Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ریاض

MORE BYفراق گورکھپوری

    ایک بار الہ آباد یونیورسٹی کی ایک مختصر ادبی انجمن میں جب چائے کا دور چل رہا تھا، میں نے حاضرین سے کہا، ’’کوئی ایسا شعر سنائیے، جسے سن کر آنکھوں میں آنسو آجائیں۔’‘ انجمن پر ایک لمحے کے لئے خاموشی طاری ہوگئی۔ ایک صاحب نے بس اتنا کہا، ’’بڑا مشکل ہے۔‘‘ یعنی ایسا شعر اچانک یاد آنا یا یاد کرنا بڑا مشکل ہے جس سے آنکھیں پُرنم ہو جائیں۔ کیا حیرت کی بات نہیں کہ جس اُدو شاعری کولوگ رونے کی طولانی داستان بتاتے ہیں جب اس سے رُلا دینے والے شعر مانگے جائیں تو یہ حال ہو۔ ہم آنسو مانگتے ہیں اور ملتے ہیں ہمیں رونے کی متعلق خشک الفاظ۔

    کبھی کبھی میں یہ بھی سوچتا ہوں کہ فطرت اشک بھی زمانے کے ساتھ بدلتی رہتی ہے۔ ہر دور، ہر زمانہ کے آنسو بدلتے رہتے ہیں اور نئے انداز سے زندگی کی آبیاری ہوتی رہتی ہے۔ بچہ کسی بات پر روتا ہے، بڑے کسی اور بات پر روتے ہیں، پھر بعد کو اس بات پر بھی نہیں رونے پاتے۔ آنسو بھی وقت پر دغادے جاتے ہیں۔ اشعار رہ جاتے ہیں، ان کے آنسو سوکھ جاتے ہیں۔ کسی زمانہ میں فانیؔ کی ’’کفن سرکاؤ میری بے زبانی دیکھتے جاؤ‘‘ والی غزل پر آنسوؤں کی جھڑی لگ جایا کرتی تھی۔ اور اب؟ اس لئے سوال یہ ہے کہ شعر میں آنسوؤں کو دیر تک شاداب رکھنے والے کون سے صفات ہیں؟ کیا بات ہے کہ کئی صدی پرانے اشعار کے آنسو ابھی تک خشک نہیں ہوئے اور ان کے بعد والے اشعار کے آنسو سوکھ چلے؟ میں یہ سوال پوچھ کر چپ ہو جاتا ہوں۔

    بہر حال جلد خشک ہوں یا دیر میں، آنسو پھر بھی آنسو ہیں۔ جب میں نے ہوش سنبھالا اپنے وقت کی اردو غزل گوئی اور عام اُردو شاعری کی آنسو ؤں میں یا کم سے کم سوز و گداز کے جذبات میں ڈوبا پایا۔ عزیزؔ لکھنوی، حسرتؔ، فانیؔ، جگرؔ اور اصغرؔ، یگانہؔ و اقبالؔ تک کے یہاں بھی جذبات کس شدّت کے ہیں، کبھی کبھی اُن کی آواز کتنی رکی ہوئی ہوتی ہے اور کتنی دُکھی ہوئی۔ جہاں تک جنسی یا رومانی محبت کا تعلق ہے۔ یہ سوال بار ہا میرے دل میں پیدا ہوا کہ ناسخؔ سے لے کر ریاضؔ تک صحیح معنوں میں دل دُکھا دینے والی آوازیں اردو شاعری میں کیوں نہیں سنائی دیتیں؟ سوداؔ اور نظیرؔ اکبر آبادی کی غزلوں کا ذکر جانے دیجئے۔ اس دور میں میرؔ، سوزؔ، دردؔ اوران کے ہمنوا ہمیں رلانے کے لئے کافی تھے اور ان کی بھرائی اورتھرّائی ہوئی آوازیں مصحفیؔ، انشاؔ اور جرأتؔ کے وقت میں بھی کروٹیں بدلتی رہیں۔ لیکن ناسخؔ سے ریاضؔ تک تو گویا آنسوؤں کا اردو شاعری میں کا ل پڑ گیا تھا۔

    مانا کہ ناسحؔ، آتشؔ، امیرؔ، داغؔ اور ریاضؔ یا تو بہت ہنس مُکھ تھے یا عشق کی المناکی سے نا آشنا، لیکن رشکؔ، بحرؔ، خلیلؔ، رندؔ، صباؔ اور صف دویم کے شعرا میں کیا ایک بھی شخص ایسا نہیں تھا جس کو محبت کی ناکامیوں سے واسطہ پڑا ہو اور جس کی شاعری میں ایک گھائل دل کی دھڑکنیں سنائی دیتی ہوں۔ یہ سب شعرا اتنے ہنسوڑ کیوں ہیں، کیا یہ سب ساون کے اندھے تھے کہ انہیں ہریالی ہی ہریالی نظر آتی ہے؟ انیسؔ اور دبیرؔ مرثیہ گو تھے لیکن وہ بھی اپنی باتیں کہتے ہوئے کھل پڑتے ہیں۔ بہار چھائی ہوئی ہے اور یہاں بھی اندر سبھا جمی ہوئی ہے،

    ہر چشم کو پریوں کا اکھاڑا نظرآئے

    یا

    تلوار پہ تلوار چمکتی نظر آئے

    اس دور کے اخیر میں البتہ درد بھری آوازیں پھر آنا شروع ہوتی ہیں، تعشق کے یہاں سے، حالیؔ کے یہاں سے، آسیؔ غازی پوری اور شادؔ عظیم آبادی کے یہاں سے لیکن وہ بھی امیرؔ، داغؔ اور ریاضؔ کے قہقہوں اور چہچہوں میں گم سی ہوگئیں۔ اس لئے یہ سمجھنا مشکل ہے کہ اگر انسانی فطرت اور انسانی مزاج کبھی نہیں بدلتے اور عشق سراسر غم ہے تو اُردو شاعری میں حسن و عشق کی دنیا ریاضؔ کے یہاں کیوں کچھ اور ہے اور ریاضؔ کے بعد کے شعرا کے یہاں کچھ اور؟ خوش حالی اور بدحالی اور تمول و افلاس کی بحث نہ چھیڑئیے۔ یہ بات نہیں ہے کہ ریاضؔ کھاتے پیتے ہوئے آدمی تھے اس لئے بے فکرے تھے اور فانیؔ پریشاں حال رہے اس لئے ان کا عشق بھی ناکام رہا اوران کی عشقیہ شاعری بھی پریشاں حال رہی۔ ایسی باتوں کا کوئی ایک سبب نہیں ہوا کرتا۔

    ریاضؔ کو سمجھنے کے لئے اب سے سوا سو برس پہلے کے ہندوستان کو نہیں مگر اہل اودھ کو سمجھنا ضروری ہے۔ دل ان لوگوں کے پاس بھی تھے اور شہوانی جذبات بھی۔ مگر ان کی نئی سماجی زندگی ان پر چھائی ہوئی تھی، ہر ایک کی شخصیت وانفرادیت پر نئے تکلفات، نئے رسوم وآداب مسلط تھے۔ سماج کے ساتھ افراد کی زندگی بھی ایک نئےسانچے میں ڈھل رہی تھی۔ سماج کے خارجی حرکات و سکنات داخلی زندگی پر غالب آ رہے تھے اور زندگی ایک جھوٹ بن کر رہ گئی تھی۔ جذبات کا فطری اور غیر فطری ہونا مسلم لیکن جذبات کے بھی فیشن ہوتے ہیں۔

    جذبات بھی کبھی کبھی صرف رسمیات ہوکر رہ جاتے ہیں۔ مجھے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانے کے لوگوں کو نہ ہنسنے کی تمیز تھی نہ رونے کا سلیقہ تھا۔ انشاؔ اور جرأتؔ کے وقت ہی سے یہ ہلکا پن شروع ہوگیا تھا۔ بناوٹی دماغوں کو عارضی خوش حالی کیا سنوارتی۔ اس لئے نہ ان کی خوشی خوشی تھی نہ ان کا غم غم۔ اور اس طرح پوری زندگی ایک غلط و سطحی نظریے کے نذر ہوکر رہ گئی تھی۔ مگر یہاں تو کنوئیں میں بھنگ پڑی ہوئی تھی، بناوٹی خوشی کے پردے میں بناوٹی غم کا سوانگ رچا جا رہا تھا۔ نتیجہ وہی ہوا جو ہونا تھا۔ انحطاط و زوال کئی طرح کے ہوتے ہیں۔

    سوبرس تک بگڑ کر بھی دلی اتنی نہیں بگڑی تھی جتنا بنا بنایا ہوا لکھنؤ بگڑا۔ لکھنؤ بھر کی شاعری میں محبت کی جوئیس اور جلن مثنوی زہر عشق میں ہے، کہیں اور نہیں۔ اس مثنوی کے وصیت نامہ کے خلوص و سوز و گداز کو یادگار بتایا جاتا ہے۔ لیکن اس وصیت نامہ کے لب ولہجہ پر غور کریں تو خلوص اور ہلکے پن کا عجب میل نظر آئے گا۔ اور عاشق صاحب کا زہر کھا کے مسکراتے ہوئے اور کھسیانی ہنسی ہنستے ہوئے پھر جی اٹھنا اس وقت کی جھوٹی اور بناوٹی زندگی کی کھلی چغلی کھا رہا ہے۔ الغرض اس وقت کی نام نہاد نشاطیہ شاعری میں بھی نہ کہیں بذلہ سنجی ہے نہ حقیقی طنز۔ بدمزہ کردینے والی سستی اور اوچھی باتوں کے سوا کچھ نہیں۔ میریڈھ کا یہ قول سمجھنے کی چیز ہے کہ طربیہ دماغی یا مفکرانہ ہنسی ہے۔ (Comedy is intellectual laughter) یہ تھی دو فضا جس میں اب سے سو برس پہلے ریاضؔ نےآنکھیں کھولیں، پلے اور بڑھے۔ دیکھنے کی چیز یہ ہے کہ ریاضؔ کی دنیا اور ریاضؔ ایک دوسرے پر کس کس طرح اثر انداز ہوئے۔ میرا وطن وہی شہر گورکھپور ہے جس کی وہ گلیاں جن میں ریاضؔ نے اپنی جوانی کھوئی تھی، ریاضؔ کو عمر بھر یاد آتی رہیں۔

    یوں تو اپنی عمر کے آخر ی تیس برس ریاضؔ نے کبھی لکھنؤ اور کبھی خیرآباد میں گزارے لیکن ان مقامات میں وہ مہمان کی طرح رہے اور گورکھپور چھوڑنے کے بعد بھی جب زخم کہنہ تازہ کرنے کے لئے وہ گورکھپور آجایا کرتے تھے توان کے چہرے کا وہ رنگ ہوتا تھا جو صبح وطن ہی پیدا کر سکتی تھی۔ اسے میری نگاہوں نے خود بھانپا ہے۔ ’’ہاں تو گورکھپور میں‘‘ ریاض الاخبار ’’فتنہ‘‘ اور ’’عطر فتنہ‘‘ کے روح رواں ریاضؔ، خوش باش، خوش فکر، خوش پوش اور خوش گو ریاضؔ یوں تو ایک سجیلے نوجوان تھے،

    ہے ریاضؔ ایک جوان مست خرام

    نہ پئے اور جھومتا جائے

    لیکن اس محبت سے سرشار بانکے جوان کا دل دُکھا ہوا تھا یا نہیں، پتہ چلانے، جاننے اور سوچنے کی بات ہے۔ کچھ دوسرے شعرا کے عشقیہ اشعارسے ریاضؔ کے اشعار کا مقابلہ کیجئے،

    عزیز لکھنوی

    اونا شناس جنس وفا میں ترے نثار

    کیا سوچتا ہے خوں بھری تلوار دیکھ کر

    ریاضؔ

    حشر ہے حشر کوئی جلوہ گہ ناز نہیں

    آج کیوں مہندی لگے ہاتھ میں خنجر ہوتا

    فانیؔ

    دشمن جاں تھے تو جان مدعا کیوں ہوگئے

    تم کسی کی زندگی کا آسرا کیوں ہوگئے

    ریاضؔ

    نزع میں دوست سے پیمانِ وفا کرتے ہیں

    اس دغا باز سے ہم آج دغا کرتے ہیں

    فانیؔ

    بجلیاں شاح نشیمن پہ بچھی جاتی ہیں

    کیا نشیمن سے کوئی سوختہ ساماں نکلا

    غالبؔ

    تھا دام سخت و تنگ نہاں آشیاں کے پاس

    اڑنے نہ پائے تھے کہ گرفتار ہم ہوئے

    ریاضؔ

    جال اس رنگ سے گلشن میں بچھانا صیاد

    میں سر شاخ چلوں سایہ تہ دام چلے

    ریاضؔ

    بہار آتے ہی پھولوں نے چھاؤنی چھائی

    کہ ڈھونڈھتا ہوں تو اب آشیاں نہیں ملتا

    ریاضؔ

    چھائے پھولوں سے بھی صیاد تو آباد نہ ہو

    وہ قفس کیا جو تہ دامنِ صیاد نہ ہو

    اقبالؔ

    کبھی اے حقیقتِ منتظر نظر آلباسِ مجاز میں

    کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں مری جبیں نیاز میں

    ریاضؔ

    یہ اُڑائیں گے کبھی رنگ بھی، یہ دکھائیں گے کبھی رنگ بھی

    یہی لائیں گے کبھی رنگ بھی جو رنگے ہیں رنگِ مجاز میں

    آسیؔ غازی پوری

    میری آنکھیں اور دیدار آپ کا

    یا قیامت آگئی یا خواب ہے

    داغؔ

    آنکھ میں آنکھ تو ڈالی نہیں جاتی ظالم

    دل میں دل ڈال دے کس طرح سے انساں کوئی

    عزیز لکھنوی

    جھینپتے کیوں ہوجو سر تا پہ قدم دیکھتے ہیں

    یہ کوئی اور نہیں ہے تمہیں ہم دیکھتے ہیں

    ریاضؔ

    اے بتو تم سے اگر آنکھ چرائی ہو کبھی

    حشر میں بھی مجھے اللہ کا دیدار نہ ہو

    شیفتہؔ

    چھیڑ تے کیوں ہو مجھے، جانے دو ان باتوں کو اب

    تم بھلا جاتے رہو گے شیفتہؔ یاد سے

    ایضاً

    ہائے وہ شیفتہؔ کی بے تابی

    تھام لینا وہ ترے محمل کا

    ریاضؔ

    سحر ہوتے گیا کوئی تو یہ کہتے گیا کوئی

    یہی تو ہیں کہ ان کے گھر کوئی پھر مہماں ہوگا

    حالیؔ

    گھر ہے وحشت خیز اور صحرا اجاڑ

    ہوگئی اک اک گھڑی تجھ بن پہاڑ

    ریاضؔ

    نہ شبستاں ہے نہ اب شمع شبستاں کوئی

    گھر کا یہ حال ہے جیسے ہو بیاباں کوئی

    غالبؔ

    جانفزا ہے بادہ جس کے ہاتھ میں جام آگیا

    ہاتھ کی جتنی لکیریں تھیں رگ جاں ہوگئیں

    ریاضؔ

    یہ سر بمہربوتلیں جو ہیں شراب کی

    راتیں ہیں ان میں بند ہمارے شباب کی

    ریاضؔ

    دے دے تو میری جوانی ترے صدقے ساقی

    ہے وہی تیرے چھلکتے ہوئے پیمانے میں

    داغؔ

    روح کس مست کی پیاسی گئی میخانے سے

    مے اڑی جاتی ہے ساقی ترے پیمانے سے

    ریاضؔ

    مرگئے پھر بھی تعلق یہ ہے میخانے سے

    میرے حصے کی چھلک جاتی ہے پیمانے سے

    اصغر گونڈوی

    رند جو ظرف اٹھا لیں وہی ساغر بن جائے

    جس جگہ بیٹھ کے پی لیں وہی میخانہ بنے

    ریاضؔ

    جہاں ہم خشت خم رکھ دیں بنائے کعبہ پڑتی ہے

    جہاں ساغر پٹک دیں چشمۂ زمزم نکلتا ہے

    دردؔ

    تر دامنی پہ شیخ ہماری نہ جائیو

    دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں

    ریاضؔ

    انہیں میخانوں میں ہیں پیر مغاں ایک سے ایک

    کعبہ دیں ہے کوئی، قبلہ ایماں کوئی

    ریاض

    حرم و دیر میں ہوتی ہے پرستش کس کی

    میکشو یہ بھی کوئی نام ہیں مے خانوں کے

    غالبؔ

    ثابت ہوا ہے گردنِ مینا پہ خونِ خلق

    لرزے ہے موج مے تری رفتار دیکھ کر

    ریاضؔ

    چھلکائیں پھر کے لاؤ گلابی شراب کی

    تصویر کھینچیں آج تمہارے شباب کی

    داغؔ

    میخانے کے قریب تھی مسجد بھلے کو داغؔ

    ہر ایک پوچھتا ہے حضرت ادھر کہاں

    ریاضؔ

    اٹھے کبھی گھبرا کے تو میخانے کو ہو آئے

    پی آئے تو پھر بیٹھ رہے یادِ خدا میں

    میرؔ

    برقعے کو اٹھائے ہوئے وہ بت اگر آئے

    اللہ کی قدرت کا تماشا نظر آوے

    سوادؔ

    سوداؔ جو ترا حال ہے اتنا تو نہیں وہ

    کیا جانیے تو نے اسے کس حال میں دیکھا

    داغؔ

    بت کو بت اور خدا کو جو خدا کہتے ہیں

    ہم بھی دیکھیں کہ تجھے دیکھ کے کیا کہتے ہیں

    ریاضؔ

    تمہیں کیوں کر بتائیں دل پر اپنے جو گزرتی ہے

    تمہیں کیوں کر دکھائیں تم میں جو عالم نکلتا ہے

    غالبؔ

    بنا کر فقیروں کا ہم بھیس غالبؔ

    تماشائے اہلِ کرم دیکھتے ہیں

    ریاضؔ

    ریاضؔ ایسا گیا گزرا نہیں جو شان جانے دے

    گدائی کے لئے لے کے وہ جام جم نکلتا ہے

    ریاضؔ

    کعبہ سنتے ہیں کہ گھر ہے بڑے داتا کا ریاضؔ

    زندگی ہے تو فقیروں کا بھی پھیرا ہوگا

    غالبؔ

    منحصر مرنے پہ ہو جس کی امید

    نا امیدی اس کی دیکھا چاہیے

    ریاضؔ

    قیامت ہے بشر کے واسطے مجبور ہو جانا

    زمیں کا سخت ہو جانا فلک کا دور ہو جانا

    آسیؔ غازی پوری

    ہم ایسے بدنصیبوں کی لحد اور اس کو تو روندے

    ترا ہر نقشِ پا رشک بہارِ خشت جنت ہو

    ریاضؔ

    خدا جانے یہ کیسی رہ گزر ہے کس کی تربت ہے

    وہ جب گزرے ادھر سے گر پڑے کچھ پھول دامن سے

    میرؔ

    میرؔ کے دین و مذہب کو کیا پوچھتے ہو اب ان نے تو

    قشقہ کھینچا دیر میں بیٹھا کب کا ترک اسلام کا

    ریاضؔ

    گلا بیٹھا ہوا خدمت اذاں کی اور کعبے میں

    بھلے کو ہم دبا لائے تھے ناقوس برہمن کو

    دوسرے شعراء اور ریاضؔ کے مندرجہ بالا اشعار ملتے جلتے موضوع پر ہیں۔ اس طرح کے اور کثیر التعداد اشعار دوسرے ملتے جلتے موضوع پر دوسرے شعراء اور ریاض کے یہاں سے یکجا کئے جا سکتے ہیں۔ اوپری تہہ تو ریاض اور دوسرے شعرا کے اشعار میں بھی رسمی اور روایتی باتوں کی ملے گی، دوسری تہ دہلوی یا لکھنوی رنگ میں رنگی ہوگی یا دونوں رنگوں کے میل جول کے ساتھ ملے گی، تیسری تہ اس رنگ میں رنگی ہوگی جو اس زمانہ کا عام رنگ تھا جب شعر کہا گیا اور چوتھی تہ ہر شاعر کے مزاج کے رنگ میں ڈوبی ہوئی ملے گی بشرطیکہ شاعرکی اپنی شخصیت یا انفرادیت ہو۔

    اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ریاضؔ نے زندگی اور زندگی کے دکھ سکھ اور زندگی کا رنگ روپ اسی طرح دیکھا تھا جس طرح ان کے پہلے یا بعد کے شعراء نے۔ عشق سب نے کیا تھا یا کم از کم عشق کے کچھ چر کے سب نے کھائے تھے، وہی پھر یریاں سب کے اندر اٹھی تھیں۔ پھر ایک ہی چوٹ کھا کر فریاد کی لے اتنی مختلف کیوں ہے۔ نالہ پابند نے کیوں نہیں ہو سکا۔ پہلا سبب تو انسانی انفرادیت کا اختلاف ہے، جس نے ایک ہی وقت میں میرؔ سے یہ کہلوایا کہ،

    سرہانے میرؔ کے آہستہ بولو

    ابھی ٹک روتے روتے سو گیا ہے

    اور سوداؔ سے یہ کہلوایا،

    سوداؔ کے سرہانے جو ہوا شور قیامت

    خدام ادب بولے ابھی آنکھ لگی ہے

    لیکن جہاں تک لکھنؤ کا تعلق ہے پورا لکھنؤ اور لکھنؤ کے تمام شعراء ایک ہی رنگ میں رنگے ہوئے ہیں۔ مصحفیؔ، انشاءؔ، جرأتؔ، ناسخؔ، آتشؔ، امیرؔ، ریاضؔ میں اگر کوئی فرق ہے تو یہ فرق وہ نہیں ہے جو میرؔ اورسوداؔ میں تھا۔ یہاں ہر شاعر کی خصوصیت کے باوجود مزاجِ شاعری یک رنگی اور یکسانیت زیادہ ہے۔ یہاں کا پنچایتی رنگ ایک ہی ہے۔ یہاں کی شاعری رسمی اور روایتی پہلے ہے، انفرادی یا حقیقی بعد کو۔ لفظ بیتی پہلے ہے، آپ بیتی اور جگ بیتی بعد کو۔

    اسی رسمی و روایتی زندگی کی فضا میں ریاضؔ کی شاعری نے سانس لی۔ جہاں عشق کرنا اور غمگین نہ ہونا ایک نیا تجربہ تھا۔ عشق کے جذبات یہاں نئے تھے اور عشق سے متاثر زندگی کچھ سے کچھ ہوگئی تھی۔ سطحیت یا اوچھے پن کا عیب حسن و عشق کی اس زندگی میں ضرور ملتا ہے لیکن اپنے حدود میں اور اپنی جگہ یہ تمام معائب، یہ تمام تصنع، یہ سوانگ اور بہروپ فطری چیزیں تھیں اور جس طرح میرؔ اور ان کے ہمنواؤں کی زندگی و شاعری انسانی مزاج کے ایک پہلو کی نمائندگی کرتی ہے، اسی طرح اہلِ لکھنؤ کی زندگی و شاعری انسانی مزاج کے دوسرے پہلو کی نمائندگی کرتی ہے۔

    لکھنؤ کے جھوٹ میں ایک سچائی ہے اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ بات صرف اتنی ہے کہ اس دروغ نما صداقت سے ہماری آج کی زندگی مانوس و ہم آہنگ نہیں ہے۔ غم کا بھی ایک طربیہ پہلو ہوتا ہے اور نشاط کا بھی ایک المیہ پہلو ہوتا ہے۔ اہل لکھنؤ بھی گوشت و پوست کے بنے ہوئے انسان تھے، محبت میں ناکامیاں انہیں بھی ہوتی تھیں۔ لیکن ان کے ناخوشگوار یا تلخ اثرات کا ردّعمل میرؔ و سوزؔ کے زمانہ سے مختلف ہوتا تھا، یعنی اگر یہ صحیح ہے کہ المیہ و طربیہ ایک ہی زندگی کے دوپہلو ہیں تو میرؔ اور ریاضؔ میں جو فرق ہے وہ مسرت و الم کے احساس کا فرق ہے اور یہ واقعہ ہے کہ بغیر عورت کے طربیہ کا تصور ناممکن ہے۔

    لکھنوی زندگی اور شاعری میں مردوں اور عورتوں کی جو رنگ رلیاں ہیں اور جنہیں ہم مصحفیؔ، انشاءؔ، جرأتؔ، ناسخؔ، آتشؔ، امیرؔ وریاضؔ سے لے کر آج تک کی لکھنوی زندگی و شاعری میں پاتے ہیں اور جس سے انیسؔ و دبیرؔ کے مرثیے بھی خالی نہیں، ان رنگ رلیوں کی جگہ دہلی میں عشق کو صرف تنہائی ملتی ہے اور زیادہ تر امرد پرستانہ محبت کے تجربے، اور یہ فرق کوئی معمولی فرق نہیں۔

    ریاضؔ غیر معمولی ذہانت کے آدمی تھے۔ ان پر جوانی اور زندگی پھٹی پڑتی تھی۔ لکھنؤ کے دور انحطاط میں لکھنؤ کی سو برس کی بزم آرائیاں سمٹ کر ان کی شخصیت میں سما گئی تھیں اور وہ تمام بانکے عاشق اور ماہ پارہ عورتیں جنہوں نے کبھی لکھنؤ کو لکھنؤ بنا دیا تھا، سب کے سب ریاضؔ کی زندگی کا جزو بن گئے تھے۔ سو برس کے لکھنؤ نے اپنے آخری لمحوں میں ریاضؔ کے اوپر اپنے آپ کو صدقے کر دیا، لٹا دیا۔ پورا لکھنؤ مٹ کر ریاضؔ بن گیا۔ ہر دورِ انحطاط میں یہی ہوتا ہے،

    بھڑکتا ہے چراغ صبح جب خاموش ہوتا ہے

    مٹتے مٹتے وہ بے جان جھوٹ جس کا نام لکھنؤ تھا ایک جیتا جاگتا، چلتا پھرتا، ہنستا بولتا سچ بن گیا۔ ریاضؔ کے روپ اور بھیس میں۔ جس تاثر، خلوص اور انفعال کا فقدان لکھنوی زندگی و شاعری میں ملتا ہے اس نفی کی نفی (Negation of negation) ریاضؔ تھے۔

    اب سے کوئی بیس برس پہلے میں نے رسالہ ’’زمانہ‘‘ کانپور میں ریاضؔ پر ایک مفصل مضمون شائع کرایا تھا۔ یہ ریاضؔ کا پہلا باقاعدہ مطالعہ تھا۔ اپنے اس مضمون میں میں نے یہ الفاظ لکھے تھے،

    ’’اور شاعروں پر کیفیتیں طاری ہوتی ہیں۔ لیکن ریاضؔ کی شحصیت کل کیفیات پر حاوی ہے۔ وہ جذبات فطرت کے ساتھ کھیلتی ہے۔ اس کی روح شاعری کی وسیع دنیا میں اٹکھیلیاں کرتی ہے۔ وہ حسن و عشق کے معرکے میں نہایت آزادی سے دل کو سینہ سپر کرتا ہے اور جہاں چوٹ کھا جاتا ہے وہاں ایسی چٹیلی مسکراہٹ سے اس کا جواب دیتا ہے کہ جیت اسی کے ہاتھ رہتی ہے۔ ریاضؔ اپنے تخیل کے کبھی شکار نہیں ہوتے۔ وہ اپنی ہستی کو اپنے تخیل میں نیست و نابود نہیں ہونے دیتے۔ جس طرح ایک پھول سے بو پھوٹتی ہے اسی طرح ریاضؔ کے دل سے ان کے ترانے نکلتے ہیں۔’‘

    دوسرے شعرا کے اشعار کے ساتھ ریاضؔ کے جو اشعار میں آپ کو سنا چکا ہوں ان میں ریاضؔ کی بے لاگ شخصیت کی جھلک آپ نے دیکھی ہوگی۔ یہ اشعار اس دل گر فتگی و سپردگی سے معرّا ہیں جس کی مثالیں میرؔ اور ان کے ہمنواؤں کے یہاں ملتی ہیں اور بجائے اس کے کہ حسن و عشقکی کیفیتیں ریاضؔ پر طاری ہوں خود ریاضؔ ان کیفیتوں پر چھائے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ریاضؔ کے کچھ اور اشعار دیکھئے،

    اے بتو تم سے اگر آنکھ چرائی ہو کبھی

    حشر میں بھی مجھے اللہ کا دیدار نہ ہو

    نزع میں یار سے پیمان وفا کرتے ہیں

    اس دغا باز سے ہم آج دغا کرتے ہیں

    کون دل ہے مرے اللہ جو ناشاد نہیں

    کون دل ہے مرے اللہ جو برباد نہیں

    اے نسیم سحری ساتھ لئے جا سوئے بام

    نفسِ سرد ہے نالہ نہیں فریاد نہیں

    نگاہ سے بھی ہیں گستاخ دستِ شوق مرے

    نہ کوسئے گا ذرا ہاتھ اٹھا اٹھا کے مجھے

    اترنے والے ابھی تک نہ بام سے اترے

    تڑپنے والے تڑپ کر فلک کو چھو آئے

    نہ ہو یہ کہنے کو ہم بے کہے گئے واعظ

    حرم کو جاتے ہوئے منھ بتوں کا چھوآئے

    دبی زبان سے میرا بھی ذکر کردینا

    کلیم طور پر ان سے جو گفتگو آئے

    اٹھے کبھی گھبرا کے تو میخانے میں ہو آئے

    پی آئے تو پھر بیٹھ رہے یادِ خدا میں

    دن کو روزہ عید شب کو ہے عجب شغلِ ریاض

    رات بھر پیتا ہے یہ مردِ مسلماں آج کل

    ہم آگئے ہم پا گئے ہم لے گئے ان کو

    وہ کھوئے گئے کوچۂ دشمن سے نکل کر

    یہ شخص شاعر ہے یا کرشن کنھیا؟

    ہم سوئے کوہ گئے قیس کو دینے آواز

    یار آجاؤ ذرا ماتم فرہاد کریں

    قیامت اور قیامت میں آئی قہر ہوا

    بتوں نے چھیڑ دیا سامنے خدا کے مجھے

    یا یہ پوری غزل لے لیجئے،

    کوچۂ یار میں یہ جائیں گے ہم سے پہلے

    اٹھتے ہیں نقشِ قدم آج قدم سے پہلے

    کام لیتے وہ کرم سے تو ستم ہو جاتا

    خیر گزری کہ پڑا کام ستم سے پہلے

    بزم آرائیوں کے کس نے سلیقے سکھلائے

    ہم سے گزرے ہیں بہت خسرو و جم سے پہلے

    میکدہ سے جو گیا میں تو سوئے دہر گیا

    اب کی جاؤں تو ملوں اہلِ حرم سے پہلے

    میری توبہ نے خرابات بنایا اس کو

    میکدہ باغ جناں تھا مرے دم سے پہلے

    صدقے شوخی کے یہ ڈرتا ہوں دم وعدۂ وصل

    لب پہ آجائے تبسم نہ قسم سے پہلے

    آج سرپر لئے میخانہ ریاضؔ آتے ہیں

    کوئی کہہ آئے ذرا اہلِ حرم سے پہلے

    یا چند اور اشعار لیجئے،

    ملا ہو خون جس میں کچھ وہی تو کام آتا ہے

    کلیجہ منھ کو آتا ہے جو دل کا نام آتا ہے

    یہ کہہ کہہ کر فلک تک لے گئی آہِ رسا مجھ کو

    اب ان کا بام آتا ہے اب ان کا نام آتا ہے

    ہمارے دل میں ہے جو داغ ایسا کم نکلتا ہے

    یہ بن بن کر چراغِ محفلِ ماتم نکلتا ہے

    اسی غزل کا مندرجہ ذیل شعر غیر متوقع حد تک جدید تغزل کی گہرائی اور جدلیت کی پیش گوئی ہے،

    سحر ہوتے وہ اپنا چاک دامن لے کے بیٹھے ہیں

    رفوکرنے کو تار دامن مریم نکلتا ہے

    حرم و دیر میں ہوتی ہے پرستش کس کی

    میکشو یہ بھی کوئی نام ہیں میخانوں کے

    یہ تھی لکھنوی زندگی و شاعری اور یہ تھا اس کا رد عمل جو ریاضؔ کے یہاں نظر آتا ہے۔ ریاضؔ کے لیے حسن وعشق محض الفاظ نہیں تھے نہ محض رسم و روایت۔ انہوں نے عشق کیا تھا۔ وہ آپ اپنے کو اور اپنے عشق کو پہچان سکتے تھے۔ جس کو ہنسنا ہی آتا ہے رونا نہیں آتا، وہ بھی غم ناآشنا نہیں ہوتا۔ شوخ و شریر چھیڑوں میں کبھی کبھی وہ ٹیس اور کسک ہوتی ہے جو ذرا کمیاب ہے۔ خوشی بھی غم ہی کا ایک عنوان ہے اور غم بھی خوشی کا سمٹ کر غنچۂ سربستہ ہو جانا ہے۔

    ہاں تو ہم لکھنوی زندگی و شاعری کو جو کچھ بھی کہیں لیکن وہ زندگی و شاعری اپنے تمام جھوٹ سمیت جب ریاضؔ بن جاتی ہے تو ہم اسے ایک سچی زندگی و شاعری کہنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ اب وہ اتنی بے تہہ نہیں رہ جاتی، اب وہ محض الفاظ کا ایسا کھیل نہیں رہ جاتی، اب وہ کوہ کندن وکاہ بر آوردن، کی طفلانہ کوشش نہیں رہ جاتی، اب وہ زندگی سے اتنی الگ تھلگ نہیں رہ جاتی کہ ہم اسے محض جھوٹ کہہ کر ٹال دیں۔ بات یہ ہے کہ لکھنوی زندگی میں حسن وعشق کا جو معیار تھا وہ دہلوی حسن وعشق کے معیار کا دوسرا رخ تھا۔ اس دوسرے رخ کی کچھ حقیقی جھلک مصحفیؔ، انشاءؔ اور جرأتؔ کے یہاں نظر آتی تھی، پھر ناسخؔ اور ان کے مقلدین نے اسے کچھ کا کچھ بنا دیا اور عام طور پر اہل لکھنؤ نے بھی اسے جھوٹا بنا دینا اپنی کمزوریوں کے لئے نسبتاً آسان پایا۔ خلوص کے ساتھ چھیل چھبیلا بننا بھی ذرا مشکل کام ہے۔

    یوں تو طربیہ اور نشاطیہ رنگ شاعری دہلی میں شاہ حاتمؔ سے شروع ہو جاتا ہے بلکہ ولی دکنی اور دکن کے دوسرے شعرا سے، اور سوداؔ کے یہاں یہ رنگ اپنے پورے نکھار پر پہنچ جاتا ہے، پھر بھی سوداؔ، ذوقؔ، مصحفیؔ اور جرأتؔ سب کے سب کم و بیش عشق زدہ بھی ہیں اور مغلوب الحسن بھی (انشاء نسبتاً بہت آزاد ہیں)۔ بہر حال میرؔ اور سوداؔ عشق کے دورخ پیش کرتے ہیں۔ سوال المیہ اور طربیہ کا اتنا نہیں ہے جتنا عشق کے زیر اثر بچ رہنے یا مٹ رہنے کا ہے، خواہ عاشق عشق و حسن سے مغلوب ہو یا حسن وعشق عاشق سے؟ ہم جذبات کا شکار بن جائیں یا جذبات پر حاوی ہو جائیں یا بقول انگریزی شاعر ورڈس ورتھ ایک دوسرے پر باہمی فرماں روای ہو، mutual dormination ہو۔

    دیکھئے ایک ہی جذبہ ہے مگر میرؔ پر اس کا کیا اثر ہوا ہے اور اسی جذبہ پر آتشؔ کس طرح حاوی ہے،

    میرؔ،

    ہوگا کسو دیوار کے سائے میں پڑا میرؔ

    کیا کام محبت سے اس آرام طلب کو

    آتشؔ،

    دھوپ میں سایۂ دیوار نے سونے نہ دیا

    خاک پر سنگِ درِ یار نے سونے نہ دیا

    یا غالبؔ اور آتشؔ ایک ہی محرومی کو کس طرح لیتے ہیں،

    غالبؔ،

    منحصر مرنے پہ ہو جس کی امید

    نا امیدی اس کی دیکھا چاہیے

    آتش،

    موت مانگوں تو ملے آرزوئے خواب مجھے

    ڈبنے جاؤں تو دریا ملے پایاب مجھے

    تو کیا میرؔ و غالبؔ کی بات سچ ہے اور آتشؔ کی بات جھوٹ ہے،

    ان مثالوں سے کچھ کھل گیا ہوگا کہ مغلوب الجذبات ہونا یا جذبات پر غالب آنے میں کیا فرق ہے۔ یا یوں کہہ لیجئے کہ ایک ہی جذبہ میں عملیت و مجہولیت، آزادی و مجبوری میں کیا فرق ہے۔ میں تو سمجھتا ہوں کہ میرؔ کے جذبۂ عشق میں سوز و گداز جس عنوان سے موجود ہے اس میں محض عشق کی ناکامی کو دخل نہیں ہے بلکہ میرؔ کی مالی حالت کو بھی دخل ہے۔ مالی خوشحالی کے ساتھ کوئی میرؔ بن ہی نہیں سکتا۔ بقول برنارڈشا، ایک ٹوٹا ہوا دل اور ایک بھری ہوئی جیب کا ساتھ بہت خوشگوار ہوتا ہے (A broken heart and full pocket go very well together) میرؔ اور ان کے ہم مزاج فانیؔ ایسے لوگ معشوق کو پاکر بھی ایک ماورائی اتحاد و اتصال یا خلوص و سپردگی کے شیدا تھے۔ وہ معشوق کو رگ جاں سے زیادہ قریب دیکھنا چاہتے تھے۔ یہ بات سوچنے کی ہے کہ مستقبل کی تہذیب میں عشق و حسن میری ہوں گے یا سودائی، یا دونوں کے امتزا ج سے کسی نئی دنیا ئے حسن و عشق کی تخلیق و تعمیر ہوگی۔ کم سے کم ٹھیٹھ میری نظر یہ خالی از علت نہیں۔ میں اس باب میں برتارڈشا کا قول نقل کرتا ہوں،

    “Do not let us call into the common mistake of expecting to become one flesh and one spirit Every star has its own orbit and between it and its nearest neighbor there is not only a powerful attraction but an infinite distance when the attraction becomes stronger than the distance the two do not embrace they crash together in ruin we too also have our orbits and must keep an infinite distance between us to avoid a disastrous collision keeping our distance is the whole secret of good manners and without good manners human society is intolerable and impossible ’’

    (The Apple Cart)

    یہ امر قابل غور ہے کہ ہم جو لکھنو ی عشق و شاعری کو محض مجلس بتاتے ہیں اس میں کچھ صداقت بھی ہے یا نہیں، اصلیت کا کوئی پہلو بھی اس میں پنہاں ہے یا نہیں۔ خوشحالی نے کیا لکھنوی زندگی، عشق و شاعری کو زیادہ متوازن نہیں بنا دیا تھا۔ کیا وہ سب محض جھوٹ تھا یا ایک جھوٹ نما سچ؟ لکھنؤ سے اگر کوئی شکایت ہوسکتی ہے تو یہ نہیں کہ لکھنؤ، دہلی کیوں نہیں بن گیا یہ کہ لکھنؤ قرینہ سے لکھنؤ بھی نہ بن سکا اور بنا تو اس وقت جب وہ مٹ چکا تھا۔ ریاضؔ کی زندگی و شاعری میں لکھنؤ اپنی بھرپور جوانی پر ہے، اپنے پورے نکھار پر۔

    ریاضؔ کی زندگی ہی میں زمانے کی ہوا بدل چلی تھی۔ ادھر امیرؔ و داغؔ کا طوطی بول رہا تھا اورحالیؔ کا مد و جزر، اقبالؔ کا شکوہ و جواب شکوہ بھی ان چہچہوں میں کھوئے ہوئے تھے لیکن اسی زمانہ میں جلالؔ غزل کی آواز میں کچھ ایسا درد بھر رہے تھے جو بعد کو چمک جانے والا تھا،

    وہ دل نصیب ہوا جس کو داغ بھی نہ ملا

    ملا وہ غم کدہ جس کو چراغ بھی نہ ملا

    گئی تھی کہہ کے کہ لاتی ہوں زلفِ یار کی بو

    پھری تو باد صبا کا دماغ بھی نہ ملا

    اور تعشق اسی لکھنؤ میں یوں نغمہ سرا ہو رہے تھے،

    بھرے ہیں آنکھوں میں آنسو اداس بیٹھے ہو

    یہ کس غریب کی تربت کے پاس بیٹھے ہو

    وہ اپنے در کے فقیروں سے پوچھتے بھی نہیں

    کہ تم لگائے ہوئے کس کی آس بیٹھے ہو

    عظیم آباد میں شادؔ، ٖغازی پوری میں آسیؔ، پانی پت میں حالیؔ اسی زمانہ میں غزل کے قہقہوں اور چہچہوں میں ایک نیا چٹیلا پن بھر رہے تھے۔ ریاضؔ غالباً شادؔ سے دو ایک سال آگے پیچھے مرے لیکن اور سب ان کے سامنے ہی مرگئے تھے۔ اور ان کے سامنے ہی یگانہؔ، عزیزؔ، حسرتؔ موہانی، فانیؔ اور اصغرؔ کے نئے نغمے فضا میں گونجنے لگے تھے۔ اسے کوئی چاہے تو یوں بھی کہہ لے کہ ریاضؔ کے سامنے ہی ریاضؔ کی شاعری کا زمانہ ختم ہو چکا تھا۔ لیکن لکھنؤ کی اس یادگار پر سب کی نگاہیں پڑ جایا کرتی تھیں۔ انہیں پرانی چیز، ماضی کی چیز کہنے کو کسی کا جی نہیں چاہتا تھا۔ زندگی کل کی ہویا آج کی پھر بھی زندگی ہے اور یوں تو کتنے زندہ مشہور شعرا بھی کچھ کل کی چیز ہو گئے ہیں۔

    یہ اندازہ لگانا بہت مشکل ہے کہ ریاضؔ کے کلام کا نکھار اور اس کی تازگی کبھی باسی ہو سکے گی یا نہیں۔ وقت سے سچا اور وقت سے جھوٹا کوئی نہیں ہوتا۔ جس طرح یورپ کی اٹھارویں صدی کو اہل یورپ نے پہلے محض تصنع و تکلف کہہ کر ٹال دینا چاہا تھا اور بعد کو اس میں زندگی کے عناصر کا اعتراف کیا، اسی اٹھارویں صدی کی زندہ دلی، اس کی ظاہری شان، اس کی نظر فریب سطحیت ہندوستان میں انیسویں صدی تک جلوہ گر رہی اور اردو شاعری میں یہ جلوہ گری ریاضؔ کی شوخ شخصیت ہے۔

    کل کی دنیا نہ میرؔ کی دنیا ہوگی نہ ریاضؔ کی اور اگر وہ اقبالؔ کی دنیا بھی ہوگی تو ایسی کہ اسے اقبالؔ خود نہ پہچان سکیں گے۔ لیکن کیا عجب کل کی دنیا کسی کی دنیا نہ ہوتے ہوئے یا سب کی دنیا ہوتے ہوئے بھی ریاضؔ کی جھلکیاں دکھاتی رہے۔ کیا کل کی تہذیب میں کھل کھیلنے کے موقعے نہ ملیں گے۔ ہم مایوس کیوں ہوں۔ اردو کی طربیہ شاعری شاہ حاتم ؔاور سوداؔ سے شروع ہو کر نظیرؔ، مصحفیؔ، انشاءؔ، جرأتؔ، آتشؔ، امیرؔ، داغؔ اور ریاضؔ پر ختم ہو جاتی ہے۔ ان کے قہقہوں میں جو انفرادیت ہے، ریاضؔ اور ان کے ان ہم جلیسوں کی طبیعتوں میں جو رنگین فرق ہے، یہ اپنی جگہ ایک بہت دلچسپ موضوع ہے۔ پھر بھی یہ کہنے کی بات ہے کہ اس بزم میں جو گھاگ پن ریاضؔ میں ملتاہے، یہاں تک کہ کڑھنے اور دل گیر ہو جانے کا جو انداز ریاضؔ کاہے وہ ریاضؔ ہی کا حصہ ہے۔ ریاضؔ کے خمریات کا ذکر اکثر لوگوں نے کیا ہے اور اس طرح گویا وہ اسی رنگ کے شاعر تھے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ جو بات ان کے خمریات میں ہے وہی بات ریاضؔ کے تمام اشعار میں ہے،

    موت،

    احباب کے کاندھے سے لحد میں اتر آئے

    کس چین سے سوتے ہوئے ہم اپنے گھر آئے

    خمریات،

    اتنی تو پتہ کی ہے کہ بہکے ہوئے ہم تھے

    مجرم ہیں جو واعظ کی کہیں سے خبر آئے

    جلوۂ حشر،

    شوخی سے چمک کر ادھر آئے ادھر آئے

    کس چین سے سوتے ہوئے ہم اپنے گھر آئے

    بہار و بلبل،

    بہار آتے ہی پھولوں نے چھاؤنی چھائی

    کہ ڈھونڈھتے ہیں تو اب آشیاں نہیں ملتا

    حسن و عشق،

    گل مرقعے ہیں ترے چاک گریبانوں کے

    شکل معشوق کی انداز ہیں دیوانوں کے

    صلاحیت عشق یا فن عاشقی،

    نہ آیا ہمیں عشق کرنا نہ آیا

    مرے عمر بھر اور مرنا نہ آیا

    سر پیٹنا،

    ہے پری خانہ وہ گھر شیشۂ در ٹوٹ نہ جائے

    سر پہاڑوں سے میں ٹکراؤں کہ سر ٹوٹ نہ جائے

    حسن کا شوق، خود آرائی،

    زیور کے انتخاب نے شب ہی گزاردی

    مہندی چھٹی جوہاتھ سے زیور کے ہوگئے

    قیس و فرہاد،

    جاتا نہ ہو فرہاد کہیں قیس سے ملنے

    وہ کون چلا کوچۂ دشمن سے نکل کر

    جو بات ان اشعار میں ہے (یعنی خلوص کا تکلف بن جانا اور تکلف کا خلوص بن جانا) وہی بات ریاضؔ کے خمریات میں بھی ہے۔ یہ جذبات نگاری نہیں ہے ادا کاری ہے، مگر کتنی مکمل، کتنی جاذب نظر۔ ناسخؔ کا جھوٹ ریاضؔ کا سچ بن گیا ہے۔ یعنی لکھنؤ والے جب بگڑ کر بنے تو اس عمل کا نام ریاضؔ ہو گیا۔

    مأخذ:

    (Pg. 35)

    • مصنف: فراق گورکھپوری
      • ناشر: ایم۔ آر۔ پبلیکیشنز، نئی دہلی

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے