- کتاب فہرست 187237
-
-
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
-
ادب اطفال1947
طب894 تحریکات294 ناول4552 -
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
- بیت بازی12
- اشاریہ5
- اشعار64
- دیوان1444
- دوہا64
- رزمیہ108
- شرح192
- گیت83
- غزل1138
- ہائیکو12
- حمد44
- مزاحیہ36
- انتخاب1559
- کہہ مکرنی6
- کلیات685
- ماہیہ19
- مجموعہ4954
- مرثیہ377
- مثنوی824
- مسدس58
- نعت542
- نظم1221
- دیگر68
- پہیلی16
- قصیدہ186
- قوالی19
- قطعہ61
- رباعی294
- مخمس17
- ریختی13
- باقیات27
- سلام33
- سہرا9
- شہر آشوب، ہجو، زٹل نامہ13
- تاریخ گوئی29
- ترجمہ73
- واسوخت26
ممتاز حسین کے مضامین
حسرت کی غزل گوئی
حسرت نے ہمارے لئے دو کتابیں چھوڑی ہیں۔ ایک اپنی غزلوں کی کلیات دوسری اپنی زندگی کی کتاب۔ میں اس موقعے پرحسرت کی زندگی کے بارے میں بھی کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ کیونکہ وہ ان کے مجموعہ غزل سے کچھ کم اہم نہیں ہے لیکن جب یہ سوچتا ہو ں کہ وہ تو اس راہ پر خار سے
غالب ایک آفاقی شاعر
ہر بڑے اور اوریجنل شاعر کو زندگی کو دیکھنے، پرکھنے اور اپنے تجربات میں معنویت پیدا کرنے کے لئے ایک عالمی نقطہ نگاہ اختیار کرنا پڑتا ہے۔ یہ عالمی نقطہ نگاہ ایک شخصی آئیڈیالوجی کی صورت بھی اختیار کر لیتا ہے، جس سے وہ اپنے عہد کی آئیڈیالوجی کو پرکھتا
قومی زندگی میں علاقائی زبان اور کلچر کی اہمیت
(اپریل ۱۹۶۱ء میں بزم ثقافت ملتان نے جشن فرید منایا تھا۔ اس سلسلے میں بزم نے ایک مجلس مذاکرہ بھی منعقد کیا تھا۔ مذاکرے کا موضوع تھا، ’’قومی زندگی میں علاقائی کلچر کی اہمیت۔‘‘ یہ تقریر اسی مذاکرے میں کی گئی تھی جسے بعدمیں، میں نے ’’ہم قلم‘‘ کے لئے قلمبند
مرزا یاس یگانہ کی شاعری
سرسید اور حالی نے اپنی ہم عصر شعروشاعری کی مصنوعیت کو دیکھتے ہوئے اصلیت (نیچرل ہونے) اور تاثر پر اس قدر زیادہ زور دیا کہ حالی کے بعد غزل گو شعرا کی جو کھیپ بالخصوص لکھنؤ میں ابھری، اس نے اپنی شاعری میں ایک نیا طرز اختیار کیا۔ لفظوں سے کھیلنے کی پرانی
ادب اور شخصیت
(اس موضوع پر کراچی یونیورسٹی میں ایک سمپوزیم منعقد ہوا تھا۔ میں نے اس موضوع پر جو تقریر کی تھی اسے بعد میں قلم بند کر لیا تھا) اس موضوع کے دو متضاد پہلو ہیں۔ ایک تو یہ کہ ادب یا فن شخصیت کا اظہار ہے اور دوسرا یہ کہ ادب یافن شخصیت سے گریز ہے۔ غالباً
ادب، روایت، جدت اور جدیدیت
جدیدیت کی جو ایک لہر ان دنوں چل رہی ہے اس کے مدنظر ذرا کچھ ہمیں اپنی ادبی روایات ک ابھی جائزہ لینا چاہئے، لیکن اس سے پہلے ہمیں روایت کے مفہوم کو متعین کر لینا چاہئے، تاکہ جدت کو ’’جدیدیت‘‘ سے جدا کرکے بھی دیکھا جا سکے۔ کیوں کہ میرے نزدیک جدت، روایت کا
رجعت پسند ادب کیا ہے؟
رجعت پسند ادب کیا ہے؟ کی اس تعریف اس سے زیادہ مشکل ہے کہ ترقی پسند ادب کیا ہے۔ کیونکہ ترقی کاراستہ صرف ایک ہی ہوتا ہے اور پیچھے لوٹنے کی راہیں مختلف ہوتی ہیں۔ انسانی معاشرت کی یہ خصوصیت رہی ہے کہ نئے اور پرانے کی جنگ ہردورمیں ہوتی رہی ہے۔ وہ قوتیں
فیض کی انقلابی شاعری کا تغزلاتی اسلوب
میں نے یہ عنوان کچھ اس لئے منتحب نہیں کیا ہے کہ فیض کے اشعار سے ان کے تغزلاتی اسلوب کی مثالیں پیش کرکے یہ بتاؤں کہ کیونکر انہو ں نے غزل کے آہنگ اور اس کی ایمائی اور اشاراتی زبان میں اپنے انقلابی جذبات کا اظہار کیا ہے، بلکہ اس لئے منتخب کیا ہے کہ فیض
ہمارا کلچر اور ادب: ۱۸۵۷ء سے پہلے اور اس کے بعد
آج کے دن ہندوستان اور پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کی سو سالہ یادگار بڑے اہتمام سے منائی جا رہی ہوگی۔ مگر کس قدر حیرت کی بات ہے کہ اس عظیم ترین واقعے کی پہلی یادگار پورے سو سال کے بعدہی منائی جا رہی ہے۔ شاید اس لئے کہ سرسید
غالب، ایک تہذیبی قوت
جب بھی غالب کی شاعری کا ذکر آتا ہے تو ہماری نظر سب سے پہلے یا تو ان کے کلام کی آفاقیت پر جاتی ہے جہاں وہ پوری انسانیت کے ترجمان ہیں، یا پھر ان کے کلام کے ایسے حصوں پر جہاں انہوں نے انسان کے عنصری جذبات کی ترجمانی کی ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ غالب کی یہ
تنقید کے چند بنیادی مسائل
ہر وہ شخص جسے شعروادب کا مذاق ہے، لازمی طور پر ناقد نہیں ہے کیونکہ تنقید کا تعلق صرف مذاق کی اصلاح سے نہیں بلکہ زندگی کی اقدار کی قیمت متعین کرنے اور اس کے بارے میں فیصلہ دینے سے بھی ہے۔ یہ جاننا یقیناً اہم ہے لیکن اس سے کم اہم یہ نہیں ہے کہ اس کارخانہ
شاعر فراق گورکھپوری
معاصرین فراق میں سے کوئی دوسرا شاعر بجز ان کے ایسا نظر نہیں آتا جس کے بارے میں یہ کہا جا سکے کہ اس نے جو اثاثہ اپنے مرنے کے بعد چھوڑا ہے اس میں اس کی شاعری اور نثر ہی اہم نہیں ہے بلکہ اس کی شخضیت کا انوکھاپن، اس کی گفتگو، اس کے اقوال ظرافت و ذکاوت
تصوف اور شاعری
چونکہ دنیائے اسلام کی تاریخ میں تصوف نے ایک منظم تحریک اور منضبط عقیدے کی صورت بھی اختیار کر رکھی تھی، ہرچندکہ اس میں اختلافات عقائد بھی بے شمار رہے، اس لئے تصوف کو انگریزی لفظ مسٹی سی ازم (MYSTICISM) کے ہم معنی قرار دینے میں کسی قدر جھجک محسوس ہوتی
رسالہ در معرفت استعارہ
انسانوں کو حیوانوں سے ممتاز کرنے کے لیے فلسفیوں نے اسے مختلف ناموں سے یاد کیا ہے۔ کہیں کسی نے اسے سماجی حیوان کا نام دیا ہے تو کہیں کسی نے اسے سیاسی حیوا ن کا نام دیا ہے۔ (ارسطو) نوعی اعتبار سے اسے HOMO SAPIEN یعنی حیوان ناطق عاقل کہا گیا ہے۔ انسان کی
صورت و معنی
ادبی کارخانے میں صورت اور معنی کے باہمی رشتے کو سائنسی طور پر دریافت کرنا ایک بہت ہی مشکل کام ہے کیونکہ اس مسئلے پر صرف اس وقت سے صحیح روشنی پڑنے لگی ہے، جب سے جدلیاتی مادیت کا اسکول وجود میں آیا ورنہ اس سے پہلے تو اس پر عینی اسکول ہی کے مفکرین نے روشنی
داستانوں کی ماہیئت
جامع مسجد دہلی کے ’’دروازہ شمالی کی طرف ۳۹سیڑھیا ں ہیں۔ اگرچہ اس طرف بھی کبابی بیٹھے ہیں اور سودے والے اپنی دکانیں لگائے ہوئے ہیں۔ لیکن بڑا تماشا اس طرف مداریوں اور قصہ خوانوں کا ہوتا ہے۔ تیسرے پہر ایک قصہ خواں مونڈھا بچھائے ہوئے بیٹھتا ہے اور داستان
ماضی کے ادب عالیہ سے متعلق
ایک ایسے زمانے میں جبکہ طبقاتی جنگ تیز ہو جاتی ہے تو جذباتی وفور کے باعث کبھی کبھی ادبی پرکھ میں غلطیاں بھی ہو جاتی ہیں۔ یہ تصور سیاسی تیز پسندی کا نہیں ہے کیونکہ سیاست تو تیز ہوتی ہی ہے۔ بورژوا نظام کے تضاد جوں جوں ابھرتے جائیں گے، طبقاتی جنگ کا تیز
حالی کا نقطۂ نظر
حق نہ ملا نے کچھ بتایا صاف اور نہ صوفی نے کچھ دکھایا صاف آنکھ اپنی ہی جب تلک نہ کھلی مہر روشن نظر نہ آیا صاف زاہد وہم تو تھے ہی آلودہ تم کو بھی ہم نے کچھ نہ پایا صاف کیوں فقیہوں سے رک گئے حالی بھید تم نے نہ کچھ بتایا صاف اس چھوٹی سی
مجاز کی موت پر
گزشتہ پچاس برسوں میں جس تیز روی کے ساتھ زمانہ بدلتا رہا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ہمارا شعور بھی ترقی کرتا رہا ہے، اس کی مثال اس سے قبل کے زمانے میں کم از کم اپنی قومی تاریخ میں تو نہیں ملتی ہے۔ جو تبدیلی کل تک بہت ہی سست رفتار اور غیرشعوری تھی، وہ آج
join rekhta family!
-
ادب اطفال1947
-