Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

نبّاض وقت تھیں رضیہ سجّاد ظہیر

ڈاکٹر صبیحہ ناہید

نبّاض وقت تھیں رضیہ سجّاد ظہیر

ڈاکٹر صبیحہ ناہید

MORE BYڈاکٹر صبیحہ ناہید

    ’’بیسویںصدی کے اوائل میں ایک تھی بی بی امّ آسیہ ۔اس کا تعلق ایک تعلیم یافتہ خاندان سے تھا۔گھر کے اندرمردوں میں تعلیم کے فروغ کو دیکھ کر ان میں بھی علم کے تئیں ذوق انگرائی لینے لگامگر اس زمانے میں تعلیم نسواں کا تصوّر بھی نہیں کیا جا سکتا تھا لہذا یہ روٹی بناتے وقت کچن میں بھی گلستاں بوستاں چھپا چھپا کر پڑھتی او ر اس کی نانی امّ صفورہ اس کو پڑھتے دیکھ کر ناراض ہو جاتیں اوراس کی ان کتابوں کو نذر آتش کر دیا کرتی تھیں ۔مگر وہ اس سے باز نہیں آتی اور پھر چھپا کر دوسری کتاب منگا لیتی اور اس طرح اس لڑکی نے گھر کے اندر اپنے ماموں و دیگرافراد کی ہمت افزائی سے علم کے اپنے ذوق کو پورا کیا جو کہ تا حیات جاری رہا۔ اپنے زمانے کے ادبی ہیرو اور ہیروئین ابن صفی رضیہ سجاد ظہیر واجدہ تبسم قرالعین حیدر‘ کی تحریروں کو خود پڑھتی رہیں اور دوسروں کو پڑھنے کی ترغیب دیتی رہیں تبھی تو ۲۰۱۰ ء میں ان کی وفات پر ابن صفی کے صاحبزادے احمد صفی نے اپنے تعزیتی مکتوب میں لکھا کہ’’ دراصل آج تعلیم نسواں کو جو فروغ ملا ہے اس میں دراصل ایسی ہی خواتین کا رول ہے اور اس سے گذشتہ صدی میں خواتین کے نا گفتہ بہ صورت حال کی صحیح عکاسی بھی ہوتی ہے۔ ‘‘

    یہ سچی کہانی ریاست بہار کی راجدھانی پٹنہ کے کدم کنواں میں رہنے والے اس زمانے کے ہائی کورٹ کے مشہور وکیل اور ایم ایل سی مولوی حسن جان کی نواسی کی ہے جو اس دور کے ماحول کی عکاسی کرتی ہے۔در اصل اس دور میں لڑکیوں کی تعلیم کو عام طور پر معیوب سمجھا جاتا تھا اور اگر تھوری روشن خیالی سے کام لیا جاتا تو صرف پڑھنے کی اجازت ملتی لکھنے کی نہیں۔اس کے پیچھے یہ سوچ چھپی تھی کہ اگر لکھنا بھی سیکھ گئی تو ان کے پر لگ جائیں گے اور ان میں بیداری آجائے گی اور یہ قدامت پسند سماج کی باغی ہو جائیں گی۔یہ اس دور کا پس منظر ہے جس میں رضیہ سجّاد ظہیر نے آنکھیں کھولیں۔

    اُس دور سے پہلے اکّا دکّا عورتیں شعری ادب میں خال خال نظر آتی ہیں ۔نثر نگاری تو صدیوں ان کے قلم کے جواہرات سے محروم رہی۔ڈپٹی نذیر احمد عبد الحلیم شرر اور دیگر رفقا نے اس طرف توجہ دی اور ان کی تحریک کے ہی بدولت متوسط طبقے میں تعلیم نسواں کا رواج شروع ہوا۔محمدی بیگم اور بیگم بھوپال کو اس کی ’’با با آدم‘‘ مانا جاتا ہے۔’’تہذیب نسواں‘‘ اور ’’ظل السان‘‘ جیسے رسالے انہوں نے نکالے اور پھر یکے با دیگرے اس میدان میں خواتین کی تعداد میں اضافہ ہونے لگا۔ان خواتین کے ذریعے نکالے گئے رسالوں میںدیگر رسالوں کے علاوہ ’’نور جہاں‘‘ , ’’سہیلی‘‘ او ر ’’خاتون ‘‘ وغیرہ بھی قابل ذکر ہیں۔ان ادیب خواتین میں اونچی ڈگریاں پانے والی عورتیں نہ تھیںلیکن اپنے زبان و بیان کی تہذیب کو اچھی طرح جانتی تھیں دل میں قوم کا اور اپنی ہم جنسوں کا گہرا درد رکھتی تھیں نیز اپنی تحریر وںکے ذریعے عورتوں میں بیداری پیدا کرنے اور ان کے حقوق کی حفاظت کرنے اور کرانے کو اپنا اہم فریضہ سمجھتی تھیں۔

    ابتدائی دور

    رضیہ دلشاد جو بعد میں رضیہ سجّاد ظہیر کے نام سے مشہور ہوئیں‘ کی پیدائش ۱۵ فروری ۱۹۱۷ء کو اجمیر میں ہوئی۔رضیہ کی ماں کا نام رقیّہ بیگم تھا اور ان کے والدخان بہادر سیّد رضا حسین اسلامیہ ہائی اسکو ل اجمیر کے پرنسپل تھے ۔وہ ادب دوست اور نوجوانوںکی تعلیم کے زبردست حامی تھے ۔تا حیات وہ رضیہ کو کتابوں سے محبت کرنے اور تصنیف و تالیف سے رغبت کی تلقین کرتے رہے۔ رضیہ اس معاملے میں خوش نصیب کہی جا سکتی ہیں کہ وہ ایک مشفق اور علم دوست باپ کی بیٹی تھیں۔

    رضیہ نے کرامت حسین گرلز کالج لکھنئو سے گریجوئشن تک کی تعلیم حاصل کی۔۲۱ سال کی عمر میں ان کی شادی سجّاد ظہیر سے ہوئی جو اردو رائیٹر‘ نقّاد اور کمیونسٹ پارٹی کے فعال کار کن تھے۔ شادی کے بعداپنے عزم محکم اور اپنے شوہر کی ہمت افزائی کی بدولت انھوں نے الہ آباد یونیورسٹی سے ایم اے کیا ۔ کچھ عرصہ وہ صوفیہ کالج اجمیر میں اردو کی لکچرار رہیں ۔بعد ازا ں اپنی مادری درسگاہ کرامت حسین گرلز کالج لکھنئو میں لکچرار کے عہدے پر فائز ہو گئیں۔

    رضیہ نے محض۸ سال کی عمر میں بچّوں کی کہانیاں لکھنی شروع کر دی تھیں جو بچّوں کی میگزین ’’پھول‘‘ , ’’ تہذیب نسواں‘‘اور’’ عصمت ‘‘میں شائع ہوا کرتی تھیں۔شادی سے قبل وہ رضیہ دلشاد کے نام سے لکھتی تھیں۔شادی کے بعد انھوں نے شوہر کے نام کو اپنے نام کا حصّہ بنانے کی اس وقت کی روایت کے مطابق‘ رضیہ سجّاد ظہیر کے نام سے لکھنے لگیں۔یہ بھی حسن اتفاق ہے کہ انھوں نے جس وقت قلم اٹھایاوہ اردو زبان و ادب کی ترقی کا انقلابی اور سنہرا دور تھا۔ترقی پسند تحریک نئی نئی عمل میں آئی تھی جو سبھی تخلیق کار کو اپنی طرف متوجہ کر رہی تھی ۔اس کی پہلی میٹنگ منشی پریم چند کی صدارت میں لکھنئو میں ۱۹۳۶ء میں عمل میں آئی۔یہ وہ تحریک ہے جس کو برطانیہ کے خلاف لڑی جا رہی جنگ آزادی کا ایک مضبوط ستون مانا جاتا ہے۔ترقی پسند تحریک میں رضیہ اپنے شوہر کے شانہ بہ شانہ رہیں اور خواتین کے مسائل اور ان کے حقوق کی لڑائی میں اہم کردار ادا کیا۔

    ادبی جدوجہد

    رـضیہ سجّاد ظہیر کے دو افسانوی مجموعے‘ ایک ناولٹ‘ تین ناول(کانٹے سمن‘ اللہ میگھ دے ) اور ایک نامکمل ناول (اسرارالحق مجازؔکی زندگی پر)کے علاوہ کئی خاکے بھی منظر عام پر آئے اور مقبولیت حاصل کی ۔’’نہرو کا بھتیجہ ‘‘ اور’’ سلطان زین العابدین بڈشاہ ‘‘ جیسی تخلیقات کے ذریعہ انھوں نے بچّوں کے ادب میں بھی قابل ذکر اضافے کئے ۔ انہوں نے کئی کتابیں مرتب بھی کی ہیں جن میںایک اہم کتاب ’’نقوش زنداں‘‘ ہے ۔یہ سجاد ظہیر کے ان خطوط کا مجموعہ ہے جو انہوں نے پابند سلاسل رہ کر اپنی شریک حیات کو لکھے تھے ۔ انھوں نے چالیس سے زیادہ مختلف کتابوں کے ترجمے بھی کئے۔لیکن اردو ادب میں ان کی شہرت ان کے ناولوں اور افسانوں کی وجہ سے زیادہ ہوئی۔وہ نہایت حسّاس د ردمند ا نسان دوست اور باوقار شخصیت کی مالک تھیں۔انہیں ہندوستانی معاشرے میں خصوصا عورتوں کی ناگفتہ بہ حالت کا شدّت سے احساس تھا اور وہ اس سماج کو بدل دینا چاہتی تھیں جو انکے ان حالات کا ذمہ دار تھا۔انہیں اس بات کا شدت سے احساس تھا کہ جب تک سماج نہیں بدلے گا ہمارے شب و روز بھی نہیں بدل سکتے۔رضیہ سجاد ظہیر کو ان کی ادبی کاوشوں کے لئے کئی انعامات سے بھی نوازا گیا جن میں سویت لینڈ نہرو ایوارڈ(۱۹۶۶ئ) یو پی اردو اکیڈمی ایوارڈ(۱۹۷۲ئ)‘ اکھل بھارتیہ لیکھیکا سنگھ ایوارڈ(۱۹۷۴ئ)وغیرہ قابل ذکر ہیں۔

    رضیہ سجاد ظہیر نے یوں تو مختلف موضوعات پر قلم اٹھایا ہے لیکن خاص طور سے عورتوں کی بدحالی کو اپنا موضوع بنایا ۔ان کی ذہنی کشمکش‘ گھریلو الجھنیں فطری کمزوریاں‘ محبت اور نفرت کے مختلف پہلووں کو بڑے فنکارانہ ڈھنگ سے اجاگر کیا ۔ان کے لب لہجے میں کشش اور تاثیر ہے چھا جانے اور دل میں گھر کرنے والی صفت ہے ۔انہوں نے رومانی فکشن نگاروں کی طرح خوابیدہ فضا نہیں بنائی ہے بلکہ نہایت خوشگوار انداز میں معاشرے کے وہ معرکے قلم بند کئے ہیں جن سے ہر شخص نبرد آزما رہتا ہے۔ انہوں نے اپنے فن پاروں میں فکشن کی چاشنی بھی برقرار رکھی ہے لیکن اصل موضوعات اور مسائل کو پس پشت نہیں جانے دیا۔ان کی بے تکلفی موقع موقع محاورے و کہاوت کا استعمال اور مقامی بول چال کی شمولیت سے حقیقت کا رنگ اور زیادہ نمایاں ہو جاتا ہے۔ان کے مکالمے بھی کردار کے سماجی حالات کے عین مطابق ہوتے ہیں۔

    رضیہ سجاد ظہیر کا ایک نمائندہ افسانہ ’’نمک‘‘ ہے جو تقسیم ہند و پاک کے درد کو بڑی شدت کے ساتھ اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے نیز اس حقیقت کو عیاں کرتا ہے کہ زمین کے ٹکڑے تو کئے جا سکتے ہیں لیکن دلوں تقسیم نہیں کیا جا سکتا ۔اس افسانے کو ہندی کی بارہویں جماعت کے نصاب میں بھی شامل کیا گیا اور اس پر آشیش چاندنا نے ایک ٹیلی فلم بھی بنائی جوبہت مقبول ہوئی۔ انھوں نے جس موضوع پر قلم اٹھایا اس کا حق ادا کردیا۔انکے لکھنے کے اندازکو ان کی چھوٹی صاحبزادی نور ظہیر نے بڑے ہی د لچسپ انداز میں’’زرد گلاب‘‘ کے پیش لفظ میں بیان کیا ہے۔رضیہ کے افسانوی مجموعے ’’زرد گلاب ‘‘ کے پیش لفظ میں رقمطراز ہیں:

    ’’گوشت تو امّی ایسے پکاتی تھیں کے بیٹھ گئیں پٹری پر انگیٹھی کے پاس اور پھر منّو گھی دو‘ ’’شمّو پیاز کاٹی‘ نیوٹی نمک دو‘ اے ہے کنکری والا دو نا, اور خود بس دیگچی میں کفگیر گھما دی ۔۔۔۔لیکن ادبی کام میں بالکل اس کا الٹا تھا۔ادبی کام تہہ سے شروع کرتیں تھیں ۔وہ شروع میں اپنی کہانیوں کے واقعوں کی فہرست بناتی تھیں ۔پھر خلاصہ پھر رف اور پھر کہانی مکمل ہوتی تھی۔‘‘ (زرد گلاب‘ پیش لفظ‘ صفحہ: ۱۱۔۲ ۱)

    ’’زرد گلاب ‘‘ ان کے افسانوں اور خاکوں کا مجموعہ ہے جسے ان کی صاحبزادی نجمہ باقر اور داماد علی باقر نے ان کی وفات کے بعد منظرعام پر لانے کا کام انجام دیا جو ان کی ماں سے محبت اور ادب دوستی کا بین ثبوت ہے ۔اس میں ۱۸ کہانیاں ہیں ۔یہ افسانے اور خاکے زندگی کی سچی جھلکیاں ہیں ۔لکھنے کا انداز بے ساختہ اور فطری ہے ۔یہ ان زندگیوں کی روداد اور کہانیاں ہیں جنہیں رضیہ نے بہت قریب سے دیکھا اور ان کے درد کو محسوس کیا۔ان میں خاص طور سے ملازمین‘ غریب لڑکیاں بے سہارا لڑکے محبت کی ماری ناکام بیویاں ہیں۔ان کے یہ زندہ کردار ان کے قلم سے نکل کر قاری کے دل میں اتر جاتے ہیں اور حسّاس ذہنوں کو سوچنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔’’تب اور اب‘‘ , ’’کچھ تو کہئیے‘‘ اور ’’دو دل ایک داستان‘‘ جیسی کہانیوں میں عورتوں کی محرومیوں اور جذباتی طور پر دل کو لگی ٹھیس کو موثر اندازمیں بیان کیا گیا ہے۔اسی طرح’’ ستون‘‘ اور’’ لنگڑی ممانی‘‘ کو اس مجموعے کے بہترین خاکوں میں شمار کیا جا سکتا ہے۔

    سنہ ۲۰۱۷ ء میں ان کی تیسری صاحبزادی نادرہ ظہیر ببر نے انٹر نیشنل ویمنس ڈے کے موقع پر ’’میری ماں کا ہاتھ‘‘ کے عنوان سے ایک ڈرامہ اسٹیج کیا تھا جو اس لحاظ سے بہت نادر اور انوکھا ہے کہ انہوں نے اس میں بڑی تفصیل سے رضیہ کے فکر و فن کے ان پہلووں پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی جو منظر عام پر نہیں آ سکے تھے۔اس موقع پر وہ کہتی ہیں:

    ’’رضیہ دوسرے مصنفین کی طرح شہرت نہیں پا سکیں لیکن انہوں نے کئی ناول ایسے لکھے ہیں جو عورت کی زندگی اور اس کے مسائل کے ارد گرد گھومتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں ۔انہیں ان عام مسلم عورتوں سے کافی لگائو تھا جو سماج میں مختلف قسم کے سماجی معاشی اور جذباتی دبائو کا شکار رہتی ہیں اور بہ مشکل وہ اس گھٹن اور درد کا اظہار کر پاتی ہیں ۔‘‘

    Amaizing Writer Razia Sajjad Zaheer by Mehru Jaffer: 14 March2017) )

    (Web Magazine: The citizen)

    رضیہ سجّاد ظہیر کی نواسی اور نجمہ باقر‘ سابق پروفیسر جواہرلا ل نہرو یونیورسٹی کی صاحبزادی سیما باقر جو خود وکالت کے پیشے سے منسلک ہیں اپنی نانی کو یاد کرتے ہوئے فرماتی ہیں:

    ’’ہماری نانی بہت خوددار تھیں ۔وہ اعلی پایہ کی پرولفک رائیٹر‘ بہترین قصہ گو ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اچھی ہوم میکربھی تھیں۔ان کو لکھنے کا شوق تو شروع سے تھا لیکن انہوں نے اپنے گھر کی کفالت کی غرض سے بھی لکھنا شروع کیا کیونکہ نانا سجّاد ظہیر زیادہ تر اپنے مختلف مشن میں مصروف رہتے تھے اورنانی اتنی خوددار تھیں کہ کسی سے مدد لینا انہیں گوارہ نہیں تھا ۔اس لئے جہاں وہ اپنے ذوق کی تسکین کے لئے لکھا کرتی تھیں وہیں اپنی فیملی کے لئےBread Earnerکا رول بھی انہوں نے پلے کیا۔‘‘

    کہا جاتا ہے کہ ہر کامیاب مرد کے پیچھے کسی عورت کا ہاتھ ہوتا ہے لیکن ستم ظریفی تو یہ ہے کہ وہ ہاتھ اکثر گمنامی کا شکار ہو جاتے ہیں جو کسی کی کامیاب زندگی کے ضامن ہوتے ہیں۔ رضیہ کے ہاتھ نے بھی سجاد ظہیر کے لئے وہی کام کیا لیکن ان کے اس معاونت کا ذکر شاذونادر ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔

    معاشرے پر اثرات

    دراصل گذشتہ ایک صدی میں علم و دانش کی دنیا میں خواتین نے جو لمبا سفر طئے کر کے اپنے آپ کو ایمپاور کیا ہے اس میں جن چند خواتین کا کلیدی رول ہے ان میں رضیہ سجاد ظہیر ایک نمایاں نام ہے۔انہوں نے جہاں بیسویں صدی کے اوائل میں خواتین کے نا گفتہ بہ حالات کی عکاسی کی وہیں اپنے افسانوں ناولوں اور خاکوںمیں مختلف کرداروں کے ذریعے خواتین کو معاشرے کے قدامت پسند و خود ساختہ رسومات اور ضابطوں سے لڑتے ہوئے اور بغاوت کرتے ہوئے بھی دکھایا جس سے پورے معاشرے میں بیداری آئی اور اس کا نتیجہ ہے کہ خواتین ایمپاورمنٹ کی طرف مسلسل بڑھ رہی ہیں۔موجودہ دور میں , خود خواتین کا خواتین کے لئے اور خواتین کے ذریعے ’بین الاقوامی نسائی ادبی تنظیم ‘‘ (بنات ) کا وجود میں آنا بھی اس کا بین ثبوت ہے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ رضیہ اور سجاد دونوںکی سماج میں مثبت تبدیلی لانے کے تعلق سے ادبی خدمات گراں قدر ہیں مگر اس سلسلے میں سجاد ظہیر پر تو کچھ کام ہواہے مگر رضیہ عدم توجہی کا شکار رہیں۔ضروررت اس با ت کی ہے کہ رضیہ سجاد ظہیر جیسی قلمکاروں کی حیات و خدمات پر خصوصی توجہ دی جائے جو بجا طور پر اس کی مستحق ہیں۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے