Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

نقادوں سے دس سوال

آل احمد سرور

نقادوں سے دس سوال

آل احمد سرور

MORE BYآل احمد سرور

     

    (۱) تنقیدی نگاری سے آپ کامقصد ادب کی تاریخ کو مرتب کرنا ہے یا ہمعصر ادب پر اثرانداز ہونا؟

    (۲) کیا آپ کی دانست میں آپ کی تنقید سے ہمعصر ادب کوئی فائدہ پہنچا ہے؟ اور کیا ہمعصر لکھنے والوں نے کسی طور پر آپ کی تنقیدی فکر سے اثر قبول کیا ہے؟ 

    (۳) آپ گزشتہ ادب کے بارے میں کیوں لکھتے ہیں؟ 

    (۴) ہمعصروں پر لکھنے میں کبھی جھجک محسوس ہوئی ہے؟ ہوئی ہے تو کیوں؟ 

    (۵) اگر تقسیم کے بعد اردو میں تنقید نہ لکھی جاتی تو اس سے ہمارے ادب کی تاریخ میں کیا فرق پڑتا؟ 

    (۶) کیا آپ کی دانست میں ہمارے ادب نے تقسیم کے بعد زوال کیا ہے؟ اگر آپ ایسا سمجھتے ہیں تو زوال کے اس عمل میں آپ اپنی تنقید نگاری کا مقام کیسے متعین کریں گے؟ 

    (۷) آپ ادب کو قاری کی حیثیت سے پڑھتے ہیں یا نقاد کی حیثیت سے؟ 

    (۸) تنقید لکھتے ہوئے آپ کا مخاطب ادب کاقاری ہوتا ہے یا ادیب؟ 

    (۹) کیا آپ نے شعر یا افسانہ بھی لکھا ہے؟ اس کام کو چھوڑ کر تنقید لکھنے میں کیا مصلحت جانی؟ 

    (۱۰) آپ کی تحریروں میں مغربی ادب کے حوالے کثرت سے کیوں آتے ہیں؟ 


    میں جواب دیتا ہوں 
    آل احمد سرور

    (۱) تنقید نگاری سے میرا مقصد ادب کی تاریخ مرتب کرنا نہیں ہے اور ہم عصر ادب پر اثرانداز ہونا بھی براہ راست میرا مقصد نہیں۔ ہاں ہمعصر ادب کو سمجھنا اور سمجھانا میرا مقصد ضرور ہے۔ سمجھنے سمجھانے کا اثر ہوتا ہے اور میرے خیال میں ہوا بھی ہے۔ 

    تنقید کا بنیادی فریضہ اپنے دور میں ذوق سلیم کو عام کرنا ہے۔ اس غرض سے ماضی کے ادب کا مطالعہ کیا جاتا ہے کہ اس سے ہمیں معیاری نمونوں، پیمانوں اور معنی خیز اصولوں کااحساس ہوتا ہے جن کے سہارے حال کی تخلیق کے جنگل میں اقدار کی کارفرمائی نظر آتی ہے مگرماضی کے ادب کا جائزہ لینا ہی نقاد کا کام نہیں۔ یہ ایک علیحدہ کام ہے اور ادبی مورخ کا کام ہے۔ ادبی مورخ کے لیے ماضی کے ادب کو جدیدترین تحقیق کے مطابق، دوروں، میلانوں، تحریکوں، روایات و تجربات کے سلسلے کے طور پر دیکھنا سب کچھ ہے۔ نقاد کاکام دوسرا ہے۔ ماضی کا ادب اور اس کاجائزہ اس کی مدد کرتاہے مگر یہ حال کے ادب کی تفسیر و ترجمانی اور پرکھ میں کام آتا ہے۔ میں اس لیے تنقید نہیں لکھتا کہ اس کے ذریعہ سے مجھے ماضی کاتجزیہ کرنا ہے بلکہ ماضی کے تجزیے کو حال کی سمجھ بوجھ کے لیے استعمال کرنا ہے تاکہ اہم روایات کااحساس رہے مگر روایات کی غلامی نہ ہو۔ تجربات کی گنجائش ہو۔ مگر تجربے کی خاطر اپنی بنیادوں سے بے پرواہی ہوسکے۔ میں مردہ پرست نہیں ہوں۔ ہاں مردوں سے واقفیت اس لیے ضروری سمجھتا ہوں کہ زندوں کے کام آسکوں۔ 

    (۲) اس کا فیصلہ کرنا میرا کام نہیں کہ میری تنقید سے ہم عصر ادب کوکیا فائدہ پہنچا ہے۔ ہاں یہ دیکھتا ہوں کہ برسوں سے میرے مضامین کاحوالہ دیا جاتا رہا ہے۔ اور میری تنقیدوں کے جملے اپنے دعوے کے ثبوت میں مضمون نگاروں نے پیش کیے ہیں۔ ہاں اگر کوئی اس کاجائزہ لے کہ کن چند تنقید نگاروں کو اکثر کوٹ کیا جاتا ہے تو اس فہرست میں میرا نام بھی غالباً ہوگا۔ میرا یہ بھی خیال ہے کہ ’’طرف داروں‘‘ کے اس دور میں میری تنقیدوں سے ’’سخن فہمی‘‘ بڑھتی ہے گو طرف داروں نے قدرتی طور پر مجھے نظر انداز کرنے کی کوشش کی ہے۔ میرا یہ کارنامہ غالباً قابل ذکر سمجھا جائے کہ ترقی پسند تحریک میں مَیں نے توازن پیدا کیا اور جب ردعمل کے طور پر ’’عیب مے کا تذکرہ شروع ہوا تو میں نے اس کے ہنر‘‘ بھی بیان کرنا ضروری سمجھا۔ پہلی چیز کا احساس تو بہت سے لکھنے والوں کو ہے۔ دوسری چیز کا ابھی احساس نہیں ہوپایا ہے۔ 

    (۳) اس کاجواب ایک حدتک پہلے سوال کے جواب میں آچکا ہے۔ ہر تعمیر کے لیے بنیاد کا علم ضروری ہے۔ اس کے علاوہ اگر قوم کی اپنی تاریخ سے دلچسپی فطری ہے تو ادیب کی اپنے ماضی کے معماروں سے دلچسپی بھی قدرتی ہے۔ پھر اس کے علاوہ ایک بات اور بھی ہے۔ ماضی کے بارے میں ہم زیادہ غیرجانبداری سے لکھ سکتے ہیں۔ ضروری معلومات حاصل کرنے کے بعد ہمارا کام یہ ہوتا ہے کہ ہم اسے مناسب ترتیب کے ساتھ پیش کردیں۔ حال کا تجزیہ نسبتاً مشکل ہے۔ کیونکہ اس میں اتنی بے تعلقی اور غیرجانبداری پیدا کرنا آسان نہیں۔ 

    ایک ضمنی بات یہ بھی ہے کہ ماضی کے ادب کے بارے میں درس و تدریس کے سلسلے میں کچھ کہنا پڑتا ہے۔ میرا تجربہ یہ ہے کہ دوسرے کو سمجھانے سے پہلے اپنے کو بات سمجھانی ہوتی ہے۔ اس کا بہترین طریقہ اس بات کو لکھنا ہے۔ دوسروں کو سمجھنے اور سمجھانے کے راستے سے اپنے کو سمجھنے میں بھی مدد ملتی ہے۔ 

    (۴) ہم عصروں پر لکھنے میں جھجک محسوس نہیں ہوتی۔ یہ ایک مزاح کا سوال ہے۔ چونکہ ہمعصروں کا پورا کارنامہ ایک دفعہ سامنے نہیں آتا اور ان کے یہاں تبدیلیاں بھی ہوتی رہتی ہیں۔ اس لیے ان پر لکھنے میں یہ محسوس ہوتاہے کہ بات (عارضی) ہے۔ ہمارے یہاں لوگ ابھی نکتہ چینی کے عادی نہیں ہیں۔ وہ تعریف سننا چاہتے ہیں۔ اس لیے بعض اوقات لوگ مشروط تعریف سے ناراض ہوتے ہیں اورپھر غلط فہمی پھیلاتے ہیں۔ یہ بھی ہوتا ہے کہ ایک شاعر یا افسانہ نگار کی تعریف کی جائے تو دوسراناراض ہوجاتا ہے اور لکھنے والے پر لیبل لگادیاجاتا ہے۔ اس لیے جھجک کے بجائے احتیاط کا لفظ زیادہ موزوں ہوگا۔ میں اس احتیاط کو اچھا سمجھتا ہوں۔ اس کی وجہ سے رائے میں پختگی آتی ہے۔ اس کے یہ معنی نہیں لینے چاہئیں کہ میں کوئی حجاب یا جھجک محسوس کرتاہوں۔ 

    (۵) یہ سوال عجیب ہے۔ تقسیم سے پہلے جس طرح تنقید نہ لکھنے کا سوال پیدا نہیں ہوتاتھا، اس طرح تقسیم کے بعد بھی نہیں ہوتا۔ ہر دور میں تنقید لکھی جاتی رہی ہے۔ اور یہ مجموعی طور پر درست بھی ہے۔ تنقید اس لیے لکھی جاتی ہے کہ لوگ ادب کو سمجھنا چاہتے ہیں تاکہ اس طرح زندگی کی معرفت بڑھے۔ تقسیم کے بعد بہت سے میلانات ابھرے ہیں ان کی اہمیت متعین کرنا ان میں سے سطحی اور معنی خیز میلانات کو الگ الگ کرنا۔ وقتی کارناموں اور مستقبل اہمیت رکھنے والے کارناموں میں فرق کرنا۔ کسی جذباتی لے کی حقیقت واضح کرنا۔ کسی نعرے کا کھوکھلا پن ظاہر کرنا۔ کسی پراسرار چہرے سے نقاب اتارنا۔ کسی دیوتا کے مٹی کے پاؤں دیکھنا کسی تجربے کی اہمیت کی طرف توجہ دلانا۔ کسی کوتاہی یا کمی کی طرف اشارہ کرنا۔ یہ سب تنقید کا کام ہے۔ یہ کام بھلا ہوتا رہا ہے۔ یہ نہ ہوتا تو ایک کمی رہ جاتی۔ یعنی پنترے کو دار سمجھنے ہر جدید کو لذیذ سمجھنے یا ماضی کے ہر سائے کی پرستش کرنے اور ہر کھنڈر میں عظمت و عبرت ڈھونڈھنے کا مرض زیادہ عام ہوتا۔ 

    ہاں یہ ضروری ہے کہ تقسیم کے بعد تنقید میں لہجے کی جو تبدیلی ہوئی ہے وہ اچھی نہیں۔ یہ زیادہ شخصی اور ذاتی ہوگئی ہے۔ اس میں منفیانہ مزاج ضرورآگیا ہے۔ اسے کچھ لوگوں نے فقرے بازی یا پگڑی اچھالنے کے لیے بھی استعمال کیا ہے۔ ادب کی تاریخ پر اس دھول دھپے کا بھی اثر پڑتا ہے مگر مئے کدے کے پرستاروں کو دھول دھپے پر بہت زیادہ ناک بھوں بھی نہیں چڑھانی چاہیے۔ کچھ لوگوں کی بدمستیوں کے باوجود مستی کے آداب مسلم ہیں۔ مجموعی طور پر تقسیم کے بعد کی تنقید میں گہرائی زیادہ ہے۔ اس میں ہیرو پرستی کم ہے۔ اس لیے اس تنقید نے ادب کی تاریخ کو جامعیت عطا ضرور کی ہے۔ 

    (۶) میں یہ ماننے کو تیار نہیں ہوں کہ تقسیم کے بعد ہمارے ادب پر زوال آگیا ہے۔ ہاں یہ ضرور ہوا کہ تقسیم کے بعد کچھ عرصے تک چند وقتی رجحانات نے اپنا زور دکھایا اور اس زمانے کے ادب میں مجموعی طور پر ادبی انداز کم اور تبلیغی انداز زیادہ تھا۔ یہ حالت سات آٹھ سال تک رہی، اس کے بعد حالات کے نارمل ہونے پر ادبی کاوشیں محض جذباتی یا وقتی نہ رہیں۔ ان میں ابتدائی سات آٹھ سالوں میں تحقیق پر بہت زور رہا جو نسبتاً آسان کام ہے اور تنقید میں بھی افراط و تفریط رہی اور ایک حد تک یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ مگر جہاں تک میں دیکھ سکا ہوں اس کے بعد سنجیدہ تنقید پھر سامنے آنے لگی ہے۔ اس تنقید میں تحقیق سے زیادہ مدد لی گئی ہے اور ایک حد تک یہ ضروری تھا مگر اس میں شخصی اور ذاتی نقطۂ نظر اب بھی میرے نزدیک زیادہ ہے۔ اس کا لہجہ بھی اتنا متوازن نہیں ہے جتنا میں چاہتا ہوں۔ پھر بھی مجھے بھروسہ ہے کہ یہ توازن آتے آتے آئے گا اور لوگ تنقید کو تلوار یا ڈھال کی طرح استعمال کرنے کے بجائے پارکھ یا مبصر کی طرح استعمال کرنے کی عادت ڈال لیں گے۔ رہا یہ سوال کہ زوال کے اس عمل میں میری تنقید نگاری کا مقام کیاہے تو مجھے اس سے کوئی خاص دلچسپی نہیں ہے اور اس کا فیصلہ میرا نہیں دوسروں کا کام ہے۔ میں یہ جانتاہوں کہ اشتہار بازی کے دور میں اپنے متعلق دعوے اگرچہ خام ذہنوں کو متاثر اور مرعوب کرسکتے ہیں مگر بالآخر ادب میں انصاف ضرور ہوتاہے۔ یوں بھی میں ان لوگوں میں سے نہیں ہوں جو کسی تنقیدی مضمون میں اپنانام نہ دیکھ کر مضمون نگار کے خلاف ہوجاؤں یا کوئی میری بہت تعریف کرے تو اس کے معیار کو سرے سے نظرانداز کردوں۔ ہاں اپنی تعریف سے خوش ہر ایک ہوتا ہے اور جو کہتا ہے کہ وہ نہیں ہوتا وہ میرے خیال میں سچ نہیں بولتا۔ 

    اس سلسلے میں ایک بات اور کہہ دوں۔ کسی تنقید نگار کا مقام چند سالوں میں متعین نہیں ہوتا۔ یہ اس کے پورے کام کو دیکھ کر متعین کیا جاتا ہے۔ ایک اچھی نظم، ایک اچھے تنقیدی مضمون، ایک اچھے ڈرامے کی ہم تعریف کریں گے مگر اچھا شاعر، اچھا نقاد، اچھا ڈرامہ نویس ہم اسے کہیں گے جس نے خاصی تعداد میں قابل تعریف چیزیں لکھی ہوں اور جب وہ بعد میں کوئی کمزور چیز لکھے گا تو ہم اس کا نام نقادوں یا شاعروں یا ڈرامہ نگاروں کی فہرست میں سے کاٹ نہیں دیں گے۔ ادیبوں اور شاعروں کی فہرست میں نام دیر میں لکھے جاتے ہیں اور جب لکھے لیے جائیں تو جلد کاٹے نہیں جاسکتے۔ 

    (۷) مجھ میں اور عام قاری میں فرق یہ ہے کہ عام قاری ہر وقت مرتب ذہن ذق سلیم، تناسب، زندگی اور ادب کے تسلسل، روایات و تجربات کے رشتے، تقابلی پہلو، سب ذہن میں نہیں رکھتا۔ ہوسکتا ہے کہ وہ ادب میں اپنی پسند ڈھونڈھتا ہو، ہوسکتا ہے کہ وہ کسی تجربے یا واقعے کی مشابہت کی وجہ سے اس ادبی کاوش کو پسند کرتا ہو۔ ہوسکتا ہے کہ وہ نعروں سے متاثر ہوتا ہو۔ ہوسکتا ہے کہ وہ زندگی کو کسی آئیڈیالوجی پر منطبق کرنے کا عادی ہوچکا ہو، ہوسکتا ہے وہ ادب میں لذت ڈھونڈھتا ہو، ہوسکتا ہے، ہوسکتا ہے وہ ایک خاص اخلاق کا قائل ہو، ہوسکتا ہے کہ اس کا مطالعہ چند مشہور ناقدروں تک محدود ہو، ہوسکتا ہے وہ چند لوگوں کی رائے سے متاثر ہوجاتا ہو۔ اس لیے میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ میں نے برسوں کے ریاض کے بعد مطالعے کے لیے ایک نظر پیدا کرلی ہے۔ گو مجھے اس کااحساس ہے کہ عام قاری میرے اندر سے غائب نہیں ہوگیا۔ ہاں میں نے ہمیشہ اس مشہور قول کو ذہن میں رکھا ہے کہ کوئی فن پارہ مجھے پسند تو نہ آئے مگر پھر بھی اچھاہو۔ خلاصہ یہ ہے کہ میرا مطالعہ مجموعی طور پر ایک عام قاری کی طرح کا نہیں ہوتا، ایک ایسے پڑھنے والے کاہوتا ہے جو ادب کا ایک معیاری تصور رکھتا ہے اور جس کے تصور میں جامعیت بھی ہے۔ میرے خیال میں یہی ایک نقاد کاتصور ہونا چاہیے۔ ہاں میں صرف خوبیوں یا خامیوں کو نہیں دیکھتا، مجموعی طور پر ایک فیصلہ ضرور کرتاہوں۔ 

    (۸) اگرچہ میں ادب کو عام قاری کی حیثیت سے نہیں پڑھتا کیونکہ اب پڑھ نہیں سکتا مگر تنقید لکھتے وقت میرے مخاطب ادیب کم ہوتے ہیں عام قاری زیادہ۔ ادیبوں کامیں زیادہ بھلا نہیں کرسکتا ہوں ہاں قاری میں ذوق سلیم پیدا کرسکتا ہوں جس سے بالآخر ادیب کو بھی فائدہ پہنچتا ہے۔ میں یہ بات تسلیم نہیں کرتا کہ نقاد ادیب پر فیصلہ کن طور سے اثر انداز ہوتا ہے۔ کوئی ادیب ایک تخریبی تنقید کی وجہ سے اپناراستہ نہیں بدلتا۔ بدل بھی نہیں سکتا۔ زیادہ تر ادیب تنقید کی طرف دھیان نہیں دیتے وہ صرف تعریف چاہتے ہیں۔ ایک نقاد کسی افسانہ نگار کو ناول نگار نہیں بناسکتا۔ ایک غزل گو کو اچھی نظم لکھنا نہیں سکھا سکتا۔ ہاں وہ غزل گو کو بہترغزل گو، افسانہ نگار کو بہتر افسانہ نگار بناسکتا ہے۔ مگر یہ عمل بھی براہِ راست نہیں ہوتا۔ پڑھنے والوں کے واسطے سے ہوتا ہے۔ میں ادیبوں سے اس حدتک سروکار رکھتا ہوں کہ وہ کیا لکھ رہے ہیں اور کیسا لکھ رہے ہیں۔ ان سے یہ نہیں کہتا کہ وہ باغ میں کیوں چہل قدمی کر رہے ہیں۔ ڈنٹر کیو ں نہیں پیلتے، نہ یہ کہتاہوں کہ وہ رات کو دیر تک کیوں جاگتے ہیں اور انہیں سورج سے چاندنی کیوں زیادہ پسند ہے۔ ہاں قاری چونکہ مجھ سے یہ توقع کرتا ہے کہ میں اسے ایمانداری سے ادب اور زندگی کے آئین بتاؤں اور معیاروں اور میلانوں سے آگاہ کروں، اسی لیے میں اس کی توقع کو پورا کرنا چاہتا ہوں۔ ضمناً اس سے ادیب کو بھی فائدہ پہنچ جائے تو مجھے خوشی ہوتی ہے۔ میں نے دیکھا ہے کہ ادیب سے براہِ راست بات مفید نہیں ہوتی۔ یہ بات کسی اور سے ہو رہی ہو تو وہ ضرور غور سے سنتا ہے اوراس سے فائدہ بھی اٹھاتا ہے۔ 

    (۹) میں نے شروع میں دو یا تین افسانے لکھے۔ ایک رسالہ ’’تسنیم‘‘ آگرہ میں شائع ہوا۔ نہ معلوم کیوں اس کے ایڈیٹر مانی جائسی کو بہت پسند آیا تھا۔ کچھ انگریزی افسانوں کے ترجمے بھی کیے۔ مگر شعر میں بچپن سے کہتا ہوں۔ شعر کہنا میں نے کبھی نہیں چھوڑا، ہاں یہ ضرور ہوا کہ کسی زمانے میں شعر کہنے کی رفتار تیز رہی کسی زمانے میں سست۔ ہاں شاعری میری پہلی محبت رہی۔ ۱۹۳۵ء میں نظموں اور غزلوں کاایک مجموعہ’’سلسبیل‘‘ شائع ہوا۔ نیاز اور پطرس جیسے مختلف مزاج رکھنے والوں نے خاصا سراہا۔ مگر کچھ عرصے کے بعد مجھے یہ محسو س ہوا کہ شاعری بڑی حاسد محبوبہ ہے۔ یہ مجھے کسی اور کام کے لائق نہ رکھے گی۔ یہ بھی ایمانداری سے سوچا کہ شاید نثرخصوصاً تنقید کے لیے میری طبیعت زیادہ مناسبت رکھتی ہے۔ میرے تنقیدی مضامین بہت جلد مقبول ہوگئے اور مولوی عبدالحق جیسے صاحبِ نظر نے ’’تنقیدی اشارے‘‘ کی بڑی پرجوش الفاظ میں تعریف کی۔ اس کے بعد سے تنقید پر زیادہ توجہ رہی، شاعری کبھی کبھار کی چیز ہوگئی۔ ایسا نہیں ہے کہ شاعری میں عجز نے مجھے تنقید کی طرف مائل کیا ہو۔ ہاں شاعری بھی مجھے ذہنی طور پر آسودہ نہ کرسکی۔ نقاد کی حیثیت سے میں تحقیق کے درد و کرب سے واقف ہوں۔ میں تنقید کے لیے تخلیقی صلاحیت کو مفید سمجھتا ہوں لازمی نہیں۔ ہاں یہ جانتا ہوں کہ چوٹی کے نقادوں میں ایسے لوگ بھی ہیں جو اعلیٰ تخلیقی صلاحیت رکھتے تھے، مثلاً کولرج یا حالی اور ایسے بھی جو تخلیق میں ممتاز نہ تھے، مثلاً جانسن یا عبدالحق۔ 

    ایک عجیب اتفاق یہ بھی ہواکہ لکھنؤ کے قیام کے زمانے میں ایک زمانہ ایسا گزرا جب میں نے زیادہ تر شاعری کی۔ مگر اس زمانے میں بھی تنقیدی مضامین لکھتا رہا۔ ’’ذوق جنوں‘‘ جو ۱۹۵۵ء میں شائع ہوا۔ اسی دور جنوں کی یادگار ہے۔ اس کے بعد علی گڑھ میں شاعری کے لیے یکسوئی نہ ملی۔ یہاں بہت سے کاموں میں گھر گیا جو تدریسی اورتعلیمی ہونے کے علاوہ انتظامی بھی تھے۔ شعرمیں نے اس زمانے میں بھی کہے۔ اس لیے میں تو دراصل اس شعر پر عامل ہوں۔ 

    درکفے جام شریعت درکفے سندانِ عشق
    ہر ہوس نا کے نداند جام و سنداں باختن

    (۱۰) میری تحریروں میں مغربی ادب کے حوالے کثرت سے اس لیے آتے ہیں کہ میں نے انگریزی ادب کاخاصا مطالعہ کیا ہے اور اس سے متاثر بھی ہواہوں۔ میں تو یہاں تک کہنے کے لیے تیار ہوں کہ میں نے ادب کاشعور اور زندگی کا شعور زیادہ تر مغرب سے سیکھا۔ ہاں اس شعور نے میرے اندر ایک نئی مشرقیت کو پیدا کیا جو مغرب سے متاثر ہوتے ہوئے مغرب زدہ نہیں ہے۔ میں اپنی بنیادوں، اپنی تاریخ، اپنے ماحول کو نظرانداز نہیں کرسکتا۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ مغرب نے جو علم و حکمت کا سرمایہ انسانیت کو عطا کیا ہے۔ اسے بھی اپنا مال سمجھتا ہوں اور اسے اپنے طور پر کام میں لاتا ہوں۔ میں ہر مئے کدے سے اپنا ساغر بھرنے اور ہر گھاٹ سے سیراب ہونے کو اپنا فریضہ سمجھتا ہوں۔ میرے نزدیک انسانیت کے ارتقاء میں ایشیا کا عطیہ زیادہ تر قدیم دور سے تعلق رکھتا ہے۔ جدید دور میں یہ عطیہ یورپ کا ہے۔ حال میں امریکہ کابھی اور آئندہ اس کے قوی امکانات ہیں کہ پھر ایشیا اور افریقہ کا بھی اس میں حصہ ہوگا۔ میری تحریروں میں مغربی ادب کے حوالے ناگزیر ہیں۔ میں اس نسل کا فرد ہوں جو مغرب کے اثر کو مجموعی طور پر اچھا سمجھتی ہے۔ اور اس نسل کے لیے لکھتا ہوں جو اردو سے واقفیت کے علاوہ انگریزی بھی تھوڑی بہت جانتی ہے۔ آج انگریزی عالمی معیاروں تک پہنچنے کے لیے ایک کلید کا کام دیتی ہے اور جو لوگ اس سے محروم ہیں وہ کوئی انقلابی کارنامہ انجام نہیں دے سکتے۔ اپنے آپ سے پوری طرح واقف ہونے کے لیے دوسروں سے بھی واقف ہونا پڑتاہے۔ اردو کی مشاطگی کے لیے آج صرف اردو سے واقفیت کافی نہیں اس کے لیے انگریزی جاننا بھی ضروری ہے۔ اب کعبے کاراستہ ترکستان ہوکر جاتا ہے اور جب تک خدا کی شان نہ دیکھیں خدا کو اس طرح نہیں دیکھ سکتے جس طرح دیکھنا چاہیے۔

     

    مأخذ:

    ادب لطیف،لاہور (Pg. 6)

      • ناشر: دفتر ماہنامہ ادب لطیف، لاہور
      • سن اشاعت: 1964

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے