aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

شروعات، وقفے، قیاسات

شمس الرحمن فاروقی

شروعات، وقفے، قیاسات

شمس الرحمن فاروقی

MORE BYشمس الرحمن فاروقی

     

    اردو ادب کے باقاعدہ آغاز کا سہرا مسعود سعد سلمان لاہوری (۱۰۴۶ء تا ۱۱۲۱ء) کے سرباندھا جاسکتا ہے لیکن اس ’’ہندی‘‘ دیوان کا اب کوئی سراغ نہیں ملتا جو مسعود سعد سلمان نے ترتیب دیا تھا۔ اس دیوان کے بارے میں ہمارا قدیم ترین مآخذ محمد عوفی کا تذکرہ ’’لباب الالباب‘‘ ہے جس کی تاریخ تصنیف۱۲۲۰ء تا ۱۲۲۷ء متعین کی گئی ہے یعنی مسعود سعد سلمان کے ٹھیک سو سال بعد۔ محمد عوفی نے یہ تذکرہ سندھ میں لکھا اور اسے فارسی زبان کا پہلا تذکرہ کہا جاتا ہے۔ عوفی نے لکھا، 

    اگرچہ اس کی پیدائش ہمدان کی تھی لیکن چونکہ اس کے کلام کی کثرت علم و فن بلا د مشرق میں پھلی پھولی اور برگ و بار لائی۔۔۔ اور اسے ہمیشہ انہیں علاقوں کا شاعر مانا گیا ہے، اس لیے اس کا ترجمہ اس جگہ درج ہوتا ہے۔۔۔ اس کے کلام کی قدر اور سب شعرا سے زیادہ ہے۔ اس کے تین دیوان ہیں، ایک عربی، دوسرا فارسی اور تیسرا ہندی۔ اور جو کچھ اس کے کلام سے دیکھا گیا، استادانہ اور دل خوش کن تھا۔ 1  

    چونکہ ہندوستانی قرون وسطیٰ میں لفظ ’’ہندی‘‘ کبھی کبھی یوں بھی استعمال ہوا ہے کہ اس سے کوئی بھی زبان مراد لے لی گئی ہے (البیرونی نے اسے بہ معنی ’’سنسکرت‘‘ لکھا ہے)، اس لیے یہ سوال اٹھایا گیا ہے کہ مسعود سعد سلمان کے ’’ہندی‘‘ دیوان کی اصل زبان تھی کیا، اور آیا یہ پنجابی ہوسکتی ہے۔ 

    محمد عوفی پرسات ہی آٹھ دہائیاں گزری تھیں جب امیر خسرو نے اپنی معرکہ آرا مثنوی ’’نہ سپہر‘‘ لکھی (۱۳۱۷ء/۱۳۱۸ء) اس میں انہوں نے ان زبانوں کا ذکر کیا ہے جو عرصۂ دراز سے ہندوستان کے مختلف علاقوں میں آزاد زبان کی حیثیت سے اس وقت افزائش پذیر تھیں۔ ان میں خسرو نے ’’لاہوری‘‘ (=پنجابی) کا بھی ذکر کیا ہے۔ اغلب ہے کہ اگر مسعود سعد سلمان کا دیوان پنجابی میں ہوتا تو محمد عوفی بھی اس کی زبان ’’لاہوری‘‘، نہ کہ ’’ہندی‘‘ بتاتا۔ خسرو نے اپنی مثنوی کے اس باب کے عنوان میں کہا کہ ’’گفت ہند‘‘ اپنے ’’الفاظ خوش گوار‘‘ کے باعث ’’پارسی و ترکی‘‘ پر ’’راجح‘‘ ہے۔ پھر انہوں نے لکھا، 

    الغرض از پارسی و ترک و عرب
    بیہدہ باشد کہ کنم دل بہ طرب

    من چوز ہندم بود آں بہ کہ کسے 
    از محل خویش بر آرد نفسے 

    ہست دریں عرصہ بہر ناحیتے 
    مصطلحے خاصہ نہ از عاریتے 

    سندی و لاہوری و کشمیر و کبر
    دھور سمدری و تلنگی و گجر

    معبری و گوری و بنگال و اود
    دہلی و پیرامنش اندر ہمہ حد

    ایں ہمہ ہندیست کہ زایام کہن
    عامہ بکاراست بہر گونہ سخن 2  

    (ترجمہ)
    الغرض، یہ بات بالکل فضول ہے کہ میں اپنا دل فارسی، ترکی اور عربی کے نغموں پر مائل کروں، 

    اور اسے اس طرح خوش کروں۔ 

    میں چونکہ ہندوستانی ہوں، اس لیے یہی بہتر ہے کہ میں اپنے ہی مقام سے گفتگو کروں۔۔۔ 

    اس مملکت کے ہر نواح میں ان کی اپنی مخصوص زبانیں ہیں اور وہ عاریت کی بھی نہیں بلکہ وہیں کی ہیں۔ 

    سندھی، لاہوری، کشمیری، کبر، دھور سمندری، تلنگی اور گجر۔ 

    معبری، اور گوری، اور بنگال، اور اودھ۔ 

    اسی طرح، دہلی اور اس کے قرب و جوار کی زبان بھی اپنی سرحد کے اندر ہے۔ 

    یہ سب ہندوی زبانیں ہیں، کہ ایام کہن سے عام طور پر ہر طرح کی بات چیت اور کلام کے لیے مستعمل ہیں۔ 

    ان اشعار سے یہ بات صاف ہوجاتی ہے کہ لاہوری (=پنجابی) دوسری زبانوں مثلاً سندھی، اودھی، سے الگ ایک زبان ہے، اور وہ دہلی اور اس کے گردوپیش کی’’مصطلح‘‘ (مخصوص زبان) سے بھی الگ ہے۔ ’’نہ سپہر‘‘ کے کوئی پچیس سال پہلے امیر خسرو نے اپنے دیوان’’غرۃ الکمال‘‘ (۱۲۹۴ء) کے دیباچے میں لکھا، 

    ترک ہندوستانیم من ہندوی گویم جواب شکر مصری ندارم کز عرب گویم سخن جزوے چند نظم ہندوی نیز نذردوستاں کردہ شدہ است۔ اینجابہ ذکرے بس کردہ ام و نظر بر نظیر نہ (باید) داشت، 3 کہ لفظ ہندوی در پارسی لطیف آوردن چنداں لطفے نہ دارد، مگر بضرورت۔ آں جا کہ ضرورت بودہ است، آوردہ شد۔ بیت، 

    چومن طوطی ہندم ار راست پرسی

    زمن ہندوی پرس تا نغز گویم

    ذکر ترتیب سہ دیوان

    پیش ازیں از پادشاہان سخن کسے راسہ دیوان نہ بود، مگر مرا، کہ خسرو ممالک کلامم۔ مسعود سعد سلمان را اگرچہ ہست، اما ایں سہ دیوان درسہ عبارت است، عربی، و پارسی، و ہندوی۔ 4  

    (ترجمہ) میں ہندوستانی ترک ہوں، ہندوی میں جواب دیتاہوں، میرے پاس شکر مصری نہیں کہ زبان عرب میں گفتگو کروں۔ 

    نظم ہندوی کے چند جز و نذر دوستاں کیے جاچکے یہیں۔ یہاں اس کے ذکر پر بس کرتا ہوں، اور مثال پر نگاہ نہیں رکھتا، کیوں کہ فارسی لطیف میں ہندوی الفاظ لانا چنداں لطف نہیں رکھتا، مگر بہ ضرورت۔ جہاں ضرورت تھی، وہاں لائے گئے، 

    میں، جو سچ پوچھو تو طوطی ہند ہوں 

    مجھ سے ہندوی کا پوچھو تو میں نغز گوئی کروں 

    تین دواوین کی ترتیب کا ذکر

    اب سے پہلے، بادشاہان سخن میں کوئی ایسا نہ تھا جس کے تین دیوان ہوں، سوا میرے، کہ خسرو ممالک کلام ہوں۔ مسعود سعد سلمان کے تین دیوان ہیں تو، لیکن وہ تین عبارتوں میں ہیں، عربی، اور فارسی، اور ہندوی۔ 

    مندرجہ بالا سے دو باتیں ثابت ہوجاتی ہیں۔ مسعود سعد سلمان کا دیوان ’’ہندوی‘‘ میں تھا۔ (خسرو کے فحواے کلام سے صاف ظاہر ہے کہ انہوں نے یہ دیوان دیکھا تھا۔) دوسری بات یہ کہ خسرو کا بھی کلام ’’ہندوی‘‘ میں تھا۔ خسرو نے اپنے اور مسعود سعد سلمان، دونوں کے کلام کے لیے لفظ ’’ہندوی‘‘ استعمال کیا ہے۔ دونوں کی زبان ایک ہی تھی۔ (خسروکے بیان کردہ ناموں پر مفصل بحث اسی باب کے حاشیہ ۲ میں ملاحظہ ہو۔) 

    لیکن اب ایک اور سوال ہمارے سامنے آتا ہے۔ مسعود سعد سلمان لاہوری (۱۰۴۶ء تا ۱۱۲۱ء) اور امیر خسرو دہلوی (۱۲۵۳ء تا ۱۳۲۵ء) کے مابین پورے دوسوبرس کا فصل ہے۔ اس مدت میں کیا ہوا؟ کیا وجہ ہے کہ ان دو صدیوں میں کچھ بھی ادب ہندوی میں نہ لکھا گیا؟ یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ مسعود سعد سلمان اور خسرو کا ہندوی کلام محفوظ کیوں نہ رہا؟ ان پر ہم ایک اور سوال کا اضافہ کرسکتے ہیں۔ خسرو کے بعد بھی ایک صدی کیوں گزری، اس کے پہلے کہ ہندوی میں ادب کی پیداوار شروع ہو؟ اس وقت کی اطلاع کے مطابق تو خسرو کے بعد اولین نام شیخ بہاء الدین باجن (۱۳۸۸ء تا ۱۵۰۶ء) اور فخر دین نظای (زمانہ: ۱۴۳۴ء) کے ہیں۔ شیخ باجن گجرات میں تھے، اور فخردین نظامی خاص دکن میں۔ 

    جہاں تک معاملہ امیرخسرو کے ہندوی کلام کے محفوظ نہ رہنے کا ہے، تو اس کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ انہوں نے ہندوی میں لکھا ہی بہت کم اور جو لکھا اسے محفوظ کرنے کے سزاوارانہ سمجھا۔ وہ خود کہتے ہیں کہ میں نے نظم ہندوی کے چند جزو، دوستوں کی نذر کیے ہیں۔ 5 اگر ایک جزو آٹھ ورق کا مانا جائے، اور ’’چند جزو‘‘ سے مراد ’’پانچ/چھ جزو‘‘ سمجھی جائے، تو یہ کلام سو صفحے سے زیادہ کا نہیں بیٹھتا۔ اور اسے دوستوں کی نذر کردینے کے معنی یہی ہیں کہ اگر یہ سب نہیں، تو زیادہ تر، ہنگامی اور تفریحی نوعیت کا کلام تھا، جسے انگریزی میں for the nonce کہتے ہیں۔ ایسے کلام کا محفوظ رہنا قرین امکان ہے بھی نہیں۔ 

    شبلی نے اوحدی کرمانی کے تذکرے ’’عرفات العاشقین‘‘ کے حوالے سے لکھا ہے کہ ’’برج بھاشا‘‘ میں خسرو کا کلام، ان کے فارسی کلام کے برابر ہے، اور فارسی کلام نظم و نثر کی مقدار انہوں نے چار سے پانچ لاکھ بیت (=چار سے پانچ لاکھ سطریں) بتائی ہے۔ لیکن یہ بھی ہے کہ ایک اور جگہ، شبلی نے اسی اوحدی کے حوالے سے ’’برج بھاشا‘‘ کی جگہ ’’ہندی‘‘ کا نام لیا ہے۔ 6 ممکن ہے کہ شبلی، جنہوں نے بہت سی باتیں حافظے کے اعتماد پر لکھی ہیں، بھول کر ’’ہندی/ہندوی‘‘ کی جگہ ’’برج بھاشا‘‘ لکھ گئے ہوں، یاخود اوحدی کے ذہن میں ان زبانوں کا فرق واضح نہ ہو۔ یا پھر وہ ’’ہندی‘‘ کی اصطلاح سے کوئی بھی ہندوستانی زبان مراد لیتا ہو۔ (مؤخرالذکر صورت میں اغلب ہے کہ ’’ہندی‘‘ سے ’’دہلوی‘‘ ہی مراد ہے۔) بظاہر تو اوحدی مبالغے سے کام لے رہا ہے، کیوں کہ یہ بالکل قرین قیاس نہیں کہ جو کلام چار پانچ لاکھ بیت پر مشتمل ہو، وہ سارے کا سارا یوں غائب ہوجائے کہ اس کا نشان ہی نہ رہے۔ اور ایسا بھی نہیں کہ خسرو نے ہندوی کے علاوہ کسی اور بھی ہندوستانی زبان میں لکھا ہو۔ 7  

    دوسری بات یہ کہ خسرو نے ’’دیباچہ غرۃ الکمال‘‘ میں اپنے ہندی کلام کی کمیت کے بارے میں صرف ’’جزوے چند‘‘ کا فقرہ لکھا ہے اور مثنوی ’’نہ سپہر‘‘، جو ’’غرۃ الکمال‘‘ کے تقریباً پچیس برس بعد کی تصنیف ہے، اس میں خسرو نے یہ دعویٰ تو کیا ہے کہ وہ تھوڑی بہت سنسکرت جانتے ہیں، لیکن یہ نہیں کہا کہ وہ ’’ہندوی/ہندی‘‘ کے بھی شاعر ہیں۔ 8 ان باتوں کے پیش نظر یہی کہنا پڑتا ہے کہ خسرو کا ہندوی کلام اس لیے باقی نہ رہا کہ وہ کچھ زیادہ کمیت کا نہ تھا، اور وہ زیادہ تر تفنن کے لیے، ہنگامی مواقع پر تصنیف ہوا تھا، اس لیے خسرو اسے چنداں اہمیت نہ دیتے تھے۔ 

    رہا سوال کہ خسرو اپنے ہندوی کلام کو اہمیت کیوں نہ دیتے تھے، تو یقینا اس کاجواب یہ ہے کہ اس زمانے تک ہندوی کو ادبی اہمیت نہ حاصل ہوئی تھی اور ادبی حلقوں میں وہ کچھ خاص توقیر یا دلچسپی کی حامل نہ تھی۔ خسرو اسے سرسری شعر گوئی سے زیادہ کے لائق غالباً نہ سمجھتے تھے۔ اور یہی سبب مسعود سعد سلمان کے ہندی دیوان کے ضائع ہوجانے کے لیے بھی بیان کیا جاسکتا ہے۔ ہندوی/ہندی کی اس زمانے میں کوئی ادبی حیثیت نہ تھی۔ اور ہم یہ بھی نہیں جانتے کہ خود مسعود سعد سلمان کے ہندی/ہندوی دیوان کا حجم کتنا تھا۔ ممکن ہے وہ بس اتنا رہا ہو کہ اسے دیوان کا نام دیا جاسکے، یعنی تمام، یا زیادہ تر ردیفوں میں دو دو چار چار غزلیں، یا شاید اس سے بھی کم۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ فارسی گو حلقے، جو مسعود سعد سلمان کو فارسی کا بڑا شاعر گردانتے تھے، ان کی ہندی/ہندوی کو کچھ ذرا شرمندہ کن عجوبہ سمجھتے رہے ہوں۔ 

    مشہور شاعر اور صوفی حکیم مجد الدین سنائی (۱۰۸۷ء/۱۰۹۱ء تا ۱۱۴۵ء /۱۱۴۶ء) نے مسعود سعد سلمان کا کلام جمع کرکے ان کی خدمت میں پیش کیا تھا۔ لیکن سنائی نے مسعود کی ہندی/ہندوی شاعری کا کوئی ذکر بظاہر نہیں کیا ہے۔ سنائی کے مرتب کردہ مجموعے میں کچھ ایسا کلام بھی شامل ہوگیا تھا جو مسعود سعد سلمان کے نام سے مشہور تھا لیکن ان کا تھا نہیں۔ اس پر مسعود سلمان نے خفگی ظاہر کی تو سنائی نے اعتذار میں قطعہ لکھا۔ اس میں مسعود سعد سلمان کے ہندی کلام کا کچھ مذکور نہیں۔ 9  

    اب یہ سوال اٹھتا ہے کہ مسعود سعد سلمان نے ہندی/ہندوی میں لکھا ہی کیوں؟ اگر ان کے زمانے میں اس زبان کی کوئی وقعت نہ تھی؟ اور یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ ہندی/ہندوی اس وقت تک، یا خسرو کے بھی وقت تک، ادبی زبان کیوں نہ بن چکی تھی؟ پہلے سوال کا جواب میرے خیال میں یہ ہے کہ مسعود سعد سلمان نے محض استادی اور قادر الکلامی کے مظاہرے کے لیے ہندی/ہندوی میں لکھا۔ شرق اوسط، اور ہندی +مسلم کے از منہ وسطیٰ کے ادبی سماج میں یہ کوئی نئی بات نہ تھی۔ شعرا اپنی قدرت کلام کے اظہار کے لیے کئی زبانوں میں شعر کہتے تھے۔ یہ رسم ہمارے یہاں انشا اور ذوق تک باقی رہی۔ مسعود سعد سلمان نے عربی میں بھی اسی غرض سے لکھا ہوگا۔ دوسرا سوال، کہ چودھویں صدی کے آغاز تک بھی ہندی/ہندوی کوادبی درجہ کیوں نہ مل سکا تھا، صوفیوں کے طریق عمل اور ان کی تعلیمات کے نفوذ سے وابستہ ہے۔ میں اس کی تفصیل آگے عرض کرتا ہوں۔ 

    شیخ بہاء الدین باجن (۱۳۸۸ء تا ۱۵۰۶ء) کو اردو کا پہلا باقاعدہ ادیب کہا جاسکتا ہے۔ شیخ کے دادا صاحب دہلی سے آکر احمد آباد، گجرات میں بس گئے تھے اور شیخ باجن کی پیدائش وہیں کی ہے۔ انہوں نے مختلف مواقع پر اپنی زبان کو ’’ہندی‘‘، ’’ہندوی‘‘ اور ’’گجری‘‘ بتایا ہے۔ 10 شمال کے لوگ، بالخصوص دہلی کا فوجی اور غیرفوجی عملہ اور فعلہ بڑی تعداد میں گجرات اس وقت پہنچے جب علاء الدین خلجی (زمانہ حکومت ۱۲۹۶ء تا ۱۳۱۶ء) نے گجرات پر قبضہ کیا۔ اس سے بھی زیادہ تعداد میں لوگ غالباً اس وقت گجرات آئے جب تیمور نے دہلی کو تاراج کرکے اس پر اپنا تسلط قائم کیا (۱۳۹۸ء) شیخ باجن کا زمانہ آتے آتے گجرات میں دہلوی بولنے والوں کی خاصی بڑی آبادی ہوگئی تھی۔ ان میں مقامی لوگ بھی رہے ہوں گے اور غیر مقامی بھی۔ دہلی سے دور ہونے کے باعث فارسی کا چلن یہاں اتنا نہ رہا ہوگا جتنا دہلی میں تھا۔ شیخ موصوف نے اپنے فارسی اور ہندوی کلام کا ایک مجموعہ اپنے پیر شیخ رحمت اللہ کے نام پر، ’’خزائن رحمت اللہ‘‘ 11 کے نام سے مرتب کیا۔ اس مجموعے میں انہوں نے اپنی تصنیف کردہ ہندی/ہندوی جکریاں بھی شامل کیں۔ جکری اس زمانے میں شمال و جنوب کی معروف و مقبول صوفی صنف سخن تھی۔ 12 شیخ نے ساتویں ’’خزینے‘‘ کے عنوان میں فرمایا، 

    خزینہ ہفتم، ان اشعار کے ذکر میں، جو اس فقیر کے کہے ہوئے ہیں، اور جنہیں زبان ہندوی میں جکری کہتے ہیں۔ اور ہند کے قوال، انہیں سرود کے راگوں پر بجاتے اور گاتے ہیں۔ ان میں سے بعض تو پیردستگیر کی مدح میں ہیں، بعض ان کے روضے کے وصف میں اور بعض، اپنے وطن گجرات کی ثنا میں ہیں۔ اور بعض میں میرے اپنے مطالب کا تذکرہ ہے، اور مریدوں اور طالبوں کے مقصودات کا، اور بعض عشق و محبت (کے مضمون پر ہیں۔) 13  

    ’’خزائن رحمت اللہ‘‘ میں شیخ نے ایک عرصۂ طویل کے لیے اردو زبان اور ادب کے حدود اربعہ بیان کردیے، اس کی زبان ہندوی ہے، اس کی بحریں ہندوستانی بھی ہیں اور فارسی بھی۔ اس کے مضامین مذہبی/صوفیانہ بھی ہیں اور دنیاوی بھی۔ اس شاعری کی جڑیں عوام میں گہری ہیں، اور ہر دلعزیز بن جانے کی صفت اس میں پوری طرح موجود ہے۔ اس کے معاملات میں زہد روحانی اور صوفیانہ پاکیزگی نمایاں ہے۔ وطن کی محبت بھی اس کا ایک نمایاں وصف ہے۔ 

    شیخ باجن کا کلام ناہموار ہے۔ بعض اوقات ان کا لہجہ وجد کی بلندیوں کو چھولیتا ہے، لیکن ان کا عام مزاج اخلاقی سبق آموزی کا ہے۔ مندرجہ ذیل نظم بیچ کی جگہ پر رکھی جاسکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی دوری اور وصول الی اللہ تقریباً ناممکن ہونا، اس مضمون کو ایک عجب مباہات کے ساتھ بیان کیا ہے، کہ ہمارا مطلوب اس قدر مشکل الحصول ہے! لیکن نظم میں ایک ہلکی سی بے چارگی اور مایوسی کا بھی شائبہ ہے۔ کام یابی یقینی نہیں، اور ناکامی کا امکان قوی ہے۔ ایسے محبوب کا چاہنے والا ہونے میں ایک طرح کا امتیاز بھی ہے، 

    تیرے پنتھ کوئی چل نہ سکے 
    چیری چلے سو چل چل تھکے چیری =جو بھی

    پڑھ پنڈت پوتھیں دھویاں 
    سبہ جانا سدھ بدھ کھویاں سبہ =سب

    سبہ جوگیوں جوگ بسارے 
    یہ تپئی تپ بکارے تپئی =تپسوی، بکارے = بگاڑے 

    اک درشنی درشن بھولے درشنی =فلسفی
    سر ناگے پانو نہ کھولے ناگے =ننگے، کھولے =کھلے 

    اک سیوری ہوئی کرسیو کر نہ سیوری =جین
    ہوئی کر =ہوکر، سیو =سیوا
    ہوئے برتپئی کیا دکھ دھر نہ برتپئی =مشکل تپسیا کرنے والا

    اک درویش ہوئی کر آئے 
    ہوئی قلندر روپ بھرائے 

    اک ابدال ہوئے ابد ہوئے ابد =عابد
    اک ہانڈھیں ہا ہا ہوئے ہانڈھ =آوارہ گرد

    اک کھلے ہوئے دیوانے 
    اک بادل ہندہ رانے بادل =باولا، ہندہ رانی =آوارگی

    اک ماتے ہوئے ارراویں اررانا =چیخنا چلانا
    بہتی بے سدھ ہو ہو جاویں بہتی =بہت ہی

    اک جنگ جٹا دھاری جنگم =جوگی
    ہور بندہ نس اندھیاری اندھیاری =سیاہ

    اک کابری ہوئی کر کنپہ کابری =مجنون، کنپہ =کانپے 
    منڈھ سیویں تج ہی چنپہ سیویں =منڈائے، تج ہی =تجھے ہی، چنپہ =جپتا ہے 

    ایک مند کنکل کل کرنہ مند =چپکے، کنکل کل کرنہ =قابو میں لانا
    اک پھونک پھونک باولے بھوئیں دھرنہ دھرنہ =پکڑیں 

    ایک ہیں اپاسی راتنہ جاگنہ اپاسی= روزہ دار
    اک ہوئے بھکماری تجھ بھی مانگنہ بھکماری =بھکاری (بھوک سے مرتا ہوا؟) 

    یوں ٹولی ٹولی ہوئی کرے 

    سبہ رل رل گھل گھل کھوئی کرے 14 رل رل =مٹی میں مل کر، کھوئی =رس نکالا ہوا گنا

    سادگی بیان اور ایک طرح کی محویت اور خودسپردگی کے باعث یہ مناجات دل کو چھوتی ہے لیکن اچانک ایک زبردست استعارہ (مطلوب حقیقی کے چاہنے والوں کا وہ حال ہوجاتا ہے جیسے عرق نکالا ہوا گنا) نظم کی سطح بہت بلند کردیتا ہے۔ عشق حقیقی کے مارے ہوؤں میں نہ رس رہ جاتا ہے نہ جس، وہ گنے کے سوکھے ہوئے کھجے کی طرح بس جلانے لائق رہ جاتے ہیں۔ ایک خاص بات یہ ہے کہ الفاظ اگرچہ عام طور پر سادہ ہیں لیکن ان میں معنی کی فراوانی ہے۔ یہاں ایڈورڈ ٹیری کا قول یاد آتا ہے کہ ’’اندوستان‘‘ ایسی زبان ہے جو کم لفظوں میں بہت کہہ دیتی ہے۔ 15 حالانکہ زبان نے ابھی استعاروں، پیکروں اور محاوروں کا وہ عظیم الشان بھنڈار حاصل نہیں کیا ہے جو آئندہ اس کی قسمت میں ہے، اور جس بناپر اردو/فارسی شاعری دنیا میں عدیم النظیر ہے لیکن پھر بھی شیخ کے یہاں کفایت الفاظ کا لطف موجود ہے۔ 

    یہاں ایک بات یہ بھی قابل ذکر ہے کہ حافظ محمود شیرانی کے یہاں اس نظم کا عنوان ہے ’’وایں مناجات بزبان ہندوی گفتہ شدہ است۔‘‘ اور ظہیر الدین مدنی کے یہاں کوئی عنوان نہیں ہے۔ لیکن یہ، اور دوسری بہت سی نظمیں محض ’’گجری‘‘ عنوان کے تحت درج ہیں۔ یعنی یہ دونوں نام برابر سے مستعمل ہیں۔ 16  

    ہندوستانی زبانوں میں صوفی روایت کی تقریباً تمام شاعری کی طرح شیخ باجن کی شاعری میں بھی اسلامی تصور کائنات کو ہندوستانی آئینے میں دیکھا گیا ہے۔ شروع کے صوفی شعرا کے یہاں ہندو پیکر، رسومیات اوراستعارے عام ہیں۔ بعض اوقات تو اس کا اثر ان کے نام پر بھی نظر آتا ہے۔ قاضی محمود دریائی (۱۴۱۹ء تا ۱۵۳۴ء)، جو گجری/ ہندوی کے دوسرے اہم شاعر ہیں، کبھی کبھی خود کو ’’محمود داس‘‘ لکھتے ہیں۔ ممکن ہے کہ سنت کبیر (وفات ۱۵۱۸ء) اور شیخ عبدالقدوس گنگوہی (۱۴۵۵ء تا ۱۵۳۸ء) نے اپنے نام ’’کبیر داس‘‘ اور ’’الکھ داس‘‘ اسی وجہ سے رکھے ہوں۔ 17  

    انہیں بزرگوں سے کچھ ملتا جلتا معاملہ راجا رام کا ہے۔ راجا رام اور بینی پرشاد کے نام گجرات میں عرصۂ دراز سے مشہور ہیں کہ وہ گجری کے شاعر تھے۔ ظہیر الدین مدنی کہتے ہیں کہ ایک روایت یہ بھی تھی کہ راجا رام نے اسلام قبول کرلیاتھا۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ایک مدت تک انہیں خیال تھا کہ یہ دونوں نام محض افسانوی ہیں۔ لیکن ایک دن بالکل اتفاق سے انہیں راجا رام کا دیوان مل گیا۔ یہ مخطوطہ اگرچہ ناقص ہے لیکن اس بات کو ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ راجا رام واقعی ایک شاعر کا نام تھا۔ 

    مدنی کا خیال ہے کہ راجا رام کا وطن سورت تھا، ان کا زمانہ سترہویں صدی کے ربع آخر کا معلوم ہوتاہے، اور وہ غالباً اسلام لے آئے تھے۔ لیکن اس آخری بات کے بارے میں ثبوت صرف شاعری کا ہے او ریہ دلیل دونوں طرف جاسکتی ہے۔ یعنی یا تو راجارام ہندو تھے لیکن تمام اردو شعرا کی طرح وہ ایسے مضامین اور زبان استعمال کر رہے تھے جن پر اسلام کی چھاپ تھی۔ یا پھر وہ تھے مسلمان، لیکن انہوں نے ہندوانہ تخلص اختیار کیا، تاکہ اکثریت کے ساتھ اپنے دوستانہ اتحاد کا اظہار کریں، یا پھر اس لیے کہ ان کی نظر میں حقیقت الٰہیہ نام اور پتے سے ماورا تھی۔ 18  

    پندرہویں صدی کے آغاز تک گجرات میں ہندوی کی مقبولیت کا یہ عالم ہوگیا تھا کہ اس کے الفاظ فارسی میں بھی درآنے لگے۔ چنانچہ فضل الدین محمد بن قوام بن رستم بلخی نے اپنا لغت ’’بحر الفصائل‘‘ تصنیف کیا (۱۴۳۳ء/۱۴۳۴ء) تو اس میں جگہ جگہ ہندی الفاظ درج کرنے کے علاوہ ایک باب الگ سے قائم کیا۔ اس میں وہ ’’الفاظ ہندوی‘‘ درج کیے جو ’’نظم میں بکار آتے ہیں۔‘‘ 19  

    قاضی محمود دریائی اور شیخ علی محمد جیو گام دھنی (وفات ۱۵۶۵) کا زمانہ آتے آتے اسم لسان کی حیثیت سے ’’ہندوی/ہندی‘‘ کی جگہ ’’گجری‘‘ کو بیش از بیش استعمال کیا جانے لگا۔ شیخ علی محمد جیو گام دھنی کے پوتے اور خلیفہ سید ابراہیم نے شیخ کے ہندوی کلام کے مجموعے ’’جواہر اسرار اللہ‘‘ کے دیباچے میں لکھا، شیخ العالم، میرے حضرت اور شیخ نے حقیقت الحقائق اور معنی کے سمندر میں غواصی فرمائی اور اپنے دل کو جواہر اور مونگے اور لولوے لالاے حقیقی سے بھر ڈالا۔ پھر ان کو رشتہ شعر میں گوندھا، اس میں مکاشفات اور نکات بیان کیے۔ پھر ان کو اپنی گوہریاب اور جواہر نثار زبان پر بطریق نظم لائے اور الفاظ گوجری میں۔۔۔ جمع کیا اور انہیں ’’جواہر اسرار اللہ‘‘ نام دیا۔ 20  

    ’’جواہر اسرار اللہ‘ میں ’’ہندی/ہندوی‘‘ بطور اسم لسان غالباً بالکل استعمال نہیں ہوا ہے۔ لیکن ایسا بھی نہیں کہ یہ نام گجرات سے بالکل غائب ہی ہوگیا ہو۔ (یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس کا استعمال شروع سولہویں صدی میں گھٹ گیا ہو، اور بعد میں پھر کثرت سے رائج ہوگیا ہو) ۔ چنانچہ ’’تاریخ غریبی‘‘ نام کی ایک مثنوی گجرات میں ۱۷۵۱ء اور ۱۷۵۷ء کے درمیان تصنیف ہوئی، اس میں یہ اشعار ملتے ہیں، 

    ہندی پر نہ مارو طعنہ
    سبھی بتاویں ہندی معنی

    یہ جو ہے قرآن خدا کا
    ہندی کریں بیان سدا کا

    لوگوں کو جب کھول بتاویں 
    ہندی میں کہہ کر سمجھاویں 21  

    جنوب کے اس خطے میں، جسے آج دکن کہا جاتا ہے، ہندی/ ہندوی کی ادبی زندگی اگر اور پہلے نہیں تو پندرہویں صدی میں ضرور شروع ہوگئی ہوگی۔ اکا دکا اشعار اور اقوال کو چھوڑ کر پہلا کام جس سے ہم واقف ہیں، فخردین نظامی کا ہے۔ ان کی مثنوی ’’کدم راؤپدم راؤ‘‘ کی تاریخ تصنیف ۱۴۲۱ء تا ۱۴۳۴ء قرار دی گئی ہے۔ ممکن ہے ۱۰۲۳ شعر کی اس مثنوی کے پہلے بھی دکن میں کم و بیش طویل ادبی کارنامے سرانجام ہوئے ہوں۔ سیدہ جعفر کا کہنا ہے کہ خود مثنوی ’’کدم راؤپدم راؤ‘‘ میں اس بات کے داخلی شواہد موجود ہیں۔ 22 یہ بہرحال حقیقت ہے کہ ’’کدم راؤ‘‘ کا واحد موجودہ نسخہ نامکمل ہے، اور یہ مثنوی او ربھی زیادہ طویل رہی ہوگی۔ 

    ’’کدم راؤ پدم راؤ‘‘ کی زبان مغلق اور کٹھن ہے۔ اس کے مقابلے میں شیخ باجن کا کلام زیادہ سہل الفہم محسوس ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نظامی نے فارسی پر تکیہ کرنے کے بجاے تیلگو، کنڑ، کسی قدر مراٹھی اور پھر سنسکرت کے تت سم الفاظ کو کثرت سے راہ دی ہے۔ دوسری طرف یہ بھی ہے کہ شیخ باجن کے علی الرغم، جن کے یہاں فارسی اور ہندوستانی دونوں بحریں بکار آئی ہیں، ’’کدم راؤ پدم راؤ‘‘ میں فارسی کی متقارب مثمن محذوف (اکثر مقصور) نہایت صحت اور احتیاط کے ساتھ برتی گئی ہے۔ شاعرانہ مرتبے کے لحاظ سے نظامی کی شیخ باجن پر فوقیت نہیں لیکن انہیں بیانیہ کافن بخوبی آتا ہے۔ اس سے سیدہ جعفر کے خیال کو تقویت ملتی ہے، کیوں کہ ماقبل کے نمونوں کی غیرموجودگی میں کامیاب بیانیہ نظم کی تخلیق بہت مشکل ہے، 

    کدم راؤ آکھے زن دِنّہ آ دھر؟ آکھے =کہے، دنہ آدھر=؟
    کہ دھن پات سن بات یک چت دھر دھن =بیگم، شت دھر =دل لگاکر

    سنیا تھا کہ ناری دھرے بہت چھند بہت =بروزن فع، چھند =فریب
    سو میں آج دیٹھا ترے چھند پند دیٹھا =دیکھا، پند =فند

    وہی چھند جب میں دیٹھا جگ میں 
    اسی ویل (تھے) ہوں پڑیا دگ میں ویل =وقت، تھے =سے، دگ =حیرت

    سنیا تھا جو کن پر دیٹھا آج انک کن =کان، انک =آنکھ
    نہ راہا تنھیں دیکھتے نین بنک؟ تنھیں =اسی وقت، نین بنک=؟

    سجات ایک ناگن کجات ایک سانپ 
    اسنگت دیٹھے کھیلتیں لانپ جھانپ اسنگت =جن میں میل نہیں 

    جو کرتار مج کوں کیا ہوئے راؤ
    اسنگت کے کیوں دیکھ سکوں انیاؤ انیاؤ =ظلم

    کھڑک کاڑ دوکھا تہایا تکھار کاڑ =نکال کر، دوکھا =دوڑایا
    تکھار =گھوڑا
    اسی ٹھار کھورس کیا شب تہار؟ ٹھاڑ =جگہ، کھورس =گھوڑا
    شب تہار =حملہ؟

    گئی نہاس ناگن پران آپ لے نہاس =تیزی سے 
    پران آپ لے کر گئی پونچ دے 23 پونچ =دم

    مثنوی کا ایک ہی نسخہ دستیاب ہونے کے باعث قرأت کی مشکلیں حل نہیں ہوسکتیں۔ اگرچہ جمیل جالبی نے مخطوطے کی فوٹو کاپی بھی اپنے مدون کردہ متن کے ساتھ چھاپ دی ہے، اغلاط کے باعث اس کو پڑھنا آسان نہیں۔ پھر، بہت سے الفاظ کے معنی نہ کسی فرہنگ میں ہیں اور نہ کسی لغت میں، حتی کہ اردو لغت بورڈ کراچی کا ضخیم و حجیم ’’اردو لغت، تاریخی اصول پر‘‘، بھی ’’کدم راؤ پدم راؤ‘‘ کے کئی الفاظ سے خالی ہے۔ مجموعی حیثیت سے ’’کدم راؤپدم راؤ‘‘ ادبی سے زیادہ تاریخی دلچسپی کی حامل شاعری ہے۔ لیکن اس کے آہنگ میں ایک روانی ہے، جو نظم کو بآواز بلند پڑھے جانے کا تقاضا کرتی ہے۔ 


    حواشی
    (۱) محمد عوفی، ’’لباب الالباب‘‘، مرتبہ ای۔ جی۔ براؤن اور مرزا محمد بن عبدالوہاب قزوینی، تہران، ۱۳۳۳ شمسی (۱۹۵۴ء)، ص۴۲۳۔ مزید ملاحظہ ہو، براؤن ہی کا مرتب کردہ لائڈن/لندن ایڈیشن، حصۂ اول، ۱۹۰۳ء، ص ص ۲۶۴ تا ۲۵۲۔ 
    (۲) امیر یمین الدین خسرو، ’’نہ سپہر‘‘، مرتبہ ڈاکٹر وحید مرزا، آکسفورڈ یونیورسٹی پریس، براے اسلامک ریسرچ ایسوسی ایشن، کلکتہ، ۱۹۴۸ء، ص ص ۱۷۹تا ۱۸۰۔ 
    علما کو یہ طے کرنے میں بہت دقت ہوئی ہے کہ خسرو کی نام بردہ زبانوں کے جدید نام کیا ہیں۔ ڈاکٹر وحید مرزا، جن کے مدون کردہ متن سے میں نے اشعار لکھے ہیں، انہوں نے ان الفاظ کے جدید معنی نہیں لکھے۔ علاوہ بریں، اس مثنوی کے جتنے نسخے میں نے دیکھے ہیں، اغلاط سے خالی نہیں۔ خود وحید مرزا کا بھی متن پوری طرح مطمئن نہیں کرتا اور مجھے کہیں کہیں تصحیح کرنی پڑی ہے۔ 
    گریرسن نے Linguistic Survey of India، جلد اول، حصہ اول، ص۱، پر الیٹ کے ترجمے پر اعتبار کرتے ہوئے حسب ذیل نام بیان کیے ہیں، سندھی= سندھی، لاہوری =پنجابی، کشمیری= ڈوگری، دھوسندری =میسوری کنڑ، تلنگی= تیلیگو، گجر =گجراتی، معبری =ساحل کا رومنڈل کی تامل، گوری =شمالی بنگالی، بنگال اردو =مشرقی ہندی، دہلی اور اس کا قرب و جوار =مغربی ہندی۔ 
    اس فہرست میں کئی مشکلیں ہیں۔ اول یہ کہ کشمیری کو ڈوگری کیوں بتایا گیا؟ دوم، ’’کبر‘‘ کے معنی نہیں بتائے گئے۔ سوم، اگر ’’گوری‘‘ کوئی زبان ہے (بقول گریرسن شمالی بنگالی)، تو خودگریرسن نے ہندوستانی زبانوں کی اپنی وسیع و عریض فہرست میں (جو اسی جلد میں شامل ہے) اس کا ذکر کیوں نہ کیا؟ چہارم، ’’بنگال اود(ھ) ‘‘ نام کی کوئی زبان نہیں ہے، اور ’’مشرقی ہندی‘‘ بھی انگریزوں کا وضع کیا ہوا مشکوک نام ہے۔ پنجم، بنگال اور اودھ کو یک جا کرنے کا کوئی جواز نہیں، اور نہ ہی بنگالی کو ’’مشرقی ہندی‘‘ کہہ سکتے ہیں (اگر مشرقی ہندی نام کی کوئی چیز واقعی ہو بھی) 
    میں ان ناموں کو جہاں تک سمجھا ہوں، اسے ذیل میں درج کرتا ہوں، 
    سندھی =سندھی، لاہوری =پنجابی، کشمیر =کشمیری، کبر=؟ دھور سمندری =یہ غالباً ’’دوارسمدری‘‘ ہے۔ پروفیسر نعیم الرحمن فاروقی نے مجھے بتایا کہ ’’دوارسمدر‘‘ اس زمانے میں ایک حکومت تھی۔ یہ آج کے کرناٹک کو محیط تھی اور اس کا دارالخلافہ جدید کرناٹک کا شہر ہاسن تھا۔ لہٰدا دھور سمندری سے مراد کنڑ ہے۔ تلنگی =تیلیگو، گجر= گجراتی، معبری =تامل، کیوں کہ جدید تامل ناڈ کے جنوبی ترین نقطے سے عرب جہازراں ساندیپ کے لیے روانہ ہوتے تھے (معبر =عبور کرنے کی جگہ) ۔ گوری= مراٹھی؟/گوڑ (جو آج مغربی بنگال کے ضلع مالدہ کا حصہ ہے) کی بنگالی؟ اگر ایسی کوئی زبان تھی، تو وہ بنگالی سے مختلف ہوگی، کیوں کہ خسرو نے بنگالی کو الگ سے درج کیا ہے۔ لیکن مجھے ایک شک یہ ہے کہ ’’گوڑی/گوری‘‘ دراصل مراٹھی کی کوی شکل رہی ہوگی۔ 
    عابد پیشاوری نے ’’قاموس الاغلاط‘‘ کے مصنفوں کا ایک قول نقل کیا ہے کہ مراٹھی ’’گوٹھ زبانوں میں سے ہے۔‘‘ (عابد پیشاوری، ’’گاہے گاہے بازخواں‘‘، نئی دہلی، سیمانت پرکاشن، ۱۹۹۴ء، ص۱۴) ۔ پروفیسر گوپی چند نارنگ، جو خود اعلیٰ درجے کے ماہر لسانیات ہیں، اپنی کتاب ’’امیرخسرو کا ہندوی کلام‘‘ (شکاگو، ۱۹۸۷ء، ص۲۹) پر ’’کبر‘‘ کو ڈوگری، ’’دھور سمندری‘‘ کو تامل، ’’معبری‘‘ کو کنڑ، اور ’’گوری‘‘ کو آسامی بتاتے ہیں۔ تامل اور کنڑ کے ناموں کو الٹ دینا شاید غیر شعوری سہو ہوگا، لیکن ’’گوری‘‘ کو آسامی بتانے کی وجہ انہوں نے نہیں بیان کی، نہ ہی ’’کبر‘‘ کو ڈوگری قرار دینے کے بارے میں انہوں نے کچھ گفتگو کی ہے۔ وہ اس بات کی بھی وضاحت نہیں کرتے کہ آسام کی زبان کا نام بنگال کے ایک ضلعے گوڑ کے نام پر کیوں رکھا گیا ہوگا۔ 
    گیان چند (’’تاریخ‘‘، جلد اول، صفحہ۲۳) نے ’’مشرقی ہندی (Eastern Hindi) کی قواعد پر روڈ ولف اے ایف ہرنل (Rudolf A.F.Hoernle) کی ایک عالمانہ کتاب کا ذکر کیا ہے۔ یہ کتاب ۱۸۸۰ء میں شائع ہوئی، او رہر نل نے اس کا نام حسب ذیل رکھا تھا، 
    A Comparative Grammar of the Guadian Languages with Special Reference to The Eastern Hindi. Accompanied by a Language Map and a Table of Alphabets.
    گریرسن نے (Survey, Vol.1, Part I, page 27) اس کتاب کو ہرنل کا ’’شاہ کار‘‘ کہا ہے، لیکن اس نے Guadian کی کوئی وضاحت نہیں کی ہے۔ بہرحال، ممکن ہے کہ ’’قاموس الاغلاط‘‘ کے مصنفین نے ہر نل کی دیکھا دیکھی مراٹھی کو ’’گوڑ‘‘ زبان کہہ دیا ہو۔ میں نے الٰہ آباد کے بعض سربرآوردہ ماہرین سنسکرت سے پوچھا تو وہ بھی ’’گوڑی‘‘ زبان کے بارے میں کچھ نہ بتاسکے۔ 
    گریرسن نے ’’گوڑ‘‘ نام کی کسی زبان کا ذکر نہیں کیا ہے، لیکن اس کی فہرست (جلد اول، حصہ اول، ص۴۵۰) پر ’’گولی‘‘ نام کی زبان درج ہے، اور لکھا ہے کہ یہ مراٹھی کی ایک شکل ہے اور ۱۹۱۱ء کی مردم شماری کے قول کے مطابق یہ ضلع ناسک میں بولی جاتی تھی۔ چونکہ مراٹھی ’’ل‘‘، انگریزی “L” اور اردو/ہندی ’’ڑ‘‘ کے بیچ کا سا سنائی دیتا ہے، اور خسرو نے فارسی میں ’’ڑ‘‘ کو ’’ر‘‘ ہی لکھا ہوگا، اس لیے قرین قیاس ہے کہ ان کی مراد مراٹھی ہی سے ہو۔ بنگال کے ضلع گوڑ کی کوئی زبان اگر ہو بھی تو غالباً اتنی اہم نہ ہوگی کہ خسرو اپنی مختصر فہرست میں اس کا ذکر کرتے۔ 
    (۳) کاش کہ خسرو نے کچھ نمونے دے دیے ہوتے۔ اس وقت تو ان کے ہندوی کلام کے بس چند مصرعے اور فقرے ہی دستیاب ہیں۔ میں نے خسرو کی اصل عبارت اس لیے نقل کردی ہے تاکہ پڑھنے والے خود اطمینان کرلیں۔ خسرو نے ہندی/ہندوی میں بہت ہی کم کہا، اور جو کچھ کہا اس میں سے (چند متفرق عبارتوں کے سوا) اب کچھ ملتا نہیں۔ 
    ملحوظ رہے کہ خسرو نے اپنی فہرست کی تمام زبانوں کو ’’ہندوی‘‘ کہا ہے۔ یعنی یہاں وہ ان زبانوں کا نام نہیں بلکہ جائے پیدائش بتا رہے ہیں۔ یہ غلط فہمی نہ ہونا چاہیے کہ ان سبھی زبانوں کا نام ’’ہندوی‘‘ تھا۔ سنیتی کمار چٹرجی لکھتے ہیں، ’’دہلی اور اس کے اطراف میں جو زبان بولی جاتی تھی، اس کی نئی طرزیانئی شکل، جو ہندوستانی یا اردو کہلاتی تھی۔۔۔ وہ، اور شمالی ہند کی دوسری بہت سی انڈو آریائی بولیاں ایک مجموعی وجود کی حیثیت سے مغرب کے غیر ہندوستانیوں کے یہاں محض ’’ہندو‘‘ یا ’’ہندوستانی‘‘ (ہندوی، ہندوئی، یا ہندوی) کے نام سے جانی گئیں۔ اور یہ لفظ ’’ہندوستانی‘‘ (یا ہندوی، ہندی) بھی کسی مخصوص اصطلاحی مفہوم کا حامل نہ تھا۔‘‘ پروفیسر چٹرجی مزید کہتے ہیں کہ ’’ایک ڈھیلے ڈھالے نام کی اس غلط اور لاعلمی پر مبنی توسیع نے خاص کر گزشتہ پچاس برس میں، اور اس سے بھی زیادہ خاص طور پر ملک کی آزادی کے بعد کے پچیس تیس برسوں میں، اس خیال کو قائم کرنے میں مدد دی کہ ’’ہندی‘‘ کسی ایک ہی زبان کا نام تھا۔‘‘ (چٹرجی، ۱۹۷۳، ص ص ۳۶ تا ۳۷) 
    (۴) امیر خسرو، ’’دیباچۂ غرۃ الکمال‘‘، مرتبہ وزیر الحسن عابدی، لاہور، نیشنل بک فاؤنڈیشن، ۱۹۷۵ء، ص ص ۶۳ تا ۶۴۔ 
    (۵) اس بیان کی روشنی میں دیکھیں تو خسرو کی بدیہہ گوئی کے جو قصے مولانا محمد حسین آزاد نے ’’آب حیات‘‘ میں لکھے ہیں، کچھ زیادہ قابل اعتبار ہوجاتے ہیں۔ 
    (۶) علامہ شلی نعمانی، ’’شعر العجم‘‘، جلد دوم، علی گڑھ، ۱۹۱۰ء، ص ص ۱۳۳، ۱۳۷ تا ۱۳۸۔ 
    (۷) خسرو، ’’نہ سپہر‘‘، ص۱۸۱۔ 
    (۸) Franklin Lewis: Reading, Writing, and Recitation: Sa na’I and the Origins of The Persian Ghazal, Unpublihed Ph.D. Dissertation, UMI Dissertation Services, Ann Arbor, Mich., 1996, pp. 130-137.
    (۹) حافظ محمود شیرانی، ’’مقالات‘‘، جلد اول، ص ص ۱۶۶ تا ۱۶۸۔ مزید دیکھیں: علی جواد زیدی، History of Urdu Literature مطبوعہ، نئی دہلی، ساہتیہ اکیڈمی، ۱۹۹۳ء ص۴۷۔ 
    ظہیر الدین مدنی، ’’سخن وران گجرات‘‘، نئی دہلی، حکومت ہند، ترقی اردو بیورو، ۱۹۸۱ء، ص ص ۵۰، ۶۵تا ۶۸۔ گیان چند اور سیدہ جعفر، ’’تاریخ ادب اردو، ۱۷۰۰ء تک‘‘، جلد دوم، نئی دہلی، قوی کونسل برائے ترقی زبان اردو، ۱۹۹۸ء، ص ص ۲۰۴ تا ۲۱۱۔ 
    (۱۰) ظہیر الدین مدنی (’’سخن وران گجرات‘‘، ص ص ۴۹ تا ۵۰) نے کتاب کا نام ’’خزانۂ رحمت‘‘ لکھا ہے، تو کہیں ’’خزانۂ رحمت اللہ‘‘ ۔ انہوں نے جامع مسجد برہان پور میں محفوظ مخطوطے کا حوالہ دیا ہے۔ جمیل جالبی نے انجمن ترقی اردو کراچی میں محفوظ ایک اور نسخے کاحوالہ دیا ہے، انہوں نے ’’خزائن رحمت اللہ‘‘ لکھا ہے، اور وہی درست ہے۔ (جالبی، جلد اول، ص ص ۱۰۶ تا ۱۰۷) 
    (۱۱) شیرانی، جلد اول، ص۱۷۶۔ 
    (۱۲) بحوالہ جمیل جالبی، جلد اول، ص۱۰۷۔ مزید دیکھیں: گیان چند اور سیدہ جعفر، جلد دوم، ص ص ۲۰۴ تا ۲۱۱۔ 
    (۱۳) مدنی، ’’سخن وران گجرات‘‘، ص ص ۶۶ تا ۶۷، اور شیرانی، جلد اول، ص۱۶۹۔ متن دونوں ہی علما کا پوری طرح اطمینان بخش نہیں۔ مدنی کا متن بہتر ہے، لیکن مجھے کہیں کہیں قیاسی تصحیح کرنی پڑی ہے۔ 
    (۱۴) باب اول ملاحظہ ہو۔ 
    (۱۵) شیرانی، جلد اول، ص۱۶۹۔ 
    (۱۶) جمیل جالبی، جلد اول، ص۱۱۳۔ 
    (۱۷) مدنی، ’’سخن وران گجرات‘‘، ص ص ۹۳ تا ۹۶۔ 
    (۱۸) شیرانی، جلد اول، ص ص ۱۰۲تا ۱۳۱، ۱۶۱۔ لیکن حافظ صاحب مرحوم نے صفحہ ۱۱۵ پر عبارت ذرا مختلف لکھی ہے۔ یہاں درج ہے، ’’الفاظ ہندوی کہ درنظم بکارآید۔‘‘ اس سے یہ بات نہیں صاف ہوتی کہ ’’نظم‘‘ سے مراد فارسی نظم ہے یا ہندوی۔ اغلب ہے کہ فارسی ہی مراد ہوگی، کیوں کہ لغت ہی فارسی کا ہے۔ 
    (۱۹) شیرانی، جلد اول، ص۱۸۱۔ 
    (۲۰) شیرانی، جلد دوم، ص۲۴۹۔ 
    (۲۱) گیان چند اور سیدہ جعفر، ’’تاریخ‘‘، جلد دوم، ص۱۴۔ 
    (۲۲) فخردین نظامی، ’’کدم راؤپدم راؤ‘‘، مرتبہ جمیل جالبی، دہلی، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، ۱۹۷۹ء (۱۹۷۳ء)، ص ص ۹۱ تا ۹۳۔ مجھے ان اشعار کے حل کرنے میں پروفیسر مغنی تبسم سے بہت مدد ملی۔ پھر بھی اگر کوئی نقائص ہیں تو میرے ہیں۔

     

    مأخذ:

    اردو کا ابتدائی زمانہ (Pg. 58)

    • مصنف: شمس الرحمن فاروقی
      • ناشر: آج کی کتابیں، کراچی
      • سن اشاعت: 2009

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے