Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

پریم چند دور حاضر کے افسانہ نگار کی نظر سے

طارق چھتاری

پریم چند دور حاضر کے افسانہ نگار کی نظر سے

طارق چھتاری

MORE BYطارق چھتاری

    تخلیقی فن کار کی شخصیت اتنی الجھی ہوئی اور پیچیدہ ہوتی ہے کہ کسی ایک زمانے میں اس کی تخلیقات کو جو اس کی شخصیت کا عکس ہوتی ہیں، پوری طرح سمجھ لینا ممکن نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بظاہر سادہ اسلوب اختیار کرنے والے پریم چند کی تصنیفات کی بہت سی گھتیاں ہمارے ناقدین آج تک نہیں سلجھا پائے ہیں۔ ہر نظریے کا نقاد ان کے افسانوں میں اپنے پسندیدہ معانی تلاش کر لیتا ہے اور مطمئن ہو جاتا ہے۔

    کچھ نقادوں نے انھیں آدرش وادی بنا کر پیش کیا ہے تو کچھ ان کے ناولوں اور افسانوں کی خوبی سادہ بیانی تسلیم کرتے ہیں۔ کچھ اہلِ دانش نے انھیں محض خارجی مسائل پر لکھنے والا اکہرے بیانیہ کا مصنف سمجھ کر ان کی بیشتر تخلیقات کو فنی لحاظ سے کمزور اور معمولی ثابت کیا ہے۔ حالانکہ ان عالموں کی رایوں سے خود کو محفوظ رکھ کر جب ہم میں سے بیشتر معاصر افسانہ نگار پریم چند کو پڑھتے ہیں تو صورت حال بالکل مختلف نظر آتی ہے۔ پریم چند بہت پیچیدہ فنکار کی حیثیت سے معنی خیز انداز میں مسکراتے دکھائی دیتے ہیں۔ اپنے فن کے متعلق پریم چند نے جو باتیں کی ہیں، ان سے یہ ظاہر ہوتا کہ ان کے فن پاروں کو سمجھنے کے لیے قارئین کو آڑے ترچھے اور مشکل راستوں سے گزرنا ہوگا۔ وہ اپنی کتاب ’’میرے بہترین افسانے’’ کے دیباچے میں لکھتے ہیں،

    ’’واقعہ ہی موجودہ افسانے یا ناول کا اہم جزو نہیں ہے۔ ناول کے کرداروں کا ظاہری رنگ ڈھنگ دیکھ کر ہم مطمئن نہیں ہوتے بلکہ ہم ان کے ذہن کی گہرائیوں تک پہنچنا چاہتے ہیں اور جو مصنف انسانی فطرت کے رموز و اسرار کھولنے میں کامیاب ہوتا ہے، اسی کی تصنیف مقبول ہوتی ہے۔ ہم محض اس چیز سے مطمئن نہیں ہوتے کہ کسی خاص آدمی نے کوئی کام کیا ہے بلکہ ہم یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ ذہنی مدوجزر سے ہی مجبور ہوکر اس نے یہ کیا ہے۔‘‘

    وہ آگے لکھتے ہیں،

    ’’موجودہ افسانے کا بنیادی نقطہ ہی ذہنی اتار چڑھاؤ ہے۔ واقعات اور کردار تو اس نفسیاتی حقیقت کی تصدیق کے لیے ضروری ہیں۔ ان کی اپنی حیثیت صفر کے برابر ہے۔ مثلاً اسی مجموعے میں سوجان بھگت، راہ نجات، پنچ پرمیشور، شطرنج کے کھلاڑی اور مہاتیرتھ سبھی میں کسی نہ کسی نفسیاتی نقطہ کو واضح کرنے کی سعی کی گئی ہے۔‘‘

    (ص:7، پریم چند بنارس 1933ء۔ آزاد بک ڈپو امرتسر، میرے بہترین افسانے)

    تقریباً یہی بات انھوں نے اپنے ایک مضمون میں بھی لکھی ہے۔ اقتباس،

    ’’اعلیٰ ترین مختصر افسانہ وہ ہوتا ہے جس کی بنیاد کسی نفسیاتی حقیقت پر رکھی جائے۔‘‘

    (مضامین پریم چند، ص: 184)

    لیکن ہمارے ناقدین نے پریم چند کے افسانوی ادب کو اپنے مخصوص نظریات کے تحت پرکھا۔ پریم چند اپنے افسانوں کے موضوعات اور اپنے تخلیقی عمل کے بارے میں کیا رائے رکھتے تھے، یہ نظر انداز کر دیا گیا۔ پریم چند کے یہاں سماجی حقیقت نگاری کے نقطۂ نظر سے صرف خارجی عناصر تلاش کیے گئے اور یہ فراموش کر دیا کہ پریم چند کی منظر نگاری تک کسی نہ کسی نفسیاتی پیچیدگی کا مظہر ہوتی ہے مثلاً جب گئودان کے ابتدائی حصے میں ہوری دل میں بہت سی امیدیں لیے رائے صاحب کے پاس جا رہا ہے تو پریم چند کا تخلیق کیا ہوا چھوٹا سا منظر جہاں راستے کی تفصیلات کا حقیقی بیان ہے، وہیں ہوریؔ کی داخلی کیفیت اور نفسیات کا فنکارانہ اظہار بھی معلوم ہوتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں،

    ’’اب وہ کھیتوں کے بیچ کی پگڈنڈی چھوڑ کر ایک نشیب میں آ گیا تھا، جہاں برساتی پانی بھر جانے کے سبب نمی رہتی تھی اور جیٹھ میں بھی کچھ ہریالی نظر آ جاتی تھی۔ آس پاس کے گاؤں کی گائیں وہاں چرنے آیا کرتی تھیں۔ اس موسم میں بھی وہاں کی ہوا میں کچھ تازگی اور ٹھنڈک تھی۔ ہوریؔ نے دوتین سانسیں زور سے لیں۔ اس کے جی میں آیا، کچھ دیر یہیں بیٹھ جائے۔‘‘

    گرمی کے سخت موسم میں بھی نمی، ہریالی یا ہوا میں تازگی اور ٹھنڈک محسوس کرنا، دراصل سرپر رائے صاحب کا سایہ ہونے کے احساس کی وجہ سے ہوری کے ذہنی سکون اور راحت قلب کی طرف اشارہ ہے۔ چونکہ وہ گائے خریدنے کی خواہش دل میں لیے رائے صاحب کے پاس جا رہا ہے، اس لیے یہ بیان کہ آس پاس کے گاؤں کی گائیں وہاں چرنے آیا کرتی تھیں، بامعنی ہو جاتا ہے اور مزید اطمینان کا سبب بنتا ہے۔ اسی لیے اس کے جی میں آتا ہے کہ کچھ دیر یہیں بیٹھ جائے۔ لیکن رائے صاحب کے پاس پہنچ کر اور بہت دیر گفتگو کرنے کے بعد جب اسے مدد کی کوئی امید نظر نہیں آتی اور وہ دیکھتا ہے کہ رائے صاحب جھلّاتے ہوئے چلے گئے، تو سوچتا ہے کہ ’’ابھی یہ کیسی کیسی اصول اور دھرم کی باتیں کر رہے تھے اور یکایک اتنے گرم ہو گئے۔‘‘

    اس موقع پر ہوری کی اندونی کیفیت اور اس کے احساسات کا اظہار بھی پریم چند ایک مختصر منظر کے ذریعے کرتے ہیں۔ حالانکہ افسانے کے مقابلے ناول میں وضاحتی اسلوب اور راست بیانیہ کی گنجائش زیادہ ہوتی ہے، اس کے باوجود انھوں نے اختصار اور تہہ دار بیانیہ سے کام لیا ہے۔ اقتباس،

    ’’سورج سرپر آ گیا تھا۔ اس کی تپش سے متاثر ہوکر پیڑوں نے اپنے سائے سمیٹ لیے تھے۔ آسمان پر مٹیالی گرد چھائی ہوئی تھی اور سامنے کی زمین کانپتی ہوئی معلوم ہو رہی تھی۔‘‘

    صبح کے مقابلے دوپہر کے منظر کا یہ فطری فرق پریم چند کے محض حقیقت نگار ہونے کا ثبوت نہیں ہے بلکہ یہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ بے سہارا ہوری نے اپنے سرسے رائے صاحب کے سائے کو ہٹتے ہوئے محسوس کیا ہے۔ اس کے علاوہ سامنے کی زمین کو سورج کی تپش کے سبب کانپتے ہوئے دیکھ کر، اسے اپنے اندر بھی خوف سے پیدا ہونے والی کپکپی کا احساس ہوتا ہے۔ اسی لیے اب اسے ہوا میں تازگی اور ٹھنڈک نہیں، آسمان پر مٹیالی گرد چھائی ہوئی نظر آتی ہے۔ ہوری کی اس داخلی کیفیت اور گہری نفسیات کو پریم چند نے نہایت فنکاری کے ساتھ استعاراتی اسلوب میں پیش کرکے ایک Siuation سے کئی کام لینے اور کئی Dimension پیدا کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔

    پریم چند کو صرف سماجی حقیقت نگار اور سادہ اسلوبِ بیان کے مصنف کے طور پر پیش کرنے والے ناقدین نے ان کی تخلیقیت اور فن کارانہ صلاحیت کو اجاگر کرنے میں فراخ دلی نہیں دکھائی، جب کہ خود پریم چند نے دوسرے فن کاروں کی تخلیقات میں علامتیں، استعارے اور تمثیلیں تلاش کی ہیں۔ ایک بار انھوں نے ماٹرلنک کے ایک Absurd اور Symbolic ڈرامے کا اردو میں ترجمہ کیا تھا۔ ’’شب تار‘‘ عنوان کے اس ڈرامے کو جب اردو حلقے میں پسند کرنے کی بجائے مہمل قرار دیا گیا تو پریم چند کو بہت مایوسی ہوئی اور انھوں نے ایک مضمون بعنوان ’’شبِ تار کے بارے میں‘‘ لکھا۔ مضمون کا آغاز ان الفاظ سے ہوتا ہے،

    ’’مجھے اس کا افسوس تو نہیں ہے کہ ’’شبِ تار‘‘ مقبول نہیں ہوا۔ اس کاترجمہ کرتے وقت بار بار یہ خیال آتا تھا کہ اردو داں عوام اس کی قدرنہ کرےگی اور نہ میں نے عام پسند کے لیے اسے ترجمہ کیا تھا۔ مگر مجھے یہ خیال نہ تھا کہ رسائل اور صحائف کے ایڈیٹر صاحبان بھی اسے سطحی نگاہ سے ہی دیکھیں گے۔ اردو اہلِ نظر کی ناشناسی پر رنج ہوتا ہے۔ ماٹرلنک بیلجیم کا مشہور اور معروف ڈرامہ نگار ہے۔ اس کے ڈراموں کا یورپ کی تمام قومی زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے۔ کیا میں یہ خیال کروں کہ یورپ کی مادہ پرست عوام جس روحانیت کا لطف اٹھا سکتی ہے، اس کا ہندوستان کے باطن پرستوں کو مطلق احساس نہیں؟ یہ خیال نہایت دل شکن ہے اور میں اسے ایک لمحے کے لیے بھی دل میں جگہ نہیں دے سکتا۔ میں اس خیال سے اپنے تئیں تسکین دیتا ہوں کہ اہل نظر نے اس ڈرامے کو نظر غائر سے نہیں دیکھا ورنہ وہ اسے ہرگز ناپسند نہیں کرتے۔‘‘

    ماٹرلنک دراصل ایک علامتی ڈراما نگار ہے۔ اس نے کئی کامیاب علامتی اور استعاراتی تمثیلیں تخلیق کی ہیں۔ اس کے یہاں پلاٹ کی روایتی تشکیل نہیں ہوتی بلکہ اس کے ڈرامے تجریدی فن کے بہترین نمونے قرار پاتے ہیں۔ ماٹرلنک ڈرامانگار کے ساتھ ساتھ پینٹر اور شاعر بھی تھا۔ اس نے اپنی تخلیقات میں نہایت لطیف فن کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس مضمون کے مطالعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ پریم چند اس کے فن سے بےحد متاثر تھے۔ اسی لیے انھوں نے اس ڈرامے کی فنی خوبیوں کو سراہا، ان کا تجزیہ کیا اور ڈرامے میں پیش کی گئی علامتوں کی نہایت مناسب اور بامعنی تعبیریں کیں۔ پیش ہے پریم چند کے اس مضمون سے ایک اور اقتباس،

    ’’چھ اندھے مردوں کی شخصیتوں کو ’’خودی‘‘ یا ’’ہستی‘‘ سمجھ لیجئے۔ علاحدہ چھ اندھی عورتیں بھی ہیں۔ یہ سب ہستیاں ایک درویش کی نگرانی میں ایک خانقاہ میں رہتی ہیں۔ خانقاہ کیا ہے؟ انسانی درویش کون ہے؟ نور باطن۔ پہلے، دوسرے اور تیسرے اندھے نہایت خود پرست، تن پرور، انجام کی فکر سے متفکر اور تاریک باطن دکھلائے گئے ہیں۔ چوتھے، پانچویں اور چھٹے اندھے زیادہ باریک نگاہ ہیں۔ انھیں اپنے وجود اور خانقاہ کے متعلق کچھ علم ہو گیا ہے۔ اندھی عورتوں میں کوئی تو ایمان ہے، کوئی تو خیرات ہے، کوئی عقیدہ ہے۔ انھیں سابقہ زندگی کی کچھ کچھ یاد باقی ہے۔

    جس جنگل میں یہ سب مرد اور عورتیں بیٹھی ہوئی ہیں، اسے دنیا سمجھ لیجئے۔ دنیا سے متصل ابد کا سمندر ہے، جس کی لہریں دنیا کے کناروں سے ٹکراتی ہیں اور جس کا شور جنگل میں بھی سنائی دیتا ہے۔ اس سمندر میں روشنی کا ایک مینار ہے۔ اس مینار میں وہ لوگ رہتے ہیں جن کی نگاہ ہمیشہ ابد کے سمندر کی طرف رہتی ہے اور جو کبھی بھی جنگل یعنی دنیا کی طرف نہیں تاکتے۔ مینار کو عالم مثال سمجھ لیجئے اور وہاں کے باشندے وہ نفوسِ قدسیہ ہیں جو معرفت کے مدارج طے کر چکے ہیں۔

    درویش ان ہستیوں کو دنیا میں لاتا ہے۔ خود غرض اور تن پرور مردوں کی نافرمانیاں اور کج کلاہیاں درویش کو بددل کر دیتی ہیں۔ یہاں تک کہ اس جنگل میں وہ شکستہ دل ہوکر رحلت کر جاتا ہے۔۔۔ (اس کے بعد) ایک کتے کا آنا اور درویش کی لاش کے قریب بیٹھ جانا، برفستانی ہوا کا چلنا اور بالآخر کسی نامعلوم قدم کی آہٹ سے سب کا پریشان ہونا۔۔۔ ان سب واقعات کی تفسیر بھی طریقۂ بالا پر کی جا سکتی ہے۔ الغرض یہ مکالمہ سرسری طور پر پڑھنے کی چیز نہیں ہے۔ ایک ایک بات غور سے پڑھیے اور تب آپ پر اس ڈرامے کی خوبیاں روشن ہو جائیں گی۔‘‘

    پریم چند مضمون کے آخر میں اپنی تفسیر کا جواز پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں،

    ’’ایک تصوفانہ تمثیل کی توضیح کرنا آسان امر نہیں ہے۔۔۔ کیونکہ تمثیلوں کے مطالب کو ہر شخص اپنے اعتقاد کے اعتبار سے سمجھتا ہے لیکن چونکہ اس ڈرامے کے مہمل ہونے کی شکایت ہے، اس لیے میں نے ان کی وہ تفسیر پیش کرنے کی جرات کی ہے جو میں خود سمجھ سکا ہوں اور مجھے یقین ہے کہ ناظرین اگر اس اعتبار سے ڈرامے کو پڑھیں گے تو انھیں اس قدر مہمل نہ معلوم ہوگا، جتنا کہ خیال کیا گیا ہے۔‘‘

    (زمانہ مارچ 1920ء کلیات پریم چند 21، ص: 93، مرتبہ :مدن گوپال، قومی کونسل برائے فروغِ اردو زبان، نئی دہلی)

    پریم چند کے تجزیے سے واضح ہو جاتا ہے کہ وہ ماٹرلنک کے اس ڈرامے میں جنگل، سمندر، ہوا، مینار، مرد، عورت، درویش اور خانقاہ میں سے ہرایک کو کسی نہ کسی کی علامت تسلیم کر رہے ہیں۔ یعنی وہ علامتی، استعاراتی اور تمثیلی اسلوب سے نہ صرف اچھی طرح واقف ہیں بلکہ اس کے تخلیقی استعمال پر داد بھی دے رہے ہیں۔ تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسے فنکار کی اپنی تخلیقات میں، کیا ان فنی خوبیوں کا اظہار نہیں ہوا ہوگا؟ کیا اس کا اسلوب سادہ سطحی اور وضاحتی ہوگا؟ کیا اس کا بیانیہ اکہرا اور سپاٹ ہوگا؟ کیا ناول، افسانے اور ڈرامے کے فن اور ان کی تکنیک پر گہری نطر رکھتے ہوئے بھی وہ تکنیک اور فن کے حربوں کواستعمال کرنے میں تکلف سے کام لےگا۔ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ ہمارے ناقدین ان کی تخلیقات میں داخلی مسائل اور ان کے اسلوب میں علامتیں تلاش کرنے سے گریز کرتے ہیں۔

    مگر بیشتر معاصر افسانہ نگار پریم چند کی تحریروں میں سیاسی اور سماجی خارجی مسائل کے ساتھ ساتھ فرد کی داخلی کیفیات اور ذات کے نہاں خانوں سے متعلق بہت سے پیچیدہ مسائل کو بھی تلاش کرتے ہیں۔ انھیں پریم چند کے یہاں نفسیاتی پیچیدگیاں اور فلسفیانہ گتھیاں بھی نظر آتی ہیں اور ان کے فن پارے معاصر افسانہ نگار کو سادہ، اکہرے اور سطحی نہیں بلکہ فنی لحاظ سے تہہ دار اور گہرے معلوم ہوتے ہیں۔ اس نظرسے اگر ہم پریم چند کا مطالعہ کریں تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ بیان کی تہہ داری، فکر کی گہرائی اور موضوع کی ندرت ان کی بیشتر تخلیقات میں موجود ہے۔ اپنے افسانے ’’منتر‘‘ میں پریم چند انسانی نفسیات کے اس پہلو کو اجاگر کرنا چاہتے ہیں کہ دکھوں کے سمندر میں ڈوب کر ہی انسانیت، رحم دلی، ہمدردی اور نیکی کے موتیوں کو چنا جا سکتا ہے۔ یعنی دوسروں کے دکھ میں شریک ہونے کے لیے خود دکھ کے تجربے سے گزرنا ضروری ہے۔

    پریم چند نے زیادہ تر افسانوں میں انسان کی داخلی پیچیدگیوں اور واقعے کی فلسفیانہ تعبیروں کو موضوع بنایا ہے۔ افسانہ ’’دو بیل‘‘ تکنیک کے لحاظ سے کسی بھی فنکار کے لیے ایک چیلنج ہو سکتا ہے، بالخصوص اس کے مکالمے، جو ہیرا موتی یعنی دو بیلوں کے دل کا حال کہتے ہیں۔ مکالموں کے علاوہ پریم چند نے اکثر اوقات ان کی داخلی کیفیت راوی کی زبان سے بھی بیان کی ہے۔ اگر ہنر مندی سے کام نہ لیا جاتا تو اسے فن کی کمزوری اور افسانے کی خامی بھی تصور کیا جا سکتا تھا۔ مگر ’’ہیرانے زبانِ خاموش سے کہا۔‘‘ اور ’’موتی نے بھی نگاہوں سے جواب دیا۔‘‘ جیسے جملوں نے ہیرا موتی کے مکالموں کو اظہار کا ایک نیا اسلوب عطا کیا۔

    کہانی کچھ اس انداز سے بیان کی گئی ہے کہ بیل یعنی جانور کیا سوچ رہے ہیں، یہ اہم نہیں رہ جاتا بلکہ انسان (یعنی مصنف، دوسرے کردار اور قاری) کیا سمجھ رہا ہے، یہ اہم ہو جاتا ہے اور جو انسان سمجھ رہا ہے یا سمجھ سکتا ہے، اسے پریم چند نے قاری کے فہم کی زبان میں لکھ دیا ہے۔ پریم چند کے تحت الشعور میں جو بغاوت کا جذبہ جنم لے رہا تھا، یہ افسانہ اسی کا نتیجہ معلوم ہوتا ہے۔ ان دوبیلوں کی فتح کا انحصار اسی باغیانہ رویے اور مستقل جدّو جہد میں پوشیدہ ہے۔ علاوہ ازیں کسی اور جانور یا صرف ایک بیل کی بجائے دو بیلوں کی کہانی بیان کرکے اتحاد باہمی کی تاثیر کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے۔ کانجی ہاؤس کی دیوار گرنے، سانڈ کو پچھاڑنے اور قصائی کو مار بھگانے میں کامیابی کا سبب بھی اتحاد ہی ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ جس سیاسی پس منظر میں کہ یہ افسانہ لکھا گیا تھا، وہاں کامیابی اور فتح حاصل کرنے کے لیے اتحاد کی سخت ضرورت تھی۔ اتحاد بھی کس کا۔ ہیرا اور موتی کا اتحاد۔ دونوں ناموں کے پہلے حروف کا اتحاد۔

    کفن اور پوس کی رات میں تو پریم چند فن کی اس بلندی پر پہنچ گئے ہیں جہاں کسی تخلیقی فن پارے کو مخصوص نظریۂ حیات یا محدود زاویۂ نگاہ کی کسوٹی پر پرکھنا ممکن نہیں، یہاں تک کہ اس کی فنی خوبیوں کے بیان کے لیے مروجہ تنقیدی اصطلاحات بھی دور تک ساتھ نہیں دے پاتیں۔ ان افسانوں کے علاوہ بھی پریم چند کے متعدد افسانے مثلاً نجات، نئی بیوی، دو بہنیں، مس پدما، حقیقت اور روشنی وغیرہ فن اور تکنیک کے اعتبار سے بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔

    ’’روشنی‘‘ پریم چند کے آخری زمانے کی تخلیق ہے۔ اس میں وہ تمام فنی خوبیاں موجود ہیں جو ہمارے جدید افسانے کی خصوصیات سمجھی جاتی ہیں۔ مثلاً خارجیت کی بجائے داخلیت پر زور، تنہائی کا مسئلہ، ذات کا کرب، اسلوب کی سطح پر ذہنی کشمکش کا استعاراتی اظہار اور خود اپنی ذات کی تلاش۔ یہ سب کچھ افسانے میں ضمنی طورپر نہیں آیا ہے بلکہ افسانے کا موضوع ہی وہ لمحۂ ادراک ہے، جب انسان کو اپنے لاشعور کا شعوری احساس ہو جاتا ہے۔ ابتداء میں اس افسانے کا مرکزی کردار مغرب کے مقابلے مشرق کی ہر چیز سے بے اطمینانی اور بیزاری محسوس کرتا ہے،

    ’’وہ کون سا دن آئےگا کہ ہمارے یہاں بھی ایسے ہی شاندار رسالے نکلیں گے۔‘‘

    یا

    ’’جابجا کاشت کار کھیتوں میں کام کرتے نظر آتے تھے۔۔۔ وہی باوا آدم کے زمانے کے بوسیدہ ہل، وہی افسوس ناک جہالت، وہی شرم ناک نیم برہنگی۔ اس قوم کا خدا ہی حافظ ہے۔ ننھا سا انگلینڈ نصف کرۂ زمین پر حاوی ہے۔ اپنی صنعت و حرفت کی بدولت، بےشک مغرب نے دنیا کو ایک نیا پیغام عمل عطا کیا ہے اور جس قوم میں اس پیغام پر عمل کرنے کی قوّت نہیں ہے، اس کا مستقبل تاریک ہے۔‘‘ (’’روشنی‘‘)

    کردار کا یہ نقطۂ نظر دراصل اپنے ملک سے نفرت کا نہیں بلکہ حب الوطنی کا عجیب و غریب احساس ہے، جو اس کے لاشعور کی تہوں میں دبا ہوا ہے۔ جب وہ دورے پر نکلتا ہے تو راستے میں مشرق کی جانب سے آندھی اٹھتی ہے اور اسے اپنے حصار میں لے لیتی ہے۔ یہ آندھی اس کی ذہنی کشمکش کا استعاراتی اظہار ہے۔ وہیں ایک محبت کی دیوی، ہندوستانی عورت ملتی ہے، جو اس کی اپنی ذات ہے، جسے وہ آج تک پہچان نہیں سکا تھا۔ عورت کا قرب، ذات کی تلاش کا وسیلہ بنتا ہے اور جب وہ اپنے مزاج کے خلاف ایک غریب اندھے کی جان بچاتا ہے تو محسوس کرتا ہے کہ اس نے اپنے اوپر فتح پائی ہے اور اس طرح لاشعور میں دبی اس کی ذات ایک دیوی کی شکل میں درشن دیتی ہے۔ اسی لیے تو افسانے کا اختتام ان جملوں پر ہوتا ہے،

    ’’اسی وقت اندھے نے پوچھا، ’’تم کون ہو بھائی، مجھے تو کوئی مہاتما معلوم ہوتے ہو۔‘‘ میں نے کہا، ’’تمھارا خادم ہوں۔‘‘

    ’’تمھارے سرپر کسی دیوی کا سایہ معلوم ہوتا ہے۔‘‘

    ’’ہاں ایک دیوی کا سایہ ہے۔‘‘

    ’’تو کیا وہ عورت ہے؟‘‘

    ’’نہیں، میرے لیے تو وہ دیوی ہے۔‘‘

    (روشنی)

    پریم چند کی تحریروں کے یہ اور ان جیسے بہت سے وہ اوصاف ہیں جو معاصر افسانہ نگاروں کے لیے مشعلِ راہ بنتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج اردو افسانہ فن اور موضوع کے لحاظ سے ایک اعلیٰ مقام پر پہنچ چکا ہے۔ جس عمارت کا سنگ بنیاد ہی اتنا پائیدار اور منقش ہو تو عمارت کا مستحکم اور عالی شان ہونا لازمی ہے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے