی تاریخ ِمصوری بہت دلچسپ ہے اور ہماری مصوری ہماری ثقافت کا بہت اہم باب ہے۔ ہم یہاں مختصر طور پر مصوری میں مسلمانوں کے بڑے بڑے کارنامے جمالیاتی طور پر بیان کرتے ہیں، جس کو عام طور پر یورپ میں آج مفتی انجینئر پنڈنگ کہاجاتا ہے۔

    مسلمانوں نے پہلی صدی ہجری میں تمام مشرقِ وسطیٰ، مشرقِ قریب اور وسط ایشیا کو فتح کرلیا تھا۔ مسلمانوں کی افواج کے امیر زیاد بن صالح نے جب سمرقند کو ۵۸ء میں فتح کیا تو اس لڑائی کے قیدیوں میں کچھ چینی قیدی بھی ہاتھ آئے، ان میں سے بعض کاغذ بنانا بھی جانتے تھے، جن سے یوسف بن عمرو عرب نے کاغذ بنانا سیکھا، جسے مکہ میں قرطاس سے تعبیر کیا گیا۔ اس وقت سے مسودات کو کاغذ پر لکھنا شروع کیا گیا۔

    یہ ظاہر ہے کہ سب سے پہلے مسلمانوں کے سامنے قرآنِ کریم کی حفاظت ان کا جزو ایمان تھا اور محض اسے لکھا ہی نہیں گیا بلکہ اس کو مُزَیّب و منقش کیا گیا جو مسلمانوں کے جذبہ مصوری کی بین شہادت ہے۔ چنانچہ ابن مریم نے جہاں ابتدائی رسماء الکتاب قرآنِ کریم کا ذکر کیا ہے، وہاں ان لوگوں کا بھی ذکر کیا ہے جو قرآنِ کریم کو زرفشاں کرتے تھے، جن میں سے ابراہیم الصغیر، ابوموسیٰ بن عمار القطنی، محمد بن محمد ابوعبداللہ الغزاعی وغیرہ کافی مشہور گزرے ہیں۔ ان میں سے اکثر حافظِ قرآن ہوتے تھے اورقرآن کو لکھنا سطلاً اور منقش اور مُذَہّب کرنا توشۂ آخرت تصور کرتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ وہ نہایت شوق اور دل و دماغ سے اس کام کو انجام دیتے تھے۔

    مسلمانوں نے جمالیاتی اعتبار سے اس قسم کے نقش و نگار میں ایک خاص امتیاز پیدا کیا ہے جسے آج متفقہ طور پر یورپ میں ارا بیک کہتے ہیں اور دنیائے مصوری میں ایک مسلمہ جدت خیال کی جاتی ہے۔ اسی زمانے کے ذرا بعد وہ زمانہ آیا کہ جب مسلمانوں نے اپنی علمی کتابوں کو مزید مفید بنانے کے لیے ان کو مصور کرنے کی طرف توجہ کی، کیونکہ اس کے بغیر ان کی تفہیم کسی قدر مشکل تھی۔

    اگرچہ تصویر کشی ایک غیراسلامی عمل ہے مگر محض اس کی ضرورت علمی میدان میں محسوس کرکے طب، جغرافیہ، قرآۃ، ریاضی، نجوم، جرثقیل، موسیقی کی کتابوں کو تصنیف کیا گیا اور اس کے ساتھ ان کے مخطوطے اعلیٰ فنِ مصوری اور جلد سازی سے تیار کیے گئے، جو بہت بڑاکارنامہ تھا۔ اگرچہ ہم اس عہد کی کسی کتاب کو، جو ان علوم سے تعلق رکھتی ہے، اٹھاکر دیکھیں تو عقل حیران رہ جاتی ہے کہ اس ابتدائی زمانے میں مسلمانوں نے اس فن کو کتنے عروج پر پہنچادیا تھا اور ان مخطوطات کی افادیت ایک مسلمہ کارنامہ شمار ہوتا ہے۔ کتابوں کے مصور صفحات کا نظارہ ان کی جمالیاتی قدر و قیمت کو چار چاندلگادیتا ہے۔

    طب عرب میں حسن بن اسحاق متوفی ۲۹۸ھ کی کتاب العین کے مصور نسخوں کا خاص طور پر ذکر کیا جاتا ہے، جو بہت اہم تصور کیے جاتے ہیں۔ اس طرح ہم فنِ شجاعت یا سپاہ گری میں کتاب الامتصق فی المجانین کے مصور نسخہ کو تاریخی اہمیت حاصل ہے۔ ان دو مثالوں سے یہ ثابت کرنا ہے کہ ایسی علمی کتابوں کی افادیت کو مزید مفید اور اہم بنانے کے لیے ان کا مصور کرنا لازمی ہی نہیں بلکہ ان کو بغیر تصویر کے سمجھنا بھی دشوار ہے۔

    ادب و قصص کی کتب کی تصاویر کا سلسلہ یوں تو ابتدائی اسلامی عہد میں شروع ہوگیا تھا مگر ان کے قدیم ترین نسخے، جو ہمیں ملتے ہیں وہ زیادہ تر چھٹی اور ساتویں صدی ہجری کے ہیں۔ اتفاق سے قابوس نامہ کا مصور نسخہ امریکہ میں ایک پرانی اشیا کے تاجر کے ذریعہ حال ہی ملا ہے، جسے راقم نے بھی دیکھا ہے۔ در اصل قابوس بن دشمگیر نے دسویں صدی عیسوی میں اسے بطور پندو رنصائح لکھا تھا مگر مصور نسخے کے متعلق مختلف آراہیں کہ آیا یہ مصور نسخہ صحیح ہے یا جعلی ہے۔ اگرچہ ابھی تک زیادہ قیاس یہی ہے کہ یہ جعلی ہے۔ بہرحال یہ نسخہ ۴۱۳ھ کا لکھا ہوا ہے اور اس کی رنگین تصویریں قابل مطالعہ ہیں۔ میرے نزدیک یہ نسخہ ضرور مشکوک ہے۔

    بغداد میں عہد دولت عباسیہ میں علوم و فنون کو بہت فروغ ہوا تھا۔ یہاں الف لیلہ اور کلیلہ ودمنہ جیسے علمی اور ادبی شہ پارے بھی مصور کیے گئے تھے جو اس عہد کی یادگارسمجھے جاتے ہیں۔ البتہ کلیلہ ود منہ کے مصور نسخے اب نہیں ملتے ہیں۔ خدیویہہ۔ کتب خانۂ مصر میں عربی کی مشہور کتاب آغانی کا مصور نسخہ بھی موجود ہے، جس کے جمالیاتی حسن سے عربوں کی ثقافت اور فن کا عروج نظر آتا ہے۔ حسنِ اتفاق سے میونخ جرمنی کی نمائش ۱۹۱۴ءمیں چند اوراق الف لیلیٰ کے بھی رکھے گئے تھے، جن میں اس گھڑی کانقشہ تھا جسے ہارون رشید نے چارلس پنجم کو تحفتاً ارسال کیا تھا۔ اوراق میں اس زمانے کے بازاروں کے مناظر اور بعض علم موسیقی سے متعلق بہت اہم یادداشتیں تھیں۔

    چونکہ عام طور پر کلیلہ دمنہ کو ہندی الاصل کتاب ہتھوپدیش کاچربہ شمار کیا جاتاہے، جو عبداللہ بن مقفع کی کاوش کا نتیجہ ہے۔ اسے مصور کرنے کی طرف بہت توجہ کی گئی تھی۔ اس کاایک نسخہ نمائش ۱۹۱۴ء میں پیرس میں آیا تھا۔ جو ۶۳۲ھ کا لکھا ہوا تھا جس میں یہی تصاویر بھی تھیں۔ مگر ان کے مطالعہ سے معلوم ہوا کہ یہ زیادہ عراقی دبستانِ مصوری سے تعلق رکھتی تھیں۔ ایک اور مصور نسخہ پیرس میں ۷۳۳ھ کا لکھا ہوا معلوم ہوتا تھا، جو بغداد میں لکھا گیا تھا مگر اسی عہد میں مقاماتِ حریری کے مصور نسخے تیار ہوئے کیونکہ مدارس اسلامیہ میں یہ کتابیں باقاعدہ پڑھاتی جاتی تھیں اور اس طرح قدرے سریع الفہم تصور کی جاتی تھیں۔ انسان ان کتابوں میں جمالیاتی صورت سے بھی خوب حظ اٹھاسکتا تھا۔

    چنانچہ ان کتب کے کافی مصور نسخے یورپ کے کتب خانوں مثلاً برٹش میوزم لنڈن، کتب خانہ ملی پیرس اور وائنا میں موجود ہیں جنہیں راقم نے بھی دیکھا ہے۔ پیرس کانسخہ بھی امین محمود الوسطی نے مصور لکھ کر ۶۳۴ھ میں تیار کیا تھا مگر لنڈن کا نسخہ جو ۷۲۳ھ کا لکھا ہوا ہے اسے ابوالفضل بن ابی اسحاق نے مصور کیا ہے۔ یہ تینوں نسخے خالصاً عراقی دبستانِ مصوری سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان پر کسی قسم کا چینی یا ایرانی اثر نہیں ہے۔ اسی طرح مصور نسخہ مجمع التواریخ رشید الدین کا اڈنبرا یونیورسٹی کتب خانے میں ہے، جو ۷۵۵ھ کا لکھا ہوا ہے، اس میں کافی تصاویر ہیں مگر اسی تاریخ کے مصور نسخے جن کو کسی قدر اس نسخہ کا حصہ تصور کرنا چاہیے، ہند میں کتب خانہ بنگال ایشیاٹک سوسائٹی اور رام پور کے کتب خانے میں ہیں، جن کو راقم نے بھی دیکھا ہے۔

    ان میں واضح طور پر وسط ایشیائی ماحول ہے۔ اسی لیے ہم ان کی مصوری کو وسطِ ایشیائی دبستان کی مصوری کے نام سے تعبیر کرتے ہیں اور ان تصاویر پر کسی قدر چینی مصوری کے اثرات بھی ہیں۔ وسطِ ایشیاء میں فردوسی کے شاہنامہ نے اسلامی مصوری میں ایک نیا رزمیہ رنگ پیدا کردیا تھا، اس کو مصوروں نے ہر دور میں مصور کیا ہے۔ یہ کتاب جو سلطان محمود غزنوی کے عہد کاایک زرین علمی کارنامہ ہے، مصوروں کے لیے جو لانئ طبع کا مرکز رہاہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مصوروں کواس میں وہ واقعات ملے جس کے لیے مصور سہارا تلاش کرتا ہے کہ مصور کرنے میں سہولت ہو۔ اس میں بنے بنائے موضوعات ملتے ہیں۔ دوسرے یہ ایرانی ثقافت کا ایک بہترین نمونہ ہے یعنی ایرانی قوم کی یہ مصور تاریخ ہے۔

    یہ ماننا پڑے گا کہ مصوری کے معیار کے ساتھ ساتھ ہمارا جمالیاتی نقطۂ نگاہ بھی اسی طرح ترقی کرتا رہا۔ چنانچہ آٹھویں صدی ہجری کے اخیر میں، فنون میں کافی ترقی ہوچکی تھی اور خاص کرایرانی مصوری میں شاہنامۂ فردوسی کے علاوہ دوسرے مستند شعراکے کلام کو مصور کرنے کی طرف بھی مصوروں نے توجہ کی، جس میں نظامی کی کلیات، خواجہ کرمانی وغیرہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں، جن کو ایرانی مصوروں نے مصور کرکے جمالیاتی اعتبار سے دنیا میں مسلمانوں کا ایک خاص امتیاز قائم کردیا۔ ان میں ہم دیکھتے ہیں کہ درختوں، پہاڑوں اور قدرتی نظاروں کی تصاویر زیادہ نظر آتی ہیں یعنی وسطِ ایشیائی ماحول بدرجہ اتم نظر آتا ہے۔

    اس زمانے میں بغداد نقاشی کا مرکز نہیں رہا تھا اور تبریزو سمرقند وغیرہ کے علاقے زیادہ بڑے مرکز بن گئے تھے۔ تیموری فتوحات نے پھر ایک مرتبہ مرکزیت علوم و فنون کی سرپرستی کو سمرقند سے نکال کراس کے لڑکے شاہ رخ مرزاکے عہد سے شیراز اور بغداد میں ہرات کو لگادیے تھے۔ ہرات تیموری شاہزادگان کا آخیر تک دارالحکومت رہا۔یہاں مصوری میں ایسے کارنامے ظہور پذیر ہوئے، کہ دنیا ان کی مثال پیش نہیں کرسکتی۔ مگر پیشتر ہم اس عہد کے کارناموں کو بیان کریں، خواجہ کرمانی کے خاص نسخہ کلیات کا خاص ذکر کرنا مناسب ہوگا، جو اس وقت حسن اتفاق سے برٹش میوزیم لندن میں موجود ہے۔

    یہ نسخہ مشہور و معروف میر علی تبریزی کا ۷۹۸ھ میں لکھا ہواہے، جسے عام طور پر موجد خط نستعلیق بیان کیا جاتا ہے۔ یہ نسخہ جنید نقاش کامصور کیا ہوا ہے جو اپنے دستخط جنید نقاش سلطانی کے الفاظ سے کرتا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ بغداد میں جلائر سلطان احمد کے دربار میں تھا۔ یہ نقاش استاد شمس الدین کا قلم بند تھا جو سلطان عواض جلائر کے ہاں مصور تھا۔ اس کاایک اور قلم بند استاد عبدالحئی تھا۔ اس کے عہد کے مصوری کے نمونوں کی جمالیاتی کیفیت ان کے رنگوں، لباسوں کے اقسام ہیں مگر درودیوار کی آرائش سے واضح ہے۔ مثلاً ہم خواجہ ہمائے ہمایوں میں ایک شادی کانظارہ مشاہدہ کرتے ہیں اور ہم مکمل طور پر شاہی جاہ و جلال و رنگ رلیاں ان تمام تصاویر میں اعلیٰ پایہ کے نقش و نگار پاتے ہیں جو اس زمانے کی ثقافت کا زندہ ثبوت ہے۔ ان شکلوں میں حسن ترتیب، یکساں نظر اور اسٹیج کی سرگرمیوں میں ایرانی ذوق و ارتقائی فن کی خصوصیتیں نظر آتی ہیں۔

    اوپر بیان کرچکے ہیں کہ ہرات کوزمانہ مصوری میں مرکزیت کادرجہ حاصل ہوگیا تھا۔ ۸۷۶ھ میں تیمور کے گھرانے سے سلطان حسین باتقد تخت نشین ہوا۔ میر علی شبیر لوائی جیسا علوم و فنون کا سرپرست اس کا وزیر اعلیٰ تھا۔ اس کے دربار میں مولانا نورالدین، عبدالرحمن جامی جیسے شاعر۔ مولاناتبائی جیسے ماہر فن، مولانا سلطان علی مشہدی قبلۃ الکتاب جیسے کاتب اور استاد کمال الدین بہزاد جیسے مصور تھے۔ جمع جمع تاریخ میں ایسی ماہر اوراپنے اپنے فن کی امام ہستیاں ایک جگہ جمع نہیں ہوئی تھیں۔ ان یگانہ روز گار فاضلوں نے ایک دوسرے کے تعاون سے وہ کارنامے انجام دیے جو تاریخ علوم و فنون میں ہمیشہ یادگار رہیں گے۔ بہزاد نے زمانہ طفولیت میں استاد سید روح اللہ میرک نقاشی سے تعلیم حاصل کی جو مولانا وحی اللہ کا تلمیذ خاص تھا۔ وہ ۸۴۴ھ میں ہرات میں ہی پیدا ہوا تھا اور وہیں پرورش پائی۔ ابھی تک ایرانی مصوری میں چینی اثرات موجود تھے مگر بہزاد ہی ایک ایسا مصور گزرا ہے جس نے اس اثر کو ختم کرکے ایرانی مصوری کو خالصتاً مقامی کردیا۔

    بہزاد اور اس کے تلامذہ نے جن میں آقا ہرک قاسم علی، رستم علی وغیرہ قابل ذکر ہیں، ایک نیا دبستاں ایرانی مصوری کاقائم کیا۔ بہزاد کے کارناموں میں بے شمار اس قابل ہیں کہ ان کو الگ الگ بلااستعجاب بیان کیا جائے مگر میں یہاں محض گلستانِ سعدی کے نسخہ پر اکتفا کرتاہوں جو حسن اتفاق سے دارالکتب مصریہ میں موجود ہے، جسے راقم نے سال گزشتہ مصر میں دیکھا تھا۔ اسے سلطان علی نے لکھا تھا اور شمس الدین کاتب نے مکمل کیا تھا اور بہزاد نے خود تمام تصاویر اس کی بنائی تھیں۔

    ان تصاویر میں بہزادنے یوسف زلیخا کے مشہور واقعہ کو مصور کیا ہے۔ بہزاد کی اس تصویر کا مشاہدہ واضح کرتا ہے کہ بہزادنے محل کے تمام پردوں اوردریچوں کو اس طرح مصور کیا ہے کہ ہر حصہ الگ الگ نظر آتا ہے اور پھر اس میں دو نفس ہی روما پھرتے نظر آتے ہیں۔عام طور پر یہ مشرقی مصوری پر اعتراض کیا جاتا ہے کہ اس میں یورپی مصوری کی طرح جسامت واضح نہیں ہوسکتی لیکن اس تصویر میں جسامت بالکل واضح ہے۔ اسی طرح بہزادنے دو اونٹوں کو آپس میں لڑتے دکھاکر اونٹ کی خصلت کو واضح کیا ہے۔

    سلطان حسین بائقرا کے حنفیوں کادور دورہ ہوا اور حکومت کا مرکز ہرات سے نکل کر تبریز ہوگیا۔ حنفیوں نے بھی علوم و فنون کی قدردانی میں بڑے بڑے کارنامے انجام دیے۔ اسمٰعیل صوفی بہزاد کو تبریز ہمراہ لے گیا اور وہاں اسے کتب خانہ کامہتمم مقرر کیا اور تمام مصوروں کو اس کے ماتحت کردیا۔ بہزاد کا طویل عمر قریب سو سال میں ۹۴۲ھ میں انتقال ہوا۔ اس کی تاریخ وفات خاک قبر بہزاد سے نکلتی ہے۔ اس کی وفات کے وقت ایرانی مصوری اپنے عروج پر تھی۔ اس کا سہرا بہزاد کے سر ہے۔

    اسی زمانے میں فرغانہ میں ظہیر الدین بابر تیمور کے خاندان سے منصہ شہود پر آیا اور حالات سے مجبور ہوکر اس نے ہند کارخ کیا، جہاں اس نے ۹۳۴ھ میں ابراہیم لودھی کو پانی پت کے میدان میں شکست فاش دی اور سلطنت مغلیہ کی بنیاد رکھی۔ بابر بادشاہ جس قدر سپاہی تھا، اسی قدر علوم سے بھی بہرہ ور تھا۔ چنانچہ اس نے اپنے حالات خود صورت توز کی قلم بند کیے، جس کا ایک نسخہ ۹۳۷ھ میں مکمل ہوا، اسی سال اس کاانتقال ہوا اور اس کا لڑکا نصیر الدین ہمایوں اس کاجانشین ہوا۔ توزک کا یہ مکمل نسخہ جو اس وقت تیار ہوا، اسے مصور کیا گیا، جو حسن اتفاق سے الور ریاست میں موجود ہے۔

    اس کے بعد ہمایوں کو بھی حالات سے تنگ آکر ایران کا راستہ اختیار کرنا پڑا، جہاں اس نے شاہ طہماسپ صفوی کے دربار میں پہنچ کر اپنی عسرت کے ایام کاٹے۔ جب قسمت نے یاوری کی تو وہ ایران سے اپنے ہمراہ فنکاروں کو لے کر داردِ ہند ہوا، جن میں قابل ذکر خواجہ عبدالصمد شیریں قلم، میر سید علی تبریزی وغیرہ ہیں، جنہوں نے بہزاد کی روایات پر چل کر مصوری میں کمال پیدا کیا تھا۔ اس کا سب سے بڑا کارنامہ داستان امیر حمزہ کو مصور کرنا تھا۔ ہمایوں نے اس سے خود بھی مصوری سیکھی تھی۔ اپنے لڑکے اکبر کے لیے مصوری کی تعلیم پر مامور کیا تھا۔ ہمایوں کے بعد کچھ اور عرصہ زندہ رہتا مگر اس کالڑکاجلال الدین اکبر ہی ۹۲۳ھ میں باپ کاجانشین ہوا۔

    اکبر کی عمر ابھی قریب چودہ برس کی تھی کہ تیموری تاج اس کے سرپر رکھا گیا۔اس کے اتالیق منعم خاں اور بیرم خاں تھے۔ اس کی عملداری کو مضبوط کرنے کی طرف توجہ کی۔اگر یہ لوگ نہ ہوتے تو اکبر کے نازک شانے تنہا حکومت کے بارگراں کو نہ اٹھا سکتے۔ انہوں نے اپنے آقا کی ذمہ داریوں کو اپنے سر لے لیا۔ اکبر نے ابتدائی مہموں سے فرصت حاصل کرکے فوراً علوم و فنون کی طرف توجہ کی۔ بچپن ہی سے اسے مصوری اور قصے سننے کی طرف رغبت تھی۔ اور میر سید علی تبریزی اور خواجہ عبدالصمد شیریں قلم برابر اپنا کام کر رہے تھے۔ اگرچہ وہ ابتدا میں کچھ ملول تھے مگر نوجوان بادشاہ کو ان کے فن سے دلچسپی نے ان کی ہمتیں بڑھادیں۔ انہوں نے بڑی گرم جوشی سے داستان امیرحمزہ کو مصور کیا، جس کی پوری تفصیل اس عہد کی تاریخ میں ملتی ہے۔ بلکہ اکبر کی اکیڈمی مصوری میں ان دو ایرانی مصوروں کے علاوہ کئی ہندو مصور بھی بطور ملمیذ شریک ہوئے۔

    اکبر کو جمالیاتی کیفیات کاصحیح اندازہ کرنے اور ان سے حظ اٹھانے میں قدرت نے کامل طور پر ملکہ عطا کیا تھا اور دینی معاملات اور ملکی مصلحتوں کی بنا پر نہایت درجہ وسیع۔ اس نے اپنے اس رویہ سے ہر فرقہ کو اپنی کم عمری سے مسخر کرلیا تھا اور خاص کر راجپوتوں کو قرب حاصل ہوا۔ آرٹ اکیڈمی میں سب قسم کے لوگ مل کر کام کرتے تھے۔ ابوالفضل نے ایک ہندو مصور کے متعلق لکھا ہے کہ وہ ایک کہار کالڑکاتھا۔ اکبرؔ نے اپنی دور رس جمالیاتی نگاہ سے اس کو دیکھا، جب کہ وہ ابھی کمسن بچہ ہی تھا اور ایک دیوار نقش و نگار کر رہاتھا، جیسا عام طور پر بچے تیار کرتے ہیں لیکن اکبر کی مردم شناسی تاڑ گئی کہ اس لڑکے میں اعلیٰ مصور بننے کے جوہر موجود ہیں۔

    چنانچہ اس نے اسے خواجہ عبدالصمد کے سپرد کیا تو اس کی تعلیم سے وہ بے مثال مصور نکلامگر وہ اپنے فطری جذبہ مصوری میں اس قدر پیش پیش آیا کہ وہ نوجوانی ہی میں دماغی توازن کھو کر ختم ہوگیا۔ اس کے کارنامے بجائے خود اس کے اعلیٰ فنکار ہونے کا پتہ دیتے ہیں۔ اکبر کو مصوری کااس قدر شوق تھا کہ اس نے فتح پور سیکری میں دیواروں پر ان مصوروں سے تصاویر بنوائیں، جن کے نشان آج تک باقی ہیں اور اکبر مصوری کے جمالیاتی پہلو سے اس قدر متاثر ہوا کہ دلائل کے ذریعہ ہمیشہ یہ بات ثابت کرنے کی کوشش کیا کرتاتھاکہ مصوری اسلام کی تعلیم کے خلاف نہیں ہے بلکہ معرفت الٰہی حاصل کرنے کے جہاں اور دوسرے طریقے ہیں وہاں ایک یہ بھی ہے۔

    چنانچہ ایک مرتبہ اس نے جب کہ سعادت مند لوگ انجمن خاص میں موجود تھے، فرمایا کہ بہت سے لوگ مصوری کے پیشے کو برابتلاتے ہیں، مجھے یہ گوارا نہیں، میرے خیال میں مصور خدا شناسی میں دوسروں سے بڑھ کر ہے۔ جب وہ کبھی جانور کی تصویر بناتا ہے اور حصے کو الگ الگ کھینچتا ہے مگر روح اور جسم میں رابطہ پیدا کرنے سے عاجز ہے تو وہ خالق حقیقی کی طرف متوجہ ہوتاہے اور اپنے عجز سے معرفت الٰہی حاصل کرتاہے۔ یعنی اللہ کوہی واحد خالق سمجھنے کاایک ذریعہ ہے۔

    اکبر نے اپنی سرپرستی میں علاوہ داستان امیرحمزہ کے سنسکرت کتابوں کے فارسی میں ترجمے کراکر ان کو مصور بھی کرایا جس کے اکثر مصور نسخے آج بھی ملتے ہیں۔ اور دیگر کتب بابر نامہ، انوار سہیلی وغیرہ جیسی کتابوں کو مصور کرایا۔ اس عہد کے امراء میں عبدالرحیم خان خاناں خاص طور پرقابل ذکر ہے جس نے اپنے ہاں الگ ایک شعبہ قلمی اور مصور کتابوں کے تیار کرنے کاقائم کیا ہواتھا اور اکثر فن کار اس کے ہاں کام کرتے تھے، جن میں میاں قدیم اور عبدالرحیم عنبرین قلم قابل ذکر ہیں۔

    اکبر کے بعد اس کے بیٹے جہانگیر کے ہاتھ زمام حکومت آئی۔ وہ بچپن سے علم و فن کی گود میں پلاتھا اور شہزادگی کے زمانہ ہی سے اسے مصوری کاشوق تھا۔ آغا رضا ہراتی اس کی خدمت میں ہر وقت حاضر رہتاتھا۔ جہانگیر حسن پرست تھا اور خوبی و زیبائی کاسچا قدر دان۔ وہ تصویر بنانا نہیں جانتا تھا لیکن جمالیاتی اعتبار سے بہت بڑا نقاد فن اور اچھے برے کو فنی اعتبار سے خوب پرکھتا تھا۔ اس کی عبارت اور نظر کایہ عالم تھا کہ اگر کوئی تصویر متعدد درباری مصور بنائیں تو وہ بتلاسکتا تھاکہ کون سا حصہ کس کے ہاتھ کا بنا ہوا ہے۔ اس نے تزک میں اسے وضاحت سے خود بیان کردیا ہے۔

    ایرانی دبستان مصوری سے کافی رغبت تھی اور اس نے وہاں کی اکثر تصاویر کو بہت پسند کیا بلکہ ان کی نقول بھی بنوائیں۔ ایک مرتبہ اس نے اپنے ایک مصور بشن داس کو سفیر خان عالی کے ہمراہ ایران روانہ کیا جو وہاں سے کافی معلومات حاصل کرکے آیا۔ جہانگیر نے اپنے درباری مصوروں کو ان کے اعلیٰ نمونوں سے متاثر ہوکر خطاب بھی دیے۔چنانچہ اس نے ابوالحسن سید آغا رضا کو نادر الزماں کاخطاب اور ایک مصور کوجو عام طور پر جانوروں کی تصویر بنانے میں یدطولےٰ رکھتا تھا، نادر العصر کاخطاب عطا کیا۔ مگر اس کے دربارمیں فرخ بیگ قلماق، نادر سمرقندی، محمد مراد، ہاشم اور منوہر جیسے بہت اعلیٰ کام کرتے تھے اور اکثران کو انعام و اکرام سے عزت اور حوصلہ افزائی کرتا تھا اور وہ بھی خوب عمدگی سے اپنے آقا کے اشارے پر اس کی مرضی کے مطابق تصویر بناتے تھے۔اس زمانے کی مصوری میں ہمیں رومانیت زیادہ نظر آتی ہے اور قدرتی مناظر کی طرف بھی رجحان نظر آتا ہے۔

    جہانگیر کے مرقع کا عام طور پر ذکر کیا جاتا ہے، جس کا بیشتر حصہ برلن میں اور پونہ کے ایک پارسی امیر کبیر مسٹر اردیشمر کے پاس راقم نے دیکھا ہے اور اس عہد میں تشبیہات امراء کی طرف یعنی آخیر توجہ مبذول ہوئی تھی، جس کاارتقا بدرجہ اتم شاہجہاں کے عہد میں ہوا۔ مگر ہمیں یہ ضرور بیان کرنا ہوگا کہ جہانگیر کواہل فرنگ کی مصوری سے بھی دلچسپی تھی، جس کا ذکر ہمیں اس عہد کے برطانوی سفیر سرٹامس رو کے بیان میں ملتا ہے کہ اس نے کس طرح جہانگیر کو اس کی خدمت میں پیش کیا، جنہیں اس کے اپنے درباری مصوروں نے تصاویر بنائیں، جس کی مثال ہمیں لاہور کے قلعہ کی شمالی دیوار کی کاشی کارمیں نظر آتی ہے۔

    غرض یہ کہ اکبر اور جہانگیر کے عہد کی مصوری میں وہی فرق ہے جو ان دونوں کے حالات اور ان کی سیرت میں ہے۔ مگر جہانگیر کے بعد شاہجہاں کازمانہ سطنت مغلیہ کی انتہائی اقبال مندی اور عروج کاعہد تھا۔ اسے اپنے باپ دادا کی طرح فنون لطیفہ سے جو خاص لگاؤ تھا، اس کا مظاہرہ میں تعمیر سے عیاں ہے اور اس نے تاج محل جیسا وہ شاہکار پیدا کیاکہ دنیا کے سات عجائبات میں شمار ہوتا ہے۔ وہ نہایت عمدگی سے اکبر اور جہانگیر کا زمانہ دیکھے ہوئے تھا اور پھر منوہر اور سمرقندی، انوپ چتر ہاشم جیسے باکمال مصور موجود تھے۔ اسے زیادہ تر فطرت نگاری کے علاوہ شعبدہ کاری کا زیادہ شوق تھا۔ان مصوروں نے مرقع تیار کیے۔ ان میں ان کے اپنے امرا کی شبیہیں ممتاز حیثیت رکھتی ہیں۔ چنانچہ شاہجہاں کے عہد تصاویر میں سے اس کی تاج پوشی، درباری امراء کاپیش ہونا بہت اہمیت رکھتی ہیں۔

    غرض یہ کہ اس عہد کی مصوری سے ہم اس عہد کی پوری جمالیاتی کیفیت کااندازہ کرسکتے ہیں۔ اس کے لڑکے داراشکوہ کو بھی مصوری سے خاص رغبت تھی۔وہ اکبر کی طرح مذہب و سیاست، علم و حکمت اور فنون معارج غرض کہ زندگی کے شعبوں میں امتزاجی رجحانات کا حساس تھا، جو سب جمالیاتی کیفیات سے وابستہ تھے۔ ان کی اس خوش مذاقی کا ثبوت اس مرقع سے ہے جو انڈیا آفس لندن میں اس کے نام سے موجود ہے، جسے اس نے اپنی چہیتی بیوی نادرہ بیگم کو مرحمت کیا تھا مگرقدت کو منظور نہ تھا کہ شاہجہاں کا یہ سب سے بڑا لڑکا داراشکوہ اس کاجانشین ہو۔ چنانچہ حالات کے اعتبار سے اورنگ زیب کامیاب ہوا اور تخت و تاج کامالک بنا جسے مصوری سے مطلق شوق نہ تھا۔

    البتہ اس نے سیاسی طور پر بعض درباری مصوروں سے ضروری مشبہات کو بنواکر حالات کاجائزہ لیا، جن میں اس کااپنا لڑکا محمد سلطان بھی شامل ہے۔ غرض کہ مصوری کایہ بھی ایک جمالیاتی پہلو ہے۔ اس نے خطاطی میں بھی کمال پیدا کیااور فن تعمیر میں لاہور جیسی مسجد کو بنواکر جو دنیا میں سب سے بڑی مسجد ہے، نام پایا۔ بلکہ یوں کہنا بجا ہوگا کہ اورنگ زیب کے عہد میں فنونِ لطیفہ کو درباری قیود سے آزادی حاصل ہوگئی تھی اور لوگ اپنے اپنے نہج پر کام کرنے لگے۔ یعنی فنون امیرانہ ماحول سے نکل کر شخصی اقتدار یعنی جمہوریت کے رنگ میں آگئے اور اورنگ زیب کے بعد فن مصوری نے بالکل اورصورت اختیار کرلی مگر فنیت کی حد تک اس میں کوئی فرق نہیں آیا۔

    مأخذ:

    Saba Jild-59 (Pg. 5)

      • ناشر: مسعود احمد دہلوی
      • سن اشاعت: 1959

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے