معاصر تاریخ اور ادبی بیانیہ: ”جہاں آباد کی گلیاں“ میں تاریخی شعور کا جائزہ

معاصر تاریخ اور ادبی بیانیہ: ”جہاں آباد کی گلیاں“ میں تاریخی شعور کا جائزہ
علی حسن اویس
MORE BYعلی حسن اویس
تاریخ وقت کی گنتی اور واقعات کے ریکارڈ کا نام نہیں ہے، بلکہ یہ نام ہے ان سوالات کا جو واقعات کے نتائج سے جنم لیتے ہیں۔ تاریخ ایک ہی وقت میں دو قوموں کے لیے مختلف ہو سکتی ہے۔ وقت کا زمانی دھارا آنے والے وقت کے دھارے میں شامل ہوتا ہے۔ وقت ایک بہتا دریا ہے جس میں ماضی کے فراموش کیے جا چکے قصے بھی شامل ہیں، حال میں گزرتی کہانیاں بھی اور آنے والے کل میں برآمد ہونے والے نتائج بھی پوشیدہ ہیں۔ تاریخ قوموں کے اجتماعی عمل کی یادداشت کا نام ہے، جس کی بنیاد پر قومیں اپنا محاسبہ کرتی ہیں، احتساب کے عمل سے گزرتی ہیں اور اپنی کارکردگی کا موازنہ اپنے رفتگاں سے کرتے ہوئے نتائج کو تبدیل کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ ماضی سے حال کا موازنہ کرتے ہوئے مستقبل کے ممکنہ نتائج کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
ہر عہد میں تاریخ کو کئی طرح کے مسائل کا سامنا رہا، جس سبب معروضی حقائق ہمیشہ نظروں سے اوجھل ہوتے رہے۔ پہلا بڑا مسئلہ یہ رہا کہ تاریخ ہمیشہ مؤرخ کے نقطہ نظر سے لکھی جاتی رہی۔ مؤرخ حقائق کی کھوج تو لگاتا ہے مگر وہ سماجی فرد بھی ہوتا ہے، اس کے مخصوص عقائد اور ذاتی پسند، ناپسند جیسے عناصر بھی کار فرما ہوتے ہیں۔ دوسری طرف صاحبِ اقتدار تاریخی حقائق کو مسخ کرنے میں پیش پیش ہوتے ہیں۔ وہ کسی ایسے واقعے کو تاریخ کا حصہ نہیں بننے دیتے جس میں ان کا کردار ہیرو کا نہ ہو۔ اس لیے کہا جاتا ہے کہ تاریخ ہمیشہ فاتح کے قلم سے لکھی جاتی ہے۔
ایک تاریخ وہ بھی ہوتی ہے جو لکھی تو نہیں جاتی مگر سینہ بہ سینہ سفر کرتی ہے۔ ماضی کے حقائق کی تلاش کرنے والا مؤرخ ان عوامی آوازوں سے رجوع کرتا ہے تاکہ وہ ان حقائق تک پہنچ سکے جو فراموش کر دیے گئے۔ مگر یہاں یہ مسئلہ درپیش ہوتا ہے کہ عوامی آواز کو تو دبایا جاتا رہا اور بولنے پر پابندیاں عائد کی جاتی رہیں۔ اس صورتِ حال میں مؤرخ حقائق تک کیوں کر پہنچے۔
یہی وہ پُراسرار عمل ہے جو تاریخی صداقت کو منظر عام پر لا سکتا ہے۔ ہوتا یہ ہے کہ جو آوازیں دبا دی جاتی ہیں وہ فنونِ لطیفہ خصوصاً ادب مثلاً شاعری، افسانہ، ناول اور ڈرامہ وغیرہ کی صورت سامنے آتی ہیں۔ ان آوازوں کو مکمل طور پر قبول کرنا تو مشکل ہوتا ہے اور نہ ہی یہ آوازیں تاریخی حقائق پر صد فیصد پورا اترتی ہیں۔ کیونکہ لکھاری کا اپنا ایک خاص سماجی، ثقافتی اور مذہبی پس منظر ہوتا ہے۔ مگر اس کے باوجود یہ آوازیں اس حوالے سے اہم قرار پاتی ہیں کہ بہت جلد عوام کے دلوں میں گھر کر جاتی ہیں اور جو بات عوام کے دل میں اتر جائے، وہ بھی تاریخی صداقت کا درجہ رکھتی ہے۔
تاریخی شعور ماضی کے واقعات کی بازگشت سننے کا نام نہیں ہے اور نہ ہی اس کا یہ معنی ہے کہ ہمیں ”ماضی پن“ کا احساس ہو۔ بلکہ اس کے معانی ماضی کے منظر نامے کو حال میں بنتے بگڑتے محسوس کرنے کے ہیں۔ ٹی ایس ایلیٹ(1888ء-1965ء)نے تاریخی شعور کی یہ تعریف کی ہے کہ، ”تاریخی شعور کا معنی یہ ہے کہ ماضی کو حال میں زندہ دیکھا جائے۔“ 1 یعنی اگر کوئی فن پارہ کسی تاریخی منظرنامے کے تناظر میں لکھا گیا ہے تو محض واقعات کو بیان کر دینا کافی نہیں بلکہ ان واقعات کو ایسے پیش کرنا کہ قاری تحریر پڑھتے ہوئے اس منظرنامے کو اپنی آنکھوں کے سامنے رونما ہوتا ہوا محسوس کرے۔ تاریخی شعور کا ایک معنی یہ بھی ہے کہ ماضی میں جو واقعات رونما ہوئے، موجودہ عہد میں ایسی کون سی تبدیلیاں ہیں جو ان واقعات کے باعث وجود میں آئیں اور ان واقعات کی مستقبل میں کیا معنویت ہوگی۔ اس کا یہ مطلب ہے کہ ماضی فنا نہیں ہوتا بلکہ وہ بیک وقت لمحہء موجود اور مستقبل میں موجود ہوتا ہے اور جگہ جگہ اپنی موجودگی کا احساس دلاتا رہتا ہے۔ اردو میں ایسے ناولوں کی فہرست کافی طویل ہے جنہیں تاریخی شعور کے حوالے سے موضوع بنایا جا سکتا ہے۔
اصغر ندیم سید کے ہاں تاریخ مسلسل حرکت کا نام ہے، اسے فنا نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی زیادہ دیر اسے پسِ پردہ رکھا جا سکتا ہے۔ تاریخ انسانوں کے اندر اتر جاتی ہے اور ان کی ذات کا حصہ بن کے کر ان کے ساتھ سفر کرتی ہے۔ تاریخ بڑی کٹھور ہوتی ہے جو ہزاروں سالوں بعد بھی اپنا انتقام لینا نہیں بھولتی۔
ناول ”جہاں آباد کی گلیاں“ کا پہلا بڑا تاریخی حوالہ ضیاء الحق کا مارشل لاء ہے۔ باقی تمام موضوعات اسی کے گرد گھومتے ہیں۔ ناول میں ماضی اور حال باہم یکجا ہو کر مستقبل کی خبر دینے لگتے ہیں۔ تاریخی شعور کا بھی یہی مطلب ہے کہ ماضی اور حال کے درمیان وقت کی حائل دیوار گر جائے اور ماضی حال میں گزرتا محسوس ہو۔ ناول پڑھتے ہوئے قاری کہیں کہیں اچانک چونک اٹھتا ہے کہ کیا یہ ناول کا مرکزی کردار ہے جس پر تمام واقعات گزر رہے ہیں یا اس نے مرکزی کردار کا روپ دھار لیا ہے اور تمام واقعات کا براہ راست تجربہ کر رہا ہے۔
تاریخی ناول کی اصل خاصیت یہ ہوتی ہے کہ تاریخی واقعات کی کہانی سنانے کے بجائے اس کو دکھایا گیا ہو اور بنتی بگڑتی تاریخ ناول میں پیش کی گئی ہو۔ ناول نگار براہ راست تاریخ کو دیکھنے کے بجائے کرداروں سے اسے پیوست کر کے ان کے اعمال سے تاریخی حقیقت کو ابھارے۔ اس حوالے سے جب ”جہاں آباد کی گلیاں“ کو دیکھا جائے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ کہانی براہ راست بتائی جا رہی ہے۔ یہ مسئلہ اس وجہ سے ہے کہ کہانی کا narrator متکلم ہے۔ یوں یہ محسوس ہوتا ہے کہ متکلم کردار کے پردے میں ناول نگار خود بیٹھا، کہانی سنانے میں مگن ہے۔ مگر جب مجموعی طور پر ناول کے تمام کرداروں کا احاطہ کیا جائے تو وہ تاریخ کے ایک ایسے دھارے میں بہتے نظر آتے ہیں جس کی کوئی منزل ہے اور نہ کوئی متعین راستہ۔ اس مقام پر ناول کی پرتیں کھلنا شروع ہوتی ہیں۔ متکلم کردار اور ناول نگار میں حد فاضل کھینچتے ہوئے ناول اپنی رمزیت بیان کرنا شروع کرتا ہے۔
ناول کا آغاز تین اپریل 1978ء کی ایک بوجھل شام سے پاکستان کی تاریخ کے ایسے باب سے ہوتا ہے جس نے نو آبادیاتی عہد کی ایک نئی شکل پیش کرنا تھی۔ ناول اور تاریخ دونوں الگ الگ چیزیں ہیں، جب ناول میں تاریخی مواد شامل کیا جاتا ہے تو ناول کی فارم کی مناسبت سے اس میں کئی طرح کے رد و بدل کرنا ضروری ہوتے ہیں۔ مگر جب تمام واقعات اور کردار حقیقی ہوں تو دن اور سن کو بھی حقیقی ہونا چاہیے۔ اصغر ندیم سید نے ذوالفقار علی بھٹو(1928ء-1979ء) کی پھانسی سے ناول کا آغاز کیا ہے، مگر جو دن اور سن انہوں نے ناول میں استعمال کیا ہے اور جو دن اور سن بھٹو کی پھانسی کا ہے، اس میں پورے ایک سال کا فرق ہے اقتباس دیکھیے کہ،
”یہ تین اپریل 1978ء کی ایک اُداس شام تھی۔۔۔ ایک بزرگ نما شخص زور زور سے چیخ رہا تھا اور سر پر دوہتٹر مار کر بین کرتا جا رہا تھا
بھٹو کو پھانسی ہو گئی، بی بی سی کی خبر ہے، ظالموں نے بھٹو کو مار دیا۔“2
جبکہ جس روز بھٹو کو پھانسی ہوئی، تب تاریخ تھی چار اپریل اور سن تھا 1979ء۔ یہ ایک بہت بڑا خلا ہے جو کہ ناول کے آغاز ہی میں موجود ہے۔ اب بی بی سی کی اس حوالے سے خبر دیکھئے کہ،
”ملک کے پہلے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو چار اپریل 1979ء کو رات کے دوسرے پہر پھانسی دی گئی۔“3
اس وقت بھٹو کے بے شمار حامی موجود تھے مگر کسی نے بھی عملی سطح پر ان کو پھانسی سے بچانے کے لیے کوئی قدم نہ اٹھایا، محض عرب ممالک کی طرف دیکھتے رہے کہ وہ انہیں رات کی تاریکی میں جیل سے نکال اپنے ملک پہنچا دیں گے اور یوں وہ پھانسی سے بچ جائیں گے۔ یہاں ہماری اجتماعی تاریخ کا ایک اہم نکتہ بیان کیا گیا ہے کہ پاکستانی قوم عملی سطح پر متحرک ہونے کے بجائے، معجزوں کی تلاش میں رہتی ہے۔ یوں اسے ہمیشہ منہ کی کھانا پڑتی ہے اور ابدی شکست اس قوم کا مقدر بنتی ہے۔
”معجزوں کی تلاش میں ہماری قوم ہمیشہ کی طرح اسی انتظار میں تھی کہ کسی عرب ملک سے رات کو ہیلی کاپٹر اڈیالہ جیل کی چھت پر اترے گا اور بھٹو صاحب کو لے جائے گا یا جیل سے کوئی سرنگ راولپنڈی چک لالہ ایئرپورٹ پر نکلے گی اور ایک جہاز اسے لے کر روانہ ہو جائے گا۔ یا جیل کی دیوار شق ہو گی اور سفید لباسوں میں فرشتے اسے لے کر سعودی عرب روانہ ہو جائیں گے۔“ 4
یہ اقتباس موجودہ پاکستانی منظر نامے میں کتنی معنویت رکھتا ہے کہ یہاں تینوں زمانے بہم یکجا ہو گئے ہیں، ماضی حال میں زندہ ہو کر مستقبل کی خبر دے رہا ہے۔
تاریخ ہمیشہ گواہ رہی ہے کہ جب بھی کوئی تحریک اُٹھی تو اس کی آڑ میں لوگوں کا استحصال کرنے کا منصوبہ کسی نہ کسی حد تک کار فرما رہا۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ تحریک کا شروع دن سے ایجنڈا یہی ہوتا ہے، بلکہ معاملہ یہ ہے کہ جب ایک رجحان تحریک کا روپ دھارتے ہوئے معاشرے کو اپنی جانب متوجہ کرتا ہے تو کچھ ایسے بھی لوگ اس کا حصہ بن جاتے ہیں جو اسے اپنے مفاد کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ یوں تحریک کا حصہ بن کر اپنے مفاد کے لیے راستہ ہموار کرتے ہیں۔ ترقی پسند تحریک ایک کامیاب اور مشہور ترین ادبی تحریک تھی۔ جب ملک میں ضیاء الحق (1924ء-1988ء) نے مارشل لاء نافذ کیا، اس تحریک میں کئی ایسے نو آموز لکھاری شامل ہو گئے جو ادب کو نعرہ بناتے ہوئے شہرت کی بلندیوں کے خواب دیکھ رہے تھے، جبکہ حقیقت بالکل اس کے برعکس تھی مگر اس حقیقت کو کوئی بھی تسلیم نہیں کرنا چاہتا تھا۔
”ہم سب کسی نئی ادبی تحریک کے نتیجے میں راتوں رات شہرت پانے کے خواب دیکھ رہے تھے اور یہ خواب بے بنیاد بھی نہیں تھا کہ ان دنوں انقلابی ترقی پسند ہمیں فرانز فینن، مارکس، پابلو نرودا، ناظم حکمت اور بریخت پڑھا چکے تھے اور ہمیں لگتا تھا پاکستان میں بھی ویسے ہی انقلاب آئے گا جیسے دنیا کے اور ملکوں میں آیا ہے۔ یہ نہیں جانتے تھے کہ لاکھوں لاشوں پر انقلاب کا پھریرا لہراتا ہے۔ یہ حقیقت نہ ہم سُننا چاہتے تھے اور نہ دیکھنا چاہتے تھے۔“5
یہ اقتباس محض اقتباس نہیں بلکہ یہ پاکستانی اجتماعی منافقت کو بے نقاب کر رہا ہے۔ اس میں بیک وقت تین پہلو بیان کیے گئے ہیں۔ پہلا یہ کہ کچھ لوگ تحریکوں میں محض ذاتی اور انفرادی مقاصد کی تکمیل کی غرض سے شامل ہوتے ہیں جیسا کہ اقتباس میں اشارہ کیا گیا ہے کہ نئے لکھاری شہرت کی غرض سے وارد ہوئے۔ دوسرا پہلو یہ کہ تحریک کے لیڈر اپنے مقاصد اور خوابوں کے لیے دوسروں کا استعمال کرتے ہیں جیسا کہ ترقی پسند انقلابیوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور تیسرا یہ کہ سب یہ تو چاہتے ہیں کہ تبدیلی آئے مگر اس کے لیے جس قربانی کی ضرورت ہوا کرتی ہے اس کے لیے کوئی بھی سامنے نہیں آتا۔ یہ تینوں پہلو پاکستانی تاریخ کی اتنی بڑی حقیقت ہے کہ اسی سے چشم پوشی نہیں کی جا سکتی۔
ادبی بیٹھکیں کسی بھی ملک کے ادبی منظر نامے کے حوالے سے خاصی اہمیت کی حامل ہوتی ہیں۔ یہی وہ جگہیں ہوا کرتی ہیں جہاں نئے نظریات پر بات ہوتی ہے اور نئی تحریکیں جنم لیتی ہیں۔ لاہور کی ادبی بیٹھکیں پاکستانی ادبی تاریخ میں اہم مقام رکھتی ہیں۔ یہی وہ مقام تھے جو انقلابیوں کے محاذ قرار پائے اور جہاں سے ترقی پسند ادیبوں کی تربیت ہوئی۔ لاہور کی ادبی بیٹھکوں میں پاک ٹی ہاؤس، کافی ہاؤس، چائنیز لنچ ہوم، عرب ہوٹل اور نگینہ بیکری مرکزی شہرت کے حامل ہیں۔
ضیاء الحق کے مارشل لاء کے دوران پاک ٹی ہاؤس ایسی ادبی بیٹھک تھی جس کی رونقیں آباد تھیں اور تمام ترقی پسند ادیب جن میں شہرت بخاری(1925ء-2001ء)، منو بھائی(1933ء-2018ء)، اعجاز بٹالوی(1924ء-2004ء)، انتظار حسین(1923ء-2016ء)، فیض احمد فیض(1911ء-1984ء)، احمد فراز(1931ء-2008ء) اور حبیب جالب(1928ء-1993ء) وغیرہم شامل تھے، بیٹھا کرتے تھے۔ اس جگہ بیٹھنے والے شعراء نے بھٹو کی شہادت اور ضیاء الحق کے ظلم و ستم کے خلاف نظمیں لکھیں اور ایک کتاب بعنوان ”خوشبو کی شہادت“(اشاعت 1979ء) شائع کی۔ کتاب شائع ہوتے ہی اس پر پابندی عائد کر دی گئی مگر اس سے قبل یہ کتاب اپنا تیر نشانے پر لگا چکی تھی اور عوام تک جو بات پہنچانا تھی، وہ پہنچ چکی تھی۔ یہ دور ادیبوں اور شعراء کے لیے بڑا بھاری دور تھا۔ خصوصاً شعراء اس وقت حکومتی عتاب کی زد میں تھے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ادیبوں کی بنسبت ”شاعر کی آواز جلدی عوام تک پہنچتی ہے۔“ 6
بھٹو کو پھانسی ہوتے ہی حکومت نے یہ پابندی عائد کر دی کہ کوئی بھی شخص اگر اپنی لکھت شائع کروانا چاہتا ہو تو اسے پہلے حکومت سے اجازت لینا ہوگی۔ ساتھ ہی ان لوگوں کو اغواء کیا جانے لگا جو اپنی آواز ضیاء الحق کے خلاف بلند کرتے تھے۔ مگر انقلابی ترقی پسند شعراء اور ادیبوں نے اپنا فرض بخوبی نبھایا اور پاک ٹی ہاؤس جو حکومتی جبریت کے خوف سے خالی رہنے لگا تھا آہستہ آہستہ ”اس کی رونقیں آباد ہونے لگیں۔“ 7
ادیبوں صحافیوں اور ان لوگوں کے لیے جو فوجی اشرافیہ کے ظلم و ستم کو بے نقاب کر رہے تھے، یہ سیاہ دور تھا۔ رات کی تاریکی میں ان کو گھروں سے اٹھا کر نامعلوم جگہوں پر منتقل کر دیا جاتا اور حکومتی ریکارڈ میں اغواء کیے گئے لوگوں کو لاپتہ لکھ دیا جاتا۔ یہ سلسلہ چلتا رہا اور لوگ گھروں سے اٹھائے جاتے رہے۔ دوسری طرف یہ منظر نامہ بھی موجود تھا کہ لوگ جیلوں میں جا کر خود گرفتاریاں دینے لگے، کیونکہ وہاں فیض اور جالب جیسے شاعر موجود تھے۔ خوب محافل سجائی جاتیں اور انقلابی شاعری پڑھی جاتی۔ اسی دوران ضیاء الحق نے اپنے عدل کی عوام پر دھاک بٹھانے کی غرض سے پپو کے قاتلوں کو سر عام سزا دینے کا منصوبہ بنایا۔ پپو، ضیاء الحق کے دور کا وہ معصوم بچہ تھا جسے چند لوگوں نے جنسی ہوس کا نشانہ بناتے ہوئے قتل کر دیا تھا۔ ضیاء الحق نے ان قاتلوں کو کیمپ جیل لاہور میں ایک کرین کے ساتھ لٹکا کر دو لاکھ لوگوں کے سامنے پھانسی دی۔ کیونکہ یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ تھا اور قاتلوں کو عبرت ناک سزا دی گئی اس لیے لوگوں کے دلوں میں، ضیاء الحق کے نظامِ عدل کی دہشت بیٹھ گئی۔ دوسری طرف انٹلیکچوئل لوگوں نے اس واقعے کی اصل حقیقت کو جاننا اور دیوار کے پیچھے دیکھنے کی سعی کی۔ اصغر ندیم سید اس حوالے سے ناول میں یوں لکھتے ہیں کہ،
”ملک کی فضا بوجھل سے بوجھل ہو رہی تھی۔ کوڑوں کے ساتھ پھانسیاں بھی شروع ہو گئی تھیں، جن میں پپو کے قاتلوں کو سرِ عام انتظار حسین کے گھر کے پاس کیمپ جیل میں پھانسیاں دی گئی تھیں۔ جس جیل میں بھگت سنگھ کو انگریزوں نے پھانسی دی تھی۔ پپو کے قاتلوں نے پپو، ایک بچے کو گلا گھونٹ کے مار دیا تھا۔ اس دن ایک میلہ لگا تھا۔ پورا لاہور یہ منظر دیکھنے کو اُمڈ پڑا تھا اور یہی فیسٹیول ضیاء الحق نے متعارف کروایا۔۔۔ اس فیسٹیول نے لوگوں کو اپنے اپنے گھروں میں ڈرا دیا اور یہی اس کا مقصد تھا۔“ 8
اس اقتباس میں جہاں انصاف کے پیچھے پوشیدہ مقصد کو بے نقاب کیا گیا ہے، وہاں پاکستانی قوم کے مزاج اور اس کی اجتماعی ترجیحات کو بھی سامنے لایا گیا ہے۔ پاکستانی قوم کو ہمیشہ کوئی نہ کوئی ایسا واقعہ چاہیے جسے وہ تہوار کی طرح منا سکیں۔ جس دن پپو کے قاتلوں کو پھانسی دی گئی، اس دن ایک طرف فوج کو اپنا مقصد حاصل ہو گیا تو دوسری طرف عوام نے ایک ایسا تہوار بھی منا لیا جو ضیاء الحق کا ترتیب کردہ تھا۔ منیر نیازی(1928ء-2006ء) کے شعر کے ذریعے اس منظر نامے کو اچھی طرح سمجھا جا سکتا ہے۔
اک تیز رعد جیسی صدا ہر مکان میں
لوگوں کو ان کے گھر میں ڈرا دینا چاہئے 9
اس واقعے سے لوگوں کے دلوں میں ڈر بیٹھ گیا کہ پپو کے قاتلوں کو ایسی عبرت ناک سزا دی جا سکتی ہے تو ان لوگوں کو کیسی سزائیں دی جائیں گی جو حکومت کے خلاف آواز بلند کریں گے۔ اس لیے انہوں نے خاموشی اختیار کرنا بہتر سمجھا۔ فوجی حکومت یہ ثابت بھی کر چکی تھی کہ جو ان کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں ان کا انجام حسن ناصر(1928ء-1960ء) جیسا ہوا کرتا ہے۔ حسن ناصر کمیونسٹ پارٹی کا جنرل سیکرٹری تھا جسے راولپنڈی سازش کیس(1951ء) میں جلاوطن کیا گیا اور جلاوطنی کے بعد جب وہ واپس ملک آیا تو ایوب خان کے مارشل لاء(1958ء-1969ء) کے دوران اسے شاہی قلعے میں قید کیا گیا اور وہیں ظلم و ستم برداشت کرتے کرتے اس نے جان کی بازی ہار دی۔ اس کا جرم بھی یہی تھا کہ اس نے مارشل لاء کو للکارا تھا۔ اصغر ندیم سید نے حسن ناصر کی موت کو یوں بیان کیا ہے کہ،
”اذیت پر وہ تجربے کرنا جانتے تھے۔ وہ حسن ناصر یا کسی اور کو بھی مارنا نہیں چاہتے تھے۔ وہ اسے مسلسل اذیت میں مبتلا رکھنا چاہتے تھے کہ وہ ان کو دھوکہ دے گیا۔ ان کے تجربے کو جھوٹا ثابت کر گیا اور جلدی چلا گیا۔“ 10
اس ناول کا مرکزی کردار بغیر کسی کو بتائے دنیا کی بہترین مزاحمتی شاعری کے تراجم کرنے میں مصروف تھا اور ساتھ ساتھ یہ بھی کوشش کر رہا تھا کہ وہ اپنی بیوی اور نومولود بچے کو زیادہ سے زیادہ آرام و سکون فراہم کر سکے۔ ملک آگ میں جل رہا تھا۔ مرکزی کردار تراجم کے ساتھ ساتھ بھٹو کی پھانسی کے حق اور ضیاء الحق کے مارش لاء کے خلاف ایسی نظمیں لکھ رہا تھا جس میں بھاری بوٹوں اور وردیوں کا تذکرہ خاص طور پر کیا جاتا تھا۔ مگر اس کی بیوی اس ساری صورتِ حال سے بے خبر تھی اور اسے نہیں معلوم تھا کہ کب کس وقت ان پر عتاب نازل ہو جائے گا۔ (یہ نکتہ ذہن میں رہے کہ مارشل لاء کے اس بھاری دور کے دوران اصغر ندیم سید تراجم بھی کر رہے تھے اور نظمیں بھی لکھ رہے تھے۔)
”سعدیہ کو آرام کی ضرورت تھی اور میں اس کا ہر طرح سے خیال رکھ رہا تھا۔ سعدیہ کو معلوم ہی نہیں تھا کہ میں کیا سوچ رہا ہوں، کیا لکھ رہا ہوں، ٹی ہاؤس میں کیا چل رہا ہے اور ملک میں ہم جیسے سوچنے والوں کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔ میں بھی اسے نہیں بتانا چاہتا تھا کہ ہم آنے والے دنوں کے خوابوں میں رہنا سیکھ رہے تھے۔“ 11
یہاں عبداللہ حسین(1931ء-2015ء) کے ناول ”باگھ“ (اشاعت 1982ء) کا وہ جملہ یاد آ جاتا ہے کہ، ”سر پر بوجھ اُٹھانا عورتوں کا کام ہے۔ مرد کا سر آزاد ہوتا ہے اور اس کے سر پر دنیا کا بوجھ ہوتا ہے۔“ 12
مرکزی کردار اپنے سر پر ترقی پسندی کا بوجھ ڈالے ہوئے تھا۔ اسے معلوم تھا کہ یہی بوجھ ایک دن اس کا دشمن بن جائے گا مگر اس کے باوجود وہ ملک سے وفاداری نبھاتے ہوئے اپنی سی کوشش کیے جا رہا تھا۔ ایسا ہی ہوتا ہے اور رات کی تاریکی میں اسے گھر سے اٹھا شاہی قلعے میں قید کر دیا جاتا ہے۔ مرکزی کردار سوچنے لگتا ہے کہ ”اپنے سے کئی گنا دشمن سے لڑنے والی فوج ایک عام سے شاعر سے کیوں ڈر جاتی ہے۔ کیا وہ شاعر سے ڈرتی ہے یا شاعر کے الفاظ سے یا اس کی مزاحمت سے۔“ 13
شاعر جب یہ محسوس کرتا ہے کہ جنگل کے رکھوالے ایک باغی کی تلاش میں پورے جنگل کو آگ لگا دیں گے تو وہ چیخ اٹھتا ہے، کیونکہ اسے معلوم ہے کہ آگ سے نقصان باغیوں کا نہیں ہوگا بلکہ ان پرندوں اور جانوروں کا ہوگا جو اس جنگل کے رہائشی ہیں۔ مگر یہ چیخ ہی تو حکمران کے اندر ڈر پیدا کرتی ہے اور وہ ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ ڈالتا ہے تاکہ وہ آوازیں خاموش کی جا سکیں جو اس کے فیصلوں کو تسلیم کرنے کے بجائے انکاری ہوتی ہیں۔ انیس ناگی(1939ء-2010ء) کے ناول ”دیوار کے پیچھے“ (اشاعت 1983ء) میں بھی یہی صورتِ حال ہے کہ،
”میری کھوپڑی کے لیے میرا ذہن بھاری ہے۔ میرے لیے میرا وجود بوجھل ہے۔ ہم سب ایک دوسرے کے لیے بھاری اور بوجھل ہیں۔“ 14
ضیاء الحق کے دور میں بھی سب لوگوں اور خاص کر ادیبوں کے دماغ بھاری اور وجود بوجھل ہو چکے تھے۔ جو آواز بلند کرتے ان کو نامعلوم جگہوں پر قید میں ڈال دیا جاتا۔ اس لیے کچھ ایسے بھی ادیب تھے جو اندر سے ڈر چکے تھے، وہ ضیاء الحق سے نفرت تو کرتے تھے مگر بظاہر انہوں نے ضیاء الحق سے مفاہمت کرتے ہوئے اپنے خاندان کو تباہ ہونے سے بچا لیا۔ اس خوف کی عکاسی عبداللہ حسین نے اپنے ناول ”قید“ (اشاعت 1995ء) میں بڑے عمدہ طریقے سے کی ہے۔“یہ خوف ایک ڈکٹیٹر کا پیدا کردہ ہے جو ہر طرح کے احتجاج اور آزادہ روی کو کچلنا چاہتا ہے۔“ 15
پاکستان کی تاریخ اور ادبی منظر نامے کے حوالے سے یہ واقعہ بڑا اہم ہے کہ اس وقت جب ملک میں آمریت کا سیاہ دور چل رہا تھا، ان لوگوں نے آمر سے مفاہمت کر لی جنہوں نے ملک کو تاریک دور سے نکالنے کی ذمے داری سنبھالنا تھی۔ بھٹو (1928ء-1979ء) کو پھانسی دیے جانے کے بعد اکادمی ادبیات پاکستان (قیام 1976ء) کی ایک کانفرنس بلائی گئی، جس میں احمد ندیم قاسمی(1916ء-2006ء) اور اختر حسین رائے پوری(1912ء-1992ء) سمیت کئی معتبر ادیبوں نے شرکت کی۔ وہاں انہیں کہا گیا کہ اگر انہوں نے ”حکومت کے خلاف کچھ بھی لکھا تو وہ سیاست کے خلاف بغاوت تصور ہوگا۔“ وہاں ادیبوں نے مفاہمت کرتے ہوئے مراعات حاصل کیں اور خاموشی اختیار کرتے ہوئے ملک کو دلدل میں دھنستا دیکھتے رہے۔ مگر یہاں یہ نکتہ قابلِ غور ہے کہ جہاں اصغر ندیم سید نے پاکستانی ادیبوں کو آمریت کا غلام بنتے دکھایا ہے، وہاں اس محرک پر بھی بات کی ہے جس سبب، ادیب مفاہمت کرنے پر مجبور ہوئے۔ یعنی اصغر ندیم سید نے تاریخی تعصب کے بجائے تاریخی حقیقت کو سامنے لانے کی سعی کی ہے اور یہ فیصلہ قارئین پر چھوڑ دیا ہے کہ وہ ان ادیبوں کو جس صف میں کھڑا کرنا چاہیں، کر دیں۔
”ہمارے گھر اور بچے پاکستان میں رہتے ہیں۔ ہم مارشل لاء سے پنگا نہیں لے سکتے۔ یہ مت سمجھو ہم آمریت کو پسند کرتے ہیں۔ ہم مصلحتاً خاموش ہیں۔“ 16
یہ معاملہ بھی قابلِ غور اور تاریخی حوالے سے بڑی معنویت رکھتا ہے کہ جب ضیاء الحق نے حکومت کی مخالفت کو ریاست سے غداری قرار دیا تو اس کے بعد ادیبوں نے استعاروں اور علامتوں کے استعمال سے ایسا لازوال مزاحمتی ادب تخلیق کیا جس کی بعد کے ادبی منظر نامے میں مثال نہیں ملتی۔ اس کے پیچھے محرک یہ ہے کہ جب براہ راست بات کرنے پر پابندی عائد کر دی جاتی ہے تو ادیب ایسے چور دروازے، جن کے ذریعے وہ اپنی بات عوام تک پہنچا سکیں، استعمال کرتے ہیں۔ یوں وہ جو بات کہنا چاہتے ہیں کہہ بھی دیتے ہیں اور اسے جہاں پہنچنا ہوتا ہے وہ پہنچ بھی جاتی ہے مگر ان لوگوں کو، جنہوں نے پابندیاں عائد کر رکھی ہوتی ہیں، خبر تک نہیں ہو پاتی۔ وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ بات تو پرندوں اور جنگل کی ہو رہی ہے مگر انہیں کیا خبر کہ تحریر میں پرندوں کی کیا معنویت ہے اور جنگل کس چیز کی علامت ہے۔
ضیاء الحق کے دور میں صحافت میں بھی ایسی ہی پابندیاں عائد تھیں اور صحافیوں کو براہ راست خبر چھاپنے پر جیلوں میں بند کر دیا جاتا تھا۔ اس لیے اخبار کے مالکان نے کالم نویسوں کو اخبار میں لکھنے کی دعوت دی۔ کیونکہ کالم نویس ایسے طریقوں سے آگاہ ہوتا ہے، جن کے ذریعے وہ جو بات بتانا چاہ رہا ہوتا ہے وہ بتا بھی دیتا ہے اور پابندیاں عائد کرنے والوں کو خبر تک نہیں ہو پاتی کہ آخر خبر عوام تک پہنچی تو کیسے۔ کالم کو اخبار میں شامل کرنا اور کالم نویسوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر اپنے اخبار میں لایا جانا کے پیچھے اخباری مالکان کا کاروباری ذہن تھا۔ انہیں معلوم تھا کہ اگر وہ براہ راست خبر شائع کریں گے تو وہ حکومت اور ریاست کے خلاف بغاوت تصور ہوگی۔ یوں اخبار پر بندی عائد کر دی جائے گی۔ اس لیے انہوں نے نیا منصوبہ بنایا، جس کی تکمیل کے لیے انہوں نے کالم نویسی کو فروغ دیا۔ یوں عوام تک ضروری معلومات بھی پہنچائی جاتی رہی اور حکومتی عنایات میں بھی کوئی کمی نہ ہوئی۔ یہ دراصل ایک قدرتی عمل ہے کہ جب ایک رستہ بند کر دیا جاتا ہے تو دوسرا خود بخود کھل جاتا ہے۔
پاتے نہیں جب راہ تو چڑھ جاتے ہیں نالے
رکتی ہے مری طبع تو ہوتی ہے رواں اور 17
اصغر ندیم سید ایک انٹرویو میں یوں کہتے ہیں کہ،
”اگر ایک چیز رک گئی ہے تو دوسری چیز خود بخود رواں ہو جاتی ہے۔ ٹیلنٹ کے ساتھ بھی یہی ہے کہ اگر ایک رخ پہ جا رہا ہے اور راستہ بند ہو گیا ہے تو کہیں اور سے چشمہ کسی نہ کسی شکل میں نکل آئے گا۔“18
اخبار میں کالم کی منطق کو اصغر ندیم سید نے ناول کے کردار پسروری کی زبان سے یوں ظاہر کیا ہے کہ،
”مارشل لاء کو سیدھی خبر گولی کی طرح لگتی ہے۔ اس لیے اخبار والوں نے کالم نویسوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کے رکھنا شروع کر دیا ہے۔ کیونکہ کالم نویس کے پاس زبان کے چور دروازے ہوتے ہیں جن سے جھانک کر قاری کو اندر کی خبر بتا سکتا ہے۔۔۔ اخبار کو اب اٹھائیں گے کالم نویس، اور ان کے لاکھوں میں معاوضے ہوں گے۔ جس کے پاس بڑا کالم نویس ہوگا وہ اخبار بکے گا۔“19
یہ اقتباس اخباری کاروبار اور صحافتی تاریخ کی ایک جہت کو سامنے لاتا ہے۔ کالم نویس ضیاء الحق کے مارشل لاء کے دور سے آج تک اخبار کے اہم رکن قرار پائے ہیں۔ موجودہ دور میں جس بھی اخبار کو اٹھایا جاتا ہے، سب سے پہلے یہ دیکھا جاتا ہے کہ کتنے بڑے نام ہیں جو اس اخبار سے بطور کالم نویس منسلک ہیں۔ دوسری سطح پر یہ اقتباس کالم نویسوں کی اہمیت پر بھی روشنی ڈالتا ہے کہ یہ ایسی خبریں پہنچانے کا ذریعہ ہیں جن کو براہ راست عوام تک نہیں پہنچایا جا سکتا۔ یہ سارا منظر نامہ بھٹو کی پھانسی اور ضیاء الحق کی عائد کردہ پابندیوں کے بعد کا ہے۔ ضیاء الحق کا مارشل لاء نافذ کرنا اور بھٹو کی پھانسی، اصغر ندیم سید کی شعوری زندگی کا پہلا بڑا واقعہ تھا جو انہوں نے ملک پر گزرتے اور اس کی تباہی کا سبب بنتے دیکھا۔ بھٹو کی پھانسی اس دور کے ہر ادیب اور انٹلیکچوئل کے لیے دردناک واقعہ تھا مگر بطور قوم، اس واقعے کو مذہب سے جوڑ کر دلی سکون حاصل کر لیا گیا۔ وہ یوں کہ بھٹو کے قتل کو، شہادت کا نام دیا گیا مگر کسی نے یہ نہ جانا کہ یہ قتل پاکستانی مستقبل کی کتنی دہائیوں کو سیاہ کر چکا تھا اور اس کے بعد ایسے بے شمار واقعات مزید ہونے والے تھے۔
”جو بھٹو کے عاشق تھے وہ دو حصوں میں بٹے ہوئے تھے۔ ایک وہ جو ہمہ وقت بھٹو کی قبر کو اندر سے مہکتا اور باہر سے نور میں نہایا ہوا دیکھ رہے تھے۔ قبر پر سنا ہے سبز پوش بزرگ آدھی رات کو اترتے ہیں اور صبح تک عبادت کرتے ہیں۔ فجر کی نماز کے بعد غائب ہو جاتے ہیں۔ کسی نے یہ بھی بتایا کہ رات کو فرشتے غول در غول اترتے ہیں اور بھٹو صاحب کو جگاتے ہیں، ان سے ملاقات کر کے چلے جاتے ہیں۔“20
یہ اقتباس پاکستانی قوم کی اجتماعی سوچ کو اجاگر کر رہا ہے کہ پاکستان میں مذہبی جنون کس حد تک ہے کہ ایک سیاسی قتل کو شہادت کا درجہ دے کر کیسے معجزاتی بیانیے میں بدل دیا گیا۔ مذہبی حوالے سے یہ ہماری اجتماعی تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے کہ ہم نے بطور قوم، مذہب کو صرف گناہ اور ثواب کے خانوں میں بانٹ کر کافر اور مسلمان کی تخصیص کرنا شروع کر دی۔ مذہب کی اصلیت اور حقیقی روپ کو بھول بیٹھے۔ بھٹو کی پھانسی اور قومی بیانیے کے حوالے سے اصغر ندیم سید اپنے ناول ”دشت امکاں“ (اشاعت 2021ء) میں لکھتے ہیں کہ،
”ایک پل میں ذوالفقار علی بھٹو آئے تھے اور کہنے لگے تم سب لوگوں نے مجھے شہید تو لکھ دیا مگر کسی نے نہ تو جیل کے ایام میں میرے لیے کچھ کیا نہ ہی سڑکوں پر کوئی نکلا۔“21
بھٹو کی پھانسی سے قبل بڑے سیاستدان ملک سے فرار ہو کر انگلینڈ جا چکے تھے اور جو پارٹی ورکر ملک میں موجود تھے انہوں نے احتجاج کرنے اور سڑکوں پر خود کو جلانے کی کوشش ضرور کی مگر وہ سب اس وقت کی باتیں ہیں جب بھٹو کو پھانسی دی جا چکی تھی اور حکومت نے جو کرنا تھا وہ کر گزری تھی۔
مرکزی کردار شاہی قلعے میں بند تھا، اس پر ہر روز نئے طریقے سے تشدد کیا جاتا تاکہ وہ ایک ہی طرح کے تشدد کا عادی ہو کر اذیت کو کم محسوس نہ کر سکے۔ کبھی اسے ڈنڈوں سے مارا جاتا تو کبھی شکنجے میں جکڑ دیا جاتا۔ کبھی تیز روشنی میں اس کا دماغ ماؤف کرنے کی کوشش کی جاتی تو کبھی بجلی کے جھٹکے لگائے جاتے۔ کبھی اس کمرے میں، جس میں وہ بند تھا، چوہے چھوڑے جاتے۔ اس کا جرم صرف یہ تھا کہ اس نے ایسی مزاحمتی شاعری کا اردو زبان میں ترجمہ کیا تھا جو فوج کو اپنے خلاف محسوس ہوئی اور اسے گھر سے اٹھا لیا گیا۔ اس کی بیوی کو معلوم ہی نہیں تھا کہ کون لوگ تھے جو اس کے شوہر کو اٹھا کر لے گئے۔ حکومتی کاغذات میں اسے لاپتہ لکھ دیا گیا۔ آخر ایک روز کسی میجر کی سفارش سے اس کی بیوی شاہی قلعے اپنے شوہر سے ملنے جا پہنچی مگر وہ اپنے شوہر کو پہچان نہ سکی اور اسے دیکھ کر کہنے لگی،
”تمہارے بال سفید ہو گئے۔ تم وہ نہیں ہو، کیا کیا ظالموں نے؟ ہمیں تو پتہ ہی نہیں تھا تمہیں کہاں لے گئے ہیں۔ تم لاپتہ قرار دیے گئے ہو حکومت کے اداروں کے کاغذات میں۔22“
پاکستانی منظر نامے میں یہ اقتباس پسِ پردہ حقیقت کو سامنے لاتا معلوم پڑتا ہے۔ اس بیان کو پڑھ کر اس پاکستانی صحافی کی کہانی یاد آ جاتی ہے جو چند ماہ میں اتنا بوڑھا کر دیا گیا کہ اس کے دماغ نے سوچنا چھوڑ دیا اور زبان نے بولنا بند کر دیا۔ جب یہ دو کہانیاں بہم ایک ہو جاتی ہیں تو معلوم پڑتا ہے کہ پاکستان کی تاریخ اپنے آپ کو مسلسل دہرا رہی ہے یا کسی ایسے مخصوص دائرے میں بند ہو چکی ہے جس کا مرکز ہمیشہ ایک ہی ادارہ رہا ہے۔
اسی دوران جہاز اغواء ہونے کا واقعہ رونما ہوا، جس کے بدلے میں ان قیدیوں کی رہائی اور انہیں لندن روانہ کرنے کا مطالبہ کیا گیا جو سیاسی جبریت کا شکار ہو کر جیلوں میں بند تھے۔ مرکزی کردار کی بیوی نے اسے بتایا کہ اس لسٹ میں، جو اغواء کاروں کی طرف سے جاری کی گئی ہے، مرکزی کردار کا نام بھی شامل کروایا گیا ہے اور اسے رات کی تاریکی میں جہاز میں بٹھا کر لندن روانہ کر دیا جائے گا۔ مرکزی کردار یہ محسوس کرنے لگا کہ یوں تو اس کی پہچان مٹ جائے گی، اس کی شناخت گم ہو جائے گی اور وہ محض سیاسی پناہ گزیں بن کر رہ جائے گا۔ وہ اپنا وطن چھوڑ کر جانا نہیں چاہتا تھا اور اپنی پہچان کھونا نہیں چاہتا تھا۔ مگر موت کا خوف بھی تھا کہ اگر وہ لندن نہ گیا تو اسے شاہی قلعے میں مار دیا جائے گا۔ آخر وقت کی جبریت کے ہاتھوں مجبور وہ لندن جانے کے لیے تیار ہو گیا۔ اسے یوں محسوس ہونے لگا کہ اس کا وطن کہیں گم ہو گیا ہے اور اب دوبارہ اسے کبھی مل نہ سکے گا۔ یہاں مشرف عالم ذوقی(1963ء-2021ء) کے ناول ”مردہ خانے میں عورت“ (اشاعت 2020ء) کا جملہ یاد آتا ہے کہ،
”صرف انسان نہیں گم ہوتے، نقشے گم ہو جاتے ہیں، عمارتیں گم ہو جاتی ہیں مکاں گم ہو جاتے ہیں مکیں گم ہو جاتے ہیں۔23“
سیاسی قیدیوں کو جب سیاسی پناہ گزیں بناتے ہوئے لندن روانہ کرنے کا منصوبہ بنایا گیا تو اس کے درپردہ حکومتی رضا مندی بھی شامل تھی۔ کیونکہ حکومت خود چاہتی تھی کہ ان تمام دماغوں کو جو سوچتے ہیں اور ان تمام زبانوں کو جو بولنے کا ہنر جانتی ہیں، ملک سے در بدر کر دیا جائے تاکہ کوئی ایسا شخص موجود ہی نہ رہے جو حکومتی فیصلوں پر احتجاج کر سکے یا ان کے خلاف کھڑا ہو سکے۔ جب مرکزی کردار لاہور ایئرپورٹ پر پہنچایا گیا تو اسے یوں محسوس ہوا کہ وہ اسی ہجرت کے کرب سے گزرنے جا رہا ہے جو اس کے دادا اور پھر باپ سے ہو کر اس تک پہنچی ہے۔ اس نے محسوس کیا کہ ہجرت ایک مسلسل تاریخ جبر ہے جو اس پر اور اس کی قوم پر ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے۔ یہاں ہجرت کے سبب لٹ پٹ جانے والے ان قافلوں کی کہانی یاد آ جاتی ہے جسے قدرت اللہ شہاب (1917ء-1986ء) نے ”یاخدا“ (اشاعت 1948ء) میں تحریر کیا ہے۔ جب تمام سیاسی قیدیوں کو جہاز میں بیٹھا کر روانہ کیا جاتا ہے تو یوں معلوم پڑتا ہے کہ یہ فلائٹ ”پشاور ایکسپریس“ کی ایک نئی شکل ہے جو ہزاروں کہانیوں کو اپنے اندر سمیٹے یادوں، مکانوں اور شناخت کو گم کرتے، ایک نئی منزل کی طرف جا رہی ہے۔ مگر وہ منزل ایسی ہے جو روٹھ چکی ہے اور راستے دھندلا گئے ہیں۔
جب تمام پاکستانی انقلابی لندن اترے تو ان کی شناخت گم ہو چکی تھی، وہ محض سیاسی پناہ گزیں تھے اور یہی ان کی پہچان تھی۔ وہاں انہیں رہنے کے لیے وہ فلیٹ الاٹ کیے گئے جو جنگِ عظیم دوم کے قیدیوں کے لیے تعمیر کیے گئے تھے۔ ان فلیٹوں میں مراعات کا انتظام سیاسی پناہ گزیں کے مرتبے کے مطابق تھا۔ یہ دیکھ کر مرکزی کردار کو تقسیمِ ہند کا کربناک واقعہ اور اس سے جڑی کہانیاں یاد آ جاتی ہیں۔
”میں حیران ہوا کہ ہجرت کرنے والوں کو پاکستان بننے کے بعد جس طرح ان کی حیثیت کے مطابق مکان اور جائیدادیں الاٹ ہوئی تھیں، یہاں بھی ہم پناہ گزینوں کو کئی درجوں میں بانٹا گیا۔24“
مرکزی کردار کے ساتھ جسے فلیٹ الاٹ کیا گیا تھا وہ بھٹو کی حویلی کا نوکر قادر سولنگی تھا۔ قادر سولنگی ناول کا ایک ایسا کردار ہے جسے غلامی کی علامت بنایا گیا ہے اور اس کے ذریعے سے بتایا گیا ہے کہ غلامی نسلوں تک سفر کرتی ہے۔ یہ اتنی خطرناک بیماری ہے کہ جو غلام ہوتا ہے اسے خود معلوم نہیں ہوتا کہ وہ غلام ہے، بلکہ وہ اسے فخر سمجھتا ہے کہ اسے مالکوں کے باورچی خانوں تک رسائی حاصل ہے۔ قادر سولنگی اپنا تعارف یوں کرواتا ہے کہ،
”بابا بھٹو شہید کا خاص الخاص خادم۔ ان کے جوتے میں ہی سیدھے کرتا تھا۔ لاڑکانہ سے ہوں، خاص بھٹو شہید کی حویلی کا نوکر ہوں۔ ازل سے نوکر ہوں سائیں۔ میری اولاد ہوگی تو وہ بھی ان کی نوکر ہوگی۔25“
قادر سولنگی سیاسی پناہ گزیں کی حیثیت سے جب لندن آیا تو وہ ایک طرح سے آزاد ہو چکا تھا کہ جو غلامی نسلوں سے وہ کرتے آ رہے تھے، اس سے اسے چھٹکارا مل چکا تھا۔ مگر لندن میں بھی وہ کسی ایسے شخص کی تلاش کرنے لگتا ہے جو سندھی ہو، تا کہ وہ اس کے ہاں وہی ماحول حاصل کر سکے جو پاکستان میں اسے میسر تھا۔ اس کے ساتھ ہی وہ مرکزی کردار کے بھی سارے کام کر دیا کرتا تھا اور جب مرکزی کردار اسے منع کرتا تو وہ کہتا کہ اس کے ہاتھوں کو کام کرنے کی عادت ہے، اس لیے جب تک کام نہ کرے اسے چین نہیں پڑتا۔ آخر اسے لندن میں جتوئی، جو کہ سیاسی لیڈر ہے، مل جاتا ہے۔ قادر سولنگی خوشی خوشی مرکزی کردار کو بتاتا ہے کہ اسے جتوئی صاحب مل گئے ہیں اور وہ ادھر ہی رہا کرے گا۔ جب مرکزی کردار پوچھتا ہے کہ جتوئی نے اسے ملازم رکھا ہے تو وہ کہتا ہے کہ ہم ملازم نہیں ہوا کرتے بلکہ حویلی کا حصہ ہوتے ہیں۔ مرکزی کردار کہتا ہے کہ یہ تو غلامی ہے، تو وہ جواب دیتا ہے ،
”سائیں آپ اس کو کچھ بھی بولو۔ ہمارے لیے تو سائیں یہ عزت کی بات ہے۔۔۔ ہمارے پر دادا، دادا، باپ اور ہم صدیوں سے پلتے آئے ہیں اور خوش ہیں۔26“
یہاں ژونگ (Carl Gustav Jung 1875-1961) کا اجتماعی لاشعور کا نظریہ یاد آتا ہے کہ کس طرح وراثتی خصوصیات نسلوں تک سفر کرتی ہیں۔ یہ دراصل سندھی تہذیب کا حصہ ہے کہ وہاں کے جاگیر دار کی حویلی کے نوکر تنخواہ نہیں لیتے بلکہ ان کی زندگی کا سارا دارو مدار حویلی سے منسلک ہوتا ہے۔ انہیں تنخواہ لینے کی اس وجہ سے بھی ضرورت نہیں پڑتی کہ سارا خاندان حویلی کا نوکر ہوتا ہے۔ جاگیر دار انہیں کھانا دیتا ہے، سال میں ایک آدھ بار کپڑے وغیرہ بنوا دیتا ہے اور یوں وہ حویلی میں جاگیر دار کے حکم کی تعمیل کرتے رہتے ہیں۔ قادر سولنگی بھی ایسا ہی کردار ہے۔ لندن میں وہ جتوئی کے فلیٹ میں چلا جاتا ہے اور وہاں کا سارا کام کاج سنبھال لیتا ہے۔ اسے اس بات کی خوشی ہے کہ جتوئی نے پورا فلیٹ اس کے حوالے کر دیا ہے۔ مگر اس کو جتوئی کے اس عمل کے پیچھے چھپی خود غرضی نظر نہیں آتی کہ لندن میں ہر کام کے لیے الگ ملازم ہوتے ہیں اور ان کی باقاعدہ تنخواہ ہوا کرتی ہے۔ جبکہ جتوئی کو مفت میں ایک ایسا ملازم مل گیا ہے جو اکیلا تمام کام کرے گا۔ حقیقت ہے کہ جن کے ریشے ریشے میں غلامی سمائی ہو وہ کیسے ان عوامل پر غور کر سکتے ہیں۔
مرکزی کردار اور دیگر سیاسی پناہ گزینوں کو حکومت کی طرف سے ہر ماہ کچھ پاؤنڈ ملتے تھے تاکہ لندن میں وہ گزر بسر کر سکیں۔ مرکزی کردار جب بھی وہ پاؤنڈ وصول کرتا اسے خیال آتا کہ یہ غلامی کی ایک نئی قسم ہے اور اُس غلامی کی توسیع ہے جسے متحدہ ہندوستان میں وہ نفرت سے دیکھا کرتے تھے اور اب ادھر سب خوش ہیں اور غلامی کے لیے اپنے گھروں کو چھوڑ لندن آنے کے لیے بے تاب۔
”ہم جو ہندوستان پر انگریز کی غلامی کو نفرت سے دیکھتے تھے اور اپنے غلام ہونے پر ملال کرتے تھے اب اپنی پسند سے دوبارہ انگریز کی غلامی قبول کرنے کے لیے انگلستان میں آباد ہونے کو اپنی خوش قسمتی تصور کر رہے تھے۔27“
موجودہ دور میں پاکستان سے دوسرے ملکوں میں منتقل ہونے والے لوگوں کے اعداد و شمار پر نظر ڈالی جائے تو اس اقتباس کی اصل معنویت سامنے آتی ہے کہ کیسے پڑھا لکھا طبقہ اپنے ملک سے متنفر ہو کر اسی انگریز کی غلامی قبول کرنے جا رہا ہے جن سے ہزاروں قربانیوں کی عوض آزادی حاصل کی تھی۔ درحقیقت لوگوں کے اس رویے کے پیچھے بھی تاریخ کی کار فرمائی اور صدیوں کی اس غلامی کا اثر ہے جو کہ ہندوستانی ہمیشہ نبھاتے آئے۔ اصل معاملہ یہ ہے کہ ہندوستانی کبھی آزاد تھے ہی نہیں۔ ہندوستان کے حقیقی مالک ہمیشہ سے غلام تھے، کبھی بیرونی حملہ آوروں کے غلام، کبھی جاگیر داروں اور مہاراجوں کے نوکر اور پھر انگریزوں کے غلام۔ ناول میں اس حوالے سے اصغر ندیم سید نے یہ نکتہ یوں پیش کیا ہے کہ،
”جس فلیٹ میں بیٹھا تھا وہ گواہی دے رہا تھا کہ تم لوگوں کے غلام تھے۔ تمہارے باپ دادا غلام تھے بلکہ وہ تو اس سے پہلے کسی نہ کسی ریاست کے راجے، مہاراجے، ٹھاکر، نواب یا کسی بہادر جنگ کے غلام تھے یا کسی نظام الملک کے غلام تھے اور اب یہ غلامی کا دوسرا جنم تھا جو آقاؤں کے اپنے ملک میں ہو رہا تھا۔28“
لندن میں ہندوستان، پاکستان اور بنگلہ دیش کے اتنے لوگ جمع ہو چکے تھے، یوں محسوس ہونے لگا کہ ایک mini برصغیر وجود میں آ رہا ہے۔ جسے انگریزوں نے 1947ء میں تقسیم کر دیا تھا وہ اب لندن میں پھر سے متحد ہونے جا رہا ہے۔ مگر وہاں بھی لوگوں کو مذہبی، صوبائی، لسانی، نسلی اور قومی بنیادوں پر تقسیم کیا جانے لگا۔ اس سے مرکزی کردار کو تشویش ہوتی ہے کہ یہاں بھی وہی اصول لاگو کیا جا رہا ہے جو ہندوستان پر لاگو کرتے ہوئے تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت کے لیے راستہ ہموار کیا گیا اور اس ہجرت نے انسانیت کو ایسے زخم دیے جو ابھی تک مند مل نہیں ہو سکے۔ اور وہ اصول تھا Divide & Rule۔ مرکزی کردار خوفزدہ ہو جاتا ہے کہ کہیں تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہوئی 1947ء کے واقعات کو دوبارہ انسانیت پر نازل نہ کر دے۔ قرۃ العین حیدر اور عبداللہ حسین کی طرح اصغر ندیم سید کا بنیادی مسئلہ بھی انسان ہے کہ تاریخ کے بدلتے ہوئے ادوار میں جو سماجی ٹوٹ پھوٹ ہو رہی ہے، اس کے اثرات انسان پر کیسے نمودار ہوتے ہیں اور تاریخی جبریت انسان کو کیسے بے بس بنا دیتی ہے۔
پاکستان اور ہندوستان کی تہذیب و ثقافت میں درگاہوں کا اہم مقام رہا ہے۔ ہر علاقے میں کوئی نہ کوئی ایک ایسی درگاہ ضرور ہوتی ہے جو اس علاقے کی روحانی تربیت گاہ کا درجہ رکھتی ہے۔ دہلی میں حضرت نظام الدین اولیاء(1238ء-1325ء) کی درگاہ، ملتان میں بہاؤ الدین زکریا ملتانی(1183ء-1262ء)، شاہ رکن عالم(1251ء-1335ء)، لاہور میں گنج بخش علی ہجویری(1009ء-1077ء)، قصور میں بلھے شاہ(1680ء-1757ء)اور اسی طرح سندھ میں حضرت شہباز قلندر(1177ء-1274ء) کی درگاہ، ایسی درگاہیں ہیں جو لوگوں کے لیے عقیدت کا مرکز ہیں۔ یہ درگاہیں جہاں روحانی وابستگی کی جگہیں ہوتی ہیں، وہاں ان لوگوں کو پناہ بھی دیا کرتی ہیں جو معاشرے کے خلاف کھڑے ہو جائیں یا جن کے خلاف معاشرہ کھڑا ہو جائے۔ ایسے ہی ایک واقعے کے ذریعے درگاہوں کی تاریخ اور تہذیب و ثقافت کو ناول کا حصہ بنایا گیا ہے۔ قادر سولنگی ایک ایسی ہی کہانی مرکزی کردار کے سامنے رکھتا ہے۔ وہ بتاتا ہے کہ اس کے ایک دوست نے اپنی بیوی کو ایک غیر مرد کے ساتھ سوتے ہوئے دیکھ کر دونوں کو قتل کر دیا اور خود فرار ہو گیا۔ کئی سالوں تک اس کی کوئی خبر نہ آئی کہ وہ زندہ بھی ہے یا نہیں۔ ایک روز جب قادر سولنگی، حضرت شہباز قلندر کی درگاہ پر حاضری دینے گیا تو اس نے دیکھا کہ ایک ملنگ بیٹھا ہے اور کئی مریدین اسے گھیرے ہوئے ہیں۔ قادر سولنگی جب اس طرف کو گیا تو ملنگ نے اسے اس کے نام سے مخاطب کرتے ہوئے اپنے پاس بلایا۔ مریدین عش عش کر اٹھے کہ معجزہ ہوا ہے کہ پیر صاحب نے ایک اجنبی مرید کو اس کے نام سے مخاطب کیا ہے۔ آخر پیر نے قادر سولنگی پر راز کھولا کہ وہ دراصل اس کا دوست ہے جو قتل کرنے کے بعد فرار ہو گیا تھا اور اب پیر کے روپ میں درگاہ پر موجود ہے۔ قادر سولنگی مرکزی کردار سے کہتا ہے کہ،
”سندھ کی سر زمین صدیوں کے نشے میں گم رہتی ہے۔ یہ جو صدیوں کا نشہ ہے سائیں یہ کہیں کا نہیں رہنے دیتا۔ بندہ گمان میں رہتا ہے کہ اس کے کندھے پر صدیاں سوار ہیں پھر وہ ان ہی صدیوں کے بوجھ تلے دب جاتا ہے۔29“
جب انسان کسی ایسی جگہ کا حصہ بنتا ہے جو اپنے اندر صدیوں کی بازگشت رکھتی ہو تو وہ انسان یہ محسوس کرتا ہے کہ اب اس پر بھی صدیوں کی تاریخ کا بوجھ ہے۔ درگاہیں ایسی ہی جگہیں ہوا کرتی ہیں، اس وجہ سے اس سے وابستہ لوگ یہی تصور کرتے ہیں۔ مگر اصلیت یہ ہے کہ وہ یہ روپ معاشرے سے فرار یا اپنی اصل پہچان سے فرار حاصل کرنے کے لیے اختیار کرتے ہیں۔ اصغر ندیم سید نے قادر سولنگی کے دوست کے ذریعے، درگاہ کے اس ماحول کی تصویر کشی کی ہے جو نگاہوں سے اوجھل رہتی ہے۔ تاریخی حوالے سے اسی اوجھل رخ کی اہمیت زیادہ ہے اور اس رخ کو کینوس پر اتارے بغیر کہانی مکمل نہیں ہو سکتی۔
ضیاء الحق کے مارشل لاء کے دوران ملک میں مذہبی کارڈ کھیلا گیا۔ پاکستانی تاریخ میں مذہبی کارڈ ہمیشہ سے کار آمد رہا ہے اور جس لیڈر نے بھی، چاہے وہ ایوب خان ہو یا یحییٰ خان(1917ء-1980ء)، بھٹو ہو یا ضیاء الحق اور موجودہ دور میں مسلم لیگ (ن) کے لیڈر ہوں یا پی ٹی آئی کے سربراہ، مذہبی کارڈ کا سہارا لے کر عوامی حمایت حاصل کرنا چاہی، اکثر کامیاب رہے۔ ضیاء الحق سے قبل جب بھٹو نے احمدیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دلوایا (1974ء) تو انہوں نے اس کا خوب فائدہ اٹھایا اور جیسے ہی وہ اقلیت قرار پائے انہوں نے مختلف ممالک کے، جن میں انگلینڈ سر فہرست تھا، مذہب کی آڑ میں ویزے حاصل کیے۔ اس حوالے سے ناول کا ایک کردار طیفا بٹ یوں گفتگو کرتا ہے کہ،
”بھٹو صاحب نے احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیا تو یہاں ان کی چاندی ہو گئی۔ وہ جونہی اقلیت قرار پائے، پاکستان سے سیاسی پناہ کا دروازہ کھل گیا اور بے روزگاروں کی قطار لگ گئی۔ جو اب بلکہ آنے والی کئی دائیوں تک لگی رہے گی۔30“
احمدیوں کے ہمراہ کئی ایسے لوگ بھی ویزے حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے جو کہ مسلمان تھے مگر انہوں نے ظاہراً خود کو احمدی ثابت کرتے ہوئے اپنا مقصد حاصل کر لیا۔ یہ دراصل ہماری سیاسی منافقت کی طرف اشارہ ہے کہ ملک کو صرف اس لیے مذہبی بنیادوں پر تقسیم کرنے کی کوشش کی جاتی رہی کہ یہ ایسا راستہ تھا جہاں عوام کی حمایت حاصل کرنا یقینی تھا۔ جب ضیاء الحق نے مارشل لاء نافذ کیا تو ملک کو یوں کہیے کہ مذہبی جماعت کے حوالے کر دیا گیا۔ بارڈر پر کھڑے ہونے والے جوان، مُسلّوں پر کھڑے نظر آنے لگے۔ محافظ کے ہتھیاروں کی جگہ تسبیح نے لے لی۔“جنرل ضیاء الحق نے پاکستان کو دنیا کی نظر میں دوسرے سعودی عرب کے طور پر شو کیس کر دیا۔“ مذہبی جماعتوں کو ملکی اور غیر ملکی گارنٹیں ملنا شروع ہوئیں اور وہ مخصوص مقاصد کے لیے کام کرنے لگیں۔ ان مقاصد میں ایک اہم مقصد یہ بھی تھا کہ ضیاء الحق کے اقتدار کو مذہبی سہارا دیا جائے اور مارشل لاء کے قانون کو اسلامی قانون کے عین مطابق قرار دیتے ہوئے، ملک میں لاگو کروانے کی حمایت کی جائے۔ ناول کا مرکزی متکلم کردار، جو بعض اوقات اصغر ندیم سید کا افسانوی روپ معلوم پڑتا ہے یوں کہتا ہے کہ،
”ضیاء الحق نے مزید یہ کام کیا کہ مذہبی بنیادوں پر پاکستان کو مزید تقسیم کرنے کے لیے دینی مدارس کو بے طرح سے گرانٹیں دینے کے ساتھ زمینیں، عمارتیں اور لامحدود وسائل کی سہولیات دینے سے فرقہ واریت کے جن کو بوتل سے نکال دیا۔ جس نے اگلے کئی سو سالوں تک پاکستان کی سیاست، ثقافت، تہذیب و تمدن کو اپنی مرضی سے مرتب کرنا تھا۔31“
فرقہ واریت ایک ایسا زہر ہے جو آہستہ آہستہ اپنا اثر دکھاتا ہے اور ملکی ترقی، استحکام اور سالمیت کی جڑوں کو کمزور کر کے تباہ کرنے کا سبب بنتا ہے۔ ضیاء الحق کے دور میں پروان چڑھتی مذہبیت کے حوالے سے عبداللہ حسین نے اپنے ناولٹ ”قید“ میں یوں لکھا ہے کہ،
”ایک زمانہ پھر ایسا بھی آیا کہ ملک میں جرنیلوں کی حکومت ہو گئی۔ جس طرح سیاست دانوں نے اسلام اور توحید کے مبارک نام پر قوم کو یکجا رکھنے کی کوشش کی تھی۔ جب جرنیل سیاست پر قابض ہوئے تو انہوں نے بھی یہ بنا بنایا حربہ مستعار لے لیا۔ ملک کی مسلح افواج نے ایک ایسا پلٹا کھایا کہ ان کی انگریزیت دیکھتے دیکھتے غائب ہو گئی۔ جہاں وہ پہلے صرف انگریزی بولتے اور کلبوں میں پی پلا کر ناچ کرتے تھے۔ اب یکایک انہی افسروں نے نمازیں پڑھنی اور حج اور عمرہ وغیرہ کے فریضہ ادا کرنے شروع کر دیے۔32“
مذہبی جماعتوں کو ملکی خرچے پر بیرونِ ملک تبلیغی سرگرمیوں کے لیے بھیجا جانے لگا۔ اکثر تبلیغی جماعتوں میں ایسے لوگ بھی شامل ہو جاتے جن کا ارادہ غیر قانونی طریقے سے یورپی ممالک میں گھسنے کا ہوتا۔ جب تبلیغی جماعت کسی بھی مغربی ملک میں پہنچتی، وہ لوگ جنہوں نے تبلیغ کے نام پر ویزے حاصل کرتے ہوئے اپنے اصل مقصد کے حصول کے لیے تبلیغی جماعت کو ذریعہ بنایا ہوتا، غیب ہو جاتے۔ اگر پکڑے بھی جاتے تو خود کو سیاسی پناہ گزیں یا احمدی اقلیت قرار دیتے ہوئے مراعات حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے۔ ایسے ہی ایک کردار جو کہ قتل کے کیس میں جیل میں قید تھا کی ترجمانی مرکزی کردار نے کی۔ اس شخص نے بتایا کہ وہ تبلیغی جماعت کے ہمراہ لندن آیا، اور چپکے سے الگ ہو گیا۔ پھر اس نے ایک گوری سے شادی کی اور آخر اسے مار دیا۔ اس شخص نے اپنی گوری بیوی کو محض اس وجہ سے مار ڈالا تھا کہ وہ اسلام قبول کرنے سے انکاری تھی۔ اسی طرح ایک باپ نے اپنی بیٹیوں کو ان کی پسند کی شادی سے انکار کے جرم میں قتل کر دیا اور ایک بیٹے نے مولوی کی تقریریں سن سن کر ماں کو اس لالچ میں قتل کر دیا کہ زانی عورت کو قتل کرنے سے جنت ملا کرتی ہے۔ ناول میں موجود یہ سارے واقعات پڑھ کر جہاں عبداللہ حسین کے ناول ”قید“ کا وہ منظر یاد آ جاتا ہے کہ جہاں مسجد کی سیڑھیوں پر پڑے نومولود بچے کو صرف اس وجہ سے پتھروں سے کچل دیا جاتا ہے، کیونکہ وہ غیر شرعی ازدواجی تعلق کے نتیجے میں پیدا ہوا ہے۔ وہیں پاکستان کے موجودہ حالات بھی ویسے ہی نظر آتے ہیں کہ لوگوں کو سرِ عام اس وجہ سے جلایا جاتا ہے اور ان کے گھروں کو اس وجہ سے تباہ و برباد کر دیا جاتا ہے کہ ان پر مذہبی توہین کرنے کا شک گزرتا ہے۔ سیالکوٹ، سوات اور لاہور کی جوزف کالونی کے واقعات اس کی واضح امثال ہیں۔ یہ دراصل ہمارے معاشرے کی تلخ حقیقت ہے کہ پاکستانی قوم ہمیشہ سے ہی مذہبی جنونی رہی ہے۔ وہ مذہب کے نام پر کبھی بھی، کسی بھی جگہ، کسی کو بھی موت کی گھاٹ اتار سکتی ہے۔ اس کے پیچھے محرک قوم کی اجتماعی جہالت اور مذہب کی غلط تشریح ہے۔
جانے کب کون کسے مار دے کافر کہہ کے
شہر کا شہر مسلمان ہوا پھرتا ہے33
ملک کو جہاں مذہبی بنیادوں پر تقسیم کرنے کا منصوبہ بناتے ہوئے اقتدار کو مضبوط کرنے کی کوشش کی گئی۔ وہاں ملک کو صوبائی، نسلی اور لسانی بنیادوں پر بھی تقسیم کرنے کے راستے تلاش کیے گئے۔ تاریخ اپنے آپ کو ایک نئی صورت میں پیش کر رہی تھی۔ انگریز نے Divide & Rule متعارف کروایا تھا، جسے ضیاء الحق ایک نئی شکل میں پاکستان میں تجربہ کر رہا تھا۔ تمام صوبوں میں لسانی دراڑ ڈالتے ہوئے صوبائیت پرستی کو ہوا دی گئی۔
”سندھ کو لسانی بنیادوں پر تقسیم کیا جا رہا تھا۔ بلوچی، سندھی اور مہاجروں کے درمیان کراچی کی تقسیم کا عمل شروع ہو چکا تھا۔ اس کا اثر پنجاب پر بھی پڑنے لگی۔34“
کسی بھی ایسے خطے کو جہاں مختلف زبانیں بولنے والے لوگ رہتے ہوں، لسانی بنیادی پر تقسیم کرنا آسان ہوتا ہے۔ 1971ء میں بنگلہ دیش کے قیام کے در پردہ محرکات میں دیگر عناصر کے علاوہ زبان کے تنازعے کا بھی بہت بڑا کردار تھا۔ یہی کارڈ دوبارہ 80 کی دہائی میں کھیلا جانے لگا اور صوبوں میں لسانی زنجیر کھینچی جانے لگی۔ سندھی، پنجابی اور بلوچی کی تقسیم کرتے ہوئے نفرت کا بیج بویا گیا۔
”ملک تقسیم در تقسیم ہونے کے لیے آمادہ ہے اور جنرل ضیاء الحق اس تقسیم کے لیے آئی ایس آئی اور دیگر اداروں کو استعمال کر کے اسی مشن پر ہے کہ پاکستان نسلوں، زبانوں، علاقوں اور ذاتوں میں تقسیم ہو جانا چاہیے تاکہ اس پاکستان پر کاٹھی ڈالنا آسان ہو جائے۔35“
یہ ہے وہ اصل مقصد جس کے لیے ملک کو مذہبی، لسانی، صوبائی اور نسلی بنیادوں پر تقسیم کیا گیا اور یہ کلچر آج تک جاری ہے۔ اس کا آغاز جنرل ضیاء الحق کے منصوبے کا حصہ تھا۔ اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان ابھی تک اس پالیسی سے باہر نہیں نکل سکا جو جنرل ضیاء الحق نے لاگو کی تھی۔
ضیاء الحق نے جیسے ہی ملک میں مارشل لاء نافذ کیا تو ان لوگوں کی چاندی ہو گئی جو مارشل لاء کے حامی تھے۔ ان آفیسرز کو وسیع پیمانے پر زمینیں الاٹ کی جانے لگیں جنہوں نے مارشل لاء کے لیے راہ ہموار کی تھی۔ ضیاء الحق کے ہی دور میں پہلی مرتبہ فوج نے رئیل اسٹیٹ میں قدم رکھا اور ڈیفنس سوسائٹیز متعارف کروائی گئیں۔ اس حوالے سے اصغر ندیم سید نے ناول میں یوں لکھا ہے کہ،
”پاکستان کور کمانڈرز اور فوجی اشرافیہ نے اس موقع کو غنیمت سمجھ کے فوج کے لیے کاروباری مواقع کا کارپوریٹ کلچر متعارف کرا دیا۔ یہ سب عالمی معیشت کی طاقتور حکمت عملی کے باعث ممکن ہو گیا اور پاکستانی افواج نے رئیل اسٹیٹ میں قدم رکھ دیا۔۔۔ تو ایسے میں ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی نے جنم لیا۔36“
یہ نکتہ بڑا قابلِ غور ہے کہ جب ہم فوج کی یہ پالیسی دیکھتے ہیں کہ وہ اپنے حامیوں کو زمینیں الاٹ کر رہی ہے تو نوآبادیاتی عہد کا وہ انگریزی کلچر یاد آ جاتا ہے کہ کس طرح انگریز، ان نوابین اور جاگیر داروں کو مزید زمینیں الاٹ کر دیا کرتے تھے جو ان کے احکامات کو لاگو کروانے میں سرگرم ہوتے تھے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ فوج کی زمینیں الاٹ کرنے کی پالیسی اسی انگریز پالیسی کی توسیع ہے۔ اگر یہ اسی پالیسی کی توسیع ہے تو کیا آزادی کے باوجود ہم غلام ہیں، یا یہ کہ آزادی جیسا کوئی واقعہ تاریخ میں ہوا ہی نہیں۔ ظاہر ہے کہ 1947ء کے واقعے کو کسی صورت جھٹلایا نہیں جا سکتا، کیونکہ تاریخی کتب، ادبی حوالے اور ہمارا اجتماعی لاشعور اس پر گواہ ہے۔ مگر اس آزادی کی، کی گئی تشریح پر نظر ثانی کی جا سکتی ہے۔ تقسیمِ ہند کے تناظر میں ناول میں ایک نیا زاویہ پیش کیا گیا ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ تقسیم ہند درحقیقت انگریز کا منصوبہ تھا جس کے لیے مسلمانوں نے آزادی کی عوامی تحریک کے ذریعے راہ ہموار کر دی اور انگریز ہندوستان کو تقسیم کرتے ہوئے چلے گئے۔ مگر تقسیم ایسی بنیادوں پر کر گئے کہ مستقبل میں یہ خطہ کبھی ایشیائی طاقت بن کر ابھر نہ سکے۔ ناول کا ایک مؤرخ کردار لندن کے نہرو سینٹر میں کھڑا، اس حوالے سے یوں بیان کرتا ہے کہ،
”جناح صاحب نے پاکستان نہیں بنایا، یہ انگریزوں نے بنایا ہے جن کی زمین پر کھڑا ہو کر میں لیکچر دے رہا ہوں۔ جناح صاحب نے صرف انگریزوں کے ہاتھ مضبوط کیے اور انہیں ہندوستان کی تقسیم کرنے کا عمومی اور قانونی راستہ دکھایا۔ وہ ایسے کہ انگریزوں کو کوئی عوامی تحریک چاہیے تھی۔ جناح صاحب نے عوامی تحریک فراہم کر دی۔37“
ناول میں یہ نکتہ اُٹھایا گیا ہے کہ تاریخ ہمیشہ تاریخ دان اور فاتح کے نقطہء نظر سے لکھی جاتی ہے۔ اس لیے بعض سچائیاں جھوٹ سے ڈر کر پسِ پردہ چھپ جاتی ہیں۔ ہندوستانی تقسیم کا منصوبہ ونسٹن چرچل(1874ء-1965ء) نے بنایا تھا اور جب لارڈ ماؤنٹ بیٹن(1900ء-1979ء) تقسیمِ ہند کا پلان لے کر ہندوستان پہنچا اور ہندوستانیوں کے لیڈروں کو بتایا گیا کہ برصغیر کو تقسیم کر دیا جائے گا۔ اس پر محمد علی جناح(1876ء-1948ء) نے کہا وہ اس کی منظوری اپنی پارٹی سے بات چیت کیے بغیر نہیں دے سکتے تو ماؤنٹ بیٹن نے تاریخی جواب دیا،
”Mr۔ Jinnah this Is not a suggestion, this Is an announcement۔“38
یہ سارا معاملہ بی بی سی نے اپنی ایک فلم ”Viceroy's House“ میں بھی فلمایا ہے۔
یہ ایک ایسا معاملہ ہے جو پاکستان کی آزادی کو شک کی نگاہ سے دیکھنے پر مجبور کرتا ہے کہ کیا یہ وہی آزادی ہے جس کا خواب تمام مسلمانوں نے دیکھا تھا یا یہ محض ایک ایسی زمین کا ٹکڑا ہے جو انگریزوں کے منصوبے کے مطابق مسلمانوں کو رہنے کے لیے دے دیا گیا۔ آزادی کے بعد پاکستان کے اندر جو نظام ترتیب پایا اس کی بنیاد رکھنے والے بھی دراصل انگریز ہی تھے، براہ راست نہ سہی بالواسطہ سہی۔ ہوا یہ کہ پاکستان بنتے ہی فوجی تسلط قائم ہونا شروع ہوا۔ یہ وہ فوج تھی جو متحدہ برصغیر میں انگریزی تربیت یافتہ، انگریزی قانون کے تحت کام کیا کرتی تھی۔ وہ نظام ایک ایسا نظام تھا جو غلاموں کے لیے ترتیب دیا گیا تھا۔ اس نظام میں انگریز حاکم تھے اور برصغیر کی عوام غلام۔ جب پاکستان بنا تو پاکستانی فوج نے بھی اسی انگریزی نظام کو اپناتے ہوئے خود کو حاکم اور عوام کو غلام کا درجہ دیا، وہی نظام آج تک چلتا آ رہا ہے۔
”جناح صاحب کے پاکستان کو پاکستانی فوج نے گود لے لیا۔ یہ وہ فوج تھی جو انگریزوں کی سدھائی ہوئی تھی۔ اوپر سے نیچے تک ایک سسٹم میں جکڑے ہوئے۔ اس لیے پاکستان میں بار بار فوجی حکومتیں آتی رہیں گی۔ بیچ میں کبھی جمہوریت کے نام پر انہی کی گود میں پلے ہوئے تاجر سیاستدان کی شیروانی پہن کے آتے رہیں گے، جاتے رہیں گے۔ اصل باگ ان کے ہاتھ ہی میں رہے گی۔39“
یہ اقتباس پاکستان کی ستتر سالہ تاریخ کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ اگر پاکستان کی سیاست کی تاریخ بیان کرنا ہو تو یہ اقتباس اس کے لیے کافی ہے۔ اس میں وہ سب راز پوشیدہ ہیں جو پاکستانی تاریخ پر سیاہ ادوار کا باعث بنے اور ابھی تک وہی سیاہ دور چل رہا ہے۔ یہ اصغر ندیم سید کا تاریخی شعور ہے جو بیک وقت ماضی، حال اور مستقبل کو باہم یکجا کر دیتا ہے اور اس سے تاریخی حقیقت سامنے آتی ہے۔
ضیاء الحق کے دور میں سیاست میں پیسے کا تڑکا لگایا گیا اور اسمبلی میں Floor Crossing کا کلچر متعارف ہوا۔ ضیاء الحق کیوں کے مارشل لاء ڈکٹیٹر تھا، اس لیے اس کے لیے ضروری تھا کہ وہ ایسے سیاست دانوں کی حمایت حاصل کرے جو اس کے اقتدار کو مضبوط کر سکیں۔ اس کے لیے اس نے سیاست دانوں کو مختلف حربوں سے خریدنا شروع کر دیا۔ موجودہ عہد میں اسمبلی میں وسیع پیمانے پر، سیاست دانوں کی وابستگیوں کی تبدیلیاں ہوتی ہیں، اس کا آغاز ضیاء الحق کے دورِ اقتدار میں ہی ہوا تھا۔ ناول کے مرکزی کردار کو جب پارٹی ٹکٹ دینے کی بات کی جاتی ہے تو وہ ٹکٹ لینے اور الیکشن لڑنے سے انکار کر دیتا ہے کیونکہ وہ ایک ایسا آدمی ہے جس کے پاس اتنا پیسہ نہیں کہ وہ الیکشن جیت سکے۔ اس حوالے سے وہ بے نظیر بھٹو(1953ء-2007ء) سے یوں گفتگو کرتا ہے کہ،
”دیکھیں بی بی صاحبہ! ضیاء الحق اپنی legacy بنا رہا ہے اور وہ یہ legacy چھوڑ جائے گا اور وہ یہ ہے کہ اس نے سیاست دانوں میں پھوٹ ڈالنے کے لیے انہیں خریدنا شروع کر دیا ہے۔ اس نے اپنی شوریٰ بنانے کے لیے بہت کچھ رشوت کے طور پر انہیں آفر کی تھی اور اب سول حکومت بنانے کے لیے سیاست دانوں کی وفاداریوں کو توڑنے کے لیے بہت بڑی قیمت لگا رہا ہے۔40“
یہ محض ایک اقتباس نہیں، اس میں پاکستانی سیاست کی اندرونی کہانی کھولی گئی ہے کہ درحقیقت سیاستدان عوامی حمایت حاصل کرنے کے بعد کتنے قیمتی ہو جاتے ہیں کہ وہ اپنی قیمت جو چاہیں لگا سکتے ہیں۔ اس کی ایک مثال بھی ناول میں موجود ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد پاکستانی عوام جذباتی سطح پر مارشل لاء کے خلاف ہو گئی تھی۔ جس کا فائدہ براہ راست ذوالفقار علی بھٹو کی پارٹی سے وابستہ سیاست دانوں کو ہوا۔ انہوں نے اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے خود ساختہ جلاوطنی اختیار کی تاکہ عوام یہ سمجھے کہ سیاستدان کتنے بڑے عتاب سے گزرتے ہوئے، کیسے کیسے مظالم برداشت کر رہے ہیں۔ ضیاء الحق کے لیے ضروری ہو گیا تھا کہ اگر وہ سول حکومت کے ذریعے اپنے اقتدار کو مضبوط کرنا چاہتا تو اسے ذوالفقار علی بھٹو کی پارٹی کے لیڈروں کو شامل کرنا تھا۔ اسی مقصد کے لیے اس نے رضوی (سید علی نواز شاہ رضوی پ 1942ء) اور جتوئی(عبد الحمید جتوئی1919ء-2004ء)، جو کہ سیاسی جلاوطنی کے سبب لندن میں مقیم تھے، کے پاس اپنا ایک وفد بھیجا۔ وہ وفد وہاں ان کے سامنے یہ ڈیل رکھتا ہے کہ،
”آپ دونوں کے لیے پاکستانی حکومت کا پیغام ہے کہ آپ اگر واپس پاکستان آ کر حکومت میں شامل ہو جائیں تو آپ پر تمام کیس واپس لے لیے جائیں گے۔ ویسے بھی مرنے والے زندہ نہیں ہوا کرتے۔ ایک دور ختم، دوسرا شروع۔ آپ دونوں کو مرضی کے عہدے دے دیے جائیں گے۔41“
یہ پاکستانی تاریخ کا کتنا بڑا راز ہے کہ ایک شخص اپنے مفاد کے لیے ملکی مفاد کو چھوڑ ایک ایسا کلچر متعارف کرواتا ہے جو سیاسی تاریخ کا ایک نیا باب بن کر ابھرتا ہے۔ یہ اسی کلچر کا تسلسل تھا کہ 2022ء میں ایک پارٹی کی حکومت ختم کرواتے ہوئے ایک ایسی حکومت بنائی گئی جس کی باگ ڈور کسی اور کے ہاتھ میں تھی۔
ضیاء الحق کا گیارہ سالہ اقتدار جب جہاز کے اندر تباہ ہوا تو اس کے بعد بے نظیر بھٹو اور اس کی پارٹی کے لیے پاکستان واپسی کی راہ ہموار ہونا شروع ہوئی۔ جب ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی ہوئی، تو ان کے حمایتوں پر عتاب نازل ہوا اور ان سے جیلوں کو بھر دیا گیا۔ وہاں انہوں نے ظلم و ستم برداشت کیے، کوئی جان کی بازی ہار گیا تو کوئی آخری سانس بچانے میں کامیاب رہا۔ ایسے میں جہاز کا اغواء اور پھر سیاسی قیدیوں کی جلاوطنی کا واقعہ ہوا اور کئی لوگ اپنے خاندان سے دور ہوئے۔ مرکزی کردار بھی ان میں سے ایک تھا، جس نے اپنا نومولود بچہ اور اپنی بیوی چھوڑتے ہوئے وطن کھویا تھا، اور اپنی پہچان مٹا کر سیاسی پناہ گزیں قرار پایا تھا۔ لندن میں مرکزی کردار ”صدائے پاکستان“ اخبار سے وابستہ تھا۔ اس نے ”صدائے پاکستان“ اخبار کا سہارا لے کر بھٹو کا لندن میں عوامی جلسہ کروانے کی راہ ہموار کی۔ اس کے لیے اس نے اخبار کو ایک ایسے جنرل سٹور میں بدل دیا جہاں مخالف بیانات بیک وقت موجود تھے۔ یوں اخبار کی اشاعت بڑھی اور عوام تک پہنچ میں بھی اضافہ ہوا۔
”پاکستانی اخبارات بھی اسی سے خود کو مقبول بنا رہے تھے، یعنی جنرل سٹور کھول دو، سب کا مال رکھ دو، جو بھی گاہک آئے اسے اپنی پسند کا سامان مل جائے۔ اخبار کو جنرل سٹور تو بننا ہی ہوتا ہے۔42“
کامیاب جلسہ ہوا، بے نظیر بھٹو کو لندن کے عوام کی حمایت حاصل ہوئی۔ انٹرنیشنل میڈیا بول اٹھا اور آخر امریکہ کی طرف سے بے نظیر بھٹو کو پاکستان جانے کا اشارہ ملا۔ یوں تمام سیاسی لیڈروں کا واپس پاکستان جانے کا وقت آن پہنچا اور تیاریاں ہونے لگیں۔ پارٹی میٹنگ کے لیے قادر سولنگی مرکزی کردار کو بلانے آتا ہے اور یوں اطلاع دیتا ہے کہ ”او جناب بی بی صاحبہ لاہور جا رہی ہیں۔ اجازت نکل آئی ہے امریکہ بہادر سے۔43“
یہ پاکستان کا المیہ رہا ہے کہ وہ کبھی بھی حقیقی معنوں میں آزاد نہیں ہو سکا۔ کبھی برطانیہ کی غلامی کی تو کبھی امریکہ کے فیصلوں کے آگے سر تسلیم خم کیا۔ یہ سلسلہ آج تک جاری ہے اور آئے دن بیرونی مداخلت کے حوالے سے نئی نئی کہانیاں سامنے آتی ہیں۔
واپس پاکستان جانے کا وقت آیا تو ان سیاسی ورکرز کو بُھلا دیا گیا جنہوں نے پارٹی کے لیے جیلوں میں ماریں کھائیں، اپنے عزیز رشتے داروں کو مصیبت میں ڈالا اور اپنے وطن کو چھوڑ لندن میں سیاسی اپنا گزیں بن کر تنہائی میں پل پل مرتے رہے۔ اس وقت وہ لوگ سب سے آگے تھے جنہوں نے پارٹی کے لیے کچھ بھی قربانی نہیں دی تھی۔ وہ بھٹو کی پھانسی سے قبل اپنا کاروبار لندن شفٹ کر چکے تھے، مگر انہوں نے اس منظر نامے کو سیاسی پناہ اور جلاوطنی کا ایسا روپ دیا کہ انہیں نوازا جانے لگا۔ یہاں اصغر ندیم سید نے پاکستانی سیاسی منافقت کو موضوع بنایا ہے کہ پاکستانی تاریخ میں ہمیشہ وہ لوگ اعلی عہدوں پر بٹھائے جاتے رہے جنہیں خود کے فیصلوں کو جبریت کا روپ دینا اور اپنی خوشی کو خود پر ظلم ہوتے ہوئے دکھانا آتا تھا۔
”اب جو لوگ آئے ان میں چوری کھانے والے مجنوں بھی تھے۔ ایسے جیالے بھی تھے جنہوں نے کوئی قربانی نہیں دی تھی۔ ایسے سیاست دان بھی تھے جو مارشل لاء سے پہلے اور بھٹو کی پھانسی سے پہلے انگلینڈ میں کاروبار کے لیے آ چکے تھے اور ان کا بس اتنا کنٹری بیوشن پارٹی کے لیے تھا کہ بھٹو کی پھانسی پر دس بیس لوگوں نے لندن میں احتجاج کیا تھا اور وہ کسی کو بھی یاد نہیں تھا۔44“
بے نظیر بھٹو جس جہاز میں لندن سے لاہور کے لیے روانہ ہوئیں اس میں سیاسی پناہ گزیں اور شاعروں کے بجائے وہ لوگ شامل تھے جنہوں نے پارٹی کے لیے چندے کے روپ میں پیسہ دیا تھا۔ لاہور میں بے نظیر بھٹو کا بھرپور استقبال ہوا اور آخر وہ پاکستانی وزیراعظم بھی بنیں، مگر ان کی جمہوریت بھی محض کٹھ پتلی ثابت ہوئی۔
1950ء کے بعد سے ہی پاکستانی لوگوں میں کاروبار کی غرض سے، دوسرے ملکوں جانے کا رجحان بڑا۔ اِن میں اُن علاقوں کے لوگوں کی کثرت تھی جہاں ملازمت کے مواقع کم تھے۔ اس لیے جب مختلف شہروں کے اوورسیز پاکستانیوں کی شرح پر نظر ڈالی جائے تو فیصل آباد کی شرح سب سے کم دیکھنے کو ملتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ فیصل آباد ایک انڈسٹریل شہر تھا اس لیے یہاں ملازمت کے مواقع دیگر شہروں کی بنسبت زیادہ تھے۔ اس لیے اس شہر کے لوگوں میں دوسرے ملکوں ملازمت کی غرض سے جانے کا وہ رجحان نہ بن پایا جو لاہور اور گجرانوالہ کے لوگوں میں دیکھنے کو آیا۔ ایوب خان کے دور میں دوسرے ملکوں جانے والے لوگوں کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ اس کا ایک محرک یہ تھا کہ میرپور اور اس سے ملحقہ علاقوں میں ڈیم تعمیر کیے گئے اور وہاں کے رہائشیوں کو حکومتی سرپرستی میں دوسرے ملکوں میں بھیجا جانے لگا۔ زیادہ تر لوگوں کو برطانیہ کے ویزے دیے گئے اور برطانیہ نے بھی اپنے دروازے ان لوگوں کے لیے کھول دیے۔ وجہ یہ تھی کہ جنگِ عظیم دوم(1939ء-1945ء) کے بعد برطانیہ سنبھل رہا تھا اور بے شمار نوکریاں موجود تھیں۔ ایسے میں ان لوگوں کی ضرورت تھی جو خدمت کے فرائض انجام دے سکیں۔ اس لیے پاکستان اور ہندوستان سے بے شمار لوگ اسی عرصے میں برطانیہ پہنچے۔
ضیاء الحق کے دور میں ایسی کئی وجوہات سامنے آئیں جس کی بدولت وسیع سطح پر پاکستانی دوسرے ملکوں خصوصا برطانیہ پہنچے اس کے پیچھے ایک محرک سیاسی جبریت تھا تو دوسرا مذہبی کارڈ۔ ضیاء الحق ان لوگوں کو ملک بدر کرنا چاہتا تھا جو اس کے خلاف آواز بلند کرتے تھے۔ ایسے میں جہاز اغواء ہونے کا واقعہ ہوا اور ضیاءالحق کو ایک ایسا رستہ مل گیا جس کی بدولت اس نے تمام سیاسی قیدیوں کو لندن روانہ کر دیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے جب احمدیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا تو انہوں نے پاکستان میں مذہبی حوالے سے عدم تحفظ ہونے کی آڑ میں ویزے حاصل کیے، تو دوسری طرف ضیاءالحق کے دورِ حکومت میں، مذہبی جماعتوں کو تبلیغی سرگرمیوں کے لیے فنڈز ملنا شروع ہوئے اور انہیں غیر مسلم ممالک بھیجا جانے لگا۔ جو لوگ ایک بار برطانیہ پہنچ جاتے پاکستانی عوام کی نظر میں وہ وائسرائے کا درجہ اختیار کر لیتے۔ کیونکہ پاکستانی لوگ یہ خیال کرتے تھے کہ برطانیہ میں مقیم پاکستانی وہاں اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں اور گوروں پر حکم چلاتے ہوئے ان مظالم کا بدلہ لے رہے ہیں جو انہوں نے ہندوستانیوں پر کیے۔
”جو پاکستانی برطانیہ گئے اور انہوں نے برطانوی شہریت لے لی تو پاکستانیوں کے نزدیک ان کی وہی حیثیت قرار پائی جو وائسرائے کی سمجھی جاتی ہے۔45“
ایسے اوورسیز پاکستانیوں میں سے جب کوئی شخص پاکستان، کسی عورت سے شادی کا پیغام بھیجتا تو اس عورت کے گھر والے شادی کی تیاریاں شروع کر دیتے۔ وہ یہ پوچھنا بھی مناسب نہ سمجھتے کہ لڑکا وہاں کیا کام کرتا ہے۔ کیا اس نے وہاں کسی گوری سے شادی تو نہیں کی۔ وہ فون پر لڑکے اور لڑکی کا نکاح پڑھوا، اپنی بیٹی کو عروسی جوڑے میں، جہاز پر بٹھا، لندن روانہ کر دیتے۔ یوں شادیوں کی آڑ میں سمگلنگ کے کاروبار میں اضافہ ہوا۔ ہوتا یہ تھا کہ جب عورت کو جہاز پر بٹھایا جاتا تو اس کے سامان میں ہیروئن، چرس اور افیون یا دیگر نشہ آور چیزیں چھپا دی جاتیں۔ بعض اوقات وہ لڑکی ایئرپورٹ پر پکڑی جاتی اور جیل بھیج دی جاتی، بعض اوقات مشن مکمل ہو جاتا۔ مگر اس میں اس لڑکی کو کچھ معلوم ہی نہ ہو پاتا کہ اصل معاملہ کیا ہے اور وہ کیوں ایئرپورٹ سے جیل روانہ کر دی گئی۔ دوسری طرف سمگلنگ کی دوسری صورت بھی موجود تھی کہ نشے کے بجائے وہ عورت جو بیوی کے روپ میں لندن بھیجی جا رہی تھی، وہ خود سمگل ہو رہی ہوتی۔ وہاں اس کا شوہر اس سے دھندہ کرواتا اور خوب پاؤنڈ کماتا۔ ایسے ہی ایک لڑکی اپنی کہانی یوں سناتی ہے کہ جب وہ عروسی ملبوسات میں لندن پہنچی تو اس کے شوہر نے اس سے دھندہ کروانا شروع کر دیا اور کہا کہ یہ اس احسان کی قیمت ہے، جو اس نے اسے برطانوی شہریت دلوا کر اس پر کیا ہے۔ ایسی عورتوں کے پاس بچنے کا بس ایک ہی راستہ ہوتا کہ وہ اپنے نام نہاد شوہر کو قتل کر دیں لہٰذا وہ ہمت کر کے ایسا ہی کرتی اور یوں جیل پہنچا دی جاتیں۔
”گوروں کے بعد اس نے کالوں کو لانا شروع کر دیا اور یہ کاروبار اس نے پاکستانیوں اور بنگلہ دیشیوں تک پھیلا دیا۔ میں کمرے میں پڑی رہتی تھی اور وہ مجھے کھانا دیتا تھا جو مجھے کھانا ہوتا تھا۔ میں ایک جانور بن چکی تھی۔46“
ایک لڑکی نے مرکزی کردار کو اپنی کہانی یوں سنائی کہ اس کے چچا کا بیٹا لندن آیا تو اس نے گھر، شادی کا پیغام بھیجا۔ شادی طے پا گئی اور اسے عروسی جوڑے میں لندن روانہ کر دیا گیا۔ اسے جو زیور پہنایا گیا تھا، وہ خود اس کے شوہر نے لندن سے بھیجا تھا اور اتنا بھاری تھا کہ چلنا مشکل ہو رہا تھا۔ لندن ایئرپورٹ پر جب وہ اتری تو اسے چیکنگ روم میں بٹھایا گیا اور جب اس کے زیورات کی جانچ کی گئی تو ان کے اندر سفید سفوف بھرا تھا۔ یوں وہ جیل بھیج دی گئی جبکہ اس کا شوہر پولیس کے ہاتھ نہ آ سکا۔
”وہ مجھے ایک کمرے میں لے گئے اور انہوں نے میرے زیورات اتروائے، پھر میرا لباس اتروایا۔ پھر میرے جوتے، پھر وینٹی بکس اور پھر جو سوٹ کیس میرے ساتھ جہاز میں آیا وہ بھی کھلوایا۔ اب انہوں نے پہلے زیورات کو ایک ایک کر کے توڑا۔ اندر سے سفید سفوف باہر نکل آیا۔ مجھے نہیں معلوم وہ کیا تھا۔ انہوں نے بتایا یہ ڈرگز ہیں جن کی سزا موت ہے۔47“
یہ وہ کہانیاں ہیں جن کے پسِ پردہ کہیں نہ کہیں ضیاء الحق کی پالیسی اور دوسرے ملک جانے کے لیے راہیں ہموار کرنے کی حکمت عملی کار فرما رہی۔ مگر اس کے ساتھ پاکستانی معاشرے کی وہ غلامانہ سوچ بھی موجود ہے جس سبب والدین بغیر لڑکے سے ملاقات کیے، اس وجہ سے لڑکی کو عروسی جوڑے میں، جہاز پر بٹھا دیتے تھے کہ لڑکا لندن میں کاروبار کرتا ہے۔ مگر انہیں یہ معلوم نہیں ہوتا تھا کہ وہ لندن میں کیا کاروبار کرتا ہے۔
اس حوالے سے دوسرا پہلو بھی موجود تھا کہ وہ لوگ جو لندن میں کاروبار کر رہے تھے اور وہاں ان کی اولادیں جوان ہو چکی تھیں، چاہتے تھے کہ وہ اپنی اولاد کے رشتے اپنے آبائی ملک میں کریں۔ مگر ان کی اولادیں ایسا نہیں کرنا چاہتی تھیں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ لندن میں پیدا ہوئے اور وہیں کے ماحول میں پروان چڑھے بچے حقیقی معنوں میں انگریزی کلچر کے پروردہ تھے اور انگریزی ماحول کی جڑیں ان کے اندر اتر گئی تھیں۔ لہذا وہ کسی ایسے شخص سے شادی کیوں کر، کر سکتے تھے جو کہ ہندوستانی، بنگلہ دیشی ہو یا پاکستانی۔ ان کے والدین اس حقیقت کو تسلیم نہیں کرنا چاہتے تھے۔ انہوں نے اس وقت سے یہ خواب دیکھ رکھا تھا کہ جب وہ خوب پیسہ کما لیں گے اور ان کے بچے بڑے ہو جائیں گے تو وہ آبائی وطن لوٹ جائیں گے۔ اتنے سالوں کے انتظار کے بعد جب واپسی کا وقت آیا تو وہ بچوں کی وجہ سے اپنے خوابوں کا قتل ہونا نہیں دیکھ سکتے تھے۔
”ایشیائی باشندوں کی گھٹی اور مزاج میں ایک بات یکساں رہی ہے کہ ہجرت تو کرنی ہے کہ یہ مجبوری ہے لیکن واپس لوٹ کے آنے کی حسرت اور خواہش کو اپنے دل میں مسلسل زندہ بھی رکھنا ہے۔ اس کو جگائے رکھنا ہے۔48“
تمام خانہ بدوشوں میں مشترک ہے یہ بات
سب اپنے اپنے گھروں کو پلٹ کے دیکھتے ہیں 49
اس رویے کو ہندوستانیوں کے اجتماعی مزاج کا نام دیا جا سکتا ہے۔ تقسیم ہند کے تناظر میں دیکھا جائے تو وہاں بھی اس مزاج کی جھلکیاں ملتی ہیں۔ لوگوں نے جب پاکستان سے ہندوستان یا ہندوستان سے پاکستان ہجرت کی تو وہ اپنے آبائی گھروں کو ذاتی تالے لگا کر آئے کہ جب ہنگامے ختم ہوں گے تو وہ اپنے گھروں کو لوٹ آئیں گے۔ یہاں تک کہ قائد اعظم نے بھی اپنی بمبئی کی رہائش گاہ پر ذاتی تالا لگایا تھا۔ یہی ان لوگوں کا بھی رویہ تھا جو اپنے ملک کو چھوڑ لندن کاروبار کی غرض سے گئے تھے۔ ایسے ہی ایک لڑکی مرکزی کردار کے پاس آئی اور بتایا کہ وہ لندن میں پلی بڑھی۔ اب اس کا باپ چاہتا ہے کہ اس کی شادی امرتسر میں اس کے چچا کے بیٹے سے کر دی جائے اور وہ وہاں جا کر اس حویلی میں سکونت پذیر ہو جو اس کے والد نے وہاں بنوائی تھی۔ اس نے بتایا کہ وہ امرتسر نہیں جانا چاہتی بلکہ وہ اس انگریز سے شادی کرنا چاہتی ہے جو اس کے ساتھ سکول میں پڑھتا رہا اور اس سے محبت کرتا ہے۔
یہ ہے وہ ثقافتی فرق جسے اوورسیز لوگ سمجھنے سے قاصر تھے۔ وہ یہ تسلیم نہیں کرنا چاہتے تھے کہ ان کے بچوں میں والدین کے آبائی ملک سے محبت کا جذبہ موجود نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ پلے بڑھے برطانیہ کے شہروں میں۔ ان کا آبائی وطن برطانیہ تھا، انہوں نے جس ملک کو دیکھا تک نہ تھا، وہ اس کی محبت دل میں کیسے پال سکتے تھے۔ اس شعور کے فقدان کے سبب ایک مسلمان باپ نے اپنی بیٹیوں کو اس وجہ سے قتل کر دیا کہ وہ مسلمان لڑکوں سے شادی کرنے کے بجائے انگریز لڑکوں سے محبت کرتی ہیں۔ یہ ہجرت کے کرب کا شکار لوگوں کا المیہ ہے کہ انہوں نے اپنا وطن صرف اس خواب کے لیے چھوڑا تاکہ وہ آبائی وطن میں واپس آ کر بچوں کو بہتر مستقبل دے سکیں، مگر وہ یہ بھول گئے کہ جب ان کے بچوں کی پرورش کسی دوسرے ملک میں ہوگی تو وہ والدین کے وطن سے کیسے محبت کریں گے۔ یہی وہ کہانیاں ہیں جو تاریخ کے سیاہ گوشوں میں پوشیدہ ہیں۔
کسی بھی ملک کا سینما اس ملک کی قومی ترجیحات کا عکس ہوتا ہے۔ قوم کی پسند، ناپسند، اس کی تہذیب و ثقافت، اس کا اجتماعی مزاج اور اس کی بطور قوم مخصوص سوچ/سوچنے کا انداز سینما کے عناصرِ ترکیبی میں شامل ہوتا ہے۔ یونان، روس، جاپان اور ایرانی سینما اس کی واضح امثال ہیں۔ تقسیمِ ہند کے بعد پاکستانی سینما نے ترقی کرنا شروع کی اور فلمیں بنائی جانے لگیں۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی سے پہلے بنگالی سینما نے بیالیس اردو فلمیں بنائیں جو سب عام آدمی کی زندگی کے گرد گھومتی ہیں۔ پاکستانی سینما کا یہ اہم دور تھا کیونکہ بنگالی سینما کی روایت اردو میں منتقل ہو رہی تھی۔ جب ایک زبان کی روایت دوسری زبان میں منتقل ہوتی ہے تو وہ اپنے ساتھ اپنی تہذیب و ثقافت اور صدیوں کے تجربات لے کر آتی ہے۔ مگر جب سقوطِ ڈھاکہ(16 دسمبر 1971ء) ہوا تو بنگالی سینما کی جو روایت اردو میں منتقل ہو رہی تھی اس کا راستہ بند ہو گیا۔ اب پاکستانی سینما ہندوستانی سینما کی طرف دیکھنے لگا۔ ضیاء الحق کے مارشل لاء کے دوران انڈین فلموں پر پابندی عائد کر دی گئی اور پاکستان میں فلم کے ایک خاص کلچر کو فروغ دیا گیا۔ یوں پاکستانی فلمی آرٹ غیر منطقی اور فضول مار کٹائی کی نظر ہو کر تباہ ہو گیا۔ اس کی تباہی کی دوسری وجہ یہ تھی کہ پاکستانی سینما انڈین سینما کا چربہ تھا۔ وہ ایسے کہ پاکستان میں انڈین فلمیں بین تھیں، فلم بنانے والے بنگلہ دیش جا کر وہاں انڈین فلمیں دیکھ آتے اور پاکستان میں اس کی نقول تیار کر کے سینما گھروں میں لگا دی جاتیں۔ ضیاء الحق کے دور میں پاکستانی سینما اس قدر تباہ ہوا کہ وہ اعلیٰ آرٹ کے بجائے محض تیسرے درجے کی تفریح کا ذریعہ بن گیا۔ اس وقت سینما سے وہ لوگ وابستہ ہو چکے تھے جن کا مقصد پیسہ کمانا تھا۔ انٹلیکچوئل لوگوں پر پابندیاں عائد تھی، اس سیاہ دور میں وہ جو کچھ کہنا چاہتے تھے وہ نہیں کہہ پاتے تھے۔ یوں وہ فلمی آرٹ سے دور ہوتے گئے۔ یوں بزنس کرنے کی راہ ہموار ہو چکی تھی۔ کاروباری لوگوں کو اس سے کوئی غرض نہ تھی کہ فلم میں کیا دکھایا جا رہا ہے، ان کا واحد مقصد پیسہ کمانا تھا اور وہ پورا ہوتا رہا، مگر پاکستانی سینما تباہ و برباد ہوتا گیا۔
”ضیاء الحق یہ چاہتا تھا کہ مرد حضرات افیون کی طرح فلموں میں مست ہو جائیں اور سینما ہال بھرے رہیں۔ ایسے میں صرف وہ مرد حضرات ہی سینما جا سکتے تھے جن کا ذوق نہیں تھا۔ جو موٹر ورکشاپ پر کام کرتے یا معمولی دکانوں پر دیہاڑی کماتے تھے۔ وہ سینما جا کر دن بھر کی مشقت دور کرنے کے لیے گھٹیا ڈانس اور بے معنی فائٹ دیکھ کر اپنا کتھارسس کر کے گھر چلے جاتے تھے۔50“
سینما کی تباہی کے پیچھے ایک اور محرک بھی کار فرما تھا، وہ یہ کہ سینما کی آڑ میں عورتوں کی سمگلنگ کا کاروبار جڑ پکڑ چکا تھا۔ یہ پاکستانی سینما کی تاریخ کا سیاہ باب ہے کہ کیسے ہیرون بنانے کے خواب میں، عورتوں کا استحصال کیا جاتا رہا۔ ضیاء الحق کے دور میں فلمیں آرٹ کے بجائے عورتوں کی سمگلنگ کا ذریعہ بن کر رہ گئی۔ یوں پاکستانی سینما کبھی پنپ ہی نہ سکا۔
”اب فلمیں صرف اور صرف عورتوں کے دھندے کے کاروبار کا ذریعہ بن چکی تھیں جس میں سٹوڈیو مالکان، فلمی صحافی، ڈائریکٹر، تکنیک کار، ڈسٹری بیوٹر سبھی ملوث ہو چکے تھے کہ سب کی روٹی روزی عورتوں کی دلالی کے ساتھ جڑی ہوئی تھی۔51“
ناول میں جہاں پاکستانی سینما کی تباہی کو تاریخی حوالوں کے ساتھ پیش کیا گیا ہے وہاں بھارتی کتھک کے فن کو ناول میں تفصیلاً بیان کیا گیا ہے۔ اس کام کے لیے اصغر ندیم سید نے بنگالی لڑکی، جس کا نام دیپتی بینرجی ہے، کے کردار کا سہارا لیا ہے۔ دیپتی کتھک کرتی ہے اور کتھک کے ذریعے کہانی کہنے کے فن میں ماہر ہے۔ وہ ایسے کتھک پیش کرتی ہے کہ رقص باقی رہتا ہے اور رقاص غائب ہو جاتا ہے۔ اس کردار نے مرکزی کردار کی شاعری کو کوریو گراف کیا اور جلاوطنی کے کرب کو کتھک میں ڈھالا۔ مرکزی کردار ناول میں ایک جگہ یوں کہتا ہے کہ،
”دیپتی کو بنگال کے سارے اسالیب یاد تھے اور میں نے دیو مالائی کہانیوں اور نظموں سے لے کر غلام قوموں کے مزاحمتی کرداروں کا سہارا لے کر ایسا رزمیہ تیار کیا کہ پاکستان کے حالات خود بخود اس استعارے میں ڈھل جائیں۔52“
یہ بات تاریخی حوالے سے بڑی معنی خیز ہے کہ جو بات براہ راست نہیں کہی جا سکتی، اسے فنونِ لطیفہ کا سہارا لے کر بخوبی پہنچایا جا سکتا ہے۔ مرکزی کردار اور دیپتی یہی حربہ اپناتے ہوئے وہ تمام کہہ ڈالتے ہیں جو پاکستان کے سیاسی پناہ گزینوں نے برداشت کیا مگر کہنے کا حوصلہ نہ کر سکے۔
ہندوستانی معاشرے میں طوائف کا ہمیشہ اہم مقام رہا ہے۔ اگر 1857ء کے بعد کے ہندوستان کو دیکھا جائے تو دہلی اور لکھنؤ دو ایسے مراکز تھے جہاں کی ثقافت، طوائف کے بغیر ادھوری تصور کی جاتی تھی۔ خصوصاً لکھنؤ میں طوائف کے ادارے کو اتنا فروغ ملا کہ نوابین اپنے بیٹوں کو تہذیب سیکھنے کوٹھوں پر بھیجنے لگے۔ لاہور میں بھی یہی منظر ہوا کرتا تھا اور لاہور کے بازارِ حُسن کی اپنی باقاعدہ ایک روایت اور تہذیب و ثقافت تھی۔ مگر جیسے جیسے وقت بدلتا گیا نہ وہ نواب رہے جو ناز نخرے اُٹھایا کرتے تھے اور نہ ہی وہ طوائفیں رہیں جو فنونِ لطیفہ پر عبور رکھتی تھیں۔ یوں کوٹھوں کی اہمیت کم ہوتی گئی اور جسم فروشی کی مانگ بڑھتی گئی۔ یوں کوٹھے محض جسم فروشی کی اڈے قرار پائے۔
ایسا ناول جس میں فنونِ لطیفہ کو موضوع بنایا جائے، ضروری ہے کہ اس میں طوائف کا بھی ذکر ہو۔ طوائف کسی عادت یا پیشے کا نام نہیں بلکہ یہ قسمت ہے جسے بدلا جانا تقریباً ناممکن ہوتا ہے۔ جب مرکزی کردار اور دیپتی بمبئی شو کرنے جاتے ہیں تو وہاں انہیں ایک طوائف ملتی ہے جو انہیں اپنے گھر آنے کی دعوت دیتی ہے۔ جب مرکزی کردار اس سے پوچھتا ہے کہ وہ طوائف کیسے بنی تو وہ کہتی ہے کہ طوائف بننے میں وقت ہی کتنا لگتا ہے۔ بس لباس جسم سے اتار دو اور من چاہی قیمت حاصل کرو۔ وہ کہتی ہے کہ ہر عورت کی الگ الگ قیمت ہوا کرتی ہے، جب وہ اسے مل جائے تو ہر عورت طوائف ہے۔ وہ مرکزی کردار اور دیپتی کو اپنے گھر آنے کی یوں دعوت دیتے ہوئے چلی جاتی ہے کہ ”میں آپ کو صرف جسموں کا ناچ دکھاؤں گی، وہ جسم جو دن رات صرف جسم ہی ہوتے ہیں۔53“
کوٹھے کی بدلتی تاریخ کے اعتبار سے یہ ایسا جملہ ہے جو اپنے اندر طوائفیت کے ادارے کی مٹتی تہذیب و ثقافت کا المیہ سموئے ہوئے ہے۔ وہ بالا خانے جو کبھی تہذیب سیکھنے اور شائستگی کی علامت ہوا کرتے تھے، محض جسم فروشی کا استعارہ کیوں بن گئے۔ اس جملے کے اندر دو صدیوں کی کہانی پوشیدہ ہے، جو قارئین کو اپنی جانوں متوجہ کر رہی ہے کہ اسے سنا جانا چاہیے۔
جب مرکزی کردار اور دیپتی وہاں پہنچتے ہیں تو انہیں معلوم پڑتا ہے کہ وہاں جتنی بھی لڑکیاں ہیں سب زندانی تقدیر کے سبب کوٹھے کی آگ میں جھانک دی گئی ہیں۔ کوئی رشتوں کی جبریت کا شکار ٹھہری تو کسی کے دشمن اس کے اپنے خواب نکلے۔ وہ عورت جس نے مرکزی کردار اور دیپتی کو کوٹھے پر آنے کی دعوت دی تھی اس نے ایک تحریک شروع کر رکھی تھی کہ کوٹھے کی خواتین کو ہنر مند بنایا جائے تاکہ وہ جسموں کی مشقت سے آزاد ہو جائیں۔ یہاں یوں معلوم پڑتا ہے کہ اس عمل کے پیچھے تانیثی تحریک کا عمل دخل ہے، جس کا مرکزی موضوع ہی یہی ہے کہ عورت بھی خود مختار ہے۔
اصغر ندیم سید نے ناول ”جہاں آباد کی گلیاں“ میں 1977ء کے مارشل لاء کے تاریک دور میں گم ہوتی معاشرت اور دم توڑتی انسانیت کی کہانی بیان کی ہے اور بتایا ہے کہ مارشل لاء کے دوران وطنِ عزیز نے کون کون سے ایسے مظالم برداشت کیے کہ اب وہ کئی دہائیوں تک سنبھل نہ سکے گا۔“جہاں آباد کی گلیاں“ کا تاریخی حوالے سے پہلا اور بنیادی موضوع ضیاء الحق کے مارشل لاء کا سیاہ دور ہے جو ملک میں گیارہ سال مسلّط رہا۔ ناول کے کینوس میں بیک وقت پاکستانی منظر نامے کے مختلف زاویوں کو سمیٹا گیا ہے۔ مارشل لاء کے سبب پاکستان کو ہونے والے صدیوں کے خساروں کو بیان کرنے کے ساتھ ساتھ جلاوطنی کے کرب اور کروٹیں لیتی تاریخ کو موضوع بنایا گیا ہے۔ سیاست اور میڈیا کے مارشل لاء کے مخالف اور اس کی حق میں اُٹھائے گئے اقدامات پیش کیے گئے ہیں۔ رشتوں کی جبریت کی شرح میں مارشل لاء کی بدولت ہونے والے اضافے کو بھی ناول کا حصہ بنایا گیا ہے۔ اس کے علاوہ آرٹ کی دنیا، اس کی تاریخی اہمیت اور دائمی نفسانی خواہشات جیسے موضوعات بھی ناول کے صفحات پر بکھرے پڑے ہیں۔ ناول پڑھتے ہوئے قاری خود کو بیک وقت ماضی اور حال میں موجود پاتا ہے اور مستقبل کو اپنے سامنے جنم لیتا محسوس کرتا ہے۔ تاریخی شعور کا یہ مطلب ہے کہ ماضی کو حال میں اس طرح زندہ دیکھا جائے کہ ماضی اور حال میں وقت کی حائل دیوار گر جائے اور وہ دونوں باہم ایک ہو جائیں۔ ناول کی پڑھت کرتے ہوئے ہم خود کو مارشل لاء کے بھاری دور سے گزرتا محسوس کرتے ہیں اور کہیں کہیں اچانک چونک اٹھتے ہیں کہ کیا یہ ہم ہیں جس پر تاریخی واقعات گزر رہے ہیں یا ناول کا مرکزی کردار اُس جبر کو برداشت کر رہا ہے جو مارشل لاء کا مسلّط کردہ ہے۔ کہیں ہم محسوس کرتے ہیں کہ ہم مرکزی کردار کا روپ دھار چکے ہیں، اس نے ہمارے جسم کو اپنی روح کے ذریعے تسخیر کر لیا ہے۔ یوں وقت ہمارے اندر سانس لینے لگتا ہے اور تاریخ ہم پر گزرنے لگتی ہے۔
حواشی و حوالہ جات:
(1) سجاد باقر رضوی، ڈاکٹر، مغرب کے تنقیدی اصول (اسلام آباد، مقتدرہ قومی زبان پاکستان، 2012ء)، ص 261
(2) اصغر ندیم سید، جہاں آباد کی گلیاں، ص 7-9
(3) www.bbc.com، بتاریخ 28 جون 2024ء
(4) اصغر ندیم سید، جہاں آباد کی گلیاں، ص 9
(5) اصغر ندیم سید، جہاں آباد کی گلیاں، ص 10
(6) اصغر ندیم سید، جہاں آباد کی گلیاں، ص 14
(7) اصغر ندیم سید، جہاں آباد کی گلیاں، ص 13
(8) اصغر ندیم سید، جہاں آباد کی گلیاں، ص 14
(9) منیر نیازی، دشمنوں کے درمیان شام (لکھنؤ، کتاب نگر، 1975ء)، ص 54
(10) اصغر ندیم سید، جہاں آباد کی گلیاں، ص 31
(11) اصغر ندیم سید، جہاں آباد کی گلیاں، ص 18
(12) عبداللہ حسین، مجموعہ عبداللہ حسین (لاہور، سنگِ میل پبلی کیشنز، 2007ء)، ص 238
(13) اصغر ندیم سید، جہاں آباد کی گلیاں، ص 19
(14) انیس ناگی، دیوار کے پیچھے (لاہور، قوسین، 1983ء)، ص 136
(15) قمر رئیس، علی احمد فاضلی، ہم عصر اردو ناول ایک مطالعہ (نئی دہلی، ایم آر پبلی کیشنز، 2007ء)، ص 122
(16) اصغر ندیم سید، جہاں آباد کی گلیاں، ص 189
(17) اسد اللہ خان غالب، مرزا، نسخہ حمیدیہ دیوانِ غالب جدید، مرتب: ڈاکٹر عبد الرحمٰن بجنوری (بھوپال، مدھیہ پردیش اُردو اکادمی، 1982ء)، ص 223
(18) انٹرویو: رحمان فارس، روبرو ود اصغر ندیم سید، ریختہ، یوٹیوب چینل، 24 ستمبر 2023ء
(19) اصغر ندیم سید، جہاں آباد کی گلیاں، ص 80
(20) اصغر ندیم سید، جہاں آباد کی گلیاں، ص 12-13
(21) اصغر ندیم سید، دشتِ امکاں، ص 104
(22) اصغر ندیم سید، جہاں آباد کی گلیاں، ص 33
(23) مشرف عالم ذوقی، مردہ خانے میں عورت (لاہور، سنگِ میل پبلی کیشنز، 2020ء)، ص 73
(24) اصغر ندیم سید، جہاں آباد کی گلیاں، ص 42
(25) اصغر ندیم سید، جہاں آباد کی گلیاں، ص 43
(26) اصغر ندیم سید، جہاں آباد کی گلیاں، ص 60
(27) اصغر ندیم سید، جہاں آباد کی گلیاں، ص 56
(28) اصغر ندیم سید، جہاں آباد کی گلیاں، ص 140
(29) اصغر ندیم سید، جہاں آباد کی گلیاں، ص 47
(30) اصغر ندیم سید، جہاں آباد کی گلیاں، ص 143
(31) اصغر ندیم سید، جہاں آباد کی گلیاں، ص 168
(32) عبداللہ حسین، مجموعہ عبداللہ حسین، ص 833
(33) www.rekhta.com، بتاریخ 30 جون 2024ء
(34) اصغر ندیم سید، جہاں آباد کی گلیاں، ص 167
(35) اصغر ندیم سید، جہاں آباد کی گلیاں، ص 127
(36) اصغر ندیم سید، جہاں آباد کی گلیاں، ص 115
(37) اصغر ندیم سید، جہاں آباد کی گلیاں، ص 157
(38) اصغر ندیم سید، جہاں آباد کی گلیاں، ص 55
(39) اصغر ندیم سید، جہاں آباد کی گلیاں، ص 157-158
(40) اصغر ندیم سید، جہاں آباد کی گلیاں، ص 164
(41) اصغر ندیم سید، جہاں آباد کی گلیاں، ص 151
(42) اصغر ندیم سید، جہاں آباد کی گلیاں، ص 170
(43) اصغر ندیم سید، جہاں آباد کی گلیاں، ص 231
(44) اصغر ندیم سید، جہاں آباد کی گلیاں، ص 232
(45) اصغر ندیم سید، جہاں آباد کی گلیاں، ص 105
(46) اصغر ندیم سید، جہاں آباد کی گلیاں، ص 107
(47) اصغر ندیم سید، جہاں آباد کی گلیاں، ص 110-111
(48) اصغر ندیم سید، جہاں آباد کی گلیاں، ص 191
(49) افتخار عارف، حرفِ باریاب (دہلی، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاوس، 1996ء)، ص 11
(50) اصغر ندیم سید، جہاں آباد کی گلیاں، ص 86
(51) اصغر ندیم سید، جہاں آباد کی گلیاں، ص 87
(52) اصغر ندیم سید، جہاں آباد کی گلیاں، ص 270
(53) اصغر ندیم سید، جہاں آباد کی گلیاں، ص 280
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.