Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

صحافت اورادب کا رشتہ

افضل مصباحی

صحافت اورادب کا رشتہ

افضل مصباحی

MORE BYافضل مصباحی

    صحافت او رادب دونوں کی دنیاالگ ہے اور دونوں کامیدان بھی جداہے۔اس کے باوجودیہ دونوں کبھی ایک دوسرے سے مل جاتے ہیں اور بسااوقات دونوں میں دوریاں برقراررہتی ہیں۔اس لئے ان دونوں کے رشتوں پر دونہج سے بحث کی جاسکتی ہے۔متعلقہ میدانوں سے وابستہ شخصیات کا مطالعہ اور ان کی تخلیقات یانگارشات کاتنقیدی جائزہ اس بحث کو آگے بڑھانے میں معاون ثابت ہوسکتے ہیں۔ اردوکے حوالے سے اگردیکھیں تو معلوم ہوگاکہ بہت سی ایسی شخصیتیں جن کا شمارادیبوں میں ہوتاہے، وہ صحافیوں کی شکل میں بھی ہمارے سامنے موجود ہیں ، اسی طرح ایسے حضرات کی بھی طویل فہرست ہے جومیدان صحافت کے شہسوارہونے کے ساتھ ساتھ ادب میں بھی اپنا مقام بنائے ہوئے ہیں۔بعینہ متعدد ایسی تحریریں ہیں، جو صحافتی تحریروں کے زمرے میں آتی ہیں اور ادبی تحریروں میں بھی ان کا شمارہوتاہے اور یہی معاملہ ادبی تحریروں کاہے۔اس ضمن میں 1822ء سے عصرحاضر تک کے صحافیوں اور ادیبوں کی تحریریں مثال میں پیش کی جاسکتی ہیں۔ 1822 ء کے تعین کی وجہ اسی سال اردوصحافت کے سفرکاآغازہے۔

    ادب او رصحافت کے بارے میں اگریہ کہاجائے کہ ادیبوں اور صحافیوںنے مل جل کردونوں شعبوں کو آگے بڑھایاہے، تو شاید غلط نہ ہو۔اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ 1822ء میں جب اردوکا اولین اخبارکلکتہ کی سرزمین سے منظرعام پرآیاتو اس سے وابستہ افرادکا تعلق پہلے ہی سے ادب کی دنیاسے تھا۔اس وقت الگ سے اردو صحافت کا شعبہ موجودنہیں تھا۔ادیبوں نے ہی آگے بڑھ کرصحافت کی بنیادڈالی اوراسے پروان چڑھایا۔ انگریزوں نے جس طرح ہندوستانی باشندوں کے بارے میں جاننے اور یہاں کے مزاج سے واقفیت کے لئے فورٹ ولیم کالج(1800ئ)اورورناکولرسوسائٹی(1832) کی بنیادرکھی اور اس کے توسط سے اردومیں ترجمہ نگاری اورکتابیں لکھنے لکھانے کا سلسلہ شروع ہوا، اسی طرح اردوکا اخباربھی انہی کی سرپرستی میں منظرعام پرآیا۔ اُس عہد کے اردواخبارات کا ایک بڑاحصہ سرکاری اعلانات پرمشتمل ہوتاتھا۔ جب کلکتہ سے اردوصحافت کا سفردہلی کی طرف ہواتو مولوی محمدباقر،جن کے ’دہلی اردواخبار‘کو باضابطہ اردواخبارکا درجہ حاصل ہے،وہ خوددینی علوم میں مہارت رکھتے تھے اور لکھنے پڑھنے کابھی انہیں شوق تھا۔اس اخبارمیں لکھنے والوںپرنگاہ ڈالیں تو معلوم ہوگاکہ ان میں بڑی تعداد ادبائ، شعراء ،علماء اور درس وتدریس سے وابستہ حضرات کی تھی۔ ان کی تحریریںاخبارکی زینت بنتی تھیں۔مولانامحمدحسین آزاد کا نام صف اول کے ادیبوں میں ہوتاہے، وہ خود برسوں’ دہلی اردواخبار‘ کی ادارت کے فرائض انجام دے چکے ہیں، ساتھ ہی انہوں نے ’ہمائے پنجاب‘ لاہورکی ادارت بھی کی ہے۔(بحوالہ اردوکے اخبارنویس،از امدادصابری) مولانامحمدحسین آزاد نے ’آب حیات‘میںلکھا ہے:

    ’’ سنہ مذکورہ بالا(1836ئ) میں ان کے والد بزرگوارکے قلم سے اردوکا پہلااخبارجس کا نام ’اردواخبار‘ ہی تھاجاری ہوا۔ اس میں ذوقؔ، غالبؔ، مومنؔ کے مطارحات اور زبان کے مباحث درج ہواکرتے تھے۔ استاد ذوقؔ مغفور کی وفات کے قطعات تاریخ ڈیڑھ سال برابراس میں چھپتے رہے‘‘۔

    (بحوالہ اردوصحافت:مرتب انوردہلوی، ص 45)

    اب سوال یہ پیداہوتاہے کہ ان تحریروں کو صحافتی تحریرشمارکریں یاادبی؟ اس کا فیصلہ کرنابے حد مشکل ہے ۔آج اس موضوع پر کھل کربحث کی گنجائش ہے۔ میڈیاکے لئے لکھی جانے والی تحریروںکاتنقیدی جائزہ لے کراردوادب کے دائرے میں مزیدوسعت کی راہ بھی ہموارہو ہے۔اس طرح کی کوششوں سے صحافتی تحریروں میں پائیداری اور ادب کی مقبولیت میں چارچاندلگنے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔ اس لئے کہ اردوصحافت اور ادب کی تحریری خصوصیات میںفرق کے باجود ابتداء سے ہی دونوں میں چولی دامن کا ساتھ رہاہے، لیکن اشتراک وافتراق کی صورتوں پر ابھی تک بحث ہوسکی ہے اور نہ ہی خط اتصال وانفصال کی نشاندہی کی جاسکی ہے۔کچھ صحافیوں کی منتخب تحریروں کو ادبی تحریرکادرجہ تومل چکاہے اور کچھ ادیبوں کی تحریریں صحافت میںبھی اپنا مقام بنائے ہوئی ہیں،لیکن ایسی تحریروں کی تعداد کم ہے۔ اس کے باوجود یہ فیصلہ کرنابے حد مشکل ہے کہ آخرکس صحافتی تحریرکو ادبی تخلیق کے زمرے میں رکھاجائے اور کس ادبی تحریرکو صحافتی تحریرمان کرصحافت میں جگہ دی جائے۔اس کی وجہ سے اردوصحافت کو اس کا اصل مقام نہیں مل سکاہے۔صحافت اور ادب دونوں سے وابستہ قلم کارشعیب رضافاطمی اپنے مقالہ’اردوصحافت:ماضی اور حال‘میں لکھتے ہیں:

    ’’حیرت اس امرپرہوتی ہے کہ اردوصحافت نے اردوزبان کو بولی سے ادبی زبان بنانے تک کے سفر میں اہم رول اداکیالیکن جب کبھی اور جہاں کہیں بھی اردوزبان کے فروغ کی تاریخ پربات ہوتی ہے تو صحافت کوایک کونے میں ڈال کرخوب باتیں کی جاتی ہیں۔ اس سلسلے میں علی گڑھ کی نثری تحریک ہویا دلی کالج سے شروع کی گئی ترجمے کی تحریک، انگریزوں کے ذریعہ قائم کیاگیا فورٹ ولیم کالج بھی اس وقت تک اپنی تحریک کو کامیابی سے ہم کنارنہیں کراسکتے تھے جب تک ان کے شانہ بہ شانہ اردواخبارنہ چل رہے ہوتے‘‘۔(اردوصحافت کا منظرنامہ، اردواکادمی ،دہلی)

    شعیب رضافاطمی کی یہ بات حق بہ جانب ہے۔جس طرح ماضی میں تمام ادبی تحریکوں کو مقبولیت کی بلندی تک پہنچانے میں صحافت نے کلیدی کرداراداکیا، اسی طرح آج کے اس سائبرکلچرکے دورمیں بھی ادب کو آگے بڑھانے کے لئے قدم قدم پرترسیلی ذرائع کی ضرورت ہے۔حقانی القاسمی لکھتے ہیں:

    ’’ آزادی سے پہلے جو رسائل نکلتے تھے ان کا دائرہ بہت وسیع تھا، جبکہ ترسیلی ذرائع محدودتھے اور آزادی کے بعد یہ دائرہ کچھ سمٹ ساگیاہے، جب کہ یہی رسائل تھے جو بڑے تخلیق کاروں کی شناخت کا وسیلہ تھے اور ان ہی رسائل کے توسط سے لوگوں نے منٹو، عصمت اور کرشن چندرکو پہچانا، اس لئے ادبی رسالے کی افادیت تو بہرحال مسلم ہے۔ اگریہ رسائل نہ ہوتے توشایدہم بہت سے جینوئن تخلیق کاروں سے محروم رہ جاتے اور ان تخلیقات سے بھی جن میں جہان فکرآبادہے۔ اس لئے Electronic Mediaکی یلغاراور ٹکنالوجی کی تیزرفتاری کے باوجودادبی رسائل کی اشاعت کاجوازبنارہے گالیکن سائنس، ٹکنالوجی اور بزنس کے نئے رجحانات پرنظررکھنی ہوگی اور اس خول سے باہرنکلناہوگا، جس میں ہم ابھی تک قیدہیں، بعض ممنوعات کو توڑناہوگااور بعض نئے منطقے کی جستجوکرنی ہوگی اورسماج اور معاشرے کے تئیں زیادہ ذمہ داری کااحساس پیداکرناہوگا۔ ‘‘(نیادورکا اردوصحافت نمبر)

    ظاہرہے ان حالات میں ادب کو آگے بڑھنے کے لئے میڈیا کے کندھوں کی اشدضرورت ہے۔ یہ ضرورت ادب کو ہمیشہ درکاررہی ہے۔تاریخ شاہد ہے کہ صحافت کا سفر جیسے جیسے آگے بڑھتاگیا،ادب سے منسلک شخصیات اس سے جڑتی چلی گئیں، اس طرح صحافت کا کارواں بنتاگیااور ادب کی دنیا بھی وسیع ترہوتی چلی گئی۔ سرسید احمدخاں، مولاناعبدالماجددریابادی، مولاناحسرت موہانی، مولاناابوالکلام آزاد، کرشن چندر،خواجہ حسن نظامی، خواجہ احمدعباس، ظ انصاری، عثمان فارقلیط، نیازفتح پوری، سیدسجادظہیر، حیات اللہ انصاری، شوکت تھانوی، یوسف ناظم، فکرتونسوی اور ظفرعدیم جیسی سیکڑوں شخصیات کی تحریریں ادب اور صحافت دونوں میں یکساں مقام بنائے ہوئی ہیں۔ ان کے یہاں ادبیت بھی ہے اور صحافت بھی۔ان کی بہت سی تحریریں پہلے صحافت کی شکل میں سامنے آئیں اور وقت گزرتے گزرتے وہ ادب میں اپنامقام بنانے میں کامیاب ہوگئیں۔ ان حضرات کے بارے میں یہ کہنایقینا مشکل ہوگاکہ وہ پہلے ادیب بنے یا صحافی۔حالانکہ یہ الگ بحث کا موضوع ہے کہ انسان پیدائشی طورپرصحافی اورادیب ہوتاہے یانہیں۔پروفیسر شافع قدوائی اپنے ایک مقالہ ’اردوصحافت کا تدریسی منظرنامہ ‘میں لکھتے ہیں:

    ’’ صحافت نے اب ایک اختصاصی شعبۂ علم کی صورت اختیارکرلی ہے اور اب یہ محض Trial and Errorکے محورپر گردش نہیں کرتی ہے۔ صحافت سے متعلق روایتی تصورات مثلاً (Journalism means being and doing not theorizing)اب درخوراعتناء نہیں سمجھے جاتے‘‘۔

    موجودہ عہدکی صحافت کے متعلق شافع قدوائی کی یہ بات صدفی صددرست ہے۔جہاں تک ادب کاسوال ہے ، تو اس کے بارے میں یہ کہاجاسکتاہے کہ ادیب پیدائشی ہوتاہے، بنایانہیں جاتا۔ ادیب کے اندرتخلیقات کی خوبیاں عطائی ہوتی ہیں، جنہیںوہ اپنے مطالعوں، مشاہدوں اور تجربوں سے جلابخشتاہے۔البتہ صحافت کے میدان میں قدم رکھنے کے لئے اب اعلیٰ تعلیمی اداروں سے باضابطہ کورس کرنا لازم ہوگیاہے۔اردواخبارات میں گرچہ ابھی تک اس کے بغیربھی کام چلالیاجاتاہے، لیکن ترجیح انہی کو ملتی ہے، جو صحافت کاکورس کرکے اس میدان میں آئے ہوتے ہیں۔راقم الحروف کے مشاہدے کے مطابق تربیت یافتہ اور غیرتربیت یافتہ صحافیوں میں نمایاں فرق ہوتاہے۔ادیبوں کے بارے میں بھی یہی مسلم ہے کہ کہنہ مشق اور نوواردوں میں زمین و آسمان کا فرق ہوتاہے، حالانکہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کبھی کبھی نوواردوں کی ادبی تخلیقات بہت سے کہنہ مشق ادیبوں سے بہترہوتی ہیں۔ا لبتہ ادیب بنانے کے لئے صحافت کی طرح کورسیزنہیں کرائے جاتے اور نہ ہی اس کی ابھی تک ضرورت محسوس کی گئی ہے۔کچھ اداروں میںCreative Writing کے کورسیزضرورشروع کئے گئے ہیں، لیکن صحافت کے کورسیزکی طرح انہیں مقبولیت نہیں مل سکی ہے۔توکیایہ مان لیاجائے کہ صحافتی تحریروں کو ادبی تحریروں کا درجہ اس لئے حاصل نہیں ہے کہ ایک کے اندر خدادادصلاحیتیںہوتی ہیں اور دوسرے کو وہ صلاحتیں حاصل کرنے کے لئے دانش گاہوں کی خاک چھاننا پڑتی ہیں؟ شاید نہیں!

    ہندوستان کے پس منظرمیں دیکھیں تومعلوم ہوگاکہ صحافت کو ادب کی ایک صنف کی حیثیت سے پیش کیاگیاہے۔ اسی مناسبت سے یہاں کی جامعات میں شعبۂ اردو کے نصاب میں صحافت کوادبی اصناف کے ذیل میں پڑھایاجاتاہے ، لیکن اس سے اس فن کا حق ادانہیں ہوتا،ہاں یہ پیغام ضرورجاتاہے کہ صحافت بھی ادب کی ایک صنف ہے، لیکن تصویرکا دوسرارخ یہ ہے کہ صحافتی تحریروں کو ادبی تحریرتسلیم کرنے میں اب بھی شش وپنج کی حالت برقرارہے۔ جن تحریروں کوادبی اصناف میں شامل نہیں کیاگیاہے، وہ تحریریں ہماری نظروں سے اوجھل ہوجاتی ہیں اور اخبارمیں چھپی روزانہ کی خبروں کا حصہ بن کربھلادی جاتی ہیں، جو یقینی طورپرادب کا بہت بڑا خسارہ ہے۔ادب اور صحافت میں رشتے کے بارے میں رشیدحسن خاں لکھتے ہیں:

    ’’ ادب اور صحافت میں دورکی نسبت ہے، مگریہ دونوں نسبتیں ایک ہی شخص میں بہ خوبی جمع ہوسکتی ہیںاور اس کی تحریروں میں نمایاں ہوسکتی ہیں‘‘۔

    ( اردوصحافت، صفحہ 265، اردواکیڈمی، دہلی)

    صحافت او رادب میں اس نسبت کی بیشمارمثالیں ہماری نگاہوں کے سامنے ہیں۔چنانچہ اس بحث کو آگے بڑھانے کے لئے ضروری ہے کہ صحافت اور ادب کامختصرتعارفی خاکہ پیش کیاجائے، تاکہ اشتراک وافتراق کی شکلیں سامنے آسکیں اور اس خط فاصل کی نشاندہی ہو سکے، جس کے بعد اس بحث کو مزیدآگے بڑھانے کی راہ ہموارہو۔

    صحافت :روزرونماہونے والے واقعات، حادثات، تہذیبی ،ثقافتی اورتفریحی سرگرمیوںوغیرہ کی اطلاعات عوام الناس تک پہنچانے کے عمل کو صحافت، جس توسط سے یہ عمل انجام دیاجائے، اسے میڈیا اور جو لوگ اس پیشے سے منسلک ہیں، انہیں صحافی، جرنسلٹ یاپترکار کہاجاتاہے۔صحافت کا بنیادی عنصر’ترسیل‘ ہے(Communication) ہے۔انگریزی میں کمیونی کیشن کی تعریف یوں کی جاتی ہے:

    The process of sending and receiving message is called communication

    صحافت کو عجلت میں لکھاگیاادب بھی کہتے ہیں۔صحافت عربی لفظ صحیفہ سے نکلاہے، جس کے معنی کتاب یا کتابچے کے ہیں۔ایڈمنڈ برک لکھتے ہیں: ’’The story of the world for a day is Media‘‘’’دنیاکی ایک روزہ کہانی کانام میڈیاہے‘‘۔

    صحافت بنیادی طورپرخبرنویسی ہے لیکن عملاً خبرنویسی، اخبارسے متعلق بہت سی چیزوں کا مرکب ہے۔ صحافت کو انگریزی میں Jouranlismکہتے ہیں، جو لفظ Journalسے بناہے، جس کے معنی روزنامچے، روزانہ حساب کے بہی کھاتے اوررسالے وغیرہ کے ہیں۔

    صحافت کے مقاصد:۱۔ اطلاعات فراہم کرنا۔۲۔ ذہن سازی کرنا۔۳۔ انٹرٹینمنٹ۔صحافت خواہ کسی بھی زبان میں ہواور میڈیاکسی بھی نوعیت کاہو، اس کے مقاصدمذکورہ تینوں امورکے اردگردگھومتے ہیں۔

    صحافت کی قسمیں:

    ۱۔پرنٹ میڈیا، ۲۔ الیکٹرانک میڈیا، ۳۔ نیومیڈیا۔ پرنٹ میڈیامیںتمام نوعیت کی کتب،اخبارات،رسائل، جرنلز، کیٹلاگس، براؤشرز،لیفلیٹز، ہینڈآؤٹس اوردیگرمطبوعہ دستاویزوںکا شمارہوتاہے۔ایسے خطوط جو بڑے پیمانے پرلوگوں کے درمیان سرکلیٹ کئے جاتے ہیں، ان کا شماربھی پرنٹ میڈیامیں کیاجاسکتاہے۔یہ عوامی ذرائع ابلاغ میں سب سے قدیم ذریعۂ ابلاغ ہے۔الیکٹرانک میڈیامیںٹیلی ویژن، ریڈیواورفلم وغیرہ کا شمارہوتاہے، جب کہ نیومیڈیامیںانٹرنیٹ اورموبائل کوخصوصی اہمیت حاصل ہے۔

    اس وقت جس میڈیاکا جادوسرچڑھ کربول رہا ہے، وہ نیومیڈیاہے۔ انٹرنیٹ اور موبائل کو نیومیڈیا(New Media) کہتے ہیں۔ نیومیڈیاکی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ عوامی ترسیل کا ذریعہ ہوتے ہوئے بھی یہ اپنے ناظرین کے درمیان باہمی روابط (Interactivity)کا موقع فراہم کرتاہے۔ای-میل، بلاگ، فیس بک، یوٹیوب، ٹؤیٹر، واٹسپ اورسوشل نیٹ ورکنگ سائٹس وغیرہ کا شمار’نیومیڈیا‘میں ہوتاہے۔نیومیڈیانے دیگرذرائع ابلاغ کودنیاکے ایک کونے سے دوسرے کونے تک پرواز کی صلاحیت عطاکردی ہے۔مثلاً انٹرنیٹ کی وجہ سے دوسرے ترسیلی ذرائع کی بہت سی مشکلات پلک جھپکتے ہی دورہوجاتی ہیں۔ادب کے فروغ میں بھی نیومیڈیاکلیدی کرداراداکررہاہے۔ انٹرنیٹ پرتمام موضوعات کی کتابیں،شعرا اور ادیبوں کے حالات زندگی اوررسالے وغیرہ موجودہیں۔ اس پرای-پیپراور ای-لائبریری کو بھی متعارف کرایاجاچکاہے۔پوری کی پوری لائبریری انٹرنیٹ پردستیاب کرانے کارواج زورپکڑرہاہے۔تحقیقی کاموں کی کراس چیکنگ بھی انٹرنیٹ کے ذریعہ کی جارہی ہے۔اگریہ کہاجائے کہ نیومیڈیانے اپنے اندر پوری دنیاسمیٹ لی ہے، توشاید غلط نہ ہو۔

    یہ سب جانتے ہیں کہ میڈیاکے ذریعہ عوام الناس کو تعلیم، خبروں، نظریات، تجارت، تفریح اور سماجی بیداری کے سلسلے میں اطلاعات فراہم کی جاتی ہیں۔ میڈیاجمہوریت کے لئے ایک گارجین کے طورپربھی کام کرتاہے اور ہمیشہ لوگوں کو تازہ ترین واقعات اور رجحانات سے باخبررکھتاہے۔اس کے لئے جوتحریریں لکھی جاتی ہیں، وہ صحافتی تحریریں ہیں۔ان تحریروں میں کچھ ایسی بھی ہیں، جو بالاتفاق ادبی تحریریں ہیں۔ مثلاً ریڈیوپرنشر بہت سے ڈرامے ادبی تحریروںکا تسلیم شدہ حصہ بن چکے ہیں۔ڈاکٹرسیدعابدحسین کے ریڈیوپرپڑھے گئے خاکوں کا مجموعہ ’کیاخوب آدمی تھا‘ 1941میں شائع ہوا۔یہ کتاب یونیورسٹیوں کے نصاب میں شامل ہے اور صنف خاکہ نگاری کے تحت پڑھائی جاتیہے۔ اخباروں اور رسالوں میں شائع افسانے وغیرہ کتابی شکل میں چھپ کر ادب کا حصہ بننے میں کامیاب ہیں، بے شمار غزلیں اور نظمیں اخباروں اور رسالوںکے ذریعے شہرت کی بلند ی تک پہنچیں۔ متعدد صحافیوں کے مضامین بھی ادب کی کسی نہ کسی صنف میں شامل کرلئے گئے ہیں، بالخصوص انشائیے اور طنزومزاح سے متعلق مضامین، لیکن ایسے صحافیوں کی تعداد دال میں نمک برابرہے۔ اس کے برعکس ایسے صحافیوں کی طویل فہرست ہے، جن کے مضامین اخبارات کی فائل میں دب کرہماری نگاہوں سے روپوش ہوتے جارہے ہیں۔ ان میں انشائیے، طنزیے، خاکے، تحقیقی ، سیاسی ، سماجی، اخلاقی مضامین اور اداریے وغیرہ سب شامل ہیں۔اس لئے اگر کوئی خاکہ تیارہوجائے کہ کن تحریروں کو ادبی تحریرکادرجہ حاصل ہوگا اور کن کونہیں، توشایدقلم کاروں کے لئے راہ آسان ہوجائے۔اثبا ت ونفی دونوں صورتوں کو اسباب وعلل سے مشروط کرنے کی بھی ضرورت ہوگی۔پروفیسرخالدمحمودنے اپنی کتاب ادب اور صحافتی ادب میں متعددادبی مضامین کے علاوہ ’اردومیں اداریہ نگاری ۔ایک جائزہ، اردومیں کالم نویسی کی روایت، اردوصحافت میں ادبی تبصروں کی روایت، خبرنگاری کا فن ، اردومیں ترجمہ نگاری کی روایت اور ترجمہ کا فن‘، عنوانات کے تحت مضامین کوشامل کیاہے اور انہیں ’صحافتی ادب‘ کانام دیاہے۔ ادب اور صحافت کو یکجا کرنے کی یہ کوشش نئی فکر کاغمازہے۔ اس سیصحافتی تحریروں کو ادب میں شامل کرنے کی امیدتو بہرحال نظرآرہی ہے، خواہ ابتدامیں ’صحافتی ادب ‘، ’ادبی صحافت‘یا’صحافیانہ ادب‘ وغیرہ نام ہی کیوں نہ دیاجائے۔جیساکہ انشائیہ کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ ابتدامیں مضمون کی اس قسم کویہ نام نہیں دیاگیاتھا۔عرصۂ درازبعداسے صنف کا درجہ ملااور انشائیہ سے موسوم کیاگیا۔

    ادب :ادب میں قلم کاراپنے افکارونظریات کو خوبصورت لفظوں کا جامہ پہناکرقارئین کی خدمت میں پیش کرتاہے۔ادبی تحریروں میں ادیب کی شخصیت، اس کی طبیعت، اس کا جذبہ، اس کا احساس ہرچیز شامل ہوتی ہے۔ تب جاکروہ تحریرادب بنتی ہے۔ ادب کو سماج کاآئینہ بھی کہاجاتاہے۔بہترین الفاظ کی بہترین ترتیب کا نام بھی ادب ہے۔ادبی تحریریں لکھنے والے اپنے خیالات کی گہرائیوں سے لکھنے کے لئے آزاد ہیں، جب کہ میڈیامیںصرف حقائق کو پیش کیاجاتاہے۔ادب میں حقائق سے زیادہ خیالات وتصورات کو پیش کیاجاتاہے۔ایف۔ فریزربونڈ لکھتے ہیں:

    The author expresses his own thouths and experience: the journalist expresses those of the community. Literature can be timeless: journalism must not be timeless.

    ’’ادیب اپنے خیالات اور تجربات کااظہارکرتاہے۔ صحافی کمیونٹی کے نظریات اور تجربات کو پیش کرتاہے۔ ادب کے لئے کوئی وقت متعین نہیں ہوتا، جب کہ صحافت کے لئے وقت متعین ہوتاہے‘‘۔

    ادب کا مقصد: قوتیل کاماننا ہے کہ ادب کی تخلیق پر ماحول اثراندازہوتاہے۔جانسن کے نزدیک ادب کی ہرتحریرکا مقصدہدایت دیناہے۔ہدایت سے مراداخلاقی ہدایت ہے۔لانجینس(Anilingus)کے نزدیک ادب کا مقصدایسی تخلیق ہے جو ہرطبقے میں مقبول ہو، پسندکی جائے او رتمام طبقے اس سے مستفیدہوں۔ اگرچہ وہ الفاظ کی ترتیب اور حسن انتخاب سے عبارت کو عظیم بناناچاہتاہے، لیکن وہ تخلیق کو ایساادب نہیں بناناچاہتاجو صرف خواص کی چیزہوکررہ جائے۔فلپ سڈنی نے کہاہے کہ تخلیق ادب کی اہمیت اس حقیقت میں پوشیدہ ہے کہ اعلیٰ انسانی خصوصیات میں جذبہ وجوش کااضافہ کیاجائے۔یہ چیزانسان کو فلسفی کے مقابلے میں زیادہ فائدہ پہنچاسکتی ہے۔افلاطون کے نزدیک شاعری کی کوئی اہمیت نہیں اور شاعرکی دنیاکوئی وقعت نہیں رکھتی۔ شاعرصرف حقیقت کے پرتوکی عکاسی کرتاہے۔ارسطوکے نزدیک شاعر واقعات کے اچھے انتخاب سے ایسی حقیقت حاصل کرتاہے جو اس حقیقت سے زیادہ پرعظمت ہوتی ہے جس کا تعلق ہماری شب وروزکی زندگی سے ہے۔جون ڈرائیڈن نے ڈرامے سے متعلق بحث کرتے ہوئے لکھاہے، ’’ بنی نوع انسانی کی ہدایت وانبساط کے لئے فطرت انسانی کا حقیقی اور زندہ تصورہے، جو اس کے جو ش وعادات کو پیش کرتے ہوئے تبدیلیٔ قسمت کو پیش کرتاہے، جس کی کہ فطرت انسانی موردہے‘‘۔ (بحوالہ: اردونثرمیں ادب لطیف از ڈاکٹرعبدالودودخاں)

    ڈرائیڈن کے نزدیک ادب ترغیب دینے کا ذریعہ نہیں بلکہ علمیت پیداکرنے کا ذریعہ ہے۔ادب برائے ادب کا نظریہ بھی پایاجاتاہے۔ جیساکہ جمالیاتی تحریک کے علمبرداراسی نظریہ کی پیروی کرتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ادب کا زندگی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ادب کو کسی مقصدکی تکمیل کا ذریعہ بنانابہترنہیںہے ۔ آسکروائلڈنے یہ کہاتھاکہ کوئی بھی تصنیف اچھی یابری، اخلاقی یا غیراخلاقی ہوسکتی ہے اور غیراخلاقی ہوتے ہوئے بھی وہ ایک اعلیٰ تصنیف ہوسکتی ہے۔ادب برائے رومانیت کاتصوربھی قدیم ہے۔ رومانی تخلیق میں لطیف رمز، کثیرذہنی تجسس اور زندگی کی سادگی کا رجحان پایاجاتاہے۔ان سب کے برعکس مشہورشاعراور نقاد میتھیوآرنلڈ ادب اور مقصدکو ایک دوسرے سے ضم کرکے دیکھناپسندکرتے ہیں۔ اس کامشہورقول ہے،’’ ادب زندگی کی تنقیدہے‘‘۔مارکس نے تخیئلی اور تصوراتی ادب پرسخت تنقید کی۔اس کا خیال ہے کہ سماج کے ایک فردکی حیثیت سے ادیب پرسماجی ذمہ داریاں بھی عاید ہوتی ہیں۔ ادیب کو ان ذمہ داریوں سے دامن نہ بچاناچاہئے۔ادب برائے اخلاق کا نظریہ بھی پایاجاتاہے۔

    ہندوستانی ادب پر مارکس کے نظریات کا اثرنظرآتاہے۔ یہاں ادب اور زندگی کے رشتے کو خاص اہمیت دی جاتی ہے۔افسانہ اور ناول پر تو اس کا گہراعکس دیکھائی دیتاہے۔غزلوں او رنظموں پربھی اس کی چھاپ بخوبی محسوس کی جاسکتی ہے۔ حالی ؔ ’ادب برائے اخلاق کے قائل تھے۔ انہوں نے ’ادب برائے ادب کا نظریہ پسند نہیں کیا۔ انہوں نے ’فن برائے اخلاق‘ یا ’ادب برائے اخلاق‘ کو پیش نظررکھا۔ آزادؔاور شبلی بھی ادب کے ذریعہ نئے معاشرے کی تعمیروتشکیل چاہتے تھے، جو ظاہرہے ادب کو مقصد بنائے بغیرممکن نہیںتھا۔ احتشام حسین بھی اپنے مضمون ’ادب اور اخلاق میںادب اور سماج کے گہرے ربط، ادب اور زندگی کے رشتے، موادکی اہمیت اور ادب کے مقاصدپرزوردیتے نظرآتے ہیں۔ ٹالسٹائے کے نزدیک بھی ادب کا ایک عظیم افادی مقصدہے۔اس کا مانناہے کہ ادب انسانوں کے درمیان اتحادواتفاق قائم کرنے اور کردارکی اصلاح کاذریعہ ہے، تاکہ انسان ترقی کی منزلیں طے کرتاہوااطمینان وسکون کی زندگی بسرکرے۔ایچ جی ویلس کابھی یہی خیال ہے کہ ادیب کی کوشش ہوکہ اس کی تخلیق سے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو فائدہ پہنچے، تاکہ سماج کی حالت بہترہوسکے۔برناڈ شاہ نے بھی اسی نظریہ کی تبلیغ کی ہے کہ اچھاادب صرف ادبی حسن کی وجہ سے مقبول نہیں ہوتااور نہ فن کارکی کوشش کی قدرصرف ادبی، صناعانہ اہلیت کی وجہ سے ہوتی ہے، بلکہ فن کارکی کوشش کی قدراسی وقت ہوتی ہے جب اس سے دوسرے فائدہ حاصل کرتے ہیں۔

    صالح ادیبوں نے ادب برائے ادب اور ادب برائے اخلاق کے درمیان متوازن رائے قائم کی ہے۔ ان فنکاروںنے فنی محاسن برقراررکھتے ہوئے ادب کو ایک اعلیٰ مقصدکی تکمیل کا ذریعہ بناکرپیش کیاہے۔اس نظریے کو سامنے رکھ کرغورکریں تو صحافت اور ادب کے مقاصدایک دوسرے سے قریب ترنظرآتے ہیں۔صحافت کابنیادی عنصر ترسیل ہے، اسی طرح ترسیل کے بغیر ادب کا بھی تصور نہیں کیاجاسکتاہے۔ صحافت میں اطلاعات کی ترسیل ہوتی ہے، جب کہ ادب میں نظریات وخیالات کی۔یہ الگ بحث کا موضوع ہے کہ ترسیل کی صلاحیت اور قوت کس میں زیادہ ہے، کس ادیب کی تحریرمیں ترسیلی صلاحیت زیادہ پائی جاتی ہے وغیرہ۔ صحافت کاایک مقصدذہن سازی بھی ہے اور ادب کا مقصدبھی اچھے معاشرے کی تشکیل ہے، جو ظاہرہے ذہن سازی کے بغیرممکن نہیں۔ صحافت کے ذریعہ تفریح کا سامان بھی مہیاکرایاجاتاہے۔ ادب کی متعددصنفوں میں بھی تفریح طبع کاخاص خیال رکھاجاتاہے، جن سے تخلیق کاراور قارئین دونوں محظوظ ہوتے ہیں۔

    ادب کی قسمیں: مجموعی طورپرادبی اصناف کو دوحصوں میں منقسم کیاجاسکتاہے۔ ۱۔نثر، ۲۔ نظم

    نثری اصناف : داستان( بشمول حکایت وتمثیل)، ناول، ناولٹ، افسانہ( بشمول افسانچہ ومنی کہانی)، ڈراما (بشمول ریڈیوڈرامہ، ٹی وی ڈرامہ، اوپیرا، نکڑناٹک)،تنقید، تحقیق(بشمول تبصرہ نگاری، ترجمہ، ادبی تاریخ، مقالہ)، مضمون، انشائیہ، خاکہ، طنز ومزاح، مکتوب نگاری، سفرنامہ، سوانح نگاری، خودنوشت؍آپ بیتی، یادنگاری؍ڈائری وغیرہ۔

    شعری اصناف: قصیدہ، غزل، (بشمول مسلسل غزل، قطعہ بند)، مثنوی، مرثیہ( بشمول نوحہ، سلام، شخصی مرثیہ، ثلاثی)، نظم( بشمول پابندنظم، طویل نظم، نظم معرا، آزادنظم، نثری نظم، ترکیب بند، ترجیع بند، مستزاد، مسمط، مثلث، مربع، مخمس، مسدس، مسبع، مثمن، متسع، معشروغیرہ)،رباعی، قطعہ، حمد، نعت، منقبت، شہرآشوب، واسوخت، ریختی، گیت، دوہا، بارہ ماسہ، چاربیت، ہائیکو، ترائیلے، ماہیا، سانیٹ، تضمین، تشطیر، پیروڈی، تاریخ گوئی اور مستزاد۔

    ادب کی نثری اصناف صحافتی تحریروں سے زیادہ قریب ہیں، اس لئے شعری اصناف سے بحث کی چنداں ضرورت نہیں۔داستان گوئی کا سلسلہ تقریباً ناپیدہوچکاہے اور آج اس صنف پرطبع آزمائی کرنے والے نظرنہیں آتے، اس لئے اسے بھی چھوڑنازیادہ مناسب ہے۔ ناول اور ناولٹ(قسطوں میں)، افسانہ( بشمول افسانچہ ومنی کہانی)اخبارات، میگزین اورادبی رسالوںوغیرہ کا لازمی جزوہیں۔ ڈراما کو ادبی صنف کا درجہ مل چکاہے اور یہ صنف میڈیامیں بھی اپنی جگہ مضبوطی کے ساتھ بنائے ہوئے ہے۔تنقید، تحقیق(بشمول تبصرہ نگاری، ترجمہ، ادبی تاریخ، مقالہ)کو بھی اخبارات اور رسالوں میں شائع کرنے کا رواج عام ہے۔ مضمون، انشائیہ، خاکہ، طنز ومزاح، مکتوب نگاری، سفرنامہ، سوانح نگاری، خودنوشت؍آپ بیتی، یادنگاری؍ڈائری وغیرہ کوپرنٹ میڈیامیں عام شمولیت کا درجہ حاصل ہے۔

    صحافتی تحریروں میں سے اداریہ نگار ی، خبرنگاری، خصوصی مضامین، انٹرویو، رپورتاژ،کالم نویسی(ذاتی، مزاحیہ، خصوصی اور سنڈیکیٹ)، فیچرز(خبری، تاریخی،شخصی، سیاحتی اورسائنسی ادبی تبصروں اورتجزیاتی رپورٹ وغیرہ کو ’صحافتی ادب‘میں شامل کیاجاسکتا ہے۔ریڈیوپرنشرہونے والے پروگرام میںریڈیوٹاک، انٹرویو، ریڈیو ڈراما، ریڈیو ڈاکو منٹری، ریڈیو فیچر، ریڈیورپورٹ، رواں تبصرہ وغیرہ ،جب کہ ٹیلی ویژن پرنشرہونے والے پروگرام میں ڈاکومنٹری اور فیچر،ٹیلی ویژن ڈرامہ، سیریل پروگرام کی اسکرپٹ، انٹرویو وغیرہ اور فلم کی اسکرپٹ کو’ صحافتی ادب‘ میں شامل کیاجاسکتاہے۔

    مباحثہ: ادب اورصحافت کا بغورمطالعہ کریں تو معلوم ہوگاکہ کئی ایسی منزلیں ہیں، جہاں جاکردونوں ایک دوسرے سے مل جاتے ہیں(جیساکہ ذکرہوا) اور بہت سے ایسے مقامات ہیں جہاں دونوںمیں دوریاں برقراررہتی ہیں۔مثال کے طورپرادب کے لئے کوئی وقت متعین نہیں ہوتا۔ ایک شاعراپنی ایک غزل ایک گھنٹے میں مکمل کرے یاایک ماہ میں اس سے کوئی فرق نہیںپڑتا۔ ایک افسانہ نگاراپنا افسانہ ایک دن میں لکھ دے یااسے مکمل کرنے میں ہفتوں لگادے، اس سے نہ تو اس کی ذات پر کوئی اثرپڑتاہے اور نہ ہی ادب پر، جب کہ صحافت میں ایسانہیں ہوتا۔صحافی کووقت متعین پراپنی تحریراشاعت کے لئے دیناہوتاہے۔صحافتی تحریروں کی اشاعت یاانہیں نشرکرنے کا وقت متعین ہوتاہے۔ وقت معینہ کے بعد ان تحریروں کی ضرورت ختم ہوجاتی ہے۔ روزناموں میں شائع ہونے والی خبریں، اداریے اورمضامین وغیرہ لکھنے کا وقت متعین ہوتاہے، لیکن ادب کی کسی صنف کے ساتھ بالکلیہ وقت متعین کی کوئی شرط نہیں ہے۔

    ادبی تحریروں میں دوام ہوتاہے، جب کہ بیشتر صحافتی تحریریں وقتی ہوتی ہیں۔ ادبی تحریروں میں افکارونظریات پیش کئے جاتے ہیں، جب کہ صحافتی تحریروں میں حقائق کو بیان کیاجاتاہے۔ادیب اپنے جذبات کو بھی اپنی تخلیقات میں شامل کرتاہے، جب کہ صحافتی تحریرمیں جذبات کی کوئی گنجائش نہیں رہتی۔ ادبی تحریرسے تخلیق کارکی شخصیت بھی سامنے آتی ہے، جب کہ صحافتی تحریربالکل سادہ، سپاٹ اور مبنی برحقائق ہوتی ہے، جس کی وجہ سے صحافی کی شخصیت سامنے نہیں آپاتی۔ ادبی تحریریں وقت کی قیدسے ماوراء ہوتی ہیں، جب کہ صحافتی تحریریں وقت، واقعات اور حادثات سے مقیدہوتی ہیں۔سماج میںجو واقعات رونماہوتے ہیں، وہ اسی دن صحافت کاموضوع بن جاتے ہیں، جب کہ وہی واقعات شکل بدل کربعدمیں ادب کے موضوعات بنتے ہیں اور پھرہمیشہ کے لئے امرہوجاتے ہیں۔ غورکریں شیکسپئرنے زندگی کے جن حقائق پربحث کی، ان پرآج بھی بحث کی جاتی ہے۔میرؔاورغالبؔ نے جو خیالات پیش کئے وہ آج بھی موضوع بحث بنتے ہیں۔اقبالؔ نے جو نظریۂ خودی پیش کیاوہ اب بھی دلچسپ بحث کا موضوع ہے۔ تمام شعراء کے کلام ہردورمیں دلچسپی کے ساتھ پڑھے جاتے رہے ہیں۔ مثلاً یہ شعر

    تم مرے پاس ہوتے ہوگویا

    جب کوئی دوسرانہیں ہوتا

    آپ جب چاہیںگنگناسکتے ہیں۔یہی حال دیگرادبی تخلیقات کاہے۔ وہ منظوم ہوں یامنثور۔یہ تخلیقات ہردورمیں بحث کا موضوع بنتی ہیں اور ان پرغوروفکرکیاجاتاہے۔ اس کے برخلاف آج کے بجائے کل کااخبارکوئی پڑھنانہیں چاہتا، تاوقتیکہ کہ اس میں کوئی ایساموادنہ ہوجوحوالے کے لئے ضروری ہویاجس کا شمارEver green موادمیںہوتاہو۔ادب میں تہ داری ہوتی ہے، اس میں کئی لیئرہوتے ہیں، موضوع سے زیادہ اسلوب پرزوردیاجاتاہے، جب کہ صحافت میں تہ داری نہیں ہوتی،اس میں قیاس کی گنجائش نہیں ہوتی، اسلوب سے زیادہ موضوع پرزوردیاجاتاہے۔

    موضوعات کے اعتبارسے فرق:صحافت کاموضوع روزرونماہونے والے واقعات، حادثات، سیاسی،سماجی، ثقافتی اور تفریحی سرگرمیاں ہیں، جب کہ ادب کا موضوع انسان کی ایسی زندگی ہے، جس کاصرف تصورکیاجاسکتاہے۔ غالبؔ کا یہ شعر:

    میںعدم سے بھی پرے ہوں ورنہ غافل بارہا

    میری آہ آتشیں سے بال عنقاء جل گیا

    تصورمیں شاعرعدم سے بھی پرے ہوجاتاہے اور عدم کوموجودتسلیم کرکے اپنی آہ آتشیں سے خیالی پرندے عنقاء جس کا کوئی وجودہی نہیں، اس کے بال وپرکو جلاڈالتاہے۔اجتماع نقیضین اور ارتفاع نقیضین گرچہ دونوں محال ہیں،لیکن ان کو شاعرممکن بناکرپیش کرتاہے۔ یہ ہے ادب!اور اس طرح کاکام ایک ادیب ہی کرسکتاہے۔ اس کے برخلاف صحافت کاموضوع حقائق پر مبنی ہوتاہے۔ انتخابات میں کون کون کامیاب ہوئے، کہاں کون ساحادثہ پیش آیا او راس میں کتنے لوگ مارے گئے، کس کرکٹ کھلاڑی نے کتنے رن بنائے، پارلیمنٹ نے کون ساقانون پاس کیا وغیرہ۔یہ اوراسی طرح کی دوسری خبریں جوصدفیصد حقیقت پرمبنی ہوں، صحافت کے مشمولات ہیں۔صحافت میں کوئی چیزخیالی نہیں ہوتی۔ادب میں ایسانہیں ہوتاہے۔ادب میں خیالات اور تصورات کو خیالی اور تصوراتی انداز میں پیش کیاجاتاہے۔ ایک افسانہ نگارلکھتاہے…

    ’’ شام ہورہی تھی، سورج ڈوب رہاتھا، چڑیاں چہچہارہی تھیں،لوگ اپنے گھروں کو لوٹ رہے تھے،ایک لکڑہارہ بھی لکڑیاں کاٹ کرلوٹ رہاتھا‘‘۔ پھراس کی دردبھری کہانی دلچسپ پیرائے میں بیان کی جاتی ہے۔ قلم کارنے یہ جو منظرکشی کی ہے، یہ اس کے ذہن کی اپج ہے، عام طورپرحقیقت سے ان مناظرکا کوئی تعلق نہیں ہوتا۔پڑھنے والابھی یہ اچھی طرح جانتاہے۔ صحافت میں ایسانہیں ہوتا۔ صحافت میں کب، کیا،کہاں، کیسے، کس کے ساتھ، یعنی پانچ کاف جسے انگریزی میں ’فائیوڈبلوز‘کہتے ہیں، ان سب کا حقیقت سے تعلق ہوتاہے۔البتہ وہ تحریریں جو ان خبروں، واقعات وحالات کے پس منظرمیں لکھی جاتی ہیں، وہ یقینی طورپروقتی نہیں بلکہ ان میں دوام ہوتاہے ۔چنانچہ ایسی تحریرجس میں دوام ہو، اس کوادب میں شامل کرنے پرغورکیاجاسکتاہے۔

    زبان کا فرق:ادب او رصحافت دونوں کی زبان میں بھی فرق پایاجاتاہے۔صحافت کی زبان آسان، عام فہم اور کثیرالاستعمال ہوتی ہے، جب کہ ادب کی زبان عام طورپرثقیل اور طرح طرح کی لسانی پیچیدگیوں کو اپنے ساتھ لئے ہوتی ہے۔صحافت کی زبان کو پہلی نظرمیں پڑھ کرسمجھاجاسکتاہے، لیکن ادب کی زبان کو بسااوقات لغت سے حل کرنے کی ضرورت پڑتی ہے۔نوطرز مرصع سے لیکر آج تک کے ادب کو مثال میں پیش کیاجاسکتاہے۔صحافتی تحریروں میں تشبیہات واستعارات، ایجازواطناب، اشارے اور کنائے، محاورہ اور ضرب المثل وغیرہ کا استعمال نہیں ہوتا، کوئی بھی بات براہ راست کہی جاتی ہے، جب کہ ادبی تحریریں ان خصوصیات کے بغیرمکمل ہی نہیں ہوتیں۔صحافت میں ترسیل کا خاص خیال رکھاجاتاہے۔قارئین کو پیش نظررکھ کرعبارت لکھی جاتی ہے،سماج کے جس طبقے کو مخاطب کرناہوتاہے، اسی کے لحاظ سے الفاظ اور جملوں کی ترکیب اختیارکی جاتی ہے، جب کہ ادب میں دقیق الفاظ کا استعمال کیاجاتاہے، عوام کے بجائے خواص کومدنظررکھ کرعبارت لکھی جاتی ہے اوراس کاکینوس بڑاہوتاہے۔ دنیاکا کوئی بھی ادب کسی مخصوص سماج کو مخاطب کرکے تخلیق نہیںکیاجاتا،بلکہ اکناف عالم میں بسنے والے تمام لوگ ادبی تخلیقات کے مخاطب ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ادبی اصناف کا دوسری زبانوں میں ترجمہ کیاجاناعام ہے۔ اس کے برخلاف صحافت خطوں اور علاقوں کے ساتھ محدودہوتی ہے۔ وقت، حالات اور علاقے کی مناسبت سے صحافت کاکینوس تیارکیاجاتاہے۔

    بیان کا فرق: صحافت بیانیہ صنف ہے۔نثرمیں ہی صحافت کارواج عام ہے، جب کہ ادبی تخلیقات نثراور نظم دونوںمیں ہوتی ہیں۔صحافت ایسی بیانیہ نثرہے جو سریع الفہم ہونے کے علاوہ اس کی ادائیگی بھی نسبتاً آسان ہوتی ہے۔ ادب کامعاملہ اس کے برعکس ہے۔بسااوقات آسان پیرائے میں لکھی گئی ادبی تحریرکو صحافیانہ تحریرکانام دے دیاجاتا ہے۔دونوں میںیہ فرق بیان کی خصوصیات کی وجہ سے کیاجاتاہے۔صحافتی تحریرمیںبراہ راست باتیں کہی جاتی ہیں، ادبی تحریروں میں بالواسطہ اوراشارے کنائے میںگفتگوکی جاتی ہے۔صحافتی تحریرمیںعبارت سے زیادہ مفہوم پرزوردیاجاتاہے، جب کہ ادب میں ایسانہیں ہوتا۔ ادب میں جب تک لچھے دارعبارت نہ ہو، گھوماپھراکربات نہ کہی جائے، اس وقت تک مزاہی نہیں آتا۔مافوق الفطری عناصر،کردار، مکالمہ، فضا، منظرکشی، کش مکش، مرکزی خیال، زمان ومکان وغیرہ ادبی تحریروں کے اجزائے ترکیبی ہیں، صحافت میں پانچ ’ک‘ سے کام چلایاجاتاہے۔تبصرے، فیچرز ، مضامین اور اداریے وغیرہ ان واقعات کو نگاہ میں رکھ کرتحریرکئے جاتے ہیں۔صحافتی تحریروں کے ابتدائی اقتباسات پڑھ کرمکمل تحریرکااندازہ ہوجاتاہے، جب کہ ادبی تحریروں کو سمجھنے کے لئے ابتداتاانتہامطالعہ ضروری ہوتاہے۔ مرکزی خیال تک رسائی پوری تحریرپڑھنے کے بعدہی ہوسکتی ہے۔

    ادبی صحافت: اردوزبان میں ادبی صحافت کی ایک دنیاآبادہے۔ وہ رسالے اور میگزین جن میں ادبی اصناف پر مشتمل مضامین، شعری اور نثری اصناف ، ادبی سرگرمیوں اور ادبی تحریکات سے متعلق موادشائع کئے جاتے ہیں، اسے ادبی صحافت کا نام دیاجاتاہے۔ ادبی اصناف پرمشتمل جو تحریریں میڈیامیں شائع ہوتی ہیں، انہیں ادبی صحافت کہتے ہیں۔اس حیثیت سے اردوصحافت اور ادب کے درمیان رشتے کی گنجائش نکلتی ہے۔خواہ صحافتی تحریروں کو ادب تسلیم کریں یانہ کریں۔پروفیسر مناظرعاشق ہرگانوی نے اردومیں شائع ہونے والے رسالوں کی تفصیلات پرمشتمل ایک کتاب’ ہمعصراردورسائل: جائزہ ‘تصنیف کی ہے، جو حال ہی میں شائع ہوئی ہے۔ اس میں انہوں نے اردوکے 200سے زائد رسالوں کا ذکرکیاہے، خواہ وہ ادبی رسائل ہوں یامذہبی، حالات حاضرہ پرمشتمل ہوں یاکھیل کودپر، بچوں سے متعلق ہوں یاخواتین سے ۔اس کتاب کو پڑھ کراندازہ ہوتاہے کہ پوری دنیامیں اردورسالوں کی کتنی بڑی دنیاآبادہے اور ادبی رسائل کا دائرہ کتناوسیع ہے۔روزنامہ اخبارات میں بھی ادبی صفحات مخصوص ہوتے ہیں۔ ادب کو فروغ دینے میں ان صفحات کااہم کردار ہے۔مجموعی طورپرکہاجاسکتاہے کہ ادب اورصحافت کے مابین مضبوط رشتے ہیں۔ ان رشتوں کے الگ الگ گوشوں پرکھل کر بحث کی گنجائش ہے۔

    معاون کتب و رسائل

    آب حیات/مولانامحمدحسین آزاد

    اردوصحافت/مرتب انوردہلوی، اردواکادمی، دہلی

    اردونثرمیں ادب لطیف/ ڈاکٹرعبدالودودخاں

    اردوکے اخبارنویس/ امدادصابری، صابری اکیڈمی، محلہ چوڑی والان،دہلی

    ادب اور صحافتی ادب/پروفیسرخالدمحمود، مکتبہ جامعہ، نئی دہلی

    ہمعصراردورسائل: جائزہ/پروفیسرمناظرعاشق ہرگانوی ، اصنام پبلی کیشنز، وشاکھاپٹنم، اے پی

    نیادورکا اردوصحافت نمبر، جون، جولائی2011

    ابلاغیات/ ڈاکٹرمحمدشاہدحسین، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی

    اردوکی ادبی اصناف/نیشنل کونسل آف ایجوکیشنل ریسرچ اینڈٹریننگ،نئی دہلی

    اصناف ادب اردو/ مؤلفین: ڈاکٹرقمررئیس، ڈاکٹرخلیق انجم، سرسیدبک ڈپو، جامعہ اردو، علی گڑھ

    اردوصحافت آزادی کے بعد/ڈاکٹرافضل مصباحی، عرشیہ پبلی کیشنز، دہلی

    اردوصحافت کا منظرنامہ/ مرتب معصوم مرادآبادی، اردواکادمی، دہلی

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے