مردہ خانے میں عورت: اقلیتی المیہ کی آواز
اقلیت، ایسا لفظ جو لفظ اکثریت کے ستم سے بچنے کے لیے ازل سے آج تک لفظ پناہ میں سہارا تلاش کرنے کی کوشش میں سرگرداں ہیں۔ اس تلاش میں اسے کہیں اماں ملی تو کہیں آسرا۔ تو کہیں لفظ اکثریت کے حمایتیوں نے حمایت کے پردے میں بربریت کی مہر ثبت کردی، تاریخ رقم کر دی۔ جب تاریخ رقم ہوتی ہے تو قلم اٹھائے جاتے ہیں، نعرے لگائے جاتے ہیں اور نوحے سنائے جاتے ہیں۔ اس جہان فانی میں اقلیت کو ہمیشہ ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے، چاہے وہ اقلیت تیونس میں ہو یا برما میں، بھارت میں ہو یا پاکستان میں، ہمیشہ ظلم کا نشانہ بنتی ہے۔ اور اسے اکثریت کے حکم کے آگے سر تسلیم خم کرنے کے لئے مجبور کیا جاتا ہے۔ اقلیت کی کئی اقسام مثلاً سیاسی، نسلی اور مذہبی وغیرہ ہیں۔ اگر بات کی جائے برصغیر کے تناظر میں تو تقسیم برصغیر کے بعد دونوں اطراف مذہبی اقلیت اکثریت کے ستم کا نشانہ بنائی جاتی رہی اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ لکھاری معاشرے کا فرد اور اس کا قلم معاشرے کی زبان ہوتا ہے۔ اور زبان وہی بولتی ہے جو آنکھیں دیکھتی اور دھڑکن محسوس کرتی ہے۔ ہاں یہ الگ بات کہ ستم کے تالے سے زبان کو مقفل کر دیا جائے اور جبر کی بدولت دھڑکن روک دی جائے۔ ہندوستان کی تقسیم اور مذہبی اقلیت پر ٹوٹنے والے ستم کے پہاڑ اور ظلم کے برستے بادلوں کی داستانیں رقم کرتے کئی لکھاری سامنے آئے۔ جن میں کرشن چندر (پشاور ایکسپریس)، سعادت حسن منٹو (ٹھنڈا گوشت)، رجندر سنگھ بیدی (لاجونتی)، قرۃالعین حیدر (پت جھڑ کی آواز) اور حیات اللہ انصاری (ماں بیٹا) کے علاوہ اور بے شمار نام ہیں۔
مشرف عالم ذوقی نے اسی اقلیتی گھٹن اور استیصال کو وسیع کینوس دیتے ہوئے ناول ”مردہ خانے میں عورت“ تحریر کیا ہے۔ یہ ناول اسی زنجیر کی ایک کڑی ہے جو ”آگ کا دریا“، ”میرے بھی صنم خانے“، ”شب گزیدہ“، ”بادل“، ”غبار شب“، ”آنگن“، ”اداس نسلیں“ اور ”انسان مر گیا“ میں ملتی ہے۔ ناول ”مردہ خانے میں عورت“ کا مرکزی موضوع اقلیت ہے اور باقی تمام موضوعات مثلاً جنس، سیاست، قتل و غارت، موت اور زندگی کی کشمکش مرکزی موضوع کو مزید وسعت دیتے ہوئے کئی جہات کے تناظر میں پیش کرنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔
ناول ”مردہ خانے میں عورت“ کا مرکزی کردار مسیح سپرا ایک علامتی کردار ہے جو اقلیت کی نمائندگی کرتا ہے۔ یہ کردار معاشرتی جبر، سماجی ظلم، نفسیاتی قہر اور سیاسی غضب سے تنگ آکر خود کو مردہ قرار دیتا ہے۔
”سپرا کو احساس تھا وہ مردہ گھر میں ہے۔ یہاں کوئی زندہ نہیں۔ سب کے سب ابھی ہوتے ہیں اور ابھی نہیں۔۔۔ اس وقت مردہ گھر میں ہونا اس کو سکون دے رہا ہے۔۔۔ وہ بھی مردہ ہے۔“ 1
اقلیت جب اکثریت کے ظلم و ستم سے تنگ آ جاتی ہے تو وہ اس ستم سے فرار اور اس جبری قید سے رہائی کے راستے تلاش کرتی ہے اور جب کوئی راستہ نہیں ملتا اور چار سو ظلم کے بادل چھائے ملتے ہیں تو وہ مر جانے اور ظلم و ستم سے رہائی پا جانے کی کوشش کرتی ہے۔ اسی کوشش کی نمائندگی یہ علامتی کردار مسیح سپرا کر رہا ہے اور ظلم و ستم سے نجات پانے کے لیے خود کو مردہ قرار دیتا ہے۔ مگر جہاں اکثریت کا راج ہو، وہاں اقلیت کی کوئی تمنا لفظ تکمیل سے آشنا نہیں ہوتی۔ کیونکہ یہ قید خانہ کا قانون ہے اور اکثریت کے درمیان اقلیت کی زندگی زندان میں قید ہونے کا دوسرا نام ہے۔ یہی ہوتا ہے مسیح سپیرا کے ساتھ جب اس نے گھر کے دروازے پر مردہ خانہ کا بورڈ لگایا تو پولیس والے نے یہ کہتے ہوئے اس بورڈ کو اتارنے کا حکم دیا کہ زندہ لوگوں کے درمیان مردہ خانہ نہیں بنایا جا سکتا۔
”مردہ خانہ۔۔۔ جانتے ہو یہ بورڈ لگانا قانوناً جرم ہے
نہیں جانتا۔
تو اب جان لو۔ رہائشی علاقے میں مردہ گھر نہیں ہو سکتا۔“ 2
یہ بیان ایک علامتی بیان ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ اکثریت کے درمیان اقلیت کو مرنے اور دفن ہونے یا لاش کی مانند پڑے رہنے کا بھی کوئی حق نہیں۔ اور اگر اقلیت مرنے کی خواہش بھی کرے تو اس کی یہ خواہش بھی پوری نہیں کی جاتی۔
کس سے محرومئ قسمت کی شکایت کیجیے؟
ہم نے چاہا تھا کہ مر جائیں، سو وہ بھی نہ ہوا۔ 3
جب اکثریت اقلیت پر ظلم ستم کرتے ہوئے اس انتہا پر پہنچ جاتی ہے کہ اگر اقلیتی فرد مرنے کی خواہش کرے تو مرنے بھی نہ دیا جائے تو اقلیت میں دو طرح کے ردعمل پیدا ہوتے ہیں۔ پہلا یہ کہ اقلیت خود کو غلام، کم ہمت، اور بے وقعت سمجھتے ہوئے خاموشی سے ظلم برداشت کرتی رہے اور مردہ کی مانند سوچنے، سمجھنے اور بولنے سے عاری ہو جائے۔ ناول ”مردہ خانے میں عورت“ کا کردار مسیح سپرا ایسے ہی گروہ کی نمائندگی کرتا ہے جو اکثریت کے سامنے سینہ سپر ہونے کی بجائے اپنے آپ کو کم ہمت اور بے وقعت خیال کرتا ہے اور خود کو مردہ قرار دیتے ہوئے احساسات اور جذبات سے رشتہ توڑ لیتا ہے اور مردہ کی مانند خاموش ہو جاتا ہے۔
”وہ مر چکا ہے، اور چونکہ وہ مر چکا ہے اس لیے احساس و جذبات سے اس کا رشتہ منقطع ہو چکا ہے۔“ 4
اور دوسرا وہ گروہ ہے جو ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کے لیے احتجاج کا رستہ چنتا ہے۔ جب ظلم و ستم کا ہنٹر ویسے ہی برستا رہے اور احتجاج کاریگر نہ ہو تو قتل و غارتگری کی نوبت آجاتی ہے اور یہ گروہ قتل کرنے سے بھی گریز نہیں کرتا۔ اس گروہ کی نمائندہ کردار گل بانو ہے، جو ظلم سے تنگ آ کر رنجیت سنگھ راٹھور (اکثریت کی علامت) کو قتل کر دیتی ہے۔ اور اپنی جان بچانے کی خاطر مسیح سپرا کے مردہ خانہ پہنچتی ہے۔ مسیح سپرا اسے اس بات پر مردہ خانہ کے اندر داخل ہونے کی اجازت دیتا ہے کہ وہ مردوں کی طرح خاموش رہے گی۔ وہ اس بات کی حامی بھر لیتی ہے۔
”گل بانو نے لمبی سانس لی۔ پھر کہا،
میں ایک قتل کر کے آئی ہوں۔۔۔
یہاں کوئی زندہ نہیں
میں نے ایک قتل کیا ہے اور مجھے پناہ چاہیے۔۔۔
پناہ نہیں ہے۔۔۔ یہ مردہ خانہ ہے۔۔۔
اگر میں مردہ ہو جاؤں۔۔۔؟
تم نہیں ہو سکتی
کیوں۔۔۔؟
کیونکہ تم میں زندگی نظر آ رہی ہے۔
اگر زندگی اتار دوں تو۔۔۔؟
پھر یہاں رہ سکتی ہو۔۔۔ مگر شرط ہے۔۔۔
کیا۔۔۔؟
تمہیں مردوں کی طرح رہنا ہوگا۔
مردے کیسے رہتے ہیں؟
مردے سوچتے نہیں۔۔۔ بولتے نہیں۔۔۔ سنتے نہیں۔“ 5
جب ستم رسیدہ لوگوں کو آواز بلند کرنے اور اپنے حق کے لئے بولنے کا ایک بار تجربہ ہو جائے تو وہ کبھی اس گروہ کا حصہ نہیں بن سکتے جو ظلم برداشت کرتا رہتا ہے مگر زبان نہیں کھولتا۔ گل بانو ایسا ہی ایک کردار ہے۔ گل بانو مسیح سپرا سے اس شرط پر پناہ لیتی ہے کہ وہ خاموش رہے گی اور احساسات و جذبات سے قطع تعلق ہو جائے گی۔ مگر اس کے اندر زندگی کی رمق باقی رہتی ہے اور وہ مردہ ہونے کی کوشش کرتے ہوئے بھی بولتی ہے، سنتی ہے، اور سوچتی ہے کہ اس کے گروہ کا کیا حال ہے، کیا ہو گا اور کیا بنے گا۔ مسیح سپرا جب اس کے اندر موجود زندگی کی شمع کو دیکھتا ہے تو یوں بیان دیتا ہے :
”وہ زندہ ہے اور کسی مردہ خانہ کا حصہ نہیں ہو سکتی۔۔۔ اس لئے وہ باتیں کر سکتی ہے۔۔۔ چیخ سکتی ہے۔۔۔ اور وہ جب چاہے قہقہ لگا سکتی ہے۔“ 6
اقلیت / اکثریت کا جو بیج برصغیر میں اردو ہندی تنازعہ ۱۸۶۷ء کسی صورت بویا گیا تھا اس کی جڑیں تب پھوٹیں جب منٹو پارک میں قراردادِ پاکستان منظور ہوئی اور قد آور پودا اس وقت بنا جب برصغیر تقسیم ہو کر دو ممالک میں بٹ گیا۔ تقسیم کے بعد دو بڑی اقلیتیں سامنے آئیں۔ پاکستان میں ہندو اقلیت اور ہندوستان میں مسلمان۔ دونوں اطراف کی اقلیت ہمیشہ عتاب کا نشانہ بنتی رہی ہے۔ اس وجہ سے کوئی بھی اقلیتی فرقہ خوش نہیں۔ اقلیتی حوالے سے یہی اس ناول کا بنیادی نظریہ ہے۔
”آزادی کے بعد اِدھر نہ ہم خوش، نہ اُدھر وہ خوش۔“ 7
دنیا کے کسی بھی گوشہ میں جہاں کہیں بھی اقلیت ہے ان پر کئی طرح سے مثلاً لباس کو بنیاد بنا کر، اقلیتی گروہ کی مذہبی عمارتیں تباہ کرکے اور کبھی ان پر اجنبیت کی مہر ثبت کرکے ظلم ڈھایا جاتا ہے۔ ان سب ہتھیاروں کا مقصد صرف اور صرف ایک ہی ہوتا ہے کہ کسی طرح اقلیت کو اکثریت میں اس طرح ضم کر دیا جائے کہ وہ اپنی شناخت کو فراموش کر دے۔ یہ ناول بھارت میں مسلم اقلیت پر ہونے والے مظالم کے تناظر میں لکھا گیا ہے۔ مسلم اقلیت کو کیا خطرات لاحق ہیں اور اکثریت ان کے متعلق کیا سوچتی ہے کہ متعلق مشرف عالم ذوقی یوں لکھتے ہیں۔
”ایک بے حیا کا پودا بھی ہوتا ہے۔ یہ پودا خود سے جگہ بہ جگہ اپنی شاخیں نکال لیتا ہے۔ ان کی نظر میں مسلمانوں کی اوقات بے حیا کے پودوں کی طرح ہے۔ اب وہ ان پودوں کو کاٹ دیں گے۔ اب وہ ان پودوں کے ساتھ من مانی کریں گے۔ وہ ان پودوں کی شاخیں کتر دیں گے۔ پودوں ہی کو کچل دیں گے۔“ 8
یہاں ایک بات بیان کر دینا لازمی ہے تاکہ ابہام پیدا نہ ہو۔ اس ناول کو بھارت میں مسلم اقلیت پر ہونے والے مظالم کے تناظر میں لکھا گیا ہے، اس سے یہ نہیں مان لینا چاہیے کہ صرف مسلم اقلیت عتاب کا نشانہ ہے، باقی سب اقلیتیں محفوظ ہیں۔ ادب کی یہ خاصیت ہوتی ہے کہ وہ مقامی ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے اندر آفاقی معنی رکھتا ہے۔ اس وجہ سے نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اقلیت جہاں بھی ہو اور اس کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو ہمیشہ ظلم کا نشانہ بنتی ہے۔ چاہے مسلم بھارت میں ہوں، یا ہندو پاکستان میں، ہر اقلیت اکثریت کے سایہ ستم کے نیچے ہوتی ہے۔ اس بات کی تصدیق مشرف عالم ذوقی اس طرح کرتے ہیں۔
”شہری بل آیا ہے خالہ۔ جیسے ہندو پاکستان میں، ویسے مسلمان ہندوستان میں۔“ 9
دنیا میں جہاں کہیں بھی اقلیت موجود ہے اس کو سب سے بڑے جن مسلہ کا سامنا ہوتا ہے وہ مسئلہ شناخت کا ہے۔ دنیا کا قانون ہے کہ اہمیت اور حقوق اسی چیز کو ملتے ہیں جس کی شناخت کو تسلیم کر لیا جائے۔ جب لوگوں کے پاس بھی شناخت کے لئے پختہ ثبوت موجود نہ ہوں تو انہیں حقوق دینے کے متعلق بات فضول ہو کر رہ جاتی ہے۔ برصغیر میں اس نکتہ کو مسلم اقلیت کی اپنی شناخت کے سلسلے میں شملہ وفد ۱۹۰۶ء اور لکھنو پیکٹ ۱۹۱۶ء جیسی کوششوں کے تناظر میں سمجھا جاسکتا ہے۔ ناول ”مردہ خانے میں عورت“ میں بھی اقلیت کو درپیش سب سے بڑا مسئلہ، شناخت کا مسلئہ ہے۔ ریاست حکم دیتی ہے کہ سب لوگ اپنی شناخت کے کاغذات پیش کریں ورنہ انہیں ملک میں اجنبی تسلیم کرتے ہوئے نکال دیا جائے گا۔ مگر یہ معاملہ صرف اقلیت کے لئے ہے۔ اکثریت کے پاس شناخت کے کاغذات موجود نہ ہونے کے باوجود بھی وہ ملکی باشندے تسلیم کیے جائیں گے۔
”ہمارے پاس اگر ہماری شناخت کے لئے کچھ بھی نہیں، تب بھی ہم گھس پیٹھیے نہیں ہوں گے۔ مگر تمہارے لیے۔۔۔ گل بانو تمہارے لئے راستے بند ہوں گے۔ پہلے تمہاری شہریت جائے گی۔ پھر تمہاری ملکیت پر قبضہ ہوگا اور اس کے بعد تمہیں کسی ڈیٹنشن سینٹر میں مرنے کے لیے ڈال دیا جائے گا۔“ 10
اقلیت کیلئے شناخت اس لئے بہت بڑا مسئلہ ہوتا ہے کہ اگر انہیں اجنبی تسلیم کرتے ہوئے ملک سے نکال دیا گیا تو وہ کہاں جائیں گے۔ اور اگر کسی دوسرے ملک نے بھی انہیں تسلیم نہ کیا تو وہ وسیع دنیا میں کہاں بھٹکتے پھریں گے۔ تحریک خلافت ۱۹۱۹ء کے دوران چلائی گئی تحریک ہجرت میں افغانستان کا اپنے بارڈر بند کرنا اور مسلمانوں کا بے حال ہو کر واپس پلٹنا اس کی مثال ہے۔ اقلیت کو درپیش اسی المیہ کے متعلق ناول میں کئی مقامات پر خفیف مخفی اور ظاہر اشارے موجود ہیں۔ ناول کے اماں نور جہاں کو دوسرا کردار شناخت نہ ہونے کے خطرات کے متعلق اور خدشات کے بارے میں یوں بتاتا ہے۔
”اس وقت تم لوگوں کو اس ملک سے نکالنے کی بات چل رہی ہے۔۔۔ ملک چلانے کے لئے ان کے پاس ایک ہی اختیار ہے اور وہ مذہب ہے۔۔۔ تم لوگ تو سیدھے بنگلہ دیش بھیج دی جاؤ گی اور بنگلہ دیش نے بھی قبول نہیں کیا تو سرحد پار ماری ماری پھرو گی۔“ 11
جیسا کہ مضمون کی ابتدا میں ہی بیان کیا جا چکا ہے کہ ظلم کا سب سے زیادہ نشانہ مذہبی اقلیت بنتی ہے۔ ہر مذہب کے مختلف قوانین ہوتے ہیں اور ہر قانون کے کو اپنانے کے مختلف رسم و رواج۔ کسی مذہب میں سر پر ٹوپی پہنی جاتی ہے، کہیں پگڑی تو کہیں ماتھے پر تلک لگایا جاتا ہے۔ کسی مذہب میں گائے کا گوشت کھایا جاتا ہے، تو کہیں گائے کی پوجا کی جاتی ہے۔ جب ملک میں دو مذاہب کے حامل لوگ موجود ہوں تو اکثریت مذہب کو بنیاد بنا کر اقلیتی مذہب کے لوگوں کو لباس تہوار اور کھانے کے طور طریقوں کی بنیاد پر ظلم کا نشانہ بناتی ہے۔ ناول ”مردہ خانے میں عورت“ میں اقلیت پر مظالم کے ان طریقوں پر بہت زیادہ بحث کی گئی ہے۔ ناول میں بیان کیا گیا ہے کہ کچھ ایسے بھی لوگ تھے جن کے پاس اپنی شناخت کے تمام کاغذات موجود تھے مگر اس کے باوجود ان پر ان کے لباس کی وجہ سے ظلم کیا گیا۔ کیوں کہ ان کا لباس اس بات کی علامت تھا کہ وہ اقلیت سے تعلق رکھتے ہیں۔
”میرے پاس تو سارے شواہد تھے۔۔۔ مگر تمہارا لباس، ایک بزرگ آہستہ سے بولا۔۔۔ ہم اپنے لباس سے مارے گئے۔“ 12
مشرف عالم ذوقی کے ایک دوسرے ناول ”آتش رفتہ کا سراغ“ میں بھی ہمیں یہی کشمکش ملتی ہے۔ اس ناول کا ایک کردار اسامہ اپنے نام کی وجہ سے خوف زدہ ہے۔
”شیکسپیئر نے کہا تھا، نام میں کیا رکھا ہے۔ لیکن یہاں پر یہ نام میرے بیٹے کی پریشانیوں کا باعث بن گیا تھا۔ مجھے کیا پتا تھا کہ ایک دن یہ نام وقت کی زنبیل سے ایک نئے چہرے کو برآمد کرے گا۔ ایک ایسے نئے چہرے کو جسے میں پہچان نہیں پاؤں گا۔“ 13
مظلوم کو کوئی پناہ نہیں دیتا۔ اور اس وقت ہرگز نہیں جب مظلوم کا تعلق اقلیت سے ہو اور وہ مخصوص نام کا حامل ہونے کے ساتھ ساتھ مخصوص لباس زیب تن کرتا ہو۔ اقلیتی لوگوں پر جب ظلم و ستم ہوتا ہے تو حکمران تک جشن مناتے ہیں۔
”کیا اسے کوئی پناہ دے گا، ان حالات میں جب ایک مخصوص لباس نفرت کا حامل بن چکا ہے۔ جب ایک نام اچانک کچھ لوگوں کو چونکا دیتا ہے۔۔۔ جہاں ایک حکمران سرِ عام ایک قوم کے لوگوں کی ہلاکت کا جشن مناتا ہے۔ اور مخصوص نام والے آدمیوں کے لیے ڈیٹینشن سینٹر کے دروازے کھولتا ہے۔“ 14
لباس کے حوالے سے اقلیت پر ظلم ہونا صرف پاکستان اور بھارت کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ عالمی مسئلہ ہے۔ دنیا میں جہاں کہیں اقلیت ہے انہیں وہ اب اس کی وجہ سے ستم زدہ ہونا پڑتا ہے۔ ترک ناول نگار اورحان پاموک اپنی کتاب ”جہاں برف رہتی ہے“ میں لباس اور مذہب کے تعلق اور اس کی بدولت جنم لینے والے ظلم کو بڑی تفصیل سے بیان کرتے ہیں۔
”باحجاب لڑکیوں۔۔۔ نے اپنی ایمان کی خاطر ہر شے داؤ پر لگا دی ہے۔ لیکن یہ سیکولر اور پریس ہے جو انہیں باحجاب لڑکیاں کہتا ہے۔ ہمارے نزدیک وہ بس مسلمان لڑکیاں ہیں۔“ 15
مذہبی عمارتوں کے حوالے سے بھی اقلیت پر ظلم و ستم کیا جاتا ہے۔ بھارت میں بابری مسجد کو لے کر مسلمانوں پر جیسے ظلم کیا گیا، اس کی عمدہ مثالیں ہیں اس ناول میں موجود ہیں۔
”یہاں پرانی عمارت تھی اب نہیں ہے۔ صرف انسان نہیں گم ہوتے نقشے گم ہو جاتے ہیں عمارتیں گم ہو جاتی ہیں مکاں گم ہو جاتے ہیں مکیں گم ہو جاتے ہیں مسیح سپرا ہے، مسیح سپرا بھی نہیں رہے گا۔“ 16
اقلیت پر ہونے والے ظلم و ستم اور اکثریت کے جابر اور ظالم پن کی بنیادی جس اصول پر ہوتی ہے اور وہ ہے طاقت۔ اس جہان میں جس کے ہاتھ میں طاقت ہوتی ہے وہ حکمران ہوتا ہے، چاہے وہ مٹھی بھر لوگ ہوں یا ایک قوم۔ مثل مشہور ہے جس کی لاٹھی اس کی بھینس۔ مسلمانوں نے برصغیر پر ایک ہزار سال حکومت کی تو اسی قانون کے تحت اور جب انگریز حکمران قرار پایا تو اس کے پیچھے بھی اسی قانون کی کار فرمائی تھی۔ مشرف عالم ذوقی نے بھی اکثریت کے ظالم اور اقلیت کے مظلوم ہونے کی بنیاد اسی قانون کو قرار دیا ہے۔
”پہلے ہم تھے۔ اب نہیں ہیں۔ پہلے وہ نہیں تھے۔ اب وہ ہیں۔“ 17
محشر بدایونی طاقت کے اسی فلسفہ کو یوں بیان کرتے ہیں،
اب ہوائیں ہی کریں گی روشنی کا فیصلہ
جس دیے میں جان ہوگی وہ دیا رہ جائے گا 18
فزکس کا قانون ہے کہ جس چیز کو جتنی شدت سے دبایا جائے وہ اتنی ہی شدت سے باہر کی طرف ابھرتی ہے۔ یہ اصول نہ صرف مادی دباؤ پر بلکہ معاشرتی اور نفسیاتی دباؤ پر بھی منطبق ہوتا ہے۔ کسی احساس روئے جذبے کی آواز کو اتنی شدت سے دبایا جاتا ہے اس میں اتنی ہی تلخی زیادہ ہوتی جاتی ہے۔ اقلیت پر ہونے والے مظالم کے تناظر میں بھی یہی اصول لاگو ہوتا ہے۔ جب اکثریت مختلف طریقوں سے اقلیت کو دبانے کی کوشش کرتی ہے تو اقلیت کے اندر پہلا ریکشن آزادی کی خواہش کی صورت پروان چڑھتا ہے۔ اور وہ یہ سوچنے لگتے ہیں کہ آزادی کے بغیر زندگی بیکار اور بے معنی ہے۔
”زندگی کو آزادی چاہیے۔۔۔ آزادی کے بغیر زندگی صرف ایک پیپر ویٹ بن جاتی ہے۔ ٹھوس، سخت اور ایک جگہ منجمد۔۔۔ جب تک کوئی دوسرا اس کے استعمال کو نہ مل جائے۔۔۔“ 19
جب اکثریت کو اقلیت کے ہاں آزادی کی خواہش کی شمع روشن ہونے کے بارے میں معلوم پڑتا ہے، تو وہ اس شمع کو اجالا کرنے سے قبل گل کرنے کے لئے مزید دباؤ بڑھانا شروع کرتی ہے۔ اس دباؤ کا نتیجہ جلوس اور آخر کا انقلاب کی صورت میں نکلتا ہے۔ اور اقلیت اپنے حق کے حصول کے لیے جان تک قربان کر دینے کے لیے تیار ہو جاتی ہے۔
”ہم کو چاہیے آزادی۔۔۔ جب تک یہ ملک ہمیں اجنبی بنانا نہیں چھوڑتا ہم آتے رہیں گے اور حق کے لیے لڑتے رہیں گے۔“ 20
المختصر ”مردہ خانے میں عورت“ ایک ایسا ناول ہے جس میں اکثریت اور اقلیت کے درمیان جاری جنگ، جو یک طرفہ ہے اور کبھی دوطرفہ ہو جاتی ہے، کو اشاروں، کنایوں، علامتوں اور مختلف پہلوؤں سے دکھایا گیا ہے اور اس موضوع پر کھل کر بحث کی گئی ہے کہ اقلیت کی ہر چیز اقلیت کا مفہوم آلاپتی ہے اور ہر ادا اپنے اقلیتی تعلق کی وضاحت کرتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس ناول میں اقلیت اور اکثریت کے درمیان جاری جنگ کی اصل وجہ بیان کر دی گئی ہے جو نظریہ طاقت پر قائم ہے۔
حواشی:
(1) مشرف عالم ذوقی، مردہ خانے میں عورت، لاہور، سنگِ میل پبلی کیشنز، 2020ء، ص ۱۳۷
(2) مشرف عالم ذوقی، مردہ خانے میں عورت، لاہور، سنگِ میل پبلی کیشنز، 2020ء، ص۱۴۰-۱۴۱
(3) مولانا غلام رسول مہر، نوائے سروش، لاہور، شیخ غلام علی اینڈ سنز پبلشرز، سن ندارد، ص۴۰
(4) مشرف عالم ذوقی، مردہ خانے میں عورت، ص۳۶۰
(5) مشرف عالم ذوقی، مردہ خانے میں عورت، ص۲۹۰
(6) مشرف عالم ذوقی، مردہ خانے میں عورت، ص ۳۸۴
(7) مشرف عالم ذوقی، مردہ خانے میں عورت، ص ۱۵۳
(8) مشرف عالم ذوقی، مردہ خانے میں عورت، ص۱۸۵
(9) مشرف عالم ذوقی، مردہ خانے میں عورت، ص۱۸۴
(10) مشرف عالم ذوقی، مردہ خانے میں عورت، ص ۲۱۳-۲۱۴
(11) مشرف عالم ذوقی، مردہ خانے میں عورت، ص ۱۸۵، ۲۱۲
(12) مشرف عالم ذوقی، مردہ خانے میں عورت، ص ۲۶۲
(13) مشرف عالم ذوقی، آتشِ رفتہ کا سراغ، دہلی، ساشا پبلیکیشنز، ۲۰۱۳، ص ۳۵
(14) مشرف عالم ذوقی، مردہ خانے میں عورت، ص۲۸۲
(15) اورحان پاموک، جہاں برف رہتی ہے، مترجم ہما انور، لاہور، جمہوری پبلیکیشنز، 2019ء، ص92
(16) مشرف عالم ذوقی، مردہ خانے میں عورت، ص ۷۲-۷۳
(17) مشرف عالم ذوقی، مردہ خانے میں عورت، ص ۲۲۶
(18) محشر بدایونی، کلیات محشر بدایونی، ریختہ ویبسائٹ، سن ندارد، ص۲۰۶
(19) مشرف عالم ذوقی، مردہ خانے میں عورت، ص ۲۰۷
(20) مشرف عالم ذوقی، مردہ خانے میں عورت، ص ۲۱۰، ۲۳۳-۲۳۴
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.