Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

فیض کی انقلابی شاعری کا تغزلاتی اسلوب

ممتاز حسین

فیض کی انقلابی شاعری کا تغزلاتی اسلوب

ممتاز حسین

MORE BYممتاز حسین

    میں نے یہ عنوان کچھ اس لئے منتحب نہیں کیا ہے کہ فیض کے اشعار سے ان کے تغزلاتی اسلوب کی مثالیں پیش کرکے یہ بتاؤں کہ کیونکر انہو ں نے غزل کے آہنگ اور اس کی ایمائی اور اشاراتی زبان میں اپنے انقلابی جذبات کا اظہار کیا ہے، بلکہ اس لئے منتخب کیا ہے کہ فیض کی شاعری کے پس منظر میں ہم کچھ اس بات پر بھی غور کریں کہ کیا تغزلاتی اسلوب، جو بنیادی حیثیت سے خود کلامی ہوتا ہے یا کسی رازداں سے گفتگو کا ہوتا ہے، عہد حاضر کی انقلابی شاعری کے تمام تقاضوں کو پورا کر سکتا ہے؟ یہ کوئی نیا سوال نہیں ہے۔ ترقی پسند ادب کی تحریک کے ابتدائی دور میں غزل کے خلاف جو بہت کچھ لکھا گیا، اسی سوال کی یہ ایک دوسری صورت ہے۔

    اس وقت یہ سوال غزل کو معزول کرکے نظم کو بحال کرنے کا سوال اٹھایا گیا تھا اور اس کی دلیل یہ دی گئی تھی کہ اول تو غزل کی زبان اجمالی ہوتی ہے نہ کہ تفصیلی۔ دوم یہ کہ غزل کی زبان اشاراتی یا ڈھکی ہوتی ہے نہ کہ کھلی ہوئی اور وضاحتی۔ مگر آج جبکہ غزل کی تنگ دامنی کا شکوہ نہیں ہے، کیونکہ آج اس صنف میں طرح طرح کے خیالات اور جذبات کا اظہار نہایت مؤثر انداز سے کیا جا رہا ہے۔ نہ تو نظم کو بحال کرنے کا معاملہ ہے اور نہ غزل کی قدر و قیمت کو گھٹانے کا اور نظم کی قدر و قیمت بڑھانے کا۔ کیونکہ دورحاضر میں ایسی نظمیں زیادہ لکھی گئیں جو اپنی طرح طرح کی مجبوریوں کے باعث ناقابل فہم تھیں، وہاں غزل اپنی تمام اجمالیت اور اشاریت کے باوجود اس قدر مقبول ہوئی کہ آج اس کا سکہ چل رہا ہے۔

    چنانچہ جو بات میں آپ لوگوں کے درمیان رکھنا چاہتا ہوں وہ یہ نہیں ہے کہ میں غزل یا نظم میں سے کسی ایک کو ترجیح دینا چاہتا ہوں بلکہ یہ ہے کہ ہماری شاعری میں یہ جو یکسانیت غزل کی ترویج سے پیدا ہو گئی ہے، اس ترویج میں فیض کی غزل گوئی کی مقبولیت کو خاصاد خل ہے۔ اس یکسانیت سے نہ کہ غزل سے نجات حاصل کرنے کے لئے کیا سوچ اختیار کی جائے، کہ ہماری شاعری جو غزل کی دنیا میں سکڑتی جا رہی ہے۔ یہاں سوال اس کے اچھے اور برے ہونے کا نہیں ہے۔ اسے وسعت دی جائے۔ ہمارے شعراء غزل کے علاوہ دوسرے اصناف کو بھی اپنے خیالات اور جذبات کے اظہار کے لئے آزمائیں۔ ایک مسئلہ تو یہ ہے۔

    دوسرا مسئلہ جو اس سے وابستہ ہے، وہ یہ ہے کہ یہ معاملہ یعنی غزل کی یکسانیت کو دور کرنے کا مسئلہ، صنف غزل کو اختیار کرنے یا نہ کرنے کا نہیں ہے، بلکہ شاعری کی ڈکشن کا اور اس بات کا بھی ہے کہ ہم شاعری سے آخر کیا چاہتے ہیں؟ وہ مقصود بالذات بھی کوئی شئے ہے یا صرف ایک ذریعہ اظہار ہے، یا یہ کہ اس کا وجود ان دونوں کے درمیان کا ہے۔ یعنی وہ مقصود بالذات بھی ہے اور ایک ذریعہ اظہار بھی ہے اور ایسا اس لئے ہے کہ شاعری یا ادب ہو، وہ لسانی تعمیر کی ایک مخصوص صورت ہے اور چونکہ زبان اظہار و ابلاغ کی شئے ہے اس لئے شاعری سے بھی اظہار و ابلاغ دونوں کی توقع رکھنی چاہئے۔

    ترقی پسندی کے ابتدائی دور میں ہمارے کئی شاعروں اور ادیبوں نے غزل کی مخالفت اس نقطہ نظر سے کی کہ غزل اپنے اجمالی اور اشاراتی طرز اظہار کے باعث ایک ایسی عمومیت رکھتی ہے کہ وہ کسی مخصوص صورت حال کی نمائندگی نہیں کر پاتی۔ مگر جب سے فیض کی انقلابی شاعری کا لیریکل یا تغزلاتی اسلوب سامنے آیا ہے، غزل کی مخالفت میں وہ آواز یا تودب سی گئی ہے یا پھر ایک شرمندگی کا احساس لئے ہوئے ہے، جیسے کوئی غلط بات کہی گئی تھی۔ ترقی پسند شاعری، خواہ وہ غزل ہو یا نظم، کا منظر اب بدل چکا ہے۔ دونوں میں ایک دوسرے سے اثر قبول کرنے کا رجحان پایا جاتا ہے۔ چنانچہ جو بات میں کہنا چاہتا ہوں اس کا مدعا نہ تو یہ ہے کہ غزل کا ایمائی اور اشاراتی اندا ز کم سواد ہے اور نہ یہ کہ نظم خواہ وہ کیسی ہو اس ایمائی غزل کے مقابلے میں بر مایہ ہوتی ہے۔

    نعوذ باللہ جو اس قسم کا کوئی خیال اس سوال کے اٹھانے میں میرے ذہن میں ہو۔ یہ صفائی میں اس لئے پیش کر رہا ہوں کہ میں شاعری میں خطابت کا مخالف رہا ہوں۔ منظوم تقریر کو معیار شاعری سے گری ہوئی شئے سمجھتا ہوں، ہرچند کہ بحرانی دور میں اسے جائز بھی قرار دیا ہے۔ دوسرے یہ کہ شاعری میں بے تکی شاعری کا بھی مخالف رہا ہوں، اور ادب کو صحافت سے ممیز کرنے کے لئے میں نے شاعری میں استعاراتی زبان کے استعمال کو نہ صرف محاسن شعر میں جانا ہے بلکہ استعارے کو شاعری کا خلیہ حیات قرار دیا ہے۔ ایسی صورت میں آج جبکہ میں اس سوال کو اٹھا رہا ہوں تو اس کا مقصد یہ نہیں ہے کہ جو کچھ کہاہے اس کے برخلاف کوئی بات کہنے جا رہا ہوں، بلکہ یہ ہے کہ جس طرح میں یہ محسوس کرنے لگا ہوں کی جس طرح افسانوں سے بیانیہ انداز غائب ہونے لگا ہے اور اب بعض افسانہ طراز بغیر یہ جانے ہوئے کہ شعور کا بہاؤ کیا ہوتا ہے، بے شعوری کا اظہار کرنے لگے ہیں، اس طرح اب ہماری شاعری سے بھی بیانیہ اسلوب غائب ہوتا جا رہا ہے۔ شاید اس لئے کہ وہ بیانیہ اسلوب کو خارج میں واقع ہونے والے واقعات کی تصویرکشی سمجھتے ہیں اور یہ سوچنے سے قاصر ہیں کہ بیانیہ اسلوب کا دامن اس سے وسیع تر ہے۔

    دوسرے یہ کہ بیانیہ اسلوب کو خطابت سے وابستہ کرنا بھی غلط ہے۔ خطابت ایک داخلی شئے ہے، اس کا تعلق شاعر کے جذبات اور خواہشات سے ہوتا ہے نہ کہ حقائق کی دنیا سے، اسی لئے وہ لمحاتی اور بےاثر ہوتا ہے۔ اس کے برعکس بیانیہ اسلوب ہمارے ہاں اگر ایک طرف مثنوی کی صورت میں تخیلی حکایتوں یا تاریخی اور نیم تاریخی حکایتوں کو نظم کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا رہا ہے اور ایک سے شاعرانہ محاسن کی حامل مثنویاں لکھی گئیں، جو کلاسیکیت کا درجہ اختیار کر چکی ہیں تو دوسری طرف اس کا استعمال ہمارے ادب میں مرثیہ نگاری میں رزم و بزم کی مصوری میں ایسے محاسن کے ساتھ کیا گیا ہے کہ آج کوئی بھی شخص یہ نہیں کہہ سکتا ہے کہ میر انیس اور مرزا دبیر شاعرانہ تھے اور نہ کوئی شخص جوش اور ان کے معاصر دیگر مرثیہ نگار شاعروں کے بارے میں اس قول کو دہرا سکتا ہے کہ بگڑا شاعر مرثیہ گو، جو شاید میر تقی عرف میر گھانسی کے مرثیوں کے مدنظر کہا گیا تھا، جن کے مرثیوں کی تنقید سودا نے کی ہے۔

    بہرحال یہ اس زمانے کی بات ہے جب کہ مرثیہ نگاری کا مدعا رونے رلانے کا تھا نہ کہ اظہار ملکہ شاعری۔ ایسی صورت میں اگر ہم قدما میں میر انیس اور مرزا دبیر کے مرثیوں کو سامنے رکھیں اور شعرائے جدید میں جوش کے مرثیوں کو سامنے رکھیں تو یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ رونے رلانے کی نفسیات کو چھیڑتے تھے۔ یہ بات تو میں نے مرثیہ کی صنف سے متعلق کہی۔ لیکن ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ہماری جدیدشاعری کی سب سے بڑی شخصیت اقبال کی شاعری بنیادی حیثیت سے بیانیہ اسلوب کی شاعری ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ اقبال نے غزلیں بھی کہی ہیں اور ان غزلوں میں انہوں نے عرف عام کی غزلوں کی اشاریت اور ایمائیت کو مختلف نئے سمبلز، استعاروں اور تلمیحات سے سجایا بھی ہے۔ لیکن اس کے باوجود وہ ایسے کھلے کھلے انداز کی ہیں کہ ان کی معنویت تک پہنچنے میں کوئی ابہام سدراہ نہیں ہوتا ہے۔ اس سے یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ بیان خواہ وہ نظری ہو یا وقوع نویسی کا، خواہ اس کا تعلق خارجی واقعات کے بیان سے ہو یا داخلی واردات کے بیان سے، وہ اپنے آخری تجزیے میں صفائی بیان کی خوبی کا حامل ہوتا ہے۔

    آخر غزل کا ایک لب ولہجہ آتش کی غزلوں کا بھی تو ہے، جس میں بیانیہ انداز غالب ہے۔ میری اس بات سے شاید میرا یہ مدعا واضح ہو سکے کہ ہمارے اپنے دور کے جدید شعرا نے پیروئی مغرب میں جو جدید شاعری کی ہے وہ صفائی بیان سے عاری ہے۔ وہ انیسویں صدی کے شیلی، کیٹس، ورڈزورتھ اور کولرج وغیرہ کی شاعری نہیں ہے جس میں صرف اظہار پر ہی نہیں بلکہ ابلاغ پر ہی مساوی زور ہے۔ اس کے برعکس بیسویں صدی کی وہ شاعری جو پال ولیری اور ملارمے وغیرہ کی پیروی میں ہے، جسے ایڈگر ایلن پو اور ایلیٹ وغیرہ نے فروغ دیا، وہ شعوری طور سے ایسی شاعری ہے جس کے بارے میں ایلیٹ نے لکھا ہے کہ چونکہ بالعموم لوگ معنی سے عاری اشعار نہیں پڑھا کرتے ہیں، ا س لئے اشعار کو مجبوراً اشعار بنانے کے لئے ان میں کوئی معنی بھی ڈال دیا جاتا ہے ورنہ حقیقی اشعار بےمعنی ہی ہوا کرتے ہیں۔

    میرا مقصد یہاں نہ تو اس دبی دبی آواز کو ابھارنا ہے اور نہ میں ان لوگوں کے خیالات کی کوئی حمایت کرنا چاہتا ہوں جو ایمائیت اور جمالیت کے مخالف ہیں، کیونکہ میں شعروادب کے معاملے میں کسی ایک اسلوب کا قائل نہیں بلکہ مختلف اسالیب کے کھلنے اور پروان چڑھنے کا قائل ہوں۔ شاعری کوکسی خاص اسلوب کے ساتھ مشخص نہیں کرنا چاہئے۔ چنانچہ اپنے اسی موقف کے تحت اردوکی انقلابی شاعری کے پس منظر میں آج ان دو مختلف روایتوں کو پرکھنا اور جانچنا ہوگا کہ جنہیں آسانی کی خاطر فصاحت اور تغزل کا نام دیا جا سکتا ہے۔ چونکہ اردو تنقید میں ان دونوں الفاظ یعنی فصاحت اور تغزل کی معنویت سے لوگ بخوبی واقف ہیں اس لئے اس کی وضاحت کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔

    فصاحت بیانیہ اسلوب کی جان ہے۔ خواہ اس کا اظہار رزم و بزم کی حکایت میں کیا جائے یا کسی واقعے یا منظر کی تصویر کشی میں اور تغزل میں موسیقیت اور ایمائیت اہم ہے، خواہ اس کا اظہار نظم میں ہو یا شاعری کی کسی صنف میں۔ اگر انقلابی شاعری کا کوئی مقصد انقلاب کے حق میں رائے عامہ کو ہموار کرنے کا بھی ہے تو شاعر کا دوسروں سے مخاطب ہونا ضروری ہے اور اس صورت میں اسے فن خطابت سے بھی کام لینا پڑتا ہے اور اگر فن خطابت کا مدعا اپنا ہم نوا بنانے کاہے تو اس خطابت کی روح فصاحت ہی قرار پاتی ہے۔

    یوں تو اردو میں احتجاجی ادب کی روایت تو قدیم زمانے سے چلی آ رہی ہے۔ کبھی تضحیک روزگار اور محویات کی صورت میں، تو کبھی قیس و منصور، جنوں اور دارورسن کے حوالے سے، تو کبھی براہ راست منعم کے ظلم و ستم کے خلاف فرہاد سے اور کبھی شیخ کی دوزخی کی بے نقابی سے، مگر جیسی مضبوط روایت سیاسی شاعری کی انگریزی کے دور میں ابھری ویسی ہمارے ادب میں پہلے نہ تھی۔ ا س کی ابتدا بیسویں صدی میں ہوئی ہے۔ اس سیاسی شاعری کا اسلوب اس فصاحت کا ہے جو ہمیں میر انیس کے مرثیوں اور میر حسن کی مثنویوں میں ملتی ہے اور جس کی زبردست وکالت شبلی نے موازنہ انیس اور دبیر میں کی ہے۔ چنانچہ اس فصاحت کا اظہار آتش اور یگانہ کی غزلوں میں بھی ہوا اور آج کچھ نوجوان اپنے انقلابی خیالات کے اظہار کے لئے آتش اور یگانہ کی اس روایت میں بھی غزلیں کہہ رہے ہیں جن میں صفائی خیال اور بندش کی چستی کو بہ نسبت ابہام اور ایمائیت کے زیادہ دخل ہے۔

    میں ایسی غزلوں کوبھی فصاحت کی قدروں کا حامل قرار دوں گا۔ ایسی فصاحت بہ اختلاف طبع اقبال اور جوش کی انقلابی نظموں اور پھر بعد میں علی سردار جعفری اور کیفی اعظمی کی نظموں میں بھی ملتی ہے۔ مگر مجاز اور مخدوم کی انقلابی شاعری کا اسلوب فصاحت آمیز ہوتے ہوئے جعفری اور کیفی کے اسلوب سے مختلف بھی ہے۔ ان کے اسالیب میں غزل کی زبان و بیان سے زیادہ استفادہ نظر آتا ہے۔ چنانچہ فیض نے جس کی شاعری کا اسلوب فصاحت کا نہیں بلکہ تغزل کا ہے، مجاز کو انقلاب کا مطرب قرار دیا ہے اور مخدوم کی شاعری کو خاصا سراہا ہے۔ جہاں تک کہ فیض کے اپنے اسلوب کا تعلق ہے، یہ بات عیاں ہے کہ اس کا اسلوب تغزل کا ہے مگر اس میں پیوندکاری جدید مغربی شاعری کی بھی ہے۔ اس لئے فیض کی شاعری صرف ترقی پسند نہیں ہے بلکہ جدید بھی ہے اور اس میں بہت کچھ مغربی ادبی رجحانات کے اثرات بھی ہیں۔

    ایک زمانہ تھا کہ فیض کی شاعری میں رومانیت کا رنگ غالب تھا اور اس کامن بھاوا موضوع سخن زندگی کی بدہیتی کے خلاف جہاد کا نہیں بلکہ محبوب کے لب و رخسار اور حسن پرستی، یا یوں کہئے کہ حسن و عشق اور مہرووفا کی حکایت کا تھا۔ مگر جوں جوں ان میں حسن و عشق کا شعور گہرا ہوتا گیا، اور ان کے درد و غم اور ان کے تصورات حسن و عشق کا دائرہ بڑھتا اور پھیلتا گیا، ان کی شاعری انقلابی شاعری کی ان گہرائیوں کی حامل ہوتی گئی جو ایمان و یقین کی حرارت اور پختہ عزم سے پیدا ہوتی ہے۔ لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ وہ بعد کے زمانے میں اپنی اس خصوصیت سے دامن چھڑا سکے ہوں۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ رومانی دور کی محبت کا سوز و گداز ان کے اس عشق میں منتقل ہو گیا جو انہیں نہ صرف لیلائے وطن بلکہ ساری دنیا کی مظلوم انسانیت سے تھا۔ ان دونوں صورتوں میں فیض کی شاعری ان کے اپنے کرب و اضطراب، بیم و رجا اور تشویش کے اظہار کی شاعری ہے جس کا حوالہ ان کی اپنی ذات ہے۔ اس لئے وہ بالعموم اپنے ہی سے مخاطب رہتے ہیں لیکن اس تخاطب میں وہ اپنے تجربے کی انفرادیت سے زیادہ اس کی آفاقیت کو ابھارنے کی کوشش کرتے ہیں۔

    اس طرح ان کی شاعری ایک ایگو کے اظہار کی شاعری نہیں بلکہ پوری مظلوم انسانیت کی شاعری بن جاتی ہے۔ یہ فیض کی شاعری کا وہ منفرد اسلوب ہے جو ہرچند کہ تغزل کی قدروں کا حامل ہے نہ کہ فصاحت کا، مگر سریت اور کسی گہرے ابہام سے آزاد بھی رہتا ہے۔ وہ شاعری میں ایک ہلکے سے ابہام اور اشاریت کے قائل بھی تھے۔ وہ بظاہر سودا کے کھلے ہوئے رنگ تغزل کے حق میں شعر کہتے مگر میر کی طرح برسوں لہو پیا کرتے تب کوئی تحریر خون جگر کی پیش کرتے۔

    بہرحال میں یہاں جس بات کو ابھارنا چاہتا ہوں، وہ یہ کہ اور کوئی شاعر برسوں لہو پی پی کر اپنے تجربات کا اظہار کرتا ہے تو اس کا اولین مقصد اس اظہار سے لذت الم کھینچنے اور اس سے لطف اندوز ہونے کا ہوتا ہے۔ وہ شعر کہتا ہے یا شعوری طور سے کسی خیال کا ابلاغ کرتا ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ فصاحت میں بھی موسیقیت کا عنصر شامل ہوتا ہے۔ لیکن موسیقیت فصاحت کا کوئی غالب عنصر نہیں ہے۔ فصاحت کا غالب عنصر بیان کی صفائی اور مذاق سخن ہے۔

    اگر یہ حقیقت ہے کہ شاعری صرف نفوذ و اثر کی شئے نہیں بلکہ رائے عامہ کو ہموار کرنے کی بھی شئے ہے تو ہمیں فصاحت کے اسلوب کو ترک نہیں کرنا چاہئے بلکہ اسے تغزل سے قریب تر لانا چاہئے۔ ایک اسلوب کی خوبی دوسرے اسلو ب میں منتقل کرنا چاہئے۔ اس طرح ایک متحدہ جمالیات بھی وجود میں آ سکتی ہے۔ مگر ہمیں اسلوب و فصاحت کی شاعری کی عام لغزش سے واقف ہونے کی بھی ضرورت ہے۔ فصاحت کی شاعری میں خود شاعر نہیں بلکہ اس کا خیال بولتا ہے۔ فصاحت کی شاعری خیال انگیز ہوتی ہے۔ جذباتی، سطحی اور نعرے بازی کی نہیں ہوتی۔ آج جنوبی ایشیا کے لوگ بلکہ یوں کہیے کہ مشرق کے تمام لوگ ایک میدان عمل ہی میں نہیں بلکہ ایک محشر خیال کے عالم میں بھی ہیں۔ اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ شاعری بھی ہمار ے اس فکر و عمل کو آگے بڑھائے جس سے ہم ترقی کر سکیں، اپنی آزادی کو استقامت بخش سکیں اور ایک نئی زندگی کا لباس زیب تن کرنے کے اہل ہو سکیں تو ہمیں وضاحت کو راہ دیتے ہوئے فکر انگیز شاعری کو بھی پروان چڑھانے کی کوشش کرنی چاہئے اور ایک رنگ سخن کی تقلید کرنے کے بجائے مختلف اسالیب میں سوچنے اور محسوس کرنے کے تجربے کرتے رہنے چاہئیں۔ شاعری کو جہاں ایک ہومر، فردوسی، شیکسپئر اور انیس کی ضرورت ہے وہاں ایک خسرو، حافظ، غالب اور فیض کی بھی ضرورت ہے۔

    مأخذ:

    خیال (Pg. 144)

      • سن اشاعت: 2006

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے