Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

نئی شاعری اور طوائف

نریش کمار شاد

نئی شاعری اور طوائف

نریش کمار شاد

MORE BYنریش کمار شاد

    یوں تو پرانی شاعری میں بھی طوائف کا ذکر ہے لیکن وہاں اس کی انفرادیت کے خطوط واضح طور پر نمایاں نہیں ہوتے۔ کیونکہ اجتماعی طور پر پرانے شاعروں نے طوائف اور محبوب میں کوئی حدفاصل نہیں رکھی۔ طوائف اور محبوب کے کردار کو آپس میں گڈ مڈ سا کردیا ہے۔ چنانچہ ان کی اکثر و بیشتر غزلوں اور مثنویوں میں محبوب کی روایتی خصوصیات۔ مثلاً ناز ادا، پیار، لگاوٹ اور ہرجائی پن وغیرہ اور ان سے وابستہ و متعلقہ تصورات کے آئینوں میں طوائف کے خدوخال جھلکتے ہیں۔ اس کی وجہ پرانی شاعری کا وہ تہذیبی اور معاشرتی ماحول ہے جس میں شعر و شاعری کی بنیادی غرض و غائت ہی ذہنی نشاط اور دماغی تفریح سے عبارت تھی۔ اور اس ماحول میں ایک شاعر کی نظر بھی طوائف کے کردار کی تمام تر گندگیوں اور پیچیدگیوں کے باوجود اسے خالص اور بندھے ٹکے عاشقانہ انداز ہی سے دیکھنے پر مجبور تھی۔

    لیکن نئی شاعری نے اس کے برعکس طوائف کے صحیح اور جداگانہ سماجی مقام کاتعین کرنے کے بعد اسے موضوعِ سخن بنایا ہے۔ اور بلاشبہ نئے شاعروں کے یہاں سے پرانے شاعروں کی نسبت غیرمعمولی طور پر اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ جدید شاعری کے نمائندہ شاعروں میں بہت کم ایسے ہوں گے جنہوں نے اس موضوع کے مختلف پہلوؤں سے براہِ راست یا بلاواسطہ نقاب کشائی کرنے کی کوشش نہ کی ہو۔

    دراصل نئی شاعری میں طوائف کے موضوع کی بے پناہ مقبولیت اور نئے شاعروں کی طوائف سے ذہنی قربت کی بنیادی وجہ وہ سماجی اور تمدنی دور ہے جس نے نئی شاعری کے علمبرداروں کو جنم دیا ہے۔

    ظاہر ہے کہ نئی شاعری نے جب اپنے پرزے نکالنے شروع کیے اس وقت مجموعی طور پر اردو شاعری گل و بلبل اور لب و رخسار کی رومانی اور خیالی دنیا کے دھندلکوں سے نکل کر جیتی جاگتی زندگی کے حقائق کی طرف لپک رہی تھی لیکن اس کے باوجود نئی شاعری کے تیز گام اور جیالے رہبروں کے ذہنی نہاں خانوں میں اپنے ماضی کے گہرے اور مبسوط اثرات کی ایک مکمل تاریخ تھی، اس لیے کھوکھلی جذباتیت اور رومانیت کے گورکھ دھندوں سے زندگی کی کھلی فضاؤں میں آتے ہی ان کی توجہ کو بے ساختہ طوائف کے ماحول نے اپنی طرف کھینچا۔ یہ ماحول اس وقت کی روزمرہ زندگی کے مسائل اور حالات کے دوسرے تقاضوں کی نسبت انہیں زیادہ مانوس معلوم ہوا۔ کیوں کہ اس ماحول میں ان کے لیے دوگونہ کشش تھی۔ یہاں اگر ایک طرف ان کی حقیقت پسندی اور پرانی شاعری کے فکری زاویوں کو جھٹلانے کے باغیانہ احساس کو تقویت ملتی تھی تو دوسری طرف اس جذباتیت اور رومانیت کو بھی تسکین ملتی تھی جو ان کا تہذیبی اثاثہ تھی اور جس کے گہرے اثرات ان کے دماغوں سے محو نہیں ہوئے تھے۔

    اس میں کوئی شک نہیں کہ ہماری معاشرت میں طوائف کے لیے بظاہر اور عام طور پر جو روایتی قسم کی نفرت کا رجحان تھا۔ اس کی چھاپ اول اول نئی شاعری پر بھی پڑی ہے۔ طوائف کے یہاں محبت اور خلوص کا فقدان دیکھ کر اس کے مول تول کے عشق سے بیزاری اورنفرت کا اظہار نئے شاعر نے بھی کیا ہے۔

    جیسے،

    نہیں نہیں مجھے مرغوب حسنِ بازاری

    کہ اس کی آنکھ ہے مہر و خلوص کا مرقد

    وفا کو اس کی صحیح قامتی نہیں مقصود

    کہ اس میں پیچ ہیں بے انتہا تو خم بے حد

    ہزار داغ ہیں اک ایک بیل بوٹے پر

    جھلک رہی ہے بظاہر اگرچہ یہ مسند

    صدائے عام ہے یار ان بوالہوس کے لیے

    کچھ اس سے بحث نہیں کوئی نیک خو ہے کہ بد

    جوشؔ ملیح آبادی

    تو کیا جانے کہ سودائے محبت کس کو کہتے ہیں

    محبت اور محبت کی لطافت کس کو کہتے ہیں

    غمِ ہجراں ہے کیا اور سوزِ الفت کس کو کہتے ہیں جنوں ہوتا ہے کیسا اور وحشت کس کو کہتے ہیں،

    تو کیا جانے غم شبہائے فرفت کس کو کہتے ہیں

    ترے اظہارِ الفت کی لطافت رات بھر کی ہے

    اخترؔ شیرائی

    اور پھر حقارت اور اجتناب کا یہ رجحان پند و نصائح میں منتقل ہوگیا۔ کیونکہ اس مقام پر پہنچ کر نئی شاعری کے لیے طوائف کے موضوع سے دامن چھڑانا ناممکنات میں سے تھا۔ چنانچہ نیا شاعر بعدازاں ناصح مشفق کا فرض ادا کرتے ہوئے بڑے جذباتی لب و لہجہ میں طوائف کواس کی آخرت کے واسطے دے کر اس معصیت کوش زندگی کو ترک کرنے کی تلقین کرنے لگا۔

    سپنوں کے سنسار کی رچنا تیرے من کو بھاتی ہے

    مایا وہ پی پیار کی تر شنا تجھ کو آگ لگاتی ہے

    آگ سے پیاس بجھانے والی اپنا آپ جلائے گی

    پنکھ لگا اڑجائے گا جوبن تو بیٹھی رہ جائے گی

    سوہن لال ساحرؔ

    اور پھراسی زمانے میں جب نئی شاعری میں فرائڈ کے جنسی فلسفے کو فروغ ہوا تو نئے شاعروں کی ایک کثیر تعداد جیسے جنسی موضوعات پر ٹوٹ سی پڑی۔ کیونکہ ان موضوعات میں وہ حقیقت پسندی کی آڑ لے کر جی بھر کر اپنی پرانی جذبات پرستی اور رومان انگیزی کا جی بہلا سکتے تھے۔ چنانچہ جب خالص جسمی اور جنسی نقطہ نگاہ سے وہ طوائف کے کردار کو اپنے شعری سانچوں میں ڈھالنے لگے تو نفرت، دوری اور پند ونصیحت کے مذکورہ بالا میلانات اپنے آپ ختم ہوگئے اور نیا شاعر پرانی اخلاقی قدروں کی ہنسی اڑاتا ہوا کھلم کھلا یہ کہنے کی جسارت کرنے لگا،

    پیرہن سیج پر رکھدو، درِ استادہ سے باہر آؤ

    اک گھڑی درہ کے تاریک نہاں خانے میں تم سے مل کر ہی بسر کرلوں گا

    میں تمہیں چاند سمجھ لوں گا۔۔۔ لچکتا ہوا چاند۔

    (میراجیؔ)

    یہیں پر اکتفا نہیں۔ نیا شاعر سماج کے اس مجبور و مقہور فرقے کے حسن و شباب سے اخذِ لذت کرنے والے گھاگ خریداروں اور تماش بینوں کے پورے طبقے کی نمائندگی کاحق ادا کرنے لگا

    یہ مانتا ہوں عمر اس کی بیس سال کی ہے

    مگرپسند نہیں مجھ کو خدوخال اس کے

    یہ دوسری نہیں، یہ بھی مجھے پسند نہیں

    کمر ہے اس کی خمِ مے سے بھی عریض و طویل

    یہ تیسری نہیں اس سے وہ پہلی اچھی تھی

    کھٹک رہی ہے نگاہوں میں ناک چپٹی سی

    مخمورؔ جالندھری

    اس حقیقت میں اس کسی شک و شبہ کی گنجائش باقی نہیں رہ گئی کہ یہ زاویہ نگاہ خطرناک حد تک مریضانہ اور مہلک تھا، اور اس کے اندر زندہ رہنے کے قطعاً کوئی آثار نہیں تھے۔ چنانچہ آگے چل کر جب نئی شاعری کی حقیقت پسندی کو اخوت اور انسانیت کے ہمہ گیر اور صحیح تصور نے جلا بخشی تو اس کے پیروکار طوائف کی قربت سے اپنے شاعرانہ شعور کی گہرائیوں میں جنسی ہیجان کی بجائے اس کے لیے دکھ اور رحم سے ملے جلے جذبات محسوس کرنے لگے،

    دیے جلے نہ مہندی لاگی اور نہ چوڑا کھنکا

    کاگ اڑے، سکے کھنکے اور رین سہاگ کی آئی

    سہمی سہمی چلی ری گوری شرمائی گھبرائی

    سکے، مدرائچھاگل، گوری یہی ہیں تیرے براتی

    یہی ہیں تیرے سجن سنوریا یہی ہیں جیون ساتھی

    رام پرکاش انتکؔ

    اور پھر فکر و نظر کی بالیدگی کے ساتھ ساتھ ہمدردی کے یہ نقش گہرے ہوتے گئے اور نیا شاعر اپنے اسلوب میں زیادہ سے زیادہ شدت تاثر اور رقتِ صداقت کے عناصر اجاگر کرنے کے لیے خود طوائف کی زبان سے اس کے کردار کی ترجمانی کرنے لگا۔

    میں راتوں کو جاتی ہوں دوشیزہ بن کر

    جوانی کو سکون میں تبدیل کرنے

    الطاف مشہدیؔ

    یہ وقت رائیگاں نہیں ہوس کانخل سینچ لو

    مرا جوان جسم ا پنے بازوؤں میں بھینچ لو

    مذاق سا بنی ہوئی ہوں کائنات کے لیے

    پکارتا ہے ہر کوئی بس ایک رات کے لیے

    میں سوچتی ہوں بے کسی کا کچھ تو حق ادا کروں

    یہ رات بھر کی بھیک آؤ تم کو بھی عطا کروں

    (قتیل شفائی)

    اس ضمن میں وہ نظمیں بھی خصوصیت سے قابل ذکر ہیں جن میں نئے شاعر کا تفکر طوائف کے عام فہم مسائل کی روح میں ڈوب کر اس کے نفسیاتی نشیب و فراز کے جال بنتا دکھائی دیتا ہے جیسے،

    کیا ہوا آج مجھے کیسے خیال آتے ہیں

    کیا مرا دل مری بیٹی کا طلب گار نہیں

    لیکن اب اس کے سوا میرا سہاراکیا ہے

    میں تو بوڑھی ہوں مرا کوئی خریدار نہیں

    میرے ہونٹوں پہ مہکتے ہوئے نغموں پہ نہ جا

    میرے سینے میں کئی طرح کے غم پلتے ہیں

    میرے چہرے پہ دکھاوے کا تبسم ہے مگر

    میری آنکھوں میں اداسی کے دیے جلتے ہیں

    لیکن ان تلخ حقائق سے تجھے کیا لینا

    تو بھی آیا ہے کسی دکھ کا مداوا کرنے

    تو بھی آیا ہے کھنکتے ہوئے سکے لے کر

    تو بھی آیا ہے میرے جسم کا سودا کرنے

    نریش کمار شادؔ

    اور پھر اس کے بعد یہ ہمدردی واضح طور پر طوائف سے گہری وابستگی کی شکل اختیار کرگئی اور نیا شاعر طوائف کی ’’ابلیسیت‘‘ کے باوجود اس سے پیار کا اظہار کرنے لگا۔ لیکن یہ اظہار پرانے شاعروں کی طرح سطحی اور کھوکھلا نہیں تھا۔ اس کی تہ میں گہرائی، خلوص اور انسانی اخوت کے ٹھوس محرکات کارفرماتھے،

    اپنی فطرت کی بلندی پہ مجھے ناز ہے کب

    ہاں تری پست نگاہی سے گلہ ہے مجھ کو

    تو گرا دے گی مجھے اپنی نظر سے ورنہ

    تیرے قدموں پہ تو سجدہ بھی روا ہے مجھ کو

    معین احسن جذبیؔ

    لیکن اس پیار کے مایوس کن نتائج کی ذمہ داری صرف طوائف کی ذات پر ہی عائد نہیں ہوتی۔ اس طبقاتی سماج اور مہاجنی معاشرت کی مخالف اور مسموم ہواؤں میں محبت کے اس غنچے کے بن کھلے مرجھاجانے کا اندیشہ نئے شاعر کو اپنی طرف سے بھی ہے۔ یہ اندیشہ جہاں اس کی حق گوئی اور دور بینی پر دلالت کرتا ہے۔ وہاں اس کے ذہن میں بیک وقت پیار اور گریز کی ملی جلی لہریں بھی دوڑا دیتا ہے۔ جیسے،

    وہ سہارا بھی تجھے دینے پر آمادہ ہوں

    تجھے اندوہ کی دلدل سے جو آزاد کرے

    کوئی اندیشہ اگر ہے تو یہی

    جس طرح شہر کا وہ سب سے بڑا مردِ لئیم

    جسم کی مزدِ شبانہ دے کر

    بن کے رازق تری تذلیل کیے جاتا ہے

    میں بھی باہوں کا سہارا دے کر

    تیری آئندہ کی توہین کا مجرم بن جاؤں

    (ن۔ م۔ راشد)

    لیکن اور آگے چل کر جب شاعر کی نظر میں حقیقت ذرا وسیع صورت اختیار کرتی ہے تو ہمدردی، پیار اور گریز کی یہ ساری لہریں جیسے مرسی جاتی ہیں۔ کیونکہ یہاں پہنچ کر اسے معلوم ہوتا ہے کہ جس کے سائے میں اس کی شاعری سانس لے رہی ہے وہ پورا سماج ہی خرید و فروخت کا ایک بازار بنا ہوا ہے۔

    طوائف کے جسم سے لے کر شاعر کے قلم تک یہاں ہر چیز کے دام مقرر ہیں اور شب و روز ان کا نیلام اٹھتا ہے۔ یہاں آکر نیا شاعر طوائف اور اپنے آپ کو ایک ہی زنجیر کی دو کڑیاں سمجھنے لگتا ہے،

    تو اپنا کردار بیچتی ہے میں اپنا کردار بیچتا ہوں

    احمد ریاض

    سوچ بچار کی اتنی کٹیلی اور پیچ دار راہیں طے کرنے کے بعد نئی شاعری کا قافلہ اس مقام پر پہنچتا ہے جہاں نیا شاعر طوائف کے اندر کی عورت کو سرِعام رسوا و نیلام ہوتے دیکھ کر تعجب اور افسوس کا اظہار کرنے کی بجائے اس کے کردار کو پورے سماج پر پھیلاکر زہر خند ہنستے ہوئے کہتا ہے،

    تو نے تو جسم ہی کو بیچا ہے

    ایک فاقے کو ٹالنے کے لیے

    لوگ یزداں کو بیچ دیتے ہیں

    اپنا مطلب نکالنے کے لیے

    عبدالحمید عدمؔ

    اور پورے یقین اور بھرپور وثوق کے ساتھ عصمت فروشی کی اس لعنت کی پوری ذمہ داری سماج کے کندھوں پرڈال دیتا ہے،

    یہ عورتیں کہ طوائف پکاری جاتی ہیں

    اسی سماج کے ہاتھوں سنواری جاتی ہیں

    (سلامؔ مچھلی شہری)

    اور آخر میں جب شاعر کے سماجی شعور میں نسبتاً زیادہ گہرائی اور تندی پیدا ہوجاتی ہے تو وہ سماج کے اس زخم خوردہ او رمظلوم طبقے کی گھناؤنی تصویر کسی رنگ آمیزی کے بغیر اپنے آرٹ کے پردوں پر کھینچ دیتا ہے۔

    یہاں پیر بھی آچکے ہیں جواں بھی

    تنومند بیٹے بھی، ابّا میاں بھی

    یہ بیوی بھی ہے اور بہن بھی ہے، ماں بھی

    ثنا خوانِ تقدیسِ مشرق کو لاؤ

    بلاؤ خدایانِ دیں کو۔ بلاؤ۔

    یہ کوچے، یہ گلیاں یہ منظر دکھاؤ

    ثنا خوانِ تقدیس مشرق کو لاؤ

    ثنا خوانِ تقدیسِ مشرق کہاں ہیں

    (ساحر لدھیانوی)

    یہ ہے نئی شاعری میں طوائف کے موضوع پر منتخب نمائندہ ماہر ممتاز رجحانات کی ایک لڑی اور اس لڑی میں پروئے ہوئے مختلف شاعروں کے بتدریج ذہنی ارتقا کی تصویر۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اپنے ابتدائی مراحل سے گزر کر نئی نظم اس منزل تک ضرور پہنچ گئی ہے جہاں اس کے سینے میں طوائف کے لیے خلوص اور صداقت کے چراغ جگمگا اٹھے ہیں۔ لیکن اس حقیقت سے بھی مفر نہیں کہ ان خلوص اور صداقت کے چراغوں نے حقیقت کے کچھ پہلوؤں کو ہی اجالا ہے، پوری حقیقت کو اجاگر نہیں کیا۔ سماج کے خلاف صدائے احتجاج ضرور بلند کی ہے لیکن ان افراد کے چہروں کو نہیں پہچانا جن کے ہاتھ میں اس سماج کی باگ ڈور ہے اور ان مادی حالات کا بھی بغور جائزہ نہیں لیا جو کھلے بندوں ایک عورت کے انگ انگ کا سودا چکا کر اس کی نسائی پاکیزگی کو فنا کرتے ہیں۔

    اگر کہیں کہیں کسی شاعر نے طوائف کو اس کے سماجی پس منظر میں جانچنے کی کوشش بھی کی ہے تو یہ پس منظر شاعر کے ذہن و خیال کی دھندلاہٹوں ہی میں رہ گیا ہے اور اس موضوع کے ارتقا کے ساتھ قدم سے قدم ملاکر آگے نہیں چل سکا۔ دراصل طوائف کاجب تک اس کے اقتصادی اور سماجی نظام کے پس منظر میں تجزیہ نہ کیا جائے اس وقت تک شاعرانہ خلوص اور صداقت کے باوجود اس کے کردار پر کسی صحت مند اور تعمیری نقطہ نظر سے روشنی نہیں ڈالی جاسکتی۔ کیونکہ شاعرانہ خلوص اور صداقت کے مینار اگر غیرسائنسی اور جذباتیت پر ابھارے جائیں تو ان کی استقامت اور پائداری مشکوک رہتی ہے اور کسی وقت بھی ان کے گرنے کا احتمال ہوسکتا ہے۔

    مأخذ:

    Adab E Lateef September 1951-SVK (Pg. 21)

      • ناشر: چودھری برکت علی
      • سن اشاعت: 1951

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے