aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

پھرتا ہے فلک برسوں

راہی معصوم رضا

پھرتا ہے فلک برسوں

راہی معصوم رضا

MORE BYراہی معصوم رضا

    ہر بڑے شاعر کی طرح میر بہ یک وقت پبلک سکٹر کے شاعر بھی ہیں اور پرائیوٹ سکٹر کے بھی۔ مجھے ان شاعروں میں کوئی خاص دل چسپی نہیں جو یا تو صرف پبلک سکٹر کے ہوتے ہیں یا پرائیوٹ سکٹر کے حالی سے علی سردار جعفری تک پبلک سکٹر کے شاعروں کا جو طویل سلسلہ ہے میں اس کا احترام تو کرتاہوں لیکن اس کی پرستش نہیں کرتا۔ اقبال کا شمار بھی میں پبلک سکٹر کے شعرا ہی میں کرتا ہوں۔ لیکن میرے لیے میراجی قبیل کے شاعر بھی بے معنی ہیں کیونکہ وہ صرف پرائیوٹ سکٹر سے تعلق رکھتے ہیں۔ پتہ نہیں میرے بزرگ مارکسی مجھے مارکسی تسلیم کرتے ہیں یا نہیں، لیکن چونکہ میں مارکسی ہوں اس لیے میں ’’فرد‘‘ کے وجود اور سماج میں اس کی اہمیت کا سختی سےقائل ہوں، خود کمیونسٹ مینی فسٹو ان الفاظ میں فرد کی اہمیت کا اعلان کرتا ہے کہ،

    From each accordin to his abilities, to each

    according to his needs.

    یہ الفاظ بہت صاف سادہ اور واضح ہیں۔ اور یہاں جو دومرتبہ ’’ہرشخص‘‘ کہا گیا ہے وہ محض تفریحاً نہیں کہا گیا ہے۔ پھر ایک اور جگہ مارکس نے سماج کی تعریف ان لفظوں میں کی ہے کہ،

    (The Society is) An association in which the free development of each is the cordition of the free development of all.

    یہاں ہم یہ دیکھتے ہیں کہ فرد کاارتقا سماج کے ارتقا کی شرط ٹھہرایا گیا ہے۔ یعنی ’’فرد‘‘ کے ارتقا کے بغیر سماج کاارتقا ممکن ہی نہیں ہے۔ یعنی سماج کی بنیادی اکائی ’’فرد‘‘ ہے اور سماج کےارتقا کی کسوٹی بھی وہی ہے۔

    اس تمہید سے میری مراد یہ ہے کہ ہر آدمی میں بہ یک وقت دو آدمی موجود ہوتےہیں۔ ایک تو وہ جو سماج سے زندہ رہنے اور ترقی کرنے اور خواب دیکھنے کا حق مانگتا ہے۔ اور دوسرا وہ جوسماج کا ایک انگ ہوتاہے اور لگاتار اپنے ہی وجود کےدوسرے حصے سے ٹکراتارہتاہے۔ فن اسی تصادم کانتیجہ ہوتا ہے۔ اس لیے فن کار ’’فرد‘‘ کی ان دونوں حیثیتوں سےرابطہ قائم کرتاہے یعنی عظیم فن بہ یک وقت فرد اورسماج دونوں ہی کے لیے جمالیاتی انبساط کا سبب ہے۔ دوسر ےاور تیسرے درجہ کا ادب اکہرا رابطہ قائم کرتاہے وہ یا ’’فرد‘‘ کا ہو کر رہ جاتا ہے یا سماج کا۔ چنانچہ اس کی اپیل دیرپا نہیںہوتی۔ نتیجہ کے طور پر یہ اکہرے رابطے والاادب بہت دنوں زندہ نہیں رہتا۔ زندہ رہنے والا ادب دونوں رابطے قائم کرتا ہے اور اس کے لیے بہت دنوں تک زندہ رہتاہے۔ جی ہاں یہ بات اتنی ہی میکانیکی ہے۔ اور چونکہ میر کی شاعری دونوںرابطے قائم کرتی ہے اس لیے وہ عظیم شاعری کی مثال ہے۔

    یہیں ایک وقت کااظہار کرلینابھی بہت ضروری ہے۔ اردو میں الفاظ کو بڑی بے دردی اور بداحتیاطی سےاستعمال کرنےکارواج بہت عام ہے۔ حدتو یہ ہے کہ ہماری تنقیدی اصطلاحات کے مفہوم کا بھی ابھی تک تعین نہیں ہوسکاہے۔ ایک ہی آدمی ایک ہی اصطلاح کو مختلف معنوں میں دھڑلے سے استعمال کرتا رہتا ہے۔ نام گنوانے یا مضامین اور کتابوں کےحوالے دینے کی یہاں ضرورت نہیں۔ ان معنوں میں ہماری تنقید تذکروں سےبچھڑی ہوئی ہے کیونکہ تذکرہ نگاروں کی اصطلاحات متعین ہیں۔ چنانچہ آج کسی فنکار کے تنقیدی مطالعے سے جی بہت ڈرتاہے کہ نہ معلوم کیا حشر ہو۔

    میں تنقیدی اصطلاحوں کو استعمال نہ کرنے کی پوری کوشش کروں گا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ لکھوں کیا، کیا روایتی طور پر میر کے کلام کی خصوصیات بتاکر چلتادھندا کروں او رانہیں اشعار کے حوالے دیتا چلاجاؤں جن کے حوالے لوگ دیتے چلےآرہے ہیں اورنتیجہ یہ نکالوں کہ یوں تو اب تک میر کے بارے میں لوگوں نے جو کچھ لکھا ہے اس سے مجموعی طور پر میں متفق ہوں لیکن مجھے میر کے تمام نقادوں سے بس ذراذراسااختلاف ہے؟ لیکن حقیقت یہی ہے کہ میر کے بارے میں اب تک جو کچھ لکھا گیا ہے وہ کسی نہ کسی زاویے سے ٹھیک ہی ہے۔ اکہرے رابطے والے شاعروں کے سلسلہ میں تو غلط بیانی کااندیشہ لگارہتا ہے لیکن دوہرے رابطے والے شاعر کسی کو غلط بیانی کرنے کاموقع ہی نہیں دیتے۔

    مجھے اس سے غرض نہیں کہ میر سید تھے یا نہیں۔ یوں کہ بہ قول غالب درامر خاص حجت دستور عام چیست۔ سید یا اس قسم کی کوئی اور چیز ہونےیا نہ ہونے پر کسی کا اختیار نہیں ہوتا۔ یہ تو اتفاقی حادثہ ہے۔ ہاں اگر سید ہونے یا نہ ہونے سے شاعری متاثر ہو رہی ہو تب البتہ ’’ہڈی‘‘ کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔ لیکن دل کو دلی اور دلی کو دل بنالینے والے شاعر کی تفہیم کے سلسلے میں اس کی ’’ہڈی‘‘ کی چھان پھٹک ایک قطعاً غیرضروری، بےمقصد، لیکن ایک حد تک بے ضرر تحقیقی مشغلہ ہے۔

    میر کی شاعری میں دلی کوجو مرکزیت حاصل ہے وہ ہماری پوری عشقیہ اور عاشقانہ شاعری میں غالباً دل کو بھی حاصل نہیں ہے۔ اس لیے چاہے آپ شاعری کو سماج سے کتنا ہی دور کیوں نہ رکھنا چاہتے ہوں اگر آپ میر کی شاعری سےلطف اندوز ہونا چاہتے ہیں تو آپ دلی کو نظرانداز نہیں کرسکتے کیونکہ دلخرابہ جیسے دلی شہر ہے۔ بہتر کو کمتر سے تشبیہ نہیں دی جاتی۔ چنانچہ میر کو ڈھونڈھنا ہو تو اس’’دلی شہر‘‘ تک چلنا پڑے گا جہاں انہوں نے ایک طرف توشہاں کی آنکھوں میں پھرتی سلائیاں دیکھی تھیں اور دوسری طرف بڑی خود اعتمادی سے یہ اعلان کیا تھا کہ

    جانے کا نہیں شور سخن کامرے ہرگز

    تاحشر جہاںمیں مرا دیوان رہے گا

    یہ شعر میر کی بددماغی کا مظہر نہیں ہے۔ خوداعتمادی کامظہر ہے۔ اور ٹوٹتی ہوئی قدروں کے شہر میں یہ خوداعتمادی بہت قابل احترام ہے۔ میر کی دلی میں ان کے اس اعتماد کے علاوہ کوئی چیز ثابت نہیں تھی۔ اس لیے اس اعتماد کامطالعہ کرناچاہیے۔ کیا یہ اعتماد تنہا نشینی کی دین ہے اور کیا تنہانشینی اس خوداعتمادی کی تخلیق کرسکتی ہے؟ مجنوں صاحب نےایک مضمون میں ایک بہت دلچسپ بات لکھی ہے۔

    ’’ہرشخص کی چاہے وہ کتنا ہی ادنیٰ اور ناقابل لحاظ کیوں نہ ہو دوہری تاریخ ہوتی ہے۔ ایک شخص اوردوسری معاشرتی یا اجتماعی۔‘‘

    اور چونکہ ہر شخص کی دوہری تاریخ ہوتی ہے اس لیے اس کا اکہرا مطالعہ حفظان صحت کے اصولوں کے تحت نقصان دہ ہے۔ اور کسی بڑے شاعر کا اکہرا مطالعہ تو جان لیوا ہوتاہے۔ چناں چہ شعر وادب میں دونوں رابطوں کو تلاش کرناچاہیے۔ میر کے یہاں ایک طرف تو یہ عالم ہے کہ،

    جگر جور گردوں سے خوں ہوگیا

    مجھے رکتے رکتے جنوں ہوگیا

    اوردوسری طرف صورت حال یہ ہے،

    خار کو چن کے لڑی موتی کی کردکھلایا

    اس بیابان میں وہ آبلہ پا میں ہی ہوں

    اور ان دونوں دنیاؤں کے بیچ میں اندیشوں کاشہر ہے۔

    کس ڈھب سےراہ عشق چلوں، ہے یہ ڈر مجھے

    پھوٹیں کہیں نہ آبلے ٹوٹیں کہیں نہ خار

    اس’ڈھب‘ کی تلاش نے میر کو بہت پریشان کیا۔ لیکن انہوں نے راستہ نکال ہی لیا۔

    مرے سلیقے سے میری نبھی محبت میں

    تمام عمر میں ناکامیوں سے کام لیا

    دور بیٹھا غبارمیر اس سے

    عشق بن یہ ادب نہیں آتا

    اسی سلیقے کی بنیاد پر بعض ناقدین نے بڑی بدسلیقگی سے میر کو قنوطی کہہ دیا ہے۔ لیکن اس وقت میں ان کی قنوطیت یا رجائیت کے بارے میں کچھ عرض کرنا نہیں چاہتا۔ اس وقت تو میں اس پوری حقیقت کے بارے میں کچھ عرض کرناچاہتاہوں جس کانام میرتقی اور تخلص میر تھا۔ اور جس نے اپنے بعد اپنی یاد اور ایک تذکرہ کے علاوہ ایک ضخیم کلیات چھوڑا۔۔۔ اور ماہرین ریاضیات نے جس میں سے گن چن کر ستر بہتر نشتر نکال لیے تاکہ یہ وقت ضرورت کام آئیں اور سند کے طور پر استعمال کیے جاسکیں۔

    یہ میر تقی جس کا تخلص میر تھا ایک بڑا جیالاشاعر تھا۔ شدید محبت کرنےوالا سخت باوقار اوربےحد سادہ لوح۔ انہیں تمام باتوں کو ’دردوغم‘ کانام دے کر اس نے جمع کیا اور ’دیوان کیا‘ اس شخص نے اپنی محرومیوں اور اپنےخوابوں کی ٹوٹتی دیواروں کو اپنی شاعری کے راستے میں نہ آنےدیا۔کیوں کہ سائے کے لیے اس آرام طلب نے ہمیشہ ’کسی دیوار‘ کے سائے کو کافی جانا۔ لیکن اس نے کلیات کو اپنی ذاتی اور سماجی زندگی کی یادداشت بنادیا۔ غزلوں اور مثنویوں کی بستیوں میں اس کی یادیں ہیں۔ یہ کلیات میرتقی اور میر دونوں کی سوانح حیات ہے۔

    کس کس طرح سے میر نےکاٹا ہے عمر کو

    اب آخر آخر آن کے یہ ریختہ کیا

    یہ بڑے حوصلے کاکام ہے او راسی حوصلے نے میر کو زندگی سےبددل نہ ہونے دیا۔

    گوطاقت و آرام و خور و خواب گئے سب

    بارے یہ غنیمت ہے کہ جیتا تو رہا ہوں

    دم مرگ دشوار دی جان اس نے

    مگر میر کو آرزو تھی کسو کی

    یہ ’آرزو‘ بڑی سرکش اور متحرک ہے۔ اسے ایک پل قرارنہیں اوریہ اپنے ساتھ میر کو بھی آوارہ رکھتی ہے۔ حدتو یہ ہےکہ میراگرتھک جاتے ہیں تو اگلی تیز رفتاری کی کہانیاں یاد آنےلگتی ہیں۔

    بیٹھاہوں جوں غبارضعیف اب و گرنہ میں

    پھرتا رہا ہوں گلیوں میں آوارہ گرد سا

    غبارایک جگہ اور بیٹھا نظرآیا تھا۔ وہاں بھی میر نے یہی کہا تھا کہ یہ میں ہوں اوراس سے دور بیٹھنےکو انہوں نے ادب عشق کہا تھا۔ لیکن اگر اس شعر کو مندرجہ بالا شعر کے ساتھ پڑھا جائے تو اس سے دور بیٹھ جانے پر ادب عشق کاجو پردہ پڑا ہوا ہے وہ ہٹ جاتا ہے اور ہم مجبور ہوجاتے ہیں کہ اس تصویر کو کسی اور زاویے سےدیکھیں۔ یہ دور بیٹھاہوا غبار دراصل ’غبار ضعیف ہے ورنہ ابھی کل تک یہ گلیوں میں آوارہ گردی کر رہاتھا۔ غالب نے اس’غبار ضعیف‘ کو ایک اور طرح بٹھلایا،

    سنبھلنے دے مجھے اے ناامیدی کیا قیامت ہے

    کہ دامان خیال یار چھوٹا جائے ہے مجھ سے

    اس لیے اس ’غبار ضعیف‘ کو ساری حقیقت فرض کرلینا اور پھر اسی کی بنیاد پر نتیجہ اخذ کرلینا صحیح نہیں ہے۔ ہمیں اس ’غبار ضعیف‘ کو ہرعالم میں دیکھنا پڑےگا۔ ورنہ(۱) میر کہہ دیں گے۔

    (۱) یہ مصرع سوداکاہے اور یوں ہے،

    کیا جانئے تونے اسے کس حال میں دیکھا۔ (شب خون)

    کیا جانے کہ تونے اسے کس حال میں دیکھا

    اسے ہر حال میں دیکھ کر فیصلہ کیجیے۔ اس لیے اس سفر کاآغاز تو یہاں سے ہوگا،

    ساعد و بازو دونوں اس کے ہاتھ میں لے کر چھوڑدیے

    بھولے اس کے قول و قسم پر ہائے خیال خام کیا

    دل تاب ہی لایا نہ ٹک تا یاد رہتا ہم نشیں

    اب عیش روز وصل کاجی میں ہے بھولا خواب سا

    تھی تب کسی کسائی تیغ کشیدہ کف میں

    پر میں نے بھی بغل میں بے اختیار کھینچا

    تھی صبح جو منہ کو کھول دیتا

    ہر چند کہ تب تھی اک پہر رات

    پر زلفوں سے منہ چھپاکے پوچھا

    اب ہووے گی میر کس قدر رات

    اس کے آتش ناک رخساروں بغیر

    لوٹتے یوں کب تک انگاروں کے بیچ

    ایک شب پہلو کیا تھا گرم اُن نے تیرے ساتھ

    رات کو رہتا ہے اکثر میرے پہلو میں درد

    جب کہ پہلو سے یار اٹھتا ہے

    درد بے اختیار اٹھتا ہے

    کھینچا بغل میں میں جو اسےمست پاکے رات

    کہنے لگا کہ آپ کو بھی کچھ نشہ ہوا

    تم جو ہم سے مل چلے ٹک رشک سب کرنے لگے

    مہرباں جتنے تھے اپنے مدعی سارے ہوئے

    یہ عشق کامیاب کی منزل ہے۔ اسی لیے میر کی فراقیہ شاعری کی آنچ بہت تیز ہے اور اس منزل کامرانی کو نظرمیں رکھے بغیر اس دور بیٹھنے والے ’’غبار ضعیف‘‘ کی اہمیت کااندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔

    لیکن آخر آغاز انجام میںاتنافرق کیوں ہے! آغاز و انجام میں اتنا فرق اس لیے ہے کہ فرد سماج کاایک انگ بھی ہوتا ہے۔ یہ فرق اس لیے ہے کہ فرد دیوار سےٹکرانے کا حق رکھتا ہے لیکن یہ شکایت کرنے کا حق نہیں رکھتا کہ اس کے ٹکرانے سے دیوار ٹوٹتی کیوں نہیں۔ اپنی تخریب کاکام صرف سماج کرسکتاہے کیونکہ وہی اپنے ملبہ پر ایک نئے سماج کی عمارت کھڑی کرسکتا ہے۔ چنانچہ کامیاب عشق میر کی راہ میں سماج آجاتا ہے۔ اپنے پورے جبروت کے ساتھ۔ یہ سماج ایک فرد کی شکل میں ظاہر ہوتاہے اور لشکر کے روپ میں بھی۔ فرد کی شکل میں اس کانام خان آرزو ہے۔ لشکر کی شکل میں یہ ابدالی ہے۔ نادرشاہ ہے۔ اس لیے میر کی شاعری میں دل اور دلی ایک دوسرے سے جگہیں تبدیل کرتے رہتے ہیں اور میر متواتر دل کی ویرانی کو دلی کی ویرانی سے مثال دے کر سمجھاتے رہتے ہیں۔

    دل کی ویرانی کاکیا مذکور ہے

    یہ نگر سو مرتبہ لوٹا گیا

    دل کی آبادی کی اس حد ہے خرابی کہ نہ پوچھ

    جاناجاتا ہے کہ اس راہ سے لشکر گزرا

    شہر دل آہ عجب جائے تھی پر اس کے گئے

    ایسا اجڑا کہ کسی طور بسایا نہ گیا

    دل وہ نگر نہیں ہے کہ آباد ہوسکے

    پچھتاؤگے سنو ہو یہ بستی اجاڑ کے

    محبت نے شاید کہ دی دل میں آگ

    دھواں سا ہے کچھ اس نگر کی طرف

    خرابی کچھ نہ پوچھو مملکت دل کی عمارت کی

    غموںنے آج کل سنیو وہ آبادی ہی غارت کی

    خرابی دل کی اس حد ہے کہ یہ سمجھا نہیں جاتا

    کہ آبادی یہاں تھی یا کہ ویرانہ ہے مدت کا

    دل عجب شہر تھا خیالوں کا

    لوٹا مارا ہے حسن والوں کا

    روشن ہے اس طرح دل ویراں میں داغ ایک

    اجڑے نگر میں جیسے جلے ہے چراغ ایک

    اب شہر ہر طرف سےویران ہوگیا ہے

    پھیلا تھا اس طرح سے کاہے کو یوں خرابا

    اس کے گئے پر دل کی خرابی نہ پوچھیے

    جیسے کسو کا کوئی نگر ہو لٹا ہوا

    اس شہر دل کو تو بھی جو دیکھے تو اب کہے

    کیا جانئے کہ بستی یہ کب کی خراب ہے

    بے یار شہر دل کا ویران ہو رہا ہے

    دکھلائی دے جہاں تک میدان ہو رہاہے

    شہر دل ایک مدت اجڑا بسا غموں میں

    آخر اجاڑ دینا اس کا قرار پایا

    انہیں اشعار کے ساتھ چند شعر اور دیکھنا چاہیے،

    ان ہی چمنوں میں کہ جنہوں میں نہیں اب چھاؤں

    کن کن روشوں ہم کو پھرایا ہے ہوانے

    کوئی عاشق نظر نہیں آتا

    ٹوپی والوں نے قتل عام کیا

    اس جہان آفتاب میں ہم ہیں

    یاں کبھو سروگل کے سائے تھے

    ہے جو اندھیر، شہر میں خورشید

    دن کو لے کر چراغ نکلے ہے

    میں نے اس قدر اشعاراس لیے نقل کیے ہیں کہ کوئی صاحب اسے اتفاق کہہ کر نہ ٹال سکیں اور یہاں مندرجہ بالا اشعار کی مدد سے میں ایک اور نتیجہ بھی نکالنا چاہتا ہوں۔ اگر آپ اجازت دیں تو عرض کروں کہ حالات کے چکر نےمیر کی دونوں شخصیتوں کو متصادم قوتیں نہیں رہنے دیا بلکہ اس چکر میں یہ دونوں قوتیں ایک دوسرے میں تحلیل ہوگئیں۔ یہ صورت حال بہت دلچسپ ہے۔ کیونکہ اگرایک شاعر کی دونوں شخصیتوں کا تصادم اعلیٰ درجہ کی شاعری تخلیق کرسکتا ہے تو ان دونوں کے اتصال کانتیجہ کیا اور کیسا ہوگا۔ اور یوں میر کی شاعری ہمارے لیے اور اہم ہوجاتی ہے کیونکہ وہ اسی اتصال کا نتیجہ ہے۔

    اسی اتصال کی وجہ سے میر ہر غم کو اپنے غم کی طرح محسوس کرتے ہیں۔ اس لیے ان غموں کااظہار بہت شدید ہوجاتا ہے۔ اور چوں کہ غم کسی اور کے ہونے کے باوجود ذاتی ہوگئے ہیں۔ اس لیے ’لوگ‘ بھی غیر نہیں رہ گئے ہیں۔۔۔ یعنی میر، میر بھی ہیں اور ولی بھی۔ اسی ولی ہوجانے سےانہیں ان کا سادہ و پراثر اسلوب دیا ہے۔ انہیں کسی ’طرز‘ کی ضرورت ہی نہیں۔ کیونکہ اگر ہم خود ہی قصہ بھی ہیں اور قصہ گو بھی اور قصہ سننے والے بھی تو ہمیں امام بخش ناسخ، دیاشنکر نسیم۔ یا غالب بننے کی ضرورت نہیں ہے۔ لفظوں کے انتخاب کاکام خیال سے زیادہ بہتر طریقہ پر اور کون کرسکتا ہے۔ چنانچہ میر کے یہاں فن ہی فن ہے۔ انہیں صناعی دکھلانے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ لیکن اس بات سےان کی آواز کی انفرادیت ختم نہیں ہوتی، نقارخانے میں اس طوطی کی آواز صاف پہچان لی جاتی ہے۔

    میں جو بولاکہا کہ یہ آواز

    اسی خانہ خراب کی سی ہے

    واقعی یہ آواز منفرد ہے۔ یہ آواز منفرداس لیے ہے کہ یہ ایک گھریلو آواز ہے۔ اس کامیدان عمل آنگن ہے، بازار دربار یا خانقاہ نہیں ہے کہ آدمی کو آئین نشست و برخاست کاخیال رکھنا پڑے۔ اپنےگھر میں آدمی مکلف نہیں رہتا۔ اسی گھریلوپن نے میر کو وہ اعتماد دیا جو کم سے کم اردو کے کسی اور شاعر کے یہاں تو نہیں ملتا اور یہ اعتماد کسی احساس کمتری کانتیجہ نہیں ہے۔ یہ خالص اور مثبت اعتماد ہے میر کی زبان سے ایسی باتیں نہیں نکلتیں۔

    بیا درید گرایں جابود زباں دانے

    غریب شہر سخن ہائے گفتنی دارد

    کس زبان مرانمی فہمد

    ازغریزاں چہ التماس کنم

    مانہ بودیم بدین مرتبہ راضی غالب

    شعر خود خواہش آں کرد کہ گرددفن ما

    وغیرہ وغیرہ۔۔۔میر تو سدا یہ کہتے سنے گئے،

    میرؔ شاعر بھی زور کوئی تھا

    دیکھتے ہو نہ بات کا اسلوب

    جو دیکھو مرے شعر ترکی طرف

    تو مائل نہ ہو تو پھر گہر کی طرف

    لیکن یہ خود اعتمادی انہیں فن کاروں کی برادری سے باہر نہیں لے جاتی۔ میر کی بددماغی کے قصے بہت بیان کیے جاتے ہیں لیکن اس بات کاکیا جواب ہے،

    صناع ہیں سب خوار ازآں جملہ ہوں میں بھی

    ہے عیب بڑااس میں جسےکچھ ہنر آوے

    کوئی مغرور اور بددماغ آدمی ’ازآں جملہ‘ نہیں کہہ سکتاتھا۔ لیکن میر ہر سچے فن کار کی طرح غیرت مند اور شرمیلے یقیناً تھے۔ (اسی کو لوگوں نے بددماغی سمجھ لیا) اسی لیے انہوں نے اپنے سلیقے پر زور دیاہے،

    نامرادانہ زیست کرتا تھا

    میرؔ کا طور یاد ہے ہم کو

    نامرادی کی رسم میرؔ سے ہے

    طور یہ اس جوان سے نکلا

    مرے سلیقے سے میری نبھی محبت میں

    تمام عمر میں ناکامیوں سے کام لیا

    لیکن اگر ہمیں صرف یہی شعر یاد ہوں تو ہم میر کی حوصلہ مندی کےساتھ انصاف نہیں کرسکتے کیونکہ یہ اشعار تو شکست اورحوصلوں کی پستی کے مظاہر ہیں۔ اور میر پرشکست خوردگی یا حوصلوں کی پستی کے مظاہر ہیں۔ اور میر پرشکست خوردگی یا حوصلوں کی پستی ہی کےالزام نہیں لگائے جاسکتے۔ ان اشعار میں نہ شکست کا اعتراف کیا گیا ہے اورنہ حوصلوں کی پستی کا اظہار۔ ان میں طنز ہے۔ لیکن اس طنز کو پہچاننے کے لیے میر کےحوصلوں سےواقف ہونا ضروری ہے۔ اس لیے اس ’سلیقے‘ او ر’طور‘ کی وضاحت ضروری ہے۔

    نہیں وسواس جی گنوانے کا

    ہائے رے ذوق دل لگانے کا

    جاتا ہے یار تیغ بہ کف غیر کی طرف

    اے کشتۂ ستم تری غیرت کو کیا ہوا

    تاب کس کو جو حال میر سنے

    حال ہی اور کچھ ہے مجلس کا

    نہ وے زنجیر کے غل ہیں نہ وے جرگے غزالوں کے

    مرے دیوانہ پن تک ہی رہا معمور ویرانا

    قیس و فرہاد پر نہیں موقوف

    عشق لاتا ہے مرد کار ہنوز

    تمنائے دل کے لیے جان دی

    سلیقہ ہمارا تو مشہور ہے

    میر کے ’سلیقہ‘ کو اسی مثبت رویہ کی روشنی میں دیکھناچاہیے۔ اسی سلیقہ کی وجہ سے میر زندگی کو جھیل گئے۔۔۔ اور ایک ایسی زندگی جھیل گئے جس کاذکر ہی سن کر لوگ کان پر ہاتھ دھرنےلگیں۔

    سب پہ جس بار نے گرانی کی

    وہ ترا ناتواں اٹھا لایا

    نہ بھائی ہماری تو قدرت نہیں

    کھنچیں میر تجھ سے ہی یہ خواریاں

    خوش رہا جب تلک جیتا رہا

    میرؔ معلوم ہے قلندر تھا

    صرف اس قلندر کو کبھی کبھی یہ کہنے کاحق ہے کہ۔۔۔ اس زندگی کرنے کو کہاں سے جگر آئے۔۔۔ یہاں میر اپنی بزدلی کا اعتراف نہیں کر رہے ہیں۔ وہ تو اپنی جگرداری کااعلان کر رہے ہیں جس طرح غالب نے بھی دانائی کااعلان کیا تھا۔ لیکن میرغالب کی طرح یہ نہیں کہتے کہ۔۔۔ ہم بھی کیا یاد کریں گے کہ خدا رکھتے تھے۔ میر ایسا اس لیے نہیں کہتے کہ انہیں اپنے آپ پر اعتماد ہے۔ ذرا یہ لہجہ دیکھیے،

    بارے کل بھڑگئے اس ظالم خون خوار سے ہم

    منصفی کیجیے تو کچھ کم نہ جگر ہم نےکیا

    میں عرض یہ کرناچاہتا ہوں کہ ناکامیوں سےمطمئن ہوجانے کو میر نے اپنا سلیقہ نہیں کہا ہے۔ ان کاسلیقہ تو ’جگر کرنا‘ ہے۔ لیکن یہ جگر وہی کرسکتا ہے جسے اتنی ہی شدید محبت ہو جتنی شدید محبت میر کو تھی۔ میر تو محبت کے علاوہ کسی اور جذبے کے قائل ہی نہیں۔

    محبت نےظلمت سے کاڑھا ہے نور

    نہ ہوتی محبت نہ ہوتا ظہور

    میر کی کل پونجی یہی محبت ہے اور اس سلسلہ میں ان کی حیثیت اجارہ دار کی ہے اس کے لیے کبھی کبھی ان جیسا غیرت مند بھی بے حمیتی گوارا کرلیتا ہے۔

    آج پھرتھا بے حمیت میرواں

    کل لڑائی سی لڑائی ہو چکی

    جی ہاں۔۔۔ دل ہے تو وہ طواف کوئے ملامت کو جائے گا۔ لیکن اگر یہی بےحمیتی ان کاکردار ہوتی تو ان کا عشق دو ٹکے کامعلوم ہوتا۔ لیکن ہم جب ایک غیرت مند کو اسی عالم میں دیکھتے ہیں تو یہ بے حمیتی جذبۂ محبت کی شدت کامظہر بن جاتی ہے۔ ویسے کوئی صاحب اس اکیلے شعر کی بنیاد پر میر کو بےغیرت ثابت کرنا چاہیں تو کوئی ان کا کیا بگاڑ سکتاہے۔ کیونکہ یہاں میر ’’اقبالی مجرم‘‘ بنے ہوئے ہیں۔ اس لیے شاعری کو مختلف خانوں میں تقسیم کرکے اس کا مطالعہ کرنا صحیح نہیں ہے۔ کیونکہ شاعری ایک اکائی ہے اور اسے ایک اکائی مان کر اس کا مطالعہ بھی کرنا چاہیے۔ اس لیے اس ’بے حمیتی‘ والےشعر کو کلیات کے پس منظر میں دیکھنا چاہیے جس میں اس قسم کے بے شمار (مبالغہ کے لیے معافی چاہتا ہوں) اشعارموجودہیں۔

    سردے کے ہم نے میر فراغت کی عشق میں

    ذمہ ہمارے بوجھ تھے بارے ادا ہوئے

    پاس ناموس عشق تھا ورنہ

    کتنے آنسو پلک تک آئے تھے

    حمیت اس کے تئیں کہتے ہیں جو میر میں تھی

    گیا جہاں سے پہ تیری گلی میں آنہ رہا

    لیکن جن لوگوں نے یک رخے مطالعہ کو اپنا فن بنالیا ہے ان سے اس کے سوا اور کیا کہا جائے کہ۔۔۔ افسوس تم کو میر سے صحبت نہیں رہی۔ یا پھر یہ کہ۔۔۔ کیا جانئے تونے اسے کس حال میں دیکھا۔ کسی کو اس کے کسی کمزور لمحہ میں دیکھنے کے بعد یہ فیصلہ کرلینا کہ وہ بس وہی ہے سخت سماجی ناانصافی ہے۔ میر کو دیکھنا ہو تو ان اشعار کو بھی ذہن میں رکھیے،

    ہیں مشت خاک لیکن جو کچھ ہیں میرؔ ہم ہیں

    مقددر سے زیادہ مقددر ہے ہمارا

    عشق کا گھر ہے میرؔ سے آباد

    ایسے پھر خانماں خراب کہاں

    ایسے وحشی کہاں ہیں اے خوباں

    میرؔ کو تم عبث اداس کیا

    برسوں میں اقلیم سخن سے دو دیوانے نکلے تھے

    میرؔ آوارہ شہر ہوا ہے قیس ہوا ہے بیاباں گرد

    مجنوں نہ دشت میں ہے نہ فرہاد کوہ میں

    تھا جن سے لطف زندگی وے یار مرگئے

    الٰہی کیسے ہوتے ہیں جنہیں ہے بندگی خواہش

    ہمیں تو شرم دامن گیر ہوتی ہے خدا ہوتے

    میں اور قیس وکوہ کن اب جو زباں پہ ہیں

    مارے گئے ہیں سب یہ گنہگار ایک طرح

    یہ مشت خاک یعنی انسان ہی ہے روکش

    ورنہ اٹھائی کس نے یاں آسماں سے ٹکر

    مشکل بہت ہے ہم ساپھر کوئی ہاتھ آیا

    یوں مارنا تو پیارے آسان ہے ہمارا

    آدم خاکی سے عالم کو جلا ہے ورنہ

    آئینہ تھا یہ وے قابل دیدار نہ تھا

    مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں

    تب خاک کے پردے سے انسان نکلتا ہے

    مفت یوں ہاتھ سے نہ کھو ہم کو

    کہیں پیدا بھی ہوتے ہیں ہم سے

    یہاں وہ بات نہیں کہ۔۔۔ مفت ہاتھ آئے تو برا کیا ہے۔ اس شخص کو سماج میں اپنی اہمیت کا پورا احساس ہے۔ اسی لیے وہ اپنی ذمے داریوں سے بھی بے خبر نہیں ہے اس لیے بہ قول خود زندگی سے ’بھڑگیا‘ نتیجہ یہ ہوا کہ،

    قامت خمیدہ رنگ شکستہ بدن نزار

    تیرا تو میر غم میں عجب حال ہوگیا

    لیکن اہم بات یہ ہے کہ ان تمام باتوں کے باوجود اس آدمی نے ہار نہیں مانی۔ روئے نہ ہم کبھو ٹک دامن پکڑ کسو کا۔ یہ شخص بہ ہرحال زندگی سےدست و گریباں رہا،

    رکاجاتاہےجی اندر ہی اندر آج گرمی سے

    بلا سے چاک ہی ہوجائے سینہ ٹک ہواآئے

    جی ہاں یہ آدمی زندگی کی قیمت ادا کرنا جانتاہے۔ اسی لیے اسے زندگی سے ’لگ‘ چلنےکاحق ہے،

    گرچہ آوارہ جوں صباہیں ہم

    لگ لپک چلنے میں بلا ہیں ہم

    اسی لگ چلنے کی وجہ سے میر نے زندگی کو بہت قریب سے دیکھا اور ہر حال میں بھی دیکھا۔ اسی طرح وہ داغ دہلوی کی طرح مرثیہ کے مقامات پر غزلیں نہیں لکھتے۔ ان کی آنکھوں میں آنسو بھی ہیں اور ان کے ہونٹوں پر تبسم بھی ہے۔ کیوں کہ کیا پتہ زندگی کب کیا چیز مانگ بیٹھے۔ انہوں نے زندگی کی بات کبھی نہیں ٹالی۔ انہیں زندگی سے یہ آلودگی بہت عزیز ہے۔

    آلودہ اس گلی کے جو ہوں خاک سے تو میر

    آب حیات سے بھی نہ وہ پاؤں دھوئیے

    یہ آلودگی نت نئے رویوں میں ظاہر ہوتی رہتی ہے۔

    اپنےکوچے سے نکالو تو سنبھالے دامن

    یادگار مژۂ میر ہیں واں خار کئی

    کتنے پیغام چمن گو ہیں سو دل میں ہیں گرہ

    کسو دن ہم تئیں بھی بادسحر آوے گی

    ہے یہ بازارجنوں منڈی ہے دیوانوں کی

    یاں دکانیں ہیں کئی چاک گریبانوں کی

    کیا کیا لقب اٹھائے کیا کیا عذاب جھیلے

    تب دل ہواہے اتنا خوگر ترے ستم سے

    پشیمان توبہ سے ہوگا حرم میں

    کہ غافل چلاشیخ لطف ہوا سے

    سراپا آرزو ہونے نے بندہ کردیا ہم کو

    وگرنہ ہم خدا تھے گردل نا مدعا ہوتے

    سرمایہ صد آفت دیدار کی خواہش ہے

    دل کی تو سمجھ لیجیے گر چشم کہا مانے

    جب تک کڑی اٹھائی گئی ہم کڑے رہے

    اک ایک سخت بات پر برسوں اڑے رہے

    سبزہ و لالہ و گل ابر وہوا ہے مے دے

    ساقی ہم توبہ کے کرنے سے پشیمان ہوئے

    اب کیا کریں نہ صبر ہے دل کو نہ جی میں تاب

    کل اس گلی میں آٹھ پہر غش پڑے رہے

    لذت سے نہیں خالی جانوں کا کھپاجانا

    کب خضر سکندر نے مرنے کا مزا جانا

    آہ نکلی ہے یہ کس کی ہوس سیر بہار

    آتے ہیں باغ میں آوارہ ہوئے پرکتنے

    بارے نسیم ضعف سےکل ہم اسیر بھی

    سناہٹے میں جی کے گلستاں تلک گئے

    بالیں پہ میرے آکے ٹک دیکھ شوق دیدار

    سارےبدن کا جی اب آنکھوں میںآرہا ہے

    یہاں ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ’لگ چلنے‘ کی عادت نے احساس محرومی و ناکامی کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ ناکامیاں اور محرومیاں میر کو زندگی سے دورنہیں کرتیں بلکہ اور قریب کردیتی ہیں کیونکہ انہیں یہ معلوم ہے کہ زندگی بار بار نہیں ملتی،

    کھول کر آنکھ اڑا دید جہاں کی غافل

    خواب ہوجائے گا پھر جاگناسوتےسوتے

    لیکن اس خواہش دید کے پاؤں میں بے چارگی کی وہ زنجیر نہیں ہے جو غالب کی زبان سے یوں بولتی ہے کہ۔۔۔ رہنے دو ابھی ساغر وہ مینا مرے آگے۔ غالب نے ’ابھی‘ کے ذریعہ طلب کی بے بسی کا اظہار کیا ہے۔ لیکن یہی صورت حال میر کے یہاں شوق دید کو توانائی بخشتی ہے۔ چنانچہ ’سارے بدن کاجی‘ کھنچ کھنچاکر آنکھوں میں آجاتا ہے۔ اور ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ وہ ’جانوں کے کھپا جانے‘ کی لذت سے واقف ہیں۔

    لیکن یوں ’لگ چلنا‘ ان کے مشاہدہ کو متاثر نہیں کرتا۔ کیونکہ جب وہ کسی چیز کے بارے میں کچھ کہنا چاہتے ہیں تو اسے مناسب فاصلے سے دیکھنے کے بعد کہتے ہیں۔ اس میں ان کی بڑائی ہے۔زندگی سے ان کاگہرا لگاؤ ان کی قوت فیصلہ پر اثر انداز نہیں ہوتا۔ ضرورت پڑجاتی ہے تو وہ خود اپنے آپ سے بھی ہٹ کر باتیں کرنے لگتے ہیں۔ وہ اپنے بارے میں بھی یوں باتیں کرتے ہیں جیسے کسی اور کے بارے میں باتیں کر رہے ہوں۔ اسی لیے میں نے عرض کیا تھا کہ وہ قصہ اور قصہ گوہی نہیں ہیں بلکہ سامع بھی ہیں،

    چپکے سے آجاتے ہو آنکھیں بھر بھر لاتے ہو

    میرؔ گزرتی کیا ہے دل پر کڑھا کرو ہواکثر تم

    حال دل میرؔ کارو رو کے سب اے ماہ سنا

    شب کو القصہ عجب قصۂ جانکاہ سنا

    کس طرح سے مانئے یارو کہ یہ عاشق نہیں

    رنگ اڑا جاتا ہے ٹک چہرہ تو دیکھو میرؔ کا

    اتنی گزری جو ترے عشق میں سوا اس کے سبب

    صبر مرحوم عجب مونس تنہائی تھا

    گلی میں اس کی کیا سوگیا نہ بولا پھر

    میں میرؔ میرؔ کہہ اس کو بہت پکار آیا

    نہ پوچھ اپنی محفل میں ہے میرؔ یاں بھی

    جو ہوگا تو جیسے گنہ گار ہوگا

    میرؔ نام اک جو ان سنا ہوگا

    اسی عاشق کے یار ہیں ہم بھی

    جو ہو میرؔ بھی اس گلی میں صبا

    بہت پوچھیو تو مری اور سے

    حسرت اس کی جگہ تھی خوابیدہ

    میر کا کھول کر کفن دیکھا

    عاشق ہیں ہم تو میرؔ کے بھی ضبط عشق کے

    دل جل گیا تھا اور نفس لب پہ سرد تھا

    شریف مکہ رہا ہے تمام عمر اے شیخ

    یہ میرؔ اب جو گراہے شراب خانے کا

    جب کہا ہم میرؔ سے عاشق ہو تم

    ہوکے کچھ چپکے سے شرمائے بہت

    ان اشعار میں فاصلے کو محسوس کیا جاسکتا ہے۔ یہ وہ منزل ہے جہاں شاعر کی دونوں شخصیتیں الگ ہوجاتی ہیں۔ مندرجہ بالا اشعار میں وہ میر بول رہا ہے جو سماج کا ایک انگ ہے اور جس کے حالات بیان کیے جارہے ہیں۔ یہ وہ میر ہےجو سماج سے متصادم ہے۔ اور یہیں یہ قانون بھی بنتا نظر آرہا ہے کہ لاتعلقی کے معنی قطعی لاتعلقی کے نہیں ہیں۔ ان اشعار میں سماجی شخصیت صرف تماشائی نہیں ہے، ہو بھی نہیں سکتی۔ کیونکہ بہ ہر حال وہ اپنے دوسرے رخ کے تجربات سے متاثر ہوتی ہے۔ اس لیے،

    روز زر کچھ نہ تھا تو بارے میرؔ

    کس بھروسے پہ آشنائی کی

    عشق کے داغ کاعبث ہے علاج

    کوئی اب یہ نشان جاتا ہے

    یاد اس کی اتنی خوب نہیں میرؔ باز آ

    نادان پھر وہ جی سے بھلایا نہ جائےگا

    اور یہ باتیں سن کر دوسری والی شخصیت جواب دیتی ہے،

    آفاق کی منزل سے گیا کون سلامت

    اسباب لٹا راہ میں یاں ہر سفری کا

    یہ مکالمہ’کلیات‘ کے ایک بڑے حصہ پر پھیلا ہوا ہے۔ اور یہ اس لیے ممکن ہوا کہ حالات نے دو متصادم قوتوں میں میل کروادیا تھا۔ ایک فرد کی ان دونوں حیثیتوں میں اتنا شدید اتصال عالمی ادب میں بھی شاید ہی کہیں نظر آئے۔ میر کا سادہ اسلوب اور ان کے لہجہ کاتیقن اسی اتصال کانتیجہ ہیں۔ اور اسی اتصال کی وجہ سے میر گردوپیش کی کائنات کااظہار گہرے تعلق کولاتعلقی بناکر کرسکے،

    سرسری تم جہان سےگزرے

    ورنہ ہر جا جہان دیگر تھا

    ہرگل ہے اس چمن میں

    ساغر بھرا لہو کا

    ہر دم قدم کو اپنے رکھ احتیاط سے یاں

    یہ کار گاہ ساری دکان شیشہ گر ہے

    جہاں اب خار زاریں ہوگئی ہیں

    یہیں اگلی بہاریں ہوگئی ہیں

    جامۂ احرام زاہد پر نہ جا

    تھا حرم میں ایک نامحرم رہا

    کیا کروں شرح زندگانی کی

    میں نے مر مر کے زندگانی کی

    وغیرہ وغیرہ۔ یہاں زندگی سے بددلی کا احساس نہیں ملتا۔ میر زندگی سے دل برداشتہ ہونا توجانتے ہی نہیں کیونکہ،

    اٹھ گیا ایک تو اک مرنے کو آبیٹھے ہے

    قاعدہ ہے یہی مدت سےہمارے ہاں کا

    اس شعر میں جو ’قاعدہ ہے‘ اور ’ہمارے ہاں‘ کے ٹکڑے استعمال کیے گئے ہیں وہ محض برائے بیت نہیں ہیں۔ یہ ٹکڑے اہم ہیں کیونکہ میر کی شاعری کی بنیاد انہیں دونوں ٹکڑوں پر قائم ہے۔ ’ہمارے ہاں‘ نے دنیا کے تمام حوصلہ مندوں کی برادری بنالی ہے۔ میر بھی اسی برادری کے ایک فرد ہیں اور اسی برادری کے قوانین کی پابندی کرتے ہیں اور چونکہ یہ برادری ہر عہد میں موجود ہے اسی لیے میر بھی ہر عہد میں موجود ہیں۔ ممکن ہے کہ آنے والا زمانہ’کلیات‘ کے موجودہ ’نشتروں‘ کو نظرانداز کرکے اپنے لیے نئےنشتر ڈھونڈھ نکالے۔ لیکن جب تک آدمی حوصلہ کرتارہے گا اور آرزو کرتارہے گااور محرومیوں اورناکامیوں کا سامنا کرتا رہے گاوہ میر کے شعر گنگناتا رہے گا،

    بہت آرزو تھی گلی کی تری

    سو یاں سے لہو میں نہاکر چلے

    میر سرخ رویوں کے شاعر ہیں۔ ان کی شاعری کا بنیادی لہجہ نشاطیہ ہے۔ یہ نشاطیہ لہجہ زیادہ مقدس اس لیے ہے کہ اس لہجہ کا خالق غموں کو نظراندازنہیں کرتا بلکہ غم کو ایک حقیقت کی طرح تسلیم کرتاہے اورمتواتر اس سے ’بھڑتا‘ رہتاہے کیونکہ غم صرف ایک لمحہ ہے۔ وقت نہیں ہے۔ ناآسودگی ایک مثبت رویہ ہے کیونکہ یہی رویہ ہمیں نئی کائناتوں کی تلاش اور تخلیق پر اکساتارہتاہے۔ پیاس کااظہار شدت سے کرنا چاہیے تاکہ پانی کی ضرورت کااحساس شدید ہوسکے۔ تاکہ بے ستون کاٹے جاسکیں اور دریاؤں کے رخ بدلے جاسکیں اور وحشی ندیوں کے پاؤں میں زنجیریں ڈالی جاسکیں۔ میر کی غزلوں میں یہ تمام باتیں یوں ہی نہیں موجود ہیں۔ ایسا اس لیے ہے کہ ’’کلیات میر‘‘ کوئی اعلان نامہ نہیں ہے شعر اورخاص طور پر غزل میںزیادہ صفائی کی گنجائش بھی نہیں ہوتی۔ پھر بھی میر ’جانوں کے کھپاجانے‘ کی لذت کا اظہارکرنےمیں کامیاب نظر آتے ہیں۔ میر مجرد اصولوں یا خیالوں کےشاعر نہیں ہیں۔ اس لیے ان کایہی کہہ دینا کافی ہے،

    دل ڈھائے کے جو کعبہ بنایا تو کیا ہوا

    یعنی بنیادی چیز دراصل کعبہ نہیں ہے بلکہ دل ہے۔ چنانچہ جو چیزیں ہماری داخلی زندگی کو مطمئن نہ کرسکیں وہ بے وقعت ہیں۔ خارجی دنیا کی کام یابی یا ناکام یابی کی کسوٹی، فرد، کی داخلی زندگی ہے۔اگر کوئی نظام حیات فرد کو داخلی طو پرمطمئن نہیں کرسکتا تو یقیناً اس کے خارجی ڈھانچہ میں کوئی نقص ہے۔ انسان اسی لیے خارجی ڈھانچوں کو تبدیل کرتارہتاہے اوراسےتبدیل کرتے کرتے خود بھی تبدیل ہوجاتاہے۔ چنانچہ ناآسودگی کی کہانی از سر نو شروع ہوجاتی ہے کیوں کہ خارجی نظام میں جو تبدیلی ہوئی تھی وہ پرانے آدمی کے لیے ہوئی تھی۔ اس لیے ہر موڑ پرمیر کا یہ شعر پڑھنا ہوگا۔

    بہت آرزو تھی گلی کی تری

    سو یاں سے لہو میں نہا کر چلے

    چنانچہ ہم پھر اس خارجی نظام کو بدلنے کی فکر میں لگ جاتے ہیں۔ اور اس لیے،

    اٹھ گیا ایک تو اک مرنےکو آبیٹھے ہے

    مدتوں سے ہے یہ دستور ہمارے ہاں کا

    یہ ’موت‘ دس بیس سال کی نہیں ہے۔

    میں یہ نہیں کہتا کہ میر نےیہ اشعار بھی سوچ کر لکھے ہوں گے، ہرگز نہیں۔ میں صرف یہ عرض کرناچاہتا ہوں کہ ہم میر کے شعروں کے ذریعہ اس نتیجہ پر پہنچ سکتے ہیں۔۔۔ یعنی ہر بڑے شاعرکی طرح میر نے بھی زمان و مکان کی دیواریں گرادی ہیں۔

    مأخذ:

    شب خون (Pg. 13)

      • ناشر: سید رشید قادر
      • سن اشاعت: 1966

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے