سعیدہ آپا
آج مجھے جو بات آپ سے کہنی ہے، اُسے آپ کو سُنانے کے لیے مجھے بائیس برس پیچھے پلٹ کر دیکھنا ہوگا کہ اِس کے بغیر آج کی بات کا سرا میرے ہاتھ میں نہِیں آتا۔
یہ 1962ء کازمانہ ہے، جب عابد کے گھر والوں نے میرے گھر والوں سے رُجُوع کِیا تو میرے بھائی جان کے ایک قریبی دوست نے اپنی راے کا اِظہار یُوں کِیا ”شیخ صاحب دیکھ لیجیے، ”لڑکا کیمونسٹ ہے اور آپ مُسلم لیگی، خیالات کے تضاد کے علاوہ ایک کیمونسٹ کا مُستقبل بھی غیر یقینی ہو سکتا ہے۔“ ”لیکن لڑکا ہونہار ہے اور مجھے پسند ہے، باقی سب کُچھ اللہ پر توکُّل ہے۔“ بھائی جان نے مختصر مگر مضبُوط جواب دیا۔
رہی میری بات تو مَیں نہ کمیونسٹ تھی، اورنہ مُسلم لیگی۔ البتہ ایک پڑھے لکھے، کُشادہ اور باشُعُور ماحول کی پروردہ تھی، لہٰذا اپنے اِس ادبی، ذِہنی اور سماجی پس منظر کے ساتھ مَیں ایک کیمونسٹ کی زِندگی میں داخل ہُوئی۔
ہمارا گھر یعنی میرا اور عابد کا گھر دو کمروں، ایک کِچن اور ایک باتھ پر مُشتمل ایک فلیٹ تھا۔ یہاں آنے والوں میں خالد محمود اور دادا امیر حیدر ایسے دو لوگ تھے، جنھیں مَیں پہچانتی تھی۔ اُن کے علاوہ ہمہ وقت آنے والوں میں عزیز الحق، عزیز الدین، مرزا ابراہیم اور میجر اسحاق تھے۔ سواے میجر اسحاق کے کہ مَیں اُن کو ”زِنداں نامہ“ کے دیباچہ کی وساطت سے جانتی تھی، باقی چہرے نئے چہرے تھے۔
یہ دن زِندگی کے بہت بھرپُور دن تھے۔ گُزرتے وقت کی باتیں، کتابوں کی باتیں اور کتابوں کے لکھنے والوں کی باتیں۔ یہ ایوبی دور تھا، لہٰذا سیاست بھی صِرف باتوں میں ہی کی جاتی تھی۔
اِدراک و شُعُور کی اِس ہماہمی اور گہما گہمی میں باتیں ہوتی رہتیں۔ بحثیں چلتی رہتیں، اور اِس دوران چاے بھی بنتی رہتی۔ پڑی پڑی ٹھنڈی ہوتی، پِھر بنتی پھِر ٹھنڈی ہوتی۔ میجر اسحاق چاے بنائے جانے کے اِس عمل کو محسُوس کرتے، اور میرا دل رکھنے کو چاے کی، اور میرے دُوسرے کاموں کی خواہ مخواہ تعریف کرتے اور مَیں اُس تعریف پر شرمسار ہو جاتی۔
پھِر ایک روز یُوں ہُوا کہ راہ چلتے ایک مردِ خُوبرُو سے مڈ بھیڑ ہو گئی، اور وُہ جو کہتے ہیں، اُس کی باتوں میں گُلوں کی خُوشبو،تو خُوشبو محض اُس کی باتوں میں ہی نہ تھی، بل کہ وُہ ہمہ تن خُوشبُو تھا، ہمہ تن شفقت و بشاشت اور ہمہ تن عِجز و اِنکسار۔ مَیں نے بِنا تعارُف کے سلام کِیا، اُنھوں نے کمال خُوب صُورتی سے جواب دیا۔ وُہ باتیں کرتے رہے، مَیں غور سے سُنتی رہی، اور حیرت سے اُنھیں دیکھتی رہی۔ میجر اسحاق نے ”گوتمی“ مُسکراہٹ کی اصطلاح ”زِنداں نامہ“ میں فیض صاحب کے لیے وضع کی تھی۔ فیض صاحب سے ابھی رُوبرُو ہونے کا شرف حاصل نہِیں ہو سکا تھا۔ سو مجھے یہ اِصطلاح سی۔ آر۔ اسلم کی شخصیّت کاحِصّہ لگی۔ ”یہ شخص دلداریوں کے سارے سامان رکھتا ہے۔“ مَیں نے خُود سے کہا۔ یہ مُطمئن اور آسُودہ چہرے والا شخص مجھے بہت بھایا۔
وقت گُزرتا رہا، اُس مردِ خُوش رُو و خُوش گُفتار سے گاہے بگاہے مُلاقات رہتی کہ یہ ایوبی دور تھا، لہٰذا آج کی طرح نظر بندی و زُباں بندی عام تھی، لیکن پھِر بھی یہ لوگ موقع محل دیکھ کر اپنی سیاست کی منجی پِیٹرھی ٹھوکتے رہتے تھے۔
عِلم کہِیں بھی، کِسی کے بھی پاس ہو، اُس نے مجھے مُتحرّک بھی کِیا ہے اور تسخیر بھی۔ میرے آس پاس سب لوگ عِلم والے تھے، اُن کی سُوجھ بُوجھ آفاقی تھی۔ میرے لیے یہ سب حیرت کدہ تھا، اور مَیں اِس حیرت کدے کی چھت تلے رہنا چاہتی تھی۔
تین فروری کی سہ پہر تھی اور موسم بڑا گہرا سا تھا۔ مَیں اور میری ڈیڑھ سالہ بیٹی سائرہ، عابِد کی سالگرہ منانے کا اِرادہ رکھتے تھے کہ چودھری صاحب تشریف لے آئے۔ بیٹھے، میز پر ہرے رنگ کے کاغذ میں عابِد کے لیے مَیں نے سویٹر بُن کر رکھا تھا، اور ابھی اُوپر کُچھ رقم نہِیں کِیا تھا۔ چودھری صاحب نے دیکھا، سمجھ گئے، مُسکرائے اور کہا، ”آپ نے اِس پر کُچھ لکھا نہِیں۔۔۔ وُہ ایک شعر ہے نا؟ عموماً وُہی لکھتے ہیں نا؟ وُہ جی وُہ کیا ہے؟ ہاں یاد آیا،
سلامت رہو تُم ہزار برس
ہر برس کے ہوں دِن پچاس ہزار
مجھے ہنسی آ گئی، مَیں نے کہا، چلیے آپ ہی لِکھ دیجیے اور چودھری صاحب نے اپنی لکھائی میں وُہ شعر لکھ دیا، وُہ چِٹ آج بھی میرے پاس محفُوظ ہے۔
چودھری صاحب سے روابط بڑھتے رہے، لیکن ابھی تک مَیں بیگم سی۔ آر اسلم سے نہ مِل پائی تھی۔ عابد سے دو ایک بار پُوچھا، اُنھوں نے کہا وُہ مصروف خاتون ہیں سروس کرتی ہیں۔ ایک روز گھر سے تو کُچھ پروگرام نہِیں تھا، لیکن چودھری صاحب سے کام پڑ گیا اور یُوں بیگم سی۔ آر اسلم سے مُلاقات ہو گئی۔ وُہ ایک دراز قد، صحت مند جِسم جُثّے والی اور دلچسپ شخصیّت ثابت ہُوئیں۔ فیملی پلاننگ میں ہونے کے باوُجُود اُنھوں نے میری دو بیٹیوں کو کم جانا، اور ایک بیٹا پیدا کرنے کو کہا اور واقعی میرا تیسرا بچّہ بیٹا ہی ہُوا۔
جیسا کہ مَیں نے پہلے عرض کِیا ہے کہ یہ ایوبی دور تھا، اور بہت اُمنگوں، آرزُوؤں کے بعد الیکشن کروانے کی سُن گُن مِل رہی تھی، اور اِن لوگوں کی Activity بھی زیادہ ہو رہی تھی۔ جُوں جُوں اِن لوگوں کی مصروفیات بڑھتی جا رہی تھیں، ویسے ویسے میرے شکووں میں بھی اِضافہ ہوتا چلا گیا۔ ایک روز ٹاؤن ہال میں کُچھ فنکشن تھا۔ باہر نِکلے تو چودھری صاحب اور عابد نے کُچھ کُھسر پُھسر کی۔ مجھے شُبہ ہُوا اور مَیں نے چودھری صاحب کو عابد کو ورغلاتے ہُوئے رنگے ہاتھوں پکڑ لِیا اور کہا، ”دیکھیے چودھری صاحب ہفتے میں سات دِن ہوتے ہیں۔ پانچ دن عابد آپ کے لیے ہیں، لیکن دو دِن میرے لیے۔ آج ہفتہ ہے، آج کی شام بچّوں کے لیے ہے۔ آج یہ آپ کے ساتھ نہِیں جائیں گے۔ ”سعیدہ آپا پاس کھڑی تھیں، میرے اِس احتجاج پر حیرت زدہ سی ہُوئیں اور کہا،
”تُسی کِڈّی سوہنی گل کیتی اے۔“
”آپ بھی کہا کیجیے نا، آپ کیوں خاموش رہتی ہیں۔“
میرے ذِہن میں شوہر کا ایسا کوئی تصوُّر نہِیں تھا، اور نہ ہے کہ جس میں بیوی کو ایک محکُوم یا کمتر مخلُوق سمجھاجاتا ہے۔ کِسی مکان کی چار دیواری جب اُستوار کی جاتی ہے، اور اُس میں گھر کہلانے کی گمبھیرتا پیدا ہوتی ہے، تو وُہ فقط مرد کی کاوش نہِیں ہوتی، بل کہ بیشتر عورت کی کوششوں کی مرہُونِ مِنّت ہوتی ہے۔ لہٰذا میرے ذِہن میں ایسے کسی روےّے کو برداشت کرنے کی گُنجایش نہ تھی کہ جہاں میاں بیوی اپنی اپنی زِندگی گُزاریں۔ بیوی وقتاً فوقتاً یا تو بچّہ پیدا کر دے یا مرد کے گھر کی صفائی سُتھرائی کرتی پِھرے۔ یہ تصوُّراِنتہائی فرسُودہ ہے۔ لینن نے بھی Domestic Labour کو غیر تخلیقی اور بیہودہ عمل کہا ہے۔
مَیں اور سعیدہ آپا اِتنے قریب ہو چکے تھے کہ اپنے Secret اِطمینان سے ایک دُوسرے سے Shareکر لیتے تھے، اور چودھری صاحب اور عابِد کے خلاف خُوب باتیں کرتے تھے۔
چودھری صاحب بیٹھے ہوتے سعیدہ آپا دھڑلّے سے کہتیں،
”مجھے تو چودھری صاحب کے تقریر کرنے کا طریقہ قطعی پسند نہِیں۔ جُوں لمبی کہانی ڈالتے ہیں، میرے تو پلّے کُچھ نہِیں پڑتا۔ ”مَیں بھی اُن کا ساتھ دیتی، اور کہتی،
”ہاں یہ عابد بھی بہت شور مچاتے ہیں۔ انسان ذرا تو دھیرج سے بات کرے۔ کُچھ سمجھ تو آئے۔“
یہ لوگ کمال تحمل سے سُنتے، جیسے یہ سب کُچھ کسی تیسرے غیر موجُود شخص کے بارے میں کہا جا رہا ہے، لیکن ہم دونوں کو بھی پتا ہوتا کہ ہم حسد کے مارے کس قدر گھٹیا پن کا مُظاہرہ کر رہی ہیں۔
اِن دونوں کے بڑے عیب جو میرے اور سعیدہ آپا کے لیے وبالِ جان تھے کہ یہ لوگ بغیر اِطلاع دیے گھروں سے گھنٹوں غائب رہتے۔ یعنی صُبح آٹھ بجے گھر سے نکلے۔ اب کُچھ خبر نہِیں کہ کِدھر گئے۔اِدھر اُدھر فون کھڑکائے جا رہے ہیں۔ پُوچھا جا رہا ہے ”عابِد اِدھر تو نہِیں آئے۔“ ”چودھری صاحب اِدھر تو نہِیں۔“ میاں صاحب کے ساتھ تو نہِیں چلے گئے؟ جُوں جُوں شام کا اندھیرا بڑھتا سو وسوسے گھیرتے، لیکن یہ لوگ جب گھر واپس آتے تو کمال اِطمینان سے بتاتے کہ وُہ ذرا سیالکوٹ، ذرا فیصل آباد یا ذرا گوجرانوالہ چلے گئے تھے۔ لیکن یہ آج بھی ایک اٹل حقیقت ہے کہ تیس برس سعیدہ آپا بھی ازدواجی زِندگی گزار گئیں۔ میرا بھی مُتاہِّل زِندگی کا تیسواں سال ہے۔ لیکن نہ اِن لوگوں کے لاپتا ہونے کی عادت بدلی جا سکی، اور نہ ہم لوگ اِن کے اِس روےّے سے Adjust کر سکیں۔
اِن لوگوں کی جگہ، بہ جگہ،، شہر بہ شہر سالانہ کانفرنسیں ہوتیں۔ لیکن مَیں اور سعیدہ آپا اِنتقاماً، احتجاجاً اُن میں کبھی شریک نہ ہوتے۔ ایوب کے دور میں جب کنیز فاطمہ کو کراچی بدر کِیا گیا، تو رات کے ڈھائی بجے ماڈل ٹاؤن پولیس نے ہمارے اور ہمارے بچّوں کے مُنہ، سے لحاف اُٹھا اُٹھا کر پُورے گھر کی تلاشی لی، تاکہ اُسے پنجاب بدر بھی کِیا جا سکے۔ مَیں نے کنیز فاطمہ کے بہت لتّے لیے کہ اُس کو کوئی حق نہِیں پہنچتا تھا کہ وُہ شادی کرتی اور بچّی پیدا کر کے اُس معصُوم کو دربدر خوار کرتی۔
آج کی گفتگو کو اگر مَیں وقت اور زمانے پر محیط کر کے بات کروں تو وُہ بہت طویل ہو جاتی ہے، جب کہ اِس کا موقع و محل بھی نہِیں۔ مجھے جو بات کرنی ہے، وُہ فقط سعیدہ آپا اور میرے درمیان جو رابطے اور واسطے بنے اُن کی بُنیاد پر کرنی ہے۔ سعیدہ آپا اور میری رفاقت کی ایک وجہ، اُن کا کتابوں سے شغف تھا۔ ہم جب بھی مِلتے کتابوں پر بات ضرُور ہوتی۔ اپنی شادی کے بعد اُنھوں نے انگریزی ادب میں ایم اے کی تیّاری کی، لیکن کسی وجہ، سے اُسے مُکمّل نہ کرسکیں۔ اُنھوں نے مجھے بتایا کہ قیامِ پاکستان کے بعد انھوں نے ایک ہفت روزہ ”بنتِ راوی“ لاہور سے جاری کِیا تھا۔ اُن کا ادبی ذوق رکھنا میرے لیے بہت پُرکشش تھا۔ اب یہ وُہ زمانہ ہے کہ سعیدہ آپاکے دونوں بچّے پڑھنے کے لیے باہر جا چکے تھے، اور retirement کے بعد وافر وقت نے اُنھیں اُداس کر رکھا تھا۔ میرے بچّے بھی بڑی کلاسوں میں جا چکے تھے۔ مَیں دو جگہ، نوکری کر کے چھوڑ چُکی تھی۔ یوں بظاہر زِندگی بہت مُطمئن اور آسُودہ تھی، لیکن پھِر بھی ایک تشنگی ایک خلا اور اِس سارے روےّے میں ایک سرسری پن کا احساس ہوتا تھا، گہرائی یا گیرائی محسوس نہ ہوتی۔ میرے نزدیک میاں بیوی کا ازدواجی رابطہ ایک مکینیکل عمل ہے، جب کہ ذِہنی رابطہ اور ذِہنی ہم آہنگی میاں بیوی کی زِندگی کو ہموار، آسان اور گمبھیر بناتا ہے، اورمجھے اِسی گمبھیرتا یاDepth کی خواہش اور تلاش تھی۔
معلُوم نہِیں یہ کیسے ہُوا، اور کیوں ہُوا،لیکن یہ ہُوا، اور بڑے ہی غیر محسُوس طریقے سے ہُوا کہ مَیں نے اور سعیدہ آپا نے اپنی کدورت اور حسد کو تھوڑا کم کِیا اور اِن لوگوں کے کلچرل فنکشنوں میں جانا شُرُوع کر دیا اور یہ بھی محض اِتّفاق تھا کہ ”انجمنِ جمہوریت پسند خواتین“ بھی ایوبی دور کے بعد کُچھ فعال ہو گئی۔سعیدہ آپا اُس کی Founder members میں سے تھیں۔ اب مَیں بھی اُس میں شامل تھی۔ یہ ویت نام کی جنگِ آزادی کا زمانہ تھا، اور ویت نام سے کُچھ خواتین ”انجمنِ جمہوریت پسند“ کی دعوت پر لاہور آئی ہُوئی تھیں۔ طاہرہ جی (طاہرہ مظہر علی) نے مجھے مدعو کیا، لہٰذا مِیں بھی انجمن میں شامل ہو گئی اور پنجاب کی صدر کے طور پر کام سرانجام دیتی رہی۔ وقتاً فوقتاً اِس کے بھی فنکشن ہونے لگے۔ کبھی کسان ہال میں، کبھی کوریا ہال میں اور اکثر ممبرز کے گھروں میں بھی۔ بڑی رونق بڑا ہلّا گُلّا رہتا۔ اِس کے علاوہ بیگم طاہرہ مظہر علی کے گھر میں باہر سے آنے والے مہمانوں کی دعوتوں میں بھی شریک ہوتے، اور ان کے ثقافتی سطح پر ہونے والے فنکشن میں بھی۔ہم دونوں ہشاش بشاش تھیں، اور لگتا کہ ہماری ذِہنی خوراک مہیا کی جا رہی ہے۔ لگ بھگ اُسی زمانے میں سعیدہ آپا نے دو کتابوں کا ترجمہ کِیا۔ جس میں ”لینن کے حالاتِ زِندگی“ اور ”نئی زِندگی“ شامل ہیں۔
ایک دفعہ طاہرہ جی نے مجھے اور سعیدہ آپا کو قدرے مُشکل میں ڈال دیا۔ روسی سفیر سرور عظیموف مدعو تھے، اُن کے ساتھ اُن کاانٹر پر یٹر، اوردو قونصلر تھے۔ انٹر پریٹر تو چودھری صاحب عابد اور سرور عظمیوف کے درمیان بیٹھ گیا۔ طاہرہ جی کھانا وانا دیکھنے لگ گئیں۔ مَیں اور سعیدہ آپااُن دو اصحاب کے ساتھ گُفتگُو کرنے لگے۔ ہمارا خیال تھا کہ عام سوشل ٹاک ہو گی، لیکن اُنھوں نے اقبال کے بارے میں سوالات کر دیے، ہم دونوں سطحی سا جواب بھی نہِیں دینا چاہتے تھے۔ لہٰذا گھبرائے ایک دُوسرے کی جانب دیکھا۔ بارے سعیدہ آپا کا پڑھا لکھا ہونا، اور جب کہ مجھے بھی اُردو میں ایم اے کیے چند سال ہی ہُوئے تھے، اور ڈاکٹر جی ایم اثر صاحب کا پڑھایا ہُوا اقبال ذِہن میں کُچھ نہ کُچھ موجُود تھا، وُہ سب کام آیا۔ بعد میں طاہرہ جی سے پتا چلا کہ ہم کافی سُرخرُو رہے۔
جولائی 1977ء میں امریکا کے اِس فیصلے نے کہ وُہ نیوٹرون بم کی تیّاری کو جاری رکھے گا، تمام دُنیا میں تشویش کی لہر دوڑا دی۔ سیاسی و مذہبی راہنماؤں، مُصنّفین اور کِسانوں غرض کہ دُنیا میں ہر شعبے سے تعلُّق رکھنے والے افراد نے اِس فیصلے کے خلاف صداے اِحتجاج بلند کی۔ ”انجمنِ جمہوریت پسند خواتین“ نے بھی ایک پیس کمیٹی تشکیل دی اور امریکا کے اِس فیصلے کے خلاف دستخطوں کی مُہم چلائی۔ سعیدہ آپا اُس مُہم میں بھی سڑکوں، گلیوں، محلّوں اور بازاروں میں ہم سب سے پیش پیش تھیں۔
تقریباً اُسی زمانے کی بات ہے کہ ہماری تنظیم نے عورتوں کا عالمی دِن یعنی 8مارچ مناواں گانو میں کہ وُہ ہندوستان کے بارڈر کے ساتھ ہے، منانے کا پروگرام بنایا۔ طاہرہ جی ارونا آصف علی کے ساتھ اِس مقصد کے لیے وقت طے کر چکی تھیں۔ ان لوگوں نے بھی عورتوں کے ساتھ بارڈر پر آناتھا۔ بظاہر یہ بڑا معصُوم اورخیر سگالی کا جذبہ تھا کہ دونوں ہمسایہ ملکوں کی عورتیں اپنے حُقُوق کے لیے، مُتحد ہو کر آواز نکالیں، ہم نے دو بسیں، عورتوں، لڑکیوں اور بچّوں سے بھریں اور کھانا، چاے، پھل اور تُحفے تحائف لے کرمناواں کی جانب روانہ ہُوئے۔ ہم گاتے بجاتے جا رہے تھے کہ پیچھے جو مُڑ کر دیکھا تو چار بسیں پولیس کی ہمرکاب نظر آئیں۔ چُوں کہ خُود خیر سگالی کے مشن پر تھے، سوچا کہ ہماری حفاظت کے لیے ساتھ ہیں،لیکن چند ہی مِنٹوں کے بعد اُنھوں نے آگے بڑھ کرراستہ روک دیا، اور بارڈر پر جانے سے منع کردِیا۔ ہم نے تھوڑا احتجاج کِیا تو اُنھوں نے ہماری بسوں کے ٹائروں کی ہوا نِکال دی اور ہمیں بے دست و پا کر دیا۔ اُن کے ساتھ بَہُت مذاکرات کرنے کی کوشش کی گئی، مگر بے سُود۔ واپسی پر کیا گُزری، یہ ایک علیحدہ لمبی داستان ہے۔ فقط یہ بتاتی چلُوں کہ یہ دور ایک ایسی حُکُومت کادور تھا جو روٹی، کپڑا، مکان، اِنسانی حُقُوق اور سوشلزم کا نعرہ لے کر آئی تھی۔
ہم دونوں انجمن کی مصروفیات سے الگ سوشلسٹ پارٹی کی میٹنگوں میں بھی کُچھ سیکھنے اور سُننے کے لالچ میں چلی جایا کرتی تھیں۔ ہمارے تھوڑا سا Active ہونے سے یہ ہُوا کہ عذرا روشنک نے سوشلسٹ پارٹی میں وومن ونگ کی بُنیاد رکھ دی۔ بہرحال اُس وومن ونگ میں آنے سے ہم اور فعال ہو گئیں۔ اور یہ واقعہ جون 1979ء کا ہے کہ نرسوں نے اپنے کام کی نوعیّت اور اوقاتِ کار کی شِدّت کو دیکھتے ہُوئے اپنے گریڈوں میں اضافے کا مُطالبہ کر دِیا۔ سوشلسٹ پارٹی کے وومن ونگ نے نرسوں کے اُس مُطالبے کو جائز قرار دِیا، اور اِسی سلسلے میں ہم نے چیدہ چیدہ تنظیموں کے راہنماؤں کو اپنے گھر آنے کی دعوت دی، تاکہ صُورتِ حالات کا جائرہ لیا جا سکے۔ میٹنگ میں نرسوں کے مُطالبات کی حمایت میں ریزولیوشن متفقہ طور پر پاس کِیاگیا، اور انتظامیہ اور پولیس کے شرمناک رویّے کی مُذمّت کی گئی۔ پولیس نے جوان بچیوں کو زدو کوب کرنے، دوپٹے کھینچنے اور دوسری بے شُمار حرکات کرنے میں بہت جانفشانی سے کام لیا تھا۔ میٹنگ گھر پر بُلانے کی پاداش میں اگلی صبح پولیس کی دو جیپیں مجھے گرفتار کرنے آ پہنچیں۔ کہا یہ گیا کہ چیف سیکرٹری صاحب مِلنا چاہتے ہیں، لیکن ہمیں حقیقت کا خُوب اندازہ تھا۔ جیل جانے سے پہلے مَیں نے سعیدہ آپا کو فون پر بتایا۔ حیرانی سے ہنس دیں، اور کہا چلو کوئی بات نہِیں۔ پُوچھا تُم پریشان تو نہِیں ہو۔ جواباً مَیں بھی ہنس دی۔ طاہرہ جی کو فون کِیا، پہلے تو حیران ہُوئیں۔ پِھر سنبھلیں اور کہا، چلو کوئی بات نہِیں۔ ایک طرح سے ہمیں فائدہ ہی ہے۔ یعنی ہم سب سپرٹ میں تھے۔ مجھے صِرف اپنے بیٹے بلال کا دھیان تھا۔ اُسے مَیں نے بڑے تحمل سے بتایا کہ مُبادا گھبرا جائے۔ اُس نے جواباً سوئے سوئے اپنا ہاتھ میرے ہاتھ میں دیا اور کہا، This is how politics starts۔۔ اُس کے یہ کہنے سے میری تشفّی ہو گئی اور مَیں آٹھ پولیس والوں کی معیت میں کوٹ لکھپت جیل روانہ ہو گئی۔
بچّے جیل میں ملنے آتے تو بتاتے کہ اَمّی سعیدہ آنٹی کا فون بھی آتا رہتا ہے، اورگھر بھی آئی تھیں۔ اُنھوں نے چودھری صاحب اور ابُّو کو خُوب ڈانٹا کہ یہ سب آپ لوگوں کی وجہ، سے ہُوا ہے، وغیرہ وغیرہ۔
میرے بچّے چودھری صاحب کو تو چاہتے ہی ہیں، لیکن وُہ سعیدہ آپا کو بھی بہت پسند کرتے تھے، اور جب وُہ باتیں کرتیں تو قہقہے لگاتے اورخُوب مزے لیتے تھے۔
اب یہ واقعہ 13 فروری 1981ء کا ہے کہ WAFاور دوسری تنظیموں نے مِل کر مجوزہ قانونِ شہادت کے خلاف احتجاج کرنے کا پروگرام بنایا کہ اِس میں عورتوں کے موجودہ سٹیٹس پر براہِ راست زد پڑتی تھی۔ یہ ایک خُوب صُورت اِتّفاق تھا کہ اِس Call پر عورتوں نے غیر معمولی جوش و جذبہ کا اِظہار کِیا، اورہال روڈ پر سیکڑوں کی تعداد میں عورتیں اکٹھّی ہو گئیں۔ ملکی اور فارن پریس بہت بڑی تعداد میں تھا۔ وُکلا کی مُکمّل حِمایت حاصل تھی کہ اُن دنوں عابد لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے پریذیڈنٹ تھے۔ غرض کہ ہر جانب سے مورل سپورٹ تھی۔ یہ سب اِنتظامات ڈسپلن اور جذبہ دیکھ کر مُقامی پولیس اور اِنتظامیہ بوکھلا گئے اور اُنھوں نے لاٹھی چارج اور گیس کے پٹاخے چلانے شُرُوع کر دیے۔فہمیدہ بدر اور سعدیہ حمید تھیں، سعیدہ آپا تھیں، لیکن سب تِترّبِتّر ہو گئے، اور اب مَیں اورسعیدہ آپا گیس کی بُو سے نڈھال ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑے دُوسری بے شُمار عورتوں کے ساتھ مال روڈ پر بھاگ رہے ہیں،گِر رہے ہیں۔ آنسُو پُونچھ رہے ہیں، کھانس کھانس کر بے حال ہو رہے ہیں، اور لاٹھیوں کی زد میں آ رہے ہیں۔ حتیٰ کہ ہائی کورٹ کے گیٹ تک پہنچے۔ وہاں یہ دیدنی منظر تھا کہ پولیس عورتوں کو کھینچ کھینچ کر ٹرک میں لاد رہی تھی۔ طاہرہ جی اور نسیم اُن دنوں جام ساقی کے مُقدّمے میں شہادت کے لیے کراچی میں تھیں۔ اُنھیں آج بھی یہ افسوس ہے کہ وُہ یہ سارے دِل رُبا مناظر دیکھنے سے محروم رہیں۔
اور اب یہ 13اگست 1983ء کی سہ پہر کا ذکر ہے کہ میری دوست مہناز رفیع نے فون کِیاکہ کل آپ ہائی کورٹ آ جائیے۔رات کے ڈھائی بجے کال بیل بجی۔ مَیں عابد کی گرفتاری کی متوقع تھی، اور سُوٹ کیس تقریباً تیار تھا۔مَیں نے اُن سے کہا کہ آپ نے اور جو کُچھ بتانا ہے بتا دیں، اور اُن لوگوں سے پانچ منٹ اِنتظار کرنے کو کہیں۔ باہر نکلے تو پولیس کی ریل پیل تھی۔ انسپکٹر نے دور سے آواز دی کہ جی بیگم صاحبہ کے ہاؤس اریسٹ کے آرڈر ہیں۔ یہ سُن کر بہت کوفت ہُوئی، بچّوں نے تبصرہ کِیا How funny۔بہرحال یہ تین ماہ کی نظر بندی کے آرڈر تھے۔ مہناز بھی نظر بند ہوچکی تھیں۔ اُن کافون کٹ چکا تھا۔ لیکن شام تک اُنھوں نے فون بحال کروا لِیا، اورفون پر بات کی۔ ہم دونوں خِفّت کی ہنسی ہنس رہے تھے، یعنی بات کا بتنگڑ بن گیا۔
سعیدہ آپا کا فون آیا،اُنھوں نے بتایا کہ وُہ بھی سعدیہ حمید اختر کے ساتھ آج کسان ہال گئی تھیں۔وہاں WAF اور دوسری تنظیموں نے مِل کر چودہ اگست منایا تھا۔ اپنا بتایا کہ مَیں گِر گئی ہُوں، اور کِسان ہال تک بھی لاٹھی کے سہارے ہی گئی ہُوں کہ سعدیہ کے ساتھ جانے کی ہامی بھر چُکی تھی۔ کُولے میں درد ہے، زیادہ چل پِھر نہِیں سکتی ہُوں۔ مَیں نے جواباً ایکسرے کروانے اور مالش وغیرہ کا مشورہ دیا۔ سعیدہ آپا نے میری نظر بندی پر کوئی تبصرہ نہِیں کِیا، کیوں کہ اب ہم میں سے کِسی کا جیل جانا یا گھر پرنظر بند ہونا معمول بن چکا تھا۔
بہرحال نظر بندی گھر کی ہو یا جیل کی، ڈھیروں گھریلو مسائل کو جنم دیتی ہے۔ گھریلو مسائل کے اِس کرائسس سے ہم دونوں چودھری صاحب اور عابد کی جیل یاترا کے دوران گُزر چکے تھے۔ جب سعیدہ آپا اور مَیں فون پر اپنے اپنے بجٹ اور پیسوں کا حساب لگایا کرتیں کہ اور کتنے مہینے یہ پیسے چل سکیں گے۔
ویسے بھی سعیدہ آپا ذِہنی طور پر مضبُوط اور جفاکش خاتُون تھیں۔ چودھری صاحب کی قید و بند کی صعُوبتوں میں اپنے گھر کا مالی واخلاقی تمام بوجھ اپنے کندھوں پر اُٹھانے کو ترجیح دیتی تھیں، زُبان سے وُہ کُچھبھی کہتیں، لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ چودھری صاحب کی شخصیّت اُن کے لیے ایک فخر تھی۔ چودھری صاحب کے جیل جانے پر دوستوں اور رشتہ داروں کی جانب سے اظہارِ ہمدردی کے روےّے کو وُہ پسندیدگی سے نہِیں دیکھتی تھیں، بل کہ کہتیں کہ یہ سب تو part of the game ہے۔ آپ سب پریشان مت ہُوا کریں۔
نظر بندی کے دوران سب کُچھ ڈل ہو کر رہ گیا تھا۔ مزید خواتین کی نظر بندیاں بھی دھڑا دھڑ عمل میں آ رہی تھیں۔ عجیب بد دلی ہے، بے معنی اورمایُوس کُن فضا تھی، بارے قید سے ایک رات قبل یہ ڈراما بھی تمام ہُوا۔
باہر نکلی تو سب سے پہلے سعیدہ آپا کے گئی، بالکل ہشاش بشاش مِلیں۔ بِستر پر کاغذ پھیلا رکھے تھے۔ پُوچھا، کیا ہو رہا ہے؟بتایا کہ بیٹھے بیٹھے اُکتا جاتی ہُوں، جرمن ناول کا ترجمہ شُرُوع کر رکھا ہے، کافی نمٹا لیا ہے۔ اِس کے علاوہ بہت کُچھ اُنھوں نے سُنایا، بَہُت کُچھ مَیں نے کہا۔ اُنھوں نے گِرنے کی تفصیل بتائی اور بتایا کہ کُولے کی ہڈّی ٹُوٹ گئی ہے۔ ڈاکٹر کہتا ہے کہ آرام کروں جلد ٹھیک ہو جائے گی۔ مَیں ابھی تک خُود حقیقت ِحال سے بے خبر تھی۔اِطمینان سے سُنتی رہی، اورہڈّی ٹُوٹنے کو زیادہ اہمیّت نہ دی کہ آخر جُڑ جانے کی اُمِّید تھی۔۔۔ مُشکل سے ایک ماہ گُزرا ہو گا کہ لا تعداد دُوسرے لوگوں کے ساتھ عابِد بھی گرفتار کر لیے گئے، اورمَیں اورمیرے بچّے لاہور، فیصل آباد اور پھِر جھنگ کی جیلوں کے چکّروں میں پڑ گئے۔ اِس اثنا میں ہم سب نے بڑے جِگرے سے ایک خبر کو سُن لیا تھا کہ سعیدہ آپا ایک مُوذی مرض کا شکار ہو چکی ہیں۔
وقت کی خاصیّت گُزرنا ہے، سو یہ گُزر رہا تھا۔ عابِدجیل گئے اور آ گئے۔ گھریلو زِندگی قدرے معمول پر آئی۔ لیکن مُلکی زِندگی میں اِنتشار، بد اعتمادی اور بددلی تھی۔ کوئی نہِیں جانتا تھا کہ یہ جو آج چار لوگ مِل کے بیٹھے ہیں، کل اِن میں سے کون کون جیل کی کوٹھڑیوں میں ہوگا۔
عابِد کے گھر آ جانے سے سعیدہ آپا کی مِزاج پُرسی ہمارا معمول بن گئی۔ بیماری کے دوران اکثر وُہ صِحّت مند اور ترو تازہ لگتیں تو مَیں کہتی۔ سعیدہ آپا! آپ کیا فراڈ کررہی ہیں۔ آپ کو کُچھ بھی نہِیں ہُوا آپ صِرف ہم سب کی محبتوں کو آزمانا چاہتی ہیں۔ جواب میں وہ خُوشدلی سے ہنس دیتیں۔ وُہ وہیل چیئر اِستعمال کرتی تھیں، لیکن اب ڈاکٹر نے بِستر سے اُٹھنے کی سخت مُمانعت کر دی تھی۔ بجلی کا علاج جاری تھا۔ پھِر کُچھ مُدّت تک ہم دونوں نہ جا سکے۔ جب گئی تو سعیدہ آپا نے جلدی سے دوپٹّا سر پر سمیٹا۔ مَیں نے اُچٹتی سی نظر ڈالی۔ میرا دل ڈُوب سا گیا، خُود ہی کہنے لگیں، وُہ دوائیوں کی وجہ، سے بال اُتر گئے نا! مَیں نے اندھا اور بہرا بنتے ہُوئے کہا ”جناب کُچھ خبر بھی ہے، عورتوں کا عالمی دن آ رہا ہے، ہم سب کی خواہش ہے کہ یہ آپ کی زیرِ صدارت منایا جائے۔ بَہُت خُوش ہُوئیں اور کہا ہاں مَیں چلُوں گی۔ لیکن دُوسرے ہی لمحہ اُداس ہو گئیں، او رکہا نہِیں، مَیں کہاں جا سکوں گی۔ بہت اصرار کِیا۔عابِد نے کہا، مَیں خود آپ کو لے کر جاؤں گا۔ آپ کو کوئی تکلیف نہِیں ہو گی، لیکن آمادہ نہ ہُوئیں۔
ہر انسان کے ساتھ زِندگی اور حالات کُچھ نہ کُچھ زیادتیاں کرتے ہیں اور پھِر ہم جیسے تیسری دُنیا سے تعلُّق رکھنے والے مُمالک میں رہنے والے لوگ حالات کی چکّی میں جسمانی طور پر تو پِستے ہی ہیں، ذِہنی طور پر بھی مجروح ہوتے رہتے ہیں کہ ہم اپنے بچّوں کو اپنی خواہشوں کے مُطابِق اپنے مُلک میں اعلیٰ تعلیم دِلوانے کی سکت نہِیں رکھتے۔ سعیدہ آپا کے ساتھ بھی حالات کی یہی زیادتی تھی کہ اُن کے دونوں بچّے تعلیم کی خاطر ایک طویل عرصے سے اُن سے دُور تھے۔ ایک بیٹا تو بیماری کے دوران واپس آ چُکاتھا، لیکن ابھی برسرِ روز گار نہِیں ہورہا تھا۔ دوسرا بیٹا سُفیان دُور تھا، اور وُہ اُسے بے طرح یاد کرتی تھیں۔ جب بیماری نے طُول پکڑا تو اکثر بہت مایُوس ہو جاتیں اور کہتیں کہ نہ معلُوم مَیں سُفیان کو دیکھ سکوں گی بھی یا نہِیں۔ سُفیان کی عدم توجُّہی، عدم موجُودگی اور برسوں اُس کی طرف سے خط نہ آنے کے سارے فِکر اور شکوے وُہ اپنی ذات تک محدُود رکھتیں اور نورین اپنی بہُوکے سامنے اُن کے اِظہار سے محض اِس لیے گُریز کرتیں کہ وُہ ایک عورت ہونے کے ناتے اُس کے اِضطراب سے بھی واقِف تھیں، اور وُہ اُسے مزید اُداس اور رنجیدہ نہِیں کرنا چاہتی تھیں۔
بجلی کے علاج سے اب وُہ خوفزدہ سی رہنے لگی تھیں، کُچھ مُدّت بعد اِس کی ضرُورت اور افادیّت بھی ختم ہو گئی، اور بخار نے آن لیا۔ نہ معلُوم یہ بخار کس چیز کی علامت تھا، لیکن سب نے اُسے بدلتے موسم کا بُخار سمجھا۔ ایک روز مَیں مچھلی بنا کرلے گئی۔ میرا دِل رکھنے کو پلیٹ میں ڈال لی، لیکن کھا نہ سکیں۔ بیماری کے سامنے یہ اُن کا Surrender تھا۔ جینے کی اُمنگ معدُوم اور قُوتِ مُدافعت ختم ہو چُکی تھی۔ مرض کا ہزار پایہ اُن کے سارے وُجُود کو اپنی گرفت میں لے چُکا تھا۔
اور پھِر وُہ روزِ بد آ گیا کہ جس سے اُن کی بھابی، بہن بھائی اوربہُو آنکھیں چُراتے پِھرتے تھے۔عابد نے ہائی کورٹ سے فون کِیا، آپ کو کُچھ خبر ہے، کیا؟ یہاں نوٹس بورڈ پر کُچھ لِکھا ہے۔عابد مُنہ، بھرکر کُچھ بتا نہ سکے، لیکن اُن کے لہجے سے مجھے سمجھ آ گئی۔
بعض گھر سامان سے بھرے ہوتے ہیں،لیکن وُہ آباد نظر نہِیں آتے، لیکن اِس کے برعکس بعض انسان ایسے ہوتے ہیں کہ کِسی گھر میں اُن کا محض موجُود ہونا ہی گھر کو سرتا پا زِندگی بخش دیتا ہے، ہمہ سمت چہل پہل کر دیتا ہے۔ سعیدہ آپا اُنھِیں لوگوں میں سے تھیں،وُہ اپنے گھر سے کیا نکلیں، کہ سب ہی اُس گھر سے ناتا توڑناچاہتے ہیں۔ اُن کی بھابھی کہتی ہیں، ”مجھے سعیدہ سے بَہُت دوسراتھ تھی۔ مَیں تو سعیدہ کی خاطر اِس پُرانے گھر میں رہ رہی تھی، اب مَیں یہ گھر بیچ دوں گی، اور کہِیں اور چلی جاؤں گی۔ اُن کی بہن فرّخ بھی یہی کہ، رہی تھیں کہ دیدی نہ رہیں تو اب ہم اِس گھر میں آ کر کیا کریں گے، اور مَیں خُود بھی تو یہی سوچ رہی ہُوں کہ اِتنے بَہُت سے دِن گزر گئے، چودھری صاحب کے گھر نہِیں گئی، او رجب جاؤں گی تو فقط ایک سعیدہ آپا کے نہ ہونے سے مجھے کس قدر ویرانی، تنہائی، اُداسی اور سنّاٹے کا سامنا کرنا پڑے گا۔
یہ سعیدہ آپا تھیں۔ یہ مَیں ہوں۔ میرا اُن کا کیا سمبندھ تھا؟ ہم دونوں کے درمیان کیا رِشتہ تھا؟ مَیں اُن کی یارِ غار تو نہِیں تھی، اُن کی ہم مکتب و ہم عُمر نہ تھی۔ یہ کیسی رفاقت تھی؟ کون سی اپنائیت تھی کہ آج مَیں خُود کو اُداس اور اکیلا محسُوس کرتی ہوں۔
دائم آباد رہے گی دُنیا
ہم نہ ہوں گے، کوئی ہم سا ہوگا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.