Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ساتواں دن

آصف فرخی

ساتواں دن

آصف فرخی

MORE BYآصف فرخی

    خلاصہ

    آصف فرخی نے یہ مضمون اپنے افسانوی مجموعے آتش فشاں پر کھلے گلاب کے افسانوں کے بارے میں لکھا ہے۔ اس مضمون میں انہوں نے اپنے خاندانی پس منظر، تخلیقی محرکات، فکشن، فکشن تفہیم اور عالمی ادب کے ان شہ پاروں کا ذکر کیا ہے جن سے وہ متاثر ہوئے ہیں۔

    شمع میرے سامنے آتی ہے۔

    لیکن محفل تو اٹھنے والی ہے۔۔۔

    اب شمع میرے سامنے آئی ہے تو محفل اٹھنے والی ہے۔ ایسے میں میں اپنی کہانیاں کہتا ہوں۔ بھولی بسری، پرانی دھرانی کہانیاں۔ دور دیس کی بات سناتا ہوں او ربیتے دنوں کی، رفتہ و گزشتہ کو دھیان میں لاتا ہوں، ان طور طریق کا ذکر جو متروک ہوئے اور ان لوگوں کا دھیان جو کھوئے گئے۔۔۔

    اگر وہ پہلے کا سا زمانہ ہوتا جب ہر انسان فرشتہ تھا یا شیطان اور سروشِ غیبی نے پردہ نہ کیا تھا تو میں بھی پرانے داستان گو کی طرح کہانی سناتا کہ آنکھوں دیکھی کہتے نہیں کانوں سنی کہتے ہیں، جھوٹ سچ کہنے والے کی گردن پر، کسی شہر میں ایک بادشاہ تھا، ہمارا تمہارا خدا بادشاہ، رعیت شاد مملکت آباد۔۔۔ میرا کام سہل رہتا، صاحبقراں ملک پر ملک فتح کیے جاتے، کافروں کا منہ کالا اور نادیدہ خدا کے ماننے والوں کا بول بالا ہوتا رہتا، لشکر کفار کے سربرآوردہ پہلوان شکست کھاکر پیٹھ دکھا جاتے یا جو واقعی شجاع ہوتے وہ طوقِ اطاعت پہنتے اور نازک اندام شہزادیاں کہ دیکھے سے جن کا رنگ میلا ہو، لشکر صاحب قرانی کے طلعت پیکر نوجوانوں کی یاد میں اشعارِ آب دار بزبانِ فارسی پڑھے جاتیں، ایک ایک پھول کا مضمون سورنگ سے باندھا جاتا، طلسم کا بیان ہے تو اوہو۔ عیاری کا ذکر ہے تو آہا، وقت تھم جاتا اور زمانہ بھی شوق سے سننے لگتا۔۔۔

    مگر افسوس کہ وہ داستان گو داستان کہتے کہتے سو گئے، سننے والوں کو جھپکی آ گئی، پیالوں میں رکھی افیم سوکھ گئی، بوسیدہ اوراق کو دیمک چاٹ گئی۔ منشی نول کشور کا مطبع بند ہو چکا اور میر باقر علی داستان گو مرگئے۔ اب شمع ہمارے سامنے آتی ہے، میں دھیان کی سیڑھیوں پر پیر رکھتا ہوں تو میرے قدموں تلے لکڑی کا پرانا شکستہ زینہ ڈولتا ہے۔ میں ادھر ادھر نظر دوڑاتا ہوں، چراغ پھیکے پڑ چکے، محفل کی رونق گئی۔ میں صبح دم بالائے بام آیا ہوں۔

    میرا نام پکارا جاتا ہے۔ اب میری باری ہے۔ میں آگے آتا ہوں، اگلی پچھلی صفوں میں ہلچل سی ہوتی ہے، شور تھم جاتا ہے، لوگ میری طرف دیکھنے لگتے ہیں، ہر شے دم سادھ لیتی ہے اور میں اپنی کہانیوں کے خوف میں مبتلا ہو جاتا ہوں جیسے نوآمیز اداکار اپنے پہلے ڈرامے پر۔ وہ جو نظمیں پاسٹرناک نے ’’ڈاکٹر ژواگو‘‘ کے آخر میں لکھی ہیں، ان میں سے وہ والی جس کا نام ’’ہیملٹ‘‘ ہے، میرے ذہن میں گونجنےلگتی ہے۔

    ’’شور تھمنے لگتا ہے۔ میں اسٹیج پر آتا ہوں۔

    دروازے سے ٹیک لگائے

    میں سنتاہوں دور سےآتی ہوئی بازگشت میں

    کہ کیا کچھ ہوگا میری صدی میں۔‘‘

    ’’زندگی اتنی آسان نہیں جتنا کھیتوں سے گزرنا۔‘‘ اور کہانیاں کہنا بھی اتنا آسان نہیں جیسے دھوپ میں کھیلتے بچے۔ میں کوشش کرتا ہوں کہ دور کی آواز سے کوئی ایماء، کوئی اشارت حاصل کروں کہ میرے دنوں میں کیا واقعات پیش آئیں گے، کیسی گزرےگی۔

    کسی صوفی نے بددعادی تھی کہ خدا تم کو دلچسپ دور میں پیدا کرے۔ بددعا تو نہ جانے کسے دی تھی، لگ مجھے گئی۔ میرا المیہ یہ ہے کہ میں بہت دل چسپ دور میں پیدا ہوا ہوں۔ کسی بھی سنجیدہ ادیب کی طرح میں ان ازلی و ابدی سوالات کو چھاننا پھٹکنا، ان کی جستجو کرنا چاہتا ہوں جو ابتدائے آفرینش سے انسانی ذہن کو پریشان کر رہے ہیں اور مجھے اس عہد سے نبرد آزما ہونا پڑتا ہے جو اتنا دلچسپ ہے کہ تاریخ کا شاید ہی کوئی اور دور اس مسحور کن حد تک دلچسپ رہا ہو کہ اس دور میں ساری زندگی، ساری کائنات اسکرین پر تصویر کی طرح نظر آتی ہوئی لگتی ہے اور اس سیربین کا منظر جلدی سےبدل جاتا ہے؛ اتنا دلچسپ دور کہ اس کی شتابی کسی مستحکم فکری منہاج اور ORDER کے لیے سازگار نہیں ہیں۔ دونوں بھاری پتھر ایک دوسرے سے ٹکرا جاتے ہیں اور اس تصادم سے جو چنگاریاں پیدا ہوتی ہیں وہ اندھیری بستی میں جگنوؤں کی طرح اڑتی ہیں۔ میں ان جگنوؤں کو پہچانتا ہوں اور اپنی ٹوپی میں جمع کرتا ہوں کہ یہ میری کہانیاں ہیں۔

    کہانیوں کے ضمن میں یہ جگنوؤں کا ذکر جذباتی خوداد عائی اور نرگسیت آمیز خود تسکینی کی حد تک تو ٹھیک ہے، لیکن اس سے ان کہانیوں کی نوعیت اور ان کی ماہیت معلوم نہیں ہوتی اور نہ ہی ان کی افادیت کا پتہ چلتا ہے۔ ان کہانیوں کو لکھ لینے کے بعد دوبارہ پڑھتا ہوں تو یہ کہانیاں کسی حکیم کا باندھا طلسم لگتی ہیں۔ میں ان میں گم ہو جاتا ہوں مگر ان کہانیوں کی دنیا میری بنائی ہوئی ہے، جس کے لیے میں نے لفظ کن کہا، اس عالم کو روشنی دی اور سمندر اور پھر اسے اپنے خواب و خیال سے آباد کیا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ میری یہ افسانوی دنیا تکمیل تخلیق کے ساتویں دن کیسی لگتی ہے اور چوں کہ ساتواں دن سبت ہوتا ہے اس لیے آج کام نہیں بلکہ باتیں۔

    میری کہانیوں کی ابتدا نوعمری کے خوابوں میں ہوئی۔ اس بیمار بچے کے خواب جس کے ہنستےکھیلتے تخیل نے اپنی اداسی کے واسطے آوازوں اور سایوں میں ساتھی ڈھونڈلیے تھے۔ پھر یہ میرے لیے خفیہ زندگی بن گئی۔ دن رات کے اٹھنے بیٹھنے، چلنے پھرنے، آنے جانے سے اندرون کی طرف چھپی ہوئی، زیر زمین چشمے کی طرح، جو آس پاس کو سیراب کر دیتا ہے، ہری گھاس اور جنگلی پھولوں کو اندر ہی اندر نمو پہنچاکر زمین کو ڈھک دیتا ہے اور جس طرح زمین کے اندر اس کا ترنم سنائی دیتا ہے مجھے اپنے اندر اس کی گنگناہٹ سنائی دی۔ ابتدا میں ہ بچے کا کھیل تھا جو اپنے خوابوں میں خود کو خالق و مالک دیکھتا ہے، لیکن یہ خواب میرے ساتھ ساتھ بڑھتا رہا، میرے اندر جوان ہوتا رہا، میرے اندر مجھ سے زیادہ سنجیدہ، توانا، پر قوت اور جوں جوں یہ خواب پروان چڑھتا جاتا، مجھ سے وہ تمام دانائی اور سوچ اور آگ اور ہنر مندی طلب کرتا رہا جو میں بہم پہنچا سکتا تھا۔

    بچپن کی حیرت بلوغت کے شعور میں ڈھلنے لگی تو یہ خواب ہیئت پا گیا۔ امرتاپریتم کی طرح مجھے بھی یقین ہے کہ خدا نے جس قوت سےدنیا تخلیق کی تھی اس قوت کا کچھ نہ کچھ حصہ ہر انسان کے حصے میں آتا ہے۔ یہ قوت میرے پاس بھی آئی، مٹھی بھر ہی سہی، اسے میں نے محسوس کیا۔ اسی سے کام لیتے ہوئے اپنے زندہ وجود، گوشت پوست کے جسم و جاں سے قطرہ قطرہ، ذرہ ذرہ اپنی تخئیلاتی تخلیق کی دنیا میں منتقل کرنے لگا حتی کہ یہ خواب مثل دنیا کے ہوا اور بطون خواب کا یہ عالم کاغذ پراترا۔ یہ خواب مجھ سے جاری ہوا اور اب مجھ سے آزاد ہوتا ہے۔

    ان کہانیوں کو لکھ کر میں اپنے خوابوں کو یوں آزاد کرتا ہوں جیسے کوئی پنجرے سے کبوتر اڑا دے۔ مگر ان پرندوں کو آزاد کرنے سے پہلے انہیں پروان چڑھانا پڑتا ہے اور یہ وہ لال سبز کبوتر ہیں جو صرف سچے موتی چگتے ہیں۔ خوابوں کے یہ ہم زاد پرندے میرے سینے میں پھڑپھڑاتے ہیں، میرے ذہن میں نیلے آسمان کی مثل پرواز کرتے ہیں۔ آگ چرانے کی پاداش میں پرومیتھیئس کو دیوتا زیوس نے چٹان سے بندھوا دیا تھا اور تیز چونچ والے ایک عقاب کو مامور کیا تھا کہ اس کا کلیجہ نوچتا رہے۔ یہ پرندہ پرومیتھیئس کا عذاب تھا، میں نے اپنے ہم زاد پرندے کو، جو کہ مجھ پر مامور ہے، کہانیاں سناکر سدھانا چاہا ہے۔ میں نے اسے تربیت دی ہے کہ خوابوں سے بیرون کی طرف سفر کرے۔

    میری کوشش ہے کہ لاشعور کے وسائل و ذرائع کا زیادہ سے زیادہ استعمال، انہیں بڑی سے بڑی تعداد میں بروئے کار لانے کا عمل تحریر شدہ مواد پر کڑی سے کڑی گرفت، مواد پر شعوری قابو کے ساتھ امتزاج پا جائے۔ یادوں، خوابوں، خیالوں کے نسلی ورثے اور مدفون خزانے کو زیر زمین پوشیدہ معدنیات اور ذرائع توانائی کی طرح نکالا جائے اور فنی گرفت اور ذہنی قابو کی صنعت و حرفت سے گزار کر ’’پروسیس‘‘ کر لیا جائے۔ یہاں یہ تفصیل بیان کرنے کی گنجائش نہیں کہ لاشعور ہی میں زندگی کے منبع و ماخذ اپنی جھلک دکھاتے ہیں اور وہ تمام ساحری، تمام شاعری، دیومالا، علامات، معتقدات، پرچھائیاں، خواب و خیال کے سلسلے، رفتہ و گزشتہ کے قافلے جو انسان میں ہوتے ہیں، اپنی دریافت کے وسیلے سے فنکار ان کا سراغ پاتا ہے اور اس تک پہنچنے کے لیے کوہ کنی کرتا ہے تو بےاندازہ توانائی نکلتی ہے۔ لیکن اس کے اوپر انتہائی فنی نظم و ضبط رکھنا پڑتا ہے ورنہ یہ موج نہنگ بن جاتی ہے۔ یہ آسیبی قوتیں فن کار کے ذہن میں ادھم مچاتی ہیں، اسے عجائبات دوعالم کی سیر کو لے جاتی ہیں؛ یہ آوازیں مجھے ایسے مقام پر لے آئیں جہاں زیر زمین پانی کی گنگناہٹ سنائی دیتی تھی۔

    میں نے پاؤں مارا تو پانی نکلا اور میں نے اس کے جزر و مد میں انفرادی و ملی زمانوں کو ماضی و حال و استقبال کے روپ بدلتے دیکھا، زندگی کو پایا کہ آبگینہ ہے جس میں چھلکتی شراب کے اندر بوقلمونی و نیرنگی اپنا جلوہ دکھاتی ہیں، چاند تارے ٹنکی چنری ہے کہ کبھی سمٹتی ہے، کبھی کھلتی ہے۔ پتہ نہیں افسانے لکھنے والے تلمیذ الرحمن ہوتے ہیں یا نہیں، اور افسانے کو بھی سروش غیبی کی تائید حاصل ہے یا نہیں اور اگر افسانے کی ’’میوز‘‘ ہوتی بھی ہے تو جو آواز میں نے سنی وہ اسی کی تھی۔ اپنے وجود کی گہرائیوں سے آتی ہوئی یہ آواز میوز کی نہیں، تو یہ وہ چیز ہے جسے ژونگ نے اجتماعی لاشعور کہا تھا۔ ان کہانیوں میں میں نے ابھی اسی آواز کو محفوظ کر لینا چاہا ہے جیسے ساحلی ریت پر پڑی ہوئی سیپی جو سمندر کی لہروں کا عمل جانتی ہے کہ اس پر کان لگاکر سنو تو سمندر کی آواز آتی ہے۔

    جو شروع میں بچپن کا کھیل تھا وہ جی کا روگ ہوا اور وہی آخر کو فن ٹھہرا۔ میں نے لکھنا سیکھا۔ ہمارے ادبی ماحول میں شاعری چوں کہ فن کی اعلیٰ ترین شکل سمجھی جاتی ہے، اس لیے کوئی بھی نوآموز جس میں ادبی جراثیم ہوتے ہیں وہ شعر گوئی کی طرف مائل ہوتا ہے۔ ابتدا میں میں نے غزلیں کہیں، نظمیں لکھیں، بہت زور مارا، بہت کاغذ سیاہ کیا۔ میں ایسی شاعری کرنا چاہتا تھا جو بیک وقت بہت حسیاتی ہو اور اس کے ساتھ اپنے اندر فکری گہرائی کی گنجائش رکھتی ہو، شیشے کی طرح واضح، درخت کی طرح پر قوت اور موت کی طرح بامعنی، ایسی شاعری جس میں جامد اشیاء بھی اسی سادگی اور وقار سےآسکیں، جس میں زندگی کی تمام بیزار کن یکسانیت اور خوف اور شان اور حیرت سما سکے اور اسلوب جو اتنا شفاف ہو کہ ’’شاعری‘‘ ہوتی ہوئی نہ محسوس ہو اور پھر بھی شعری تجربہ حاصل ہو جائے۔

    مدت بعد مجھے احساس ہوا کہ میں جیسی شاعری کرنا چاہ رہا تھا وہ بقول آندرے سنیاوسکی POETRY OF LIFE’S PROSE تھی۔ انہی دنوں ایک ادھوری نظم پھیل کر کہانی بن گئی۔ شروع میں میں نے بہت چست و چالاک کہانیاں لکھیں۔ شوخ چنچل کہانیاں جن میں زندگی کی SUPERFACIALITIES کی بالائی سطح پر سے یوں پھسلتا چلا گیا جیسے برف پر اسکیٹنگ کر رہا ہوں۔ مگر ایک کہانی ایسی ملی جس پر برف کی سطح پتلی تھی، میں اسی انداز سے پھسلتا چلا آیا تو برف کی تہہ ٹوٹ گئی اور میں برفیلے یخ میں اندر۔ یہ کہانی میری افسانوی تعمیر میں وسطِ محراب کا پتھر ثابت ہوئی۔ بس پھر کیا تھا میں اس گل بکاولی سی کہانی کی کھوج میں نکل پڑا جس سے اندھے بادشاہ کی آنکھیں ٹھیک ہو جائیں، دلوں کا سکون لوٹ آئے اور وہ جو بھٹکتے ہوئے شہزادوں کو راستہ دکھانے والے، لوح طلسم چمکانے والے بزرگ ملا کرتے تھے تو مجھے اپنے ایک بزرگ کی موجودگی کا احساس ہونے لگا جو میرے افسانوی اسلوب میں یوں آ گئے جیسے دھوپ گھڑی پر کرن کا سایہ پھیلنے لگتا ہے۔۔۔

    میں نے سر اٹھا کر جو دیکھا تو اپنے دادا کو وہاں موجود پایا۔ میں نے کہانیاں کہنا ان سے سیکھا۔ ہمارے خطہ زمین میں خاندان ایک سماجی ادارے کی حیثیت سے یوں بھی بہت اہمیت کا حامل ہے اور ہمارے خاندان میں ’’خاندان‘‘ بھی بہت پر قوت ہے۔ انسلاکات، تعلقات، مماثلتوں اور نسبتوں کا ایک سلسلہ ہے کہ کبھی یوں لگتا ہے زندگی کی کوئی متحرک رَو ہے جو نسل در نسل چلتی ہوئی ان سے میرے والد تک اور پھر اس سے مجھ تک آتی ہے، گویا میں ان کی توسیع ہوں اور وہ میرا پرانا ایڈیشن جس میں تفصیلات الگ ہیں مگر نفس مضمون ایک۔ مگر اس سے بھی زیادہ، ان کی ذات میں میں نے پوری ایک تہذیب کی جھلک دیکھی۔۔۔ وہ خودداری، وہ وضع داری، رکھ رکھاؤ، قناعت، بردباری، تمکنت، وقار، نفیس مزاجی، خوش ذوقی، بزرگانہ شفقت، بےلوث محبت، خلوص، بزم کی رونق، محفل آراء، جہاں بیٹھے ہیں تو اپنی جگہ من بھر کے، اٹھیں تو لاکھوں کے، چپ رہیں تو وقت کے ازلی و ابدی سناٹے کی طرح اور بولیں تو جیسے ہزار داستان چہک رہا ہے۔

    دادا ابا نے بہت بھرپور، متنوع اور مکمل زندگی گزاری، اتنی نستعلیق زندگی کہ آج اس کا تصور بھی مشکل ہے اور اس کے دوران ان کی یادوں کے حیرت انگیز خزانے میں دلچسپ قصوں، واقعات، چٹکلوں، نقلیات اور لطائف کی پوری الف لیلیٰ جمع ہو گئی تھی جو ایک آن میرے سامنے سم سم کی طرح کھل گئی۔ اپنی زندگی کی اس بوقلمونی اور نیرنگی کو انہوں نے میرے ذاتی شعوریں اس طرح منتقل کیا گویا وہ سب میرے ہی تجربے کا حصہ ہو۔ پھر بات یہ ہوئی کہ اس آن ڈھلتی عمر والے لوگ میرے لیے ایک واردات بن گئے اور بقول انتظار حسین، ان کی ڈھلتی عمریں اس ڈھلتی تہذیب کی علامت بنی ہوئی تھیں جس نے مجھے جذبہ بن کر آ لیا تھا۔ میرے اس جذبے اور واردات کا نامیاتی ارتقاء دادا ابا کے زیر سایہ ہوا۔

    اس سلسلے کی تین کہانیوں میں وہ بذات خود موجود ہیں، لیکن میری زندگی کی طرح میری کتاب کا بھی ان سے ہر واسطہ براہ راست ہے، گہرا اور اتنا شدید کہ میرے لیے اس کا غیرجذباتی معروضی بیان بہت مشکل ہے۔ اس کتاب کے کئی افسانے انہوں نے سنے، بعض پسند بھی کیے۔ یہ سارا سلسلہ میرے ذہن میں کھن کھجورے کی طرح پنجے گاڑے ہوئے تھا جو ہر چکر پر تھورا اور ٹوٹتی ہے، تھوڑا اور ڈوبتی ہے کہ فروری ۱۹۸۱ء میں دادا ابا چلے گئے۔ محبتوں کے باغ میں ایک قبر بن گئی اور اس قبر پر چڑھانے کے لیے میں یہ گلاب اگا لایا۔ اس صدمے نے جہاں مجھے کئی ماہ تک ماؤف کر رکھا وہیں اس کتاب کو بھی اگلوا لیا کہ اب یہ ان کی یادگار ہو گئی تھی۔

    میں نے اتنی کہانیاں سنی ہیں کہ اپنا آپ بھی کہانی لگتا ہے۔ جب میں چھوٹا تھا اور کہانی سننے کے لیے ضد کرتا تھا تو مجھے سمجھایا جاتا تھا کہ وقت بے وقت کہانی کہنے سے مسافر راستہ بھول جاتے ہیں۔ میری سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ بھلا وہ کون سے مسافر ہوں گے جو چلتے چلتے ایکا ایکی راستہ بھول جائیں گے، صرف اس لیے کہ دور کہیں کوئی بوڑھی عورت ایک بچے کو کہانیاں سنا رہی ہے۔ کہانیوں سے منزلوں کے کھوٹے ہونے کا تو مجھے پتہ نہ تھا، مجھے تو کہانیوں کا چسکا تھا، اور رو دھو کر کہانی سن لیا کرتا تھا۔ اب مسافر کہانیاں کہنے سے راستہ نہیں بھولتے کہ ان کے ساتھ سفر کے نقشے اور ٹریول گائیڈ ہوتے ہیں، سفر کے وہ انداز بھی بدلے گئے اور وہ راستہ بھلا دینے والی کہانیاں بھی بچھڑ گئیں۔ پتہ نہیں ان کہانیوں نے کتنے مسافروں کی راہ کھوٹی کی، ان میں سے ایک مسافر کو میں جانتا ہوں جو کہانیاں سننے سے راستہ بھول گیا۔ وہ میں ہوں۔

    جہاں جاتا ہوں کہانیاں میرے ساتھ چلتی ہیں، اپنی ضیاء بھیجتی ہیں، راستہ دکھاتی ہیں، منزلوں کا پتہ دیتی ہیں، قطب تارے کی طرح۔ کہانی کالی بلی کی طرح راستہ کاٹ جاتی ہے، میں سب بھول بھال کر کہ مجھے کہاں جانا ہے، کیا کرنا ہے، اس کے سراغ میں چل پڑتا ہوں۔ کہانی چھب دکھلا کر غائب ہوئی اور میں بے تاب ہوکر اسے کھوجتا ہوں اور پکارتا ہوں کہ ایک بار دیکھا ہے، دوسری بار دیکھنے کی ہوس ہے۔ پھر انہیں کہانیوں کے روایتی شہزادے کی طرح خُرجی میں اشرفیاں اور کھجور لے کر اس اَن دیکھی شہزادی انجمن آراء کو پانے کے لیے نکل پڑتا ہوں جس کی خبر ہزار داستان پرندے اور ہیرامن طوطے لاتے ہیں، جس کی ایک جھلک دیکھ کر شہزادے اٹوانٹی کھٹوانٹی لے کر پلنگوں پر پڑ رہتے ہیں۔

    لیکن میری کہانیاں پریوں کی شہزادیاں نہیں ہیں، میری کہانیاں بوڑھی عورتیں ہیں، اتنی بوڑھی جتنی مجھے کہانی سنانے والیاں تھیں۔ مجھے اب بھی وہ کہانیاں یاد آتی ہیں جن کے آگے سننے والا بچہ بن جاتا ہے، ایسی کہانیاں جو ہر انسان کے اندر سوئے ہوئے بچے کو جگا دیتی ہیں، جو معصومیت اور حیرت کی اسی کیفیت کو واپس بلا لیتی ہیں جن سے بچپن عبارت ہے، دنیا اتنی ہی حیرت انگیز اور دلچسپ بن جاتی ہے، کہانی سننے والا بچوں کی طرح مسرت انگیز استعجاب کے عالم میں کہانی سنے جاتا ہے۔ کہانی سننا آدمی کی سرشت میں داخل ہے، ہم تمام عمر کہانیاں سنتے ہیں، پڑھتے ہیں، دیکھتے ہیں، کبھی کبھی خود بھی کہانی بن جاتے ہیں، لیکن جو کہانیاں ہم نے بچپن میں گھر میں بڑی بوڑھیوں سے سنی ہوتی ہیں وہ ہمیشہ یاد رہتی ہیں۔

    ہمیں ان بڑی بوڑھیوں سے اور ان کی کہانیوں سے محبت ہوتی ہے، ایسی محبت جو اپنے کمالات فن سے مرعوب و متاثر کرنے والے افسانہ نگاروں سے نہیں ہو پاتی اور انہی سے ہم وقت بےوقت کہانیوں کی فرمائش کر سکتے ہیں کہ آج تو ہرن بادشاہ زادی کی کہانی سنیں گے اور آج بی پٹکی والی۔ مجھے ایسی کہانیاں پسند ہیں جو پڑھنے والے کو اس بچے کی طرح مطمئن کرتی ہیں۔ بڑی بوڑھیوں سے سنی ہوئی کہانیوں سے لے کر بازیافت ماضی کی داستانوں اور مکاشفہ مستقبل کے وژن تک مجھے اپنی کہانیوں کی تلاش رہی ہے اور اس سفر میں جن کہانیوں سے میرا سابقہ پڑا ہے ان میں ٹیڈی لڑکیوں جیسی CHIC کہانیاں بھی ہیں (بلکہ بقول شخصے اسٹوریاں) اور بوڑھی عورتوں جیسی کہانیاں، داستانیں، حکایتیں، دیومالا، اساطیر، پری کتھائیں، لوک روایتیں، قصے اور فیبلز اور اصلی کہانیوں کا یہ سلسلہ ہی میری کہانیوں کا منطقہ ہے۔

    ایک ناول تھا جو منفی انسپریشن کے ایک ہی لمحے میں کچے کرسٹل کی طرح ٹوٹ گیا۔ اس کے ملبے میں سے جو ثابت ٹکڑے نکالے جاسکے ان کو جلانے، تپانے، بھٹی میں پکانے اور بہت تراش خراش، جوڑ توڑ کے بعد بعض افسانے بنے۔ یہ بھی ایک وجہ ہے کہ اس کتاب کے افسانوں میں وحدتِ تاثر اور لہجے کی یکسانیت ملےگی۔

    اس کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ دیگر افسانوی مجموعوں کی طرح ان تمام متفرق کہانیوں کا مجموعہ نہیں ہے جو مصنف نے ایک خاص مدت میں لکھ ڈالیں۔۔۔ اس کتاب میں مجتمع کہانیوں سے ماسوا مصنف کی اور کہانیاں بھی ہیں جن سے کسی دوسرے سلسلے کی داغ بیل ڈالی جا سکتی ہے۔۔۔ اور نہ یہ کہانیاں کسی مخصوص زمانی وقفے کی کارکردگی پر مشتمل ہیں، توام بہن بھائیوں کی طرح۔ بلکہ یہاں یہ کہانیاں اپنی موضوعی وحدت کے اعتبار سے رکھی گئی ہیں۔ یہاں یہ ایک بڑے کل کی جزو ہیں، اپنی جگہ قائم بالذات بھی اور باہم دیگر مل کر ایک برتر وجود کی تعمیر کنندہ بھی۔ یہ تمام کی تمام مل کر ایک تھیم، ایک موضوع سے منسلک ہوتی ہیں، ایسی تھیم جسے کہیں بھی تفصیلاً یا براہ راست بیان نہیں کیا گیا بلکہ یہ تمام کہانیاں اس پر یوں محیط ہیں کہ اس موضوعی دائرے کو مرکز کی طرف سے روشن نہیں کیا جاتا بلکہ یہ کانیاں اس کے گرد حلقہ کھینچ کر اس کے رقبہ کو واضح کر دیتی ہیں اور اس کی صورت بنتی نظر آتی ہے۔ میں نے اس عظیم موضوع کی رزمیہ نہیں لکھی، اس جنگ کی چھوٹی چھوٹی چپقلشیں رپورٹ کی ہیں، اور وہ بھی اس طرح کہ اطراف و جوانب کو روشن کر کے اس گم شدہ مرکز کو اندھیرے کے ریلیف میں چھوڑ دیا ہے۔ کہانیوں کا مجموعہ دائرے کا گھیرا ہے اور ہر کہانی قوس۔

    اس کتاب کے بیشتر مواد کو تھوڑی بہت چابک دستی کام میں لاتے ہوئے ایک اور ناول میں ڈھالا جا سکتا تھا۔ مگر میں نے ایسا کرنے سے احتراز کیا اور اس کی صورت موجودہ کو پسند کیا۔ جدید زندگی کا انتشار (جس کا مرکز گریز رجحان اس کتاب کے دل میں ہے) زیادہ فنکارانہ شستگی سے مانع ہوتا ہے۔ لہٰذا اس کتاب کالخت لحت تنظیمی ڈھانچہ، اس کی ہیئت بھی اپنے موضوع سے مطابقت رکھتی ہے۔ یہاں یہ سوال اٹھ سکتا ہے کہ آیا اس ڈھیلے ڈھالے، چیدہ چیدہ واقعاتی طریق سے کتاب کی اور اس میں پیش کردہ موضوع کی تعمیری وحدت از خود مجروح نہیں ہوجاتی۔ موجودہ صورت میں کتاب کی جو ساختی وحدت ہے وہ ناول کے لحاظ سے کم ہے اور افسانے کے حساب سے زیادہ۔ اس کے باوجود کتاب میں COHESION ہے، اس کے اجزاء میں کشش باہمی اور اتصال موجود ہے۔

    یہ صفحات یوں ہم رشتہ و پیوستہ ہیں جیسے کل اور جزو، جیسے فرد اور ملت۔ کبھی سوچتا ہوں کہ ان نثر پاروں کو کانتو کیوں نہ کہا۔ اور کانتو پر مجھے اپنا مربی عذرا پاؤنڈ یاد آ جاتا ہے جس نے دانتے کی طرح اپنی طویل نظم کے اجزاء کو کانتو کہا تھا اور اس نظم میں پاؤنڈ کا سب سے بڑا کارنامہ یہ بتایا گیا ہے کہ وہ مرکزی بنیادی موضوع، پلاٹ، فکر کے تدریجی ارتقاء سے سبک دوشی حاصل کر چکا ہے اور اپنے کانتوز میں پلاٹ کی جگہ بڑے پیمانے کے INTERLOCKING RHYTHM OF RECURRENCE کو دی ہے۔ کہا گیا ہے کہ جمالیاتی تصورات میں برپا انتشار سے وقوع پذیر ہونے والی ایلوٹروپک امیجز کی دریافت فنکاروں کے لیے اسی اہمیت کی حامل ہے جو طبیعیات میں نیو کلرفشن کی دریافت۔

    وکٹورین ناولوں والا پلاٹ کا تصور ازکار رفتہ ہوا۔ اسے طاق نسیاں پر دھرپٹخیے اور آگے بڑھیے۔ یہاں پلاٹ اس الجھن کی طرح نہیں ہے جو سلجھتی جاتی ہے بلکہ اس ریشمی لچھی کی طرح ہے جو لپٹتی جارہی ہے۔ ایڈگریلن پونے تو خیر طویل نظم کے وجود ہی سے انکار کیا تھا، فی زمانہ جو رج لوئی بورخے بھی ناول کے بجائے مختصر ہیئت کے ارتکاز کو پسند کرتا ہے اور یہاں بھی پورے ناول کی طوالت سے قصداً گریز کیا گیا ہے۔ میرا موضوع ایک طویل وبسیط کتاب کا متقاضی ضرور ہے، ایک میجر کتاب، کتابِ کبیر۔ لیکن میرا قلم لیرک شاعر کا ہے ایپک شاعر کا نہیں۔ ہالی وڈ میں بننے والی فلموں جیسی ’’ایپک عظمت اور بڑائی‘‘ سے میں مرعوب نہیں ہوتا۔ میرے ذہن میں میجر کتاب کا جو تصور اس ضمن میں ابھرتا ہے، اس کی صورت یہ ہے کہ افسانوی سلسلہ ہو جس میں ایک مخصوص وحدت ہو اور یہ سلسلہ یوں مرتب کیا جائے کہ INTERLOCKING اجزاء کا کل بن جائے جس کے وسیع دائرہ کار میں ایک غنائی تصور کا محرک ہو، ادراک و فہم کا ایک زاویہ ہو، نامیاتی وحدت ہو۔ مجھےایسی کتاب کی تلاش ہے اور ایسی کتاب، بقول اوسپ مینڈل سٹام حقیقی کتاب بھی زندگی کی طرح دورانِ وقت میں لپٹے سے کھلتی ہے۔

    چنانچہ اس کتاب کا بھی پیٹرن یہی ہے۔ اس کتاب کے موضوع میں منظم زندگی کے خاتمے کا ذکر موجود ہے، لیکن اس میں خود ایک تنظیمی ڈھانچہ اور ساخت موجود ہے جو ترتیب کی ایک صورت، حقیقت سے مشابہت کا شائبہ ضرور دیتی ہے۔ پھر اس گل دستے کو کئی ڈھنگ سے باندھا جا سکتا ہے۔ آپ اس کتاب کو مرثیے کی طرح پڑھنا چاہیں تو اس کو یوں مرتب کر سکتے ہیں کہ پہلے دو افسانے تمہید، اس کے بعد سراپا، تیسرے جزو کے چار افسانے رجز اور آخری چار ماتم؛ یا اگر اس کو نسخہ تشخیص سمجھیں تو چار سلسلے یوں بنیں گے کہ ہر جزو ایک پروسس کے مطابق ہے، پہلے انسپیکشن، پھر PALPATION پھر PERCUSSION اور پھر AUSCULATION پہلے دو افسانوں میں معائنہ ہے، اگلی آٹھ کہانیاں ٹٹولتی ہیں، اس کے بعد والی PERCUSS کرتی ہیں اور آخری کہانیاں استماع۔ تو اس طرح کی نسبت ہے ان کہانیوں میں، مگر اس کی تفصیل بیان نہیں کروں گا ورنہ میں خود ان کا کردار بن کر رہ جاؤں گا۔

    ابھی تک ان کہانیوں کے ذہنی و جذباتی پس منظر کی بات ہوئی (تفصیلی پس منظر نہیں کہ اگر اس کا ذکر چھڑ گیا تو پہاڑی سلسلے کی طرح دور تک کھنچتا چلا جائےگا۔) وہ فوری پس منظر جو ایک شخص کی ذہنی ترتیب و نمو میں ظاہر ہوا اور اس بنیادی SPADE WORK کی بات جو ان کہانیوں کی تعمیر میں صرف ہوا، اینٹ پر اینٹ چننے اور خواب کو حرف میں منتقل کرنے کا عمل، ان کہانیوں کے پلاٹ، کردار، معنویت، افسانوی فضا، لغت، تعمیری ڈھانچے پر کچھ نہیں کہا اور وہ اس لیے کہ اگر ان میں سے کسی عنصر پر مزید کچھ کہنے کی گنجائش ہوتی تو کہانی کے اندر ہی کہتا، اس ممکنہ اضافے کے مطابق اس کہانی کی صورت ڈھالتا۔ ان پر جو کچھ کہنا تھا کہانیوں میں ہی کہہ دیا۔ اب ان پر کچھ نہیں کہنا، لیکن کیا بات ختم ہو گئی؟

    ان اجزاء کو جوڑنے، کل پرزے اکٹھے کرنے اور چولیں بٹھانے سے کہانی نہیں بنتی۔ کہانی کچھ اور مانگتی ہے۔ یا یوں سمجھیں کہ اگر ان کہانیوں سے کردار، پلاٹ، واقعاتی ڈھانچہ، تعمیراتی ڈھانچہ، افسانوی فضا ہر چیز پرت درپرت اتار لیے جائیں تو کوئی چیز باقی بچےگی یا نہیں۔ میرے خیال میں ایک بہت اہم چیز باقی رہ جائےگی۔ کسی کتاب کے معنی محض اس میں نہیں ہوتے کہ کس نے کیا کہا اور کس نے کیا کیا بلکہ فکشن کی معنویت کا بڑا حصہ تو ان رشتوں میں ہوتا ہے جو مصنف کو اشیاء کے درمیان نظر آتے ہیں، محسوس ہوتے ہیں۔ یہ نہ تو کوئی پوشیدہ اندرونی معنی ہیں اور نہ وہ علامت جس کا ان دنوں ہمارے ادباء میں بہت شہرہ ہے۔

    یہ تو وہ منفرد زاویۂ نگاہ ہے جس پر کھڑے ہوکر ادیب دنیا کو دیکھتا ہے، وہ ذرا سی جگہ پیر ٹکانے کے لیے جو ارشمیدس نے پوری دنیا کو سرے سے ہلا دینے کے لیے مانگی تھی، متن کے الفاظ کے پیچھے، کہانیوں میں پیش کردہ معاشرتی زندگی کی تہہ میں اور ریئلزم یا سمبولزم کی اصطلاحات کے پس پردہ موجود۔۔۔ یا جیسے اس کتاب میں ایک مخصوص زمانے میں ایک مخصوص علاقے کی مخصوص حقیقت دکھانے کی کوشش کی گئی ہے، اس کے احساسِ زندگی کو گرفت میں لانے کی کوشش۔۔۔ یہ چیز ہی اس کو وضع کر رہی ہے، اس کی حیثیت کا تعین کر رہی ہے۔ یہی اس کی تہہ میں موجود خصوصیتِ عمومی ہے، اس کی روح ہے، اس کی حرکی رَو ہے، یہی وہ چیز ہے جو کتاب کو زندگی دیتی ہے۔ اگر کتاب محض چند کاغذوں کا دستہ اور الفاظ کا جتھا نہیں ہے تو جو چیز اس کو ’’ورائے لفظ‘‘ بنا رہی ہے وہ ہے حقیقت بذاتِ خود، حقیقت بطور مظاہرہ، تصور یا فلسفیانہ مدارج سے آگے خود ’’حقیقت‘‘ کی حقیقت۔

    ادراک زندگی کے دوران جو نقش میرے ذہن میں سما سکے، ان کو ’’فن‘‘ کی صورتِ اظہار دیتے ہوئے میں جن نتائج پر پہنچا، انہی سےمیری کہانیوں کی ہیئت عبارت ہے اور میرے لیے اس امر سے کچھ زیادہ فرق نہیں پڑا کہ میری گڑھنت موجودہ رجحانات سے پرے کی چیز ہے اور میری کہانی کا خمیرمیرے خیال سے اٹھا ہے۔ ورجینیا ولف نے لکھا ہے کہ زندگی ترتیب سے روشن کیے ہوئے فانوسوں کا سلسلہ نہیں ہے، ایک نورانی ہالہ ہے، نیم شفاف ملفوف ہے جو ابتدائے شعور سے لے کر انتہا تک ہمیں گھیرے رہتا ہے۔ روشنی کے اسی دھندلکے میں میں نے اپنی فکشنل رئیلٹی تلاش کی ہے۔ کہانی کبھی حاصل ہوتی ہے، کبھی حاصل کی جاتی ہے۔ کبھی سڑک پر پڑے ہوئے ہیرے کی طرح مل جاتی ہے، کبھی کوندے کی طرح لپکتی ہے۔ میں نے اپنے گھر کی چھت پر لائٹنگ کنڈکٹر نہیں لگوایا، میں تو اس آسمانی بجلی کو پکڑنے کے لیے گرج چمک کے طوفان کے دوران اپنی پتنگ میں مانجھے کی جگہ لمبا تار لگا کر نکل پڑتا ہوں۔

    جو برق کی پرستش کرتے ہیں وہ حاصل کا افسوس نہیں کرتے اور غالب کی طرح برق سے شمع ماتم خانہ روشن کر لیتے ہیں۔ یہ بجلی پتنگ سے ہوتی ہوئی میرے خونِ گرم کے خرمن میں آتی ہے تو میری کہانیاں جل اٹھتی ہیں۔ فکشن کے تمام روایتی لوازمات دھندلا کے آپس میں مدغم ہو جاتے ہیں، کیا پلاٹ کیا کردار، کہ اب ایک نئی صورت ہے، وہ ’’نورانی ہالہ، نیم شفاف ملفوف‘‘ جس کے گرد حسیت پتنگے کی طرح اڑتی پھرتی ہے، یہاں بھٹکتی ہوئی، وہاں سے گزرتی ہوئی، اسے دیکھتی ہوئی، اسے چنتی ہوئی، یہ تصور، تخئیل، کیفیات، فکر، منہاج؛ ان سب کے امتزاج سے جو کیفیت ہے وہی زندگی کی علامت ہے۔

    اس تمثیل کے بعد سوال کی ہیئت یہ نہیں رہتی کہ اس کتاب میں آئیڈیا کیا ہے اور آئیڈیا لوجی کیا اور یہاں زیر بحث یہ بھی نہیں کہ اشپنگلر کے تصور کے مطابق یہ ہماری تہذیب کا کون سا دور ہے، آیا ہم موسم بہار و موسم گرما سے گزر کر دور خزاں میں داخل ہو چکے ہیں اور پت جھڑ ہمیں آواز دے رہا ہے۔ بہادری، عقائد کی پختگی اور عینیت کا در ختم ہوکر مذہبی جنون، مادیت، افادیت پسندی اور عقلیت کا دور دورہ ہوتا ہے، ارسٹوکریسی کی جگہ بورژوازی خروج پاتی ہے، زمین کے بجائے پیسہ اشیاء کی قیمت کا پیمانہ ہوا اور وہ انسانیت سوز کا سموپولیٹن شہر وجود میں آ گئے جو اپنے تمدن کے المیے کی نشانی بن جاتے ہیں اور تہذیب کی جگہ اس کی کم تر صورت تمدن نے لی یا نہیں۔ بلکہ سوال کی ہیئت یہ ہے کہ تہذیب کی یہ MORPHOLOGY کرداروں پر کس طرح اثر انداز ہوتی ہے۔

    اشپنگلر کے یہاں تاریخ تقدیر کی طرح ایک عظیم الشان وسیع المرتبت غیرشخصی قوت کی طرح حرکت کرتی نظر آتی ہے۔ مگر چوں کہ یہ کتاب فکشن ہے اور فکشن میں انسانی کرداروں کا، گوشت پوست کے جیتے جاگتے لوگوں کا معاملہ ہوتا ہے تو مجھے اپنا رویہ مارکس کے اس خیال کے قریب قائم کرنا پڑتا ہے کہ ’’تاریخ کچھ نہیں کرتی ہے، اس کے پاس نہ تو بےاندازہ دولت ہے، نہ وہ جنگیں لڑتی ہے بلکہ یہ تو خود انسان ہی ہے، جیتا جاگتا زندہ انسان جو ہر کام کرتا ہے، جو ملکیت رکھتا ہے، جو جنگ لڑتا ہے۔‘‘ مگر اس کے ساتھ یہ توضیح لازم ہے کہ ان کہانیوں کو تاریخ کی الم انگیز ضرورت نے نہیں لکھوایا، نہ ہی ان کا مقصد کچھ ایسی فرض شناسی ہے جس کا عندیہ سانتایانا کے اس انتباہ کی طرح ہے کہ ’’جو ماضی کو یاد نہیں رکھ سکتے وہ اس کو دہرانے پر مجبور ہوں گے۔‘‘

    ان کہانیوں کے خالصتاً ادبی موتیف میں اس عہد کی اس قوت کی تلاش شامل ہے جو بساط بچھاتی ہے، شطرنج کے مہرے سے چلتی ہے، میرے کرداروں کی تعمیر کرتی ہے اور ان کی تقدیروں کو متعین۔ علوم جدیدہ کی روشنی۔۔۔ یا اندھیرے۔۔۔ سے ماورا اور سیاست موجودہ کے امیوزمنٹ پارک سے دور جہاں مکی ماؤس اور ڈونلڈ ڈک کھڑے اپنی پونچھ پھڑکاتے ہیں، مجھے META-HISTORY کے عبقری، تخئیلاتی، توہماتی اور اسطوری تصورات عزیز ہیں، جہاں دیوارِ گریہ درمیان سے ہٹ جائے، پرانے معبدو ہیکل کی تجدید ہو اور میرا قدیم بچپن دیوتا پان کو گلیوں میں رقص کرتا دیکھے۔

    میری پرورش ایسے ماحول میں ہوئی جہاں غزل اور اس کی تہذیب ایک زندہ قدر تھی، جہاں غزل کی عاشق تنی، درویشی، رندی، سرمستی، غم نصیبی اور عیش کوشی، زندگی کا ایک تصور الم، آگہی کی بے تابانہ خواہش اور اس سے آگے آشوب آگہی کے دکھ۔۔۔ جب دنیا سےسابقہ پڑا تو معلوم ہوا یہ سکے اب بازار میں نہیں چلتے۔ جس کو یہ سکہ دیا اس نے تعجب اور شک سے دیکھا اور خود کو اصحاب کہف کی مماثلت میں پایا کہ نیند سے جاگے تو دنیا بدلی ہوئی تھی اور ان کے سکوں سے روٹی نہیں ملتی تھی۔ میری پرورش آؤٹ آف ڈیٹ انداز فکر کے مطابق ہوئی جہاں کسی کو احساس نہ تھا کہ پیروں تلے زمین سوکھی جھیل کی طرح تڑخ رہی ہے اورآتش فشاں میں کھولتا لاوا دھواں دے رہا ہے۔ وہ لوگ جنہیں میرے دل نے جانا، میری آنکھ نے پہچانا، جن سے میں نے محبت کی، جن کی زندگیوں اور طریقِ زندگی کو ہی اصل زندگی جانا کہ اس کے واسطے سے خود کو محسوس کیا تھا، میں نے دیکھا کہ بدلتی ہوئی زندگی اور گزرتا ہوا وقت ان کی سادہ زندگیوں کو الجھاتے ہوئے گزرے۔

    میں تو یہ کہانی سناتا ہوں۔ میری کہانی نہ تو ممنوعہ چوتھی کھونٹ کا سفر ہے نہ ناصر کاظمی کے اتباع میں ساتواں در کھولنے کی خواہش، نہ تو میں آتش رفتہ کا سراغ لیتا ہوں، نہ کھوئے ہوؤں کی جستجو کرتا ہوں کہ مجھے ان کی تلاش نہیں۔ وہ لوگ میرے لیے کھوئے ہی نہیں اور اس آگ سے میرا گھر روشن ہے۔ پرانے زمانے میں دستور تھا کہ کارواں کے پیچھے ایک آدمی چلتا تھا جس کے ذمے یہ دیکھنا بھالنا تھا کہ قافلے والوں کی کوئی چیز گری رہ جائے یا قافلے سے کوئی بچھڑ جائے تو یہ اٹھاتا جائے۔ میں اردو افسانے میں یہی کام رہا ہوں۔ سڑک کے کنارے بیٹھ کر کوڑیوں کے مول ہیرے بیچتا ہوں اور آتش فشاں پر گلاب اگاتا ہوں۔

    یہ گلاب وہ فصل ہیں جو میں نے اَنسون جل سینچ سینچ بوئی۔ یہ میری پریم بیل ہے، اب یہ پھیل گئی اور آنند پھل ہوئی۔ اپنی بیل کے انگور اور اپنے باغ کے گلاب کے واسطے پکارتا ہوں۔ مگر اس سے پہلے کہ لوگ میرے باغ میں پھول چننے آئیں، میں ایک لمحے کو ٹھٹھکتا ہوں اور تامل کرتا ہوں۔ آنسوؤں سے پریم بیل اگانے والی میرا بائی جس کو گلہ تھا کہ ’’آئی میں بھگتی کاج جگ دیکھ موہی۔‘‘ وہ تو پھر بھی یہ کہتی تھی، ’’دودھ کی متھنیاں بڑے پریم سے بلوئی/ماکھن جب کاڑھ لیئو چھاچھ پیئے کوئی۔‘‘ کاش میرے پاس یہ اعتماد ہوتا۔ جہاں میرا بائی کو سننے والوں پر یقین تھا وہاں یہ جذبہ آج مفقود ہے۔ میرا قاری میرا دشمن ہے۔ جو چیز میرے لیے گلاب ہے وہ کسی کے لیے محض لفظی بازی گری ہوگی، کسی کے لیے کاغذی پھول۔

    اردو افسانےمیں کارکردگی کا معیار منٹو، عصمت، بیدی، کرشن رہے ہیں، اردو افسانےکے چار اکے۔۔۔ حکم اینٹ پان چڑیا۔۔۔ ان چار بڑوں کی برتری مسلم، میں نے اپنی کہانی کو ان کے سانچے میں نہیں ڈھالا کہ میں ترپ کا پتہ ہوں، جس کے رنگ پر چال آ جائے تو کیا بیگی کیا بادشاہ اور نہ ہی میں نے آج کل عام طور سے لکھے جانے والے تجریدی افسانوں کا انداز اختیار کیا ہے۔ ادب میں نقطہ نظر کا مسئلہ میرے لیے دین کی سی حیثیت رکھتا ہے اور دین کے بارے میں قریش مکہ کو جواب دیا گیا تھا کہ تم کو تمہاری راہ مجھ کو میری۔ بری ہے یا بھلی، میری راہ تو یہی ہے۔ لیکن مقصد اپنی انفرادیت کا ادّعا نہیں ہے نہ کسی بحث و تمحیص میں الجھنا کہ میں نے جو گلاب اگانے چاہے ہیں وہ یونانی دیومالا کے پیئرین گلاب ہیں، جن کے حسن میں کوئی کلام نہیں۔

    مسئلہ یہ ہے کہ ۱۹۲۶ء کے بعد اردو افسانے کو موضوعات ہی نہیں فارم بھی ملا تھا، تیار شدہ ہیئت اور تکنیک کہ ہر ایک کو اپنے تجربے کے لیے مضبوط ظرف مل گیا۔ چنانچہ اس زمانے میں کچھ اس قسم کا احساس تھا کہ افسانہ ہر وہ شخص لکھ سکتا ہے جو خط لکھ سکتا ہے۔ خاصی مدت کے لیے افسانہ نگاروں کا ذہن تکنیکی تجربوں کی طرف سے ہٹ گیا کہ انہیں اس کی کوئی ضرورت محسوس نہیں ہوتی تھی، ہر ایک مطمئن تھا کہ زندگی کو پیش کرنے کا یہ طریقہ جو ہے اس کے نتائج تسلی بخش ہیں اور اس کو پڑھنے والوں کی تائید بھی حاصل تھی کہ اس دور میں افسانہ ہمارے میجر ادبی فارم غزل کی سی مقبولیت پانے لگا۔ ان ’’چار بڑوں‘‘ کا ہر افسانہ ایک اہم واقعہ ہوتا تھا جس پر لوگ باقاعدہ بات کیا کرتے تھے، اس کو اہمیت دیتے تھے۔

    اس وقت کا افسانہ نگار جب کہتا تھا کہ منگو کو چوان اپنے اڈے میں بہت عقل مند سمجھا جاتا تھا تو پڑھنے والے اقرار میں سر ہلاتے تھے گویا وہ یہ جانتے ہوں یا اب جان گئے ہوں۔ اگر یہی بات آج کا افسانہ نگار کہے تو کوچوان کو تو خیر کیا پڑھنے والے اسے بھی بے وقوف سمجھنے لگیں گے۔ پڑھنے والوں سے اب افسانہ نگار کو اس بھروسے کی بھی توقع فضول ہے جو کہانی سننے والے بچوں کو ہوتا ہے یا رات کے وقت الاؤ کے گرد جمع اہل قبیلہ کو اپنے قصہ گو پر۔ لکھنے والے اور پڑھنے والے کے درمیان متفقہ اقدار و عقائد کی غیر موجودگی افسانہ نگار کے لیے ایک عجیب صورت حال پیدا کر دیتی ہے، وہ کس طور اس کیفیت کو ابھارے کہ قاری اس کی بیان کردہ بات کو حقیقت، یا حقیقی زندگی کی طرح تسلیم کر لے، اس مسئلے کا حل ہر افسانہ نگار نے اپنے طور پر تلاش تو کیا ہے لیکن اس سے فن میں ضعف بھی آتا ہے۔

    آج کے اردو افسانے کو ذہن میں رکھتے ہوئے ایک مغربی نقاد کے یہ جملے پڑھیے، ’’ہمارے معاصرین ہمیں اس لیے پریشان کر رہے ہیں کہ انہوں نے یقین کرنا چھوڑ دیا ہے۔ ان میں سے مخلص ترین بھی ہمیں صرف یہ بتائےگا کہ خود اس کے ساتھ کیا ہوا تھا۔ وہ دنیا کی تعمیر نہیں کر سکتے کہ وہ دوسروں سے آزاد نہیں ہیں۔ وہ کہانیاں نہیں کہہ سکتے کہ انہیں یقین نہیں رہا کہ کہانیاں سچی ہوتی ہیں۔ وہ جنرلائز نہیں کر سکتے۔ وہ اپنے احساسات اور جذبات پر اعتبار کرتے ہیں بہ نسبت اپنی دانش کے، کہ جس کا پیغام ان کے لیے مبہم ہے۔‘‘

    ان کے برعکس پرانوں کے پاس زندگی کے بارے میں ایک طے شدہ رویہ تو تھا کہ زندگی ’’ایسی‘‘ ہے مگر اس کے ذریعے سے انہوں نے یہ تو سمجھا کہ لوگوں کے ایک دوسرے سے، چیزوں سے، کائنات سے کیا رشتے ہوتے ہیں اور اس کے ساتھ ہی انہیں یقین بھی تھا، ایسا یقین جو ان کی اپنی ذاتوں سے آگے بھی جاتا تھا اور اگر یہ یقین حاصل ہو کہ آپ کے تاثرات دوسروں کے لیے بھی اتنے ہی معنی خیز ہیں تو اس طرح، بقول ورجینیاولف، ’’شخصیت‘‘ کی گھٹن اور قید سے بھی رہائی مل جاتی ہے اور اسی وجہ سے جین آسٹن کے یہاں سلیقے کا وہ احساس ملتا ہے کہ ہر چیز، ہر جذبہ، ہر احساس، ہر مکالمہ، ہر جملہ اپنی جگہ اپنےقرینے سے ہے، اس کی جگہ متعین ہے اور کوئی دوسرا اس کی جگہ لے نہیں سکتا؛ اسی وجہ سے اس کے یہاں پرفیکشن کا اتنا احساس ہوتا ہے کہ ہنری جیمز کا سا ’’فکشن شناس‘‘ ناقد بھی اسے پرفیکٹ آرٹسٹ لکھ گیا۔

    جین آسٹن کا نام سن کر آپ کہیں گے کہ وہ اس معاشرے میں رہتی اور لکھتی تھی جہاں رکھ رکھاؤ، اخلاق و عادات ترقی کرکے ’مینرز‘ کی منظم و مربوط شکل اختیار کر گئے تھے، لیکن یہ قاری سے مشترکہ عقائد کی ہم رشتگی والی پشت پناہی ہمارے یہاں بھی رہی۔ محمد حسن عسکری لکھتے ہیں،’’طلسم ہوش ربا میں کسی میلے یا باغ یا دعوت کا بیان دیکھیے۔ چیزوں کی صرف ومحض فہرست بناکر لکھنے والا مطمئن ہو جاتا ہے کہ میں نے پڑھنے والوں کی دلچسپی کا سامان کر دیا، کیوں کہ وہ جانتا ہے کہ چیز کا نام لیتے ہی پڑھنے والے کے ذہن میں ایک مخصوص ردعمل پیدا ہوگا، اس لیے اسے صفات کے ذریعے قاری کے احساس کو ہانکنے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔‘‘

    ’’چیز کا نام لیتے ہی پڑھنے والے کے ذہن میں مخصوص ردعمل‘‘ کا یقین جو طلسم ہوش ربا کے مصنف کو حاصل تھا وہ آج کے افسانہ نگار کو حاصل نہیں؛ اسے اپنی دنیا کا خالق بھی بننا پڑتا ہے اور اس کا ٹورسٹ گائیڈ بھی۔ روایتی معاشرے میں ایک مرکز تھا جہاں اشیاء مجتمع ہو سکتی تھیں اور ان کو حوالے فراہم ہوتے تھے، جس کے حساب سے چیزوں کی وقعت اور اہمیت متعین تھی، ضابطۂ حیات مرتب تھا اور اشیاء کی معنویت مقرر تھی جس سے معاشرے کا ادیب اور قاری سبھی واقف بھی تھے اور اس سے اتفاق بھی کرتے تھے۔ مربوط اور منسلک معاشرے کے فراہم کردہ نظام اقدار کی غیرموجودگی میں جدید افسانہ نگار کو اشیاء کو اپنے ذاتی، شخصی احساسِ وقعت و اہمیت کے مطابق رکھنا پڑتا ہے۔

    اس صورت حال کی وجہ سے آزادی کا مزہ اور وجودی نظام ہائے فکر بطور بونس حاصل ہوئے ہوں تو ہوئے ہوں، ادیب کی انا پر بےتحاشہ بوجھ بڑھ گیا ہے۔ آخر کو دنیا کی معنویت کا بوجھ سہارنا آسان تو نہیں اور جب اپنی ذات، اپنی اناہی اچھے برے کا معیار ہو تو یہ صورت حال پیدا ہوتی ہے جس کی وجہ سے جدید اردو ادب کا بہت بڑا حصہ مریضانہ انا پرستی کا شکار ہوا ہے اور جس کی وجہ سے بہت سے معاصرین کی تحریریں ان کی ہی قبروں پر کتبے بن کرنصب ہوگئی ہیں۔ جدید اردو افسانے کی طباعی، اُپچ، جدت سے انکار نہیں نہ اس امر کو جھٹلایا جا سکتا ہے کہ پچھلوں کے لادے ہوئے غیرضروری بوجھ، سماجی حقیقت پسندی، پلاٹ کی جکڑ بندی اور اس قسم کے تام جھام سے نجات دلا کر بےفکر آزادی کا کھلا کھلا احساس پیدا کیا ہے، مگر اس کے باوجود اس میں ایک عمومی کوتاہی ملتی ہے۔ یوں لگتا ہے کہ اس میں کسی جزو ملازم کا فقدان ہے۔

    اس کی مثال اس دسترخوان کی ہے جو مرغن کھانوں سے لدا ہو مگر جس میں وٹامنز کی کمی ہو۔ جدید اردو افسانہ گرجتا ہے برستا نہیں۔ اس کی چمکتی بھڑکتی تیزی تندی اپنے اندر ناآسودگی لیے ہوئے ہے اور یہ ٹھنڈی آگ کی سی ضیائے بے حرارت آپ کو سب سے زیادہ اس کتاب میں ملے گی۔ ایک انتہا سے دوسری انتہا تک برق رفتاری سے گریز، ایک لمس گریزاں کہ بمشکل چھوتا ہوا گزرتا چلا جاتا ہے اور پوری طرح گرفت میں نہیں آتا جو قاری کے کسی جذبے کا کیتھارسس نہیں کرتا۔ اس میں وہ تمام کوتاہیاں، فقدان، قلتیں ملیں گی جن کا گلہ میں جدیدیت کے نام پر کر رہا ہو اور ان میں تہذیبی روایت کا وہ تسلسل بھی نہیں ہے جو کہانیوں کو مکمل کرتا ہے، ٹوٹے رشتوں کو جوڑتا ہے، ان کے باہمی تعلق کو متعین کرتا ہے۔ یہ پیراڈاکس رشتوں کو جوڑتا ہے، ان کے باہمی تعلق کو متعین کرتا ہے۔ یہ پیراڈاکس اس کتاب کی صورتِ تعمیر ہے۔ یہ میری ضرورتِ المیہ ہے، کہ یہ کہانیاں اسی مربوط ضابطۂ حیات کی غیرموجودگی کے بارے میں ہیں۔ اسی امرِ واقعہ کو تو میں کرانیکل کر رہا ہوں۔

    اب میں اپنی تقریر صفائی ختم کرتا ہوں اور اس سے پہلے کہ آپ اس پر استغاثہ دائر کریں میں گواہانِ صفائی کو بلاتا ہوں کہ میری گواہی دیں۔ مگر ایک بات پہلے بتا دوں کہ یہ تنقیدی اسٹیٹ منٹ نہیں ہے، وہ تو عسکری صاحب ’’جزیرے‘‘ کے اختتامیے میں دے گئے تھے اور اس غضب کا کہ ابھی تک اسی طرح برمحل ہے، میں تو یہ کوشش کر رہا ہوں کہ وہ جو یار لوگوں نے کرٹسزم+فکشن کو جمع کرکے ایک چیز “CRITICTION” بنائی ہے تو اپنی کہانیوں کی کہانی سنا دوں اور تنہائی کی اس رَو کو سمجھوں جو چیخوف کے ماسکو سے، جوئس کے ڈبلن اور شیرو ڈانڈرسن کے ونز برگ اوہائیو ہوتی ہوئی مجھ تک آتی ہے۔

    اب میں اپنے اداس کپتانوں کو طلب کرتا ہوں، بورس پاسٹرناک جس نے اپنی نظموں کی تعریف سن کر کہا تھا کہ ’’یہ سب ادنیٰ چیزیں ہیں، مجھے احساس ہو رہا ہے کہ ایک بالکل نیادور، نئی ذمہ داریوں اور انسانی دل و وقار کی نئی کوششوں اور فریضوں کا دور، ایک خاموش عہد جس کا نام کبھی نہ پکارا جائےگا، نہ بلند آواز میں اعلان ہوگا، ایسا وقت عملِ پیدائش سے گزر چکا ہے اور دن بدن نمودار ہوتا جاتا ہے بغیر کسی کی واقفیت کے۔ ان مبہم، نئے اور گمبھیر واقعات پر تفکر کے لیے لخت لخت، ذاتی نظمیں کہاں مناسب ہیں۔ صرف نثر اور فلسفہ ان سے نبردآزما ہونے کی کوشش کر سکتے ہیں۔‘‘

    جیمز جوئس جس نے افسانے کو بشارت بنا دیا، جو اپنی روح کی بھٹی میں اپنی قوم کا فنکارانہ شعور خلق کرنا چاہتا تھا؛ آئزک بیبل جس نے کہا تھا کہ بڑے سے بڑا ہتھیار دل پر اس طرح وار نہیں کر سکتا جیسے بالکل صحیح جگہ لگا ہوا فل اسٹاپ، اور جس نے کہا تھا کہ حکومت اور پارٹی نے ہمیں سب کچھ دیا ہے، صرف ہمارا ایک حق چھین لیا ہے اور وہ ہے ہمارا یہ حق کہ ہم برا لکھ سکتے ہیں۔۔۔ بری تحریر لکھنے کا حق، جس نے اپنے لیے ایک نئی ادبی صنف وضع کی تھی، خاموشی کی صنف؛ جورج لوئی بورخے جس نے خون دہوس کے عہد میں اس خالصتاً عبقری کہانی کو لکھا جس کی لیبرنتھ میں خوابوں کے چیتے مچلیں اور ساری کائنات کا علم ایک کتاب یں سمٹتا دکھائی دے؛ آئزک باشیوس سنگر جس کو گمان ہے کہ ساری دنیا، تمام ستارے، تمام سیارے ایک الو ہی تاریخ کے نمائندے ہیں اور ایک منبع حیات کے، ایک ناقابل اختتام اور حیرت انگیز کہانی جو پوری کی پوری صرف خدا ہی کو معلوم ہے اور میرے استاد محمد حسن عسکری جن کا ایک جملہ ان کہانیوں کی تصنیف کے دوران میرے کانوں میں رہ رہ کر گونجتا رہا کہ کہانی کا نیریشن کلچر سے آتا ہے، نریشن میں زبان کا مزاج رچا بسا ہوتا ہے۔

    تو یہ ہیں میری کہانیاں اور یہ ہے ان کافریم آف ریفرنس۔ اب آگے آپ جانیں آپ کا کام، میں تو تماشہ سمیٹ اور پٹارا بند کر کے چلا، مگر چلتے چلتے دوہا اپنی بولی کا،

    گوری سووے سیج پر مکھ پر ڈارے کیس

    چل خسروؔ گھر آپنے رین بھئی چہوں دیس

    مأخذ:

    آتش فشاں پر کھلے گلاب (Pg. 222)

    • مصنف: آصف فرخی
      • ناشر: طارق پبلی کیشنز کراچی
      • سن اشاعت: 1982

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے