Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ماضی کے ادب عالیہ سے متعلق

ممتاز حسین

ماضی کے ادب عالیہ سے متعلق

ممتاز حسین

MORE BYممتاز حسین

    ایک ایسے زمانے میں جبکہ طبقاتی جنگ تیز ہو جاتی ہے تو جذباتی وفور کے باعث کبھی کبھی ادبی پرکھ میں غلطیاں بھی ہو جاتی ہیں۔ یہ تصور سیاسی تیز پسندی کا نہیں ہے کیونکہ سیاست تو تیز ہوتی ہی ہے۔ بورژوا نظام کے تضاد جوں جوں ابھرتے جائیں گے، طبقاتی جنگ کا تیز ہونا لازمی ہے۔ تاریخ کا تقاضا تو انہیں تضاد کو زیادہ سے زیادہ ابھارنے اور تیز کرنے ہی کا ہے لیکن جب سماجی ارتقا کے قوانین کا اطلا ق بہت بھونڈے اور میکانکی طور سے ادب پر کیا جانے لگتا ہے تو نہ صرف ادب ہی کو نقصان پہنچتا ہے بلکہ انقلابی قوتیں بھی کمزور ہوتی ہیں۔

    مارکسی تنقید میں اقتصادی بنیاد کی اولیت اور طبقاتی جنگ ادبی جانچ پڑتال کا بہترین آلہ ہے لیکن جب اس آلے کو باقاعدہ تمام حالات اور علوم کا جائزہ لئے ہوئے میکانی طور سے استعمال کیا جاتا ہے تویہی آلہ علم دشمنی اور جہالت کا حربہ بھی بن جاتا ہے۔ اشتراکی انقلاب کے پہلے اور بعد میں نہ صرف روس ہی میں بلکہ اینگلز اور مارکس کے زمانے میں بھی خود جرمنی میں ایسے ناقدین موجود تھے جو مارکسزم کو ایک میکانکی علم بناکر ماضی کے ادب کو جانچنے کی کوشش کرتے تھے۔ ایسے مواقع پر مارکس اور اینگلز دونوں ہی نے اپنا قلم اٹھایا ہے۔ اسی طرح لینن نے ہرزہ گو معلموں کے خلاف نہ صرف بہت کچھ لکھا ہے بلکہ عملی تنقید کے ذریعہ ہماری رہنمائی بھی کی ہے۔ ہم کوشش کریں گے کہ اپنے ماضی کے ادب کی کسوٹی بناتے وقت ان کی تعلیمات کو سامنے رکھیں۔ قبل اس کے کہ اتنے بڑے مسئلے کو ہاتھ لگایا جائے، میں تمہیداً صرف سماجی ترقی کے مفہوم اور کلاسیکی ادب کے چند بنیادی مسائل کو پیش کروں گا۔

    جسے ہم ترقی کہتے ہیں اس کا تعلق ترقی کے مختلف سمتوں سے ہے۔ معاشی اور سیاسی ترقی کے ساتھ اگرمادی اور ارضی نقطہ نگاہ اور بنی نوع انسان کی وحدت کا تصور نہ ابھر سکے تو ہمیں سمجھنا چاہئے کہ ابھی ہماری ترقی نہ صرف نامکمل ہی ہے بلکہ اس میں کھوٹ بھی ہے کیونکہ سماجی شعور ایک اخلاقانہ قوت ہے جو معاشی بنیادوں پر اثر انداز بھی ہوتی ہے۔ اگر سماجی شعور زیادہ مستحکم نہیں ہے تو ممکن ہے کہ وہ ہمیں غلط معاشی نظام کی طرف لے جائے۔ یہی خطرہ ہمیں تصنیفات کے فوری اثر ہی کو دیکھنے تک محدود نہیں رکھتا ہے بلکہ اس کے دیرپا اثرات کا مطالعہ بھی لازم کر دیتا ہے۔ ممکن ہے کسی زمانے کی ادبی تصنیف فوری اثر کے اعتبار سے کمزور ہو لیکن سماجی ترقی میں دیرپا اثرات کی حامل ہو۔ اس حقیقت کا ایک مخالف پہلو بھی ہے۔

    یہ بات تو مسلم ہے ہی کہ ادب اور تہذیب کی ترقی طبقاتی سماج ہی میں ہوئی۔ چنانچہ طبقاتی اثرات کی چھاپ تو ادب اور کلچر دونوں ہی پر ہے لیکن جب ہم اس طرح سوچیں تو ہمیں سماجی ترقی کے مفہوم کو بھی اپنے ذہن میں رکھنا چاہئے۔ غلامی کا دور استحصالی نظام کو وجود میں لانے کے اعتبار سے ایک برا زمانہ تصور کیا جاتا ہے۔ لیکن قبائلی نظام کے مقابلے میں اس دور میں انسان نے زیادہ ترقی کی ہے، اس لئے اس درد کا کچھ حصہ ترقی پسندی کا بھی دور رہا ہے۔ یونان کا تمام علم و ادب اسی دور میں بار آور ہوا۔ اس دور کے علم و ادب نے ترقی اور رجعت دونوں ہی قوتوں کی نمائندگی کی ہے۔ کسی بھی دور کی سب چیزیں ترقی پسند نہیں ہوتی ہیں اور نہ انہیں تاریخی تقاضوں کا نتیجہ ہی کہہ کر ٹالا جا سکتا ہے۔ ترقی اور رجعت کی روایات پیہم ایک دوسرے کے ساتھ دست گریباں رہی ہیں۔

    سماجی ارتقا ترقی کی قدیم روایات کو آگے بڑھاکر ایک نئی صورت میں تبدیل کرتا رہا ہے۔ وہ ناقص اور غیرسائنسی روایات کو بھی مسترد کرتا رہا ہے۔ یہ سلسلہ اس وقت تک قائم ہے اور قائم رہےگا۔ اگربنیادی اعتبار سے دیکھا جائے تو یہ ترقی دو نقطوں میں سمٹ آتی ہے۔ طریق پیداوار کو بڑھانے اور اس سے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو فائدہ اٹھانے کا موقع دینا اور انسانیت کو آزاد کرانے کی جدوجہد کو آگے بڑھاتے رہنا۔ یہ قوتیں مختلف ممالک میں ایک ہی وقت میں اپنے ملکی حالات کے ماتحت مختلف صورتوں میں کام کرتی رہیں۔ ہم ایک ملک کی مثال کو دوسرے ملک پر میکانکی طور پر لاگو نہیں کر سکتے ہیں۔ پھر یہ کہ علم و ادب کا رشتہ معاشی بنیادوں کے ساتھ طبقاتی نظام میں اتنا براہ راست نہیں رہا ہے جتنا کہ قبائلی نظام میں تھا۔

    طبقاتی نظام میں توان چیزوں نے اکثر و بیشتر ایک بار معاشی بنیاد سے متعین ہوکر اپنی ایک آزاد زندگی بھی اختیار کر لی ہے۔ اکثر ان کی یہ آزادی اتنی مضبوط ہوتی ہے کہ وہ اپنی ترقی کے مخصوص قانون اور منطق بھی بنا لیتے ہیں۔ ہمیں فکری تحریکوں کو جانچتے وقت نہ صرف طبقاتی جنگ ہی کو دیکھنا ہے بلکہ ان کے تسلسل، منطق اور قانون کا بھی پتہ چلانا ہے۔ چونکہ فطری تحریکیں ادب پر گہرے اثرات چھوڑتی ہیں اس لئے ان کا مطالعہ معہ ان کی منطق کے بہت ضروری ہے۔ فکری تحریکیں اس لئے بھی اہم ہیں کہ وہ ایک مخصوص عہد کے نقطہ نگاہ اور ادراک حقیقت کا پتہ بھی دیتی ہیں۔ ان کی مدد سے ادب کو سمجھنے میں بڑی آسانی ہوتی ہے۔ ادب کی تعریف لینن نے نہ صرف اس طرح کی ہے کہ ادب خارجی حقیقت کا آئینہ ہے بلکہ اس طرح بھی کی کہ ادب ادراک حقیقت میں مدد بھی کرتا ہے۔ انہیں معنوں میں ادب ہماری جسمانی، ذہنی، جذباتی زندگی کا ایک ایسا مرقع ہے جس کی مدد سے کسی بھی زمانے کی تاریخ مرتب کی جا سکتی ہے۔

    تاریخ پورے سماج کی زندگی کی تاریخ ہوتی ہے جو حقیقت میں نئے اور پرانے کی جنگ کی تاریخ ہوتی ہے۔ تری پسند ادیب کسی نہ کسی معنی میں نئے کے ساتھ ہوتا ہے۔ اس وقت یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ وہ مکمل طور سے نئے کے ساتھ ہو کیونکہ جس حد تک ایک دور کی متضاد قدروں کی گنجلک تصویر عوام کے ذہنوں میں جھلکتی ہے، ادیب کا ذہن بھی گنجلک رہتا ہے۔ اسی لئے وہ اکثر متضاد باتیں بھی کرتا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ وہ بنیادی اعتبار سے پرانے کے خلاف جنگ کرکے کون سی نئی چیزیں لانا چاہتا ہے۔ اگر وہ صرف ماضی کی چیزیں واپس لانے کی کوشش کر رہا ہے تو ہم اسے رجعت پرست سمجھیں گے، خواہ ایک مخصو ص عہد کے پرانے پن کے خلاف ہی جنگ کیوں نہ کر رہا ہو۔

    میں نے اس چیز کا تذکرہ اس لئے کیا ہے کہ جب انحطاطی حکمراں طبقہ اپنے کو زندہ رکھنے کی کوشش کرتا ہے تو بہت سے نئے تصورات کو بھی اپناتا ہے لیکن وہ ان تصورات کو صرف اپنے طبقاتی مفاد کے لئے استعمال کرتا ہے۔ اس کی یہ کوشش اصل میں قدیم کو زندہ رکھنے کی کوشش ہوتی ہے۔ اس کی واضح مثال اسلامی تاریخ میں امام غزالیؒ کا زمانہ ہے۔ اس وقت اسلام کی شرعی حکومت انحطاط کی مکمل صورت میں تھی۔ شرع اور فقہ پر چاروں طرف سے حملے ہو رہے تھے۔ دشمنان شرع یونانی علوم سے لیس تھے۔ بالآخر امام غزالیؒ کو بھی یونانی علم الکلام کو مستعار لینا پڑا لیکن امام غزالیؒ نے اسے جن مقاصد کے لئے استعمال کیا وہ قطعی رجعت پسند تھے۔ موجودہ دور میں اس کی مثال علامہ اقبالؒ کی فکری کوششیں ہیں، علامہ اقبال نے اسلام کی روحانی جمہوریت کو واپس لانے کی کوشش کی ہے۔ اس کوشش میں انہوں نے ان ذرائع کو بھی استعال کرنا چاہا ہے جن سے یورپ میں ترقی ہوئی تھی۔ لیکن ایسے تمام ذرائع کو وہ اپنے مخصو ص مقصد کا پابند بھی کر دیتے ہیں اور یہی چیز ان کے کلام میں تضاد پیدا کر دیتی ہے۔ کیونکہ مادی ذرائع غیر مادی مقاصد کے ساتھ ہمنوا نہیں ہو سکتے ہیں۔

    اگر انسان عناصر فطرت پر تصرف حاصل کرےگا تو اس کا مقصد صرف مادی ہوگا۔ یہی وہ سبب ہے کہ اقبال کے کلام کے ترقی پسند اجزا، خود اپنی مخالفت کرنے لگتے ہیں۔ یوں تو علامہ اقبال کا فلسفہ خودی بڑا جاندار معلوم ہوتا ہے۔ لیکن جب وہ شریعت یعنی نیابت الہی کا پابند ہو جاتا ہے تو اس کی بغاوت کی حدود بھی متعین ہو جاتی ہیں۔ میں ان لوگوں میں سے نہیں ہوں جو شریعت کو ایک سیال تصور بناکر ہر نئے نظام پر منطبق کر دیتے ہیں۔ شریعت کی نظریاتی بنیادیں بالکل متعین ہیں اور اس کے عمل کی تاریخ ایک لمبے چوڑے دور پر پھیلی ہوئی ہے۔ اگر ہم اسلامی تاریخ پر نظر ڈالیں تو یہ ماننا پڑےگا کہ شریعت کو استحصالی طبقے نے استعمال کیا ہے اور جب تفسیریں لکھنے کا وقت آیا تو تمام تر فقیہوں نے ایسے ہی نکات پیش کئے جن سے حکمراں طبقے کی پوزیشن مضبوط ہوئی۔ بالآخر خلافت (دینی ریاست) ایک ایسا ادارہ بن گیا جس کی مخالفت کو ایک مقدس فریضہ بنا لیا گیا۔

    شریعت کی مخالفت اسلامی تاریخ کا ایک زبردست کارنامہ ہے۔ اس بغاوت کی ابتدا ان وحدت الوجودی صوفیوں نے کی، جو یونان کے فلسفہ وحدت الوجود سے متاثر تھے۔ یہ فلسفہ افلاطون کانہیں بلکہ پلوٹین کا تھا، جس نے افلاطون کی عینیت اور دیمبو قریطس کی مادیت کو ہم آمیز کرنے کی کوشش تھی۔ بغاوت کی اس آواز کو ذوالنون مصری، بایزید بسطامی اور حلاج نے اٹھایا۔ ان کے لئے یہ آواز اٹھانی ہی مشکل تھی، اگر یونانی وحدت الوجود کے فلسفے کو توحید مطلق کے فلسفے پر برتری نہ حاصل ہوتی۔ توحید مطلق کے فلسفے میں مادہ مخلوق ہے اور ایک مخصوص زمان ومکان کا پابند ہے۔ اس کی ایک ابتدا اور انتہا ہے۔ وہ اپنی حرکت وصورت پذیری میں مختار نہیں ہے۔ کیونکہ اس کا محرک اور خالق ایک دوسری قوت ہے۔

    وحدت الوجود کے فلسفے میں مادہ روح کے ساتھ ہم وجود ہے۔ مادہ بھی روح کے ساتھ ساتھ ازلی اور ابدی ہے، مادے کا کوئی خالق نہیں ہے بلکہ مادہ اور روح ایک دوسرے کے لئے جزولاینفک ہیں۔ اس طرح انسان کا عمل اور ارادہ مشیت ایزدی میں شامل ہو جاتا ہے، اگر انسان کسی چیز کی تخلیق یا تخریب کرتا ہے تو اس میں مشیت کو بھی دخل ہے کیونکہ مشیت کا اظہار مادے کے توسط یعنی انسانی عمل ہی کے ذریعے ہو سکتا ہے۔ وحدت الوجودی صو فیوں نے اسی منطق کی بنیاد پر اسلامی اخلاقیات کو سزا و جزا سے آزاد کرکے عمل میں منتقل کر دیا اور ان تمام مذہبی دیواروں کو گرانے کی کوشش کی جو انسانوں کے درمیان کھڑی کر دی گئی تھیں۔ ان اسباب کے تحت یہ کچھ تعجب کی بات نہیں ہے کہ صوفی عوام میں بہت مقبول تھے۔ وہ درباری زندگی سے گریز کرتے۔ انہوں نے اسلامی تاریخ میں دینی ریاست کے قائم ہونے کی مخالفت بھی کی ہے۔

    جس حد تک یونانی وحدت الوجود کا فلسفہ اور گبرد ترسا کے مادی فلسفے کی روایات توحید مطلق کے فلسفے کے ساتھ ہم آمیز ہوتی گئیں، صوفیوں کے انقلابی پن میں بھی کمزوری آتی گئی۔ اس فلسفے نے پہلی بیعت امام غزالیؒ کے ہاتھوں کی اور دوسری بیعت مجدد الف ثانی سرہندیؒ کے ہاتھ۔ امام غزالیؒ نے وحدت الوجود کو اس کے مادی جزو سے بالکل ہی آزاد کر دیا۔ محسوسات کے فلسفے کو رد کرکے تصوف کو باطنی مشق و مہارت کی چیز بنادی۔ اسی کے ساتھ ساتھ انہوں نے شریعت اور طریقت کو بھی ہم آمیز کرنے کی کوشش کی۔ اسی طرح جب مجددالف ثانی سرہندیؒ نے ہمہ اوست کوہمہ ازدست میں تبدیل کیا تو مادے کو بالکل ہی مخلوق کی صورت دے دی۔ اس کے یہ معنی نہیں کہ وحدت الوجود کا بذات خود عینی فلسفہ جو مادے اور روح کو ہم آمیز کرتا ہے، بہت سے معنوں میں مہلک ثابت نہیں ہوا۔

    ہرچند وحدت الوجودیوں نے مادے اور روح کی دوئی کو ہم آمیز کرنے کی ناکام کوشش کی۔ وہ عینیت سے چھٹکارہ حاصل نہ کر سکے۔ انہیں روح کو فاعل اور مادے کو مفعول بنانا ہی پڑا۔ یہی وہ سبب ہے کہ اس فلسفے میں فکر کو عمل پر ترجیح دی گئی ہے۔ صوفیوں کی زندگی میں تفکر پسندی، خاموشی اور اعتکاف انہیں تصورات کے تحت آیا ہے لیکن اس فلسفے کا ایک حسین پہلو بھی تھا۔ صوفیا انسان کو عالم اکبر تسلیم کرتے تھے اور نوامیس فطرت میں صرف انسان ہی کی جلوہ گری پر اپنا ایمان رکھتے تھے۔ میر کا ایسا تھکا ہارا انسان بھی اس رمز سے واقف تھا،

    ہم آپ ہی کو اپنا مقصود جانتے ہیں

    اپنے سوائے کس کو معبود جانتے ہیں

    اپنی ہی سیر کرنے پر جلوہ گر ہوئے تھے

    اس رمز کو ولیکن معدود جانتے ہیں

    یہاں تو خدا کو بندے سے یہ پوچھنے کی بھی ضرورت نہیں رہتی ہے کہ بتا تیری رضا کیا ہے۔ جبر و اختیار کا جھگڑا تو صرف اسی وقت باقی رہتا ہے جبکہ ہم مادے کو مخلوق تصور کریں، یہ کشمکش تو توحید مطلق ہی کی دی ہوئی ہے۔ بھلا سترہویں صدی کا انحطاطی تصوف اس کی زدسے کیوں کر بچ سکتا تھا، بالآخر میر کے ہاتھ سے بھی اپنی خودی مختاری کا اعتبار جاتا رہا۔

    اسی طرح حلاج کا فلسفہ بقا باللہ بھی انحطاطی دور میں ختم ہو گیا تھا۔ صرف فنا فی اللہ کا لفظ یاد رہ گیا تھا۔ حلاج کے بقاباللہ کے اصول کے مطابق انسان ذات باری کی خلاقانہ صفات میں ضم ہوکر تفرید اور تخلیق پر آمادہ ہوتا ہے۔ علامہ اقبال نے اسی تصور کے تحت انسان کو خالق بھی بتایا ہے۔ فنا فی اللہ کا وہ درجہ ہے جبکہ وہ اپنی انفرادیت کو نئی تخلیق کے لئے فنا کر دیتا ہے۔ چونکہ بقا باللہ میں انسان کے بندہ رہنے کا تصور کمزور ہو جاتا ہے، اس لئے توحید مطلق کے ماننے والوں نے اس کی بڑی مخالفت کی۔ اسے کفر کے برابر گردانا۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ تھا کہ مسلمان صوفیوں نے زیادہ ترفنا فی اللہ ہی کو رواج دیا۔ پھریہ کہ جاگیردارانہ نظام کا انحطاط اس خیال کو ہوا دینے میں اور بھی مددگار ثابت ہوا۔

    زندگی میں کوئی بھی نئی تخلیق بغیر مادی علوم کے ممکن نہیں ہے۔ یہاں اہل شرع اور اہل صفا دونو ں ہی نے مادی علوم کو ادراک حقیقت کے خانے سے خارج کر دیا۔ اہل صفا تو محسوسات سے لپٹے بھی رہے لیکن اہل شرع نے تو اس کی بھی مخالفت کی۔ ان تمام چیزوں سے زیادہ اہم بات تو یہ ہے کہ وحدت الوجودی بنیادی طور پر اگر ایک طرف مظاہر فطرت کی وحدت کے قائل تھے تو دوسری طرف کائناتی تخلیق کے مظاہر کی عالمی حیثیت کو مانتے تھے۔ سماج کے بارے میں ان کا یہ تصور نہ تھا کہ فرد نے کسی معاہدے کی بنا پر اپنے اختیارات سماج کو تفویض کئے ہیں بلکہ یہ کہ انسانوں کا سماج اسی طرح ایک عالم ہے جیسے نباتات یا جمادات کی دنیا ہے۔ ان کا سماجی تصور شہری نہیں بلکہ عالمی ہے۔ اسی وجہ سے بنی نوع انسان کی وحدت کا تصور اس کی شاعری میں بہت قوی ہے۔ غالب کا شعر ہے،

    بروزے کہ مردم شوند انجمن

    شود تازہ پیوند جانہا بہ تن

    لیکن چونکہ وہ مادے کے ارتقا اور اس کے جدلیاتی عمل سے واقف نہ تھے اس لئے سماجی ارتقا کو طبقاتی کشمکش میں نہ دیکھ سکے۔ یہ راز تو یورپ میں صنعتی انقلاب کے بعد ہی آشکارا ہوا۔ پھر ہم صوفیوں سے اس کی توقع کیوں کر کر سکتے ہیں۔

    بڑی ضمنی سی بات ہے لیکن کہہ دینے میں حرج ہی کیا ہے۔ یورپ کو پہلی دفعہ گوئٹے نے آفاقی ادب کا تصور دیا ہے اور اسے اتقاق ہی سمجھئے کہ گوئٹے وحدت الوجودی بھی تھا۔ اس گوئٹے کے بارے میں انیگلز نے لکھا ہے، ’’گوئٹے خدا کے تصور کے ساتھ کھیلنا نہیں چاہتا تھا۔ اسے تو یہ لفظ ہی کسمسا دیتا تھا۔ وہ تو صرف انسانوں ہی کے ساتھ مانوس تھا۔ اس کی یہ انسان دوستی ادب سے مذہب کو خارج کر دینے کی کوشش، گوئٹے کا یہ سب سے بڑا کارنامہ تھا۔‘‘ اس اعتبار سے شیکسپئر بھی اس کا ہم پلہ نہیں ہے۔ لیکن میں اسے اتفاق نہیں سمجھتا ہوں کہ فارسی اور اردو ادب میں صرف وحدت الوجودی صوفیوں ہی نے خدا کے تصور کو چیلنج کیا ہے۔ میں فیضی اور غالب کے اشعار پیش کرنا نہیں چاہتا ہوں بلکہ میں مولانا روم ایک شعر پیش کر رہاہوں جس کی مدد سے آپ کو وحدت الوجود کا فلسفہ بھی سمجھ میں آئےگا۔

    می گفت در بیاباں رندہ دہل دریدہ

    صوفی خدا نہ دارد او نیست آفریدہ

    یہاں مولانا نے صاف لفظوں میں وضاحت کر دی ہے کہ چونکہ مادے کا کوئی خالق نہیں ہے، اس لئے انسان کابھی کوئی خالق نہیں ہے۔ یہی منطق حلاج کو اناالحق کی طر ف لے گئی تھی اور اس منطق کے تحت کتنے صوفی شعرا خاکم بدہن کہہ کر خاموش ہو گئے۔ مجھے یہ کہنے میں جھجک نہیں ہے کہ فارسی اور اردو شاعری میں جاگیردارانہ نظام کے زمانے تک انسانی عظمت کے گیت اسی فلسفے کے تحت آئے ہیں اور وہ صوفی شعر ابھی جنہوں نے شریعت کے ہاتھ بیعت کر لیا، انسان کی عظمت کے ایک حد تک قائل ہیں، لیکن اس سے آگے قدم اٹھانا نہیں چاہتے۔ انہوں نے زیادہ سے زیادہ ایک درمیانی راستہ اصلاح کا اختیار کیا ہے، جس حد تک علامہ اقبال ؒحلاج کے فلسفے سے متاثر ہیں، انسان کو حریم کبریا میں لا کھڑا بھی کیا ہے۔ لیکن جس حد تک وہ امام غزالیؒ اور سرہندیؒ کے تصوف سے مثاثر ہیں، مادی نقطہ نگاہ کی، انسانی عظمت کی نفی بھی کی ہے۔

    توحید مطلق اور وحدت الوجود کے متضاد سروں کو ملانے ہی کی کوشش میں علامہ اقبال نے خدا ئے تعالیٰ کو لامحدود اور محدود دونوں ہی بتایا ہے۔ اور یہی کوشش اجتہاد اور تقلید کے تضاد کو بھی قائم رکھتی ہے۔ ان کا یہ کہنا ہے کہ اجتہاد ترقی کے زمانے میں کرنا چاہئے اور تقلید انحطاط کے زمانے میں، جب بھی کوئی رہنما انسانوں کو مقام کبریا بتاکر اسے مخلوق کا لقب دے دیتا ہے تو وہ اسے بندہ محکوم بنانے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ اس پر مزید روشنی ڈالنے کے لئے میں لینن کی تحریر کا اقتباس پیش کر رہا ہوں، ’’حقیقت میں یہ خدا کا تصور نہ تھا جس نے بہیمانہ انفرادیت پرستی کو دبایا ہے۔ یہ کام ابتدا کی جماعتی زندگی نے کیا ہے، خدا کے تصور نے ہمیشہ سماجی جذبے کو کمزور کیا ہے۔ خدا کے تصور نے کبھی بھی فرد اور سماج کے رشتے کو مضبوط نہیں ہونے دیا ہے بلکہ مظلوم طبقے کو غلامی کی زنجیروں میں اس عقیدت کے ساتھ جکڑے رکھا کہ حکمراں طبقے پرخدا کا سایہ ہتا ہے۔‘‘

    اس میں شبہ نہیں کہ لینن نے جو کچھ لکھا ہے مغرب کی تاریخ کو سامنے رکھ کر لکھا ہے لیکن یہ غلط بھی نہیں ہے۔ کیونکہ ظل سبحانی کا تصور تو ہمارے یہاں بھی کارفرما رہا ہے۔ یہ تصور صرف توحید مطلق ہی کا جزو بن سکتا ہے۔ وحدت الوجود میں تو اس کی گنجائش ہی نہ تھی لیکن توحید مطلق کے فلسفے سے متاثر ہونے کے بعد تو صوفیوں کے یہاں بھی ولیوں کا ایک سلسلہ قائم ہو گیا تھا، جو یا تو سیاست سے کنارہ کش ہو گئے تھے یا پھرظل اللہ کی مراعات کے محتاج تھے۔ جہاں تک مادی فلسفے کے نقطہ نگاہ سے دیکھنے کا تعلق ہے، توحید مطلق اور وحدت الوجود دونوں ہی عینی فلسفہ ہیں۔ لیکن جاگیردارانہ نظام کی گزشتہ تاریخ میں توحید وجودی نے سیاسی مطلق العنانی، عقائدی کٹرپن اور الہیاتی منطق کے خلاف جو جنگ کی، اسے ہم نظرانداز بھی نہیں کر سکتے۔ اس نے اس جنگ میں معقول کو محسوس ٹھہرایا۔ چشم وگوش اور کام ودہن کی لذت کی تکفیر نہ کی اور شعر و ادب میں محسوسات کی تمام رعنائیوں کو رچایا۔ اس نے مصوری، بت تراشی، موسیقی، رقص، شعر و نغمہ کسی بھی چیز کو ممنوع قرار نہ دیا۔

    یہ بات دوسری ہے کہ اس نے ہر چیز کو ایک پردہ بنایا لیکن سچ تو یہی ہے کہ پردہ کو کبھی اٹھا نہ سکا، کیونکہ انسانی دماغ مادے سے ماورا تصورات کو ذہن میں لا ہی نہیں سکتا ہے۔ اگر مشرق میں کچھ لوگ حافظ کے دیوان کا مطالعہ حقیقت کے رنگ میں کرتے ہیں تو اس میں کس کا قصور ہے۔ اگر گوئٹے اور ہائنے نے حافظ کو صرف مجاز ہی کے رنگ میں دیکھا تو علامہ اقبال کو تو خوش ہونا چاہئے تھا کہ از کم دنیاکے ایک حصہ میں فلاطونی گو سفند کی روحانیت کارگر نہیں ہے، لیکن وہ اس بات سے بھی مکدر تھے۔ وہ تویہی چاہتے تھے کہ حافظ کا مطالعہ صرف مذہبی رنگ میں کیا جائے تاکہ کرسچین مغرب اور ایشیائی مسلمان اس کی ایرانی پنگزم کی مخالفت کرے، رہ گئی فنائے دنیا کی بات تو اس کی مخالفت تو کوئی بھی ایسا شخص نہیں کر سکتا ہے جو مادے کو مخلوق سمجھتا ہے کیونکہ اگر مادہ مخلوق ہے تو اس کی ایک ابتدا ہے اور ایک انتہا بھی۔

    کم از کم اہل شرع کو تو فنائے دنیا کا گلہ کرنا ہی نہیں چاہئے۔ مسلمان صوفیوں میں تو یہ چیز توحید مطلق ہی کے فلسفے کے تحت آئی اور وحدت الوجود ی کی آواز تو ہمیشہ یہی رہی ہے۔ ہم سے پہلے نہ تو ابد ہے اور نہ ہمارے بعد ازل۔ حلاج۔ پھر یہ چیز صرف صوفیوں ہی کے ساتھ کیوں منسوب کر دی گئی۔ قصہ یہ ہے کہ ہراکلیٹس کے قول کے مطابق وحدت الوجودی بھی اس بات کو مانتے تھے کہ ہر چیز ہے اور نہیں ہے یعنی ہر چیز ایک صورت سے دوسری صورت میں تبدیل ہوتی رہتی ہے،

    ہر قطعہ پر چمن کے ٹک غور سے نظر کر

    بگڑیں ہزار شکلیں تب پھول یہ بنائے

    میر

    مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں

    تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں

    میر

    سب کہاں کچھ لالہ وگل میں نمایاں ہو گئیں

    خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں

    غالب

    شاید اسی سبب سے بہت سے صوفیوں پر حلولی ہونے کا الزام بھی لگایا گیا۔ لیکن ہراکیٹس کے اس نکتے کو سائنسی طور پر سمجھنے کے لئے نیچرل سائنس کی ضرورت تھی جس سے ایشیا مدتوں تک محروم رہا۔ ناچار تغیر و حرکت کو فنا کے ساتھ ہم معنی کر دیا گیا۔ یہ تو صحیح ہے کہ ہر چیز فنا ہوتی رہتی ہے لیکن وہ ایک نئی صورت میں بدلتی رہتی ہے۔ تسلسل زندگی کو ہے نہ فنا کو۔ یہ نکتہ قیامت کے تصور اور زمان ومکان کے ارضی و سماوی تقسیم نے بھلا دیا۔ صوفی شعر ابھی اس غلط تصور کے شکار ہوئے۔ چنانچہ میر اور غالب دونوں ہی کے یہاں یہ طریق کار الٹا ہوا نظر آتاہے۔ دونوں ہی بقا کے راز کو فراموش کرکے فنا کو مقدم کر دیتے ہیں،

    مری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی

    ہیولی برق خرمن کا ہے خون گرم دہقاں کا

    غالب

    پھرتی ہے اپنے ساتھ لگی متصل فنا

    آب رواں سے ہم ہوئے نابود ہر جگہ

    میر

    مری نمود نے مجھ کو کیا برابر خاک

    میں نقش پا کی طرح پائمال اپنا ہوں

    میر

    مرناہے خاک ہونا ہو خاک اڑتے پھرنا

    اس راہ میں ابھی تو درپیش مرحلے ہیں

    میر

    بہرحال اس تحریف کا جو کچھ بھی سبب ہو، اس قسم کے انحطاطی فلسفے سے حافظ کے زمانے سے الی الحال ہر ایک صوفی شاعر متاثر ہوا ہے۔ اس قسم کے خیالات کی جتنی مخالفت کی جائے کم ہے، لیکن جب ایک مخصوص خیال کو پردہ بناکر صوفی شعرا کی اچھی باتوں کی بھی مخالفت کی جاتی ہے تو پھر نتیجہ غلط ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر حافظ کا ایک شعر لیجئے،

    آسائش دو گیتی تفسیر ایں دو حرفست

    باد دستاں تلطف بادشمناں مدارا

    اس شعر کے بارے میں اگر کوئی شخص اس قسم کی رائے دے کہ جب حافظ نے یہ شعر کہا تھا تو ترقی پسند تھا لیکن اب رجعت پسند ہے تو اس کے یہ معنی ہوں گے کہ اسے یا تو کلاسیکی ادب کے جانچنے کی سائنس نہیں معلوم ہے یا پھر وہ لوگوں کو کلاسیکی ادب سے متنفر کرنا چاہتا ہے۔ غلامی کے عہدسے لے کر سرمایہ دارانہ نظام تک طبقاتی شعور کے مختلف منازل رہے ہیں۔ اگر آج کے دور کی طبقاتی جنگ میں جس کا شعوربہت ہی صاف تیز اور تند ہے، ہم غلامی کے عہد یا جاگیردارانہ نظام کے ادب کو جانچنے کی کوشش کریں گے تو وہ ہمیں یقیناً حقیر معلوم ہوں گے۔ ایسی صورت میں ان کی معنوی افادیت کو ابھار کر ان کے جمالیاتی حظ کو بالکل ہی دبا دینا ظلم کرنے کے برابر ہے۔ کارل مارکس نے یونان کے اساطیری ادب اور شیکسپئر کو اس نظریے سے نہیں جانچا ہے اور نہ یہ نظریہ ماضی کے ادب عالیہ کے بارے میں روس ہی میں رائج ہے۔ اس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔

    ڈکنس کے ناولوں میں انسان دوستی کا جذبہ طبقاتی جنگ کے تضاد پر غالب آ جاتا ہے۔ آپ ڈکنس کو طبقاتی سمجھوتہ باز کہہ سکتے ہیں لیکن اس سے ڈکنس کی عظمت گھٹتی نہیں ہے، حالانکہ وہ سرمایہ دارانہ نظام کا ناول نگار تھا۔ اسے زیادہ سے زیادہ بورژوا انسان دوست کہا جاتا ہے، اس کا سبب یہ ہے کہ اس کی دوستی مظلوم طبقے کے ساتھ بہت ہی واضح ہے۔ اگر یہ فرض بھی کر لیا جائے کہ ڈکنس کے ناولوں میں جمالیاتی حظ نہیں ہے تو انسان دوستی ہی کے جذبے کے تحت ہی ڈکنس روس میں بہت زیادہ مقبول ہے۔ اب آپ ایک سیڑھی اور اتریے۔ شیکسپئر کا کوئی بھی ایسا ڈرامہ نہیں ہے جس میں اس نے اپنے ہیرو کو مقدر کے ساتھ ہمنوا نہ کیا ہو۔ بہ لفظ دیگر اس کا کوئی بھی ہیرو تقدیر کی تخلیق میں غالب نظر نہیں آتا ہے۔ شیکسپئر کے ہیرو سوویت روس کے ہیرو کے شعور کو بیدار نہیں کر سکتے۔ پھر بھی شیکسپئر روس میں پڑھا جاتا ہے اور ڈکنس کے مقابلے میں زیادہ جمالیاتی حظ کے ساتھ۔

    اب آپ ایک سیڑھی اس سے بھی نیچے اتریے۔ یونان کا کلاسیکی ادب جس کا کائناتی نقطہ نگاہ بالکل ہی طفلانہ ہے، آج کی دنیا میں کیا افادیت رکھتا ہے لیکن کال مارکس ہر سال پڑھتا تھا۔ اوراسے انسانیت کے زمانہ طفلی کے حافظے کے نام سے یاد کرتا تھا۔ اسی ادب کے بارے میں کارل مارکس نے یہ کلاسیکی جملہ بھی لکھا ہے، ’’یہ سمجھنا مشکل نہیں ہے کہ یونان کے فنون وادب اور اس کے ادوار مخصوص قسم کے سماجی ترقی کے ساتھ وابستہ ہیں۔ ہاں یہ سمجھنے میں یقیناً دقت ہوتی ہے کہ وہ آج بھی کیوں جمالیاتی حظ کا سبب بنے ہوئے ہیں۔ اوربعض معنوں میں ایک ایسا معیار قائم کئے ہوئے ہیں جس کو حاصل کرنا بہت مشکل ہے۔‘‘

    یونان کے کلاسیکی ادب کے بارے میں کارل مارکس نے اپنے خیالات کا اظہار کئی جگہوں میں کیا ہے۔ ان سب کو سامنے رکھتے ہوئے اس نتیجہ پر پہنچنا پڑتا ہے کہ ماضی کے ادب عالیہ کے بارے میں کارل مارکس کانقطہ نظر تاریخی تھا۔ چونکہ اس کی حقیقت بیں نگاہیں ایک دور کو دوسرے دور کے ساتھ گڈمڈ نہیں کرتی تھیں اور چونکہ وہ سماجی شعور کے مختلف منازل سے بھی واقف تھا، اس لئے وہ جمالیاتی حظ حاصل کرنے سے پرہیز بھی نہیں کرتا تھا۔ آخرادب کا بھی تو ایک حسن ہے جسے مارکس نے ابدی حسن کہہ کر یاد کیا ہے۔ یہ ابدی حسن بقول حافظ ہر شخص حاصل نہیں کر پاتا ہے،

    نہ ہرکہ چہرہ برافروخت دلیری داند

    نہ ہرکہ آئینہ ساز دسکندری داند

    اگر مارکس کا نظریہ صحیح ہے تو یہ ماننا پڑےگا کہ حافظ کا شعر صرف ماضی ہی میں ترقی پسندتھا بلکہ آج کی تاریخ میں بھی حسین ہے۔ کیونکہ وہ جمالیاتی حظ کا سبب بنا ہوا ہے۔ اب میں حافظ کا ایک دوسرا شعر پیش کر رہا ہوں،

    حدیث ازمطرب و مے گودراز دہر کمتر جو

    کہ کس نکشودنکشاید بحکمت ایں معمارا

    یہ واقعی بڑا رجعت پسندانہ خیال ہے کہ جو معمہ حکمت سے نہ کھل سکے بھلا اسے مطرب کیوں کر کھول سکتا ہے۔ غالباً یہی فلسفہ خیام کا بھی تھا۔ پھر بھی خیام نے ایرانی ادب میں مادی اورحسی فلسفے کو جنم دیا، لیکن میں خیام کا سہارا کیوں لوں۔ حافظ کے اس رجعت پسندانہ فلسفے کے بارے میں میرا جو آج ردعمل ہے وہ سائنس اور مادی علوم کی بڑھتی ہوئی روشنی کے باعث ہے۔ جبکہ روز بروز معمے پر معمے کھلتے جا رہے ہیں۔ کیا یہی بات حافظ کے وقت میں بھی صحیح تھی۔ اگر آپ حافظ کے وقت کا جائزہ لیں اور یہ بات تیرہویں صدی عیسوی کی ہے جب کہ یورپ میں بھی اندھیرا تھا، تو آپ کو معلوم ہوگا کہ حافظ کے زمانے میں مادی علوم کی تعلیم بہت کم تھی۔ مدرسوں میں صرف معقولات اور منقولات کی کتابیں پڑھائی جاتی تھیں۔

    معقولات کا دائرہ فلسفہ الہیات تھا اور منقولات کادائرہ احادیث۔ فلسفہ الہیات سے مادی علوم کو بالکل خارج کر دیا گیا تھا۔ مادی علوم کے خلاف یہ جنگ تین سو سال پہلے سے لڑی جا رہی تھی۔ اس کی ابتدا معتصم باللہ کے زمانے سے ہوتی ہے۔ جبکہ مادین (لطف یہ ہے کہ اس وقت وحدت الوجودیوں کو بھی مادین میں شمار کیا جاتا تھا) کوتہ تیغ کر دیا اور تمام مادی علوم کی تعلیم پر پابندی لگادی گئی۔ اس وقت سے ایران مادی علوم سے دور ہوتا گیا۔ حافظ کے وقت میں تو خالصتا ًفقہی تعلیم رہ گئی تھی۔ ایسے ماحول میں اگر حافظ نے فقہی حکمت کی مخالفت کی تو کیا قصور کیا۔

    یہاں جب حافظ حکمت کے خلاف ردعمل کرکے مطرب ومے کی طرف بڑھتا ہے تواس کا اشارہ صرف محسوسات کی طرف ہے اور محسوسات علوم کے اولین زینے ہیں۔ انہیں معنوں میں خیام اور حافظ نے حسی فلسفے کو ایرانی ادب میں داخل کیا ہے۔ یہ ایرانی پنگیزم کی بازگشت تھی جوایک مادی فلسفہ تھا۔ ع گبرمی گوید کہ ہست عالم نیست رب۔ (رومی)

    مادیت کی بنیادوں کو استوار کرنے کے لئے پہلے اپنے حواس کی قوتوں کو بروئےکار لانا پڑتا ہے، مادی علوم الہیاتی منطق کی کوکھ سے نہیں پیدا ہوتا ہے۔ یونان کامادی فلسفہ یونان کی پنگیزم سے پیدا ہوا۔ یورپ میں بھی نشاۃ ثانیہ کی تحریک کے زمانے میں مفکر طبقے اور ادیبوں نے پنگیزم سے بے تکان عقیدت کا اظہار کیا، کیونکہ مادی زندگی کی مسرتوں کو ابھارے بغیر مادیت کا نظریہ مستحکم نہیں ہوتا ہے۔ حافظ کے سامنے مادی علوم نہ تھے، وہ خود امام غزالی کے ہاتھوں بیعت کر چکے تھے۔ پھر بھی ان کی شاعری میں ایرانی پنگیزم حسیہ حقیقت نگاری کے روپ میں ابھر آیا ہے۔ مادی حقیقت نگاری حسیہ حقیقت نگاری کے بغیر وجود میں نہیں آتی ہے۔ حافظ کا یہ بہت بڑا کارنامہ ہے کہ اس نے الہیاتی منطق کے خشک طریق استدلال کے خلاف بغاوت کرکے حسیہ اظہارحقیقت سے ایرانی ادب کو مالا مال کر دیا۔

    اس موقع پر مرے سامنے علامہ اقبال کے وہ اشعار بھی ہیں جو انہوں نے کبھی حافظ کے بارے میں کہے تھے۔ مجھے موصوف کی اس تنقید سے اتفاق نہیں ہے۔ کیونکہ جہاں تک حافظ کے فلاطونی گوسفند ہونے کا تعلق ہے، ہر وہ شخض فلاطونی گوسفند ہے جومادے کو مخلوق سمجھتا ہے۔ پھریہ کون سمجھا ئے کہ حافظ ’’صہباگسار‘‘ اور مولانا رومی میں کیا فرق ہے کیونکہ ایک سے خطرے کا اظہار کیا جاتا ہے اور دوسرے کو امام بنایا جاتا ہے۔ کیا اس خیال سے کہ حافظ زیادہ ایرانی اور پنگین ہے۔ تیسری بات اور بھی پیچیدہ نظر آتی ہے۔ علامہ اقبال عرفی کی تتبع کے لئے ہدایت کرتے ہیں اور عرفی حافظ کی شاعری پر اپنا ایمان رکھتا ہے،

    گرخداوندی ہوس داری در اقلیم سخن

    بندگی حافظ شیرازی باایست کرد

    عرفی

    ان تمام باتوں میں علامہ اقبالؒ نے ایک بڑی اچھی بات کہی ہے۔ وہ ہے حافظ کی جادو بیانی۔ اس میں شبہ نہیں کہ جہاں اس کا حاصل کرنا مشکل ہے، اس کی نعمت خطرناک بھی ہے۔ وہ آنے والی نسلوں کو سہل انگاری سے روکتی ہے۔ انہیں بار بار یاد دلاتی رہی ہے کہ خیالات کو صرف نظم کر دینا ہی شاعری نہیں ہے۔ شعر ایک تخلیقی شے ہے جو صورت و معنی کے جدلیاتی طریق کار سے ابھرتی ہے۔

    اب دیکھنا ہے کہ ان غلطیوں کا بنیادی سبب کیا ہے۔ پہلی غلطی تو مختلف ممالک کے سماجی ارتقا کے سمجھنے میں ہوتی ہے۔ مغرب کا سماجی ارتقا اور وہاں کا طبقاتی شعور ایشیا کے تاریخی ارتقا اور طبقاتی شعور سے آگے رہا۔ ہم مغربی تاریخ کے شواہد کو میکانکی طور پر مشرق پر لاگو نہیں کر سکتے اور نہ ہم تاریخ کے مختلف ادوار کو اس طرح خانوں میں تقسیم کر سکتے ہیں کہ گویا ایک کا تعلق دوسرے دور سے تھا ہی نہیں۔ اکثر اوقات ہم میکانکی طور پر غلام تہذیب کی پیٹھ پر جاگیردارانہ نظام اور اس کی پیٹھ پر سرمایہ دارانہ نظام کی اینٹ چنتے ہوئے چلے جاتے ہیں اور ان تینوں دور کو ایک معنی میں ایک عہد (EPOCH) سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں۔

    اس میں شبہ نہیں کہ جہاں تک ذرائع پیداوار اور تہذیب کے مادی وسائل کے بڑھنے اور ترقی کرنے کا تعلق ہے، ایک دور کو دوسرے پر برتری حاصل ہے اور یہ بھی سچ ہے کہ غلام کے مقابلے میں کھیت مزدور اور کھیت مزدور کے مقابلے میں مل مزدور کی آزادی نسبتاً آگے بڑھتی رہی ہے لیکن ذرائع پیداوار پر ایک مخصوص طبقے کے تصرف حاصل کر لینے سے غلامی کا دور ختم نہیں ہو جاتا ہے تاوقتیکہ وہ طبقہ استحصال کی بنیادوں کوختم نہ کر دے۔ یہی سبب ہے کہ مارکس نے ان تینوں ادوار کو ایک عہد کہہ کر بھی یاد کیا ہے۔ یہ پورا عہد غلامی کا عہد ہے۔ اس میں استحصال کی شکلیں تو ضرور بدلتی رہی ہیں لیکن استحصال ختم نہیں ہوا ہے۔ انہیں معنوں میں اشتراکی انقلاب اپنے ماسبق انقلابات سے بہت ہی مختلف ہے۔ یہ فرق ایک بنیادی تبدیلی کا ہے۔ اشتراکی انقلاب کی یہ بنیادی خصوصیت اس طبقاتی شعور کا نتیجہ ہے جسے بورژوا نظام نے بہت ہی تیز کر دیا ہے۔ آج بورژوا نظام کے طبقاتی شعور میں جو تیزی اور تندہی ہے اگر اس کی بنیاد پر آپ جاگیردارانہ نظام کے طبقاتی شعور کو جانچنے کی کوشش کریں گے تو آپ کو بڑی ناکامی ہوگی لیکن اس کے یہ معنی نہیں کہ جاگیردارانہ نظام میں طبقاتی جنگ یا طبقاتی شعور نہ تھا۔

    اس سے صرف اتنی مراد ہے کہ اس وقت طبقاتی شعور اتنا آگے بڑھا ہوا نہ تھا جتنا کہ آج ہے کیونکہ اس وقت تک لوٹنے والے اور لوٹے جانے والے طبقوں کا تضاد اتنا ابھر نہیں پایا تھا۔ جاگیردارانہ نظام کے بہت سے دبے ہوئے تضاد کو سرمایہ دارانہ نظام نے ابھارا ہے اور بہت سے اس نظام کے دبے ہوئے تضاد کو اشتراکی نظام نے ابھارا ہے۔ میں وضاحت کے لئے ہندوستان کی تاریخ سے ایک مثال دینا چاہتا ہوں۔ انگریزوں کے آنے سے پہلے دیہات کی زمینوں پر کسانوں کا قبضہ تھا۔ بظاہر ذرائع پیداوار پر تصرف انفرادی تھا لیکن وہ اپنی محنت سے بھرپور فائدہ اٹھا پاتے تھے۔ کیونکہ پیداوار کا ایک تہائی یا چوتھائی حصہ وہ جاگیردار کو بھی دیتے تھے جوکہ زمینوں کے مالک نہ تھے لیکن چونکہ ذرائع پیداوار پر براہ راست تصرف جاگیردار کا نہ تھا اس لئے جاگیرداروں اور کسانوں کا طبقاتی تصادم بھی اتنا شدید نہ تھا، جتنا کہ انگریزی راج میں ہوا۔

    انگریزوں کے آنے سے یہاں کے طبقاتی تعلقات میں ایک بنیادی تبدیلی پیدا ہوئی۔ انگریزوں نے دیہات کی جماعتی زندگی کو تباہ کرکے زمینیں محصول جمع کرنے والے طبقے یعنی زمینداروں کودے دی۔ اب زمینی ذرائع پیداوار پر براہ راست تصرف زمینداروں کا ہے۔ کیونکہ وہ انہیں بے دخل بھی کر سکتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ آج ان کی لڑائی آگے بڑھی ہوئی ہے اور ان کا طبقاتی شعور بہت بیدار ہے۔ آج کی ایسی شعوری آگہی جاگیردارانہ نظام میں نہ تھی لیکن طبقاتی کشمکش تو تھی ہی۔ یہ بات صحیح ہے لیکن اس کشمکش کا اظہار اس وقت شاہی سیاست میں ہوتا تھا۔ اینگلز کہتا ہے کہ تمام انقلابی عناصر جو جاگیردارانہ نظام کی تہوں میں اٹھتے تھے وہ سب کے سب شاہی طاقت کی طرف راجع ہوتے تھے اور آخرالذکر ان کی طرف راجع ہوتا تھا۔

    ایسی صورت میں جب ہم جاگیردارانہ نظام کی سیاست اور طبقاتی شعور کا پتہ چلانے کی کوشش کریں تو ہمیں بادشاہوں کی سیاست کو نظرانداز نہ کر دینا چاہئے۔ یہ راستہ کافی مشکل ہے یہاں سر کھپانے کی ضرورت پڑتی ہے۔ ہمیں جلد بازی میں کسی بھی استحصالی طبقے کے مفکر کی تنقید قبول نہ کرنی چاہئے کیونکہ وہ اپنے مخالف طبقے کی پول کھولنے میں توبہت ہی کامیاب رہتاہے لیکن وہ حقیقت کی تہوں تک نہیں پہنچ پاتا ہے۔ اس کا استحصالی رجحان حقیقت تک پہنچنے میں ایک پردہ بن جاتا ہے۔ خیر یہ ایک ضمنی بات ہوئی، ورنہ ستم ظریفی تو اس وقت شروع ہوتی ہے جبکہ میر اور غالب کی شاعری میں کسانوں کی بغاوت اور پلاسی کی جنگ کا تذکرہ نہیں ملتا ہے تو انہیں رجعت پسند کہہ کر الگ کر دیا جاتا ہے۔ تاریخ کا یہ میکانکی تصور ہمیں دوسری قسم کی غلط فہمیوں میں مبتلا کر دیتا ہے۔ کبھی کبھی ہم اشتراکی اور فیوڈل نظام کو دو پلوں میں رکھ کر موازنہ کرنے لگتے ہیں اور جب فیوڈل کا پلہ ہلکا نظر آتا ہے تو پھر ماضی کی صحت مند روایات پر بھی حقارت کی نظر ڈالنے لگتے ہیں۔

    ماضی کی صحت مند روایات کو حقارت سے دیکھنے کا یہ جذبہ اصل میں تاریخ کو مٹانے کاجذبہ ہے اور تاریخ کو وہی مٹاتا ہے جس میں کچھ احساس کمتری ہوتا ہے۔ وہ تمام ادیب اور شعراء جو اپنے فن کو اس حد تک چمکا نہیں سکے ہیں کہ اپنے کلام میں بھی ایک ابدی حسن پیدا کر سکیں، ماضی کی حسین روایات کو مٹانے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ ادبی حسن کا واہمہ ہی ختم ہو جائے۔

    یہ ابدی حسن صرف یونان کے کلاسیکی ادب ہی میں نہیں ملتاہے بلکہ ہر دور کی بہترین ادبی تخلیقات میں۔ ہر دور کے ادب کا نہ صرف مواد ہی بدلا ہوا ہے بلکہ ہیئت بھی بدلی ہوئی ہے۔ پھر بھی ان کے باہمی امتزاج سے جو حسن پیدا ہوا ہے وہ ہیئت کو نصیب نہیں ہوا ہے۔ ہمیں اس حقیقت کو ماننا پڑےگا اور اس حقیقت تک پہنچنے کے لئے ہمیں ادب کے مختلف عناصر کا پتہ چلانا ہے۔ یہ بات تو صحیح ہے کہ ادب مخصوص قدروں اور خیالات کی تبلیغ کرتا ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ اس تبلیغ کا اثر وقتی ہے یا دیرپا۔ وہ ہمارے جذبات اور خیالات کو متحرک کرکے ایک دیرپا عمل کی تعلیم کرتا ہے یا صرف وقتی جوش میں لاکر چھوڑ دیتا ہے۔ وہ ہمار احساسات اور نفسیات کی جوابی صلاحیتوں کو چھوتا ہے کہ نہیں۔ اس میں اتنی صلاحیت ہے کہ نہیں کہ وہ ہماری نفسیات پر اثرانداز ہوکر ہمیں حالات کے بدلنے اور خود اپنے کو بدلنے میں مدد کر سکے اور ہماری نفسیات کو نئی قدروں سے ہمنوا کرکے ایک نئی جذباتی تنظیم بھی کر سکے۔

    اگر یہ قوت اور صلابت کسی شاعر کے کلام میں نہیں ہے تو یہ ماننا پڑےگا کہ یہ قصور ماضی کی حسین روایات کا نہیں ہے۔ یہ اس کا اپنا عجز ہے۔ اس میں اتنی صلاحیت نہیں کہ وہ اپنے خیالات اور جذبات کو ایسے زندہ اور متحرک سانچوں میں ڈھال سکے جن کی باز آوری سے ہمارے اندر حیات نو پیدا ہو جائے، مشاہدے اور تجربے کی بدگمانیاں کھلنے لگیں اور قدم قدم پر صداقت کی داد دیتی جائیں۔ یہی وہ راستہ ہے جس پر چل کر ہم عوام کو نئے خیال سے آشنا کر سکتے ہیں اور نئے معرکے کی طرف اکسا سکتے ہیں، یہ اکساہٹ اسی وقت دیرپا ہو سکتی ہے جبکہ وہ شاعر کے مشاہدے اور خیال کی سچائی کو اپنے ذاتی تجربے کی سطح پر محسوس کریں اور انہیں لفظوں، تشبیہوں اور تصویروں کے ذریعے محسوس نہ کریں جن سے ان کے حواس آشنا ہیں۔

    یہاں ہمیں عوامی ادب اور ماضی کی روایات سے بہت سی چیزیں مستعار لینی پڑیں گی۔ یہ کام چیخنے اور چنگھاڑنے سے زیادہ تپنے اور تپانے کا ہے۔ تقریر کا کام وقتی ہوتا ہے لیکن ادبی شہ پارے کا اثر دیرپا ہوتا ہے وہ انسانی ذہن میں رینگتے ررہتے ہیں، ہمیں باربار اکساتے اور اپنا ہم خیال بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کے ترغیب عمل میں ایک ایسی پائیداری ہوتی ہے جو کوہ گراں کا بھی مقابلہ کر سکتی ہے۔ ایسا ہی ادب پھانسی پر جھولنے کا حوصلہ بھی بخشتا ہے۔ یہ مرتبہ تقریر کو حاصل نہیں ہوا کرتا ہے۔ شعر و ادب کی تخلیق، تصورات کی بازآوری نہیں بلکہ تجربات کو ازسرنو تخلیق کرنے کا کام ہے۔

    اس طریق کار کو تفصیلات میں سمجھا بھی جا سکتا ہے انہیں معنوں میں یہ معجزہ بھی نہیں ہے۔ اس طریق کار کے سمجھنے میں مشاہیر علم وادب کے کلام کا مطالعہ بہت ہی مدد کرتا ہے گورکی کا ادب فلابیر کے ادب سے بنیادی طور پر مختلف ہے تاہم اس نے فلابیر سے لکھنا سیکھا۔ چیخوف کا فن کسی حد تک حزن ویاس اور افسردگی کے جذبات کا حامل ہے پھر بھی گورکی کویہ کہنا پڑا کہ جب میں تمہارے فن سے اپنے فن کا مقابلہ کرتا ہوں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ میں قلم سے نہیں بلکہ بانس سے لکھ رہا ہوں۔

    یہ ایسی مثالیں ہیں جو شعر و ادب کی تخلیق میں سنگ میل کا کام دے سکتی ہیں اور اگر انسان محنت کرتا رہے تو وہ اپن فن کو مانجھ بھی سکتا ہے۔ پھر بھی وہ صرف اسی راستے سے صحیح ادبی تخلیق تک نہیں پہنچ سکتا ہے، اسے عوام کی زندگی سے سبق سیکھنا پڑتا ہے اور جب وہ یہ کام زندگی کے کسی انقلابی موڑ پر انجام دیتا ہے تو اسے ماضی کی روایات کو جگانا بھی پڑتا ہے۔ وہ ماضی سے نعرے، نام اور ملبوس سب قرض لیتا ہے تاکہ وہ نئی حقیقت کو عوام کے محبوب ملبوس میں پیش کر سکے۔ آج کا انقلابی شاعر جس حد تک اس حقیقت سے دور ہوتا جائےگا، عوام سے بھی دور ہوتا جائےگا۔

    مأخذ:

    نئے تنقیدی گوشے (Pg. 64)

    • مصنف: ممتاز حسین
      • ناشر: آزاد کتاب گھر، دہلی
      • سن اشاعت: 1964

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے