Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

شرح غالب

شان الحق حقی

شرح غالب

شان الحق حقی

MORE BYشان الحق حقی

    کوہ کے ہوں بارِ خاطر گر صدا ہو جائیے

    بے تکلف اے شرارِ جستہ کیا ہوجائیے

    ’’کیا ہوجائیے؟‘‘ کا برجستہ و بے ساختہ جواب یہی ہے کہ فنا ہوجائیے۔ مسئلہ صرف پہلے اور دوسرے مصرعے کے ربط کا رہ جاتا ہے۔ یہ ربط یوں پیدا ہوتا ہے کہ ہم اپنے آپ کو زندگی سے اس حدتک بھی سبک بار کرلیں کہ صدا بن جائیں، تو دنیا کو ہمارا وجود بقدر یک صدا گوارا نہیں ہوتا۔ صدا بھی کوہ کے لیے بارِ خاطر ہوتی ہے، اور وہ اسے لوٹا دیتا ہے۔ اب اس کے سوا کیا چارہ ہے کہ شرر کی طرح فنا ہوجائیں۔ بے تکلف کا کلمہ محاورۃ آیا ہے۔ جیسے ’’تکلف برطرف‘‘ اور غالبؔ کا عام انداز ہے۔

    مگر مولانا طباطبائی کچھ اور فرماتے ہیں۔ ان کے خیال میں مرزا غالبؔ ’’شرار کی از خود رفتگی و بے تکلفی دیکھ کر کہتے ہیں تیری طرح بھلا ہم کیا بے تکلف ہوں اور کیونکر ضبط کو ہاتھ سے دیں۔ یہاں تو یہ حال ہے کہ اگر صدا کی طرح سبک و لطیف بن کر تڑپیں تو بھی کوہ ایسے سنگین و پرتمکین جسم کے بارِ خاطر ہوجائیں۔ غرص یہ کہ جہاں تک ہوسکے ضبط کرنا اور پھونک پھونک کر قدم دھرنا چاہیے۔ نہیں تو سب کے بارِ خاطر ہوجائیے گا۔‘‘

    ویسے تو مولانا طباطبائی نے ضرورت سے کچھ زیادہ ہی باریک بینی سے کام لیا ہے۔ یعنی صدا کی لطافت کو کوہ کی سنگینی سے ٹکرایاہے اور اس کی تڑپ کو اس کی پرتمکینی کے مقابل لائے ہیں۔ لیکن کیا ہوجائیے میں جو استفہام واضح طور پر موجود ہے، اسے موصوف نے بالکل نظرانداز کردیا ہے۔ علاوہ ازیں فرماتے ہیں ’’مناسبت اس شعر میں یہ ہے کہ شرار پتھر سے نکلتا ہے اور صدا پہاڑ سے ٹکراکر پلٹ آتی ہے، یعنی اس کے بارِ خاطر ہوتی ہے اور اسی سبب سے وہ اسے روکتا ہے۔‘‘ شرر کے پتھر سے نکلنے میں نکتہ کیا پیدا ہوا۔ یہ بات مبہم رہی۔

    دوسرے شارحین نے اس شعر سے ’’فنا‘‘ ہی کا مفہوم لیا ہے، نہ کہ ’’ضبط و تمکین‘‘ کا بقول مولانا حسرتؔ ’’اسی اندازِ سوال سے یہ ظاہر کرنا چاہتے ہیں کہ میں شرار کی مانند بے تکلف دم بھر میں جل کر فنا ہوجانا چاہتا ہوں۔‘‘ لیکن یہاں بھی ایک طرف تو ’’بے تکلف‘‘ کے لفظ پر بے جا اصرار کیا گیا ہے، اور اسے ’’بے دھڑک‘‘ کے معنوں میں لیا گیا ہے۔ حالانکہ یہ صرف محاورۃ آیا ہے اور مطلب اس کا صرف یہ کہ اب صاف صاف ہی کیوں نہ پوچھ لیں، یا کیوں نہ کہہ ڈالیں کہ ہم کیا ہوجائیں؟‘‘ اس کے علاوہ پہلی اور دوسری بات کا ربط واضح نہیں ہوتا۔ یعنی ہمارا مادی وجود اس حدتک معدوم ہوجائے کہ صرف صدا بن کر رہ جائیں تو زمانے کو یہ وجود بقدرِ یک صدا بھی قبول نہیں ہوتا۔ اس کے بعد اگلا قدم مادی اعتبار سے نابود ہوجانا ہی ہے۔

    اس طرح یہ شعر انتہائی فناپسندی کاحامل معلوم ہوتا ہے۔ لیکن دراصل بات اگلے شعر سے مل کر مکمل ہوتی ہے۔ یہ صرف دو ہی شعر ہیں اور ان کو قطعہ نہ سمجھیں تب بھی ان میں معنوی ربط موجود ہے، اور دوسرا شعر آپ سے آپ پہلے کا تکملہ بن گیا ہے،

    بیضہ آساننگِ بال و پر ہے یہ کنجِ قفس

    از سرِ نو زندگی ہو کر رہا ہوجائیے

    عام محاورے میں ’’زندگی پاکر‘‘ ہونا چاہیے تھا۔ ’’ازسرِ نو زندگی پاکر رہا ہوجائیے۔‘‘ زندگی ہوکر غالب کی جرأت مندی ہے۔ وہ اس طرح کے چونکانے والے کلمات سے اکثر بعض لطیف نکات کی طرف توجہ دلاتے ہیں۔ ’’ازسرِنو زندگی پانے‘‘ میں فنا کا وقفہ آجاتا ہے۔ جو غالبؔ کا مقصود نہ تھا۔ زندگی ہوجانے میں بلاغت یہ رکھی ہے کہ سراپا زندگی اور محض زندگی یا اپنے وجود کوتمام تر زندگی بنادیا جائے۔ جس طرح بال و پرلے کر بیضے میں بیٹھے رہنا بال و پر کی تذلیل ہے، اسی طرح ہمارا تمام اسبابِ روحانی رکھتے ہوئے اس طرح بسم اللہ کے گنبد میں گھٹے رہنا ہمارے وجود کے لیے ایک ذلّت ہے، گویا مضمون فنا کی مجہول خواہش کی بجائے حوصلہ مندی پر تمام ہوا۔

    یہ صرف دوہی شعر ہیں، جن پر غالبؔ کے معترضین کو بڑی الجھن رہی ہے۔ ایک بزرگ نے غالبؔ کی دشوار گوئی کے ضمن میں انہیں پرلے دے کی ہے۔ اور اسی زمین میں ’’شرارِ جستہ کا جواب‘‘ دیا ہے جس کا ایک بند مجھے یاد آتا ہے،

    بات آسان بھی ہو تو مشکل بنا کر بولیے

    گول کہنا ہو تو اک انڈا دکھاکر بولیے

    پہلو ماژندرانی ادبدا کر بولیے

    کوئی ہندی داں نہ سمجھے منہ بناکر بولیے

    جون ہندی چھوڑ کر از بک نما ہوجائیے

    اے اسدؔ دلی میں کابل کا گدھا ہوجائے

    (نادانؔ دہلوی)

    *

    تھیں نبات النعشِ گردوں دن کو پردے میں نہاں

    شب کو ان کے جی میں کیا آئی کہ عریاں ہوگئیں

    اس شعر پر ’’ادبِ لطیف‘‘ کے ایک سابقہ شمارے میں بطورِ خاص دعوتِ فکر دی گئی تھی، جس سے ظاہر ہے کہ اس نے ذہنوں میں کچھ الجھن ضرور پیدا کی ہے۔ بعض نامہ نگار حضرات نے اپنی اپنی تشریحات بھی پیش کی تھیں جن میں بعض لطیف نکات نکلتے تھے۔ دراصل شعر شاعر کے ذہن سے نکل کر سب کا ہوجاتا ہے۔ سب کی طبیعت اس سے اپنے اپنے رنگ اور مذاق کے مطابق اثر قبول کرتی ہے۔ اس میں کوئی مضائقہ بھی نہیں۔ کیونکہ شعر تو صرف ایک محرک کی حیثیت رکھتا ہے۔ اصل چیز اس کا تاثر ہی ہے۔ پھر بھی محض تحقیقی نقطۂ نظر سے یہ مقدم کہ شاعر کے مافی الضمیر تک پہنچنے کی کوشش کی جائے۔ موجودہ تشریحات کا مقصد بھی صرف اتنا ہی ہے۔ کچھ ایسا نہیں کہ ازسرِ نو زندگی ہو کر رہا ہوجانے کی خواہش ہمارے آپ کے دل کی سی بات ہو۔

    البتہ خدشہ ان تشریحات میں یہ رہتا ہے کہ شارحین کی نظر منطقی استدلال کی عادی ہوجاتی ہے، اور جب تک مضمون دو اور دو چار تک نہ پہنچ جائے تشفی نہیں ہوتی، کیونکہ بات کے سمجھانے کا پیرایہ نہیں ملتا اور وہ منطقی پیرایہ ہی ہوسکتا ہے۔ اس شعر کی تشریح میں شارحین نے عموماً ’’نبات النعش‘‘ کے لغوی مسئلے کو صاف کرنے پر اکتفا کی ہے (یعنی یہ ’’بنت النعش‘‘ کی جمع ہے) اور میرے خیال میں ٹھیک ہی ہے۔ یہ ایسا شعر نہیں جس میں ڈور کا سرا ڈھونڈنے کی ضرورت ہو۔ مطلب اس کا بڑا سادہ، بڑا واضح اور صرف اتنا ہی ہے جتنا کہ پہلی نظر میں دکھائی دیتا ہے۔ اسے کتنا سطحی یا کتنا گہرا کہا جائے۔ یہ ہمارے اپنے گمان پر مبنی ہوگا۔ شاعر کے ساتھ خوش گمانی برتنی چاہیے۔ اور یہاں تو غالبؔ جیسا شاعر ہے جس کی حکیمانہ نطر ثابت اور مسلم ہے۔ اس نے حکیمانہ نظر پائی تھی، اور شوخ، شاعرانہ، رومانوی بیان۔ اس لحاظ سے یہاں بیان یا مشاہدہ تو صرف اتنا ہی ہے کہ ’’نبات النعش‘‘ دن کو پوشیدہ تھیں رات کو ظاہر ہوگئیں۔ خدا جانے یہ کیا بھید ہے۔ ع ’’شب کو ان کے جی میں کیا آئی کہ عریاں ہوگئیں!‘‘ شاعرنے ’’نبات النعش‘‘ کے رومان انگیز وسیلے سے مظاہر قدرت کی طرف توجہ دلائی ہے کہ یہ اجرامِ فلکی اور یہ شب و روز کی گردشیں کیا معنی رکھتی ہیں؟ یہ باتیں سمجھ میں نہیں آتئیں۔ کچھ تماشے دکھائی دیتے ہیں مگر حیرت کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔

    غالبؔ نے اس حیرت کا اظہار اور بھی جگہ جگہ کیا ہے اور آسمان کی طرف بھی بار بار نظر اٹھائی ہے جس میں ایسی ہی شوخی پائی جاتی ہے۔

    دیگر،

    شب ہوئی پھر انجم رخشندہ کا منظر کھلا

    اس تکلف سے کہ گویا بت کدے کا در کھلا

    کیوں اندھیری ہے شبِ غم، ہے بلاؤں کا نزول

    آج اُدھر ہی کو رہے گا دیدۂ اختر کھلا

    شارحین نے اس آخری شعر پر جو رائیں دی ہیں ان کا خلاصہ یہ نکلتا ہے کہ (۱) تارے بلاؤں سے ڈر گئے ہیں، یا (۲) بلاؤں کے اُترنے کا تماشا دیکھنے کے لیے اوپر کی طرف نظریں اٹھالیں ہیں۔ میری ناچیز رائے میں یہاں بھی لہجہ استفہامیہ اور طنزیہ ہے۔ مفہوم یہ نکلتا ہے کہ آج شبِ غم میں جب کہ ہم پر بلائیں ٹوٹ رہی ہیں تو کیا ستارے ہماری طرف نہ دیکھیں گے؟ مراد: احوالِ غم سے ؤسمان کی بے پروائی۔

    جب کہ تجھ بن کوئی نہیں موجود

    پھریہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے؟

    اس قطعہ بند کے سارے شعراءسی حیرت کے حامل ہیں، اور معنوی لحاظ سے زیر نظر شعر بھی اسی سلسلے کا ہے۔ مگر وہاں جو بات صاف صاف پوچھی گئی تھی، یہاں نہیں پوچھی گئی۔ صرف اظہارِ حیرت ہے اور اس حیرت میں ہزار سوال پوشیدہ ہیں۔

    مأخذ:

    ادب لطیف،لاہور (Pg. 7)

      • ناشر: افتخار علی چودھری
      • سن اشاعت: 1960

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے