Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

نیر مسعود: جاگتا ہوں کہ خواب کرتا ہوں

شمیم حنفی

نیر مسعود: جاگتا ہوں کہ خواب کرتا ہوں

شمیم حنفی

MORE BYشمیم حنفی

    ’’ماحول میں ایک عجیب چیز ہے۔ بعض لوگوں نے کہاکہ اس افسانے کے ماحول سے ہمیں لگا کہ ہم اس زمانے میں پہنچ گئے ہیں۔ میں نے کہاکہ ہم نے تو ایسی کوئی چیز نہیں لکھی کہ مثلاً کون کیا پہنتا تھا۔ ماحول جن چیزوں سے بنتا ہے وہ تویہی ہیں نا کہ لوگوں کا لباس کیا ہے۔ سڑکیں کس قسم کی ہیں۔ عمارتوں کی کیا وضع ہے، کھاتے کیا ہیں لوگ، ان کے رسم و رواج، اٹھنے بیٹھنے کے طریقے کیا ہیں تو ایسی کوئی چیز نہیں ہے۔ اس افسانے میں یعنی کسی کے لباس کا کوئی ذکر نہیں ہے کہ انگرکھا پہنے ہوئے تھے یا قبا پہنے ہوئے تھے۔ ہاں یہ ضرور محسوس ہوتا ہے کہ یہ الگ ماحول ہے، ہمارے زمانے سے پہلے کے زمانے کا ہے۔‘‘ (نیر مسعود سے ایک گفتگو، ساگری سین گپتا، آج، کراچی، سرما، بہار ۱۹۹۸ ء)

    ان دنوں نیر مسعود افسانے نہیں لکھتے تھے۔ پرانے شہر کی اس عمارت میں بہ ظاہر کوئی ایسی بات نہ تھی جو اسے نئے شہر سے الگ کرتی ہو۔ محرابوں والے برآمدے کے سامنے ایک وسیع چبوترہ۔ پھر دور تک پھیلا ہوا باغ جس میں پھل دار درخت تھے اور چاندنی، ہارسنگھار، گڑہل، چمیلی، رات کی رانی کے پودے۔ نیم کے پیڑ کی شاخیں دور تک سایہ کئے ہوئے تھیں۔ دھوپ برآمدے تک مشکل سے پہنچتی تھی۔ نئی وضع کی آرام کرسیاں، میز، تپائی اور دیواروں پر فریم کی ہوئی پرانی تصویریں۔ سب سے اوپر تقریباً چھت کو چھوتی ہوئی میرا نیس کی تصویر تھی۔

    میں اس مکان میں جانے سے پہلے بھی نیر مسعود کو جانتا تھا۔ خود ان کے لباس اور وضع قطع، طور طریق میں ایسی کوئی بات نہ تھی جو انہیں اپنے زمانے سے الگ کرتی ہو۔ مگران کے آس پاس کا ماحول اور اس کا ماحول صاف لگتا تھا کہ ’’یہ الگ ماحول ہے، ہمارے زمانے سے پہلے کے زمانے کا ہے!‘‘

    کبھی کبھی بغیر کسی شعوری کوشش کے بھی چیزیں، شکلیں اور شبیہیں خود بخود بدلتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں۔ نیر مسعود کے سلسلے میں بھی مجھے کچھ ایسا ہی گمان ہوا۔ الہ آباد میں وہ مرزا رجب علی بیگ سرور پر اپنی تحقیق مکمل کرنے کے بعد گھر لکھنؤ لوٹ آئے تھے۔ یہاں اس گھر پر سامنے والے سبزہ زار کے درختوں، پودوں، بیلوں کے علاوہ مسعود صاحب کی شخصیت کاسایہ بھی تھا، بہت گھنا، ٹھنڈا اور دورتک جاتا ہوا۔

    برآمدے کے ایک چوڑے چکلے دروازے کے پہلو میں آبنوسی لکڑی کے فرنیچر اور ایک مخصوص نشست پر مسعودصاحب کے چاندی بالوں سے ڈھکے سر کو دیکھ کر یہ فیصلہ کرنا آسان نہیں تھا کہ آس پاس کا پورا ماحول ان کی بہ ظاہر سجل، ملائم اور مرموز شخصیت کی توسیع ہے یا یہ کہ اس ماحول کی تہہ سے ان کی شخصیت کا ظہور ہوا ہے۔ چیزوں، اطراف کی شکلوں، شبیہوں اور گھرکے مکینوں میں ایک گہرے تعلق اور ہم آہنگی کا احساس کوئی بھی کر سکتا تھا۔ زندگی بہت محفوظ و مامون، اپنے اسرار کے ساتھ موجود اور غیر متحرک دکھائی دیتی تھی۔ ساری فضا خاموش اور ٹھہری ہوئی۔ حرکت اور ارتعاش سے یکسر خالی۔ ایسی ٹھہری ہوئی زندگی کے تمام راز اور رمزنہ تو لوگوں اور چیزوں کی اوٹ سے کبھی جھانکتے ہیں، نہ چھلکتے ہیں، مگر پھر بھی اپنے ہونے کا احساس ہر وقت دلاتے رہتے ہیں۔

    نیر مسعود کے افسانو ں کا حال بھی یہی ہے۔ یہ کہانیاں نئی ہیں کہ پرانی اور جن واقعات کے بیان پر یہ کہانیاں مبنی ہیں، وہ گزر رہے ہیں یا گزر چکے ہیں یا آئندہ گزرنے والے ہیں اور انہیں ماضی کے منطقے سے پہلے ہی دیکھا جا چکا ہے، ایک خواب کی طرح اس بارے میں یقین کے ساتھ کچھ کہنا ممکن نہیں۔ نیر مسعود نے اپنی پہلی کہانی نصرت (۱۹۷۱ء) سے لے کر اب تک (۲۰۰۲ء) تقریبا ًتیس کہانیاں لکھی ہیں۔ سال میں ایک کہانی کا حساب بنتا ہے۔ بہ ظاہر یہ رفتار سست ہے۔ خود کہانیاں بھی دھیمی چال چلتی ہیں۔ واقعات دھیرے دھیرے مرتب ہوتے ہیں اور انہیں قلم بند کرتے وقت نیرمسعود کبھی جذباتی، پریشان اور مشتعل نظر نہیں آتے۔ گویا کہ ان کا اسلوب بیان، زبان، لہجہ، سب کے سب ان کی کہانی کے بنیادی مزاج سے مناسبت رکھتے ہیں۔

    کہانی کے ماحول کی تشکیل میں لکھنے والے کاتخیل، حافظہ، مطالعہ، شعور اور اس کی لسانی استعداد، اس کا ذخیرہ الفاظ، بیان کا انداز اور آہنگ قریب قریب برابر کے حصےدار ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نیر مسعود کے کسی بھی افسانے کی جو مجموعی ہیئت اور شکل بنتی ہے، اس کے حصے بخرے نہیں کئے جا سکتے۔ ایک ناقابل تقسیم قسم کی وحدت، بیک وقت اپنے اندرونی اور بیرونی عوامل کی مدد سے اس طرح ظہورپذیر ہوتی ہے کہ اس کی درجہ بندی نہیں کی جا سکتی، نہ ہی اس کے ارتقا کی کوئی سمت مقرر کی جا سکتی ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے کہ خواب دیکھا جا رہا ہو یا خواب لکھا جا رہا ہو۔ اس خواب میں چمک دمک بھی نہ ہونے کے برابر ہے اوراس کا تاثر بالعموم سیاہ اور سفید شیڈس میں اور سایوں کی مدد سے مرتب ہوتا ہے۔ اس خواب میں گہرائی اور اسرار کا عنصر بھی اسی واسطے سے پیدا ہوتا ہے۔ خواب اور اپنی کہانی کے رابطوں کا ذکر کرتے ہوئے نیر مسعود نے کہا تھا،

    ’’میری کہانیوں میں بلکہ میری پوری زندگی میں، خوابوں کا بہت بڑا کردا رہے۔ بعض خواب تو اس قدر مربوط، گویا پورے بنے بنائے افسانے کے طور پر دیکھے۔ بہت لمبے خواب بھی دیکھے۔۔۔ قسطوں میں کوئی خواب نہیں دیکھ سکا ہوں اب تک۔ اب تک بار بار دکھائی دینے والے خواب بھی دیکھے۔ یہ تو سبھی کے ساتھ ہوتا ہے کہ کوئی ایک یادوخواب بار بار دکھائی دیتے ہیں اور سمجھ میں نہیں آتا کہ کیوں؟‘‘ (نیر مسعود سے ایک گفتگو، ساگری سین گپتا)

    نیر مسعود نے اپنی کہانیوں اور اپنی تخلیقی زندگی کے سلسلے میں وقتاً فوقتاً ایسی کئی باتیں کہی ہیں جن کی بنیاد پر ان کے قارئین نے یہاں تک کہ نقادوں نے بھی کچھ بندھی ٹکی رائیں قائم کر لی ہیں۔ میرا خیال ہے کہ اپنے بارے میں لکھنے والے جو کچھ کہتے رہتے ہیں، اسے آنکھ بند کرکے قبول کر لیا جائے توبہت سی دشواریاں پیدا ہوتی ہیں۔ انتظار حسین ادبدا کر اپنے ادبی نظریات اور اپنی تخلیقات کی ’’وضاحت‘‘ کے لئے کبھی کبھی ایسا موقف بھی اختیار کرتے ہیں جو عام پڑھنے والوں کو غلط راستے پر ڈال دیتا ہے۔ انتظار حسین کی ماضی پرستی، رجعت پسندی، مقصد بیزاری کے واسطے سے زیادہ تر غلط رائیں رواج پا گئی ہیں۔ یہی صورت حال نیر مسعود پر بھی صادق آتی ہے۔ بےشک ان کی کہانیاں تعبیر کی کئی گنجائشیں اور جہتیں رکھتی ہیں اور مختلف پڑھنے والے اپنی اپنی افتاد طبع کے مطابق ان سے من چاہے معنی اخذ کر سکتے ہیں۔ لیکن خودنیر مسعود نے کبھی کبھار اپنے بارے میں جو کچھ کہا ہے، وہ سب کا سب ایسا نہیں ہے کہ بغیر سوچے، آنکھیں بند کرکے اس پر یقین کر لیا جائے۔ مثال کے طور پر ان کے مندرجہ ذیل بیانات پر ایک نظر ڈالئے،

    ’’مراسلہ افسانہ۔۔۔ یہ سوچ کر لکھا تھا کہ اس میں نہ کوئی ڈرامائی بات ہو نہ کوئی عجیب قسم کے کردار ہوں۔ نہ کوئی دلچسپ واقعات ہوں۔ یہ افسانہ لکھا ہی اس خیال سے تھا کہ نہ میں بتا سکوں نہ آپ بتا سکیں کہ اس افسانے میں کیا ہے۔ بہت سیدھا افسانہ ہے۔‘‘

    ’’اسی طرح ایک اور افسانہ تھا، ’رے خاندان کے آثار۔ اس میں بھی میں نے یہی کوشش کی یہ بالکل عام زندگی کی روز مرہ قسم کی کہانی ہو اور اس میں کوئی انوکھی یا حیرت کی بات نہ ہو۔۔۔ اس میں محنت بھی بہت ہوتی ہے۔ یعنی آدمی بالکل سپاٹ قسم کا واقعہ بیان کرے اور اس میں اثر آجائے۔ پھر اس میں یہ رسک بھی رہتا ہے کہ زیادہ تر لوگ تو یہی کہیں گے کہ یہ کہانی کیا ہوئی یہ تو مثلا ًکسی جگہ جانے کا حال بیان کر دیا۔‘‘

    ’’لوگوں کو میر ی کہانیوں کے بارے میں یہ خیال رہا کہ یہ مثلاً کہیں سے ترجمے ہیں۔ اس وجہ سے مجھے اور ڈر لگا رہتا ہے۔ مگر خیر، اب تک کوئی چوری پکڑی تو نہیں گئی۔ اب بھی اپنے خواب دیکھتا ہوں اور ان پر لکھتا ہوں۔۔۔‘‘

    ’’جب لوگ کہتے ہیں کہ یہ افسانہ کسی ٹائم فریم میں نہیں ہے تو میں کہتا ہوں کہ ٹائم فریم سے آزاد ہونے کا تصور ہی نہیں کر سکتا ہے آدمی۔ وہ الگ چیز ہے یہ ہم نہ بتا سکیں کہ یہ آج کا قصہ ہے یاکل کا ہے یا سو برس پہلے کا ہے، لیکن ہے تو وہ بہرحال کسی نہ کسی ٹائم میں۔ اب چاہے ہم یہ نہ بتائیں کہ یہ ۱۹۵۰ء کا واقعہ ہے یا ۱۹۲۵ء کا۔ تو یہ ضروی نہیں معلوم ہوا کہ ہم یہ بھی بتائیں کہ کس سن کا واقعہ ہے، کس شہر کا ہے بلکہ اگر وہ ٹھیک نہ معلوم ہو تو زیادہ اچھا ہے۔‘‘

    ’’مراسلہ، جس خواب پر مبنی تھا، وہ یہ تھا کہ اس گھر میں گیا ہوں، پرانے خیال کے لوگوں کا گھر ہے اور مجھ سے کہا گیا ہے کہ تھوڑا ٹھہر جاؤ، آج ایک بچے کی سال گرہ ہے۔۔۔ مجھ کویہ معلوم ہوتا ہے کہ اس سال گرہ کی ویڈیو فلم بنانے کا بھی انتظام کیا گیا ہے۔ تو خواب میں مجھ کو ایک Shock سا ہوا کہ اس پرانے خیال کے لوگوں کے اس گھر میں یہ ویڈیو فلمنگ وغیرہ بڑی بےجوڑ سی چیز معلوم ہو رہی ہے۔۔۔ خواب میں تو اس پر افسوس ہوا تھا لیکن حقیقتاً یہ کوئی افسوس کرنے کی بات نہیں ہے۔‘‘

    ان بیانات سے ایک تنہارو، دنیا بیزار، قدرے سنکی یا مرکز سے کھسکے ہوئے، شرمیلے اور بے جہت شخص کی تصویر ابھرتی ہے۔ یہ شخص کسی مانوس اور مروج حوالے سے نہیں پہچانا جاتا، ایک انتہائی نجی اور انفرادی دنیا کا باسی جو بس اندھیرے میں چلتا رہتا ہے اور اپنے قاری کو بھی کم و بیش ایسی ہی کیفیت کا تجربہ بخشتا ہے۔ نیر مسعود، قرۃ العین حیدر اور انتظار حسین کے بعد ہمارے سب سے زیادہ غلط سمجھے جانے والے (Misunderstood) افسانہ نگار ہیں۔ چنانچہ اس واقعے پر حیرانی نہیں ہونی چاہئے کہ ان کے بارے میں سوچنے والوں کی اکثریت کا رویہ، ان کی طرف یا تو ایک بندھے ٹکے رسپانس (response) کا ہے یا پھر ایک طرح کی بے نام جارحیت کا، جس کے نزدیک نیر مسعود کی افسانہ نگاری ان کی ادبی سرگرمیوں کے ضمن میں کسی خاص توجہ کی مستحق نہیں ہے۔

    نیر مسعود کی افسانہ نگاری کے بارے میں اتنا کم لکھا گیا ہے، خاص کرار دو میں کہ بہ ظاہر یہ بات عجیب اور غیر یقینی سی لگتی ہے۔ انگریزی میں ان کے افسانوں کو موضوع بناکر جو چھوٹے بڑے مضامین لکھے گئے، ان میں سب سے اہم تحریریں محمد عمر میمن، ایلی زبیتھ بیل (Elizabeth Bell)، محمد سلیم الرحمن، زینو (صفدر میر) اور مظفر علی سید کی ہیں۔ ان کی کہانیوں کے انگریزی ترجمے Essence of Camphor کی اشاعت (۲۰۰۲ء) کے بعد امریکہ (یونائٹیڈ اسٹیٹس) کے علاوہ برطانیہ، اسپین، فرانس اور اسرائیل کے اشاعتی اداروں نے بھی ان کہانیوں (مترجم، محمد عمرمیمن) میں دلچسپی کا اظہار کیا ہے۔ ایک ایسا لکھنے والا جس کو سنجیدگی سے پڑھنے اور سمجھنے والے خود اس کی اپنی زبان میں خال خال دکھائی دیتے ہیں، بین الاقوامی ادبی معاشرے میں اس کی طرف یہ توجہ واقعی حیران کن ہے۔ لیکن یہ توجہ غیر متوقع نہیں ہے۔ نیر مسعود کی تخلیقی دنیا جتنی شخصی اور پرائیویٹ دکھائی دیتی ہے اتنی ہی جمہوری بھی ہے۔ اس کا خلقیہ (Ethos) اپنی عام روایت سے بہت مختلف، بہت مرموز اور نامانوس ہونے کے باوجود ایک عجیب و غریب انسانی کشش اور اپیل رکھتاہے۔ اس سلسلے میں کچھ رائیں حسب ذیل ہیں،

    ’’کلیۃً غیر ماخوذ اور اردو فکشن کی تاریخ میں اپنے سے پہلے ظہور پذیر ہونے والی ہرشے سے غیر مماثل، یہ کہانیاں (اردوکے) اولین رومانیوں اور مصلحوں (کی تخلیقات) سے مختلف ہیں۔ دوسری طرف منشی پریم چند کے جیسے سماجی حقیقت نگاروں اور ترقی پسند ادیبوں سے بھی مختلف ہیں۔ عجیب بات یہ ہے کہ (یہ کہانیاں) اس تجدد پسندانہ تجریدیت اور علامتیت کے کسی عنصر کی تقلید بھی نہیں کرتیں جس نے ۱۹۶۰ء اور اس کے بعد کے برسوں میں اتنی شدومد کے ساتھ اردو کے افسانوی منظرنامے پر دھوم مچا رکھی تھی۔‘‘

    محمد عمر میمن،

    (Naiyer Masud، A Prefatory Note)

    ’’نیر مسعود کی ایک اپنی نحی دنیا ہے جسے وہ اپنے نفس (اپنی ہستی) کے حوالے سے دیکھتے ہیں۔ یہ آئینے سے جھانکتے ہوئے عکسوں، ابہامات اور بیک وقت نمایاں اور دھندلی بے خیالیوں کی دنیا ہے جو اپنے خلا کے کھنچاؤ سے ہمیں سراسیمہ بھی کرتی ہے۔ ماضی یہاں مسلسل حال پر مسلط رہتا ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ اس میں معنی پیدا کرنے کی ہر کوشش کی تادیب بھی کرتا رہتا ہے۔‘‘

    Elizabeth Bell، The Un-Contexted Master، An Out of Culture Experience of Naiyer Masud.

    ’’ان کا کہانی مرتب کرنے کا ایک اپنا مخصوص انداز ہے، گرچہ انوکھا نہیں۔ (کہانی کا) پہلا ڈرافٹ لکھ لینے کے بعدوہ اس میں بہت زیادہ کاٹ چھانٹ کرتے ہیں، اس طرح کہ بیانیہ میں خاصے بڑے رخنے (خلا۔ وقفے ) درآتے ہیں۔‘‘

    (محمدسلیم الرحمن Once Below a Time، A Short Essy on Simiya)

    ’’نیر مسعودکی کہانیاں بنیاد ی طور پر اپنی ہیئت کے لحاظ سے تجدد پسند (Modernist) اور مواد کے لحاظ سے روایت پسند کہی جا سکتی ہیں۔۔۔ ان بیانوں میں صرف وقوعے ہیں، (ان میں) رسمی معنوں میں کہانیاں نہیں ہیں۔‘‘

    Zeno، The Ficton of Past as Present

    ’’نیر مسعود نہایت متشددتجریدیت پسند ہیں۔ لیکن ایک ایسی زندگی جو اب باقی نہیں رہی، اس کے اپنے تجریدی وژن کو وہ ایک واضح حقیقت کا مفہوم دینا چاہتے ہیں۔ اس کوشش میں وہ نمایاں طور پر کامیاب ہیں۔‘‘ (زینو، حوالہ ایضاً)

    ’’اپنی کہانی وقفہ کے معمار کی طرح، انہیں (نیر مسعود) کو مرمت کا کام کرنے والے اس کاریگر کا نام دیا جا سکتا ہے جو شکستہ اجاڑ ڈھانچوں میں (ان کو بحال کرکے) نئے سرے سے زندگی کے آثار پیدا کرتا ہے، لیکن اسی (معمار) کی طرح نیر مسعود، اس عمل کے خطرات کے باوجود روایت کے قلب تک جا پہنچنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔ کسی اور بات سے زیادہ ہم المیے کے ایک ایسے (سچے اور) کھرے احساس کی خاطر بھی ان کی طرف مڑ سکتے ہیں جو کہ بیک وقت توانا بھی ہے اور دماغ کو منور کرنے والا بھی ہے۔‘‘

    (مظفرعلی سید، New Stories from and Old City)

    بھانت بھانت کے ان جائزوں، تبصروں اور تاثرات کے ساتھ اگر ان متفرق رایوں کو بھی شامل کر لیا جائے جن کا اظہار ان کی کہانیوں کے انگریزی تراجم (امریکی ایڈیشن) کی اشاعت کے بعد کیا گیا تو ایک دلچسپ اور خاصی الجھی ہوئی تصویر رونما ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر بل مارکس (Globe Correspondent) نے کہا کہ ’’یہ کہانیاں (عطرکافور) ماورائی اشاروں اور نفسیاتی حرارتوں کے ایک چابک دست آمیز ے کی صورت سامنے آتی ہیں۔ نیر مسعود کی (قاری کے احساسات کو) گرفت میں لے لینے والی مافوق الفطریت (Supernaturalism) کی دور افتادگی اپنے حقیقی (اور مبنی برصداقت) ہونے کا تاثر پیدا کرتی ہے جسے برآمد (Export) کرنے کے لئے پیدا نہیں کیا گیا۔ یعنی کہ ان کہانیوں میں سریت کے عناصر کی افراط ہونے کے باوجود ان کی مابعدالطبعیات ہمارے شعور میں اپنی جگہ بنالیتی ہے۔ ہم انہیں واہمے نہیں سمجھتے اور انہیں حقیقت کی ایک انوکھی شکل کے طور پر قبول کر لیتے ہیں۔‘‘

    ’’ان میں سے بعض کہانیاں ہمیں چکرا دیتی ہیں، لیکن اس لئے نہیں کہ انہیں فراریت پسند تصویروں کے طور پر دیکھا جائے۔ عطر کافور اس حقیقت کے وجود کو خبر دیتی ہیں جو مخفی (نامعلوم اور ناقابل فہم و ادراک) ہے۔‘‘ ایک اور رائے کے مطابق، ’’اس مجموعے کی ساتوں کہانیاں ان تجربوں کی پیچیدگی کے بوجھ سے پردہ اٹھاتی ہیں جو حافظے (یادداشت) کا عطا کردہ ہے۔‘‘ (Elee-magazine)

    ’’یہ کہانیاں ایک جادوئی قالین کے گنجان دھاگوں سے بنی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔‘‘ گویاکہ مجموعی اعتبار سے یہ کہانیاں ایک اجنبی، نادیدہ مگر پرکشش حقیقت اور ایک ایسی دنیا کی تشکیل کرتی ہیں جو ہمارے لئے ہے بھی اور نہیں بھی ہے۔ تذبذب اور دبدھے کی ایسی کیفیت اس عہد کے کسی اور افسانہ نگار کے یہاں شاید اس حد تک نمایاں نہیں ہے۔ اپنی کہانیوں کے مزاج اور اپنے تخلیقی طریق کار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے نیر مسعود نے کہا تھا، ’’۔۔۔ میں چاہتا ہوں کہ پڑھنے والے کو کہانی اچھی طرح معلوم ہو، میری ایسی بالکل کوئی خواہش نہیں کہ ان کے ذہن کو الجھایا جائے، مگر کسی بات کو بالکل واضح کرکے لکھنا اچھا معلوم نہیں ہوتا۔۔۔‘‘

    ’’ضروری نہیں کہ کہانی میں کوئی ڈرامائی واقعات ہوں۔‘‘

    ’’بالکل واضح خاتمہ مجھے اچھا نہیں معلوم ہوتا ہے۔‘‘

    ’’بہرحال کوشش تو یہی ہے کہ اگر کوئی بات کہناہے تو اسے سیدھے سیدھے ڈسکورس کی صورت میں نہ کہا جائے، بلکہ ایسے کہا جائے کہ مطلب نکل آئے غور کرنے پر۔۔۔ میری کوشش تو یہی ہوتی ہے کہ کوئی جملہ بھی ایسا نہ لکھا جائے جو مبہم ہو اور پڑھنے والا کہے کہ اس کا مطلب کیا ہے۔۔۔ رہی یہ بات کہ یہ کیوں لکھا ہے، تو اس کا جواب ظاہر ہے کہ بہت سی جگہ دے سکتے ہیں، بہت سی جگہ نہیں بھی دے سکتے۔۔۔ اور فرض سمجھتے نہیں اپنا۔۔۔‘‘ (ساگری سین گپتا، نیر مسعود سے ایک گفتگو)

    ان بیانات میں جو سادگی اوپر سے دکھائی دیتی ہے، یہ اتنے سادہ نہیں ہیں۔ ظاہر ہے کہ نیر مسعود نے روزنامچے یا اصطلاحی معنوں میں آپ بیتیاں نہیں لکھی ہیں۔ کہانیاں لکھی ہیں اور یہ کہانیاں ہم سے اس امر کا تقاضا کرتی ہیں کہ کہانی کے روایتی تصور، فارم اور مانوس و مروجہ عمل کے اثرات سے آزاد ہوکر انہیں ایک نئی تخلیقی دریافت اور دستاویز کے طور پر دیکھا جائے۔ نیر مسعود بہت مشکل لکھنے والے ہیں اور ان کی کہانیاں سہل نگاری کا صرف التباس پیدا کرتی ہیں۔ تاریخ، معاشرت، روایات، رسوم، ہمارے اجتماعی حافظے میں پیوست اقدار، تہذیبی تصورات اور دنیوی اور باطنی علوم، سماجی تغیرات اور اجتماعی واقعات کے ساتھ ساتھ شخصی واہموں، مفروضوں، آسیبوں (Obsessions) اور حاوی عقیدوں کی آمیزش سے ایک انتہائی پیچیدہ موزیک وجود میں آیا ہے۔ نیر مسعود کو یہی موزیک کہانیوں کے لئے اساس اور عقبی پردہ مہیا کرتا ہے۔

    لیکن جیسا کہ شروع میں ہی عرض کیا گیا تھا، نیر مسعود کے یہاں اپنے تحرک اور ارتعاشات کے باوجود زندگی اور احساسات ٹھہرے ہوئے، ضابطہ، بند، متوازن اور نہایت محتاط دکھائی دیتے ہیں۔ وہ اپنے تجربوں پر بہت گہری اور کڑی نظر رکھتے ہیں۔ انہیں ذرا بھی بے قابو اور بے حجاب نہیں ہونے دیتے۔ ان کی کہانیوں کا مرکب تیار کرنے والے بصری اور حسی پیکر تجربے کی آنچ سے کبھی پگھلتے نہیں۔ ہمیشہ اپنی جو ن میں رہتے ہیں اور اپنی شبیہیں بگڑنے، بدلنے اور مسخ نہیں ہونے دیتے۔

    نیر مسعود کو مصوری سے فطری مناسبت ہے۔ مگر مثال کے طور پر ’ڈالی‘ کی تصویریں، جن میں شبیہیں، شکلیں اور ساختیے اس کی نجی واردات کے دباؤ اور تجربے کی حدت سے پگھل جاتے ہیں اور اپنی طبیعی اساس سے کٹ کر ایک طرح کی نئی ما بعدالطبعیات وضع کر لیتے ہیں، نیر مسعود کے تخلیقی مزاج سے مطابق نہیں رکھتیں۔ ان کے اعصاب اور حواس پر جو بھی گزر رہی ہو اور بےشک اعصاب اور احساسات کا عمل ان کی تحریروں میں شدید، تیز اور گرم ہے، نیر مسعود اپنے قاری کو بظاہر اس کی ہوا بھی نہیں لگنے دیتے۔ ان کے جوبیانات اپنے تخلیقی رویوں کی بابت ہم نے اوپر نقل کئے ہیں، اگر ان کا تجزیہ کیا جائے تو صاف پتہ چلتا ہے کہ نیر مسعود کا مقصد اپنی کہانیوں میں خود کو سامنے لانا نہیں ہے بلکہ روپوش ہونا ہے۔

    انتظار حسین نے لکھا تھا، ’’پیغمبروں اور لکھنے والوں کا ایک معاملہ سدا سے مشترک چلا آتا ہے۔ پیغمبروں کااپنی امت سے اور لکھنے والوں کا اپنے قارئین سے رشتہ دوستی کا بھی ہوتا ہے اور دشمنی کا بھی، وہ ان کے درمیان رہنا بھی چاہتے ہیں اور ان کی دشمن نظروں سے بچنا بھی چاہتے ہیں۔۔۔ افسانہ لکھنا میرے لئے اپنی ذات سے ہجرت کا عمل ہے۔‘‘ (اپنے کرداروں کے بارے میں۔ آخری آدمی) نیر مسعود بھی خود کو چھپانے کا طرح طرح سے جتن کرتے ہیں۔ ایسی باتیں کہتے ہیں کہ قاری کا دھیان بٹ جائے یا کسی اور طرف لگ جائے۔ کبھی یہ حربہ کامیاب بھی ہوتا ہے، کبھی نہیں ہوتا۔ روپوشی کی یہ کوشش ان کی کہانیوں میں بھی طرح طرح سے ظاہر ہوتی ہے۔ وہ یا تو پوری کہانی اس طرح مرتب کرتے ہیں کہ ایک جیتی جاگتی واردات کے بالمقابل ایک مختلف واقعہ مرتب ہو جائے، گویا کہ تمثیل سے بہ ظاہر گریز کے باوجود ایک متوازی تصویر بن جائے یا پھر یوں سمجھ لیا جائے کہ اپنی کہانی میں نیر مسعود شخصی واردات کے معروضی تلازموں کی تشکیل میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔

    ان کی کہانیوں میں کرداروں کے نام اور مقامات یا تاریخی شہادتو ں کے بیان سے گریز اوران کی طرف براہ راست اشارے نہ کرنے کی ایک شعوری کوشش ہمیشہ دیکھی جا سکتی ہے۔ اس کے علاوہ اردو فکشن کی روایت میں قرۃ العین حیدر کے بعد نیر مسعود کی یہ دوسری بڑی مثال ہے، جہاں علم اور تحقیق یا تاریخی معلومات اور طبیعی حقائق کو افسانے میں اس خوبصورتی کے ساتھ کھپایا گیا ہے۔ بیان کے شستہ و شائستہ، سبک اور خاموش بہاؤ میں ذرا بھی اندازہ اس بات کا نہیں کیا جا سکتا کہ لکھنے والے نے کتنے شانت سبھاؤ اور کتنی چھان بین، محنت اور تفصیل کے ساتھ اپنی کہانی کا مواد یکجا اور مرتب کیاہے، جیسے بہت چوڑے پاٹ کا دریا تھم تھم کے بہہ رہا ہو۔ درون خانہ ہنگاموں کی کوئی خبر ان کہانیوں سے کھلنے نہیں پاتی۔

    اس عمل کے نتیجے میں جو مجموعی صورت حال رونما ہوتی ہے، اس پر نیر مسعود کے بہت تربیت یافتہ قارئین کو بھی یا تو صرف واہمے اور خواب کا گمان ہوا ہے یا پھر وہ اس رائے تک پہنچے ہیں کہ یہ کہانیاں پڑھنے والے کو ایک دھندمیں سرگرداں چھوڑ دیتی ہیں اور کسی نتیجہ خیز مو ڑتک اس کو نہیں پہنچاتیں۔ ہمارا خیال ہے کہ بہ ظاہر ناکامی ہی (اگر اسے ناکامی فرض کر لیا جائے) نیر مسعود کی کامرانی کا ثبو ت ہے۔

    روایتی مقصد ی کہانی نے بیشتر پڑھنے والوں کی عادت اس طور پر خراب کر دی ہے کہ ہر کہانی کے انجام میں وہ کسی صاف نتیجے یا کسی واضح پیغام یا کسی Verifiable اور ٹھوس حقیقت کی جستجو کرتے ہیں اور لکھنے والے کی گمشدگی اور نارسی یا اس کے اظہار کی حجاب آمیز روش سے مطمئن نہیں ہوتے۔ عام قاری وہ فکشن کا ہو یا شعر کا، جب تک لکھنے والے کی بصیرت پر اپنی گرفت مضبوط نہ کرلے اور اس کے شعور پر خود کو حاوی نہ سمجھنے لگے، اپنے مطالعے سے مطمئن نہیں ہوتا۔ بیشتر صورتوں میں وہ اپنی ہار کو لکھنے والے کے عجزبیان اور تجربے کی خامی کے سر ڈال دیتا ہے۔

    نیر مسعود کے افسانوں کی بنت میں میں ان کی شفاف، نک سک سے درست، سنبھلی ہوئی، سادہ اور تصنع آمیز آراستگی کے بھاری پن سے پاک زبان کا بھی ایک خاص رول رہا ہے۔ یہ نثر میں ایک طرح کا سہل ممتنع ہے، بادی النظر میں بہت آسان، مگربہت مشکل، بہ ظاہر سادہ لیکن بہت پرکار اور پرفریب۔ اردو کے معاصر فکشن میں نیر مسعود کی جیسی زبان کی پرکھ اور حساس گرفت ہمیں کہیں اور دکھائی نہیں دیتی۔ اس ضمن میں ان کے یہ اعتراضات (یا وضاحتیں) غور طلب ہیں،

    ’’نثر کی قوت میرے نزدیک یہی ہے کہ اس میں شاعری سے کم کام لیا جائے۔۔۔ مثلاً بہت کوشش کرکے (شاعرانہ زبان سے) پرہیز کرتا ہوں اور معلوم ہو کہ اس میں شاعرانہ انداز آ گیا ہے تو اس کوکاٹ بھی دیتا ہوں —استعارہ میرے یہاں غالباً کہیں نہیں ہوگا۔۔۔ شاعری کے جو اوزار اور آلات ہیں ان کو شاعری کے لئے رکھنا چاہئے، نثر کی اپنی قوت ہے، اس کی مدد سے لکھا جا سکتا ہے۔۔۔ میں نے سب سے پہلے تویہی کوشش کی کہ جو چیز لکھوں وہ نثر میں ہو، نثر ی انداز میں ہو اور وہ جو فصیح ٹکسالی زبان ہے وہ نہ ہو۔ زبان صحیح ہو، لیکن با محاورہ یا ہمارے روز مرہ کے مطابق نہ ہو۔

    مجھ کو شاعری کا ذوق بھی ہے اور شاعری مجھ کو پسند بھی زیادہ ہے۔ شاعری کا مطالعہ بھی بہت ہوا تو اس کا اندازہ بھی ہے کہ شاعری کہاں کہاں گھس جاتی ہے، نثر میں اس کو میں دور رکھنا چاہتا ہوں۔ اس کی وجہ سے بعض اوقات یہ بھی شبہ ہوتا ہے کہ یہ ترجمے ہیں۔ زبان پر بہت محنت بھی کی ہے میں نے اور اس پر بھی کہ اس کی کوئی ایسی خاص پہچان نہ بن پائے کہ اسے پڑھ کے آدمی اندازہ لگالے کہ کون لکھ رہا ہے، کہاں کا آدمی لکھ رہا ہے۔ اس کی وجہ سے میری کہانیوں کی زبان کچھ اجنبی معلوم ہوتی ہے۔‘‘ (نیر مسعود سے ایک گفتگو، ساگری سین گپتا)

    پر پیچ اور عام ڈگر سے ہٹے ہوئے ادراک اور واردات کے بیان میں زبان و بیان کا ایسا انداز اختیار کرنا جوبہ ظاہر بہت سادہ ہو، نیر مسعود کے اپنے خیال کے مطابق بھی ایک محنت طلب اور صبر آزما عمل ہے۔ اسلوب کی Transparency، اتنی شفافیت کہ آسانی کے ساتھ اس کے آر پار دیکھا جائے، ایک چکر میں ڈال دینے والی خوبی ہے۔ نیر مسعود کے سلسلے میں یہ واقعہ محض اتفاقی تو نہیں کہ انہیں کافکا اور بورخیس اور بعض معاصر فارسی افسانہ نویسوں کے اسلوب میں اپنے احساسات کی آہٹ سنائی دی۔ معاصر ایرانی فکشن اردو فکشن کے موجودہ منظرنامے سے زیادہ تہہ دار اور کثیرالجہات ہے۔ نیر مسعود نے اردو فکشن کی اس روایت سے فائدہ کم سے کم اٹھایا جو پریم چند، منٹو، بیدی، عصمت اور کرشن چندر سے ہوتی ہوئی ان تک پہنچی تھی۔ ایک خاص طرح کی خلقی مشرقیت نے انہیں مغرب کے بھی انہی شہ پاروں کی طرف متوجہ کیا جن کا انداز اور اسلوب کھلا ڈھلا، واضح یا ایک عامیانہ اصطلاح کے مطابق بہت حقیقت آمیز اور سائنٹفک نہیں تھا۔

    نیر مسعود واقعات کے باہمی ربط اور تدریجی ارتقا سے کہانی کی تعمیر نہیں کرتے، ایک پوری فضا کا عکس اتارنے کی جدوجہد کرتے ہیں جو بجائے خود کسی رسمی واقعے کا بدل بن جاتی ہے۔ ان کی کہانیوں کے اختتامیے فکشن کے عام قارئین کی عادت کے برخلاف نہ تو چونکاتے ہیں، نہ پرشور ہوتے۔ ان میں کسی رمز کے انکشاف، کسی بصیرت کے شعوری اظہار، کسی تنبیہ یا تاکید کا عنصر نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہ اختتامیے بھی اتنے ہی متین اور فطری اور سادہ ہوتے ہیں جتنی کہ خود کہانیاں۔

    یہاں میں صرف ایک مثال دینا چاہتا ہوں۔ ’رے خاندان کے آثار‘ میں ’ایک موہوم عورت‘ کی تلا ش تو بالآخر کامیاب ٹھہرتی ہے اور ایک تماشا کھڑ ا ہو جاتا ہے کہ ’’تین چاردن سے کچھ نامعلوم لوگ خود کو ڈاک کے محکمے کا آدمی ظاہر کرکے (ایک موہم عورت کا پتا معلوم کرنے کے بہانے) شہر کے عیسائی گھرانوں کے بارے میں خفیہ معلومات اکٹھی کرتے پھر رہے ہیں۔ یہ ایک امن پسند اقلیت کے خلاف کوئی بہت گہری سازش ہے جس کے سرغنہ کا پتا لگانے میں اخبار کے نمائندے سرگرم ہیں۔‘‘ گویا کہ بات کا بتنگڑ اور رائی کا پہاڑ بن جاتا ہے اور ایک سیدھی سادی تلاش عجیب وغریب سلسلہ واقعات کی شکل اختیار کر لیتی ہے لیکن کہانی کے اختتامیے میں جہاں واقعہ نویس اپنے دوست سے رخصت ہو رہا ہے،

    گاڑی رینگ چلی۔ دوست نے مجھ سے ہاتھ ملاتے ہوئے کہا، ’’اپنا نیاپتہ لکھ دیجئےگا۔‘‘

    ’’لکھ دوں گا۔‘‘ میں نے بھی کہا۔

    دوست نے میرا ہاتھ چھوڑ دیا اور پلیٹ فارم پر اتر گئے۔

    تو پڑھنے والے کاذہن پل بھر کے لئے بھی اس طرف نہیں جاتا کہ یہ کہانی ہماری موجودہ اجتماعی صورتحال کے ایک المیے پر تخلیقی تبصرے کی جہت بھی رکھتی ہے جو آج کی سمٹتی ہوئی دنیا میں بتدریج ایک دوسرے سے بڑھتی ہوئی بے خبری اور دوری کا پتہ دیتاہے۔ یہ اختتامیہ نہ تو ڈرامائی ہے، نہ غیر متوقع، نہ بہ ظاہر بہت دور ازکار، بلیغ اور کسی انوکھی بصیرت کا ترجمان۔ لیکن اس کی ایک سماجی معنویت بھی ہے جس کا ظہور ایک ذاتی اور انفرادی واردات کی تہہ سے ہوا ہے۔ ’’تحویل‘‘، ’’شیشہ گھاٹ‘‘، ’’بائی کے ماتم دار‘‘، ’’بادنما‘‘ اور’’بڑا کوڑا گھر‘‘ یہ تو صرف چندمثالیں ہیں جن کا اس سرسری جائزے کے دوران اچانک خیال آ گیا۔

    ان میں قومی اور بین الاقوامی صورت حال، تقسیم کے سانحے سے لے کر ہمارے تہذیبی زوال اور انتشار تک، گزراں وقت کی ستم رانی، تاریخ کی اندھی طاقت، جدید دنیا کی بےسمتی، گم کردہ رہی اور انسانی عنصر سے مسلسل خالی ہوتی ہوئی، ٹوٹتی اور بکھری ہوئی زندگی کے مشاہدات کا بیان ملتا ہے، ایک بالواسطہ اور رمز آمیز تبصرے کے ساتھ۔ نیر مسعود ایک قصہ گوکی حرمت کا خیال اس حد تک رکھتے ہیں کہ ان کی اخلاقی، فکری، معاشرتی جہات بالعموم ہماری نگاہ سے اوجھل رہ جاتی ہیں۔

    لکھنے والے نے اپنی سرشت، صلاحیت اور توفیق کے مطابق اپنا کام کر دیا۔ اب یہ پڑھنے والے کی اپنی توفیق اور بساط پر منحصر ہے کہ دریافت اور تلاش کے اس سلسلے کو چاہے تو آگے بڑھائے۔ محمد سلیم الرحمن نے نیر مسعود کی ’سیمیا‘ پر اپنے مختصر (انگریزی) مضمون کا آغاز گوئٹے کے اس قول سے کیا تھا کہ،. To read a good book is as difficult as writing it

    میرا خیال ہے ایک مخصوص انداز رکھنے والے افسانہ نگار کے اس عمومی جائزے کے لئے گوئٹے کا یہ قول ایک موزوں اختتامیہ بھی بن سکتا ہے!

    مأخذ:

    ہم سفروں کے درمیاں (Pg. 247)

    • مصنف: شمیم حنفی
      • ناشر: انجمن ترقی اردو (ہند)، دہلی
      • سن اشاعت: 2005

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے