کسی نے دروازہ کهٹکهٹایا، آنکهیں ملتے ہوے بستر سے اٹها، دیکها، ڈرائیور صاحب ہیں، جلدی سے وضو کیا، خالق کائنات کی بارگاہ میں چار سجدے کیے، کمرے سے باہر نکلا، صاف ستهری نکهری معصوم سی صبح، اس کی پاکیزہ پیشانی پر محبت کا بوسہ دیا، مشرق کی جانب دیکها، سورج جهک کر مجهے آداب کر رہا تها، اسے دعائیں دیں، ایسے ہی اجالے بکهیرتا رہے، اپنی آگ میں جل کر کائنات کو حرارت اور زندگی بخشتا رہے، صبح کی پہلی چائے پی اور بمبئی ہوتے ہوے بنارس واپس جانے کے لیے کالیکٹ ایئرپورٹ کی طرف روانہ ہوا، راستے میں فطری مناظر سے لطف اندوز ہوتا رہا، ایک منظر کو دل میں اتار نہیں پاتا تها کہ دوسرا نگاہوں میں آ جاتا تها، حیرت زدہ تها کیا کیا دیکهوں، بے ساختہ لبوں پر میر انیس کے یہ دو مصرعے مچل گئے،
ہر جا تری قدرت کے ہیں لاکهوں جلوے
حیران ہوں دو آنکهوں سے کیا کیا دیکهوں
کیرالا فطرت کا شاہکار ہے، ہر طرف ہریالی ہی ہریالی ہے، چاروں طرف ناریل اور کیلے کے پیڑ ہیں، ناریل کے بغل میں سپاری کے درخت ہیں، ربر کے علاوہ ساکھو, شیشم اور ساگون کے درختوں کے جنگلات قابلٍ دید ہیں،کیا مسطح زمین، کیا کهائیاں، کیا گهاٹیاں، کیا پہاڑ کی چوٹیاں، سب ہری بھری ہیں، یہاں سڑکوں، ریلوے لائنوں اور تعمیرات کو چھوڑ کر باقی ساری زمین سرسبز وشاداب ہے، ناریل، ساکھو، شیشم، ساگون اور ربر کے جنگلوں اور پہاڑوں میں آباد ہیں آج کے مہذب انسانوں کی بستیاں، ناریل کے درختوں کی اوٹ سے جهانکتی ہیں نئی طرز کی صاف ستهری عمارتیں، کشادہ اور چمکتی ہوئی سڑکیں کالے حسن کی مثال پیش کرتی ہیں، کسی سڑک پر کوئی گڈها نہیں، ہاں گڈهوں، کهائیوں اور پہاڑیوں میں سلیقے کی سڑکیں ضرور ہیں، سڑکوں کے کناروں پر یا بیچ میں کوئی مندر نہیں کوئی مسجد نہیں، کوڑے کرکٹ کا ڈهیر نہیں، کوئی کندگی نہیں، نہ باہر نہ دل ودماغ میں، محنتی اور نیک لوگ، میل محبت سے رہنے والے لوگ، انسانیت کا احترام کرنے والے لوگ، باقی ہندوستان بهی کیرالا کی راہ پر چلے تو پورا ملک امن وسلامتی کا گہوارہ بن جائے۔
کیرالا کا سب سے بڑا مسلم آبادی والا ضلع ہے ملاپورم، جس میں ایک چهوٹا سا شہر ہے کوٹک کل، لیکن صفائی اور نفاست میں باقی ہندوستان کے بڑے شہروں سے بهی یہ بہتر ہے، یہاں سے کالیکٹ ایئر پورٹ جاتے ہوے راستے میں ”کلائی“ نے میرا دامن دل کهینچا، یہ چمکتے پانیوں والی شفاف ندی ہے، جس میں آسمان کی نیلاہٹ گھلی ہوئی ہے، ندی سے بڑا گہرا رشتہ ہے میرا، بچپن کی بہت اچهی یادیں وابستہ ہیں اس سے، کار سے اترا، ندی کے نرمل پانی کو آنکهوں سے چوما، سوچا دو چار ڈبکی لگا لوں، دل نے سمجهایا، اجنبی ندیوں میں بہت سوچ سمجھ کر ڈبکی لگاتے ہیں،” کلائی“ کو دیکها تو مجهے اپنے گاؤں کی ندی ”کرم ناسا“ یاد آ گئی، میں اپنی ”کرم ناسا“ کی لہروں میں ہلکورے لینے لگا، کلائی کو میں نے اپنی نظم ”کرم ناسا“ سنائی،
وہ بل کھاتی ندی
میٹھے چمکتے پانیوں والی
جو نکلی تھی
گھنیرے جنگلوں اونچے پہاڑوں کی ترائی سے
بڑی ہی بے قراری سے
وہ جس کے ساحلوں پر جابجا
بالو کے ٹیلے تھے
وہ جس میں گرنے والے نالوں پر تھے
جھنڈ بانسوں کے
”کراروں“ پر
بہت سے اونچے اونچے پیڑ تھے
نیم اور شیشم کے
ذرا آگے ندی کے موڑ پر ساحل سے کچھ اوپر
گھنے باغات تھے امرود کے اور بیجو آموں کے
کوئی موسم ہو
وہ پیاری ندی اپنے کناروں کو
سدا شاداب رکھتی تھی
سدا آباد رکھتی
جو اپنے عاشقوں کی آنکھوں میں
سپنے سجاتی تھی
دلوں کی دھڑکنوں کو اپنی لہروں سے بڑھاتی تھی
مری مٹی کو تر کرتی ہوئی جب آگے بڑھتی تھی
وہ اپنے ساتھ کچھ میرا بھی حصہ لے کے چلتی تھی
وہ جس کے پر سکوں پہلو میں میرا دن گزرتا تھا
جو راتوں کو مرے خوابوں میں سوتی تھی
کہیں بھی جاؤں میرے ساتھ ہوتی تھی
وہ بل کھاتی ندی اب
میرے سینے میں سسکتی ہے
مری آنکھوں سے بہتی ہے
کرم ناسا نے یاد آکر دل دکھا دیا، میں اپنے بچپن کی یادوں کے سائے میں کھو گیا،
دهوپ میں تتلیاں پکڑتے تهے
اپنے بچپن کے دن سنہرے تهے
گهر کے لوگوں سے چهپ کے اکثر ہم
ناؤ گہری ندی میں کهیتے تهے
ان درختوں کو دل میں بوئیں گے
جن کی چهاؤں کے خواب دیکهے تهے
ایسے موسم میں باغ چهوٹا تها
جب چمیلی کے پهول مہکے تهے
کرم ناسا کی یادوں سے لوٹا، کلائی کے ساتھ ایک تصویر لی اور کالیکٹ ”بیچ“ پہنچا، یہ بیچ بہت چهوٹا ہے، یہاں سمندر کی لہروں کی مار میں وہ سختی نہیں وہ چنگهاڑ نہیں جو بڑے بیچ پرہوتی ہے لیکن سمندر بہر حال سمندر ہے، اس کی چهوٹی لہریں بهی بڑی قیامت خیز ہوتی ہیں، لہروں کو چوما نہیں، دور سے سلام کیا، ساحل سے سر ٹکراتی موجوں کو دیکھ کر اپنا ایک شعر بڑی ”بحر“ کا یاد آیا،
کتنی پاگل سمندر کی موجیں ہیں وہ
سر پٹکتی ہیں آکر کناروں پہ جو
جس کو اب تک کسی نے چهوا تک نہیں
اس غزل کے قدم چومنے کے لیے
یہ حسن تعلیل ہے، مرثیہ گویوں کے امام میر انیس کے ہاں بڑی اچهی مثالیں ہیں اس کی، موقعے کا ایک شعر،
پیاسی تهی جو سپاہ خدا تین رات کی
ساحل پہ سر پٹکتی تهیں موجیں فرات کی
لہروں کو واپسی کا سلام کیا اور ایئرپورٹ چل دیا، جہاں جاتا ہوں وہاں کچھ نہ کچھ اپنا کهو دیتا ہوں، میرا کچھ نہ کچھ وہاں رہ جاتا ہے، مجهے نہیں معلوم میں کالیکٹ میں اپنا کیا چهوڑ کر واپس ہو رہا ہوں، اس وقت میں کالیکٹ ایئرپورٹ کے رنوے پر ہوں، رنوے کے چاروں طرف کیلے اور ناریل کے درختوں سے ڈهکی پہاڑیاں اور کهائیاں ہیں، مجھے ناریل کے پتوں کی سرسراہٹ سنائی دیتی ہے، جیسے وہ مجھے روکنے کی ضد کر رہے ہوں، میں انهیں جهوٹی تسلی دینے کے لیے بشیر بدر کا شعر سنا رہا ہوں،
ناریل کے درختوں کی پاگل ہوا
کهل گئے بادباں لوٹ جا لوٹ جا
سانولی سرزمیں پہ میں اگلے برس
پهول کهلنے سے پہلے ہی آ جاؤں گا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.