aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

نظیر اکبرآبادی: ایک بار پھر

مجنوں گورکھپوری

نظیر اکبرآبادی: ایک بار پھر

مجنوں گورکھپوری

MORE BYمجنوں گورکھپوری

    ابھی ایک مہربان دوست نے مارچ کے ’’جامعہ‘‘ کی طرف مجھے متوجہ کیا اور جناب سید اختر علی نے نگار کے نظیر نمبر پر جو فاضلانہ تبصرہ حوالہ قلم فرمایا ہے اس کو مجھے پڑھنا پڑا۔ فاضل تبصرہ نگار کی نظر التفات سالنامہ نگار کے تین اراکین پر خصوصیت کے ساتھ پڑی ہے جن میں خوش نصیبی سے ایک میں بھی ہوں۔ اگر یہی ہوتا کہ دائرہ سخن صرف چند افراد تک محدود ہوتا تو یہ کوئی ایسی بات نہ تھی کہ میں خواہ مخواہ اس کے جواب میں کچھ لکھتا۔ سمجھ لیتا کہ میرا مضمون اور میرے ساتھ کم وبیش بعض اور کے مضامین کو موصوف کا دل اور دماغ قبول نہ کر سکا۔ لیکن موصوف نے افراد سے ہٹ کر ایک خاص زعم درک و بصیرت کے ساتھ چند تنقیدی کلیات اور ادبی مفروضات سے بھی بحث کی ہے جن کو پڑھنے کے بعد میں اپنی اس تحریک کو دبا نہیں سکتا کہ میں بھی کچھ عرض کروں۔

    قبل اس کے کہ میں اصول و کلیات کی طرف متوجہ ہوں، فاضل مبصر نے میرے مضمون کے متعلق جس ’’ظن بلیغ‘‘ کا اظہار فرمایا ہے اس کی بابت کچھ عرض کر دینا ضروری سمجھتا ہوں۔

    میں اور میرے ساتھ تین اور حضرات نے نظیر اکبرآبادی کی شاعری سے متعلق جو عنوان نظر اختیار کیا ہے، اس کے بارے میں سب سے پہلی بات جو کہی گئی ہے وہ یہ ہے کہ ’’اس پر بیشتر مارکس کے خیالات کی مہریں لگی ہوئی ہیں۔‘‘ اور یہ حکم آپ نے ایک خاص مفتیانہ لہجے میں لگایا ہے، بالکل اسی لہجے میں جس لہجے میں اب سے ایک نسل پہلے لوگوں پر کفر والحاد کے الزام لگائے جاتے تھے۔ گویا کسی خیال پر مارکس کی مہر ہونا ہی اس کے غلط یا ناپاک ہونے کی کافی دلیل ہے۔ یہ اس خطرناک ذہنیت کی علامت ہے جو صرف یہ دیکھتی ہے کہ ’’کس نے کہا؟‘‘ اور یہ دیکھنا پسند نہیں کرتی کہ ’’کیا کہا؟‘‘

    میں نے نظیر پر جو مضمون لکھا ہے اس کا مقصد اس کے عنوان ہی میں ظاہر کر دیا گیا ہے اور مجھے اپنے عنوان اور اپنے موضوع کا شروع سے آخر تک خیال رہا ہے۔ دوسرے مقامات کی بابت میں کچھ کہہ نہیں سکتا، لیکن کم سے کم میرا مقصد ہرگز یہ نہیں تھا کہ نظیر کو محض شاعر کی حیثیت سے پیش کروں۔ شاعر کا جو مفہوم اب تک سمجھا گیا ہے وہ یہ ہے کہ شاعر ایک خاص دنیا کی مخلوق ہوتا ہے اور اس کے ساتھ ایک خاص تائید غیبی ہوتی ہے۔ اس کو اپنی اس برتری کا احساس ہوتا ہے اور وہ جو بات کہتا ہے، ایک خاص مقام سے ہوتی ہے، جس کو عوام نہ کہہ سکتے نہ سمجھ سکتے ہیں۔

    شاعر کی یہ تعریف نظیر پر صادق نہیں آتی اور شاعری کے اس تصور سے نظیر نے ارادی یا اضطراری طور پر انحراف کیا۔ میں نے نظیر کی اسی حیثیت پر زور دیا ہے۔ میں نے کہیں ان پر خالص جمالیاتی نظر نہیں ڈالی ہے کہ ان کے فنی نقائص کا بھی خواہ مخواہ ذکر کرتا۔ یہ تو نظیر کی بہت سطحی خصوصیات تھیں جو میرے دائرہ موضوع سے یک قلم باہر تھیں اور جن کو ہر شخص ایک اچٹتی ہوئی نگاہ میں دیکھ سکتا ہے۔

    اگرچہ میرا خیال ہے کہ نظیر کی یہ فنی بے پروائیاں بھی ان کے اسی عام میلان سے منسوب کی جا سکتی ہیں جس کو میں نے ’’جمہوریت‘‘ بتایا ہے۔ بہرحال میں صرف نظیر کی اس حیثیت سے بحث کرنا چاہتا تھا جو ان کو اردو شاعری کے تمام اساتذہ سے ممتاز کرتی ہے اور جس کو سماجی اور عمرانی واقعیت (Social & Cultural Realism) کہتے ہیں اور میں نے اپنے مضمون میں اس کے علاوہ اور کچھ نہیں کہا ہے کہ نظیر سے اردو شاعری میں جمہوری واقعیت کا آغاز ہوتا ہے۔ لیکن میں نے ان کو واوین کے اندر ’’جمہوریت پسند اشتراکی‘‘ کہیں نہیں بتایا جیسا کہ فاضل مضمون نگار نے مجھ پر الزام لگایا ہے۔

     ’’اشتراکیت‘‘ اور ’’جمہوریت‘‘ کے جدید مفہوم سے مارکس اور انگلز (اس نام کا تلفظ انگلز ہے انجلز نہیں ہے) کے اشتراکی اعلان (Communist Manifisto) سے پہلے دنیا ناواقف تھی اور اس کا عام چرچا تو اب ہمارے وقت میں ہونے لگا ہے۔ پھر مجھ کو یا جناب اختر تلہری کو یا کسی کو اس پر اصرار کیسے ہو سکتا ہے کہ نظیر کو آج کل کی ’’جمہوریت‘‘ یا ’’پرولتاری ادب‘‘ سے کوئی واسطہ ہو سکتا ہے؟ لیکن ایک اشتراکیت وہ بھی ہے جو انسانیت کی مترادف ہے اور ایک جمہوریت وہ بھی ہے جس کی کوئی تاریخ نہیں ہے۔ نظیر کی اشتراکیت اور نظیر کی جمہوریت اسی قسم کی تھی۔ کسی استاد یا کسی نصاب نے ان کو اشتراکیت اور جمہوریت نہیں سکھائی تھی۔ وہ اپنے کو فطرتاً خدا کی وسیع دنیا اور انسان کی کثیر سے کثیر تعداد سے قریب اور مانوس پاتے تھے اور دونوں سے بے انتہا خوش تھے۔

    اختر علی صاحب کا تنقیدی مراسلہ پڑھنے کے بعد جو مجموعی اثر مستقلاً رہ جاتا ہے وہ یہ ہے کہ آپ ایک عمر سے مارکس اور نظیر دونوں کی طرف سے بھرے بیٹھے تھے اور اپنے دل کا غبار نکالنے کے لئے بے چین تھے۔ مجھے امید ہے کہ یہ غبار اچھی طرح نکل چکا ہوگا اوراب ان کے دل میں کچھ باقی نہ ہوگا۔ لہذا اب میں ان سے درخواست کروں گا کہ وہ خالی الذہن ہوکر اور ٹھنڈے کلیجے کے ساتھ چند باتوں پر غور فرمائیں اور وہ یہ ہیں،

     (۱) ادب اور اس کی ایک صنف ہونے کی حیثیت سے شاعری زندگی کا ایک مرکب تجربہ ہے جس میں تمام اساسی تجربات خارجی اور باطنی شامل اور داخل ہیں۔

    میتھیو آرنلڈ نے جب ادب کو ’’تنقید حیات‘‘ بتایا تھا تو ادب کی جو صنف اس کے ذہن میں سرفہرست تھی وہ شاعری تھی۔ معلوم ہوتا ہے کہ اختر علی صاحب میتھیو آرنلڈ سے اچھی طرح واقف نہیں ہیں یا ان کو اس کے اندر صحیح درک حاصل نہیں ہے۔ میتھیور آرنلڈ شاعری کو ادب کی اہم ترین صنف سمجھتا تھا اور جب کبھی ’’ادب‘‘ کا لفظ استعمال کرتا تھا تو شعوری اور غیرشعوری طور پر اس کے ذہن میں شاعری کا تصور ہوتا تھا اور وہ شاعری ہی پر جملہ اصناف ادب کا قیاس کرتا تھا جیسا کہ ہم سب آج تک کر رہے ہیں۔ اس لئے ہم اب تک شاعری سے جملہ ادبی اصناف کا قیاس کرنے اور ان کے بارے میں حکم لگانے کے خوگر ہیں۔ لیکن ہم میتھیوآرنلڈ کو درمیان میں کیوں لائیں؟ کیوں نہ خود ہی سوچیں کہ ادب کو ہماری واقعی زندگی سے کوئی واسطہ ہے یا نہیں ؟ انداز سے معلوم ہوتا ہے کہ اخترعلی صاحب بھی اس سوال کا جواب نفی میں دیتے ہوئے ہچکچائیں گے۔

    میرے خیال میں ادب زندگی کی تخلیقی تنقید (Creative Criticism) ہے اور شاعری ادب ہی کی ایک صنف ہے۔ اس کے اندر وہ نوعی خصوصیات جس قدر بھی ہوں جو اس کو اور اصناف سے ممتاز کرتی ہوں لیکن اس کے اندر وہ تمام خصوصیات تو ہونا ہی چاہئیں جو ادب میں پائی جاتی ہیں، اس لئے کہ ادب شاعری کی جنس ہے اور منطقی شجرہ میں بھی جنس پہلے آتی ہے اور فصل بعد کو۔

     (۲) میں نے کہیں نہیں کہا ہے اور نہ کوئی سمجھ بوجھ رکھنے والا شخص یہ کہہ سکتا کہ ’’شعرا متقدمین کے خیالات و افکار کے شاداب پھول‘‘ کوئی قدر و قیمت نہیں رکھتے اور ’’سبزہ بیگانہ‘‘ کی طرح ان کوروندڈالو۔ اختر علی صاحب سیاق عبارت کا مفہوم سمجھنے میں اپنے تخیل کو ضرورت سے زیادہ راہ دے دیتے ہیں۔ انہوں نے شاید میرا یہی ایک مضمون پڑھا ہے ورنہ ان کو میری بابت قطعی اور صریح حکم لگانے میں دیر لگتی۔ میں نے اکابر شعرا اردو کا مسلسل اور منضبط مطالعہ کیا ہے اور ایک پوری عمر اسی میں صرف کی ہے اور میرا مطالعہ محض مجہولی یا تفریحی مطالعہ نہیں تھا۔ میں نے تنقید کے تقریباً تین سو صفحات صرف ’’اگلے وقتوں کے لوگوں‘‘ یعنی مشاہیر غزل اردو پر لکھے ہیں اور ان کے اکتسابات شعری کی قدر وقیمت کو تسلیم کیا ہے لیکن مہذب اور سنحیدہ مذاق کا تقاضا ہے کہ چند تاریخی حقیقتوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ہماری اب تک کی شاعری سامنتی نظام اور سامنتی ذہنیت (Feudal Mind) کی پیداوار ہی ہے، اس سامنتی نظام اور سامنتی ذہنیت کی جو ممالک مغربی سے تو مدت ہوئی رخصت ہو چکی لیکن ہندوستان میں اب تک باقی ہے۔

     (۳) دنیا میں عام طور سے اور ہندوستان میں خصوصیت کے ساتھ اب تک ادب جس زندگی اور جس تہذیب کی نمائندگی کرتا رہا ہے، وہ اقلیت کی تہذیب تھی۔ اختر علی صاحب کو کم سے کم یہ تو معلوم ہی ہوگا کہ ہمارے ملک میں کتنے فیصدی پڑھے لکھے ہیں اوران میں بھی کتنے ہیں جو میر اور غالب سے اثر قبول کر سکیں گے۔ میر و غالب کے کمالات کا میں معترف ہوں، لیکن یہ بھی احساس رکھتا ہوں کہ یہ کمالات ایک خاص سطح اور ایک خاص دائرے تک محدود ہیں۔ انسان اور بالخصوص ایک ناقد کو اپنے یااپنی محدود جماعت کے مذاق اور میلانات میں غلونہ ہونا چاہئے۔ اس کے اندر ایک بے لاگ خارجیت (Disinterested Objectivity) ہونا چاہئے تاکہ وہ اپنی مخصوص ومحدود رغبت ونفرت کے تنگ دائرے سے باہر آکر اور ان کے تعصب آفریں اثرات کو نظرانداز کرکے واقعات پر غور کر سکے اور ان پر حکم لگا سکے۔

    ہمارے ادیبوں نے ہمارے لئے جو کچھ کیا اس کا اعتراف نہ کرنا یقیناً کفران نعمت ہے، لیکن ان کی کوتاہیوں کو بھی ان کے اکتسابات میں شمار کرنا جہل ہے اور اس وقت تک نہ صرف ہمارے ادب نے بلکہ دنیا کے ادب نے جو کچھ کیا ہے، وہ ایک مخصوص اور کم تعداد طبقے کے لئے کیا ہے جس کو شریفوں کا طبقہ کہا جاتا ہے، بلکہ یہ کہنا چاہئے کہ اعلیٰ اور ادنی، شریف اور ذیل، امیر اور غریب، خاص اور عام، مختصر یہ کہ اقلیت اور اکثریت کے درمیان جو خلیج ہمارے سامنتی نظام اور مہاجنی نظام نے پیدا کر رکھی ہے اور اس کو اور زیادہ وسیع اور عمیق بنانے میں ہمارے ادب نے بھی کچھ کم مدد نہیں کی۔

    اب تک کی تہذیب اور اب تک کے ادب نے ایک مخصوص اور کم تعداد جماعت کے لئے جو کچھ کیا اور اس کو جو کچھ دیا وہ اپنی جگہ مسلم ہے لیکن دونوں خلقت انسانی کی کثیر سے کثیر تعداد کے حقوق بھی غصب کئے رہے ہیں، تہذیب اور شائستگی، اخلاق اور ادب کا نام لے کر ڈاکے بھی ڈالے گئے ہیں ورنہ آج یہ نہ ہوتا کہ میر اور غالب، حافظ اور نظیری، ورڈسورتھ اور شیلی کو ہم آپ تو پڑھ پڑھ کر جھومیں اورایک خلق اللہ کمتری اور بےچارگی کا دردناک احساس لئے ہوئے ہمارا آپ کا منہ تکتی رہے اور پھر ہمیں آپ ان کو جاہل اور حقیر قرار دیں۔

     (۴) نظیر اکبرآبادی بھی سامنتی اور سامنتی معاشرت کی مخلوق تھے لیکن بعض ہستیاں ہوتی ہیں جو اختیاری یا غیر اختیاری طور پر مروجہ مذاق اور مروجہ معیار سے منحرف ہو جاتی ہیں اور ماضی وحال سے زیادہ مستقبل کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ نظیر کا بھی شمار ایسی ہی ہستیوں میں ہے۔ اردوشاعری میں وہ بغاوت کی پہلی آواز ہیں۔ یہی میرے مضمون کا مرکزی خیال ہے۔ نظیر اکبرآبادی نے اب سے کم وبیش سو ڈیڑھ سو سال پہلے اردو شاعری میں اس جمہوریت اور اس واقعیت کی بنیاد ڈالی جس کی تعمیر اب ہو رہی ہے۔

     (۵) اردو شاعری میں چوں کہ سب سے زیادہ رائج اور مقبول صنف غزل رہی ہے اور غزل کو چونکہ روایتاً واردات قلبیہ اور کیفیات ذہنیہ کے لئے مخصوص سمجھا گیا ہے، اس لئے اس میں داخلیت کا ایسا غلبہ ہوا کہ خارجی زندگی کے تمام تنوعات، زمین وآسمان کے سارے حادثات ہماری شاعری کے لئے حرف غلط ہوکر رہ گئے اور شاعری میں جس زندگی کی نمائندگی ہوئی وہ پوری زندگی نہیں تھی، بلکہ زندگی کا صرف ایک رخ تھا۔ اگر ہمارے شاعروں کے متعلق کہا جائے کہ ان کی آنکھیں اندرکی طرف کھلتی تھیں توغلط نہ ہوگا۔ نظیر پہلے شاعر ہیں جن کی آنکھیں باہر کی طرف کھلیں اور جن کی کائنات شعری کی بنیاد صرف باطنی کیفیات پر نہیں رہی۔ میں نے اپنے مضمون کے آخر میں اس کو کافی واضح کر دینے کی کوشش کی ہے۔ نظیر کی نگاہ میں زندگی کی لامحدود وسعتیں تھیں اور وہ ان کا احترام کرتے تھے۔

     (۶) اردو زبان (میں) قصائد، مثنویات اور مراثی کے باوجود خارجی شاعری بہت مفلس اور کم حیثیت رہی ہے۔ میر حسن کی مثنوی اور میر حسن کے مرثیو ں سے پہلے تو خارجی شاعری کا محض نام تھا اور اس نام کی لاج رکھنے کے لئے ہم بھی کہہ دیں گے کہ اردو میں خارجی شاعری تھی، لیکن حقیقت یہ ہے کہ نظیر اکبرآبادی سے تھوڑی دیر کے لئے قطع نظر کر لیجئے تو میر حسن اور میر انیس سے اردو میں خارجی شاعری کا باضابطہ آغاز ہوتا ہے۔ میر حسن کی مثنوی واقعہ نگاری میں مصوری کا درجہ رکھتی ہے اور واقعیت کی پہلی کامیاب مثال ہے لیکن اول تو اس میں زندگی کی جو تصویر پیش کی گئی ہے اس میں خیالی اور فرضی عناصر کو بھی شامل کر دیا گیا ہے، دوسرے میرحسن نے امرا اور رؤسا کی زندگی کو زندگی سمجھا اور جمہور کی زندگی سے کوئی سروکار نہیں رکھا۔ یہ ان پر کوئی الزام نہیں ہے۔ اب تک کی رسم یہی رہی ہے۔

    میرا مطلب نظیر اور میر حسن کے درمیان جو فرق ہے اس کو واضح کرنا ہے۔ میر انیس کی ساری واقعہ نگاری واقعہ کربلا پر ختم ہو گئی۔ یہ سچ ہے کہ انہوں نے اہل عرب کی زندگی، ان کے عادات واطوار اور رسوم و روایات کی جو تصویریں پیش کی ہیں ان میں ہندوستان کی ایک روبہ انحطاط معاشرت کے آثار زیادہ نمایاں ہیں اور فرات کا پانی گومتی کا پانی معلوم ہوتا ہے، لیکن میر انیس کی نیت یہ نہ تھی۔ یہ تو ان سے غیر شعوری طور پر ہو گیا۔

    بہرحال میر انیس کی قوت بیان اور مصورانہ قدرت تحریر کا اعتراف کرتے ہوئے بھی یہ کہنا پڑتا ہے کہ ان کے یہاں زندگی کی عام اور اصلی تصویریں نہیں ہیں۔ ان کی واقعیت پھر بھی تخیلی واقعیت ہے۔ میں نے جب نظیر کی واقعہ نگاری کے سلسلہ میں یہ کہا تھا کہ ایسی مرقع نگاری میرحسن اور میر انیس کے بس کی بات نہیں تھی تو میری مراد اس اصلی اور جمہوری واقعیت سے تھی جس کی اہمیت سے یہ اساتذہ واقعی محروم تھے اور جس کے ترکیبی عناصر میں ’’خوبصورت سمدھن‘‘اور ’’کسبیاں‘‘ بھی شامل ہیں، اگرچہ یہی سب کچھ نہیں ہے۔

    میرے لئے یہ بصیرت سے خالی نہیں کہ اختر علی صاحب کی نظر خوبصورت سمدھن کے بے پردہ اعضا اور ’’کسبیوں کے ازاربند‘‘ ہی پر پڑی اور نظیر کے کھنچے ہوئے اور مرقعے ان کو اپنی طرف متوجہ نہ کر سکے۔ یہ اپنا اپنا حسن نظر ہے مگر یہ مرقع نگاری بھی نظیر کا ایک نمونہ کمال ہے، اگرچہ جس وقت میں نے نظیر کے سلسلے میں میر حسن اور میر انیس کے نام لئے تھے تو میر ایہ مطلب تھا کہ میر حسن اور میرانیس نہ صرف خوبصورت سمدھن، کسبی، رقاصہ جیسے عنوانات پر نظمیں لکھنے سے قاصر تھے بلکہ بنجارہ، ہنس، آگرہ کی پیراکی، برسات، بڑھاپا، دیوالی، شب برات کی بھی ایسی سچی تصویریں اتارنا ان کی قدر ت سے باہر تھا۔

     (۷) زبان اور اسلوب کی رو سے نظیر اور دوسرے شعراء اردو کے درمیان جو فرق ہے اس کو میں غیر متعلق بحث سمجھتا ہوں۔ اسی لئے میں اس کو درمیان میں نہیں لایا۔ ظاہر ہے کہ اردو زبان اور اسلوب کو رچنے اور مہذب اور شائستہ بنانے میں میر، غالب، میر حسن اور میر انیس وغیرہ نے جو حصہ لیا، نظیر نے نہیں لیا اور مہذب اور شائستہ ادبی ذوق نظیر کی زبان اور ان کے لب ولہجے کو معیار سے گرا ہوا پاتا ہے۔ لیکن ہمارے ذوق کو ابھی اور مہذب اور شائستہ ہونا ہے اور اس کی احتیاط کرنا ہے کہ تہذیب اور شائستگی کے پردے میں حق تلفیاں نہ ہونے لگیں۔

    نظیر کی شاعری کے لئے میر حسن اور میر انیس یاغالب اور مومن کی ’’مہذب‘‘ زبان اور ان کا رچا ہوا اسلوب یقیناً نا موزوں اور بے جوڑ ہوتا۔ نظیر کی شاعر ی موضوع، زبان، اسلوب ہر لحاظ سے جمہور کی زندگی سے ماخوذ تھی اور اس اعتبار سے وہ بڑی پختگی اور استقامت کا پتہ دیتے ہیں۔ میں کہہ چکا ہوں اور پھر کہتا ہوں کہ جس چیز کو ہم نظیر کا ابتذال بتاتے آئے ہیں وہی ان کا فن ہے۔ نظیر نے اردو شاعری میں ایک نیا میلان پیدا کیا اور اس کو ایک نیا معیار دیا جس کو مروجہ معیار نے سوقیت اور ابتذال سے تعبیر کیا، مگر یہ دراصل دوعقیدوں اور دو معیاروں کا سوال ہے۔

    یہاں تک تو نظیر سے بحث تھی، لیکن اختر علی صاحب نے ادب اور عمرانیات کے اصول اور کلیات سے بحث کرنے کی بھی کوشش کی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہوں نے حیات انسانی کا صحیح مطالعہ نہیں کیا ہے۔ ادب انسانی زندگی کے سنجیدہ حرکات میں سے ہے اور اس کی غایت صرف تفریح یا زندگی سے گریز نہیں ہے، اگرچہ یہ غرض بھی ایک صحت بخش حد تک اس کے اغرا ض میں شامل ہے۔ ادب کی غایت انسان کی زندگی کو بڑھانا، اس کی وسعتوں اور اس کے امکانات کو ترقی دینا ہے۔ اس اعتبار سے ادب یقینا ایک قسم کا پروپیگنڈا ہے اگرچہ ہر پروپیگنڈا ادب نہیں ہوتا۔

    پھر چوں کہ ادب انسان کی زندگی کی ایک حرکت ہے، اس لئے اس پر زندگی کے تمام اسباب ومحرکات کا اثر پڑنا ضروری ہے اور چونکہ ادب کا کام انسان کی زندگی سنوارنا اور اس کو بہتر سے بہتر بنانا ہے، اس لئے اس کے لئے ضروی ہے کہ وہ زندگی کے تمام اسباب ومحرکات اوراس کے تمام میلانات و امکانات سے مربوط اور متعلق رہے۔ اقتصادیات و سیاسیات بھی زندگی کے اہم اسباب و محرکات میں سے ہیں اور ادب ان میں سے کسی سے بیگانگی یا بےنیازی نہیں برت سکتا۔ ادب سیاسیات یا اقتصادیات کا ڈھنڈورا تو نہیں ہوتا، لیکن سیاسی اور اقتصادی حالات و اسباب سے اثر قبول کئے ہوئے بغیر بھی نہیں رہ سکتا اور پھرجب اس کی باری آتی ہے توادب ان حالات و اسباب کو بھی متاثر کرکے ہی رہتا ہے۔

    میں نے اپنے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ یہ سچ ہے کہ انسان صرف روٹی سے زندہ نہیں رہ سکتا لیکن بغیر روٹی کے بھی وہ زیادہ عرصے تک زندہ رہنے کی تاب نہیں لا سکتا۔ ہماری زندگی کے خارجی اور مادی حالات ہماری ذہنی زندگی پر کیا اثرات چھوڑتے ہیں؟ ہم کو اس کا احساس تک نہیں ہوتا۔ لیکن احساس ہو یا نہ ہو واقعہ واقعہ ہوتا ہے۔ شعروادب تو خیر درکنار، ہمارے تمام عادات و اخلاق، ہمارے تمام حرکات و سکنات، یہاں تک کہ ہماری محبت اور ہماری عبادت کو بھی ہماری زندگی کے خارجی اسباب، جن میں اقتصادیات سب سے زیادہ اہم ہے، متاثر کرکے چھوڑتے ہیں۔

    ’’پراگندہ روزی پراگندہ دل‘‘ بہت پرانی مثل ہے اور ’’خداوند نعمت بحق مشتغل‘‘ کسی اشتراکی کی اختراع نہیں ہے اور اشتراکیت اور انقلابیت کے وجود میں آنے سے بہت پہلے قحط سالی کی بدولت دمشق والے عشق بھول گئے تھے۔ پھر آپ ہی سوچئے۔ جب عشق اور عبادت جیسے نشے فاقے میں ہرن ہو جاتے ہیں تو پھر ادب یا شاعری کا نشہ کس شمار قطار میں ہے؟ جیسی ہماری زندگی ہوتی ہے ویساہی ہمار ادب ہوتا ہے۔ بھوکے آدمی کی شاعری، بھوکے آدمی کا عشق، بھوکے آدمی کی عبادت میں بھوکے کے آثار ہوں گے۔

    میں اقتصادیات ہی کو ساری زندگی نہیں سمجھتا۔ یہ تو زندگی کی عمارت کا صرف ایک ستون ہے اوربہت سے عناصر اور بہت سی قوتیں زندگی میں کام کر رہی ہیں جو اتنی ہی اہم اور ناقابل تجاہل ہیں، جتنی کہ اقتصادی قوتیں، اور میں ان لوگوں کاہم آواز نہیں جو بھوک کو انسان کی واحد ضرورت اور روٹی کو اس کی زندگی کا تنہا سبب بتاتے ہیں۔ ہماری بہت سی ضرورتیں ہیں اور ہماری زندگی کے بہت سے اسباب ہیں لیکن میں اس کا قائل ہوں کہ ہمارا ادب ہماری سماجی اور معاشرتی زندگی سے برابر متاثر ہوتا رہتا ہے اگر ایسا نہ ہوتا تو زندگی کے ساتھ ادب بھی دور بدور اتنے روپ نہ بدل چکا ہوتا۔ آخر کیا سبب ہے کہ اس وقت نہ میر اور غالب کی شاعری کا رواج ہے نہ جرأت اور داغ کی؟ اس کا سبب صرف یہ ہے کہ ہماری سماجی اور اقتصادی زندگی کے ساتھ ہمارے ادب کا رخ بھی بدل گیا ہے۔

    زندگی ایک متحرک اور نامیاتی (Organic) کلی حقیقت ہے جو ایک نقطے پر کبھی قائم نہیں رہ سکتی۔ وہ خود بدلتی رہتی ہے اور اس کے ساتھ اس کی ہر چیز بدلتی رہتی ہے۔ میں مارکس کی طرح یہ کہنے کے لئے تیار نہیں کہ ادب اب تک زندگی کی صرف تاویلیں کرتا رہا 1 اوراس نے زندگی کو بدلنے کی کوشش نہیں کی۔ میں نے ادب کو زندگی کی تخلیقی تنقید بتایا ہے۔ یعنی ادب کا کام یہ ہے کہ زندگی پر تنقید کرکے اس کو ازسرنو پیدا کرے اور پہلے سے زیادہ مکمل اور خوبصورت بنائے۔ یہ ہے ادب کی تخئیل اور ادب نے اس تخئیل کی کسی نہ کسی حد تک تکمیل بھی کی۔ زندگی کی طرح ادب میں بھی اتنے دور ہو چکے اور ہر دور میں ادب نے نیا رنگ روپ اختیار کیا۔ یہ تاریخی حقیقت میرے دعوی کی دلیل ہے۔

    لیکن یہ بھی واقعہ ہے کہ اب تک ادب نے جو کچھ کیا، ایک مخصوص اور منتخب اقلیت کے لئے کیا اور اعلیٰ اورادنی کے فرق کو نہ صرف قائم رکھا بلکہ اس کو زیادہ شدید بنایا۔ اب ادب بجا طور پر خواص پرستی کے جرم میں ماخوذ کیا جا رہا ہے اور اس کی رہائی اور آزادی کی صرف ایک یہ صورت ہے کہ وہ جمہوریت کے شرائط اور مطالبات کو منظور کرلے، اس لئے کہ یہ انسانیت کے شرائط اور مطالبات، اخترعلی صاحب کی طرح بہتیرے شائستہ اور مہذب ذوق رکھنے والے کہیں گے کہ یہ جمہوریت شرافت اور تہذیب میں بٹہ لگائے گی۔

    اگر شرافت اور تہذیب کے یہ معنی ہیں کہ شریفوں اور مہذبوں کا بس ایک چھوٹا سا کوڑھی گھر بساکر بیٹھ رہو، تو یہ شرافت اور تہذیب اب دنیا میں زیادہ عرصے تک باقی رہنے والی نہیں، اس لئے کہ اس کے مبروص اور جذامی ہونے کا راز کھل چکا ہے اوردنیا جان چکی ہے کہ اس کے اندر زندہ رہنے کی صلاحیت نہیں ہے۔ لیکن اگر شرافت اور تہذیب کے یہ معنی ہیں کہ کثیر سے کثیر تعدا د کو شریف اور مہذب بناؤ تو اس کے لئے ضروری ہے کہ ہم اپنی مفروضہ بلندیوں سے کچھ نیچے آئیں اور کثیر سے کثیر تعداد انسان کو اپنے ساتھ ابھارکر اپنی مفروضہ بلندیوں کو حقیقی بلندیاں بنائیں۔ ہماری اجتماعی اور انفرادی دونوں زندگیوں کے لئے اشدضروری ہے کہ ہم اپنے سارے معیار و مذاق تمام اصول وعقاید، اپنے تمام تعصبات پر نظرثانی کریں اور ان کو بدلیں۔ اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ موجودہ بحران سے ہماری زندگی صحیح و سالم نکل آئے اور پھر ترقی کی طرف چلے تو اس کی یہی ایک صورت ہے۔

    گزشتہ ڈیڑھ سال کے اندر میں نے کئی مضامین لکھے ہیں جن میں کہیں مجمل اور کہیں مفصل ان مسائل سے بحث کی گئی ہے، مثلا ًادب اور زندگی، ادب اور ترقی، ادب اور زندگی میں بحرانی دور وغیرہ۔ معلوم ہوتا ہے کہ اخترعلی صاحب کی نظر سے ان میں سے میرا کوئی مضمون نہیں گزرا، ورنہ وہ ’’نگار کے نظیر نمبر‘‘ اور ’’موجودہ طرز تنقید‘‘ پر زیادہ سوچ سمجھ کر اظہار خیال فرماتے۔ آخر میں میں اپنے تبصرہ نگار دوست کو یہ صلاح دوں گا کہ

    حسد سے دل اگر افسردہ ہے گرم تماشا ہو
    کہ چشم تنگ شاید کثرت نظارہ سے واہوا

    یہی نظیر کی شاعری کا پیغام ہے اور یہی جدید نظریہ ادب کی صلاح۔

    میرے اس خط یا مضمون کے جواب میں اختر تلہری صاحب نے ایک اور خط شائع کرایا تھا جس کا میں جواب لکھنے بیٹھا تھا، مگر یہ محسوس کرکے کہ یہ سلسلہ کبھی ختم نہیں ہوگا میں خاموش رہا۔ جب فکر و نظر میں اساسی اختلاف ہو تو پھر اختلاف ہی پر راضی اور خوش رہنا چاہئے۔ اختر صاحب فارسی اور اردو شعروادب کا وسیع مطالعہ رکھتے ہیں اور ان کو متقدمین کے اکتسابات پر کافی عبور حاصل ہے، لیکن وہ شعر کے فنی اور اصطلاحی رخ کے ساتھ زیادہ شغف رکھتے ہیں۔ شعر کی اصل وغایت اور اس کے معاشرتی تاریخ کے ساتھ نہ ان کو زیادہ لگاؤ ہے اور اس باب میں ان کا مطالعہ وسیع اور غائر ہے اور جتنا مطالعہ ہے وہ ان کے تنقیدی مزاج کا جزو نہیں بن سکتا ہے۔


    حاشیہ
    (۱) مارکس نے یہ الزام دراصل فلسفے پر لگایا ہے، لیکن اس کے بعد مارکسی نقاد ادب پر بھی یہی اعتراض کرتے رہے کہ وہ اب تک زندگی کی صرف تاویل کرتا رہا اور اس کو بدلنے کی کوشش نہیں کی۔

    مأخذ:

    ادب اور زندگی (Pg. 299)

    • مصنف: مجنوں گورکھپوری
      • ناشر: اردو گھر، علی گڑھ
      • سن اشاعت: 1984

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے