Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

نظیر اکبرآبادی کی کائنات

شمس الرحمن فاروقی

نظیر اکبرآبادی کی کائنات

شمس الرحمن فاروقی

MORE BYشمس الرحمن فاروقی

    میں یہ بات شروع ہی میں واضح کردینا چاہتاہوں کہ میں نظیرکوبڑا شاعر نہیں سمجھتا۔ اچھا شاعر بھی نہیں سمجھتا۔ وہ ایک اہم، دلچسپ اورلائق مطالعہ شاعر ضرور ہیں لیکن اچھی یا بڑی شاعری ان کے دائرے سے باہر ہے۔ شاید انہوں نے شاعری کو سنجیدگی سے برتا نہیں، یا شایدبرتا لیکن وہ فی نفسہ اچھی یا بڑی شاعر پر قادر نہیں تھے۔

    ایسانہیں ہے کہ ان کے یہاں اچھی نظمیں یا اچھے شعر نہیں ملتے۔ نظیر شاعر ضرور تھے، یعنی شاعری ان کے یہاں ملتی ہے۔ اچھے شعر اور بعض اچھی نظمیں مل جاتی ہیں لیکن میں کسی شخص کو اچھا یا بڑا شاعر اسی وقت کہہ سکتا ہوں جب اس کے کلام کا خاصا حصہ (بڑا حصہ کی شرط نہیں) اچھی یا بڑی شاعری کی ضمن میں آتاہو، یا پھر بہت ہی تھوڑا کلام قابل لحاظ ہو، لیکن وہ تھوڑا اس قدر زبرد ست، عظیم الشان، معنی خیزاور باریک ہوکہ کیفیت، کمیت پرحاوی ہوجائے۔ اس حساب سے میں حاتم، آتش اور نظیر کو اچھے شاعروں کی فہرست میں نہیں رکھ سکتا، کیوں کہ ان کے یہاں اچھی شاعری کا عنصر بہت کم ہے۔ (مقدار اور کیفیت دونوں لحاظ سے۔) اس حساب سے میں مصحفی کو اچھاشاعر سمجھتا ہوں، کیوں کہ مقدار اور کیفیت دونوں لحاظ سے ان کے یہاں ایسے اشعار اتنی تعداد میں مل جاتے ہیں کہ اچھا کلام، معمولی کلام یاخراب کلام پر حاوی ہوجاتاہے۔

    یہ اور بات ہے کہ حاتم اور نظیر دونوں مصحفی سے زیادہ اہم شاعر ہیں۔ حاتم کی اہمیت زیادہ ترتاریخی ہے، لیکن نظیر کی ایک حیثیت اور بھی ہے۔ اگر وہ نہ ہوتی تومیں ان کے بارے میں اظہار خیال کرکے وقت نہ ضائع کرتا۔ نظیراہم شاعر ہیں۔ آتش اور مصحفی نہ ہوتے تو اردو شاعری میں کوئی بڑا خلا محسوس نہ ہوتا۔ نظیر نہ ہوتے تو یقیناً ایک خلا محسوس ہوتا۔ محض اس وجہ سے نہیں کہ نظیر نے مختلف شعرا کو براہ راست یا بالواسطہ متاثر کیا بلکہ اس وجہ سے بھی کہ ہماری قومی حیثیت کے بعض پہلوؤں کااظہار جو محض نظیرکے یہاں ہوا ہے، تشنۂ وجودرہ جاتا۔

    یہ افتخار کم نہیں ہے۔ لیکن اتنا بھی نہیں ہے کہ صرف اس کے بل بوتے پر نظیرکو اچھا یا بڑاشاعر کہہ دیا جائے۔ قطب الدین باطن اور احتشام صاحب نے نظیرکے بارے میں جو بھی کہا ہواور شیفتہ نے جو بھی نہ لکھا ہو، نظیرکے ساتھ انصاف کبھی نہیں کیا گیا۔ سب سے بڑی بے انصافی ترقی پسندوں نے کی، یعنی انہیں عوامی شاعر کہہ دیا، کیونکہ ان کے یہاں میلے ٹھیلوں، بازی گروں، رنڈیوں کا جمگھٹ ہے اور ریچھ اور گلہری کے بچے، بنجارے اور شعبدہ باز، جمنا کی سیر کرنے والے اور والیاں دھومیں مچاتے نظر آتے ہیں۔

    شاعری کی اہمیت یا خوبی کا سب سے کم حصہ اس بات میں ہے کہ اس میں بھیڑ بھاڑ کتنی ہے۔ موضوعات کی کثرت سے زیادہ موضوعات کو برتنے کا تنوع شاعر کی اصلیت کاپول کھولتا ہے۔ فیض کی مثال سامنے کی ہے۔ وہ بہت اچھے شاعر ہیں لیکن جو چیز ان کو بڑا شاعر بننے سے روکتی ہے، وہ یہی ہے کہ ان کے موضوعات محدود ہیں اور ان کو برتنے میں ان کے یہاں کوئی تنوع بھی نہیں ہے۔ جوش اور فراق کے یہاں موضوعات کی کثرت ہے، لیکن وہ ان کو شاعرانہ طور سے برت نہیں پاتے۔ مہترانی اور جامن والی اور شمع خانقاہ اور جوانی کی یاد اور انقلاب کا شوروشراور کسان اور غروب آفتاب اور ہبوط آدم، جوش کے یہاں کیا نہیں ہے؟ ویسے ہی فراق کے یہاں بھی کس مال کی کمی ہے؟ نام نہاد فلسفیانہ نظر، ورڈزورتھ کی نقل میں اپنے ’’رومانی‘‘ اور ذہنی ارتقا کی داستان، ’’عوامی‘‘ معاملات، حسن وعشق کی واردات، فطرت کا حسن، سب کچھ موجود ہے۔ لیکن نہ فراق بڑے شاعر ہیں نہ جوش۔ ان کے مقابلے میں درد اور میر انیس کے یہاں موضوعات کا قحط ہے۔ لے دے کر وہی دوچار باتیں، وہی دس پانچ واقعات، لیکن دونوں بڑے شاعر ہیں۔

    یہی دلیل اس بات کو ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ موضوعات کا تنوع اپنی جگہ پر اچھی چیزسہی لیکن وہ بڑی شاعری کا ضامن نہیں ہوسکتا۔ شیکسپیئرکی بات چھوڑدیجیے، ’’ایساکہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے‘‘ کے مصداق شیکسپیئر کے یہاں وہ سب کچھ ہے جو دوسروں کے یہاں ہے اور ایسا بھی بہت کچھ ہے جیسا اور جتنا دوسروں کے یہاں نہیں ہے۔ عام حالات میں موضوعات کی رنگا رنگی اور ہمہ گیری ایک خوش گوار تاثر ضرورپیدا کرتی ہے، لیکن زیادہ تر بڑے شاعرتھوڑے بہت ہی موضوعات میں الٹ پھیر کر پوری کائنات سمودیتے ہیں۔

    ایلیٹ نے بڑی عمدہ بات کہی ہے کہ فن کبھی اس معنی میں ترقی نہیں کرتاکہ جو بعد میں آئے، وہ پچھلے سے اچھا ہی ہو۔ یہ ضرورہوتاہے کہ شاعری کامشمول ہمیشہ بالکل ایک سا نہیں رہتا۔ اسی لیے اس کا مشورہ یہ ہے کہ ایمان دار نقادکو چاہیے کہ وہ شاعر نہیں بلکہ شاعری کی تنقید کرے۔ وہ کہتاہے کہ پختہ اور پوری طرح ترقی یافتہ شاعر اور خام یامعمولی شاعر میں یہ فرق نہیں ہوتا کہ اول الذکر کوآخرالذکر کے مقابلے میں ’’کچھ زیادہ‘‘ باتیں کہنا ہوتی ہیں بلکہ یہ کہ ترقی یافتہ اور پختہ کارشاعر کے پاس جوذریعہ اظہار ہوتاہے وہ زیادہ ’’باریکی سے تکمیل یافتہ‘‘ finely perfectedہوتا ہے اور اس میں بہت ہی خاص یا بہت ہی متنوع محسوسات کو نئے نئے میل combinationsکی شکل میں داخل ہونے کی آسانی ہوتی ہے۔

    لہٰذاکلیم الدین ہوں، سلیم احمد ہوں یا محمود ہاشمی یا احتشام حسین، سب اس غلطی یا دھوکے میں ہیں کہ اگر شاعر ایک رنگا رنگ اور بھر پور شخصیت کی شکل میں سامنے آتاہے تو وہ بڑا شاعر بھی ہے۔ اگر بھر پور اور مکمل شخصیت کی شرط لگائی جائے تو بودلیئر سے لے کر ٹی ایس الیٹ اور درد سے لے کر اقبال تک، بہت سے شاعروں کی شاعری مشتبہ قرار دینا ہوگی۔ نظیر اکبرآبادی اپنی وسعت اور کثرت اور بے تکلفی اور ذہانت کی بنا پر اکثر نقادوں کو مغلوب کرلیتے ہیں اور اس حد تک وہ یقیناً صدہا شاعروں سے مختلف اور ان سے زیادہ لائق مطالعہ قرار پاتے ہیں، لیکن وہ نقاد کس کام کا جو سطحی جھماکوں اور دھماکوں میں اتنا گم ہوجائے کہ دھویں اور چمک کے پیچھے دیکھنے سے قاصر رہے؟

    لسانی سطح پر نظیر ایک دلچسپ شاعر ہیں لیکن ان کا دماغ اس قدر چھوٹا اور ان کا تجربہ اس قدر محدود ہے کہ ان کا تنوع ہی تھوڑی دیر کے بعد وبال جان بن جاتاہے۔ شاعری کی ایک خوبی بلکہ پہچان یہ بھی ہے کہ وہ بار بار آپ کو اپنی طرف واپس بلاتی ہے۔ اس تجربے کو تنقیدی زبان میں نہیں ادا کیا جاسکتالیکن یہ بات مسلم ہے کہ بعض بعض شاعری ایسی ہوتی ہے کہ اس کو ایک دوبار پڑھ کر لطف اٹھا لیجیے، پھر لفافہ خالی ہوجاتاہے۔ اس کی طرف دوبارہ دیکھنے کی تمنا بھی نہیں ہوتی اور اگر دوبارہ دیکھیے تو کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ اچھی شاعری آپ کو بار بار اپنی طرف کھینچتی ہے۔ اس کا خزانہ کبھی خالی نہیں ہوتا، جو شعریا د ہوچکے ہوتے ہیں ان کو بھی دوبارہ پڑھیے تو نئے معلوم ہوتے ہیں۔ معنی کی کوئی نئی جہت، تجربے کی کوئی نئی سمت، احساس کاکوئی نیا رنگ دکھائی دے جاتاہے اور جو شعر یا نظمیں یاد نہیں ہوتیں ان کو دیکھ کر دوبارہ دریافت اور نئی دریافت، دونوں عمل رونما ہوتے ہیں۔

    یہ کیفیت میرا جی کے یہاں ہے۔ فیض کے یہاں نہیں ہے۔ راشد کے یہاں ہے، سردار کے یہاں نہیں ہے۔ فانی کے یہاں ہے، (اگر چہ فانی بہت چھوٹے شاعر ہیں لیکن ہیں اصلی شاعر) جگر، جوش، اصغر، یگانہ، آرزو، حسرت، فراق وغیرہ کے یہاں نہیں ہے۔ موخرالذکر فہرست کے شعرا کو دوبارہ پڑھتا ہوں تو اپنے اوپر افسوس ساہوتاہے کہ پہلے یہ لوگ کیوں اتنے اچھے لگتے تھے۔ نظیر تو خیر مجھے کبھی بہت اچھے نہیں لگے لیکن اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ میں جس نسل اور عمر کا ہوں اس کے بچوں کے گلے سے نظیر کو زبردستی اتارا گیا تھا کہ دیکھو، یہ عوامی شاعر ہے، بڑا شاعر ہے، اس کے اس اشعار میں ہندستان کی روح بولتی ہے۔ اودھ کا دل دھڑکتا ہے وغیرہ۔ ورنہ ایمان کی بات یہ ہے کہ نظیر ایک دلچسپ اور مزے دار شاعر ہیں۔ مجھے ان سے شکایت نہیں کہ وہ زبان اور اسلوب کی بیش تر نزاکتوں کو نظرانداز کیوں کر تے ہیں۔ مجھے ان سے یہ بھی شکایت نہیں (بعض لوگوں کو اب بھی یہ شکایت ہے اور پہلے توعام تھی) کہ وہ اکثر عامیانہ، مبتذل، سوقیانہ اور بازاری ہوجاتے ہیں (بلکہ اسی میں توان کا زیادہ ترلطف ہے، اس کو میں کیسے برا کہوں)

    مجھے شکایت یہ ہے کہ وہ زبان کو محض ایک سطح پر برتتے ہیں۔ ان کے یہاں الفاظ کی کثرت ہے لیکن تنوع نہیں، یعنی ان کے یہاں الفاظ نئی نئی شکلیں نہیں اختیارکرتے۔ نئے نئے معنی نہیں اوڑھتے۔ وہ فارسی کے ماہر

    ہیں اور ’’دیسی‘‘ یعنی ہندی اور بولی والے الفاظ پر بھی پورا تصرف رکھتے ہیں لیکن وہ الفاظ کو محض جمع کردیتے ہیں، ان کو متحرک نہیں کرتے، جد لیاتی نہیں بناتے، وہ فہرست سازی کے ذریعہ مرعوب کردیتے ہیں، لیکن فہرست محض فہرست رہ جاتی ہے۔ اس میں سے ایک دوچار لفظ کم ہوجائیں تو مصرع مجروح نہیں ہوتا، کیوں کہ الفاظ صرف محدود معنوی حکم رکھتے ہیں۔ ان کے دماغ میں اتنی تیزی بھی نہیں ہے کہ وہ ہمیشہ تو نہیں اکثر رعایت لفظی کا محدود لیکن مستزاد لطف پیدا کرسکیں۔

    مثال کے طور پر ریختی کو دیکھیے کہ معنی، تجربہ، مشاہدہ کوئی ایسی جہت نہیں جو اس میں ملتی ہو لیکن ریختی گوشعرامحض اس وجہ سے دلچسپ ہیں کہ انہوں نے عورتوں کی بولی ٹھولی کو محفوظ کرلیا ہے، یا یہ کہ وہ قبل از بلوغ کی سطح کا دماغ رکھنے والوں کی جنسی گد گداہٹ کا عمل انجام دیتے ہیں۔ ریختی گو شعرا اس وجہ سے بھی دلچسپ ہیں کہ وہ زبان کو چونچال اور خلاقانہ طرح سے بھی برت لیتے ہیں۔ وہ رعایت لفظی کے امکانات سے واقف ہیں۔ مثال کے طور پر تین شعر دیکھیے،

    باجی کہتی ہیں کہ اک مردوے پرغش ہے تو

    مفت ایسا بھی کسی شخص پہ بہتان ہو، نوج

    (انشا)

    دل سے مٹے گی یا ونہ مرزا تراب کی

    گوئیاں یہ عشق خاک میں مجھ کو ملائے گا

    (رنگین)

    ماتھادُکھا، نہ خون بہا، ناف ٹل گئی

    ایام کی خرابی سے گدی نکل گئی

    (جان صاحب)

    تعجب ہے کہ جو لوگ بہو بیٹیوں کو ریختی پڑھنے سے منع کرتے تھے، وہ بھی نظیر کی دھماچوکڑی میں اس قدر محو ہوگئے کہ انہوں نے یہ غور نہ کیا کہ ریختی میں زبان کا استعمال نظیر کے مقابلے میں کہیں زیادہ تخلیقی ہے۔ ان اشعار کی وضاحت میں تفصیل کا موقع نہیں۔ لیکن چند باتوں پر غور کیجیے۔ انشا کے شعر میں متکلم بہ ظاہر کسی شخص پر عاشق ہونے کے بہتان سے خود کو بری کررہی ہے لیکن ایک مفہوم ہے کہ متکلم کسی ’’دوسرے‘‘ پر غش نہیں ہے، شاید کسی ہم جنس پر عاشق ہے۔ دوسرے مصرع کا ’’شخص‘‘ متکلم کے لیے بھی ہے اور اس شخص کے لیے بھی جس کے حوالے سے بہتان لگایا جارہاہے۔ بنیادی بات یہ نہیں ہے کہ متکلم کسی پر غش ہے بلکہ یہ کہ متکلم ’’مردوے‘‘ پر غش نہیں ہے۔ خود ’’غش ہونا‘‘ کا محاورہ ’’عاشق ہونے‘‘ کے مفہوم میں دلچسپ ہے۔ رنگین کے شعر میں رعایتیں واضح ہیں۔ ’’مرزا تراب‘‘ اور ’’خاک‘‘، ’’خاک‘‘ اور مٹ جانا۔‘‘ جان صاحب کے شعر کے بارے میں یہ معلو م نہ بھی ہو کہ یہ واجد علی شاہ کی سلطنت کے انتزاع کے حوالے سے کہا گیا تھا تو بھی اس کا لطف واضح ہے۔ نظیر کی پرواز عام طور پر بس اس طرح کے شعروں تک محدود ہے،

    منہ میں طمانچے، چھاتی میں گھونسا، کمر میں لات

    کیا کیا ہوئیں، یہ مجھ پہ عنایاتیں، ٹھیک ٹھیک

    میں ایک اپنے یوسف کی خاطرعزیزو!

    یہ ہستی کا سب کارواں بیچتاہوں

    بس جام ِنگوں سے مے راحت نہ طلب کر

    یاں بادہ نہیں، بادیہ پیمائی ہے کم بخت

    دل کی بے تابی نہیں ٹھہرنے دیتی ہے مجھے

    دن کہیں رات کہیں صبح کہیں شام کہیں

    کر چربِ زباں سے نہ پری رویوں کی تسخیر

    یہ لوگ جو ملتے ہیں تو دل کی کششوں سے

    پہلے شعر میں خفیف سی خوبی یہ ہے کہ منھ، چھاتی اور کمر کی مناسبت سے طمانچہ، گھونسا اور لات استعمال کیے ہیں اور عنایات کی جمع الجمع ’’دیسی‘‘ قاعدے سے بناکر اپنی آزادہ روی کا ثبوت دیا، حالانکہ ’’عنایاتیں‘‘ میں کوئی ایسی خوبی یا اس کی کوئی ایسی معنویت نہیں ہے جو ’’عنایات‘‘ سے پوری نہ ہوجاتی ہو۔ دوسرے شعر میں البتہ ’’عزیزو‘‘ کے استعمال میں رعایت لفظی کی ایک نئی جلوہ گری ہے، ورنہ معنی کے اعتبار سے یہ شعر بھی کہیں دور نہیں لے جاتا۔ تیسرا شعر جامی کے اس مشہور شعر سے مستعارہے،

    آسمان جام نگوں داں کز مے عشرت تہی ست

    بادہ جستن از تہی ساغر نشان ابلہی ست

    نظیرنے ’’بادہ‘‘ اور باد یہ پیمائی‘‘ اور ردیف کے لاجواب استعمال کی وجہ سے شعر کو نیا حسن بخش دیا ہے۔ مضمون پامال ہے، جو کچھ خوبی ہے وہ جامی پہلے ہی پیدا کرچکے ہیں کہ آسمان ایک جام واژ گوں ہے۔ جامی کالہجہ معلمانہ اور پیشہ وارانہ ہے، دوسرے مصرع نے معنی کی توسیع نہیں کی۔ نظیر’’بادہ‘‘ اور ’’باد یہ‘‘ کی رعایت لاکر اور خالی جام کو بادیہ میں اٹھنے والی خاک وغبار سے پرتصور کرکے پھر ’’کم بخت‘‘ کا دوجہت لفظ رکھ کر (کیوں کہ بادیہ پیمائی اور مخاطب دونوں کے لیے مناسب ہے) جامی سے بہت آگے نکل گئے ہیں۔ کوئی تعجب نہیں اگر غالب نے نظیر اور جامی دونوں سے استفادہ کیا ہو،

    مِے عشرت کی خواہش ساقیِ گردوں سے کیا کیجیے

    لیے بیٹھا ہے اک دوچار جام واژ گوں وہ بھی

    غالب کے یہاں معنی کی جہتیں اور بھی نادر اور رعایتیں اور بھی انوکھی ہیں۔ ہونا ہی چاہیے۔ لیکن نظیر کا شعر پھر بھی اپنی جگہ پر قائم رہتاہے۔ افسوس کہ نظیر نے کم شعروں پر اتنی توجہ صرف کی۔ چوتھے شعر کی دل کشی اس وقت تک رہتی ہے جب تک استعار ے کی بنیاد پرقائم ہوئے شعروں کا خیال نہیں آتا۔ یہ غالب کا محبوب موضوع ہے، دوچار شعر ذہن میں آئے،

    ہوں بہ وحشت انتظار آوارۂ دشت خیال

    اک سفیدی مارتی ہے دورسے چشم غزال

    ہر قدم دوری منزل ہے نمایاں مجھ سے

    میری رفتار سے بھاگے ہے بیا باں مجھ سے

    سایہ میرا مجھ سے مثل دوربھاگے ہے اسد

    پاس مجھ آتش بجاں کے، کس سے ٹھیرا جائے ہے

    خدا یعنی پدرے مہرباں تر

    پھر ے ہم دربدر ناقابلی سے

    غالب کی آوارہ گردی زمین، آسمان، خدا، تقدیرسب کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔ نظیرصرف ایک سادہ سابیان قائم کرکے رہ جاتے ہیں۔ آخری شعر میں ’’کششوں‘‘ کا استعمال غیر رسمی اور دلچسپ ہے کیوں کہ خلاف محاورہ ہے، ورنہ شعر میں معلمانہ اور تہدیدی رنگ ہے جو پہلے مصرع میں بہت زیادہ نمایاں ہے۔ اگر دوسرے مصرع میں کوئی تمثیل ہوتی، (جیسا کہ سبک ہندی کے شعرا کا طریقہ تھا) تو یہی معلمانہ رنگ نبھ جاتا۔ صائب،

    مشواززیر دست خویش ایمن درزبردستی

    کہ خون شیشہ رانو شید جام آہستہ آہستہ

    صائب کا پورا شعر اخلاقی تعلیم پر مبنی ہے لیکن دوسرے مصرع کی تمثیل نے معلمانہ رنگ کو بہت دور کہیں روک دیا ہے۔ اس کے برخلاف نظیر کا شعر عاشقانہ ہے لیکن تمثیل (یعنی تشبیہ، استعارہ، تعلیل پرمشتمل کوئی بیان جو مثالیہ ہو اور جوشعر میں کہی ہوئی بات یا دعوے، یا مشاہدے کی تصدیق کرے) کے نہ ہونے کی وجہ سے عاشقانہ کیفیت شعر سے مفقود ہوگئی ہے۔ پری رویوں کی تسخیر پر میر کو سنیے،

    کیا پری خواں ہے کہ راتوں کو جگاوے ہے میر

    شام سے دل جگر وجان جلاتا ہے میاں

    اس بات سے قطع نظر کہ نظیر کو’’دل کی کششوں‘‘ پر اعتماد ہے اور میر ’’دل جگر وجان‘‘ ہر رات جلاتے ہیں لیکن پری مسخر نہیں ہوتی۔ بنیادی بات یہ ہے کہ نظیر نے تبلیغ اور میر نے تجربہ بیان کیا ہے۔ نظیر جب تجربہ بیان بھی کرتے ہیں تو وہ محض ایک سطح تک رہ جاتے ہیں یعنی وہ تجربے کی اوپری سطح کو کریدکر لطف اندوز ہولیتے ہیں۔ اس کی پیچیدگیاں اور باریکیاں، اس کے پیچ وخم اور مستور معنویتوں سے انہیں کوئی علاقہ نہیں،

    اس کے رخسار کی صباحت میں

    شور ہے خال کا ملاحت میں

    حسن کو دیکھ اے دل ناداں

    ورنہ پڑجائے گا قباحت میں

    ہوگئے جومقیم کو ئے بتاں

    پھر نہ آئے کبھی سیاحت میں

    مطلع میں ’’صباحت‘‘ اور ’’ملامت‘‘ کی جامد منطق ہے، معنویت کی طرف کوئی سعی نہیں۔ دوسرے شعر میں بھی ’’حسن‘‘ اور ’’قباحت‘‘ کا توازن ہے (حسن وقبح) لیکن الفاظ میں تخلیقی زور نہیں، اس لیے معنویت کا بھی پتا نہیں۔ میر کو بھی یہ کھیل بہت آتے تھے لیکن ان کو ہمیشہ معنی کی تلاش رہتی تھی، اس لیے وہ محض لفظی توازن نہیں بلکہ معنوی تناو بھی خلق کرنے پر قادر تھے۔ میر کا جب جی چاہتا تو وہ صرف لفظی کھیل کود پر اکتفا کرتے اور جب وہ سنجیدہ ہوتے تو الفاظ کے ساتھ ساتھ معنی کے توازن کی بھی سبیل کرلیتے تھے۔ مثلاً آخری شعر کے سامنے میر کایہ مشہورشعر رکھ کر دیکھیے،

    گلی میں اس کی گیا، سوگیا نہ بولا پھر

    میں میر میر کر اس کو بہت پکار رہا

    میر نے ذاتی بیان اور واحد غائب کا صیغہ ملا کر پورا افسانہ بنالیا ہے۔ نظیر کے یہاں بھی جمع حاضر (ہم) کو مقدرفرض کرسکتے ہیں۔ لیکن نظیر کو ئے بتاں میں مقیم ہونے سے زیادہ استعداد نہیں رکھتے۔ شعر میں کسی قسم کا اسرار نہیں۔ میر کے یہاں سراسر اسرار کی کارفرمائی ہے۔ گلی میں جاکر سوگیا (خوابیدہ ہوگیا) یا غائب ہوگیا، یا کہیں اور جامرا، یاوہیں مرگیا، یا از خودرفتہ ہوگیا۔ طرح طرح کے امکانات ہیں۔ کاں راکہ خبرشد خبرش باز نیامد کی صحیح تفسیر صرف تین لظفوں میں کردی ہے۔ ’’گیا سوگیا‘‘ اگر یہ اعجازسخن نہیں توتمام شاعری بکواس ہے۔ دوسرے مصرع میں ایک اور عجیب لطف ہے۔ میر نام ہے لیکن ممکن ہے کہ گلی میں پہنچ کر کچھ اور نام ہوگیا ہو پھر ’’میر میر‘‘ پکار نے کا نتیجہ معلوم۔۔۔ وہ شخصیت ہی نہیں، وہ شخص ہی نہیں، نام کے بھی گنہ گار کیوں ہوں؟ لیکن ’’میر‘‘ امر کا صیغہ بھی ہے۔ بہ معنی ’’مرجا۔‘‘ اگر چہ اردو میں یہ اس طرح مستعمل نہیں لیکن بالکل معدوم بھی نہیں ہے۔ مشہور ہے کہ میر سوز نے جب اپنا تخلص ’’میر‘‘ سے بدل کر ’’سوز‘‘ رکھا تو یہ مقطع کہا،

    پہلے کہے تھے میر میر پر نہ موئے ہزار حیف

    اب جو کہے ہیں سوز سوز یعنی سدا جلا کرو

    لہٰذا اس بات کا بھی ہلکا سا شبہ موجود ہے کہ گلی میں غائب ہوجانے سے تومرجانا بہتر تھا۔ نظیر کا شعر اس طرح کی نزاکتوں سے بالکل مبرا ہے۔

    نظیر کے یہاں الفاظ کی فراوانی فوراً متوجہ کرتی ہے لیکن یہ فراوانی جوش کی نام نہاد قادر الکلامی سے زیادہ نہیں۔ ایک لطیفہ یاد آیا، ایک بار مرحوم مسعود حسن رضوی ادیب کے سامنے جوش صاحب نظیر اکبر آبادی کی تعریف کررہے تھے۔ مسعود صاحب نے مسکراکر کہا، آپ بھی کس کی تعریف کررہے ہیں۔ نظیر سے اچھا شاعر تو ہم آپ کو سمجھتے ہیں! یہی اصلیت بھی ہے۔ جیسا کہ میں نے اوپر اشارہ کیا ہے۔ نظیر الفاظ کی صرف فہرست تیار کرتے ہیں۔ اس فہرست میں سب الفاظ ناگزیر نہیں ہوتے اور بعض تو صرف’’زورِ بیان‘‘ کے لیے بڑھائے ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔ زور بیان، قصیدے اور مرثیے کی صفت ہے لیکن دونوں اصناف کے بڑے شعرا کے یہاں آپ زور بیان کو زور معنی سے الگ نہیں کرسکتے۔ وہ الفاظ جو معنی میں اضافہ نہ کرتے ہوں، ان کے ذریعے بیان میں سطحی زور توآجاتاہے لیکن الفاظ کے پوری طرح کارگر نہ ہونے کی بنا پر ’’شاعری‘‘ کا تقاضانہیں پورا ہوتا بلکہ شاعری کی جگہ خطابت یا تبلیغ کادور دورا ہو جاتاہے۔

    اس نکتے کو سمجھنے کے لیے میں میر انیس اور نظیر کے چند مشہور بند نقل کرتاہوں۔ میر انیس کا مرثیہ ہے ع ’’آمد ہے کربلا کے نیستاں میں شیر کی‘‘ اس میں تلوار کی تعریف میں کہتے ہیں،

    دل سوز، شعلہ خو، شررانداز، جاں گداز

    لشکر کش وشکست رسان وظفر نواز

    خوں خوار وکج ادا ودل آزاروسرفراز

    حاضر جواب، تیز طبیعت، زباں دراز

    سچ اس کی ہے پسند جہاں، گوسجی نہ ہو

    معشوق پھر نہیں ہے، جو اتنی کجی نہ ہو

    پشتہ وہ اس کا اور وہ باریکی خمیر

    کس بل میں بے مثال، اصالت میں بے نظیر

    جنگ آزما، خراج ستانندہ، ملک گیر

    گیتی نورد، بادیہ پیما، فلک مسیر

    اس کا جلال خلق میں کس پر جلی نہیں

    کوچہ وہ کون سا ہے جہاں یہ چلی نہیں

    اب نظیر کو ملاحظہ کیجیے، پھر دونوں کا تجزیہ پیش کرتاہوں،

    کیوں جی پر بوجھ اٹھاتا ہے، ان گونوں بھاری بھاری کے

    جب موت کا ڈیرا آن پڑا، پھر دونے ہیں بیوپاری کے

    کیا ساز جڑاؤ، زرزیور، کیا گوٹے تھان کناری کے

    کیا گھوڑے زین سنہری کے، کیا ہاتھی لال عماری کے

    سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا، جب لادچلے گا بنجارا

    مغرورنہ ہو تلواروں پر، مت پھول بھروسے ڈھالوں کے

    سب پٹا توڑکے بھاگیں گے، منہ دیکھ اجل کے بھالوں کے

    کیا ڈبے موتی ہیروں کے، کیا ڈھیرخزانے مالوں کے

    کیا بقچے تاش مشجرکے، کیا تختے شال دوشالوں کے

    سب ٹھاٹھ پرا رہ جاوے گا، جب لاد چلے گا بنجارا

    کیا سخت مکاں بنواتا ہے، کھم تیرے تن کا ہے پولا

    تواونچے کوٹ اٹھاتا ہے، واں گورگڑھے نے منہ کھولا

    کیا رینی خندق، رند بڑے، کیا برج کنگورا، انمولا

    گڑھ، کوٹ، رہکلہ، توپ، قلعہ، کیا شیشہ دارواور گولا

    سب ٹھاٹھ پرا رہ جاوے گا، جب لاد چلے گا بنجارا

    (بنجارا نامہ)

    بادی النظر میں نظیر کے یہاں الفاظ کا وہ ریلا ہے کہ اچھے اچھے نقاد بہہ جائیں، بعض معنوی خوبیاں اور باریکیاں بھی ہیں، میں ابھی ان کا ذکر کروں گا۔ فی الحال میر انیس کو دیکھیے۔ میں مصرع مصرح اٹھاتا ہوں۔

    دل سوز، شعلہ خو، شررانداز، جاں گداز

    سب الفاظ عمومی طور پر ایک طرح کے ہیں۔ نظیر کے یہاں بھی یہی کیفیت (بڑی حد تک) موجود ہے۔ لیکن الفاظ کا آپسی ربط اور ان میں تدریجی زوراور اس کے ساتھ ساتھ شروع اور آخرکاتوازن اعجاز کی حد تک پہنچاہوا ہے۔ پہلا فقرہ دل سوز اور آخری فقرہ جاں گداز (دل، جاں، سوز، گداز) بیچ کے دونوں ٹکڑے (شعلہ خو، شررانداز (شعلہ، شرر۔ خو، انداز) مناسبت کا حسن اور پھر معنی میں ایک جہت کی طرف اشارہ! کہ ایک میں سوزہے تو دوسرے میں گداز۔ شررانداز کے معنی شرار برسانے والی بھی ہیں اور شرر کا انداز یعنی خورکھنے والی بھی۔ پورا مصرع اس طرح ماقبل اور مابعد کے الفاظ میں پیوست ہے کہ فہرست سازی کا احساس بھی نہیں ہوتا۔ صفات برائے صفات، نہ رہ کر ذات کا اظہار اور ایک حر کی عمل بن جاتی ہیں۔

    لشکر کش وشکست رسان وظفر نواز

    لشکر کش بضم کاف پڑھیے تو معنی ہوئے، لشکر کو مارڈالنے والی، بفتح کا ف پڑھیے تو معنی ہوئے، لشکر کشی کرنے والی، یعنی تلوار خودلشکرکے برابر ہے یا لشکر کی سربراہی کررہی ہے۔ ایک ہی لفظ دشمن اور دوست دونوں کا کام دے رہاہے۔ لشکر کشی ہو یا لشکر کو مارڈالنے کا عمل ہو، دونوں کا نتیجہ جگر گدازی ہے، دشمن کا جگر خوف سے پانی ہوجاتاہے۔ اس طرح پچھلے مصرع سے ربط قائم ہوگیا۔ کشیدن، کھینچنا، رسانیدن، پہنچانا۔ کھینچنا اور پہنچانا، یعنی کش اور رساں کا ربط ظاہر ہے۔ لیکن کھینچ کر پہنچانے کے بعد ایک عمل اور بھی ہے۔ تلوار دشمن کو کھینچ کر شکست تک پہنچاتی ہے یا لشکر کو کھینچ کر ساتھ لے جاتی ہے اور دشمن کو زک پہنچاتی ہے۔ جب منزل آگئی تو ظفر سے ہم کناری ہوتی ہے اور چونکہ تلوار خود چل کر، یعنی لشکر کو کھینچتی ہوئی ظفر تک پہنچی ہے تو گویا وہ ظفر کو نواز رہی ہے، اس پر کرم کررہی ہے کہ وہ اس تک پہنچی۔

    کلاہ گوشۂ دہقاں بہ آفتاب رسید

    کے برعکس منظرپیدا ہوگیا۔ شعلہ خوئی اور دل سوزی کے باوجود وہ ظفرکو نوازتی ہے، یعنی اس میں ادائے معشوقانہ بھی ہے۔ پھر دیکھیے،

    خوں خوار وکج اداودل آزار وسرفراز

    جب اس میں ادائے معشوقانہ ہے تو پھر وہ خوں خوار اور کج ادا بھی ہوگی۔ جن کی جانیں گداز ہوتی ہیں، ان کے لیے خوں خوار اور بناوٹ میں ٹیڑھی ہونے کی وجہ سے کج ادا، کیوں کہ جس کی کاٹ سیدھی نہیں پڑتی وہ دل کو آزار پہنچاتی ہے، ان لوگوں کے بھی دلوں کو جو اس کی ادا کے کشتہ نہ ہوئے۔ وہ سرفراز ہے کیوں کہ کٹے ہوئے سراس کی نوک پر بلند ہوتے ہیں۔ وہ سرفرازیوں بھی ہے کہ معشوق کی طرح مغرور ہے، کسی کے سامنے جھکتی نہیں۔ معشوق کااستعارہ قائم ہوتے ہی میر انیس کا تلازمۂ خیال ایک اور رخ اختیار کرتاہے،

    حاضرجواب، تیز طبیعت، زباں دراز

    یہ سب صفات معشوق کی ہیں لیکن تلوار کی بھی صفات یہی ہیں۔ جب غنیم کا حملہ ہوتاہے تو وہ جواب دینے میں چست اور حاضر ہے۔ طبیعت کی تیز ہے (دل آزار پہلے ہی کہہ چکے ہیں) اور تلوار چونکہ زبان کی طرح لمبی نوکیلی ہوتی ہے اس لیے زبان دراز بھی ہے۔ چار مصرعے پورے ہوتے ہوتے تلوار کا تلوار پن اور معشوق کی خون خواری ہم آہنگ اور یک جہت ہوجاتے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتاہے کہ میر انیس کے لیے تلوار کی چمک اور تیزی میں کہیں کوئی خفیف سا جنسی لطف بھی موجود ہے۔ یہ بات اگلے مصرع میں اور کھل جاتی ہے،

    سج اس کی ہے پسندِ جہاں، گوسجی نہ ہو

    فارسی الفاظ استعمال کرتے کرتے اچانک تضاد پیدا ہوتا ہے اور سج کا لفظ (بہ معنی سجاوٹ اور بہ معنی وضع قطع) استعمال کرکے سجی کے ساتھ ابہام تناسب کی صنعت درآتی ہے۔ معشوق کی کجی، تلوار کا ٹیڑھا پن، اس کی کج ادائی یعنی خون ریزی اور ظلم کا شوق، سب بے پردہ ہوجاتے ہیں، جب بند ختم ہوتاہے،

    معشوق پھر نہیں ہے جو اتنی کجی نہ ہو

    معشوق اور کجی میں پھر ابہام تناسب ہے۔ ملحوظ رہے کہ ابہام تناسب کی صنعت مجرد ابہام سے بدیع تر اور بلیغ تر ہوتی ہے، کیوں کہ اس میں ان لفظوں کے درمیان ایک ربط بھی ہوتاہے جن پر ابہام برتا جائے۔ صاحب حدائق البلاغہ شمس الدین فقیر نے سورۂ رحمن کی ایک آیت میں ابہام تناسب کا ورود دکھایا ہے اور لکھا ہے کہ ابہام تناسب میں دولفظوں کی ضرورت ہوتی ہے، ’’دومعنی را بہ دولفظ ذکر نما یند ویکے ازاں دولفظ دومعنی داشتہ باشد ومعنی دومش راکہ غیر مقصود بود، بامعنی لفظ اول تناسب یافتہ شود۔‘‘ یعنی ابہام تناسب محض ابہام کے مقابلے میں مشکل تر اور لطیف تر ہوتاہے۔

    میر انیس نے تلوار یعنی معشوق کی کجی اور سج دھج کا ذکر کرکے گویا اس کی ذات کے اصیل (تلوار کے لوہے کے لیے بھی اصیل کا لفظ بولتے ہیں) ہونے کا ساماں کردیا ہے۔ چنانچہ اگلا بند جو، بہ ظاہر کسی اور طرح کی فہرست پرمشتمل ہے، دراصل تلوار یعنی معشوق کی ذات یعنی نسل کی اصالت کا ذکر کرتا ہے، لہٰذا وہ پچھلے بند سے پوری طرح مربوط ہے،

    پشتہ وہ اس کا اور وہ باریکی خمیر

    پشتہ یعنی تلوار کا پچھلا حصہ، لیکن پشت بمعنی صلب یعنی نطفہ اور ذات کا اشارا موجود ہے جو لفظ خمیر سے مستحکم ہوتاہے۔ تلوار کے فولاد کو جتنی بار گرم کرکے ٹھنڈا کرتے ہیں وہ اتنی ہی لچک دار اور مضبوط ہوتی ہے۔ اسے خمیر کی باریکی کہتے ہیں۔ خود لفظ خمیر میں نامیاتی نمو کا شائبہ ہے۔ اس طرح تلوار کی ملک گیری اور اس کی معشوقی کااستعارہ آگے بڑھتا ہے۔

    کَس بل میں بے مثال، اصالت میں بے نظیر

    کس بل بھی جسمانی استعارہ ہے اور اصالت تلوار اور معشوق دونوں کے لیے مناسب ہے۔ اب تلازمے کا رخ پھر تلوار کی خوں خوار اور جنگ جویانہ صفت کی طرف ہونے والا ہے، اس لیے اصالت کا لفظ استعمال ہوا ہے جو اعلا خاندان والوں یعنی جری لوگوں کی صفت ہے۔ اصالت کے معنی ہیں اصیل ہونا، اور یہ بات مشہور ہے کہ اصیل لوگ جری اور بے خوف ہوتے ہیں۔ دوسری طرف یہ بھی ہے کہ معشوق کے اصیل ہونے کا مفہوم یہ ہے کہ وہ اصلی معشوق ہے، یعنی ہرطرح معشوق ہے،

    جنگ آزما، خراج ستانند، ملک گیر

    جنگ آزما یعنی جنگ میں حصہ لینے والا، یا جنگ کو آزمانے والا، یعنی لشکر کَش اور لشکر کُش۔ چونکہ وہ شکست پہنچانے والی (شکست رساں) ہے، اس لیے اس کا تضادیہ ہے کہ وہ خراج لاتی ہے، شکست لے جانا اور خراج لے آنا ایک ہی فعل کے دوپہلو ہیں، معشوق بھی اپنے حسن کی بنا پر خراج عقیدت اور خراج وفا وصول کرتاہے۔ وصول کرنا اسی وقت ممکن ہے جب ملک فتح ہوجائے، اس لئے خراج ستانندہ کے بعد ملک گیر کہا،

    گیتی نورد، بادیہ پیما، فلک مسیر

    ملک گیر یعنی ملکوں کو فتح کرنے والی، ظاہر ہے جب وہ ملکوں کو فتح کرتی ہے تو روئے زمین پر سیر بھی کرتی ہوگی۔ اس طرح ملک گیر کے بعد گیتی نورد، پھر زمین سے بادیہ یعنی میدان اور پھر میدان سے فلک کی طرف فطری گذران ہے۔ فلک مسیر یعنی فلک کی سیر کرنے والی، کیونکہ ملک گیری کی صفت کی انتہا یہ ہے کہ برج فلک کو بھی فتح کرلیا جائے۔ تلوار کی فلک مسیری میں، لفظ مسیر، قرآن میں رسول اللہ کے معجزۂ معراج کی یاد دلاتا ہے، جہاں مذکور ہے کہ سُبْحان الذی اسریٰ بعبدہ (پاک ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے کو چلوایا) سیر، مسیر، سار، سیارہ، سب ایک قبیل کے لفظ ہیں۔

    اس کا جلال، خلق میں، کس پر جلی نہیں

    جلال اور جلی میں پھر ابہام تناسب، اور لفظ جلال بھی معجزہ معراج کی طرف اشارہ کرتاہے۔ جلی کے معنی واضح، کھلاہوا۔ اس کا متضادخفی ہے، جس کے معنی ہیں پوشیدہ، تلوار کا جلال، اسی طرح جلی ہے جس طرح فلک مسیر ستارے کا ہوتاہے۔

    کوچہ وہ کون سا ہے جہاں وہ چلی نہیں

    چلی میں ابہام ہے، کیوں کہ چلنا بمعنی سیر کرنا اور چلی نہیں بمعنی تلوار نے اپنا کام نہیں کیا۔ (تلوارچل گئی، کوچہ اور خلق میں مناسبت ظاہر ہے، جلی اور چلی میں ابہام صوت ہے۔

    یہ ہیں وہ باریکیاں اور لطیف ربط جو میر انیس نے ان دوبندوں میں پیدا کیے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ یہ بند میں نے تلاش کے بعد برآمد کیے ہوں۔ یہ انیس کا عام اندازہے، ۔ وہ لفظ کے ہر ممکن امکان کو گرفت میں لاتے ہیں۔ بند کے تمام مصرعوں میں داخلی ربط کاپورا اہتمام اور ان کے معانی میں ارتقا کا پورا خیال رکھتے ہیں۔ مناسبت لفظی ومعنوی میں غالب اور (اپنے بہترین لمحوں میں) اقبال کے علاوہ ان کا کوئی ہم سر نہیں۔ وہ محض فہرست کی خاطر الفاظ نہیں جمع کردیتے بلکہ یہ دیکھتے ہیں کہ اس فہرست سے جو مکمل تصویر بنتی ہے اس میں پیچیدگی اور تکمیلیت کتنی ہے۔ ایک طرح کے الفاظ یا ایک جنس کے نام جمع کردینا خود ایک صنعت ہے جسے تنسیق الصفات کہتے ہیں لیکن تنسیق الصفات جب تک معنی کی کثرت نہ پیدا کرے محض جوش یا نظیر کی شاعری ہے، انیس اور غالب کی شاعری نہیں۔

    اب نظیر کو دیکھیے، بہ ظاہر ان کے یہاں الفاظ کا ذخیرہ وسیع ہے۔ دیسی الفاظ کے استعمال نے نظم میں ایک زمینی اور گھریلوزور پیدا کردیا ہے، محسوس ہوتاہے کہ شاعر جن لوگوں سے گفتگو کررہا ہے، ان کی زبان اور فہم کی سطح سے واقف ہے اور پھر بھی اس محدود دائرے میں وہ غیر معمولی میل پیدا کرسکتاہے۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ معنی کے ارتقا کا دور دورتک پتا نہیں۔ ’’بنجارا نامہ‘‘ کے دوبند کہیں سے پڑھ لیجیے، آپ نے گویا پوری نظم پڑھ ڈالی۔ الفاظ کی فہرست معنی کی فہرست نہیں بن پائی۔

    کیوں جی پر بوجھ اٹھاتا ہے، ان گونوں بھاری بھاری کے

    جب موت کا ڈیرا آن پڑا، پھر دو نے ہیں بیوپاری کے

    دوسرا مصرع محض شعر کو مکمل کرنے کے لیے ہے۔ ورنہ یہ خیال مصرع ترجیح (سب ٹھاٹھ پڑا رہ جائے گا، جب لادچلے گا بنجارا) میں موجود ہی ہے۔ تیسرے مصرع میں،

    کیا ساز جڑاؤ، زیور، کیا گوٹے تھان کناری کے

    زیوروں اور کپڑوں کے نام نہ گنا کرصرف عمومی صفت بیان کی ہے۔ پہلے مصرع سے ربط قائم ہے۔ لیکن بیچ کا مصرع توجہ کوغیر ضروری طرف لے جاتاہے۔

    کیا گھوڑے زین سنہری کے، کیا ہاتھی لال عماری کے

    گھوڑے ہاتھی، سنہری زین اور لال عماری میں ربط ہے اور ان کا ربط پچھلے مصرع سے بھی ہے لیکن خفیف ہے کیونکہ پورے بند میں کوئی ایک واضح تاثر یا تصویر نہیں بنتی بلکہ مختلف چیزوں کے ذریعے مرفہ الحال لوگوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ اگلا بند پچھلے بند سے مربوط طریقے پر شروع ہوتا ہے، کیونکہ گھوڑے اور ہاتھی کا تعلق جنگ سے ہے۔

    مغرور نہ ہو تلواروں پر، مت پھول بھروسے ڈھالوں کے

    پھول اور ڈھالوں میں ضلع کا تعلق ہے (ڈھال پر پھول بنے ہوتے ہیں) لیکن ڈھالوں کے بھروسے پر پھولنا اور تلواروں پرمغرور ہونا عام بیانات ہیں۔ ان میں استعاراتی یاپیکری ربط نہیں ہے۔

    سب پٹا توڑ کے بھاگیں گے منہ دیکھ اجل کے بھالوں کے

    سوائے اس کے کہ ’’بھالوں‘‘ کا ذکر ہے، جس کا تعلق تلواروں اور ڈھالوں سے ہے۔ یہ مصرع ان چاروں مصرعوں میں بالکل انمل بے جوڑ ہے۔ اجل کے بھالوں کامنہ دیکھ کر پٹا تڑا کر بھاگنے والے مویشی بھی نہیں ہوسکتے۔ کیوں کہ بھالے سے ذبح کرنا (جس کو ’’نحر‘‘ کہتے ہیں) ہندستان میں رائج نہیں۔ لہذا یہ بھی فرض نہیں کیا جاسکتا کہ سپاہیوں کو پٹا بندھے ہوئے مویشیوں سے استعارہ کیا گیا ہے۔

    کیا ڈبے موتی ہیروں کے، کیا ڈھیرخزانے مالوں کے

    ظاہر ہے کہ مصرع کا ایک حصہ محض تکرار ہے۔ علاوہ بریں، دولت کا ذکر پچھلے بند میں آچکا ہے، پھر جنگ کے ساز وسامان کا تذکرہ ہے لیکن دولت اور جنگ میں کوئی رشتہ نہیں قائم کیا گیا۔ خزانے مالوں کے ڈھیر، تکراری ہونے کے علاوہ مہمل بھی ہے، کیونکہ مال بمعنی دولت تو ہے لیکن مالوں کا ڈھیر کوئی زبان نہیں۔

    کیا بقچے تاش مشجرکے، کیا تختے شال دوشالوں کے

    بقچے اور تختے میں ربط ہے۔ تاش اور مشجرکپڑوں کے نام ہیں، شال دوشالے لباس ہیں، اس طرح ربط قائم رکھا گیا ہے۔ لیکن کپڑے اور لباس کو یک جاکر نے کے بجاے صرف لباس یا صرف کپڑے ہوتے توربط اور ارتقامیں زیادہ تعلق پیدا ہوجاتا، جیسا کہ میرانیس کا مصرع ہے،

    گیتی نورد، بادیہ پیما، فلک مسیر

    یہاں الفاظ مربوط بھی ہیں اور ان میں ارتقابھی ہے۔ نظیر کے یہاں ارتقاکارنگ نہیں۔

    کیا سخت مکان بنواتاہے، کھم تیرے تن کا پولا

    لاجواب مصرع ہے، کیونکہ مناسبت لفظی اور مناسبت معنوی ساتھ ساتھ چل رہے ہیں۔ سخت مکاں، بدن کا کھمبا (کھم) جو کہ پولا ہے، لیکن دوسرے مصرع میں محض قبر کے گڑھے کے لالچ نے تلازمہ بدل دیا۔

    تواونچے کوٹ اٹھاتا ہے، واں گورگڑھے نے منھ کھولا

    کوٹ بمعنی قلعہ، قلعہ اونچا ہوتاہی ہے، اونچا کوٹ کہنا فضول ہے۔ پھر مکان کے ساتھ تو کھمبے کی مناسبت ہے لیکن قلعے کے ساتھ مناسبت نہیں کیونکہ قلعہ اونچی اور موٹی دیواروں پر، نہ کہ کھمبوں پرقائم ہوتاہے۔ گورگڑھے کی ترکیب جرأت انگیزاور نظیر ہی جیسے غیر رسمی شاعر کا حصہ ہے۔ اس ترکیب کے لالچ میں پورا مصرع کہا اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس ترکیب نے مصرع کو زندہ کردیا ہے۔ حالانکہ گورگڑھے کا منھ کھولنا خیام سے مستعار یا متاثر معلوم ہوتاہے لیکن پیکراس قدر زبردست ہے اور قبر کے اژدہے پن کو جس شدت سے بیا ن کرتاہے وہ خیام کی دست رس سے باہر ہے۔ رباعی یوں ہے،

    آں قصر کہ بہرام دروجام گرفت

    آہو بچہ کردردبہ آرام گرفت

    بہرام کہ گوری گرفتی ہمہ عمر

    دے دی کہ چگونہ گور بہرام گرفت

    قبر کا بہرام کو بھینچ لینا اور گورگڑھے کا منہ کھولنا، ایک ہی خاندان کے پیکر ہیں، حالانکہ آہو بچہ کردرربہ آرام گرفت کی سرد، غیر جذباتی اور دردناک لیکن سپاٹ پیکریت کی مثال، نظیر اکبر آبادی کیا، اچھے اچھوں کے یہاں نہیں ملی سکتی۔

    کیا رینی خندق رندبڑے کیا برج گنگورا انمولا

    بحیثیت مجموعی یہ مصرع بہت خوب ہے، کیونکہ تمام الفاظ قلعے کے تناسبات سے ہیں۔ رینی (چھوٹی دیوار) کے مقابلے میں خندق اور بڑے رند (اونچی دیوار) کے مقابلے میں برج اور گنگورے بہت برمحل ہیں، لیکن محض قافیے کی خاطر انمولا لکھ دیا ہے جس کا دوردورتک محل نہیں،

    گڑھ، کوٹ، رہکلہ، توپ، قلعہ، کیا شیشہ دارو، اورگولہ

    اس مصرع میں بھی زیادہ ترالفاظ ایک جنس کے ہیں، اس لیے مصرع کا میاب ہے لیکن قلعے کے بارے میں نظیر پہلے ہی کہہ چکے ہیں، لہٰذا مصرع کی افادیت (شعری اعتبار سے) مشکوک ہے۔ پھرالفاظ کے استعمال کا شوق انہیں دارو (بارودیا لکڑی کا تختہ) جیسا عمدہ لفظ تو سجھا دیتا ہے لیکن دارو کے خیال سے وہ شیشہ بھی لاتے ہیں جس کا کوئی خاص مصروف نہیں، سوائے اس کے شیشہ کو آئینے کے معنی میں لیا جائے اور آئینہ چونکہ لوہے کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے، اس لیے اسے لوہا فرض کرلیاجائے۔ یہ تو جیہ کم زور ہے لیکن جو کچھ ہے یہی ہے۔

    جناب ابو محمد سحر کا خیال ہے کہ اصل میں نظیر نے ’’شیشہ‘‘ نہیں بلکہ ’’سیسہ‘‘ لکھا ہوگا۔ اگر ایسا ہے تو دارو (بارود) اور سیسہ (توپ کاگولہ) کی مناسبت قائم ہوجاتی ہے اور یہ مصرع کی خوبی ہے۔ لیکن ’’سیسہ‘‘ بمعنی ’’توپ کا گولہ‘‘ دیکھنے میں نہیں آیا۔ ’’دارو سیسہ‘‘ ضرور بولتے ہیں۔ بہرحال ’’سیسہ‘‘ کی قرأت شیشہ سے یقیناً بہتر ہے۔

    مندرجہ بالا تقابلی مطالعے سے یہ بات صاف ہوگئی ہوگی کہ نظیرکے یہاں الفاظ کا تنوع اور کثرت محض مشینی ہے۔ اس میں تخلیقی تنوع اور رنگا رنگی بہت کم ہے۔ کثرت الفاظ کے باوجود انہیں میرانیس وغیرہ کے مقابلے میں نہیں رکھا جاسکتا اور نہ ان کی طرح کا شاعر کہاجاسکتاہے۔ ممکن ہے موضوعات کی ریل پیل اور عام انسانی تجربات کے مختلف پہلوؤں کی نمائندگی کی بنا پر نظیرکو پورا آدمی فرض کیا جاسکتاہو۔ لیکن وہ پورے شاعر تو کیا اچھے شاعر بھی نہیں ہیں کیوں کہ وہ سارے مناظر کو سپاٹ، یک رنگ اور تجربے کی گہرائی سے معرا دیکھتے ہیں۔ دیسی الفاظ، الفاظ میں تصرف، نئے فقروں کے گڑھنے پرقادر وماہرہیں لیکن یہ صفات کم وبیش پرانے قصہ گویوں کے بھی مل جاتی ہیں۔ ان کے یہاں الفاظ میں تصرف اور نئے میل پیدا کرنے کی جبلت کسی تخلیقی تناو کی طرف نہیں لے جاتی۔

    تخلیقی تناو سے میری مراد یہ نہیں کہ شعر میں بڑی شدت احساس ہواور اس کو پڑھ کر گھبراہٹ یا خوف یا جوش پیدا ہوجائے۔ تخلیقی تناوسے میری مراد صرف یہ ہے کہ شاعر کو الفاظ کی اندرونی کیفیتوں کا علم ہو۔ شعری اظہار کے وقت تین طرح کے امکانات ہوتے ہیں، جو مختلف ادوار میں مختلف شعرا کے یہاں نظر آتے ہیں۔ گریہم نافGraham Nough نے اس کو بڑی خوبی سے واضح کیا ہے۔ وہ کہتاہے،

    ہم کسی ایک شاعرکے غنائی اظہار کو نہ صرف نفسیاتی روحانی ارتقا کاریکارڈ فرض کرسکتے ہیں بلکہ اسے وہ واقعی اور حقیقی ذریعہ بھی سمجھ سکتے ہیں جس کے ذریعے وہ غنائی اظہار عمل میں آیاہے۔ نفسیاتی روحانی ارتقا کے اپنے قوانین ہوتے ہیں اور ان کے بارے میں کوئی عمومی حکم لگانا مشکل ہے۔ لیکن کسی مخصوص طرز میں قائم رہنے کے نتیجے میں آخر کار ایک کرائسس پیدا ہوتی ہے۔۔۔ اور ایسی نفسیاتی روحانی رکاوٹ کے صرف تین حل ہوسکتے ہیں، انقطاع ذہنی (طبی اصطلاح میں) یعنی دماغ کا ماؤف ہوجانا اور جنون یا بصیرت اور تجربے کی نسبتاً نیچی سطح پردوبارہ خود کو مجتمع اور متحد کرنا یا مختلف اور متغائر عناصر کو کامیابی کے ساتھ انفرادیت بخشنا، جس کے ذریعے ایک زیادہ ہمہ گیر تجربہ یا بصیرت کی بلند ترسطح حاصل ہو۔

    ظاہر ہے کہ غالب اور بیدل جیسے شعرا تیسری صف میں آتے ہیں اور نظیر کے یہاں پہلی منزل بھی نہیں آتی۔ وہ صرف دیکھ کر خوش ہولیتے ہیں۔ جلد کو کھرچ کر گوشت کا رنگ چکھنا ان کے بس کے باہر ہے۔ ان کی جنسی شاعری بھی محض پستانوں، رانوں، چوماچاٹی، گلے سے لگانے اور خوش فعلیاں کرنے سے آگے نہیں جاتی،

    چمن ساکھل گیا یارو، مرے کوٹھے کے زینے پر

    ہوئی پنکھوں کی مارا مار، گرمی کے پسینے پر

    لگے پھر عیش وعشرت جب تو ہونے اس قرینے پر

    کبھی بوسہ، کبھی انگیا پہ ہاتھ اور گاہ سینے پر

    لگے لٹنے مزے کے سنگترے اور بیر آندھی میں

    (آندھی)

    گرتم برانہ مانو، تو ایک بات میں کہوں

    یہ تو کسی کا تم نے چرایا ہے سنگترا

    تم توڑتی تھیں، آن پڑا اس میں باغباں

    انگیامیں اس کے ڈر سے، چھپایا ہے سنگترا

    (سنگترا)

    کیا بادل کو اچھی لگتی ہیں، ان خوش قدوں کی، آہ

    یہ پیاری پیاری بولیاں، یہ گاتیں ٹھیک ٹھیک

    منھ میں طمانچے چھاتی میں گھونسا، کمر میں لات

    کیا کیا ہوئی ہیں یہ مجھ پہ عنایاتیں ٹھیک ٹھیک

    (غزل)

    ہوں کیوں نہ بتوں کی ہم کو دل سے چاہیں

    ہیں ناز وادامیں ان کی، کیا کیا راہیں

    دل لینے کو، سینے سے لپٹ کر، کیا کیا

    ڈالے ہیں گلے میں، پتلی پتلی باہیں

    (رباعی)

    بلراج کومل نے شاد عارفی کے بارے میں اچھی بات کہی ہے کہ ان کے یہاں جنس کے بیان میں چٹخارے کی سی کیفیت زیادہ ہے جس سے محسوس ہوتا ہے کہ شاد عارفی اصلاً جنسی طور پر ایک ناآسودہ شخص تھے۔ نظیر اکبر آبادی نے جنسی لذتوں کے تمام پہلوؤں کو برتا ہے لیکن ان کے یہاں نوجوان لڑکوں کا ذکر زیادہ اور ان سے چھیڑچھاڑ، ان کو ورغلانے، ان کو پھسلاکر راہ پر لانے کی باتوں کی تکرار، جس سے مجھے اندازہ ہوتاہے کہ وہ نفسیاتی طور پر نامرد تھے اور بالغ تجربہ کار یا well adjusted لوگوں کی طرح (مثلاً میر کی طرح) جنس کا تصور نہیں کرسکتے تھے عورت کا ذکر کرتے ہی یا نام سنتے ہی ان کے منہ میں پانی آجاتا ہے اور وہ فوراً معانقے، بوسے وغیرہ کاذکر کرنے لگتے ہیں اور بے چین ہواٹھتے ہیں،

    نازیبا، انداز نرالا، چتون آفت، چال غضب

    سینہ ابھرا صاف ستم، اور چھب کا قہر یگانہ ہے

    ایسے کم بخت ہوتے، ہاتھ ہمارے ہیہات

    ایک دن اس کی کمر کے نہ کمر بند ہوئے

    نہ بولا منھ سے ہرگز، دیکھ کر وہ خوش دلی میری

    مگر کچھ کچھ تبسم کی شکرلب سے لگاملنے

    وہ پہناکر تی تھی انگیا، جوسرخ لاہی کی

    پلٹ کے تن سے وہ تر ہوگئی پسینے میں

    سراپا موتیوں کا، پھرتو اک گچھا وہ ہوتی ہے

    کہ کچھ وہ خشک موتی، کچھ پسینے کے وہ ترموتی

    ہمارے پاس وہ آیا، تو کھول کر آغوش

    یہ چاہا، جاویں ہم اس سے بہ انکسارلپٹ

    وہیں وہ دور سرک کر، عتاب سے بولا

    ہمارے ساتھ نہ ہو کر تو بے قرار لپٹ

    ہمیں جو چاہیں تو لپٹیں نظیر اب ورنہ

    توچاہے لپٹے سوممکن نہیں ہزار لپٹ

    کلائی ہم نے جو پکڑی پچک گیا ہم دم

    وہ اس کے دست نزاکت نشان کا تعویذ

    وہ کف پا، ہم نے سہلائی ہے، ہے نازک نرم نرم

    کیا جتاتی ہے تو اپنی نرمی، اے مخمل ہمیں

    یہ اشعار غزلوں کے ہیں، نظموں میں بات اور بھی واضح ہے،

    یکایک دیکھ کر مجھ کو، وہ چنچل نازنیں بھرمی

    ادھر میں نے بھی دیکھا خوب اس کو کرکے بے شرمی

    کہوں کیا کیا، میں اس کی اب نزاکت واہ اور نرمی

    ہوئی یاں تک اسے میری نگاہ گرم کی گرمی

    کہ دست وپا میں اس کے دیر تک ملی گئی مہندی

    (خمسہ دیگر، کلیات صفحہ ۲۱۵)

    انگیا کے حسن کی، جو نظر آگئی بھڑک

    اک آگ، دل کے بیچ گئی، اس گھڑی بھڑک

    سورج کی اب جھمک کہوں، بجلی کی یا چمک

    آنکھوں میں میری، صبح قیامت گئی جھمک

    سینے سے اس پری کے، جو پردہ الٹ گیا

    (خمسہ دیگر، کلیات صفحہ۲۲۵)

    اس نے بھی میری ضدسے گریباں لیا تھا چیر

    میں نے بھی اس کی کرتی کی پھاڑی کئی دھجیر

    پھر تو وہ ہنس کے میرے گلے لگ گئی شریر

    آخر اسی بہانے ملایار سے نظیر

    کپڑے بلا سے پھٹ گئے سوداتوپٹ گیا

    (خمسہ دیگر، کلیات صفحہ ۲۲۶)

    اس سینے کا وہ چاک ستم، اس کرتی کا تزیب غضب

    اس قد کی زینت، قہر بلا، اس کافر چھب کا زیب غضب

    ان ڈبیوں کا آزار برا، ان گیندوں کا آسیب غضب

    وہ چھوٹی چھوٹی سخت کچیں، وہ کچے کچے سیب غضب

    انگیا کی بھڑک، گوٹوں کی جھمک، بندروں کی کساوٹ ویسی ہی

    (پری کا سراپا)

    بار بار ایک ہی طرح کا بیان تقریباً ایک ہی طرح کی زبان میں سنتے سنتے اکتاہٹ بلکہ گھبراہٹ پیدا ہونے لگتی ہے۔ ’’پری کا سراپا‘‘ یہ ایک نظم سب باتیں کہہ دینے کے لیے کافی تھی اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ اپنی طرح کی اردو میں بے نظیر نظم ہے۔ لیکن مجموعی رویہ قبل از بلوغ کی پیچیدہ، داخل بینی اور جذباتی گہرائی یا شدت سے عاری ہونے کی وجہ سے غیر شاعرانہ اور داستانی ہے۔ میرا خیال ہے کہ نظیر داستان گویا قصہ گواچھے بن سکتے تھے، شاعری ان کے لیے محض تفنن تھی، وہ اس کی بلندیوں اور پیچیدگیوں دونوں سے اکثر بے گانہ رہے۔

    نظیر نے بہت سی نئی باتیں ضرور شروع کیں۔ معشوق کو بے تکلف عورت کی طرح بیان کرنا، ضمائر اور افعال میں مؤنث استعمال کرنا، زندگی کے روزمرہ مظاہرسے بے محابا لگاورکھنا، اینٹی غزل اور ریختی کے انداز اختیار کرنا، یہ سب ان کے قابل ذکر کارنامے ہیں۔ مشاہدے اور تجربے میں مذہب، ملت، قوم، عقیدے کی قید نہ رکھنا، جانوروں سے دلچسپی، یہ چیزیں ایسی ہیں جن کی بنا پر ان کو بھولنا مشکل ہے۔ یہ بھی صحیح ہے کہ کبھی کبھی وہ قبل از بلوغ کا جامہ اتار، یارسمی فارسیت کو ترک کرکے، زندگی اور ذات کے مابعد الطبیعیاتی مظاہر کی طرف مائل ہوجاتے تھے۔ مثلاًیہ شعر بھی نظیر کے ہی ہیں،

    یوں تو ہم کچھ نہ تھے، پرمثل ِانار ومہتاب

    جب ہمیں آگ لگائی توتماشانکلا

    اک دن کی زندگی کے لیے مت اٹھا مجھے

    اے بے خبر میں نقش زمیں کی نشست ہوں

    گہ چشم اٹھارخ پر مرآت لقاہونا

    گہ سربہ گریباں ہو ہم چشم حیاہونا

    گرم یاں یوں توبڑا حسن کا بازاررہا

    میں فقط ایک دکاں ہی کا خریداررہا

    کوچے میں اس کے اکثر، کہتے ہیں یاں سے اٹھیے

    پرہم سے دل ہے کہتا، مت خوف جاں سے اٹھیے

    جو مے خانے میں جاکر، ایک جام مے پیاہم نے

    تو جس جاخشت پائے خم تھی، واں سررکھ دیا ہم نے

    اگر انکار کی لذت کو ہم سمجھیں توپھر یارو

    اسی انکارکے پردے میں پھر اقرار ہوپیدا

    اس طرح کے اشعار بہت نہیں، لیکن اتنے کم بھی نہیں ہیں کہ ان کو نظرانداز کیا جاسکے۔ استعارہ اور پیکرسے عموماً بے بہرہ ہونے کی وجہ سے، نظیر کے مابعد الطبیعاتی ابعادپوری طرح نمایاں نہیں ہوتے لیکن موجود ضرور ہیں۔ اسی طرح ان کی فارسیت اگر چہ بہت وسیع اور شعر کے جوہر میں پیوست نہیں ہے (جس طرح سودا، درد، میر، غالب، انیس اور اقبال کے یہاں) لیکن اتنی سرسری بھی نہیں ہے کہ اس کو نظرانداز کیاجاسکے۔ عام طورپر ہمارے نقادوں نے انہیں روزمرہ کی بولی کا شاعر کہاہے، یہ درست نہیں۔ نظیر جب چاہتے تھے فارسیت کاعمل دخل بھی قبول کرلیتے تھے۔ مثال کے طور پر،

    اے بے خبر میں نقش زمیں کی نشست ہوں

    ایسا مصرع نہیں ہے جو ہماشما کہہ سکیں۔ نقش کے ایک معنی ’’طاقت‘‘ کے بھی ہیں اور صاحب ’’بہار عجم‘‘ کے مطابق ’’نقش نشستن‘‘ کے معنی ہیں، ’’ملک میں نظم وضبط پیدا کرنا۔‘‘ اب شعر کی معنویت کہیں سے کہیں پہنچ گئی۔ ہمارے سہل انگارنقادوں نے نظیر کی اس صفت کو نظرانداز کردیا، لیکن ان کو بڑا شاعر کہنے کی دھن میں کثیرالاشعاری اور معیاری شاعری کا فرق بھی نظر انداز کردیاد۔ خشت پا سے خم پر سررکھ دینا جو مندرجہ ذیل مصرع میں ہے،

    تو جس جاخشت پائے خم تھی واں سررکھ دیا ہم نے

    نظیرکے یہاں محض سپردگی اور مے نوشی سے شغف اور صوفیانہ اصطلاح کی مے نوشی کی عظمت کا اعتراف ہے۔ یہ ضرور ہے کہ خشت خم کی ترکیب بھی ہماشما کے بس کی نہیں، لیکن اسی کو میر کے یہاں دیکھیے،

    جھومے ہے بیدجائے جوانانِ مے گسار

    بالا ے خم ہے خشت سرپرمے فروش

    مے فروش کے سرسے خشت خم کاکام لینا، ایسا بھیانک پیکر ہے کہ گاٹ فریڈبنGottfried Benn جیسے شاعر کے یہاں بھی نہ ملے گا۔ نظیر کی کیا حقیقت ہے۔ پھر بھی نظیر ہماری ادبی تاریخ کاایک حصہ ہیں۔ اس میں کوئی کلام نہیں۔

    مأخذ:

    اثبات و نفی (Pg. 67)

    • مصنف: شمس الرحمن فاروقی
      • ناشر: ڈائرکٹر قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی
      • سن اشاعت: 2011

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے