Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

نئے نئے موضوعات کا محقق خلیق ا لزماں نصرت

ایم مبین

نئے نئے موضوعات کا محقق خلیق ا لزماں نصرت

ایم مبین

MORE BYایم مبین

    چار چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو ہر انسان کو مکمل اور منفرد بناتی ہیں،اس کاپیشہ ، اس کا ہنر، اس کے شوق اور اس کا فن۔۔پیشہ انسان کو روزی روٹی کے لیے ضروری ہے۔ ہر انسان زندگی گذارنے کے لیے اس سے وابستہ ہوتا ہے کبھی آبائی طور پر تو کبھی اپنے طور پر وہ اس کو اپناتا ہے ۔ اس کے لیے اس میں صلاحیتوں اور قابلیت کا ہونا ضرورہے۔صلاحیتیں فطری بھی ہو سکتی ہے، جیسے محنت کرنے کی صلاحیتں یا تعلیمی جو وہ دنیا میں حاصل کرتا ہے۔

    ہنر اس کے پیشے میں ایک اہم رول ادا کرتا ہے۔ کیونکہ اس کی اس فطری صلاحیت سے اس کے پیشہ میں چار چاند لگ جاتے ہیں۔

    اس کا ذوق اور شوق بھی کبھی کبھی اس کے کام اور پیشے میں اہم رول ادا کرتا ہے۔ بلکہ کچھ لوگ تو اپنے ذوق و شوق کے مطابق ہی اپنا پیشہ اختیار کرتے ہیں۔اور جہاں تک بات فن کی ہے، یہ صلا حیت انسان کو فطرت سے حاصل ہوتی ہے۔شاعری بھی ایک فن ہے جو انسانوں کو فطرت سے ملتا ہے۔جب وہ اپنے فن کا مظاہرہ دنیا کے سامنے کرتا ہے تو اس کو عزت اور شہرت ملتی ہے جو اس کے لیے ذہنی تسکین کاباعث ہوتی ہے۔

    شاعری ایک ایسا فن ہے جس کے لیے کوئی درجہ یا پھر کوئی حد بندی مقرر نہیں ہے، ایک معمولی پڑھا لکھا انسان بھی شاعری کر سکتا ہے اور انتظامی عہدوں پر فائز ایک اعلی افسر بھی۔اردو زبان میں ایسے بے شمار افراد ہیں جو انتظامی عہدوں پر فائز رہے۔ساتھ ہی ساتھ انہیں نے شاعری بھی کی اوراردو زبان و ادب میں اپنے کلام شاعری سے اضافہ کیا۔تحقیق کا کام تو برسوں سے جاری ہے۔ مگر افسوس آج تک اس موضوع پر کام نہیں ہو سکا کہ ایسے کتنے لوگ ہیں جو انتظامی عہدوں پر فائز رہے اور ساتھ ہی ساتھ شاعری کرکے انہوں نے ادب میں مقام بھی بنایا۔ کیونکہ یہ کافی مشکل کام ہے، اس لیے کسی نے اس میدان میں شہسواری کرنے کی جرات نہیں کے۔لیکن خلیق الزماں نصرت تحقیق کے میدان کے ایک ایسے شہسوار ہے جنہوں نے پہلے ہی بر محل اشعار جیسے میدان خار زار کی سیاحی کر کے اس میدان کے ایسے ایسے خوش رنگ پھولوں سے دنیا کو متعارف کرایا کہ ان کے رنگ، خوبصورتی، اسرار اور نکات دیکھ کر آج بھی دنیا حیران ہے۔آج تک جو کام کسی نے نہیں کیا وہ کام خلیق الزماں نصرت نے کیا۔اس سلسلے میں ایک کتاب تو شائع ہو چکی ہے جس کی چاروں طرف سے پزیرائی ہو چکی ہے،ان کے جنوں کا یہ سفر اب بھی جاری ہے اور کتاب کی دوسری جلد پر کام بھی مکمل ہے۔ اس کو بھی انہوں نے دس سال میں پورا کیان ہے ۔ ان کا یہ جنون کیا کم تھا کہ ان پر ایک اور دوسرا جنون سوار ہو گیا ہے۔انتظامی عہدے پر فائز افراد کی شاعری پر انہوں نے تحقیق کا ایک مشکل کام بھی شروع کردیا۔یہ کام ان کے اس اہم ، مشکل نایاب، منفرد کام کا ایک حصہ ہے۔

    اردو پر جان دینے والوں میں آج کوئی محقق ہے تو صرف خلیق الزماں نصرت ہیں جورو زانہ بارہ سے چودہ گھنٹہ گھر میں آفس کی طرح اردو کے لئے کام کرتے رہتے ہیں۔ آج کے اس مصروف دور میں ادب کے لیے روزانہ اتنا کام کرنا،لکھنا کس کو نصیب ہوگا ۔ آج کی معاشی جدوجہد کے زمانے میں بھی لکھنے پڑھنے کا کام وہ بھی بڑھاپے میں ایک عجوبے سے کم نہیں ہے۔اس کے علاوہ نصرت اردو کے سیمیناروں اور مشاعروں میں بھی شرکت کرتے ہیں۔ آئے دن جگہ جگہ مشاعروں اور ادبی نشستوں کی صدات کے لئے مدعو کیے جاتے ہیں، طرحی مشاعروں میں پابندی سے غزلیں کہتے اور شامل بھی ہوتے ہیں۔ نصرت نے اب تک اپنی۱۵ کتابوں اور دسوں کتابیںترتیب دیکر بالکل مفت چھاپ کر دی ہیں ۔ اس دور میں دوسروں کی ادبی خدمت اس طرح کون کرتا ہے۔ لوگ اپنی کتاب چھپوا کر خوش ہوتے ہیں، مگر نصرت صاحب دوسروں کی کتابیں شائع کرکے انہیں اردو والوں سے روشناس کراتے ہیں۔ان کا ہر کام دوسروں کی بھلائی کے لئے ہوتا ہے۔شعرائے بمبئی،مالیگاؤں،بھیونڈی کے تذ کرے اسی زمرے میں آتے ہیں۔آئے دن شعراء اورادبا پرمضامین لکھتے رہتے ہیں۔موجودہ تحقیق بھی بالکل نئی تحقیق ہے۔ اب تک اردو میں انتظامی عہدوں پر فائض شعراء کا کسی نے اشاریہ تیار نہیں کیا ہے۔یہ کبھی ختم نہیں ہونے والا سلسلہ ہے ،وہ پڑھتے رہیں گے اور لکھتے رہیں گے۔اسی لیے انہوںنے اس تحقیق کے پہلے حصے کا کام کیا ہے۔اب اس معلومات سے کالج کے محقق اپنا کام شروع کر سکتے ہیں ۔یہ بھی شعراء کے اوپر الزام کے جواب میں ہے۔ وہ خود کہتے ہیں کہ عوام میں شعراء کا کردار اچھا نہیں مانا جاتا ہے۔چند ہی شعراء کو عزت و شہرت ملتی ہے بقیہ تگ و دو میں پوری زندگی لگے رہتے ہیں ۔مرنے کے بعد ایک آک کتاب شائع ہوئی ،نہیں تو ان کی تمام شعری کائنات ضائع ہوجاتی ہیں۔نصرت خود بھی شاعر ہیں،ان کے ساتھ وہ خود انتظامی عہدے ہر فائز رہ چکے ہیں۔ وہ مشہور ف معروف دی بمبئی مرکنٹائل بینک میں اکائوٹٹنٹ کے عہدے پر فائز تھے۔ ۔انہوں نے ۳۲ سال تک بینک میں ملازمت کی ہے۔لیکن انہوں نے اپنی ذمہ داریوں کے ساتھ اردو سے بھی رشتہ جوڑے رکھا۔تنقیدی اور تحقیقی کتاب شائع ہوتی رہیں اور ادب میں سر خرد ہوتے رہے۔انہوں نے کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ان کے پاس مشاہدات و تجربات کا وقیع سرمایہ ہے۔شاعری کے ساتھ ساتھ انہیں نثر سے بھی کافی شغف ہے۔ان کے مطالعہ سے ان کے شغفِ علمیہ کا پتہ چلتا ہے۔تحریریں بے سبب نہیں با وصف ہوتی ہیں۔انہوں نے نہ جانے کتنے شعراء اور ادباء کو گمنامی کے غار سے نکال کر ایک ثواب کا کام کیا ہے۔آنے والی نسل ان کی شکر گذار رہے گی۔وہ بڑے استقلال سے تصنیف کرتے ہیں اور اس پر اچھّے ردِّ عمل کو سراہتے ہیں۔ کوئی اپنی عملی یاذاتی رنجش کی وجہ سے کچھ لکھتا ہے تو بڑے سلیقے سے اس کا جواب دیتے ہیں ،یا خاموش رہ جاتے ہیں۔آنے والے وقت میں اس کا جواب خود بخود کوئی نہ کوئی دے دیتا ہے۔کبھی کبھی اپنی تحریر سے بھی اس کا جواب دے دیتے ہیں ،چند واقعات سے میں بھی واقف ہوں۔ایسا صرف کم علمی کی وجہ سے ہوتا ہے۔

    جیسا کہ میں نے اوپر لکھا ہے کہ موجودہ کتاب (تحقیق) کا عنوان’’شعر کہتے کہتے میں ڈپٹی کلکٹر ہوگیا‘‘ ہے ۔ یہ نادر لکھنوی کا شعر ؎لوگ کہتے ہیںکہ فنِ شاعری منحوس ہے ۔شعر کہتے کہتے میں ڈپٹی کلکٹر ہوگیا سے اخذ کیا گیا ہے ۔کتاب کے عنوان میں بھی جدت ہے ۔اس میں ابتدا سے اب تک انہوںنے جن شاعروں کو انتظامی عہدوں پر فائض پایاان کا مختصراً ذکر کیا ہے۔ان میں کلکٹر ،منظم عدالت ،سرشتہ دار،مینجر،داروغہ،پولیس آفیسر ،جج وغیرہ کو شامل کیا ہے۔اس کتاب ہی سے میں نے جانا کہ اکبر الہ ٰآبادی ،جسٹس ہمایوں (پاکستان)،سر سید احمدخاں وغیرہ جج تھے۔اردو کے ممتاز شاعر شاد عظیم آبادی پٹنہ کے مجسٹریٹ کے عہدے پر فائض تھے۔ کئی سارے علما کو سب لوگ جانتے تھے کہ وہ دین کے آدمی تھے،مگر وہ کمشنر اور کلکٹر تھے۔ مثال کے طور پر فتح پور (یوپی) کے مولوی ذاکر علی آگرے میں کمشنر تھے۔ان کا یہ مشہور شعر بھی ہے۔

    کترا کے نکل جاتے ہو کیوں راہ میں ہم سے

    عاشق ہیں تمہارے کوئی رہزن تو نہیں ہم

    اناؤ کے منشی محمد حسام الدین جو حسن گنج میں سب انسپکٹر ،اردو کے مزاح نگار ضمیر جعفری اور فیض احمد فیض بھی میجر تھے ۔ مشہور شاعر شاکر ناجی، محمد شاہ کے دربار میں داروغہ تھے ۔ موجود ہ دو ر کے شعر اء یعنی اپنے خاص دوستوں کو بھی نہیں فراموش کیا۔ بمبی کے کمشنر خالد قیصرصاحب ،انکے بینک کے چیف آفیسر،عطاالرحمان طارق ،سنٹرل اکسایز کے کمشنر جاوید اختر خان ، دہلی اسکول پپری،بہار کے ایڈمینیسٹر،ڈاکٹر رضی حیدر اجالا،عطا عابدی،مشتاق احمد نوری بہار کے سکریٹری تھے اور دیگر شعراء شامل ہیں۔ شعراء صرف واہ واہ کی روٹی نہیں کھاتے تھے ،بڑے بڑے عہدے بھی سنبھالتے تھے۔ان کے علاوہ بھی بے شمار عہدہ داران تھے جنکے ہم نام سے بھی واقف نہیں تھے ،اس کتاب سے انہیں جان گئے۔نصرت کو بے شمار بر محل اشعار کی نشاندہی کرنے کا شرف حاصل ہے ۔ ان کو بھی’’ شعر کہتے کہتے میں ڈپٹی کلکٹر ہوگیا‘‘ میں شامل کیا ہے۔بہترے اشعار ایسے ہیں جن کو پہلی بار نصرت نے بر محل کا نام دیا ہے۔اس کا سہرا بھی نصرت کے سر جاتا ہے۔انہوں نے ’’بر محل اشعار اور ان کے مآخذ ‘‘ کے ذریعہ یہ سب سے پہلے بتایا ہے کہ فلاں فلاں اشعار برمحل ہیں اور یہ موقع محل استعمال ہوا کرتے ہیں ۔انتظامی عہدوں پر رہنے والے شعراء نے بھی بر محل اشعار کہے ہیں ۔میں ان میںسے کچھ اشعار آپ کی نذر کر رہا ہوں۔فی الحال آپ انہیں پڑھ کر اپنی معلومات میں اضافہ کریں بعد میں آپ جب کتاب کا مطالعہ کریں گے تو تفصیل سے جان جائیں گے ۔

    چند تنکوں کی اگر سلیقے سے ترتیب ہو

    بجلیوں کو بھی طوافِ آشیاں کرنا پڑا

    محبت کرنے والے کم نہ ہونگے

    تری محفل میں لیکن ہم نہ ہونگے

    ہر تمنا دل سے رخصت ہوگئی

    اب تو آجا کہ اب تو خلوت ہوگئی

    ملے گی شیخ کو جنّت مجھے دوزخ عطا ہوگا

    بس اتنی بات ہے جس کے لئے محشر بپا ہوگا

    اس کتاب کے مطالعہ سے ہمیں بے شمار عہدوں کا نام معلوم ہوتاہے۔نصرت صاحب نے ان عہدوں کا مطالعہ نہیں کیا ہے جنہیں بادشاہوں کے زمانے میں پنچ ہزاری ،سہ ہزاری کہلاتے تھے ، جیسا کہ نصرت نے کہا ہے اور مجھے بھی امید ہے نصرت صاحب اس کا مطالعہ کرکے انہیں بھی شامل کریں گے۔اتنی بڑی رقم اس زمانے میں کسی بڑے عہدے پر کام کرنے والو ں کو ہی ملتی ہوگی۔تذکرے میں دو چار سو روپے پر کام کرنے والے لوگ سیکڑوں مل جاتے ہیں ۔ ایک اور بات ،کیا ہی بہتر ہوتا اگر نصرت صاحب ایک حصّے میں ان تمام عہدوں کی معلومات دیتے ۔

    اردو کی تحقیق محدود دائرے میں گھوم رہی ہے ،یہ اپنے کوئیں سے باہر نہیں آرہی ہے ۔گھما پھرا کے ایک ہی بات کو پیش کرنے کا یہ سلسلہ جاری ہے۔شاید ہی ایک فیصد تحقیق شائع ہوتی ہے ۔سچ کہیں ،ان میں وہ صلاحیت ہی نہیں ہوتی کہ انہیں عام لوگوں میں لایا جائے۔ایسی چیزوں کے تعلق سے یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا،لکھے موسیٰ ،پڑھے عیسیٰ۔ ایسے حالات میں خلیق الزماں نصرت کی دوسری کئی تحقیقات کے بعد ’’شعر کہتے کہتے میں ڈپٹی کلکٹر ہوگیا‘‘ کو ایک اضافہ کہا جائے ۔یونیورسیٹیوں کے طلبا اور اساتذہ اس سے استفادہ کرکے نئی نئی تحقیقات کر سکتے ہیں ۔ہاں ضرورت ہے کہ اس کتاب کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہونچائی جائے ۔کتابیات کی فہرست بھی شامل ہے جن کے ناموں سے ہمیں نئے موضوعات کا پتہ چلتا ہے۔مثلاً اگر ہم ہندو شاعر وں پر تحقیق کرنا چاہیں تو اس فہرست کو دیکھ کر اپنا کام شروع کر سکتے ہیں۔دیکھیں ایک جگہ ایسی تین کتابوں کا نام درج ہے ،اردو کے ہندو شعرائ،ہندو شعرائ،بہار کے ہندو شعراء دوسری جگہ اردو کے ارتقا میں ہندو شعرائ،تذکرہ شعرائے ہندو ۔ مشہور ناقد اور محقق حقانی القاسمی کسی ایک پیشے سے تعلق رکھنے والے شعراء کا ایک رسالہ اندازِ بیاں اور کے نام سے شائع کرتے ہیں ۔گذشتہ بار انہوں نے پولس والوں کا ذکر کیا تھا۔اس میں سے نصرت صاحب نے بھی دو چار شعراء کے حالات اور اشعار لئے ہیںاور اس کا حوالہ بھی دیا ہے۔اس طرح کے موضوعات پر تحقیق کرنے میں کافی کتابوں کے مطالعے کی ضرورت ہے جو ایک جگہ دستیاب نہیں ہو سکتی اس کے لئے انہیں جگہ جگہ جانا ہوگا۔یہ کام نصرت اپنے بر محل اشعار کے لئے تو کرتے رہتے ہیں ،نصرت اس کے لئے کہاں ایک جگہ بیٹھے رہتے ہیں، سارے ہندوستان میں گھوم گھوم کر کتابوں کا مآخذ ڈھونڈتے رہتے ہیں ۔انہیں اس عمر میں Home sicknessنہیں ہے۔

    نصرت صاحب کایہ کام اردو ادب میں ایک منفرد کام ہے۔ انہوں نے میدان تحقیق میں ایک نیا راستہ دھونڈھ نکالا ہے۔اور مجھے پوری امید ہے، ان کی تلاش کیے اس راستے کی وجہ سے تحقیق کے میدان میں نئے نئے محقق دار و ہوں گے،اور آنے والے محقین اس میدان میں نئے موضوعات تلاش کر کے نصرت صاحب کی تحقیق کو آگے بڑھائیں گے۔جس کی شروعات نصرت صاحب نے کر دی ہے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے