Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

نئی نسل اور ہمارے عصر کے تقاضے

طارق چھتاری

نئی نسل اور ہمارے عصر کے تقاضے

طارق چھتاری

MORE BYطارق چھتاری

    یہ مقولہ بہت مشہور ہے کہ ہر نئی نسل اپنی پیش رو نسل سے زیادہ ذہین ہوتی ہے۔ شاید اس لیے کہ نئی نسل کی تشکیل گزرے زمانے کی تمام نسلوں کے تجربات کی روشنی میں ہوتی ہے اور ہر نئی نسل کا تجربہ پچھلی نسل سے ’’ایک نسل‘‘ زیادہ ہوتا ہے، لہٰذا نئی نسل کا گزشتہ نسل کے مقابلے زیادہ ذہین ہونا بعید از قیاس نہیں۔ بشرطیکہ وہ اپنے ماضی سے رشتہ منقطع نہ کرے۔ جب کہ ہمارے عہد کا المیہ یہ ہے کہ ہم ماضی بعید تو دور ماضی قریب سے بھی ناآشنا اور بےتعلق ہو گئے ہیں۔

    اس معاملے میں قصوروار ہماری نئی نسل ہی نہیں بلکہ قوم کے اکابر اور ملک کے راہ نما بھی ہیں، اس لیے کہ وہ ترقی کی بات تو کرتے ہیں مگر اب تک انھوں نے ترقی کے معنی متعین نہیں کیے ہیں۔ وہ محض مادی اور سطحی ترقی کو اصل ترقی تصور کرتے ہیں اور نئی نسل کو منزل پر پہنچنے کا ایسا راستہ دکھاتے ہیں جہاں انسانیت، ہمدردی، اخلاق، محبت، ایثار، وفا، ایمانداری اور فرض شناسی جیسے مثبت رویّوں کی گنجائش ذرا کم ہوتی ہے۔ نتیجتاً اس نام نہاد ترقی کے نام پر ملک و قوم کے ذہین نوجوان دیسی اور بدیسی بڑی بڑی مشینوں کے فقط پرزے بن کر رہ گئے ہیں۔

    ترقی کا یہ تصوّر کسی بھی فرد کو مشین تو بنا سکتا ہے انسان نہیں۔۔۔ نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔ دیگر Professions کا تو ذکر ہی کیا، ڈاکٹری جیسے معزز اور مقدس پیشے سے تعلق رکھنے والوں نے بھی انسانی اقدار کو بالائے طاق رکھ کر صرف دولت کمانا اپنی زندگی کا شعار بنا لیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فی زمانہ لاشوں، نوزائیدہ بچوں اور انسانی اعضا کی چوری اور غیر قانونی خریدو فروخت کا بازار گرم ہے۔

    تعلیم کا اصل اور بنیادی مقصد فوت ہو چکا ہے۔ ہمارے عہد کے بزرگوں نے تعلیم کو صرف اور صرف نوکری حاصل کرنے کا ذریعہ سمجھا اور نوجوانوں کو Competition کی دوڑ میں شامل ہونے کی ایسی تلقین کی کہ سب سے پہلے تو ان کے مزاج میں حِرص پیدا ہوئی، پھر دوسروں کو شکست دینے کی تمنّا میں نفرت نے جنم لیا اور اس کے بعد بھی اگر کامیابی نہیں ملی تو ایسے مایوس ہوئے، ایسے Frustratedہوئے، ایسے Depress ہوئے کہ کچھ مختلف برائیوں میں ملوث ہو گئے تو کچھ میں خود کشی کا میلان فروغ پانے لگا۔

    ہندوستانی نوجوانوں اور بالخصوص مسلمانوں میں غالب رجحان یہ ہے کہ اگر اعلیٰ تعلیم حاصل کی ہے تو نوکری ہی تلاش کرنا ہے اوراگر کوئی کاروبار یا کاشت کاری وغیرہ کرنے کا ارادہ ہے تو اعلیٰ تعلیم کی ہرگز ضرورت نہیں۔

    اس نظریے کے نتیجے میں ہمارے نوجوان یا تو پڑھ لکھ کر بےروزگاروں کی صف میں شامل ہوتے جا رہے ہیں یا تعلیم حاصل کرنا بے مصرف تصور کرتے ہیں اور زندگی کے ہر شعبے میں پچھڑتے جاتے ہیں۔ ایسا شاید اس لیے ہوا کہ انھیں اعلیٰ تعلیم کا مطلب نوکری اور صرف نوکری بتایا گیا ہے۔ جب کہ تعلیم ہمارے اندر کے خلاء کو پر کرتی ہے، ہمارے اندر انسانیت کا جذبہ پیدا کرتی ہے، تعلیم اعلیٰ اقدار کی محافظ ہے، وہ آگہی، عرفان اور بصیرت جیسی نعمتیں عطا کرتی ہے، سوچنے سمجھنے اور بہتر زندگی گزارنے کے قابل بناتی ہے، ہمارے اندر خود اعتمادی پیدا کرتی ہے گویا ہمیں ہر لحاظ سے کامیاب اور بہتر انسان بنانے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد اولاً تو یہ یقین ہونا چاہیے کہ آپ کے شایان شان ملازمت ضرور ملےگی۔ بالفرض اگر نہیں ملتی ہے تو Depress ہونے یا Frustrated ہونے کی بجائے کوئی بھی کام، وہ آپ کا پشتینی ہو یا کوئی نیا کام، جس کا موقع ملے، اسے کرنے سے گریز نہیں کرنا چاہیے۔ کیوں کہ اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ایک پڑھا لکھا شخص غیر تعلیم یافتہ شخص کے مقابلے کسی بھی کام کو زیادہ بہتر اور باعزت طریقے سے کر سکتا ہے۔

    ہمارے عہد کا ایک افسوس ناک پہلو یہ بھی ہے کہ ہم نے مادّیت سے مرعوب ہوکر اپنے تعلیمی نصاب میں اور خاص طور پر Professional Courses میں ادب، آرٹ اور کلچر کو بہت کم اہمیت دی ہے، جب کہ ادب انسانی زندگی کی جیتی جاگتی صورت حال کو اجاگر بھی کرتا ہے اور اس پر اثر انداز بھی ہوتا ہے اور اس طرح اثر انداز ہوتا ہے کہ جب وہ انسان کو رلاتا ہے تو نفس کو پاک کرکے اس کے تمام دکھ دھو ڈالتا ہے اور جب اسے ہنساتا ہے تو اس کے غموں کو اس طرح بھلا دیتا ہے جیسے ستاروں کی جھلملاہٹ تاریکئ شب کے احساس کو بھلا دیتی ہے۔ فلسفے، افکار اور زندگی کے پیچیدہ مسائل جب ادب کی پناہ میں آتے ہیں توان کے سربستہ راز اور پوشیدہ گوشے روشن ہونے لگتے ہیں اور ادب قارئین کے لیے مشعل راہ بن جاتا ہے۔ اسی طرح جب انسان کی ناکامیاں، پشیمانیاں اور لغزشیں ظرافت کے پیرایے میں فن پارے کا حصّہ بنتی ہیں تو ادب قاری کے شعور و احساس کے بوجھل پن کو دور کرکے اسے فرحت و انبساط بخشتا ہے۔

    یہی وجہ ہے کہ ادب پڑھنا انسان کا سب سے محبوب مشغلہ رہا ہے۔ اگر ہم اپنے معاشرے کے پس منظر میں ادب کے قارئین کا جائزہ لیں تو پائیں گے کہ ابھی کچھ برس پہلے تک ہر Discipline کے اشخاص کو ادب سے یکساں دلچسپی ہوتی تھی۔ ادھر کچھ عرصے سے مشہور ہوا کہ یہ Specialization کا زمانہ ہے۔ اگر کسی کو کامیاب ڈاکٹر، انجینئر، سائنس داں، فلسفی، ماہر نفسیات یا ماہر معاشیات بننا ہے تو اسے صرف اپنے مضمون پر توجہ دینی چاہیے تاکہ وہ اپنے Profession کے ساتھ انصاف کر سکے۔ لہذا Professionals کو بہت زیادہ اہمیت دی جانے لگی اور لفظ Professional جو گزرے زمانے کی ہندوستانی تہذیب میں، جہاں خدمت خلق کے لیے تمام عمر صرف کر دینا باعثِ فخر تسلیم کیا جاتا تھا، اکثر منفی معنوں میں ہی استعمال ہوا کرتا تھا، وہی لفظ اب نہ صرف یہ کہ مثبت معنی میں استعمال ہونے لگا بلکہ Professionalism کو کامیاب شخص کی اعلیٰ صفت سمجھا جانے لگا۔ ظاہر ہے کامیابی کے معنی بھی تبدیل ہو گئے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ادب ہی کیا تمام فنون لطیفہ کو کار زیاں سمجھ کر ترک کر دیا گیا۔

    اب ادب کا معاملہ تو یہ ہے کہ جو ادب تخلیق کرتے ہیں یا ادب کی تدریس سے وابستہ ہیں، ان کے علاوہ ادب کے قارئین برائے نام ہی باقی رہ گئے ہیں۔ ٹیلی وژن اور فلم کے وسیلے سے ہم تک جو ادب پہنچ رہا ہے، کیا اسے ایسا ادب کہا جا سکتا ہے جس سے اخلاق کی تہذیب ہو سکے؟ تو اس صورتِ حال کے نتیجے میں کیا یہ کہنا غلط ہوگا کہ تصور انسان اور تصور کائنات کا زوال ہوا چاہتا ہے۔ اسی لیے ہمارے معاشرے میں ڈاکٹر، سائنس داں اور ماہر اقتصادیات، سب ہیں۔۔۔ بس انسان کم ہیں۔ چوں کہ انسان کو انسان بنانے کے عمل میں ادب نے ہمیشہ سے ایک اہم کردار ادا کیا ہے تو پھر ہمارے عصر میں ادب کی اہمیت سے اور ادب پڑھنے کی افادیت سے انکار کیسے کیا جا سکتا ہے؟ چوں کہ ہمارے عصر میں معیاری ادب پڑھنے کا شوق کم ہوا ہے اس لیے ضرورت اس کی ہے کہ Professional Courses کے نصاب میں بھی ادب کا مطالعہ شامل کیا جانا چاہیے تاکہ ہمارے ڈاکٹر، انجینئر، منیجر اور دیگر افسران اپنے اپنے میدان میں ماہر ہونے کے ساتھ ساتھ انسانیت اور اخلاقی اقدار کے امین بھی ہوں۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے