aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

سیکولرازم اور تصوف

محمد مجیب

سیکولرازم اور تصوف

محمد مجیب

MORE BYمحمد مجیب

    فکرونظر کی دنیا میں آج کل جو مسلمہ فیشن ہیں ان میں سے ایک سیکولرازم بھی ہے۔ بہت کم لوگ صحیح صحیح جانتے ہیں کہ سیکولرازم ہے کیا، سوائے اس کے کہ یہ کوئی مذہب نہیں ہے۔ حالاں کہ ایسے لوگ بھی ہیں جو سیکولرازم کا دم تو بھرتے ہیں کیونکہ اسے ایسی بات سمجھا جاتا ہے جسے روشن خیال لوگوں کو ماننا ہی چاہئے۔ لیکن وہ سیکولرازم کا دم بھرنے کے باوجود ایسی باتوں پر بھی عمل کرتے رہتے ہیں جن کی ان کے مذہب میں تاکید کی گئی ہے۔

    ایسے لوگ بھی ہیں جو اپنے آپ کو سیکولر کہتے ہیں، صرف اس لیے کہ کوئی ان سے یہ نہ پوچھے کہ زندگی کا اصل مقصد اور نصب العین کیا ہے۔ ایسے لوگ بھی ہیں جو سارے مذہبوں کو نیک نیتی سے دیکھتے ہیں اور یہ امید کرتے ہیں کہ سیکولرازم کو عام طور پر اپنا لینے سے مذہبی مناقشات ختم ہو جائیں گے۔ سیکولرازم میں یقین رکھنا گویا ایسا ہے جیسے محفوظ ہو جانا کیوں کہ پھر کوئی یہ نہیں پوچھتا کہ آپ اس پر کیوں یقین رکھتے ہیں۔ یہ تو ایک فیشن ہے اور فیشن کی صر ف پیروی کی جاتی ہے، اسے جانچا نہیں جاتا۔

    سیکولرازم کو سمجھنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اس کی تاریخ پر غور کیا جائے۔ یہ ایک لاطینی لفظ سے نکلا ہے جس کے معنی ہیں نسل یا دور، بطور صفت سیکولر کے کئی معنی ہیں اور بطور اسم اس کے معنی ہیں پادری۔ دور وسطی کی عیسائی دنیا میں آدمیوں اور معاملات (یعنی انسانی سرگرمیوں) کی دو قسمیں تھیں: مذہبی اور دنیوی۔ ایسے آدمی بھی تھے جو اعلیٰ مذہبی زندگی گزارتے تھے یا گزارنے کی تمنا کرتے تھے اور دوسرے و ہ لوگ تھے جو محض ارضی مخلوقات (یعنی دنیادار) ہی رہنے پر قانع رہتے تھے۔ ریاضتیں، تجرد (کی زندگی) اور نفس کشی کی دوسری صورتیں اور ان کا تعلق چرچ یعنی کلیسا سے ہوتا تھا، جس میں پادریوں کی حسب مراتب ترتیب (یا درجہ بندی) اور خانقاہی سلسلے ہوتے تھے۔

    دنیا دار آدمی اپنی زندگی طاقت اور دولت حاصل کرنے کی کوشش میں بسر کرتے تھے یا اپنے اپنے طور پر جس طرح بھی خوش رہ سکیں۔ نظریاتی اعتبار سے مذہبی زندگی برتر زندگی سمجھی جاتی تھی لیکن کلیسا کو بھی اپنے آپ کو قائم رکھنے کے لیے طاقت اور دولت کی ضرورت ہوتی تھی اور اس وجہ سے بادشاہوں اور شہزادوں سے ان کی ان بن بھی ہو جاتی تھی، جوطاقت اور دولت کو اپنا ہی حق سمجھتے تھے۔ آہستہ آہستہ یوروپ کے اس بڑے حصے میں جو فکرونظر اور معاشی اعتبار سے سب سے زیادہ فعال (یا عملی) تھا، مذہبی آدمیوں اور مذہبی معاملات یا سرگرمیوں کی قدرومنزلت ختم ہو گئی، مذہبی آدمیوں کی اس لیے کہ وہ جارحانہ حد تک تنگ نظر ہوتے تھے اور مذہبی سرگرمیوں کی اس لیے کہ انہیں (دنیا سے) غیرمتعلق سمجھا جانے لگا۔

    سیاسی اور معاشی طاقت کو بڑھاتے رہنا ہی زندگی کا مقصد بن گیا اور خوشی کا مطلب یہ سمجھا جانے لگا کہ یہ خوشی کے ذرائع کو قبضہ و تصرف میں لینے سے حاصل ہو جاتی ہے۔ سیکولرازم کی تاریخ سے اس کے مطلب ومعنی پر جو روشنی پڑتی ہے اس پر عقیدہ رکھنے کامطلب یہ ہے کہ ہمیں اپنی تمام تر توجہ مادی دنیا پر مرکوز کر دینی چاہئے اور جو کچھ ہم اس سے حاصل کر سکتے ہیں، ہمیں وہ حاصل کرکے اچھی سے اچھی طرح زندگی گزارنی چاہئے۔ ہمارے زمانے میں سائنس اور ٹیکنولوجی کی ترقی اور معاشی اعتبار سے ترقی یافتہ ممالک میں بلند معیار زندگی کو براہ راست سیکولر انداز نظر کا نتیجہ سمجھا جاتا ہے۔

    لیکن آدمی کی سرشت کچھ ایسی ہے کہ وہ تمام ترصرف مادی زندگی ہی پر قانع نہیں رہ سکتا۔ طرح طرح سے اور زیادہ تر سیکولرازم اور سیکولر انداز نظرکی طر ف راغب تو ہو جاتا ہے لیکن اس کی فطرت کچھ ایسی ہے کہ اسے مادی ضروریات اور مادی وجود (کے ہوتے ہوئے بھی) ماورا کے بارے میں سوچنے پر مائل کر دیتی ہے۔ اس لیے جب سیاسی مدبر، سائنس داں اور بورژوا یعنی شہری متوسط طبقہ یا کارخندار entrepreneur اور اہل دانش کی کامیابیوں کی وجہ سے سیکولرازم کا ڈنکا بج رہا تھا تو سیکولر انداز نظر اور مذہبی انداز نظر میں ایک معاہدہ ہو گیا، یعنی آدمی جتنا بھی مذہبی ہونا چاہئے ہوجائے، لیکن اس کا مذہب اسی تک رہے، اسے یہ حق نہ ہوکہ وہ یہ چاہے کہ دوسرے بھی اس سے متفق ہوں۔ مذہبی آزادی کا تو اسے حق ہو لیکن (اس کی بنیاد پر) طاقت (کے حصول) کا نہیں۔ اس کا مذہب اس کی ذات تک رہے، خالصتاً سیکولر معاملات سے اسے کوئی واسطہ نہ ہو۔

    ہم نہیں کہہ سکتے کہ اس معاہدہ پر پوری طرح عمل ہو رہا ہے (کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ) سیاست تک میں اور بہت سے انتہائی ترقی یافتہ ممالک تک میں خالصتاً سیکولر معاملات پر مذہبی تعلقات کا اثر پڑتا ہے۔ کچھ لوگ تو یہ کہتے ہیں اور وہ بے وجہ نہیں کہتے کہ کوئی بھی معاملہ اتنا سیکولر اور محض سیکولر نہیں ہوسکتا جس سے کسی نہ کسی حد تک مذہبی عقیدے پر اثر نہ پڑے۔ سیکولر انداز نظر کی سب سے نمایاں تردید (یامخالفت) وہ طاقت اور قدرومنزلت ہے جو رومن کیتھولک چرچ کو حاصل ہے۔ لیکن یہ کہنے کا مطلب ذاتی مذہب کے بجا ہونے کا یا اس کے اس گہرے اثر کا انکار کرنا نہیں ہے جوان لوگوں پر بھی ہوتا ہے جو سیکولرازم کا دم بھرتے ہیں۔ سچا مذہبی عقیدہ ہمیشہ شدید طور پر ذاتی ہی ہوتا ہے۔

    اس ذاتی مذہب میں یقینی طور پر سب سے زیادہ زور خلوص پر ہوتا ہے۔ اوریہ تمام مذاہب کے درمیان ایک کڑی کی مثال ہے، اگرچہ وہ خارجی (یا ظاہری باتوں کے) اعتبار سے ایک دوسرے سے بہت مختلف ہوتے ہیں لیکن اصل کے اعتبار سے ایک۔ سیکولرازم اور صوفی ازم (تصوف) کے درمیان بھی یہ ایک کڑی کا کام کرتا ہے۔

    صوفی ازم یا تصوف صدیوں سے مسلمانوں میں دانشوری کا ایک فیشن تھا۔ جس طرح سیکولرازم غیرمذہبی ہے لیکن اگر کوئی مجبوری آن پڑے تو مذہب کے خلاف بھی ہو سکتا ہے، اسی طرح تصوف بھی اگرچہ راسخ الاعتقادی نہیں ہوتا تھا (غیرتقلیدی ہوتا تھا) لیکن وہ راسخ الاعتقادی کا مخالف بن سکتا تھا۔ شاعر تصوف کے اس پہلو کو جان بوجھ کر اور مستقل نمایاں طور پر پیش کرتے رہے۔ وہ ظاہر پرست زاہدوں کی منافقت کا مذاق اڑاتے نہیں تھکتے تھے۔ لیکن راسخ الاعتقادی کی قدرومنزلت سے تصوف کا یہ انکار تو تصوف کا ایک کم اہم پہلو تھا۔ اس کے مثبت عناصر تو دراصل اس کے اس دعوے میں (مضمر) تھے کہ آدمی اور اس کے پیدا کرنے والے میں براہ راست رشتہ ہو سکتا ہے، اس رشتے کے قائم ہونے میں کسی ایک یا ان تمام وسیلوں کی ضرورت نہیں تھی، جنہیں راسخ الاعتقاد لوگ لازمی سمجھتے تھے۔ اس کے ان مثبت عناصرمیں یہ یقین بھی شامل تھا کہ بندے اور خدا کا رشتہ ’شیخ‘ کی رہنمائی میں سب سے زیادہ بہتر طور پر قائم ہو سکتا ہے۔ لیکن ’شیخ‘ کی رہنمائی اسی وقت تک ضروری ہوتی تھی جب تک ’مرید‘ روحانی اعتبار سے اپنے پیروں پر کھڑا نہ ہو جائے اور جب وہ اس قابل ہو جاتا تھا تو پھر وہ شیخ کا مرتبہ سنبھال لیتا تھا اور دوسروں کے لیے رہنما بن جاتا تھا۔

    جب صوفی ازم یا تصوف فیشن بن گیا تو اس کی بھی اپنی رسمیں اور ظاہری علامتیں بن گئیں۔ جواس میں یقین رکھتے تھے وہ ان راسخ الاعتقاد ’علما‘ سے بھی زیادہ عقبیٰ (یا آخرت) کو ماننے لگے جو باوجود ہزار دنیوی مال واسباب اوردنیوی خوشی کی چند روزہ نوعیت جتانے کے دنیوی فرائض سے متعلق احکام کو نظرانداز نہیں کر سکتے تھے۔ ذاتی مذہب کا عنصر یعنی خدا سے براہ راست رشتے کا تصور ہوتے ہوتے ایک ایسا فلسفہ بن گیا جس کے مطابق تمام وجود کوایک وحدت تصور کیا جاتا ہے اور تمام واقعات کو رضائے الہی کا مظہر۔ اور اس طرح اس نے تخلیقی اور تعمیری عمل کرنے کے فطری جذبے یا تحریک کو کھوکھلا کر دیا۔ لیکن یہ تو بعد میں ہوا۔ اپنے عروج کے زمانے میں تصوف یقیناً اندھی تقلید، سماجی ناانصافی اور فرد کے جذبات کو کچل دینے کے خلاف واقعی بغاوت کی علامت بن گیا تھا۔

    اگر مذہب کا یہ تصور کہ وہ بنیادی طور پر ذاتی معاملہ ہے، سیکولراز م اور تصوف میں مشترک ہے تو ان دونوں کے باہمی اختلافات پر بھی غور کرنا چاہئے۔ سیکولرازم میں جو اس بات پر زور ہے کہ مذہب (فرد کا) ذاتی معاملہ ہے، اس میں اصل خیال یہ ہے کہ ہر آدمی اپنے ہی کام سے کام رکھے۔ یعنی مذہب ذاتی معاملہ ہے محض سیاسی اور قانونی اعتبار سے، اس میں نیت یہ نہیں ہے کہ مذہبیت کو تقویت دی جائے بلکہ یہ ہے کہ مذہبیت ایک تخریبی عنصرنہ بن جائے (کیونکہ) ذاتی مذہب کا مطلب یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ کوئی مذہب ہی نہ ہویا کوئی بھی مذہب ہو یا کسی ایسے فرقہ سے وابستگی ہی ہو جس میں سب کے عقائد ایک ہوں بشرطیکہ یہ وابستگی ریاست یامروجہ سماجی اور معاشی نظام سے متصادم نہ ہو۔

    سیکولراز م کا آئیڈیل یا نصب العین ہے مذہب کو دونوں اعتبار سے خارج ازبحث کر دینا۔ بطوربصیرت اندوزی کے اصول کے بھی اور بطور روحانی فیضا ن کے سرچشمے کے بھی۔ اس کے ساتھ ساتھ آدمی کو جہاں تک ممکن ہو خود مکتفی یا بےنیاز بنا دینا۔ یہ فرض کر لیا گیا ہے کہ آدمی بےنیاز ہو سکتا ہے اور اگر کسی میں یہ صلاحیت نہیں ہے تو پھر اس کے لیے تو شکست ہی شکست ہے۔ اگروہ اخلاقی اعتبار سے ٹوٹ جائے اور قانون شکنی کا مرتکب ہو جائے تو اسے سزا ملےگی۔ اگر وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ کسی منظم اور روایتی عقیدے کے سہارے کے بغیر وہ اپنا کوئی ذاتی مذہب اختیار نہیں کر سکتا تو وہ اس مذہبی فرقے سے منسلک رہ سکتا ہے جس میں وہ پیدا ہوا ہو یا ویسا ہی فرقہ تلاش کرکے اس میں شامل ہو سکتا ہے۔

    یہ رویہ یا انداز نظر تصوف سے بالکل الگ ہے۔ تصوف تو مذہب کو ذاتی معاملہ کہہ کر مذہب کو اور شدید (جذبہ) بنانا چاہتا ہے۔ راسخ الاعتقادی یا تقلید سے جو اس کی مخالفت ہے یا اس مذہب سے جو اس کی مخالفت ہے، جو دینیاتی ادب کے ذریعے منتقل ہوتا ہے اور جس پر بطور عادت کے عمل کیا جاتا ہے، وہ اس بنیاد پر ہے کہ ایسا مذہب محض نقالی ہوتا ہے، بے روح اور غیرتخلیقی۔ عقیدہ ذاتی ہونا چاہئے، وہ نتیجہ ہونا چاہئے فرد کے اپنے روحانی تجربے کا۔ تب ہی یہ اس فرد کا سچا عقیدہ ہوگا۔ تصوف کا مقصد بہتر مادی حالات پیدا کرنا نہیں ہے بلکہ بہتر اور زیادہ مکمل اور زیادہ پر مایہ شخصیتیں بنانا ہے۔ ایسی شخصیتیں بنانا (جن کے دل) اس بے نیازانہ خوشی کے احساس سے معمور ہوں جو بطور روحانی تحفے کے انہیں حاصل ہوتا ہے۔

    انسانی ارتقا کے اعتبار سے ادارہ جاتی (یا باقاعدہ) مذاہب یا تصوف یا سیکولرازم کے مطالعے سے یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ آدمی کا سفر ختم ہو گیا (آخری منزل آ گئی) ماضی، حال اور مستقبل ایک دوسرے میں مدغم ہوتے رہیں گے، فکرونظر اور زندگی کی نئی صورتیں وجود میں آتی رہیں گی۔ ادارہ جاتی یا باقاعدہ مذہب نے ہمیں وہ اقدار دی ہیں جنہیں اب ہم ویلفیئر اسٹیٹ یا فلاحی ریاست کی شکل میں دیکھنا دکھانا چاہتے ہیں۔ فلاحی ریاست سے مراد وہ نصب العین یا آئیڈیل ہے جس میں پورے سیاسی معاشرے یا سماج کا یہ سروکار ہوکہ اس کے ہر فرد کوپوے پورے موقعے ملیں کام کرنے کے اور اجرت وصول کرنے کے اورجس میں سب سے کمزور افراد کے مفاد کو ترجیح دی جائے اور سب کو بنیادی حقوق حاصل ہوں۔

    تصوف یا صوفی ازم کا تصور اب یہ ہے کہ یہ متحد الخیال افراد اور جماعتوں کا ساری انسانیت کے فائدے کے لیے کام کرنے کا احساس ہے۔ بچوں کو اور سیاسی حالات اور قدرتی آفات کے مارے ہوئے لوگوں کو بین الاقوامی ادارے اپنی صواب دید سے مدد دیتے ہیں اور ان اداروں کو ان انسان دوست افراد سے مدد ملتی ہے جو انسان دوستی کو اپنی مرضی کی بات نہیں سمجھتے بلکہ اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ اخلاقی حکم کی اطاعت کا جذبہ جو خدا کی طرف سے دل میں پیدا ہوتا ہے، خدا جو بندوں کے دلوں پر حکمراں ہے، ہمیشہ کی طرح آج بھی زندہ ہے۔ مذہب اور تصوف نے اپنا نام ہٹاکر سیکولرازم کی اعلی تر صورتوں کی حیثیت اختیار کر لی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ جیسے تصوف میں ہوا تھا، ان اعلی تر صورتوں کی بھی کوئی ایسی اپنی شاعری سامنے آ جائے اور روحانی تجربے کی نئی صورتوں کی طرف لے جائے۔

    مأخذ:

    ہندوستانی سماج پر اسلامی اثر اور دوسرے مضامین (Pg. 36)

    • مصنف: محمد مجیب
      • ناشر: دہلی کتاب گھر، دہلی
      • سن اشاعت: 2011

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے