Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

قومی زندگی میں علاقائی زبان اور کلچر کی اہمیت

ممتاز حسین

قومی زندگی میں علاقائی زبان اور کلچر کی اہمیت

ممتاز حسین

MORE BYممتاز حسین

     

    (اپریل ۱۹۶۱ء میں بزم ثقافت ملتان نے جشن فرید منایا تھا۔ اس سلسلے میں بزم نے ایک مجلس مذاکرہ بھی منعقد کیا تھا۔ مذاکرے کا موضوع تھا، ’’قومی زندگی میں علاقائی کلچر کی اہمیت۔‘‘ یہ تقریر اسی مذاکرے میں کی گئی تھی جسے بعدمیں، میں نے ’’ہم قلم‘‘ کے لئے قلمبند کر دیا تھا۔ مصنف)

    کسی بھی مسئلے کا حل پیش کرنے سے پیشتر اسے مختلف پہلوؤں سے جانچنے کی ضرورت پڑتی ہے اوراس سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ مسئلے کو صحیح رخ سے پیش کرنا چاہئے۔ یہ مسئلہ جس نہج سے کہ آج کے مذاکرے میں رکھا گیا ہے، اس سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہماری قومی زندگی بغیر علاقائی کلچر اور ہمارے علاقائی کلچر کسی مشترکہ قومیت کے بغیر ہیں۔ اس میں شبہ نہیں کہ ہماری مملکت کثیراللسان ہے لیکن جہاں تک کہ مغربی پاکستان کا تعلق ہے کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ اس مظہر کے باوجود کہ اس علاقے میں مختلف زبانیں بولی جاتی ہیں، اس کی ایک ایسی مشترکہ قومی زبان بھی ہے جو مختلف لسانی قومیتوں کے درمیان لنگوافرینکا کا کام کرتی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اس مشترکہ قومی زبان یعنی اردو اور مغربی پاکستان کے مختلف علاقوں یالسانی قوموں کی زبانوں کے درمیان کیا رشتہ ہے، میں سمجھتا ہوں کہ آج کے مذاکرے کا بنیادی سوال یہی ہے۔

    لیکن اس سوال کا جواب صرف لسانی مطالعے ہی سے نہیں دیا جا سکتا ہے اس کا جواب دینے کے لئے ہمیں کلچر اور سیولیزیشن کے مفاہیم کو متعین کرنا اور ان کے فرق کو سمجھنا بھی ضروری ہے، کیونکہ میں نے یہ محسوس کیا ہے کہ اس مسئلے سے متعلق بہت کچھ ہمارا ذہنی الجھاؤ اس باعث بھی ہے کہ ہمارے یہاں بہت سے لوگ نہ تو کلچر اور سیولیزیشن کے سائنسی مفاہیم ہی سے واقف ہیں اور نہ وہ ان کے فرق ہی کو جانتے ہیں۔ اس میں شبہ نہیں کہ کبھی کبھی کلچر اور سیولیزیشن کو ایک ہی معنی میں استعمال کیا جاتا ہے لیکن علم الانسان اور سماجی علوم کے ماہرین ان دونوں لفظوں کو اختلاف معنی کے ساتھ بھی استعمال کرتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ اگر یہاں پر ان کے معنی کے فرق کو ابھار دیا جائے تو ان کے مفاہیم بھی واضح ہو جائیں گے۔

    سیولیزیشن کی ابتدا ایک مخصوص تاریخی دور سے ہوتی ہے۔ چنانچہ جہاں تک کہ مختلف سائنسی ذرائع سے معلومات بہم پہنچ سکی ہیں، قدیم ترین سیولیزیشن مصر اور سومیریاکی تصور کی جاتی ہے، جس کا زمانہ چارپانچ ہزار قبل مسیح کا ہے۔ لیکن اس روئے زمین پر انسان کچھ سیولیزیشن کی ابتدا ہی سے تو نہیں ہے، وہ اس زمانے سے پہلے ہزار ہزار سال تک بربریت اور وحشت کے دورمیں بھی رہ چکا ہے جسے سوشیالوجسٹ اور مؤرخین، تاریخ کے ماقبل زمانہ یاپری ہسٹری کا نام دیتے ہیں۔ کیا اس پری ہسٹری یا تاریخ سے ماقبل کے زمانے میں جس کی ابتدا کا کوئی صحیح علم نہیں ہے انسان بغیر کسی کلچر کے رہا ہے، اگر آپ ایسا سوچتے ہیں تو یہ آپ کی بھول ہوگی۔

    انسان جس کے دوسرے نام سماجی حیوان اور حیوان ناطق بھی ہیں، اس روئے زمین پر انسانی لباس میں کسی بھی دور میں بغیر کلچر کے نہیں رہا ہے۔ کچھ مفکرین کا تو یہ خیال ہے کہ کلچرہی نے انسان کو جنم دیا ہے۔ اس میں بھی کچھ صداقت اس طرح کی ہے کہ ہرچند کہ یہ صحیح ہے کہ انسان اپنا کلچرخلق کرتا رہتا ہے۔ لیکن جو کلچر کہ خلق ہوتا ہے جب سے اس کا سماجی ماحول بنتا ہے اس سے انسان نسلا ًبعد نسل متاثر ہوتا رہتاہے۔ اس سے اس کی ذہنی اور نفسی تشکیل ہوتی رہتی ہے۔ بہرحال یہ حقیقت ہے کہ کلچر کا واضع انسان ہی ہے، اسی نے کلچر خلق کیا ہے۔ اس کویوں بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ کلچر انسان کا طریق زیست ہے، انسان فطرتا ًصانع عاقل اور ناطق ہے اور کلچر اس کی اسی فطرت کا اظہار ہے۔ وہ اپنی اسی فطرت کے باعث، کیوں نہ ہوفطرتی جو ٹھہرا، ان حیوانوں کی فطرت سے ممتاز ہوا جو اپنے ماحول اور اپنی فطرت کو ازخود بدلنے سے قاصر ہیں۔ یہ امتیاز صرف انسان ہی کو حاصل ہے کہ وہ نہ صرف اپنے ماحول کو بدلتا رہا ہے بلکہ اس عمل میں اپنی فطرت کوبھی۔

    اس میں شبہ نہیں کہ اپنے ماحول یا خارجی فطرت کو بدلنے اور پھر اس تغیر کے ساتھ اپنی فطرت کے بدلنے کا انسانی عمل سیولیزیشن کے دور میں تیز ہو جاتا ہے ورنہ سیولیزیشن سے پہلے کے دورکے کلچر میں تواس کا غالب رجحان اپنی فطر ت کو اپنے ماحول سے مطابقت دینے، نہ کہ اس کے جبرسے آزاد ہونے کا تھا۔ لیکن اس فرق کے باوجود جو ایک کیفیاتی فرق ہے نہ کہ کمیاتی، اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ تاریخ سے ماقبل، یاسیولیزیشن سے پہلے کے ادوار میں بھی وہ کلچر کے بنیادی عناصرسے واقف تھا۔ وہ بولتا، سوچتا، گاتا، رقص کرتا، نقش ونگار بناتا، پتھر اور لکڑی کے ٹکڑوں کو استعمال کرتا، اپنے تن بدن کو چھال سے ڈھانکتا، اپنے جذبات، عادات و اطوار کو رسوم وقیود کے تابع کرتا لیکن وہ اپنے خیالات اور جذبات کو حروف یاعلامتوں کے ذریعے اپنی آنے والی نسلوں یا دوسری قوموں کومنتقل کرنے کے ہنر سے ناواقف تھا، یہ چیز انسان نے خالصتاً سیولیزیشن کے دور میں حاصل کی، جس سے علم وہنر کے پھیلنے، بڑھنے اور انہیں محفوظ کرنے میں مدد ملی۔

    لیکن سیولیزیشن کایہ عطیہ جسے ذہنی اوزا رکے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے، یعنی خیالات اور جذبات کو حروف یا علامتوں کے ذریعے منتقل کرنے کافن اس کی عام ذہنی اور فنی ترقی کاایک جزو تھا نہ کہ اس سے کوئی الگ تھلگ ایک مظہرتھا۔ انسان نے اسی سیولیزیشن کے دور میں ہل، پہیے دار گاڑی، چاک (گریبان کا نہیں کوزہ گل کا) بادبانی کشتیاں ایجاد کیں اور اسی دور میں اس نے چو پاؤں کی طاقت کو اکسیر کیا اور اسی دور میں اس نے مختلف دھاتوں سے اوزار، ہتھیار اور ظروف بنانے کا ہنر سیکھا۔ یہ انقلاب جو کسی معجزے سے کم نہ تھا، انسان کی زندگی میں کیوں کر رونما ہوا، اس کے اسباب پر ابھی خاطرخواہ طریقے سے روشنی نہیں ڈالی جا سکتی ہے اور جومعلومات فراہم ہوئی ہیں وہ اس کو پوری طرح سمجھانے کے لئے ناکافی ہیں، لیکن یہ چیز اپنی جگہ پر مسلم ہے کہ انسان کی اس فنی اور تعقلی ترقی میں اس کی شہری زندگی اور مختلف قوموں کے میل جول، تبادلہ خیالات اور تبادلہ اشیا کے عوامل نے اہم کردار ادا کیا ہے اس ترقی میں غلامی کے ادارے نے بھی خاصا حصہ لیا ہے۔

    چنانچہ سیولیزیشن کے بارے میں یہی بات جاننا کافی نہیں کہ وہ تمام تر شہری زندگی کی پیداوار ہے جیسا کہ CIVITAS بمعنی شہر خود بتاتا ہے بلکہ یہ بھی صحیح ہے کہ اس کا کردار بین الاقوامی ہوتا ہے۔ سیولیزیشن کسی ایک قوم کی بلا شرکت غیرے نہیں ہوا کرتی، یہ مختلف قوموں کی اجتماعی کوششوں کا نتیجہ ہوتی ہے۔ بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ فلاں ایجاد فلاں ملک فلاں قوم سے تعلق رکھتی ہے، لیکن اگر آپ اس کی تاریخ کا پتہ چلانا شروع کریں گے تو اس کے سلسلے میں دور دراز تک پھیلے ہوئے نظر آئیں گے۔ چنانچہ پرانی تہذیبوں کے جہاں کہیں بھی آثار ملے ہیں، ان کے دیکھنے سے تہذیب کا بین الاقوامی کردار صاف نظر آتا ہے۔ یہ بتانا مشکل ہو جاتا ہے کہ فلاں چیز پہلے کہاں ایجاد ہوئی اور ماڈرن سیولیزیشن کا جو بین الاقوامی کردار ہے وہ تو آپ کے سامنے ہی ہے اور کیا عجب کہ جن خیالات کا ہم اظہار کر رہے ہوں وہ بھی بین الاقوامی ہوں کہ خیالات بھی مثل اشیا کے سفر کرتے ہیں۔ ان حالات میں کبھی کبھی تو یہ سوچنا پڑتا ہے کہ جسے ہم اپنی تہذیب کہتے ہیں کیا وہ واقعی ہماری اپنی تہذیب ہے، لیکن اس سے آپ شرمندہ نہ ہوں کیونکہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جو چیز غیر کی ہے وہ ہماری اپنی بھی ہے۔

    مجھے امید ہے کہ میں نے سیولیزیشن اور کلچر کا جو یہ فرق بتایا ہے اس سے آپ یہ نتیجہ نہ نکالیں گے کہ سیولیزیشن کلچر سے کوئی علیحدہ شئے ہے، حقیقت یہ نہیں ہے، سیولیزیشن کلچر ہی کی ایک مرتفع شئے ہے، نہ کہ اس سے کوئی ایک علیحدہ شئے ہے۔ چنانچہ جب کسی قوم کا کلچر سیولیزیشن کی دولت سے مالا مال ہو جاتا ہے تو پھر وہ کلچر سیولیزیشن کے ساتھ متحد ہو جاتا ہے۔ اس وقت سیولیزیشن اور کلچر کا اختلاف معنی مٹ جاتا ہے اور کلچر کو سیولیزیشن اور سیولیزیشن کو کلچر کے معنوں میں استعمال کرنے لگتے ہیں، لیکن یہاں چونکہ میں اختلاف معنی کو ابھارنا چاہتا ہوں نہ کہ اتحاد معنی کو اس لئے ہمیں پھر اسی چیز کی طرف لوٹنا چاہئے۔

    سیولیزیشن کے دور سے پہلے ہر قوم قبیلے کا کلچر مقامی تھا، اپنے فطری ماحول سے مطابقت رکھتا اور علیحدگی پسند تھا، لیکن اسی کے ساتھ ساتھ وہ بڑا طبعی (ORIGINAL) بھی تھا۔ سیولیزیشن نے اس کی اس کیفیت کو منقلب کر دیا، اس میں عالمگیر ی، شعوری اور عقلی عناصر کا اضافہ کیا، اس سے قومی تعصب کی دیواریں منہدم ہوئیں اور انسانی وحدت کا یہ احساس پیدا ہوا کہ دنیا کے سارے انسان یکساں ہی دل و دماغ رکھتے ہیں۔ سیولیزیشن کایہ اثرجہاں کلچر کے اور دوسرے شعبوں میں دیکھا جا سکتا ہے وہاں کسی بھی قوم کی زبان، ادب، احساس جمال اور اخلاقیات وغیرہ کی دنیا میں بھی آسانی سے دیکھا جا سکتا ہے۔

    کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ سیولیزیشن کی یہ دونو ں خصوصیات (۱) عالمگیریت یعنی ہر کلچر کو ایک یونیورسل معیار پر لانے کارجحان اور (۲) معقولیت جس کا اظہار ٹیکنالوجی، سائنس، حرفت اور معقولات کے فروغ میں ہوا، کلچر کی انفرادیت اور طبیعیت (NATURALNESS) کے حق میں مضرثابت ہوئی ہیں، لیکن ہم یہ دیکھتے ہیں کہ انسان نے اس سے کھویا کم اور حاصل زیادہ کیا ہے۔ آج دنیا روسو کے اس فلسفے کو بھولتی جا رہی ہے کہ آرٹس اور سیولیزیشن نے انسان کی فطرت کومسخ کر دیا ہے اور یہ بات روز بروز لوگوں کے دلوں میں زیادہ گھر کرتی جا رہی ہے کہ سیولیزیشن ہی کی برکتوں سے انسانی کلچر میں پر مائیگی، گہرائی اور وسعت پیدا ہوئی ہے، اس سے مادی اور روحانی اقدار کی تخلیقات میں اضافہ ہوا ہے۔

    سیولیزیشن ہی کی برکتوں سے انسانی وحدت، مساوات، آزادی کے تصورات اور نظام اخلاق وجود میں آیاہے اور اگر انسای سیولیزیشن کے اس دور میں بھی درندگی اور بہیمیت سے کام لے رہا ہے تو اس کی ذمہ داری سیولیزیشن کے اقدار اور اوزار پر نہیں بلکہ انسان کے اس سماجی نظام پرعائد ہوتی ہے جو جبرواستحصال کو طرح طرح کے بہانوں سے آج بھی قائم کئے ہوئے ہے، ورنہ سیولیزیشن نے تو اس کے سارے اسباب مہیا کر دیے ہیں کہ اگر انسان چاہے تو جبرواستحصال ہی کیا بلکہ بیگانگی ذات اور انسان نے انسان پر حکومت کرنے کی جو ریت قائم کر رکھی ہے وہ اسے بھی ختم کر سکتا ہے۔ انسان جو کبریائی صفات کا حامل ہے، اس کا وجود اس لئے نہیں ہے کہ اس پر انسان یا کوئی بھی طاقت حکومت کرے، بلکہ اس لئے ہے کہ وہ آزادانہ تعاون سے من حیث الکل اپنی کبریائی کا اور من حیث الفرد اپنی خودنمائی کا اظہار کرے اور یہ اسی وقت ممکن ہوگا جبکہ ہرفرد اپنی تکمیل ذات کو دوسروں کی تکمیل ذات پر مشروط ٹھہرائےگا اور سوسائٹی کو اس کا ذریعہ تصور کرےگا۔

    یہاں یہ چیز واضح ہو جاتی ہے کہ جبرواستحصال تہذیب شکن قوتیں ہیں اور جب بھی ان استحصالی قوتوں کی موجودگی میں کسی تہذیبی عنصر کو خواہ وہ عالمگیریت کا ہو یا معقولیت کا، کسی بھی قوم کے کلچر میں داخل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو اس کی شدید مخالفت ہوتی ہے کیونکہ یہ دونوں یعنی تہذیب اور جبرواستحصال ایک دوسرے کی نفی کرتی ہیں۔ اس کی ایک مثال آپ کے سامنے ہے۔ انگلستان کے ’’مدعیان تہذیب‘‘ نے جب ۱۸۳۳ء کے درمیان اپنے یہاں کے ریفارم بل کی انقلابی لہر میں محکوم ہندوستان کو بھی چند جمہوری اصلاحات سے اس کی اقتصادی زندگی کی تباہی و بربادی کی فضا میں آشنا کرانا چاہا، تو ہندوستانی عوام نے بغیر اس تمیز کے کہ مغرب کی سیولیزیشن اور سرمایہ دارانہ غارت گری یا نوآبادیاتی استحصال دو مختلف چیزیں ہیں، سیاسی غلامی کے ردعمل میں مغرب کی روشن خیالی اور اس کی جمہوری اصلاحات کی بھی مخالفت کی، کیونکہ تہذیب کی قوتیں دست غارت گر میں، استحصال کے آلہ کار میں بھی تبدیل ہو جایا کرتی ہیں۔

    آپ کو یہ سن کرحیرت نہ ہونی چاہئے کہ جب ان مدعیان تہذیب نے ہندوستان کو محکوم رکھتے ہوئے غلامی کی رسم کو ہندوستان میں منسوخ کرنا چاہا تو اس کی مخالفت سب سے پہلے مسلمان مولویوں نے کی اور اس موضوع پر لمبے چوڑے رسالے لکھے کہ غلامی ازروئے شریعت جائز ہے۔ آپ خود ہی غور کیجئے کہ کیا آج کا ملا بھی اس طرح سوچتا ہے۔ کیا اس کا سبب یہ نہیں ہے اب ہمارا کلچر پہلے کے مقابلے میں جدید تہذیب کے اثرات کو زیادہ قبول کر چکا ہے، لیکن کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ میرا یہ مشاہدہ خوش خیالی پر مبنی ہو۔ کیا آج ایسے لوگ نہیں ہیں جو پرانے کلچر کے نام پر سیولیزیشن کے عالمگیر اورعقلی عناصر کی مخالفت کرتے ہیں۔ اور کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ اس مخالفت کے پیچھے ان کا اپنا ذاتی مفاد کام کرتا رہتا ہے۔ مگر یہ عجیب معاملہ ہے کہ وہ لوگ جو مغرب کی سائنس اور معقولات کی شدید مخالفت کرتے ہیں، ہوائی جہاز، ریل گاڑی یا موٹر میں بیٹھنے سے پرہیز نہیں کرتے ہیں۔ معلوم ایسا ہوتا ہے کہ انہیں اشیاء سے نہیں بلکہ اس علم سے بیر ہے جو ان چیزوں کو بناتی ہے۔ تبھی تو ہمارے یہاں ہلکی پھلکی صنعت اور مصنوعات کی درآمد پر زور ہے اور مشینوں کے بنانے والے کارخانوں کے قائم کرنے پر زور نہیں دیا جاتا ہے۔

    بہرحال یہ تو ایک جملہ معترضہ ہوا۔ اصل مدعا تو یہ ہے کہ جب بھی کسی کلچر میں سیولیزیشن کے یونیورسل اورعقلی عناصر کو جبر اوراستحصال کے ساتھ رائج کیا جاتا ہے، خواہ وہ استحصال کھلا ہوا ہو یا ڈھکا ہوا ہو تو اس کی مخالفت کا ہونا لازمی ہے کیونکہ جبر و استحصال کا عنصر سیولیزیشن کی نفی کرتا ہے۔ اس موقع پر ہمیں یہ نہ بھلانا چاہئے کہ سیولیزیشن کا مقصد پسماندہ کلچر کو ایک بلندتر سطح پر لے جانا ہے۔ اس کی تخلیقی قوتوں میں اضافہ کرنا ہے۔ اسے اس کے ماحول کی پسماندگی اور دقیانوسی عقائد کی فرسودگی سے نجات دلانا ہے نہ کہ اسے مٹانا ہے۔ بے شک اس طریق کار میں پسماندہ کلچر کے غیرعقلی عناصر اور عصبیتوں کو دبانا پڑتا ہے اوراس سے عقل وشعور اور جذبات وتعصب کے درمیان ایک وقت تک تنازع کا پایا جانا بھی لازمی ہے لیکن اگر کلچر کے مقامی یا قومی فارم کو برقرار رکھا جائے اور وہ کلچر، سیولیزیشن کے اثرات کو بغیرکسی جبرواستحصال کے اندر سے قبول کرے تو وہ تنازع متشدد صورت اختیار نہیں کر پاتا ہے۔

    اب یہ سوچئے کہ کلچر کا مقامی یا قومی فارم کیا معنی رکھتا ہے۔ لباس کا مقصد تن کو ڈھانکنا اور گرمی سردی سے بچانا ہے، غذا کا مقصد جسم میں انرجی کا پہنچانا ہے۔ لیکن ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ہرچند کہ رہن سہن اور کھانے پینے کے طور طریقے میں قومیں اپنے اپنے مخصوص مذاق زیست کی پابند ہوا کرتی ہیں۔ لیکن اس کے باوجود ان طور طریقوں کا بھی ایک بین الاقوامی پیٹرن ان کے درمیان ابھرتا جا رہا ہے۔ چنانچہ ان امور میں قومی اور بین الاقوامی دونوں ہی پیٹرن ساتھ ساتھ پروان چڑھتے رہتے ہیں اور یہ دونوں ایک دوسرے کو متاثر بھی کرتے رہتے ہیں۔

    لیکن کلچر کے ان مظاہر اور زبان کے مظہر میں بڑا فرق ہے۔ کسی نئے طرز کا کھانا کھاتے وقت صرف کام ودہن ہی کی آزمائش ہوتی ہے۔ کچھ دنوں کے ردوکد کے بعد انسان اس کا عادی ہو جاتا ہے لیکن زبان کا معاملہ اس سے مختلف ہے، جب بھی آپ اس کا کھوج لگائیں گے کہ کسی بھی کلچرل جماعت کا فطری ذریعہ اظہار کیا ہے، جس کے ذریعے وہ اپنے وجود کا اثبات کرتا ہے، تو آپ اسی نتیجے پر پہنچیں گے کہ وہ ذریعہ اظہار اس کی اپنی مادری زبان ہوتی ہے۔ جس کو وہ غیرشعوری طور سے اپنے ماحول سے سیکھتا ہے اور یہ ایک اتنی بڑی حقیقت ہے کہ کوئی بھی ایسا شخص جسے زبان اور ادب کی حقیقت سے کچھ خبر ہے اس خیال کا دعویدار نہیں ہو سکتا ہے کہ کسی بھی جماعت، گروہ یا قوم کو اس کی مادری زبان سے محروم کرکے اس کے حلق میں کوئی دوسری زبان اتار دی جائے۔

    لیکن اس سلسلے میں چند باتیں قابل غور ہیں۔ تہذیب کے عالمگیری، شعوری اور فنی عناصر کی روز افزوں ترقی سے دنیا جس قدر تیزی سے سکڑتی جا رہی ہے اور انسان ایک سے زیادہ زبانوں کے سیکھنے پر مجبور بھی ہوتا جا رہا ہے کیونکہ اس کے رشتے ساری دنیا کے انسانوں کے ساتھ گتھے ہوئے ہیں، اسی قدر تیزی کے ساتھ انسان چھوٹی چھوٹی لسانی ٹولیوں کے خول سے نکل کر اپنے کو بڑے بڑے لسانی گروہوں کے ساتھ وابستہ بھی کرتا جا رہا ہے، لیکن یہ عمل پرامن صرف اسی وقت رہتا ہے جبکہ لسانی ٹولیاں اپنے اس عمل میں آزاد اور خودمختارہوں، ورنہ یہ قانون فطرت ہے کہ جس چیز سے انسان کو جبراً محروم کیا جاتا ہے، وہ اسی شئے کی زیادہ سے زیادہ آرزو کرتا ہے۔

    دوسری بات جسے جاننا اہم ہے، وہ ہے کہ تاریخ کو پیچھے لوٹانا، ممکن نہیں۔ اب تو تاریخ نے ہمیں جن مسائل سے دوچار کر رکھا ہے، انہیں شعوری طور سے مستقبل ہی میں حل کیا جا سکتا ہے۔ اردو زبان کی پوزیشن مغربی پاکستان میں وہ نہیں ہے جو انگریزی، عربی اور فارسی کی ہے۔ یہ ساری زبانیں غیرممالک کی تہذیبی زبان ہیں جن کو ہم سیکھ کر ہی بول اور سمجھ سکتے ہیں اور اگرفارسی چھ سوسال کی حاکمیت کے باوجود ہماری قومی زبان نہیں بن سکی تو عربی یا انگریزی کئی سوسال کی حاکمیت کے بعد بھی ہماری قومی زبان نہیں بن سکتی ہے۔ اسے جس قدر جلد سمجھ لیا جائے اتنا ہی اچھا ہے۔

    رہ گیا یہ سوال کہ ہم کوئی نئی زبان مقامی زبانوں سے کھچڑی کرکے تیار کریں گے، سو وہ بھی ممکن نہیں کیونکہ جو کھچڑی کہ ہم نے چھ سوسال میں پکائی وہی اب ٹیڑھی کھیر بن گئی ہے۔ اب ہم کوئی اور کھچڑی کیا پکائیں گے۔ زبان ازخود اگتی ہے اور تاریخی اسباب سے متاثر ہوکر غیرشعوری طور سے نئی سے نئی شکل اختیار کرتی جاتی ہے نہ کہ وہ کسی فرمان سے وجود میں آتی ہے۔

    اب ایک اور صورت قومی زبان کے سوال سے متعلق یہ ہے کہ اگر اردو جیسا کہ ایک پرانے آئی سی ایس صاحب نے لاہور میں علاقائی زبانوں کی کانفرنس میں فرمایا کہ اردو قومی زبان ازروئے قانون ہے نہ کہ وہ واقعی ہماری قومی زبان ہے، تو یہ عرض ہے کہ کیوں نہ کسی علاقائی زبان کو قومی زبان کی جگہ دے دی جائے۔ اس کے لئے ہم دل وجان سے تیار ہیں، مگر یہ کیا کہ انتظامی امور کے لئے ہم انگریزی کو قائم رکھیں گے۔ اس کے تو یہ معنی ہوئے کہ اردو کو اس لئے مٹانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ انگریزی کی حاکمیت کو تا ابد برقرار رکھا جائے۔ یہ کہاں کی حب الوطنی ہے۔

    اب سوال یہ ہے کہ کیا اردو واقعی مغربی پاکستان کی قومی زبان ہے، اس کا جواب یہ ہے کہ اردو پاکستان کی کوئی واحدقومی زبان نہیں بلکہ یہاں کی مختلف قومی زبانوں میں سے ایک ایسی زبان ہے جو صدیوں سے مغربی پاکستان کی مختلف لسانی قوموں کے درمیان بھی لنگوافرینکا کا کام دیتی رہی ہے۔ آج اردو زبان مغربی پاکستان کے تمام شہروں میں سمجھی جاتی ہے اور بر وقت ضرورت بولی جاتی ہے اور اگریہ کہا جائے کہ دیہاتوں میں بولی نہیں جاتی ہے تو یہ بتانا بے محل نہ ہوگا کہ اردو تو ہندوپاک کے کسی بھی علاقے کے دیہات میں بولی نہیں جاتی ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ مغربی یوپی اور توابع دہلی کے دیہاتوں میں بھی کھڑی بولی کے افعال استعمال ہوتے ہیں، لیکن وہ بات صرف افعال ہی تک محدود ہے، ورنہ وہاں کے لوگ تو ایک ایسی بھاشا بولتے ہیں کہ مشکل ہی سے اردو کے لوگ سمجھ سکتے ہیں۔ ’’ابی دولمڈوں میں کھڑک جھڑک ہو گئی۔‘‘ یہ ہے میرٹھ کے ایک دیہات کی بولی کا نمونہ۔ اور برج، اودھ اور پورب کے دیہاتوں میں تو وہیں کی مقامی بولیاں بولی جاتی ہیں۔ اردو شہری زبا ن ہے۔ چنانچہ دیہات کی عورتیں اسے آج بھی شہراتی زبان کہتی ہیں۔ یہ تمام تر بازار میں بڑھی اور پروان چڑھی ہے اور صرف شہر کی زندگی میں اس نے تربیت پائی ہے اوراس کی اس ترقی میں مختلف علاقوں کی خدمات کو دخل رہا ہے۔

    لاہور اردو کا ویساہی ایک اہم مرکز رہاہے جیسا لکھنؤ، دہلی یا حیدرآباد تھا اور اردو صحافت اور جدید اردو ادب کی ترویج و اشاعت میں تو لاہور کی خدمات دہلی اور لکھنؤ سے کچھ زیادہ ہی ہیں۔ مغربی پاکستان میں اردو قیام پاکستان سے پہلے لاہور ہی کے مرکز سے بڑھی اور پھیلی ہے اور اب قیام پاکستان کے بعد صوبہ سندھ کے تمام شہروں میں بھی اردو بولی اور سمجھی جاتی ہے اور صوبہ پنجاب اور سرحد کے تمام شہروں میں تو انگریزی عملداری کے بعد سے بالخصوص، پشتہاپشت سے لوگ اپنی اپنی پشتو اور پنجابی کے ساتھ اردو بھی بولتے چلے آرہے ہیں اور علمی کام بشمول صحافت نگاری اردو میں کرتے آئے ہیں۔ اگر ان سارے تاریخی شواہد کی روشنی میں مغربی پاکستان میں اردوکی بڑھتی ہوئی مقبولیت کو دیکھا جائے تو یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اردو مغربی پاکستان کی لنگوافرینکا یا رابطے کی زبان ہے۔ اردو نے یہ پوزیشن علی الرغم اس بات کے حاصل کی ہے کہ حکومت کی زبان آج بھی انگریزی ہے۔

    اب یہاں کے چندلسانی حقائق پر غور کیجئے۔ مغربی پاکستان کے پانچ بڑے لسانی علاقے ہیں پنجابی، پشتو، سندھی، ملتانی، بلوچی۔ یہ ساری زبانیں اسی ہندآریائی خاندان سے تعلق رکھتی ہیں جس سے اردو کا تعلق ہے۔ ان میں سے پنجابی، کھندا، ملتانی یا سرائیکی پشتو اور سندھی یہ بولیاں اسی ایک شور سینی پراکرت ابرہنش کی بیٹیاں ہیں جس کی ایک بیٹی اردو یا مغربی ہندی یا کھڑی بولی ہے اور پنجابی میں وہی قربت ہے جو برج بھاشا کو اردو کے ساتھ حاصل ہے، لیکن یہ سارے رشتے ناطے اور یہ سارے تاریخی اسباب کمزور رہ جائیں گے، اگر اردو نے مقامی بولیوں سے الفاظ قبول کرنے اور مقامی لب ولہجہ کی پذیرائی میں خست اور تاخیر سے کام لیا۔

    اردو ایک ترقی پذیر زبان ہے، نہ کہ بند زبان ہے۔ اس کی ترقی پذیری اسی میں ہے کہ اس کی ٹکسال ہر سو سال کے بعد کچھ سے کچھ ہو جاتی ہے۔ جو اردو کہ میر کے زمانے میں تھی، وہ انیسویں صدی میں نہ رہی اور جو اردو کہ انیسویں صدی میں تھی اب وہ بیسویں صدی میں نہ رہی۔ یہ چند ایک باتیں جو براہ راست موضوع سے تعلق نہیں رکھتی ہیں اس لئے کہی ہیں کہ اس جھگڑے کے پیچھے کچھ اس بات کو بھی دخل ہے کہ جو لوگ کہ دلی اور لکھنؤ کا روڑا بن کر آئے ہیں، وہ صرف اپنے ہی لہجے کو اردو کا لہجہ بتاتے اور اردو کے سندھی، بلوچی، پنجابی اور پٹھانی لہجے پر کسمساتے ہیں، ’’اگلے وقتوں کے ہیں یہ لوگ انہیں کچھ نہ کہو۔‘‘

    لیکن یہ میری ساری باتیں اس وقت تک بے مغز رہیں گی، تاوقتیکہ میں اس کا اعادہ ایک بار پھر نہ کروں کہ اردو کی مقبولیت اس کا جواز نہیں بن سکتی ہے، کہ کسی بھی مقامی زبان کواس کے کسی بھی جائز اور فطری حق سے محروم رکھا جائے۔ اس کے برعکس اردو کے لوگوں کو یہ چاہئے کہ وہ مقامی زبانوں کی ترقی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں کیونکہ ان کی اثرپذیری ہی سے اردو زیادہ سے زیادہ ہردلعزیز اور ہمہ گیر ہو سکتی ہے۔

     

    مأخذ:

    ادب اور شعور (Pg. 180)

    • مصنف: ممتاز حسین
      • ناشر: ادارۂ نقد ادب، کراچی
      • سن اشاعت: 1992

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے