Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

نئی نسل۔۔۔؟ ایک خط

اختر الایمان

نئی نسل۔۔۔؟ ایک خط

اختر الایمان

MORE BYاختر الایمان

    میری نظر سے پڑھنے والوں کے وہ خطوط گزرے جو انہوں نے میرے اس خط کے جواب میں لکھے ہیں جو نئی نسل سے متعلق تھا۔ نئی نسل کی ترکیب کے بارے میں جو رائے میری اس وقت تھی وہی اس وقت بھی ہے۔ جہاں تک میں سمجھتا ہوں نسل لفظ وہاں استعمال کیا جاتا ہے جہاں کسی قسم کی مماثلت ہو جیسے خرگوش، چوہے گھوڑے یہ سب ایک جیسے ہوتے ہیں۔ نسل کا لفظ انسان کے ساتھ بھی لیا جاتا ہے مگر جب ہم نسل انسانی کی ترکیب استعمال کرتے ہیں اس کا اشارہ انسان کی ان خصوصات یا عادات کی طرف ہوتا ہے جو سب انسانوں میں مشترک ہیں۔ جیسے گویائی کی قوت۔ میں نے کبھی نئے لکھنے والوں کے وجود سے انکار نہیں کیا۔ ان میں بہت سے میرے دوست ہیں اور اچھا لکھتے ہیں۔ میرا کہنا صرف اس قدر ہے کہ لکھنے والے نسل نہیں ہوتے افراد ہوتے ہیں۔ ہر لکھنے والے کا اپنا انداز تحریر اور طرز ادا ہوتا ہے۔ الفاظ کی نشست و برخاست اور ان کا استعمال اپنا ہوتا ہے۔ زبان تو سب ایک ہی لکھتے ہیں پھر بھی وہ کون سی خصوصیت یا صفت ہے جو ایک کو دوسرے سے الگ کرتی ہے؟ ہم کوئی شعر پڑھ کر یا تحریر دیکھ کر یہ بات کسی تصور کے تحت کہتے ہیں یہ میرؔ کاشعر ہے یا محمد حسین آزاد کی تحریر ہے؟ ایک دور میں بہت سے ادیب اور شاعر ہوتے ہیں مگر وہ سب مل کر ایک نہیں ہوتے۔ جوش، جگر، اصغر، محسن کاکوری، پطرس، رشید احمد صدیقی اور اس دور کے سب نمایاں اور اچھا لکھنے والے نسل نہیں افراد ہیں۔ سب ایک بات نہیں کہتے اور کہتے ہیں تو اس طرح کہ ایک دوسرے کے ساتھ خلط ملط نہیں ہوتا اور سب میں کوئی مماثلت نہیں ہوتی۔ میرے خیال کے مطابق لکھنے والوں کے ساتھ نسل کے لفظ کا استعمال غلط ہے اور یہ غلطی اتنی عام ہے جیسے ہی میں نے اس سے انکار کیا بہت سے احباب چونک پڑے۔

    یہ ادیبوں کو نسل بنانے اور پکارنے کی بدعت پچھلے پندرہ سولہ سال میں وجود میں آئی ہے۔ کچھ تو انگریزی کے اثر سے کچھ اس خیال سے کہ لوگ لکھنے کو قدرمشترک سمجھتے ہوئے ادیب ادیب کو برابر یا ایک سمجھتے ہیں اور کچھ سیاسی عقائد یا خیالات کی یکسانیت کے سبب وہ جو ہم پچھلے دنوں ادب میں جمود کا رونا روتے رہے ہیں۔ اس کا سبب وہی اپنے کو نسل بنانے کی کوشش ہے۔ سب نے ایک ہی انداز میں لکھنا شروع کردیا تھا۔ الفاظ، ان کی تراش خراش، تراکیب لب و لہجہ، استعارے، تشبیہات علامتیں۔ تصوریت یہاں تک کہ موضوع بھی ایک ہوگیا تھا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ادب میں یکسانیت آگئی اور یہ یکسانیت جمود نظر آئی۔

    تمام لکھنے والوں کاموضوع بھی ایک ہو پھر بھی میں یہ سوچنے سے قاصر ہوں وہ ادیب یا شاعر جس نے ایک تجربہ کو خود محسوس کیا ہے۔ گردوپیش کے معاملات، حادثات، محرکات اور وہ سب جو واقع ہوا اس کا خود معمول رہا ہے۔ اور ہر نرم و گرم سے خود ذہنی اور جسمانی طور پر گذرا ہے وہ جب ان تجربات کو قلم بند کرنے بیٹھے گا تو بالکل ویسے ہی کیسے لکھے گا یا اپنے تجربات بالکل اسی انداز میں کیسے ادا کرے گا جس انداز میں دوسرا لکھنے والاکرے گا؟ ہر لکھنے والے کی اپنی ذہنی افتاد ہوتی ہے۔ اپنا شعور اور اس کی پرواز ہوتی ہے اپنی الفاظ کی تلاش ہوتی اور ایک اپنی شخصیت ہوتی ہے اور زندگی کی اعلیٰ اور ادنیٰ قدروں سے متعلق اپنا نظریہ ہوتا ہے۔ بھلا دو لکھنے والے ایک کیسے ہوسکتے ہیں؟ لکھنا بذات خود کوئی قدر مشترک نہیں۔ لکھنے والوں کو ادوار میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ وہ ہم عصر ہوسکتے ہیں مگر نسل نہیں ہوسکتے۔ اس کے باوجود بھی اگر کوئی صاحب ادیبوں کی نسل بنانے کے درپے ہیں تو اناللہ۔۔۔!

    مأخذ:

    سوغات،بنگلور (Pg. 160)

      • ناشر: غلام احمد

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے