- کتاب فہرست 181824
-
-
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
-
ادب اطفال1653
طب565 تحریکات257 ناول3434 -
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
- بیت بازی9
- اشاریہ5
- اشعار62
- دیوان1333
- دوہا61
- رزمیہ92
- شرح149
- گیت86
- غزل750
- ہائیکو11
- حمد32
- مزاحیہ38
- انتخاب1387
- کہہ مکرنی7
- کلیات635
- ماہیہ16
- مجموعہ4001
- مرثیہ332
- مثنوی680
- مسدس44
- نعت425
- نظم1009
- دیگر46
- پہیلی14
- قصیدہ143
- قوالی9
- قطعہ51
- رباعی256
- مخمس18
- ریختی17
- باقیات27
- سلام28
- سہرا8
- شہر آشوب، ہجو، زٹل نامہ13
- تاریخ گوئی19
- ترجمہ80
- واسوخت24
ممتاز حسین کے مضامین
رسالہ در معرفت استعارہ
انسانوں کو حیوانوں سے ممتاز کرنے کے لیے فلسفیوں نے اسے مختلف ناموں سے یاد کیا ہے۔ کہیں کسی نے اسے سماجی حیوان کا نام دیا ہے تو کہیں کسی نے اسے سیاسی حیوا ن کا نام دیا ہے۔ (ارسطو) نوعی اعتبار سے اسے HOMO SAPIEN یعنی حیوان ناطق عاقل کہا گیا ہے۔ انسان کی
غالب ایک آفاقی شاعر
ہر بڑے اور اوریجنل شاعر کو زندگی کو دیکھنے، پرکھنے اور اپنے تجربات میں معنویت پیدا کرنے کے لئے ایک عالمی نقطہ نگاہ اختیار کرنا پڑتا ہے۔ یہ عالمی نقطہ نگاہ ایک شخصی آئیڈیالوجی کی صورت بھی اختیار کر لیتا ہے، جس سے وہ اپنے عہد کی آئیڈیالوجی کو پرکھتا
حسرت کی غزل گوئی
حسرت نے ہمارے لئے دو کتابیں چھوڑی ہیں۔ ایک اپنی غزلوں کی کلیات دوسری اپنی زندگی کی کتاب۔ میں اس موقعے پرحسرت کی زندگی کے بارے میں بھی کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ کیونکہ وہ ان کے مجموعہ غزل سے کچھ کم اہم نہیں ہے لیکن جب یہ سوچتا ہو ں کہ وہ تو اس راہ پر خار سے
ادب اور شخصیت
(اس موضوع پر کراچی یونیورسٹی میں ایک سمپوزیم منعقد ہوا تھا۔ میں نے اس موضوع پر جو تقریر کی تھی اسے بعد میں قلم بند کر لیا تھا) اس موضوع کے دو متضاد پہلو ہیں۔ ایک تو یہ کہ ادب یا فن شخصیت کا اظہار ہے اور دوسرا یہ کہ ادب یافن شخصیت سے گریز ہے۔ غالباً
فیض کی انقلابی شاعری کا تغزلاتی اسلوب
میں نے یہ عنوان کچھ اس لئے منتحب نہیں کیا ہے کہ فیض کے اشعار سے ان کے تغزلاتی اسلوب کی مثالیں پیش کرکے یہ بتاؤں کہ کیونکر انہو ں نے غزل کے آہنگ اور اس کی ایمائی اور اشاراتی زبان میں اپنے انقلابی جذبات کا اظہار کیا ہے، بلکہ اس لئے منتخب کیا ہے کہ فیض
مرزا یاس یگانہ کی شاعری
سرسید اور حالی نے اپنی ہم عصر شعروشاعری کی مصنوعیت کو دیکھتے ہوئے اصلیت (نیچرل ہونے) اور تاثر پر اس قدر زیادہ زور دیا کہ حالی کے بعد غزل گو شعرا کی جو کھیپ بالخصوص لکھنؤ میں ابھری، اس نے اپنی شاعری میں ایک نیا طرز اختیار کیا۔ لفظوں سے کھیلنے کی پرانی
تصوف اور شاعری
چونکہ دنیائے اسلام کی تاریخ میں تصوف نے ایک منظم تحریک اور منضبط عقیدے کی صورت بھی اختیار کر رکھی تھی، ہرچندکہ اس میں اختلافات عقائد بھی بے شمار رہے، اس لئے تصوف کو انگریزی لفظ مسٹی سی ازم (MYSTICISM) کے ہم معنی قرار دینے میں کسی قدر جھجک محسوس ہوتی
صورت و معنی
ادبی کارخانے میں صورت اور معنی کے باہمی رشتے کو سائنسی طور پر دریافت کرنا ایک بہت ہی مشکل کام ہے کیونکہ اس مسئلے پر صرف اس وقت سے صحیح روشنی پڑنے لگی ہے، جب سے جدلیاتی مادیت کا اسکول وجود میں آیا ورنہ اس سے پہلے تو اس پر عینی اسکول ہی کے مفکرین نے روشنی
ماضی کے ادب عالیہ سے متعلق
ایک ایسے زمانے میں جبکہ طبقاتی جنگ تیز ہو جاتی ہے تو جذباتی وفور کے باعث کبھی کبھی ادبی پرکھ میں غلطیاں بھی ہو جاتی ہیں۔ یہ تصور سیاسی تیز پسندی کا نہیں ہے کیونکہ سیاست تو تیز ہوتی ہی ہے۔ بورژوا نظام کے تضاد جوں جوں ابھرتے جائیں گے، طبقاتی جنگ کا تیز
ادب، روایت، جدت اور جدیدیت
جدیدیت کی جو ایک لہر ان دنوں چل رہی ہے اس کے مدنظر ذرا کچھ ہمیں اپنی ادبی روایات ک ابھی جائزہ لینا چاہئے، لیکن اس سے پہلے ہمیں روایت کے مفہوم کو متعین کر لینا چاہئے، تاکہ جدت کو ’’جدیدیت‘‘ سے جدا کرکے بھی دیکھا جا سکے۔ کیوں کہ میرے نزدیک جدت، روایت کا
تنقید کے چند بنیادی مسائل
ہر وہ شخص جسے شعروادب کا مذاق ہے، لازمی طور پر ناقد نہیں ہے کیونکہ تنقید کا تعلق صرف مذاق کی اصلاح سے نہیں بلکہ زندگی کی اقدار کی قیمت متعین کرنے اور اس کے بارے میں فیصلہ دینے سے بھی ہے۔ یہ جاننا یقیناً اہم ہے لیکن اس سے کم اہم یہ نہیں ہے کہ اس کارخانہ
رجعت پسند ادب کیا ہے؟
رجعت پسند ادب کیا ہے؟ کی اس تعریف اس سے زیادہ مشکل ہے کہ ترقی پسند ادب کیا ہے۔ کیونکہ ترقی کاراستہ صرف ایک ہی ہوتا ہے اور پیچھے لوٹنے کی راہیں مختلف ہوتی ہیں۔ انسانی معاشرت کی یہ خصوصیت رہی ہے کہ نئے اور پرانے کی جنگ ہردورمیں ہوتی رہی ہے۔ وہ قوتیں
شاعر فراق گورکھپوری
معاصرین فراق میں سے کوئی دوسرا شاعر بجز ان کے ایسا نظر نہیں آتا جس کے بارے میں یہ کہا جا سکے کہ اس نے جو اثاثہ اپنے مرنے کے بعد چھوڑا ہے اس میں اس کی شاعری اور نثر ہی اہم نہیں ہے بلکہ اس کی شخضیت کا انوکھاپن، اس کی گفتگو، اس کے اقوال ظرافت و ذکاوت
ادیب اور آزادیٔ رائے
آزادی رائے، خواہ وہ کسی ادیب کی ہو یا عام آدمی کی، انسان کی اس آزادی کا ایک داخلی پہلو ہے جو اپنے کو تہذیب و تمدن کی مختلف برکتوں کی صورت میں ظاہر کرتی رہتی ہے۔ جنگلی پھلوں یا بیخ و بن پر گزارہ کرنے کے بجائے اپنے لئے غذا زمین سے اگانا، اسے محفوظ کرنا
قومی زندگی میں علاقائی زبان اور کلچر کی اہمیت
(اپریل ۱۹۶۱ء میں بزم ثقافت ملتان نے جشن فرید منایا تھا۔ اس سلسلے میں بزم نے ایک مجلس مذاکرہ بھی منعقد کیا تھا۔ مذاکرے کا موضوع تھا، ’’قومی زندگی میں علاقائی کلچر کی اہمیت۔‘‘ یہ تقریر اسی مذاکرے میں کی گئی تھی جسے بعدمیں، میں نے ’’ہم قلم‘‘ کے لئے قلمبند
داستانوں کی ماہیئت
جامع مسجد دہلی کے ’’دروازہ شمالی کی طرف ۳۹سیڑھیا ں ہیں۔ اگرچہ اس طرف بھی کبابی بیٹھے ہیں اور سودے والے اپنی دکانیں لگائے ہوئے ہیں۔ لیکن بڑا تماشا اس طرف مداریوں اور قصہ خوانوں کا ہوتا ہے۔ تیسرے پہر ایک قصہ خواں مونڈھا بچھائے ہوئے بیٹھتا ہے اور داستان
مجاز کی موت پر
گزشتہ پچاس برسوں میں جس تیز روی کے ساتھ زمانہ بدلتا رہا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ہمارا شعور بھی ترقی کرتا رہا ہے، اس کی مثال اس سے قبل کے زمانے میں کم از کم اپنی قومی تاریخ میں تو نہیں ملتی ہے۔ جو تبدیلی کل تک بہت ہی سست رفتار اور غیرشعوری تھی، وہ آج
قومی بیداری میں اکبر کا حصہ
اکبر کا غیر ظریفانہ کلام بیشتر صوفیانہ اور واعظانہ ہے، لیکن جب وہ اپنے خیالات اور جذبات کا اظہار طنز و مزاح کی صورت میں کرتے ہیں تو محفل لوٹ پوٹ ہو جاتی ہے۔ کبھی خیال کی ندرت سے تو کبھی الفاظ کے تصرف سے۔ معلوم ایسا ہوتا ہے کہ یا تو اول اول اکبر کو اپنا
ہمارا کلچر اور ادب: ۱۸۵۷ء سے پہلے اور اس کے بعد
آج کے دن ہندوستان اور پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کی سو سالہ یادگار بڑے اہتمام سے منائی جا رہی ہوگی۔ مگر کس قدر حیرت کی بات ہے کہ اس عظیم ترین واقعے کی پہلی یادگار پورے سو سال کے بعدہی منائی جا رہی ہے۔ شاید اس لئے کہ سرسید
join rekhta family!
Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi
GET YOUR PASS
-
ادب اطفال1653
-