Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

نطشے کا فلسفۂ نفرت

مرزا ادیب

نطشے کا فلسفۂ نفرت

مرزا ادیب

MORE BYمرزا ادیب

    دنیائے ادب و فلسفہ میں المانوی مفکر فرید رک ولہلم نطشے اپنے انسانیت دشمن نظریات اور ’’قوت پسندی‘‘ کی وجہ سے بہت بدنام ہے۔ نطشے کا نام آتے ہی ہمارے ذہن میں ایک ایسے شخص کا تصور قائم ہوجاتا ہے جو بلندی پر کھڑا ایک طرف تو کمزوروں، اپاہجوں اور مسکینوں کے قتل عام کا حکم دے رہا ہے اور دوسری طرف دینِ عیسوی کے اخلاقی ضابطے کا تمسخر اڑا رہا ہے۔ نطشے کو کمزوری سے شدید نفرت تھی۔ اور چونکہ وہ کمزوروں اور اپاہجوں کو اپنے ذہنی ہیرو ’’برتر انسان‘‘ کی راہ میں رکاوٹ سمجھتا تھا۔ اس لیے انہیں کسی طرح بھی زندہ رہنے کا حق دینے پر آمادہ نہیں ہوسکتا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ دنیا میں صرف وہی انسان زندہ رہیں جو صحت مند اور طاقتور ہوں۔ اور جو جہد للبقا میں تمام سخت سے سخت ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے کی صلاحیتیں رکھتے ہوں۔ وہ قوت کا علمبردار تھا۔ قوت کی راہ میں جس چیز کو بھی رکاوٹ محسوس کرتا تھا۔ اور طاقت کی نشوونما میں اسے جو چیز بھی حائل نظر آتی تھی فوراً اس کے خلاف اعلانِ جنگ کردیتا تھا۔ یہ رکاوٹ مذہب کی طرف سے ہو یا کسی اور ضابطہ اخلاق کی طرف سے، بہرحال وہ یہ بات کبھی بھی برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں تھا کہ دنیا میں کوئی ایسی چیز بھی موجود ہے جو کمزوری کا سہارا بن سکے۔ اور جس کی وجہ سے اس کا برتر انسان قوت او رتیزی کے ساتھ آگے نہ بڑھ سکے!

    نطشے ’’فلسفہ نفرت‘‘ کا سب سے بڑا علمبردار تھا۔ اسے خدا سے نفرت تھی۔ مسیحیت سے نفرت تھی۔ اور کمزوری کا سہارا بننے والے ہر اخلاقی اصول سے نفرت تھی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے، کہ آخر وہ کون سی ایسی چیز تھی اور وہ کون سے ایسے حالات تھے جنہوں نے اسے نفرت کی اس منزل پر پہنچادیا تھا۔ جہاں انسان احساسِ برتری کی مجنونانہ شدت میں ہر اس اصول اور ہر اس قانون کو کچل ڈالنے پر آمادہ ہوجاتا ہے۔ جو اس کے ذہنی رجحان کے خلاف ہو۔ یا جسے وہ اپنے مخصوص نظریۂ حیات کے متضاد سمجھتا ہو۔ یہ بات معلوم کرنے کے لیے ہمیں اس کے ذہنی پس منظر کا جائزہ لینا چاہیے۔ کیونکہ یہ چیز وہیں ہمیں دبی ہوئی مل سکتی ہے!

    نطشے ۱۵/اکتوبر کو بمقام ’’روکن‘‘ پیدا ہوا تھا۔ اتفاق کی بات یہی دن پرشیا کے حکمران ولہلم چہارم کا یوم پیدائش بھی تھا۔ نطشے خود کہتا ہے ’’حکمران کی سالگرہ کے دن میرا پیدا ہونا مجھے یہ فائدہ دے گیا کہ جب تک میں عالمِ طفولیت میں رہا۔ میرا یومِ پیدائش ساری پبلک کے لے خوشی کا دن سمجھا جاتا رہا!‘‘

    نطشے کا باپ شاہی خاندان کے کئی افراد کا اتالیق رہ چکا تھا۔ اور چونکہ اس کا بیٹا حکمران کی سالگرہ کے دن پیدا ہوا تھا۔ اس لیے شاہی خاندان اور اپنے خاندان کے درمیان گہرا تعلق رکھنے کے لیے اس نے اپنے بیٹے کانام حکمران کے نام پر رکھ دیا۔ اس طرح نطشے جبلی طور پر خود کو شہنشاہی عظمت کا حصہ دار سمجھنے لگا۔ رنگ و نسل کے امتیازاتِ خصوصی نے اس کے ذہنی رجحانات کی تشکیل پر خاص اثر ڈالا۔ اور وہ اپنے آپ کو فطرتاً عام لوگوں سے بلند و برتر جاننے لگا۔

    نطشے کو خاندانی برتری کاشدید احساس تھا۔ چنانچہ ایک موقعے پر خود ہی کہتا ہے۔ ’’مجھے اعلیٰ و ارفع یورپین ہونے کے لیے کسی جدوجہد کی قطعاً ضرورت نہیں تھی۔ میرا نقطۂ نظر صرف مقامی، قومی اور اس قسم کے دوسرے حدود میں نہ سما سکا۔ بلکہ اس میں آفاقی وسعت پیدا ہوگئی اور یہ آفاقیت صرف یورپ تک محدود نہ تھی، لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ میں جرمن نہیں ہوں۔ میں جرمن ہوں اور میرے اندر جرمنی کی اعلیٰ اور شہنشاہی نسل کی تمام خصوصیات موجود ہیں۔ میرے آباؤاجداد ’’پولش‘‘ تھے۔ اور یہ بزرگوں کے فیض کا اثر ہے کہ میری رگوں میں نسلی برتری کا خون گردش کر رہا ہے۔ میری ماں دوفران زسکا اور لہر اور میری دادی ’’امورتھے کروسے‘‘ جو دیمبر میں رہتی تھیں اور جن کی گوئٹے سے گہری راہ و رسم تھی، مکمل جرمن تھیں۔

    نطشے کو اپنے برتر ہونے کاہمیشہ احساس رہا ہے۔ چنانچہ اپنی ایک تصنیف ’’ایکوہومو‘‘ میں بھی اپنے بارے میں لکھتا ہے۔ ’’میں اس قدر عقلمند کیوں ہوں۔ میں اس درجہ ذہین و فطین کیوں ہوں۔‘‘

    اسے اپنی عقلمندری اور بے پناہ ذہانت و فطانت پر کامل یقین تھا۔

    ’’مذہب کے راستے میں کیا دقتیں ہیں۔ مجھے اس کا کوئی تجربہ نہیں ہے۔ مجھے یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ گنہگار ہونا کیا معنی رکھتا ہے۔ ضمیر کی خلش کا بھی مجھے کوئی احساس نہیں ہے۔ خدا کے وجود سے انکار بھی کوئی ایسا حادثہ نہیں ہے۔ جسے میں ردِعمل کہہ سکوں۔ خدا کے وجود سے انکار کا جذبہ میرے اندر پیدائشی اور جبلی ہے۔ میں اس قدر تنگ بیں، تنگ دل، تنگ ظرف انسان نہیں ہوں کہ زندگی کے مسائل کا جو حل دوسروں نے سوچا ہے، اس پر مطمئن ہوجاؤں۔ خدا کے وجود کااس کے سوا اور کوئی مقصد نہیں ہے کہ وہ ہم مفکرین کی بلندیٔ فکر پر قدغن لگادے۔ اور ہمارے افکار کی پروا ز کو روک دے۔‘‘

    نطشے کو ہر قدم پر اپنی نسلی برتری اور ذہنی برتری کا شدید احساس ہے۔ یہ ایک پہلو ہے اس کے اس یقین کا کہ دنیا میں صرف طاقتوروں ہی کو زندہ رہنے کا حق ہے۔ طاقتوروں سے اس کی مراد ان لوگوں سے ہے جو اعلیٰ نسل سے تعلق رکھتے ہیں، ذہانت و فطانت جنہیں بطور ورثے کی ملی ہے اور جو زندہ رہنے کے لیے دوسروں کا سہارا نہیں ڈھونڈتے۔

    نطشے کاباپ حکومت کے نظام میں ایک بڑا عہدہ دار تھا۔ اس کے خاندان کے کئی لوگ پادری رہ چکے تھے۔ اس کی ماں ایک نیک خاتون تھی۔ نطشے کو نیک طینتی، کیریکٹر کی بلندی اور پاکیزگی ماں کے دودھ میں ملی تھی۔ وہ تمام عمر نہایت نیک اور پارسا رہا۔ مگر نیکی اور پارسائی کے ردِعمل نے اس کے اندر جو باغیانہ سپرٹ پیدا کردی تھی اس کا نتیجہ تھا کہ وہ ہرضابطۂ اخلاق کو بیہودہ سمجھتا تھا۔ اور مسیحی اصولوں کا شدید مخالف ہوگیا تھا۔ بلندئ اخلاق، پاکیزگی سیرت اور حسنِ عمل کا ذہنی ردعمل اس کے دماغ میں جرائم کی خواہش کو پالتا رہا۔ یہ خواہش اندر اندرہی گھٹی رہی اور وہ اگرچہ عملاً مجرم نہ بن سکا۔ اور ان خواہشات کو عمل میں نہ لاسکا جو اس کے دل کی گہرائیوں میں رینگتی رہتی تھیں۔ تاہم اس کے افکار میں جھنجھلاہٹ سی پیدا ہوگئی۔ اور وہ اس جھنجھلاہٹ میں مذہبی اور اخلاقی ضابطوں پر حملے کرنے لگا!

    جو شخص مذہب پرست والدین کے آغوشِ تربیت میں پرورش پاچکا ہو۔ اور جس کا بچپن مذہبی ماحول میں گزرا ہو۔ اس شخص کا ایک دم مذہب کے سب قوانین کے حدود سے باہر نکل آنا زندگی میں ایک خلا پیدا کردینے کے مترادف تھا۔ مذہب کے تمام قوانین کے خلاف علمِ بغاوت بلند کردینے کے بعد زندگی اسے بے معنی نظرآنے لگی۔ کیونکہ مذہب ہی تو اس کی تمام تر توجہات کا گہوارہ تھا۔ اور مذہب ہی نے اس کی زندگی میں ایک شاہراہ متعین کردی تھی۔ اس شاہراہ کے غائب ہوجانے سے وہ اندھیرے میں قدم اٹھانے لگا۔ اور سمجھنے لگا کہ اس نے زندگی کی نئی روشنی دریافت کرلی ہے۔ حالانکہ یہ اس کی خوفناک غلط فہمی تھی!

    اس کی ذہنی تشکیل میں جرمنی کے ایک اور فلسفی کا بھی نمایاں حصہ ہے۔ شوپنہار کے مطالعے نے اس پر بہت گہرا اثر ڈالا۔ چنانچہ اس فلسفی کی ایک تصنیف کے مطالعے کے بعد کہتا ہے،

    ’’یہ کتاب میرے لیے ایک آئینہ ثابت ہوئی جس میں میں نے دنیا، زندگی اور خود اپنی فطرت کو اس کی تمام عظمتوں کے درمیان دیکھ لیا۔ مجھے یوں محسوس ہوتا تھا۔ جیسے شوپنہار خود مجھ سے مخاطب ہوکر اپنا پیغام سنا رہاہے۔ میں نے اس کے گہرے خلوص کو پوری طرح محسوس کیا اور اسے جسمانی طور پر اپنی آنکھوں کے آگے موجود پایا۔ کتاب کی ہر سطر بلند آواز سے ترکِ دنیا، نفیٔ حیات اور قنوطیت کااعلان کر رہی تھی۔‘‘

    شوپنہار کے قنوطیت پرستانہ فلسفۂ حیات نے نطشے کے دماغ پر ایک لازوال اثر ڈالا۔ اور اس کے سارے افکار اسی رنگ میں رنگ گئے۔ اس کی فکری کائنات پرتشائم کے سیاہ بادل چھاگئے۔

    اگرچہ اس نے فلسفۂ یاس کے خلاف بھی بغاوت کی مگر اس کی یہ کوشش ایک سعی ناکام کے علاوہ اور کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ قنوطیت اس کے دل و دماغ پر اس طرح تہ در تہ جم چکی تھی کہ اس کے خلاف بغاوت کرنا بھی بذاتِ خود ایک قنوطیت پرستانہ اقدام تھا!

    ان وجوہ کے علاوہ اس کے فلسفہ نفرت و یاس کے اور بھی اسباب ہیں۔ ان میں سب سے نمایاں اس کی مستقل علالت ہے۔ جب اس کی عمر تئیس سال کی ہوئی تو اسے فوجی ملازمت میں لے لیا گیا۔ اسے فوجی ملازمت کی قطعاً کوئی خواہش نہیں تھی۔ مگر چونکہ توانا تھا اس لیے حکومت نے اس کی خدمات کو ضروری سمجھا۔ اس دوران میں گھوڑے سے گر کر اس کا سینہ بری طرح مجروح ہوگیا۔ اور اسے فوجی ملازمت سے فی الفور علیحدہ کردیا گیا۔ بدقسمتی سے اسے زندگی کے آغاز ہی میں ایسی چوٹ آئی جس کادرد ساری عمر اسے بے چین کرتا رہا۔ اور جو زخم گھوڑے سے گرنے پرلگا تھا وہ زندگی کے کسی حصے میں بھی مندمل نہ ہوسکا۔ اسے درد و کرب میں مبتلا رکھنے کے لیے یہ ہمیشہ رہنے والا زخم کافی تھا۔ مگر اس کے علاوہ اسے جو ذہنی صدمہ ہوا۔ وہ اس درد و کرب کے مقابلے میں ناقابلِ برداشت تھا۔ وہ فوجی ملازمت نہیں چاہتا تھا۔ مگر جب اس نے فوجی خدمات کو زندگی کانصب العین بنالیا تو فوجی ڈسپلن، قدیم سپارٹا کی سپاہیانہ زندگی اور افسرانہ شان نے اس کے دماغ میں ایسے تصورات پیدا کردیے۔ جو بہت خوشگوار تھے۔ اور جب اس حادثے سے وہ فوجی زندگی کے لیے ناقابل ثابت ہوگیا تو یہ تمام خوشگوار تصورات خاک میں مل گئے۔ ان تصورات کی خاکستر میں اس کے تمام بلند عزائم دفن ہوگئے۔ اور اس کا اثر یہ ہوا کہ ایک طرف تو ناکامی نے اس کے دل پر مایوسی کی موٹی تہ جمادی اور دوسری طرف وہ طاقت کی پرستش کرنے لگا۔ وہ خود فوج میں شامل ہوکر سپاہیانہ زندگی کی عظمت اور قوت حاصل نہیں کرسکتا تھا۔ اس لیے اپنے آپ کو ایک فریب میں مبتلا رکھنے کے لیے قوت و عظمت کے خواب دیکھنے لگا۔ قوت و عظمت کے یہی خواب اس کے فلسفہ میں رچ گئے تھے۔ اور وہ طاقت سے محبت اور کمزوری سے نفرت کرنے لگا تھا۔ اگر یہ حادثہ نہ ہوتا تو یقیناً نطشے کافلسفہ حیات اس فلسفہ حیات سے قطعی طور پر مختلف ہوتا۔ جو آج اس کی ذات سے وابستہ ہے۔

    زندگی میں حادثات کس قدر اہم پارٹ ادا کرتے ہیں!

    فوجی زندگی سے قطع تعلق کرنے کے بعد وہ فوجی زندگی کے مخالف چلنے کی کوشش کرنے لگا۔ وہ فلسفہ لسانیات کا پروفیسر بن گیا۔ اور موسیقی میں دلچسپی لینے لگا۔ مگر اس کی کمزور صحت اس کے عزائم کا ساتھ نہ دے سکی۔ تھوڑے ہی عرصے بعد اسے پروفیسری سے الگ ہوجانا پڑا۔

    یہ اس کی زندگی کا دوسرا بڑا ذہنی صدمہ تھا!

    تیس سال کی عمر میں اس نے دوبارہ فوجی زندگی کے لیے اپنی خدمات پیش کردیں۔ وہ اس مرتبہ سپاہیانہ زندگی سے خاص طور سے متاثر تھا۔؟ کے مقام پر جب اس نے فوجیوں کی نمائش دیکھی تھی تو اس کے دبے ہوئے ولولے دوبارہ ابھر آئے تھے۔ اس کے ذہن پر سپارٹا کی قدیم عظمت کے تمام خواب چھا چکے تھے۔ چنانچہ وہ اپنے اس تاثر کو اس طرح بیان کرتا ہے،

    ’’زندگی میں مجھے پہلی مرتبہ محسوس ہوا کہ زندگی کا حقیقی نصب العین جہد البقا کی عام اور معمولی کوششوں میں نہیں ہے۔ بلکہ یہ نصیب العین ہے جنگ میں اور یہ نصب العین ہے فتح حاصل کرنے کے ارادے میں۔‘‘

    مگر اس مرتبہ بھی اس کے خواب خاک میں مل گئے۔ اس کی بصارت کمزور تھی۔ اس لیے سپاہیانہ تگ و دو میں حصہ لینا اس کی اہلیت سے بلند تھا۔ اس کے سپر د نرسنگ کا کام کردیا گیا۔ جہاں مہیب، بھیانک اور مکروہ مناظر نے اس کی روح سے رہی سہی شادابی بھی چھین لی۔ وہ بیمار پڑگیا۔ دماغی کشمکش نے کے اعصاب کو خطرناک حد تک سریع الحس بنادیا اور اس پر ستم ظریفی یہ ہوئی کہ اسے اس خدمت سے بھی علیحدہ کردیا گیا۔ ایک تو دماغی کشمکش اور دوسرے اپنی ناکامی کا سخت احساس، وہ ذہنی توازن کھو کر گھر پہنچ گیا۔

    اس ناکامی نے اس چراغ کو بھی بجھادیا جس کی روشنی تیز و تند آندھی کے باوجود ابھی تک اس کے ذہنی افق پر ایک مختصر سا حلقہ نور بن کر تھرتھرا رہی تھی۔ پے درپے صدمات، مسلسل ناکامیوں اور علالت کے غیر مختتم سلسلے نے اس کے اندر ایک ہر وقت سلگتی ہوئی یاس آفریں کیفیت پیدا کردی تھی۔ اس کے تلخ احساسات، اس کے زہرآلود تجربات اور اس کے شکست خوردہ تصورات ایک نقطہ پر جم کر نفرت و حقارت کا لاوا اگلنے لگے۔ اس نے ہر چند کوشش کی کہ اس لاوے کی آتشیں روکا رخ صرف خارجی دنیا کی طرف رہے۔ اس کا دل ودماغ کسی طرح بھی اس کی لپیٹ میں نہ آسکے۔ مگر ایسا نہ ہوا۔ ایسا ہو بھی نہیں سکتا تھا۔ نفرت کی آگ نے جہاں مذہب، اخلاق اور شخصیتوں کے لیے شعلہ سامانی کا اہتمام کردیا۔ وہیں اس کے دل کو بھی جلا کر خاکستر کردیا۔ خاکستر کے ڈھیر کو خود فریبی کے دامن میں چھپانے کی لاکھ سعی کی جائے۔ ٹھنڈی راکھ کے سینے میں شعلے نہیں بھڑک سکتے۔ چنانچہ وہ شکست کھاکر انتقام لینے کے لیے خارجی دنیا پر زیادہ شدت کے ساتھ حملے کرنے لگا۔ زیادہ تیزی سے نفرت کا لاوا اگلنے لگا۔ اور زیادہ سرگرمی سے ان بتوں پر ضربیں لگانے لگا جن کی ہر طرف پرستش ہو رہی تھی۔ شکست خوردہ ذہنیت پر خود فریبی کا تانا بانا بننے کے لیے وہ اپنی عظمت کے راگ الاپنے لگا۔ چنانچہ ایک نقاد کو اپنی کتاب بھیجتے ہوئے لکھتا ہے ’’یہ کتاب نادرہ روزگار ہے‘‘ اپنی آخری کتاب ’’ایک ہومو‘‘ کے تو صفحے کے صفحے اس نے اپنی تعریف میں سیاہ کرڈالے ہیں۔ یہ محض اپنی شکست کو چھپانے کی سعی لاحاصل ہے۔ اپنے لڑکھڑاتے ہوئے احساسِ عظمت کو آخری سہارادینے کی بے سود کوشش ہے!

    صحت کی خرابی اور بصارت کی بڑھتی ہوئی کمزوری ہمیشہ اس کے تصورات کی بنیادوں کو چاٹتی رہی۔ حد یہ ہے کہ سال کے تین سو پینسٹھ دنوں میں کم از کم دو سو دن ایسے ہوتے تھے جنہیں وہ سخت تکلیف کی حالت میں گزارتا تھا۔ وہ اپنے وقت کا سب سے بڑا ’’ذہنی انسان‘‘ اور اپنے زمانے کا سب سے دکھی شخص تھا۔ سالہا سال تک وہ دماغی درد اور آنکھوں کی ناقابل برداشت تکلیف میں مبتلا رہا۔ کبھی کبھی تو یہ حالت ہوجاتی تھی کہ وہ چارپائی سے اٹھ بھی نہ سکتا تھا۔ حد سے بڑھی ہوئی ذہانت جب حد سے بڑھے ہوئے صدمے کی چٹان سے بار بار ٹکرائے۔ اور جب ’’امتیازِ رنگ وبو‘‘ کا تیز و تند احساس مسلسل ناکامیوں کی چکی میں پستا رہے تو نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ سمجھنے سوچنے کی قوت اپنا توازن کھو بیٹھتی ہے۔ اور انسان سنکی ہوجاتا ہے۔ نطشے کی ذہانت کا ایک بڑا کمال یہ تھا کہ وہ چوبیس سال کی عمر میں ہی پروفیسر منتخب ہوگیا تھا۔ اور اس کی بدنصیبی کی انتہا یہ تھی کہ دس سال کے بعد ہی خرابی صحت کے باعث اسے پروفیسری سے الگ ہوجانا پڑا تھا۔ پروفیسری سے الگ ہوجانا کوئی خاص اہم واقعہ نہیں ہے۔ لیکن نطشے کے معاملے میں یہ واقعہ خاص طور پر اہم یوں بن گیا تھا کہ اس کی صحت بالکل گرچکی تھی اور خرابی صحت نے اس کے دماغ پر ایک ایسی کاری ضرب لگائی تھی جس کی خلش اس وقت تک قائم رہی جب تک وہ زندہ رہا۔ نطشے کے بعض نقادوں کی رائے ہے کہ وہ شروع ہی سے پاگل تھا۔ اور جیسے جیسے اس کی عمر بڑھتی رہی، اس کا پاگل پن ترقی کرتا گیا۔ یہ رائے نطشے کے معاملے میں عجز فہم کاصرف اعتراف ہے۔ اور اس کی نفسیاتی کیفیت سے محض ناواقفیت کی علامت ہے۔ وہ ہزار پہلو ذہانت لے کر پیدا ہوا تھا۔ مگر افسوس یہ ذہانت ناکامیوں، مایوسیوں اور کبھی نہ ختم ہونے والی علالت کے بوجھ کے تلے دب کر اپنے اندر سے زہریلامواد خارج کرتی رہی۔ یہ ایک قسم کاظلم ہے کہ ہم صرف اس زہریلے مواد کو پاگل پن سمجھ لیں۔ اور اس ذہانت کو نہ دیکھیں جو ہمیشہ کچلی جاتی رہی ہے۔

    بحرانی کیفیت نے نطشے کو ساری عمر میں تھورے سے وقفے کے لیے آرام کرنے نہیں دیا تھا۔ وہ ہرلمحہ آتش بہ جاں رہتا تھا۔ اور ہر گھڑی اس کے دماغ میں ہیجانی کیفیت رہتی تھی۔ کشمکش کی شدت سے وہ آخری عمر میں پاگل ہوگیا تھا۔ اور قدرت کااس کے ساتھ یہ بہت اچھا سلوک تھا۔ کیونکہ جو وقت اس نے پاگل پن میں گزارا وہی اس پر ہروقت درد وکرب میں مبتلا رکھنے والے ہیجانات سے محفوظ تھا۔

    ایک مرتبہ اسے دیکھ کر اس کی بہن روپڑی، اس موقع پر نطشے نے کہا،

    ’’الزبتھ! روتی کیوں ہو، کیا ہم خوش نہیں ہیں؟‘‘

    ایک اور موقعے پر اس نے بہن کو کہا تھا، ’’میں نے بھی کچھ اچھی کتابیں لکھی ہیں‘‘ پاگل پن نے اس بھڑکتی ہوئی آگ کو بجھا دیا تھا۔ جس میں ساری عمر اس کادل و دماغ جلتا رہا تھا!

    مأخذ:

    Adab E Lateef November 1951-SVK (Pg. 26)

      • ناشر: چودھری برکت علی
      • سن اشاعت: 1951

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے