Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

شہرت عام اور بقائے دوام کا دربار

محمد حسین آزاد

شہرت عام اور بقائے دوام کا دربار

محمد حسین آزاد

MORE BYمحمد حسین آزاد

    اے ملک فنا کے رہنے والو! دیکھو اس دربار میں تمہارے مختلف فرقوں کے عالی وقار جلوہ گر ہیں۔ بہت سے حب الوطن کے شہیدہیں، جنہوں نے اپنے ملک کے نام پرمیدان جنگ میں جاکر خونی خلعت پہنے۔ اکثر مصنف اور شاعر ہیں جنہیں اسی ہاتف غیبی کا خطاب زیبا ہے جس کے الہام سے وہ مطالب غیبی ادا کرتے رہے اور بے عیبی سے زندگی بسر کر گئے۔ ایسے بزرگ اور دانا بھی ہیں، جو بزم تحقیق کے صدر اور اپنے عہد کے باعث فخر رہے، بہت سے نیک بخت نیکی کے رستے بتاتے رہے جس سے ملک فنا میں بقا کی عمارت بناتے رہے۔

    بقائے دوام دو طرح کی ہیں۔ ایک تو وہی جس طرح روح فی الحقیقت بعد مرنے کے رہ جائےگی کہ اس کے لئے فنا نہیں۔ دوسری وہ عالم یادگار کی بقا، جس کی بدولت لوگ نام کی عمر سے جیتے ہیں اور شہرت دوام کی عمرپاتے ہیں۔ حق یہ ہے کہ اچھے سے اچھے اور بڑے سے بڑے کام جن جن سے ہوئے یا تو ثو اب آخرت کے لئے یا دنیا کی ناموری اور شہرت کے لئے ہوئے، لیکن میں اس دربار میں انہیں لوگوں کو لاؤں گا جنہوں نے اپنی شہرت اور ناموری کو سمجھا۔ اسی واسطے جو لوگ دین کے بانی اور مذہب کے رہنماتھے، ان کے نام شہرت کی فہرست سے نکال ڈالتا ہوں مگر بڑا فکر یہ ہے کہ جن لوگوں کا ذکر کرتا ہوں ان کی حق تلفی نہ ہو جائے کیوں کہ جن بے چاروں نے ساری جانفشانی اور عمر بھی کی محنتوں کا اجر فقط نام کو سمجھا، ان کے حصے میں کسی طرح کا نقصان ڈالنا سخت ستم ہے۔

    اسی لحاظ سے مجھے تمام مصنفین اور مؤرخین سے مدد مانگی پڑی۔ چنانچہ اکثروں کا نہایت احسان مندہوں کہ انہوں نے ایسے ایسے لوگوں کی ایک فہرست بناکر عنایت کی اور مجھے بھی کل دوپہر سے شام تک اسی کے مقابلے میں گزری۔ نامور ان موصوف کے حالات ایسے دل پر چھائے ہوئے تھے کہ انہوں نے مجھے سوتے سوتے چونکا دیا۔ میں اس عالم میں ایک خواب دیکھ رہا تھا۔ چونکہ بیان اس کا لطف سے خالی نہیں، اس لئے عرض کرتا ہوں۔

    خوا ب میں دیکھتا ہوں کہ گویا میں ہوا کھانے چلا ہوں اور چلتے چلتے ایک میدان 1 وسیع الفضا میں جا نکلا ہوں، جس کی وسعت اور دل افزائی میدان خیال سے بھی زیادہ ہے۔ دیکھتا ہوں کہ میدان مذکور میں اس قدر کثرت سے لوگ جمع ہیں کہ نہ انہیں محاسب فکر شمار کر سکتا ہے، نہ قلم تحریر فہرست تیار کر سکتا ہے۔ اور جو لوگ اس میں جمع ہیں وہ غرض مند لوگ ہیں کہ اپنی اپنی کامیابی کی تدبیروں میں لگے ہوئے ہیں۔ وہاں ایک پہاڑ ہے۔ جس کی چوٹی گوش سحاب سے سرگوشیاں کر رہی ہے۔ پہلو اس کے جس طرف سے دیکھو، ایسے سر پھوڑ اور سینہ توڑ ہیں کہ کسی مخلوق کے پاؤں نہیں جمتے تھے۔ ہاں حضرت انسان کے ناخن تدبیر کچھ کام کر جائیں تو کر جائیں، میرے دوستو! اس رستہ کی دشواریوں کو سر پھوڑ اور سینہ توڑ پہاڑوں سے تشبیہ دے کر ہم خوش ہوتے ہیں مگرنرمی نا منصفی ہے۔ پتھر کی چھاتی اور لوہے کا کلیجہ لے کر، تو ان بلاؤں کو جھیلے۔ جن پر وہ مصیبتیں گزریں، وہیں جانیں۔

    یکایک قلہ کوہ سے ایک شہنائی کی سی آواز آنی شروع ہوئی۔ یہ دل کش آواز سب کو بےاختیار اپنی طرف کھینچتی تھی، اس طرح کہ دل میں جان اورجان میں زندہ دلی پیدا ہوتی تھی بلکہ خیال کووسعت کے ساتھ ایسی رفعت دیتی تھی جس سے انسان مرتبہ انسانیت سے بھی بڑھ کر قدم مارنے لگتا تھا۔ لیکن یہ عجیب بات تھی کہ اتنے انبوہ کثیر میں تھوڑے ہی اشخاص تھے جن کے کان اس کے سننے کی قابلیت یاا س کے نغموں کا مذاق رکھتے تھے۔

    ایک بات کے دیکھنے سے مجھے نہایت تعجب ہوا اور وہ تعجب فورا ًجاتا بھی رہا۔ یعنی دوسری طرف جو نظر پڑی تو دیکھتا ہوں کہ کچھ خوب صورت خوب صورت عورتیں ہیں اور بہت سے لوگ ان کے تماشائے جمال میں محو ہو رہے ہیں۔ یہ عورتیں پریوں کا لباس پہنے ہیں۔ مگر یہ بھی وہیں چرچا سناکہ درحقیقت نہ وہ پریاں ہیں، نہ پری زاد عورتیں ہیں۔ کوئی ان میں غفلت، کوئی عیاشی ہے، کوئی خودپسندی، کوئی بے پروائی ہے۔ جب کوئی ہمت والاترقی کے رستہ میں سفر کرتا ہے تو یہ ضرور ملتی ہیں۔ انہیں میں پھنس کر اہل ترقی اپنے مقاصد سے محروم رہ جاتے ہیں۔

    ان پر درختوں کے جھنڈ سایہ کئے تھے۔ رنگ برنگ کے پھول کھلے تھے۔ گوناں گوں میوے جھوم رہے تھے۔ طرح طرح کے جانور بول رہے تھے۔ نیچے قدرتی نہریں، اوپر ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں چل رہی تھیں۔ وہیں وہ دانش فریب پریاں پتھروں کی سلوں پر، پانی میں پاؤں لٹکائے بیٹھی تھیں اور آپس میں چھینٹے لڑ رہی تھیں۔ مگر ایسے ایسے الجھاوے بلندیِ کوہ کے ادھرہی ادھر تھے۔ یہ بھی صاف معلوم ہوتا تھا کہ جو لوگ ان جعلی پریوں کی طرف مائل ہیں وہ اگرچہ اقوام مختلفہ، عہدہ ہائے متفرقہ، عمرہائے متفاوتہ رکھتے ہیں، مگر وہی ہیں جوحوصلہ کے چھوٹے، ہمت کے ہٹیے اور طبیعت کے پست ہیں۔

    دوسری طرف دیکھا کہ جو بلند حوصلہ، صاحب ہمت، عالی طبیعت تھے وہ ان سے الگ ہو گئے اورغول کے غول شہنائی کی آواز کی طرف بلندی کوہ پر متوجہ ہوئے۔ جس قدریہ لوگ آگے بڑھتے تھے، اسی قدر وہ آواز کانوں کو خوش آئندمعلوم ہوتی تھی۔ مجھے ایسا معلوم ہواکہ بہت سے چیدہ اور برگزیدہ اشخاص اس ارادہ سے آگے بڑھے کہ بلندی کوہ پر چڑھ جائیں اور جس طرح ہو سکے پاس جاکر اس نغمہ آسمانی سے قوت روحانی حاصل کریں۔ چنانچہ سب لوگ کچھ کچھ چیزیں اپنے اپنے ساتھ لینے لگے۔ معلوم ہوتا تھا کہ گویا آگے کے راستہ کا سامان لے رہے ہیں۔ سامان بھی ہرایک کا الگ الگ تھا۔ کسی کے ایک ہاتھ میں شمشیر برہنہ عَلَم تھی، ایک ہاتھ میں نشان تھا۔ کسی کے ہاتھ میں کاغذوں کے اجزا تھے۔ کسی کی بغل میں ایک کمپاس تھی۔ کوئی پنسلیں لئے تھا۔ کوئی جہازی قطب نما اور دوربین سنبھالے تھا۔ بعضوں کے سرپر تاج شاہی دھرا تھا۔ بعضوں کے تن پر لباس جنگی آراستہ تھا۔

    غرض کہ علم ریاضی اور جرثقیل کا کوئی آلہ نہ تھا، جو اس وقت کام میں نہ آ رہا ہو۔ اسی عالم میں دیکھتا ہوں کہ ایک فرشتہ رحمت میرے داہنے ہاتھ کی طرف کھڑا ہے اور مجھے بھی اس بلندی کا شائق دیکھ کر کہتا ہے کہ یہ سرگرمی اور گرم جوشی تمہاری ہمیں نہایت پسند ہے۔ اس نے یہ بھی صلاح دی کہ ایک نقاب منہ پر ڈال لو۔ میں نے بے تامل تعمیل کی۔ بعد اس کے گروہ مذکور فرقہ فرقہ میں منقسم ہو گیا۔ کوہ مذکور پر رستوں کا کچھ شمار نہ تھا۔ سب نے ایک ایک راہ پکڑ لی۔ چنانچہ کچھ لوگوں کو دیکھا کہ چھوٹی چھوٹی گھاٹیوں میں ہولئے۔ وہ تھوڑی ہی دور چڑھے تھے کہ ان کا راستہ ختم ہوا اور وہ تھم گئے۔ مجھے معلوم ہواکہ ان پست ہمتوں نے صنعت گری اور دست کاری کی راہ لی تھی کہ روپیہ کے بھوکے تھے اور جلد محنت کا صلہ چاہتے تھے۔

    میں ان لوگوں کے پیچھے تھا جنہوں نے دلاوروں اورجاں بازوں کے گروہ کو پیچھے چھوڑا تھا اور خیال کیا تھا کہ چڑھائی کے رستے ہم نے پالئے۔ مگروہ رستے ایسے پیچ درپیچ اور درہم برہم معلوم ہوئے کہ تھوڑا ہی آگے بڑھ کراس کے ہیر پھیر میں سرگرداں ہو گئے۔ ہرچند برابر قدم مارے جاتے تھے مگر جب دیکھا تو بہت کم آگے بڑھتے تھے۔ میرے فرشتہ رحمت نے ہدایت کی کہ یہ وہی لوگ ہیں کہ جہاں عقل صادق اور عزم کامل کام دیتا ہے، وہاں چاہتے ہیں کہ فقط چالاکی سے کام کر جائیں بعضے ایسے بھی تھے کہ بہت آگے بڑھ گئے تھے۔ مگر ایک ہی قدم ایسا بے موقع پڑا کہ جتناگھنٹوں میں بڑھے تھے اتنا دم بھر میں نیچے آن پڑے۔ بلکہ بعض ایسے ہو گئے کہ پھر چڑھنے کے قابل ہی نہ رہے۔ اس سے وہ لوگ مرادہیں کہ جو مدد روزگار سے ترقیاں 2 کرتے چلے جاتے ہیں مگر کوئی ایسی حرکت ناشائستہ کرتے ہیں کہ دفعتا گر پڑتے ہیں اورآئندہ کے لئے بالکل اس سے علاقہ ٹوٹ جاتا ہے۔

    ہم اتنے عرصہ میں بہت اونچے چڑھ گئے اور معلوم ہوا کہ جو چھوٹے بڑے رستے پہاڑ کے نیچے سے چلتے ہیں، اوپر آکردوشاہراہوں سے ملتے ہیں۔ چنانچہ وہاں آکر تمام صاحب ہمت دو گروہوں میں منقسم ہو گئے۔ ان دونوں شاہراہوں میں ذرا ذرا آگے بڑھ کرایک ایک بھوت ڈراؤنی صورت، ہیبت ناک مورت کھڑا تھا کہ آگے جانے سے روکتا تھا۔ ان میں سے ایک کے ہاتھ میں ایک درختِ خاردار کا ٹہنا تھا، بھوت کا نام دیو ہلاک تھا اور کانٹے وہی ترقی کے موانع اور موت کے بہانے تھے جواوالعزموں کو راہ ترقی میں پیش آتے ہیں۔ چنانچہ جو سامنے آتا تھا ٹہنے کی مار منہ پر کھاتا تھا۔ دیو کی شکل ایسی خونخوار تھی گویا موت سامنے کھڑی ہے۔ ان کانٹوں کی مارسے غول کی غول اہل ہمت بھاگ بھاگ کر پیچھے ہٹتے تھے اور ڈر ڈر کر چلاتے تھے کہ ہے ہے موت! ہے ہے موت!

    دوسرے رستہ پر جو بھوت تھا اس کا نام حسدتھا۔ پہلے بھوت کی طرح کچھ اس کے ہاتھ میں نہیں تھا لیکن ڈراؤنی آواز اور بھونڈی صورت اور مکروہ و معیوب کلمے جو اس کی زبان سے نکلتے تھے، اس لئے اس کا منہ ایسا برا معلوم ہوتا تھا کہ اس کی طرف دیکھا نہ جاتا تھا۔ اس کے سامنے ایک کیچڑ کا حوض بھرا تھا کہ برابر چھینٹیں اڑائے جاتا تھا اور ہر ایک سفیدپوش کے کپڑے خراب کرتا تھا۔ جب یہ حال دیکھا تو اکثر اشخاص ہم میں سے بیدل ہو کر رہ رہ گئے اور بعضے اپنے یہاں تک آنے پر کمال نادم ہوئے۔ میرا یہ حال تھا کہ یہ خطرناک حالتیں دیکھ دیکھ کر دل ہراساں ہوا جاتا تھا اور قدم آگے نہ اٹھتا تھا۔ اتنے میں اس شہنائی کی آواز اس تیزی کے ساتھ کان میں آئی کہ بجھے ہوئے ارادے پھر چمک اٹھے۔ جس قد رکہ دل زندہ ہوئے تھے، اسی قدر خوف و ہراس خاک ہو ہوکر اڑتے گئے۔ چنانچہ بہت سے جانباز جو شمشیریں علم کئے ہوئے تھے اس کڑک دمک سے قدم مارتے آگے بڑھے، گویا حریف سے میدان جنگ مانگتے ہیں۔

    یہاں تک کہ جہاں دیو کھڑا تھا، یہ اس دہانہ سے نکل گئے اور وہ موت کے دانت نکالے دیکھتا رہ گیا۔ جو لوگ سنجیدہ مزاج اور طبیعت کے دھیمے تھے وہ اس رستے پر پڑے جدھر حسد کا بھوت کھڑا تھا۔ مگر اس آواز کے ذوق شوق نے انہیں بھی ایسا مست کیا کہ گالیاں کھاتے، کیچڑ میں نہاتے، مرپچ کر یہ بھی اس کی حد سے نکل گئے۔ چنانچہ جو کچھ رستے کی صعوبتیں اور خرابیاں تھیں وہ بھی ان بھوتوں ہی تک تھیں۔ آگے دیکھا توان کی دست رس سے باہر ہیں اور رستہ بھی صاف اور ہموار بلکہ ایسا خوشنما ہے کہ مسافر جلد جلد آگے بڑھے اور ایک سپاٹے میں پہاڑ کی چوٹی پر جا پہنچے۔ اس میدان روح افزا میں پہنچتے ہی ایسی جان بخش اور روحانی ہوا چلنے لگی جس سے روح اور زندگانی کو قوت دوامی حاصل ہوتی تھی۔ تمام میدان جو نظر کے گردوپیش دکھائی دیتا تھا اس کا رنگ کبھی نور سحر تھا اور کبھی شام شفق، جس سے قوس قزح کے رنگ میں کبھی شہرت عام اور کبھی بقائے دوام کے حروف عیاں تھے۔ یہ نور سرور کا عالم دل کو اس طرح تسلی اور تشفی دیتا تھا کہ خود بخود پچھلی محنتوں کے غباردل سے دھوئے جاتے تھے اور اس مجمع عام میں امن وامان اور دلی آرام پھیلتا تھا جس کا سرور لوگوں کے چہروں سے پھولوں کی شادابی ہوکرعیاں تھا۔

    ناگہاں ایک ایوان عالی شان دکھائی دیا کہ اس کی چار طرف پھاٹک تھے۔ اس پہاڑ کی چوٹی پر دیکھا کہ پھولوں کے تختہ میں ایک پری حور شمائل چاندی کی کرسی پر بیٹھی ہے اور وہی شہنائی بجا رہی ہے جس کے میٹھے میٹھے سروں نے ان مشتاقوں کے انبوہ کو یہاں تک کھینچا تھا۔ پری ان کی طرف دیکھ کر مسکراتی تھی اور سروں سے اب ایسی صدا آتی تھی گویا آنے والوں کو آفرین و شاباش دیتی ہے اور کہتی ہے کہ ’’خیر مقدم، خیر مقدم! خوش آمدید، صفا آور دید۔ ‘‘ اس آواز سے یہ خدائی لشکر کئی فرقوں میں منقسم ہو گیا۔ چنانچہ مؤرخوں کا گروہ ایک دروازہ پر استادہ ہوا تاکہ صاحب مراتب اشخاص کو حسب مدارج ایوان جلوس داخل کرے۔ یکایک وہ شہنائی جس سے کبھی شوق انگیز و جوش خیز اور کبھی جنگی باجوں کے سر نکلتے تھے اب اس سے ظفریابی اور مبارک بادی کی صدا آنے لگی۔ تمام مکان گونج اٹھا اور دروازے خود بخود کھل گئے۔

    جوشخص سب سے پہلے آگے بڑھا، معلوم ہوا کہ کوئی راجوں کا راجہ مہاراجہ ہے۔ چاند کی روشنی چہرہ کے گردہالہ کئے ہے۔ سر پر سورج کی کرن کا تاج ہے۔ اس کے استقلال کو دیکھ کر لنکا کا کوٹ پانی پانی ہوا جاتا ہے۔ اس کی حق داری، جنگل اور پہاڑوں کے حیوانوں کو جاں نثاری میں حاضر کرتی ہے۔ تمام دیوی دیوتا دامنوں کے سایہ میں لئے آتے ہیں۔ فرقہ فرقہ کے علما اور مؤرخ اسے دیکھتے ہی شاہانہ طور سے لینے کو بڑھے اوروہ بھی متانت اور انکسار کے ساتھ سب سے پیش آیا۔ مگر ایک شخص کہن سالہ، رنگت کا کالا، ایک پوتھی بغل میں لئے ہندوؤں کے غول سے نکلا اور بہ آواز بلند چلایا کہ آنکھوں والو، کچھ خیر ہے؟ دیکھو، دیکھو، ترتیب کے سلسلہ کو برہم نہ کرو اور نرنکار کے نور کو اجسام خاک میں نہ ملاؤ۔ یہ کہہ کر آگے بڑھا اور اپنی پوتھی نذر گزرانی۔ اس نے نذر قبول کی اور نہایت خوشی سے اس کے لینے کو ہاتھ بڑھایا تو معلوم ہوا کہ اس کا ہاتھ بھی فقط سورج کی کرن تھا۔ سب ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے، کوئی کچھ سمجھا کوئی کچھ سمجھا۔ 3 اس وقت ایک بمان یعنی تخت ہوادا رآیا۔ وہ اس پر سوار ہوکر آسمان کو اڑ گیا۔ معلوم ہوا کہ یہ رام چندرجی ہیں اوریہ والمیک ہے جس نے رامائن نذردی۔

    سب لوگ ابھی والمیک کی ہدایت کا شکریہ ادا کر رہے تھے کہ اتنے میں ایک اور آمدآمد ہوئی۔ دیکھا کہ ایک تخت طلسمات کو بتیس پریاں اڑائے لئے آتی ہیں۔ اس پر ایک اورراجہ بیٹھا ہے، مگر نہایت دیرینہ سال۔ اسے فرقہ فرقہ کے علما اور مؤرخ لینے کو نکلے مگرپنڈت اور مہاجن لوگ بہت بے قراری سے دوڑے۔ معلوم ہوا کہ راجہ تو مہاراجہ بکرماجیت تھے اور تخت سنگھاسن بتیسی۔ پریاں اتنی بات کہہ کر ہوا ہوگئیں کہ جب تک سورج کا سونا اور چاند کی چاندنی چمکتی ہے نہ آپ کا سنہ ہٹےگا نہ سکہ مٹےگا۔ برہمنوں اور پنڈتوں نے تصدیق کی اور انہیں لے جاکر ایک مسند پر بٹھا دیا۔

    ایک راجہ کے آنے پر لوگوں میں کچھ قیل و قال ہوئی کیونکہ وہ چاہتا تھا کہ اپنے دو مصاحبوں کو بھی ساتھ لے جائے اور اراکین دربار کہتے تھے کہ یہاں تمکنت اور غرور کا گزارہ نہیں۔ اتنے میں وہی ۳۲ پریاں پھر آئیں۔ چنانچہ ان کی سفارش سے اسے بھی لے گئے۔ جس وقت راجہ نے مسندپر قدم رکھا ایک پنڈت آیا۔ دونوں ہاتھ اٹھاکر آشیرواد کہی اوربقائے دوام کا تاج سر پر رکھ دیا، جس میں ہیرے اور پنے کے نودانے ستاروں پر آنکھ مار رہے تھے۔ معلوم ہوا کہ وہ راجہ بھوج تھے اور ۲ ۳ پریوں کا جھرمٹ وہی کتاب سنگھاسن بتیسی تھی جو ان کے عہد میں تصنیف ہوئی اور جس نے تاج سر پر رکھا وہ کالی داس شاعر تھا، جس نے ان کے عہدمیں نو کتابیں لکھ کر فصاحت و بلاغت کو زندگی جاوید بخشی ہے۔

    اس طرف تو برابر یہی کاروبار جاری تھے، اتنے میں معلوم ہوا کہ دوسرے دروازہ سے بھی داخلہ شروع ہوا۔ میں اس طرف متوجہ ہوا۔ دیکھتا ہوں کہ وہ کمرہ بھی فرش فروش، جھاڑ فانوس سے بقعہ نور بنا ہوا ہے۔ ایک جوان پیل پیکر، ہاتھ میں گرز گاؤ سر، نشہ شجاعت میں مست، جھومتا جھامتا چلاآتا ہے۔ جہاں قدم رکھتا ہے، ٹخنوں تک زمین میں ڈوب جاتا ہے۔ گرد اس کے شاہان کیانی اور پہلوانان ایرانی موجود ہیں کہ درفش کاویانی کے سایہ بے زوال میں لئے آتے ہیں۔ حب قوم اور حب وطن اس کے دائیں بائیں پھول برساتے تھے۔ اس کی نگاہوں سے شجاعت کاخون ٹپکتا تھا اور سر پرکلہ شیر کا خود فولادی دھرا تھا۔ مؤرخ اور شعرا اس کے انتظار میں دروازے پر کھڑے تھے۔ سب نے اسے بچشم تعظیم دیکھا۔ انہی میں ایک پیر مرد دیرینہ سال جس کے چہرہ سے مایوسی اور ناکامی کے آثار آشکارا تھے، وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر اندلے گیا اور ایک کرسی پر بٹھایا، جسے بجائے چارپایوں کے چار شیر کندھوں پر اٹھائے کھڑے تھے۔ پھر پیرمرد نے اہل مجلس کی طرف متوجہ ہوکر چنداشعار نہایت زور و شور کے پڑھے نہیں بلکہ اس کے کارناموں کی تصویر صفحہ ہستی پر ایسے رنگ سے کھینچی جو قیامت تک رہے گی۔ بہادر پہلوان نے اٹھ کر اس کا شکریہ ادا کیا اور گل فردوس کا ایک طرہ اس کے سرپر آویزاں کرکے دعا کی کہ الہی یہ بھی قیامت تک شگفتہ و شاداب رہے۔ تمام اہل محفل نے آمین کہی۔

    معلوم ہوا کہ وہ بہادر، ایران کاحامی، شیرسیستانی، رستم پہلوان ہے۔ اور کہن سال مایوس فردوسی ہے، جو شاہنامہ لکھ کر اس کے انعام سے محروم رہا۔

    بعداس کے ایک جوان آگے بڑھا جس کاحسن شباب نوخیز اور دل بہادری اورشجاعت سے لبریز تھا۔ سر پر تاج شاہی تھا مگر اس سے ایرانی پہلوانی پہلو چراتی تھی۔ ساتھ اس کے حکمت یونانی چتر لگائے تھی۔ میں نے لوگوں سے پوچھا، مگرسب اسے دیکھ کر ایسے محوہوئے کہ کسی نے جواب نہ دیا۔ بہت سے مؤرخ اور محقق اس کے لینے کو بڑھے مگر سب ناواقف تھے۔ وہ اس تخت کی طرف لے چلے، جو کہانیاں اور افسانوں کے ناموروں کے لئے تیار ہوا تھا۔ چنانچہ ایک شخص جس کی وضع اور لباس سب سے علاحدہ تھا، ایک انبوہ کو چیر کر نکلا۔ وہ کوئی یونانی مؤرخ تھا۔ اس نے اس کا ہاتھ پکڑا اور اندر لے جاکر سب سے پہلی کرسی پر بیٹھا دیا۔ فرشتہ رحمت نے میرے کان میں کہا کہ تم اس گوشے کی طرف آجاؤ کہ تمہاری نظر سب پر پڑے اور تمہیں کوئی نہ دیکھے۔ یہ سکندر یونانی ہے جس کے کارنامے لوگوں نے کہانی اور افسانے بنا دیے ہیں۔

    اس کے پیچھے پیچھے ایک بادشاہ آیا کہ سر پر کلاہ کیانی اور اس پر درفش کا ویانی جھومتا تھا، مگر پھریرا علم کا پارہ پارہ ہو رہا تھا۔ وہ آہستہ آہستہ اس طرح آتا تھا گویا اپنے زخم کو بچائے ہوئے آتا ہے۔ رنگ زرد تھا اور شرم سے سر جھکائے تھا۔ جب وہ آیا تو سکندر بڑی عظمت کے ساتھ استقبال کو اٹھا اوراپنے برابر بٹھایا۔ باوجود اس کے جس قدر سکندر زیادہ تعظیم کرتا تھا، اس کی شرمندگی زیادہ ہوتی تھی۔ وہ دارا بادشاہ ایران تھا۔ دفعتا ًسکندر نے آواز دی، ’’انہیں لاؤ۔ ‘‘ جو شخص داخل ہوا وہ ایک پیر مرد بزرگ صورت تھا کہ مقیشی داڑھی کے ساتھ بڑھاپے کے نور نے اس کے چہرہ کو روشن کیا تھا۔ ہاتھ میں عصائے پیری تھا۔ جس وقت وہ آیا سکندر خود اٹھا اس کا ہاتھ پکڑ کر لایا، اپنے برابر کرسی پر بٹھایا اور پانچ لڑی کا سہرا اس کے سر پر باندھا۔ معلوم ہوا کہ یہ نظامی گنجوی ہیں اور اس سہرے میں خمسہ کے مضامین سے پھول پروئے ہوئے ہیں۔ سکندر پھر اٹھا اور تھوڑا سا پانی اس پر چھڑک کر کہا، ’’اب یہ کبھی نہ کملائیں گے۔ ‘‘

    بعد اس کے جوشخص آیا، اگرچہ سادہ وضع تھا مگر قیافہ روشن اور چہرہ فرحت روحانی سے شگفتہ نظر آتا تھا۔ جو لوگ اب تک آچکے تھے ان سب سے زیادہ عالی رتبہ کے لوگ اس کے ساتھ تھے۔ اس کے داہنے ہاتھ پر افلاطون تھا اور بائیں پر جالینوس۔ اس کا نام سقراط تھا۔ چنانچہ وہ بھی ایک مسند پر بیٹھ گیا۔ لوگ ایسا خیال کرتے تھے کہ ارسطو اپنے استاد یعنی افلاطون سے دوسرے درجہ پر بیٹھے گا، مگر اس مقدمہ پر کچھ اشخاص تکرار کرتے نظر آئے کہ ان کا سرگروہ خودارسطو تھا۔ اس منطقی زبردست نے کچھ شوخی اور کچھ سینہ زوری سے، مگر دلائل زبردست اور براہین معقول کے ساتھ سب اہل محفل کو قائل کر لیا کہ یہ مسند میراہی حق ہے اور یہ کہہ کراول سکندر کو آئینہ دکھایا، پھر نظامی کو سلام کرکے بیٹھ ہی گیا۔

    ایک گروہ کثیر بادشاہوں کی ذیل میں آیا۔ سب جبہ اور عمامہ اور طبل ودمامہ رکھتے تھے۔ مگر باہر روکے گئے کیونکہ ہرچند کے جبے دامن قیامت سے دامن باندھے تھے اور عمامے گنبد فلک کا نمونہ تھے، مگر اکثر ان میں طبل تہی کی طرح اندر سے خالی تھے۔ چنانچہ دو شخص اندرآنے کے لئے منتخب ہوئے۔ ان کے ساتھ ایک انبوہ کثیر علماء وفضلا کا ساتھ ہو لیا۔ تعجب یہ کہ روم و یونان کے فلسفی ٹوپیاں اتارے ان کے ساتھ تھے بلکہ چند ہندو بھی تقویم کے پترے لئے آشیرواد کہتے آتے تھے۔ پہلا بادشاہ ان میں ہارون رشید اور دوسرا مامون رشید تھا۔

    تھوڑی دیر گزری تھی کہ ایک اور تاجدار سامنے سے نمودار ہوا۔ ولایتی استخواں اور ولایتی لباس تھا، اورجامہ خون سے قلم کار تھا۔ ہندوستان کے بہت سے گراں بہازیور اس کے پاس تھے۔ مگر چونکہ نا واقف تھا، اس لئے کچھ زیور ہاتھ میں لئے تھا کچھ کندھے پر پڑے تھے۔ بجائے غبار کے آہوں کے دھوئیں اٹھتے تھے۔ وہ محمود غزنوی تھا۔ بہت سے مصنف اس کے استقبال کو بڑھے مگر وہ کسی اور کا منتظر اور مشتاق معلوم ہوتا تھا۔ چنانچہ ایک نوجوان حورشمائل آیا اور فردوسی کا ہاتھ پکڑ کر محمود کے سامنے لے گیا۔ محمود نے نہایت اشتیاق اور شکر گزاری سے ہاتھ اس کا پکڑا۔ اگرچہ برابر بیٹھ گئے مگر دونوں کی آنکھیں شرم سے جھک گئیں۔ نوجوان ایک عجیب ناز و انداز سے مسکرایا اور چلا گیا۔ وہ ایاز تھا۔

    اسی عرصہ میں ایک اور شخص آیا کہ لباس اہل اسلام کار کھتا تھا مگر چال ڈھال یونانیوں سے ملاتاتھا۔ اس کے داخل ہونے پر شعرا تو الگ ہو گئے مگر تمام علما اور فضلا میں تکرار اور قیل و قال کا غل ہوا۔ اس سینہ زور نے سب کو پیچھے چھوڑا اور ارسطو کے مقابل میں ایک کرسی بچھی تھی اس پر آکر بیٹھ گیا۔ و ہ بوعلی سینا تھا۔

    ایک انبوہ کثیر ایرانی تورانی لوگوں کا دیکھا کہ سب معقول اور خوش وضع لوگ تھے مگر انداز ہرایک کے جدا جدا تھے۔ بعض کے ہاتھوں میں اجزا اور بعض کی بغل میں کتاب تھی کہ اوراق ان کے نقش و نگار سے گلزار تھے۔ وہ دعوے کرتے تھے کہ ہم معانی و مضامین کے مصور ہیں۔ ان کے باب میں بڑی تکراریں ہوئیں۔ آخر یہ جواب ملا کہ تم مصور بیشک اچھے ہو، مگر بے اصل اور غیر حقیقی اشیا کے مصور ہو۔ تمہاری تصویروں میں اصلیت اور واقعیت کا رنگ نہیں، البتہ انتخاب ہو سکتا ہے۔ یہ لوگ فارسی زبان کے شاعر تھے۔ چنانچہ انوری، خاقانی، ظہیر فاریابی وغیرہ چند اشخاص منتخب ہوکر اندر آئے، باقی سب نکالے گئے۔

    ایک شاعر کے کان پر قلم دھرا تھا، اس میں سے آب حیات کی بوندیں ٹپکتی تھیں۔ مگر کبھی کبھی اس میں سے سانپ کی زبانیں لہراتی نظر آتی تھیں۔ اس لئے اس پر پھر تکرار ہوئی۔ اس نے کہا کہ بادشاہوں کو خدا نے دفع اعدا کے لئے تلوار دی ہے مگر ملک مضامین کے حاکم سوائے قلم کے کوئی حربہ نہیں رکھتے۔ اگر چند بوندیں زہر آب کی بھی نہ رکھیں تو اعدائے بدنہاد ہمارے خون عزت کے بہانے سے کب چوکیں۔ چنانچہ یہ عذر اس کا قبول ہوا، یہ انوری تھا، جو باوجود گل افشانی فصاحت کے بعض موقع پر اس قدر ہجو کرتا تھا کہ کان اس کے سننے کی تاب نہیں رکھتے۔ خاقانی پر اس معاملہ میں اس کے استاد کی طرف سے دعوے پیش ہوئے۔ چونکہ اس کی بنیاد خانگی نزاع پر تھی، اس لئے وہ بھی اس کی کرسی نشینی میں خلل انداز نہ ہوسکا۔

    اسی عرصہ میں چنگیزخاں آیا۔ اس کے لئے گوعلماء اور شعراء میں سے کوئی آگے نہ بڑھا، بلکہ جب اندر لائے تو خاندانی بادشاہوں نے اسے چشم حقارت سے دیکھ کر تبسم کیا۔ البتہ مؤرخوں کے گروہ نے بڑی دھوم دھام کی۔ جب کسی زبان سے نسب نامہ کالفظ نکلا تواس نے فورا ًشمشیر جوہردار سند کے طور پر پیش کی۔ جس پرخونی حرفوں سے رقم تھا، ’’سلطنت میں میراث نہیں چلتی۔ ‘‘ علمانے غل مچایا کہ جس کے کپڑوں سے لہو کی بوآئے، وہ قصاب ہے، بادشاہوں میں اس کا کام نہیں۔ شعرا نے کہاکہ جس تصویر کے رنگ میں ہمارے قلم یا مصور انِ تصانیف کی تحریر نے رنگ بقا نہ ڈالا ہو، اسے اس دربار میں نہ آنے دیں گے۔ اس بات پر اس نے بھی تامل کیا اور متاسف معلوم ہوتا تھا۔ اس وقت ہاتف نے آواز دی کہ اے چنگیز! جس طرح ملک و شمشیر کے جوش کو قوم کے خون میں حرکت دی، اگرعلوم و فنون کا بھی خیال کرتا، تو آج قومی ہمدردی کی بدولت ایسی ناکامی نہ اٹھاتا۔ اتنے میں چند مؤرخ آگے بڑھے۔ انہوں نے کچھ ورق دکھائے کہ ان میں طورہ چنگیزخانی یعنی اس کے ملکی انتظام کے قواعد لکھے تھے۔ آخر قرار پایا کہ اسے دربار میں جگہ دو مگران کاغذوں پر لہو کے چھینٹے دو اور ایک سیاہی کا داغ لگا دو۔

    تھوڑی دیرنہ گزری تھی کہ ایک جوان اسی شکوہ و شان کا اورآیا۔ اس کا نام ہلا کوخاں تھا۔ اس کے لئے چند علمائ نے بھی مؤرخوں کاساتھ دیا۔ 4 جس وقت اندر لائے تو اس کے لئے بھی تکراروں کاغل ہوا چاہتا تھا۔ مگر ایک مرد بزرگ نے اس کا ہاتھ پکڑ کر آگے بڑھایا جس کی وضع متشرع عالموں کی تھی، لیکن کمر میں ایک طرف اصطر لاب، دوسری طرف کچھ اقلیدس کی شکلیں لٹکتی تھیں، بغل میں فلسفہ اور حکمت کے چند اجزا تھے۔ ان کا نام محقق طوسی تھا۔ چنانچہ انہیں دیکھ کر کوئی بول نہ سکا۔ اسے تو بادشاہو ں کی صف میں جگہ مل گئی، محقق کو شیخ بو علی سینا نے یہ کہہ کر پاس بٹھا لیا کہ آپ نے میری کلاہ شہرت میں بقائے دوام کے آبدار موتی ٹانکے، شکریہ ادا کرتا ہوں۔

    تھوڑی دیر نہ گزری تھی کہ امیر تیمور کی نوبت آئی۔ بہت سے مؤرخوں نے اس کے لانے کی التجا کی۔ مگر وہ سب کو دروازہ پر چھوڑ گیا اور اپنا آپ رہبر ہوا کیوں کہ وہ خود مؤرخ تھا۔ رستہ جانتا تھا اور اپنا مقام پہنچانتا تھا۔ لنگڑاتا ہوا گیا اور ایک کرسی پر بیٹھ گیا۔ تیمور کرسی پر بیٹھتے ہی تلوارٹیک کر اٹھ کھڑا ہوا اور کہا کہ اے اہل تصنیف! میں تم سے سوال کرتا ہوں کہ ہماری شمشیر کے عوض جو خدا نے تمہیں قلم تحریر دیا ہے، اسے اظہار واقعیت اور خلائق کی عبرت اور نصیحت کے لئے کام میں لانا چاہئے یا اغراض نفسانی اور بدزبانی میں؟ تمام مؤرخ ایک دوسرے کامنہ دیکھنے لگے کہ یہ کس پراشارہ ہے۔ اس وقت تیمور نے ابن عرب شاہ کے بلانے کو ایما فرمایا۔ معلوم ہوا کہ وہ کہیں پیچھے رہ گیا۔ چنانچہ اس کا نام مصنفوں کی فہرست سے نکالا گیا۔

    اسی حال میں دیکھتے ہیں کہ ایک بزرگ آزاد وضع، قطع تعلق کا لباس بر میں، خاکساری کاعمامہ سرپر، آہستہ آہستہ چلے آتے ہیں۔ تمام علما و صلحا مؤرخ اورشاعر سر جھکائے ان کے ساتھ ہیں۔ وہ دروازہ پر آکر ٹھہرے۔ سب نے آگے بڑھنے کو التجا کی تو کہا، معذور رکھو، میرا ایسے مقدموں میں کیا کام ہے! اور فی الحقیقت وہ معذور رکھے جاتے، اگر تمام اہل دربار کا شوق طلب ان کے انکار پرغالب نہ آتا۔ وہ اندر آئے۔ ایک طلسمات کا شیشہ مینائی ان کے ہاتھ میں تھا کہ اس میں کسی کو دودھ، کسی کو شربت، کسی کو شراب شیرازی نظر آتی تھی۔ ہر ایک کرسی نشیں انہیں اپنے پاس بٹھانا چاہتا تھا مگر وہ اپنی وضع کے خلاف سمجھ کر کہیں نہ بیٹھتے۔ فقط اس سرے سے اس سرے تک ایک گردش کی اور چلے گئے۔ وہ حافظ ِشیراز تھے اور شیشہ مینائی ان کا دیوان تھا۔ جو فلک مینائی کے دامن سے دامن باندھے ہے۔

    لوگ اور کرسی نشیں کے مشتاق تھے کہ دور سے دیکھا بے شمار لڑکوں کاغول غل مچاتا چلا آتا ہے۔ بیچ میں ان کے ایک پیر مرد نورانی صورت، جس کی سفید داڑھی میں شگفتہ مزاجی نے کنگھی کی تھی اور خندہ جبینی نے ایک طرہ سر پر آویزاں کیا تھا۔ اس کے ایک ہاتھ میں گلدستہ دوسرے میں ایک میوہ دار ٹہنی، پھلوں اور پھولوں سے ہری بھری تھی۔ اگرچہ مختلف فرقو ں کے لوگ تھے جو باہر استقبال کو کھڑے تھے مگر انہیں دیکھ کرسب نے قدم آگے بڑھائے کیوں کہ ایسا کون تھا، جوشیخ سعدی اور ان کی گلستاں، بوستاں کو نہ جانتا تھا۔ انہوں نے کمرے کے اندر قدم رکھتے ہی سعد زنگی کو پوچھا۔ اس بے چارے کوایسے درباروں میں بار بھی نہ تھی۔ لیکن اور کرسی نشیں کہ اکثر ان سے واقف تھے اور اکثر اشتیاق غائبانہ رکھتے تھے، وہ ان کے مشتاق معلوم ہوئے۔ باوجود اس کے یہ ہنسے اور اتنا کہہ کر اپنے لڑکوں کے لشکر میں چلے گئے۔ ’’دنیا دیکھنے کے لئے ہے، برتنے کے لئے نہیں۔ ‘‘

    بعد اس کے دیر تک انتظار کرنا پڑا۔ چنانچہ ایک اولوالعزم شخض آیا جس کے چہرہ سے خودسری کا رنگ چمکتا تھا اور سینہ زوری کا جوش بازوؤں میں بل مارتا تھا۔ اس کے آنے پرتکرار ہوئی اور مقدمہ یہ تھا کہ اگر علما کی نہیں تو مؤرخوں کی کوئی خاص سند ضرور چاہئے ہے۔ بلکہ چغتائی خاندان کے مؤرخ صاف اس کی مخالفت پر آمادہ ہوئے۔ اس نے باوجود اس کے ایک کرسی جس پر تیموری تمغہ بھی لگا تھا گھسیٹ لی اور بیٹھ گیا۔ ہمایوں اسے دیکھ کر شرمایا اور سر جھکا لیا۔ مگر پھرتاج شاہی پرانداز کج کلاہی کو بڑھاکر بیٹھا اور کہا کہ بے حق بے استقلال ہے۔ اس نے داڑھی پر ہاتھ پھیر کر کہا کہ مجھے اتنا فخر کافی ہے کہ میرے دشمن کی اولاد میرے رستے پر قدم بقدم چلیں گے اور فخر کریں گے۔

    تھوڑی دیر کے بعد ایک خورشید کلاہ آیا جس کو انبوہ کثیر ایرانی، تورانی، ہندوستانیوں کے فرقہ ہائے مختلفہ کا بیچ میں لئے آتا تھا۔ وہ جس وقت آیا تو تمام اہل دربار کی نگاہیں اس کی طرف اٹھیں اور رضامندی عام کی ہوا چلی۔ تعجب یہ ہے کہ اکثرمسلمان اس کو مسلمان سمجھتے تھے، ہندو اسے ہندو جانتے تھے۔ آتش پرستوں کو آتش پرست دکھائی دے رہا تھا، نصاریٰ اس کو نصاری سمجھتے تھے۔ مگر اس کے تاج پر تمام سنسکرت حروف لکھے تھے۔ اس نے اپنے بعض ہم قوموں اور ہم مذہبوں کی شکایت کرکے بداؤنی پرخون کا دعویٰ کیا کہ اس نے میری حیات جاودانی کو خاک میں ملانا چاہا تھا اور وہ فتح یاب ہوتا اگر چند منصف مصنفوں کے ساتھ ابوالفضل اور فیضی کی تصنیف میری مسیحائی نہ کرتی۔ سب نے کہا، نیت کا پھل ہے۔

    اس کے بعد ایک اور بادشاہ آیا جو اپنی وضع سے ہندو راجہ معلوم ہوتا تھا۔ وہ خود مخمور نشہ میں چور تھا۔ ایک عورت صاحب جمال اس کا ہاتھ پکڑے آتی تھی اور جدھر چاہتی تھی پھراتی تھی۔ وہ جو کچھ دیکھتا تھا اور جو کچھ کہتا تھا اسی کی زبان سے کہتا تھا۔ اس پر بھی ہاتھ میں ایک جزو کاغذوں کا تھا اور کان پر قلم دھرا تھا۔ یہ سانگ دیکھ کر سب مسکرائے مگر چونکہ دولت اس کے ساتھ تھی اور اقبال آگے آگے اہتمام کرتا آتا تھا۔ اس لئے بدمست بھی نہ ہوتا تھا۔ جب نشہ سے آنکھ کھلتی تھی تو کچھ لکھ بھی لیتا تھا۔ وہ جہانگیر تھا اور بیگم نور جہاں تھی۔

    شاجہاں بڑے جاہ وجلال سے آیا۔ بہت سے مؤرخ اس کے ساتھ کتابیں بغل میں لئے تھے اور شاعر اس کے آگے آگے قصیدے پڑھتے آتے تھے۔ میرعمارت ان عمارتوں کے فوٹوگراف ہاتھ میں لئے تھے جو اس کے نام کے کتابے دکھاتی تھیں اور سیکڑوں برس کی راہ تک اس کا نام روشن دکھاتی تھیں۔ اس کے آنے پر رضامندی عام کا غلغلہ بلند ہوا چاہتا تھا مگر ایک نوجوان آنکھوں سے اندھا چند بچوں کو ساتھ لئے آیا کہ اپنی آنکھوں کا اور بچوں کے خون کا دعویٰ کرتا تھا۔ یہ شہریار، شاجہاں کا چھوٹا بھائی تھا اور بچے اس کے بھتیجے تھے۔ اس وقت وزیر اس کا آگے بڑھا اور کہا کہ جو کیا گیا بدنیتی اور خود غرضی سے نہیں کیا بلکہ خلق خدا کے امن اور ملک کا انتظام قائم رکھنے کو کیا۔ بہر حال اسے دربار میں جگہ ملی اور سلاطین چغتائیہ کے سلسلے میں معزز درجہ پر ممتاز ہوا۔

    ایک تاجدار آیا کہ جبہ اور عمامہ سے وضع زاہدانہ رکھتا تھا۔ ایک ہاتھ سے تسبیح پھیرتا جاتا تھا مگر دوسرے ہاتھ میں جوفرد حساب تھی اس میں غرق تھا اور معلوم ہوتا تھا کہ اس کی میزان کو پر تالتا ہے۔ سب نے دیکھ کر کہا کہ انہیں خانقاہ میں لے جانا چاہئے، اس دربار میں اس کا کچھ کام نہیں لیکن ایک ولایتی کہ بظاہر مقطع اور معقول نظر آتا تھا۔ وہ دونوں ہاتھ اٹھاکر آگے بڑھا اور کہا کہ اے اراکین دربار، ہمارے ظل سبحانی نے اس کم بخت سلطنت کے لئے بھائی سے لے کر باپ تک کا لحاظ نہ کیا۔ اس پر بھی تمہارے اعتراض اسے اس دربار میں جگہ نہ دیں گے۔ یہ لطیفہ اس نے اس مسخر اپن سے اداکیا کہ سب مسکرائے اور تجویز ہوئی کہ تیموری خاندان کے سب سے اخیر میں انہیں بھی جگہ دے دو۔ معلوم ہو اکہ وہ عالمگیر بادشاہ اور ساتھ اس کے نعمت خان عالی تھا۔

    اس کے ساتھ ہی ایک بینڈا جوان، دکھنی وضع، جنگ کے ہتھیار لگائے، راجگی کے سکے تمغے سے سجاہوا آیا۔ اس کی طرف لوگ متوجہ نہ ہوئے بلکہ عالمگیر کچھ کہنا بھی چاہتا تھا مگر وہ کرسی کھینچ کر اس کے سامنے ہی بیٹھ گیا اور بولا کہ صاحب ہمت کو جگہ دو یا نہ دو، وہ آپ جگہ پیدا کر لیتا ہے۔ یہ سیواجی تھا، جس سے مرہٹہ خاندان کی بنیاد قائم ہوئی ہے۔

    تھوڑی دیر کے بعد دور سے گانے بجانے کی آواز آئی اور بعد اس کے ایک بادشاہ آیا۔ اس کی وضع ہندوستانی تھی۔ مصنفوں اورمؤرخوں میں سے کوئی اس کے ساتھ نہ تھا۔ البتہ چند اشخاص تھے کہ کوئی ان میں گویا اور کوئی بھانڈ، کوئی مسخرا نظر آتا تھا۔ یہ سب گھبرائے ہوئے آتے تھے کیونکہ ایک ولایتی دلاور ان کے پیچھے پیچھے شمشیر برہنہ علم کئے تھا۔ اس کی اصفہانی تلوار سے لہو کی بوندیں ٹپکتی تھیں۔ مخمل رومی کی کلاہ تھی جس پر ہندوستان کا تاج شاہی نصب تھا اور اسپ بخارائی زیرران تھا۔ وہ ہندوستانی وضع بادشاہ محمدشاہ تھا۔ اسے دیکھتے ہی سب نے کہا کہ نکالو، نکالو، ان کایہاں کچھ کام نہیں۔ چنانچہ وہ فورا ًدوسرے دروازے سے نکالے گئے۔ ولایتی مذکور نادرشاہ تھا، جس نے سرحد روم سے بخارا تک فتح کر کے تاج ہندوستان سر پر رکھا تھا۔ اسے چنگیز خاں کے پاس جگہ مل گئی۔

    تھوڑی دیرہوئی تھی جو ایک غول ہندوستانیوں کا پیدا ہوا۔ ان لوگوں میں بھی کوئی مرقع بغل میں دبائے تھا، کوئی گلدستہ ہاتھ میں لئے تھا۔ انہیں دیکھ کر آپ ہی آپ خوش ہوتے تھے اوروجد کرکے اپنے اشعار پڑھتے تھے۔ یہ ہندوستانی شاعر تھے۔ چنانچہ چند اشخاص منتخب ہوئے۔ ان میں ایک شخص دیکھا کہ جب بات کرتا تھا، اس کے منہ سے رنگارنگ کے پھول جھڑتے تھے۔ لوگ ساتھ ساتھ دامن پھیلائے تھے مگر بعض پھولوں میں کانٹے ایسے ہوتے تھے کہ لوگوں کے کپڑے پھٹے جاتے تھے۔ پھربھی مشتاق زمین پر گرنے نہ دیتے تھے کوئی نہ کوئی اٹھا ہی لیتا تھا۔ وہ مرزا رفیع سودا تھے۔ میر بد دماغی اور بے پروائی سے آنکھ اٹھاکر نہ دیکھتے تھے۔ شعر پڑھتے تھے اور منہ پھیر لیتے تھے۔ درد کی آواز دردناک دنیا کی بے بقائی سے جی بے زار کئے دیتی تھی۔ میر حسن اپنی سحربیانی سے پرستان کی تصویر کھینچتے تھے۔ میرانشاء اللہ خاں قدم قدم پر نیا بہروپ دکھاتے تھے۔ دم میں عالِم ذی وقار، متقی پرہیزگار، دم میں داڑھی چٹ، نگ کا سونٹا کندھے پر۔

    جرأت کو اگرچہ کوئی خاطرمیں نہ لاتا تھا مگر جب وہ مَٹھی آواز سے ایک تان اڑاتا تھا توسب کے سر ہل ہی جاتے تھے۔ ناسخ کی گل کاری چشم آشنامعلوم ہوتی تھی اور اکثر جگہ قلم کاری اس عینک کی محتاج تھی۔ مگر آتش کی آتش بیانی اسے جلائے بغیر نہ چھوڑتی تھی۔ مومن کم سخن تھے۔ مگرجب کہتے تھے، جرأت کی طرف دیکھتے جاتے تھے۔

    ایک پیرمرد دیرینہ سال محمد شاہی دربار کا لباس، جامہ پہنے کھڑکی دارپگڑی باندھے، جریب ٹیکتے آتے تھے۔ مگر ایک لکھنؤ کے بانکے پیچھے پیچھے گالیاں دیتے تھے۔ بانکے صاحب ضرور ان سے دست و گریباں ہو جاتے لیکن چار خاکسار اور پانچواں تاجدار ان کے ساتھ تھا، یہ بچالیتے تھے۔ بڈھے میر امن دہلوی چہار درویش کے مصنف تھے اور بانکے صاحب مرزا سرور فسانہ عجائب والے تھے۔ ذوق کے آنے پر پسند عام کے عطر سے دربار مہک گیا۔ انہوں نے اندر آکر شاگردانہ طور پرسب کو سلام کیا۔ سودا نے اٹھ کر ملک الشعرائی کا تاج ان کے سر پر رکھ دیا۔ غالب اگرچہ سب سے پیچھے تھے پر کسی سے نیچے نہ تھے۔ بڑی دھوم دھام سے آئے اور ایک نقارہ اس زور سے بجایا کہ سب کے کان گنگ کر دیے۔ کوئی سمجھا اور کوئی نہ سمجھا، مگرسب واہ واہ اورسبحان اللہ کرتے رہ گئے۔

    اب میں نے دیکھا کہ فقط ایک کرسی خالی ہے اور بس۔ اتنے میں آواز آئی کہ آزاد کو بلاؤ۔ ساتھ آواز آئی کہ شاید وہ اس جرگہ میں بیٹھنا قبول نہ کرے۔ مگر وہیں سے پھر کوئی بولا کہ اسے جن لوگوں میں بٹھا دوگے، بیٹھ جائےگا۔ اتنے میں چند اشخاص نے غل مچایا کہ اس کے قلم نے ایک جہان سے لڑائی باندھ رکھی ہے، اسے دربار شہرت میں جگہ نہ دینی چاہئے۔ اس مقدمہ پر قیل وقال شروع ہوئی۔ میں چاہتا تھا کہ نقاب چہرہ سے الٹ کر آگے بڑھوں اور کچھ بولوں کہ میرے ہادی ہمدم یعنی فرشتہ رحمت نے ہاتھ پکڑ لیا اور چپکے سے کہا کہ ابھی مصلحت نہیں۔ اتنے میں آنکھ کھل گئی۔ میں اس جھگڑے کو بھی بھول گیا اور خدا کا شکر کیا کہ بلا سے دربار میں کرسی ملی یا نہ ملی، مردوں سے زندوں میں تو آیا۔

    خاتمہ
    اگرچہ خیالات کے جلسے جمے ہوئے ہیں اور اشخاص تصوری زبان ہائے بے اجسام سے طلسم کاری کر رہے ہیں لیکن سو کے قریب صفحے سیاہ ہو چکے۔ اب جلسہ ختم اور کچھ عرصہ کے لئے کلام کا دروازہ بند۔ اے اہل انجمن، آپ کا آنا مبارک آنا۔ قدم بر چشم، مگر جلسہ آئندہ کی ابھی سے گزارش قبول ہوکہ حصہ دوئم کا سامان بہم پہنچے۔


    حاشیے
     (۱) اس میدان کو میدان دنیا سمجھ لو۔
    (۲) فی الحقیقت جو ناموری اور ترقی کے خواہاں ہیں اگر سلطنت، حکومت، دولت، شجاعت، علمیت وغیرہ کے رستے سے چاہتے ہیں تو خوف جان ہے۔ اگر اور فنون کمال کے رستے لیتے ہیں تو حاسد انواع و اقسام کی بد ذایتوں سے سدراہ ہوتے ہیں۔
    (۳) کوئی اوتار کہتاہے، کوئی بادشاہ با اقبال۔
    (۴) اس کے عہد میں علوم وفنون نے بہت ترقی کی تھی خصوصا علم ہیئت کی کتابیں اور رصدخانی کی تعمیر اس کی شاہد حال ہے۔ 

    مأخذ:

    نیرنگ خیال (Pg. 98)

    • مصنف: محمد حسین آزاد
      • ناشر: مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ، نئی دہلی
      • سن اشاعت: 1970

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے