Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

سوانح عمری اخبارات

تمثال مسعود

سوانح عمری اخبارات

تمثال مسعود

MORE BYتمثال مسعود

    بیتے دنوں لکھنؤ کے منصور نگر علاقے میں ایک پریس ہوا کرتا تھا جس کا نام تھا اختر پریس۔ اس پریس سے 8/ صفحے کا ہفتہ وار اخبار بھی شائع ہوتا تھا۔ اسی پریس نے 1888ء میں ایک کتاب ”سوانح عمری اخبارات“ شائع کی تھی۔ اس کتاب کے مصنف سید محمد اشرف نقوی تھے۔ ”سوانح عمری اخبارات“ میں اشرف نقوی نے ہندوستان بھر کے اردو، فارسی، عربی اخباروں کی فہرست بنائی ہے جس میں کئی اخبار خاص عورتوں کے پڑھنے کے بھی ہیں جیسے دہلی کے ترکمان دروازے میں واقع حویلی نواب مظفر خاں سے نکلنے والا اخبار النساء۔

    اس فہرست میں عورتوں کے پہلے اخبار کا نام ”اعلان“ بتایا گیا ہے لیکن یہ اخبار کہاں سے نکل رہا تھا اس کا ذکر نہیں ہے۔ 296/ صفحوں پر مشتمل اس کتاب میں 1518/ اخباروں کا ذکر ہے۔ اشرف نقوی نے اخباروں کی کچھ کچھ تفصیل بھی دے دی ہے جو بہت دلچسپ اور معلوماتی ہے۔ جیسے مراد آباد سے 1876ء سے شروع ہونے والے اخبار ”ادیب عالم“ کے بارے میں بتایا گیا ہے : ”اس اخبار کی تحریر چست، تقریر درست، معانی دلاویز، عبارت مطلب خیز، مہذبانہ طرز، آزادی کا رنگ جمانے والا، آزادانہ روش سے تہذیب کا جلوہ دکھانے والا۔

    گورنمنٹ کا مصلحت اندیش فرمانبردار، رعایائی ہند کا ہر امر میں غمگسار، مدح خوشامد آمیز سے علیحدہ۔ اپنی آزادی کے لباس میں خرسند۔“ اس اخبار کے مالک راجہ صاحب محمود آباد امیر حسن خان کے قریبی رشتہ دار بتائے گئے ہیں جن کا نام ہادی حسین خان لکھنوی لکھا گیا ہے۔ اس کتاب میں تنہا لکھنؤ سے نکلنے والے 130/ سے زیادہ اخباروں کے نام درج ہیں۔ ان میں ”اختر اودھ“ کا تعارف یوں کیا گیا ہے : ”یہ اخبار مطبع انوری محلہ گولہ گنج ڈاکخانہ امین آباد شہر لکھنؤ سے با اہتمام جناب منشی عبدالواحد صاحب سب ایڈیٹر کے ہفتہ وار یوم دو شنبہ چھوٹے 4/ ورقوں پر نہایت آب و تاب سے شایع ہوتا ہے۔ اس کی غرض ملکی معاملات کی درستگی، سوشل نقائص کی اصلاح، اردو زبان کی ترقی ہے۔ ہر حالت میں یہ اخبار اپنے کو گورنمنٹ کا مشیر اور رعایا کا سفیر ثابت کرے گا۔ اور کوئی دقیقہ پبلک خدمات کا اٹھا نہ رکھے گا۔ مفید ترجمے انگریزی اخباروں کے۔ عمدہ مختصر اور رفاہ عام مضامین وقتاً فوقتاً درج کیے جاویں گے۔“

    اخبار کی تاریخ پر تحقیقی کام کرنے والوں کے لیے یہ کتاب خاصی اہم ہے۔ کتاب کے دیباچے میں اشرف نقوی صاحب نے صحافت کی اہمیت اور افادیت پر اپنے خیالات ظاہر کیے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ اخبار بینی سے نہ صرف دنیا جہان کی خبروں سے آگاہی ہوتی ہے بلکہ عوام کی آواز کو حاکم تک پہنچانے کا اخبار ایک زبردست ذریعہ بھی ہے۔ اخبار میں ذی فہم حضرات موجودہ حالات پر تبصرہ کر کے قوم کی راہ نمائی کرتے ہیں۔ مگر اشرف نقوی صاحب کو افسوس اس بات کا ہے کہ بیشتر لوگ اخبار کے ان فائدوں سے واقف نہیں ہیں اور وہ صرف سنسنی خیز خبروں کے لیے ہی اخبار دیکھتے ہیں کہ کہاں جنگ ہو رہی ہے، کتنے لوگ مر گئے، کون لٹ گیا۔ اس قسم کے لوگوں کے لیے انھوں نے آتشؔ کا ایک شعر بھی نقل کیا ہے :

    خوف نافہمی مردم سے مجھے آتا ہے

    گاؤ خر ہونے لگے صورت انساں پیدا

    اشرف نقوی صاحب نے اتنے پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ اپنے وقت کے مایوس کن حالات کے نتیجے میں قوم کا مستقبل کیا ہو گا اس کی طرف بھی وہ اشارہ کرتے ہیں جو ان ہی کی زبانی سنیے : ”ہماری قوم اس بحر غفلت میں غوطہ زن ہے کہ قیامت تک ابھرنا مشکل معلوم ہوتا ہے۔ ہر چند اہل قلم زور دکھلاتے ہیں، پولیٹکل و سوشل مضامین کو اچھوتے خیال کے ساتھ دامن اخبار پر جگہ دیتے ہیں، ترقی کی صورتیں بتاتے ہیں مگر ہماری قوم کمبخت کچھ خیال نہیں کرتی۔ اب رفتہ رفتہ یہ حالت ہو گئی ہے کہ قوم کی قوم کو موج غفلت کی آغوشی قعر دریا تک پہنچانے کو تیار ہے۔“

    اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ دیباچے میں اشرف نقوی صاحب کا لہجہ ذرا ترش ہو گیا ہے۔ اب چونکہ ان کے نزدیک یہ حالات تشویش ناک تھے جس کے دکھانے کی خاطر شاید انھوں نے ایسے لہجے کا استعمال کرنا ضروری جانا ہو۔ بہرحال، یہاں ایک بار دہرا لیا جائے کہ اشرف نقوی صاحب نے یہ باتیں 1888ء میں لکھی تھیں۔ اس لحاظ سے یہ دیکھنا زیادہ ضروری ہے کہ اردو صحافت میں ان ایک سو تیس برس میں کیا تبدیلیاں آئی ہیں۔ مثال کے طور پر آج خبروں کے لکھنے، سرخیاں بنانے، اور حالات کا تجزیہ کرنے میں صحافیوں کا رویہ کتنا سنجیدہ اور کتنا سنسنی خیز رہتا ہے۔ اب کتنے حضرات ہیں جو اردو اخبار پڑھتے ہیں، اور ان میں ایسے افراد کتنے ہیں کہ جن سے سید محمد اشرف کو وہی ایک سو تیس برس پرانی والی شکایت نہ ہوگی۔

    لیکن ذرا ٹھہریے، اگر اخبار پڑھنے والوں سے شکایت کی جائے گی تو بہت ممکن ہے کہ وہ جواب میں یہ سوال داغ دیں گے کہ اخباروں میں وہ پہلے والا زور قلم ہے بھی؟ اور پھر یقین جانیے کہ پوری گفتگو ”معیاری اردو“ کی عالمانہ بحث میں الجھ جائے گی کہ ہرا دھنیا مذکر ہے یا مونث۔ خیر آپ ذرا دیر کو اس مذکر مونث کی رسا کشی کو چھوڑیے اور بس یہ دیکھیے کہ اردو اخبار کی ساکھ کیا ہے۔ یعنی کتنے اردو اخبار ہیں کہ جن کی خبروں اور تجزیوں کو دوسری زبان کے اخباروں میں بطور حوالے کے استعمال کیا جاتا ہے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے