Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

پاؤنڈ کی ہدایات نئے لکھنے والوں کو

اعجاز احمد

پاؤنڈ کی ہدایات نئے لکھنے والوں کو

اعجاز احمد

MORE BYاعجاز احمد

     

    ’’نئے ادب‘‘ کے نام سے اظہار کے نئے نئے طریقے ہر زبان میں وقتاً فوقتاً ایجاد ہوتے رہتے ہیں۔ اور یہ کوئی تعجب کی بات بھی نہیں ہے کیونکہ تحریر کا اسلوب دراصل ذہنی اور جذباتی زندگی کا اسلوب ہوتا ہے اور اگر نیا اسلوب واقعی ٹھوس اور سچاہے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ سوچنے اور محسوس کرنے کا ایک نیا طرز دریافت کرلیا گیا ہے۔ مگر یوں بھی ہوتاہے کہ جس چیز کو ہم وقتی طور پر اظہار کا نیا اسلوب کہتے ہیں وہ یا تو کسی پرانے اسلوب کی بازگشت ہوتی ہے یا لکھنے والے کے خراب ہاضمے کی دلیل۔ بعض اوقات جو چیز ’’نئی نظم‘‘ کے عنوان سے چھپتی ہے وہ محض ایک چٹکلے کی حیثیت رکھتی ہے جو ادب کے چالاک قاری صرف اس زور پر لکھتے اور رواج دیتے ہیں کہ تھوڑا بہت ادب پڑھا ہوتا ہے۔ یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ اچھا شعر تخلیق کرنا بہت صلاحیت اور جوکھم کا کام ہے اور اپنی اصل حیثیت سے بھی واقف ہوتے ہیں۔ اچھا شعر کہہ نہیں پاتے۔ لہٰذا چٹکلے تیار کرکے ناشرکے سرپردے مارتے ہیں۔ ناشر بہرحال تاجر ہوتاہے۔ وہ کتاب ہی ایسی چھاپے گا جس سے منفعت کی راہیں نکلیں۔ پس کتاب چھپتی ہے۔ گرمیوں گرمیوں خوب تذکرے رہتے ہیں۔ پھر برسات آتی ہے۔ پھر جاڑے۔ سال ختم ہوتے تک کسی کو یاد بھی نہیں رہتا کہ کیا چھپا تھا اور کس نے لکھا تھا۔ 

    ’نئی شاعری‘ کے ذیل میں آج کل بھی بہت کچھ چھپ رہا ہے اس شاعری کے متعلق کچھ کہنے کو میرا جی بھی چاہتا تھا۔ مگر کہتے ہوئے ڈرتا ہوں کہ میں کچھ بولاتو شاعر حضرات فرمائیں گے کہ ’’میاں! غزل لکھی نہ نظم۔ ڈیڑھ بالشت کے آدمی ہو مگرتنقید کرنے میں سب سے آگے‘‘ کوئی یوں کہے تو میں کیا کہوں؟ اس اعتراض سے بچنے کی ترکیب میں نے یہ وضع کی کہ جو کچھ خود کہنا چاہتا تھا وہی پاؤنڈ کی تحریروں میں سے نکال لایا۔ اردو کے نئے شاعر بھی آخر اپنی سندیورپ سے ہی منگواتے ہیں اور پھر پاؤنڈ صاحب تو وہ شخص ہیں کہ پچھلے پچاس پچپن برس سے ہر ’’نئی نسل‘‘ کو سبق دیتے چلے آرہے ہیں۔ ویسے عسکری صاحت تو کہتے ہیں کہ پاؤنڈ آج کل دنیا کاسب سے بڑاشاعر ہے۔ میں اس سلسلے میں کچھ نہیں کہنا چاہتا کیونکہ عسکری صاحب کہتے ہیں تو پھر ٹھیک ہی کہتے ہوں گے۔ میں نے دنیا بھر کی شاعری تو پڑھی نہیں ہے کہ اتنی بڑی بات اس قدر وثوق سے کہہ سکوں۔ البتہ اتنا عرض کروں گا کہ نقاد دوقسموں کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو پڑھنے والے کو بہتر قاری بنانا چاہتے ہیں اور دوسرے وہ جو پڑھنے والے کو بہتر ادیب بننے میں مدد دیتے ہیں۔ پاؤنڈ صاحب دوسری قسم کے نقاد ہیں اور لکھنے والے کو بہرحال اسی طرح کے نقادوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ 

    پیش نظر تحریر کوئی ایک مضمون نہیں ہے بلکہ پاؤنڈ کی مختلف تحریروں سے اقتباسات نکال کر ایک عنوان کے تحت جمع کردیے گئے ہیں۔ پاؤنڈ کی جتنی تحریریں اس وقت میرے سامنے ہیں ان میں سے سب سے پہلی تحریر ۱۹۰۷ء کی ہے۔ اس حساب سے اس کی تحریر کی عمر چھپن برس بنتی ہے۔ اس طویل مدت میں پاؤنڈ نے بہت کچھ لکھا ہے اور یہ تحریریں ہزارہا صفحوں پر پھیلی پڑی ہیں۔ پیش نظر انتخابچہ کسی صورت سے بھی پاؤنڈ کی تنقیدی صلاحیتوں کی نمائندگی نہیں کرتا۔ نمائندہ انتخاب پیش کرنا میرا مقصد بھی نہیں۔ میں تو محض وہ باتیں نکال لایا جو ہمارے عہد کی اردو شاعری کی بدیہی خامیوں پر روشنی ڈالتی ہیں۔ یہ اقتباسات ترجمہ کرتے ہوئے میں نے کسی خاص تسلسل کابھی خیال نہیں رکھا کیونکہ میں تو فقط یہ دیکھنا چاہتا ہوں کہ برطانیہ کی جس نسل کی تقلید ہم کر رہے ہیں اس نسل کے اچھے شاعروں نے آخر کن اصولوں کے تحت شعر لکھے اور کن خوبیوں کو اچھی تحریر کا ضامن جانا۔ جہاں جہاں مجھے ان اصولوں کا ذکر ملا میں نے فقرے کا ترجمہ کرڈالا۔ مضمون کی ترتیب یہ ہے کہ پہلے حصے کے اقتباسات’’پڑھائی کی الف۔ ب۔ ت‘‘ میں سے ہیں۔ دوسرے حصے کے اقتباسات پاؤنڈ کے مختلف مضامین سے۔ اور تیسرے حصے کے فقرے اس کے خطوط میں سے ترجمہ کیے گئے ہیں۔ واضح رہے کہ خطوط کی صورت میں پاؤنڈ نے جدید انگریزی تنقید کی سب سے اہم اوردلچسپ دستاویز تیار کی ہے۔ اس کے بیشتر خطوط فی الحال چھپے نہیں ہیں مگر جو بھی چھپ گئے ہیں تنقید کی اچھی اچھی کتابوں پر بھاری ہیں۔ 

    پاؤنڈ ہی نے کہیں لکھا ہے کہ خراب شاعری ہمیشہ ایک سی ہی ہوتی ہے اور اپنے بودے پن کے لحاظ کے اٹلی کا Petra schism اور چین کے ’’چاول کے سفوف‘‘ والے شعرا قطعاً یکسا ں ہیں۔ کچھ یہی بات اچھی شاعری کی بھی ہے۔ اچھے بری تحریر کے جواصول پاؤنڈ نے انگریزی کے لیے وضع کیے تھے وہ اردو شاعری پر بھی جوں کے توں صادق آتے ہیں۔ میں اپنی کہہ چکا۔ اب ذراپاؤنڈ پڑھیے اور اندازہ کیجیے کہ آج کی اردو شاعری ’’چاول کے سفوف‘‘ والی شاعری ہے یا ’’گفتارِ موزوں‘‘ والی۔ 

    (۱) 
    تنقید کے ذیل میں بہت سی الا بلامحض اس لیے چھپی اور ضائع گئی کہ دو بالکل متضاد قسم کی تحریروں میں امتیاز نہیں کیا گیا۔ 

    (الف) وہ کتابیں جو آدمی اس لیے پڑھتا ہے کہ اس کی صلاحیتوں میں اضافہ ہوتاکہ وہ چیزوں کو پہلے کی نسبت بہتر طریقے سے اور کم وقت میں سمجھ سکے اور واقفیت حاصل کرے۔ 

    اور

    (ب) وہ کتابیں جو آدمی محض وقت گزارنے کے لیے یا افیم کے طو رپر یا ذہنی بستر کی حیثیت سے استعمال کرتاہے۔ 
    (پڑھائی کی الف۔ ب۔ ت صفحہ ۸۸)

    ایماندارنقادکواس بات کے لیے ہمیشہ تیار رہناچاہیے کہ اس کے عہد میں بہت ہی کم تحریریں واقعی سرکھپانے کے لائق ہوں گی۔ مگر یہ بھی چاہیے کہ نئی اور قابل قدر تحریر پہنچاننے کے لیے ہر وقت تیار رہے اور جب کوئی ایسی تحریر سامنے آئے تو پچھلی تحریر کو پیچھے ہٹاکر نئی تحریر کو آگے بڑھادے۔ (صفحہ۹۱) 

    نااہل لکھنے والا بے مصرف الفاظ کے استعمال سے پہچانا جائے گا۔ 

    کسی تحریر کا تجزیہ کرتے وقت پڑھنے والے کا پہلا کام تو بس یہی ہے کہ ایسے الفاظ دیکھتا جائے جن کا اپنا کوئی مصرف نہیں ہوتا۔ یعنی جو الفاظ تحریر کے مفہوم میں کوئی اضافہ نہیں کرتے یاجو پڑھنے والے کا ذہن تحریر کے اہم تر پہلوؤں سے ہٹاکر کم اہم پہلوؤں کی طرف لے جاتے ہیں۔ (صفحہ ۶۳) 

    کسی لفظ یا ترکیب کے ’’بے مقصد‘‘ ہونے کا سوال محض گنتی کامسئلہ نہیں ہے۔ (صفحہ ۶۹) 

    اچھے لکھنے والے وہ ہیں جو زبان کی صلاحیتیں برقرار رکھیں یعنی واضح اور کھری زبان کو رواج دیں۔ یہ کوئی لازم نہیں کہ اچھا لکھنے والاہمیشہ کسی مقصد کے تحت ہی لکھتے نہ برالکھنے والا وہ ہے جو تعمیری کاموں میں حصہ نہیں لیتا۔ (صفحہ ۳۲) 

    کہتے ہیں کہ موپساں کو لکھنا فلابیئر سے سکھایا تھا۔ جب موپساں ٹہل کر آتاتو فلابیئر اسے کسی شخص کاحلیہ بیان کرنے کی ہدایت دیتا۔ مثلاً کسی ایسی سبزی بیچنے والی عورت کا حلیہ بیان کرنے کو کہتا جسے فلابیئر پہلے سے نہ پہچانتا ہو اور جسے اگلی بار ٹہلنے کے لیے جاتے ہوئے دونوں دیکھتے۔ فلابیئر شرط رکھتاکہ بیان ایسا ہو کہ اس عورت کو فلابیئر خود بخود پہچان لے اور وہ بیان کسی دوسری سبزی بیچنے والی پر صادق نہ آتاہو۔ (صفحہ ۶۵) 

    اگرآپ ادب میں ’’کھرے عناصر‘‘ تلاش کرنا شروع کریں تو پتہ چلے گاکہ ادب پیدا کرنے والے لوگ مندرجہ ذیل قسموں میں بانٹے جاسکتے ہیں۔ 

    (۱) ایجاد کرنے والے۔ یعنی وہ لوگ جنہوں نے کوئی نیا اسلوب دریافت کیا یا جن کی کوئی تحریر ایسی ہے جس میں کسی مخصوص اسلوب کی پہلی مثال ملتی ہے۔ (خسروؔ) 

    (۲) اساتذہ۔ وہ لوگ جنہوں نے مختلف مروجہ اسالیب یکجا کیے اور انہیں ایجاد کرنے والوں کی سی مہارت کے ساتھ یا ان کی نسبت زیادہ اچھی طرح سے استعمال کیا۔ (میرؔ و سوداؔ) 

    (۳) تخفیف کرنے والے یعنی وہ لوگ جو پہلی دو قسم کے لکھنے والوں کے بعد آئے اور اپنا کام اتنی زیادہ مہارت کے ساتھ انجام نہیں دے پائے۔ (مومنؔ، ناسخؔ) 

    (۴) اچھے لکھنے والے جن کی اپنی کوئی منفرد خوبی نہیں ہوتی۔ وہ لوگ جو تقدیر کی خوبی سے ایسے عہد میں پیدا ہوئے جب کہ ملک کاادب اچھی حالت میں تھا یا ادب کی کوئی مخصوص صنف واقعی جاندار تھی (قائم چاند پوری یا میرؔ کے آدھی درجن ہمعصر) 

    (۵) خالص ادب یا انشائیے تحریر کرنے والے۔ یعنی وہ حضرات جنہوں نے ایجاد کچھ بھی نہیں کیا مگر کسی ایک مخصوص صنف میں لکھتے چلے گئے، جنہیں کسی صورت سے بھی بڑاادیب نہیں کہاجاسکتا اور جو اپنے عہد کی مکمل عکاسی نہیں کرپائے۔ (سیمابؔ یا نیازؔ سکول) 

    (۶) جو چٹکلوں کو رواج دیتے ہیں۔ 

    جب تک پڑھنے والا پہلی دو قسموں کے ادب سے واقف نہیں ہوتا وہ ادب کا مطالعہ ایک مربوط روایت کی حیثیت سے نہیں کرسکتا۔ ممکن ہے وہ اپنی ذاتی پسند کی چیز پہچان سکتا ہو۔ یہ بھی امکان ہے کہ وہ کتابوں سے عشق کرنے کے سارے لوازمات نبھاتا ہو یعنی اس کے پاس نہایت اہتمام کے ساتھ چھپی ہوئی اور موٹی موٹی جلدوں والی کتابوں کاذخیرہ ہو مگراسے خود اپنے علم کے حدود پتہ نہیں ہوں گے اور وہ پچھلی تحریروں کے حوالے سے نئی تحریر کی قدر و قیمت کاتعین نہیں کرسکے گا۔ اسّی یا سو سال پرانی کتابوں کے متعلق تو وہ بھلی برُی رائے شاید دے دے مگرجب کوئی نیالکھنے والا روایت سے انحراف کرکے ادب میں کوئی نیا اضافہ کرے گاتو ایسا پڑھنے والانئی تحریر کے متعلق کوئی رائے قائم کرنے کا قطعاً نااہل ہوگا۔ (صفحات ۴۰۔ ۳۹)

    نئے لکھنے والے کے لیے پہلا امتحان
    (۱) چاہیے کہ ایک دوسرے کی تحریریں دیکھیں اور یہ دیکھیں کہ کتنے الفاظ زائد از ضرورت ہیں۔ کتنے الفاظ ایسے ہیں جن سے کوئی نئی بات معلوم نہیں ہوتی۔ 

    (۲) کتنے الفاظ ایسے ہیں جن سے مفہوم مبہم ہوجاتا ہے۔ 

    (۳) کتنے الفاظ ایسے ہیں جن کی نشست قواعد کی رو سے غلط ہے اور یہ کہ آیا اس تبدیلی سے تحریر میں کوئی نیا زور یا زیادہ دلچسپی پیدا ہوئی ہے۔ 

    (۴) کیا فقرہ مبہم ہے؟ کیا فقرے کے ایک سے زائد معنی بنتے ہیں؟ کیا ایسے معنی بھی بن جاتے ہیں جوخود لکھنے والے کے مطلب سے سواہوں؟ کیا فقرے کو ایسے پڑھاجاسکتاہے کہ مفہوم لکھنے والے کے مطلب سے بالکل مختلف بن جائیں؟ 

    (۵) کیا تحریر ایسی ہے کہ کاغذ پر صاف اور سلیس نظر آئے۔ مگر بلندآواز سے پڑھتے وقت مبہم ہوجائے۔ (صفحات (۶۵۔ ۶۴) 

    دوسرا امتحان
    (۱) کسی درخت کا بیان لکھیے۔ 

    (۲) ایسے لکھیے کہ درخت کانام تحریر میں نہ آئے (نیم، کیکر، برگد وغیرہ) مگر ایسا واضح ہوکہ پڑھنے والا درخت کو فوراً پہچان لے اور کسی دوسرے درخت کاگمان نہ ہو۔ (صفحہ ۶۶) 

    ہرمرتبہ امتحان کاایک نسخہ بہت کارآمد ثابت ہوگا۔ ’’کیا یہی مواد کسی دوسری صنف میں بہتر طریقے سے استعمال ہوسکتا تھا؟ (صفحہ ۷۶) 

    ’’لیکن جناب کیا ہمیں ورڈ سورتھ نہیں پڑھنا چاہیے؟‘‘ 

    ’’ہاں میرے بچو ضرور پڑھو۔ بلکہ جو جی چاہے پڑھو۔ مگرمجھ سے یا کسی اور سے پوچھنے کے بجائے اپنے طور پر خود دیکھو کہ کتاب کے ورق پر کیا لکھا ہے۔‘‘ 

    ’’کیا ورڈ سورتھ صاحب ایسے الفاظ استعمال کرتے ہیں جن سے معنی میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا؟‘‘ 

    ’’سوئنبرن صاحب (SWINBURNE) کے متعلق مشہور ہے کہ وہ بہت سے الفاظ ایسے استعمال کرتے تھے جن سے فقط رنگ یا ’’جمال‘‘ ہی ظاہر ہوتاتھا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ عورت کے بیان میں بھی وہی اسمائے صفت استعمال کرتے ہیں جو پہلے شفق کی تعریف میں استعمال کرچکے ہوں۔‘‘ (صفحہ ۷۷) 

    یاد رہے کہ بیانیہ تحریر کے کچھ اوصاف ایسے بھی ہیں جو ہومر، روڈیارڈکیلنگ اور کیلنگ کے مایہ ناز شاگرد جناب ایڈگرویلس میں مشترک ہیں۔ 

    (۲) 
    زبان کا مسئلہ
    مت استعمال کرو وہ لفظ جو ضرورت سے زائد ہے یا وہ اسم صفت جس سے کسی نئی بات کا انکشاف نہیں ہوتا۔ 

    ابہام سے خوف کھاؤ۔ خراب شاعری میں وہ باتیں مت دہراؤ جو اچھی نثر میں کہی جاچکی ہیں۔ یہ مت سمجھو کہ اگر تم اچھی نثر کے بے انتہا مشکل فن کی دقتوں سے کتراکے اپنی بات کو الگ الگ مصرعوں میں پھیلادوگے تو ذہین اشخاص بھی اس دھاندلی سے مرعوب ہوجائیں گے۔ 

    جس بات سے پڑھا لکھا شخص آج تنگ آگیا ہے۔ اسی بات سے کل عوام بھی تنگ آجائیں گے۔ 

    یہ مت سمجھو کہ تحریر کافن موسیقی کے فن سے سہل ہے اور جب تک تم لکھنے کی مشق پر کم از کم اتنی ہی وقت ضائع نہیں کرلیتے جتنا پیانو کا معمولی استاد موسیقی کے فن پر ضائع کرتاہے تو یہ مت سمجھو کہ تمہاری تحریر ماہرین فن کو بھی متاثر کرے گی۔ 

    مقدور بھر کوشش کرو کہ تمہاری تحریر زیادہ سے زیادہ بڑے فن کاروں سے متاثرہو۔ مگر ساتھ ہی ساتھ تمہارے اندر اس قدر شرافت بھی ہونی چاہیے کہ یا تو اعتراف کرلو کہ تم نے یہ اثرات قبول کیے ہیں یا ان اثرات کواس طور سے قبول کرو کہ قاری کی نظروں سے چھپ جائیں۔ (ادبی مضامین، صفحات ۵۔ ۴) 

    آہنگ اور قافیہ
    یہ مت سمجھو کہ شاعری میں وہ بات بھی چل جائے گی جو غیردلچسپ ہونے کی بناپر نثرمیں نہیں چل سکی۔ 

    اپنی بات کے ہاتھ پیر کاٹ کے الگ الگ مصرعوں میں بندمت کرو۔ ایسے مت لکھو کہ بات مصرعے کے آخر میں آکر ایک دم ختم ہوجائے اور اگلا مصرعہ دھچکے کے ساتھ شروع ہو۔ شعر ایسے لکھو کہ آہنگ کی لہر پھیل کراگلے مصرعے میں پہنچتی ہوئی معلوم ہو۔ بشرطیکہ تم خود یہ نہ سمجھتے ہو کہ مصرعے کے آخر میں ٹھہراؤ ضروری ہے۔ 

    ساتھ ہی یہ بھی خیال رکھو کہ اصوات کاآہنگ مرتب کرتے وقت تم الفاظ کی اصل شکل یا ان کی اصل آواز یا ان کے معنی بگاڑ نہیں رہے ہو۔ 

    قافیہ شعر میں لذت صرف اسی صورت سے پیدا کرسکتا ہے کہ اس میں کوئی انوکھا پن ہو۔ یہ بھی نہیں کہ قافیہ اس قدر انوکھاہو کہ اچنبھا بن کے رہ جائے۔ تاہم اگرقافیہ استعمال کررہے ہو تو ڈھنگ سے کرو۔ 

    اگرکوئی متناسب ہیئت (غزل، رباعی وغیرہ) استعمال کر رہے ہو تو ایسے مت کہو کہ پہلے جو بات کہنی ہوئی وہ کہہ دی اور پھر اوپر سے بقایا مصرعے ٹانک دیے۔ (صفحات ۷۔ ۶) 

    کچھ اعلانات
    آہنگ۔ میں ’’قطعی آہنگ‘‘ میں یقین رکھتا ہوں۔ یعنی ایسے آہنگ میں جواظہار پانے والے جذبے اور جذبے کی مخصوص کیفیت کے ساتھ مطابقت رکھتا ہو۔ شاعر کو چاہیے کہ آہنگ معنی کی وضاحت کے لیے استعمال کرے۔ اسی طرح نہ تو وہ خودکسی کا چربہ اتارلے گانہ کوئی اوراس کی نقل کرپائے گا۔ 

    علامتیں۔ میرا ایمان ہے کہ مخصوص قدرتی چیزیں ہی صحیح اور مکمل علامت بن سکتی ہیں اور یہ کہ اگر کوئی علامتیں استعمال کر رہا ہے تو ایسے کرے کہ علامتی اسلوب سے معنی خبط نہ ہوجائیں۔ تاکہ جو لوگ علامت کو علامت کے طور پر نہیں سمجھتے یعنی جن کے لیے شاہین محض شاہین ہے وہ بھی شعر کی فضا اورکیفیت سے لطف حاصل کرسکیں۔ 

    ہیئت۔ میں سمجھتا ہوں کہ مواد ’’رواں‘‘ بھی ہوتا ہے اور ’’ٹھوس‘‘ بھی اور یہ کہ کچھ نظموں کی ہیئت ایسی ہوتی ہے جیسے طشت میں گرتا ہوا پانی اور کچھ کی ہیئت ایسی ہوتی ہے جسے درخت کاتنا ہوتا ہے اور یہ کہ مقفیٰ اصناف کے بھی کچھ فائدے ہوتے ہیں اور یہ کہ بہت سے موضوعات ایسے بھی ہیں جو ان اصناف میں صحت کے ساتھ پیش نہیں کیے جاسکتے۔ 

    میں سمجھتاہوں کہ شعر لکھنے والے کو چاہیے کہ سارے اصناف اور بحور پر عبور حاصل کرے۔ میں نے خود یہ مہارت حاصل کرنے کی کوشش بڑی باقاعدگی سے کی ہے۔ اور ان ادوار کی تحقیق تو بالخصوص کی ہے جن میں کوئی مخصوص صنف ایجاد ہوئی ہو یا اپنے عروج کو پہنچی ہو۔ (صفحہ ۹) 1

    اچھی شاعری کبھی بیس برس پرانے اسلوب میں نہیں لکھی گئی کیونکہ ایسی طرز میں لکھنے سے صاف پتہ چلتاہے کہ لکھنے والا اصل زندگی کے بجائے کتابوں، روایتی اسالیب اور گھسی پٹی اصطلاحوں کے حولے سے سوچتاہے۔ ویسے یہ بھی ممکن ہے کہ جب کوئی شخص اپنے فن کارشتہ اصل زندگی سے ٹوٹتاہوامحسوس کرے تو متروک اسالیب دریافت کرلائے بشرطے کہ ڈوبے ہوئے اس اسلوب میں کوئی خوبی ایسی ہو کہ فن اپنے اصل جوہر (یعنی زندگی) کے ساتھ دوبارہ مربوط ہوجائے۔ (صفحہ۱۱) 

    اور جہاں تک چٹکلوں کا سوال ہے تو بات دراصل یہ ہے کہ ادب میں بیماریاں گنتی کی ہی ہواکرتی ہیں اور ان دوچاربیماریوں کے علاوہ کوئی اور ہو ہی نہیں سکتی۔ لہٰذا یہ بھی امکان ہے کہ آپس میں کسی قسم کے لین دین کے بغیر ہی الگ الگ اوردورافتادہ ممالک کے ادب میں ایک ہی قسم کے جراثیم پیدا ہوجائیں۔ اچھاطبیب جانے پہچانے مرض کی تشخیص فوراً کرے گا، چاہے اظہار کاطریقہ سطحی طور پر کتناہی مختلف کیوں نہ ہو۔ (صفحہ ۲۴) 

    آزاد نظم
    میں سمجھتاہوں کہ آزاد نظم صرف اس صورت میں لکھنی چاہیے کہ جب ایسا کیے بغیر چارہ نہ ہو۔ یعنی صرف اس وقت جب نظم کا اپنا آہنگ مروجہ بحور کے آہنگ سے زیادہ خوبصورت، زیادہ سچااور اظہار پانے والے جذبے سے قریب تر ہو۔ ایسا آہنگ جسے پڑھ کر قاری جانی پہچانی بحور سے اکتاہٹ محسوس کرنے لگے۔ 

    اپلیٹ نے بات بالکل ٹھیک کہی ہے کہ ’’جو شخص شعر سلیقے سے کہنا چاہتاہے۔ اس کے لیے کوئی نظم آزادنہیں ہوا کرتی۔‘‘ (صفحہ ۱۲) 

    (۳) 
    یاد رکھو کہ آدمی کااصل کام وہ ہے جو وہ کرنے والا ہے نہ کہ وہ جو اب ماضی کاحصہ بن چکا۔ (خط نمبر۴۔ صفحہ ۴۲) 

    کیا تم امریکہ کے شاعر کو سمجھا سکتی ہو کہ شاعری ایک فن ہے، ایسا فن ہے جس کی اپنی ہیئت ہوتی ہے، اپنا اسلوب ہے، ایک ایسا فن جس کے امکانات ہمیشہ بڑھتے اور پھیلتے رہتے ہیں اور اگر یہ فن زندہ رہے گاتو بس اسی صورت سے کہ اظہار کے طریقے بدلتے رہیں؟ کیا تم اسے سمجھا سکتی ہو کہ شعر سے یہ مراد ہرگز نہیں ہوتی کہ جو سماجی مسائل پچھلے سال کے رسالوں میں چھپ چکے ہیں وہ اب بحر اور قافیے کے ساتھ دوبارہ چھاپے جائیں۔ (خط نمبر۵۔ صفحہ ۴۲) 

    یاد رہے کہ معنی آواز کے نظام میں جکڑے ہوئے ہوتے ہیں۔ (خط ۱۷۳۔ صفحہ ۲۲۶) 

    بڑا ادب وہ زبان ہے جس میں معنی کی بارود کوٹ کوٹ کر بھری گئی ہو۔ 2

    شاعری میں اچھی نثر کی سی سادگی اور ویسا ہی ٹھوس پن ضروری ہے۔ 3

    شاعری بھی اتنی ہی محنت سے لکھی جانی چاہیے جتنی محنت اچھی نثر کے لیے درکار ہے۔ شعر کی زبان نکھری ہوئی زبان ہونی چاہیے اور بڑھتی ہوئی شدت (یعنی سادگی) کے علاوہ اس میں کوئی ایسی خصوصیت نہیں ہونی چاہیے کہ بول چال کی زبان سے ممتاز ہوسکے۔ نہ کتابی الفاظ کی ضرورت ہے نہ چربے اتارنے کی اورنہ زبان کی سادہ قواعد کو توڑنے مروڑنے کی۔ شعر کی زبان ایسی ہی سادہ ہونی چاہیے جیسی موپساں کی بہترین نثر اور ویسا ہی ٹھوس پن ضروری ہے جیسا ستاں دال کی نثر میں ہوتاہے۔ ضروری ہے کہ شعر کاصوتی آہنگ معنی سے بھی مربوط ہو۔ (خط نمبر ۶۰، صفحہ ۹۱) 

    اور تکنیک سے مراد یہ ہے کہ آدمی نہ صرف اپنی چھاتی کابوجھ اتاردے بلکہ وہی بوجھ جوں کا توں دوسرے کی چھاتی میں پیوست بھی کردے۔ (خط ۲۴، صفحہ ۶۰) 

    ہمیں وضاحتی تنقید نہیں چاہیے۔ ضرورت سلیقے سے انتخاب کیے ہوئے مجموعوں کی ہے۔ سینڈبرگ نے مجھے شکاگو سے ایک خط میں لکھا ہے کہ ’’جب ہم لکھنے والے ایک دوسرے کی تحریریں بھی خرید کے نہیں پڑھ سکتے تو یوں لگتا ہے جیسے جہنم میں سلگ رہے ہیں۔‘‘ 4

    اگر کوئی شخص چھ مصرعے واقعی اچھے لکھ دے تو ادب میں اس کانام دائم رہے گا۔ کیا یہ اعزاز ایسا نہیں ہے کہ آدمی اسے حاصل کرنے کے لیے تھوڑی بہت محنت کرے؟ کیا کوئی نقاد ایسا نہیں مل سکتا جو کسی چیز کو اس وقت تک اچھا نہ کہے جب تک ایسا کہنے کے لیے وہ اپنی پوری شہرت خطرے میں ڈالنے کے لیے تیار نہ ہو۔ (خط نمبر۹۔ صفحہ ۴۶) 

    اور اگر تم وہی خیالات چھاپ رہی ہو جس پر لوگ پہلے سے ہی متفق ہیں تو پھر یہ خیالات چھاپنے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ 
    (خط نمبر۱۰۔ صفحہ۴۷) 

    ڈھنگ کی تنقید اسی صورت سے پیدا ہوسکتی ہے کہ سمجھ بوجھ رکھنے والے کچھ لوگ مل بیٹھیں اور ایک دوسرے سے اختلافات ظاہر کریں۔ میں اس قسم کے گدھوں میں سے ہوں جو اجتماعی ذہانت میں یقین رکھتے ہیں۔ (خط نمبر۹۔ صفحہ ۴۶) 

    پڑھائی لکھائی کا اور مضمون سے واقفیت کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ آدمی وہ تحریریں پہچاننے لگتا ہے جن میں سرکھپانے کی مطلق کوئی ضرورت نہیں ہوتی، وہ نقطہ سمجھ میں آجاتا ہے جہاں سے وہ خود اپنا کام شروع کرسکتا ہے۔ 
    (خط نمبر ۲۳۳۔ صفحہ ۲۹۸) 

    یاخداوندا! کیا کوئی شخص ایسا نہیں ہے جو اٹھارویں صدی کے گھسے ہوئے محاورے استعمال کرنے کے بجائے صاف اور سادہ بول چال کی زبان استعمال کرسکے۔ (خط نمبر ۱۳۔ صفحہ ۵۰)

     

    حاشیے

    (۱) ہر بحر میں اشعار کہے عمر کو کھویا (میرؔ) اور ایک صنف میں لکھنے والے کومیر صاحب یک فنی کہتے تھے۔

    (۲ تا ۴) یہ فقرے مجھے زبانی یاد تھے۔ اسی طرح ترجمہ کردیے۔ اب پاؤنڈ کے خطوط کا مجموعہ دیکھا تو وہ خطوط نظر نہیں آئے جن میں یہ فقرے ملتے ہیں۔

     

    مأخذ:

    ادب لطیف،لاہور (Pg. 58)

      • ناشر: دفتر ماہنامہ ادب لطیف، لاہور
      • سن اشاعت: 1963

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے