Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

سر سید اور ہندوستانی قومیت

مشیر الحق

سر سید اور ہندوستانی قومیت

مشیر الحق

MORE BYمشیر الحق

     

    اس وقت جب کہ سید احمد (آگے سر سید) دو بالکل واضح مذہبی گروپوں پر مشتمل ایک ہندوستانی قوم کے نظریے کی وکالت کر رہے تھے، کچھ ہندو رہنما جو اپنی ملت کی منزل مقصود متعین کرنے میں مصروف تھے، بظاہر ایک ایسی قوم کی تشکیل کے بارے میں بالکل نہیں سوچ رہے تھے جس میں مسلمانوں کو مساوی درجہ حاصل ہو۔ ہندو بیشتر (سوامی) دیانند سرسوتی (آریہ سماج۔ بیشتر پنجاب اور یوپی میں) بال گنگا دھر تلک (مہاراشٹر میں) اور کشیپ چندر سین (برہمو سماج، بنگال میں) جیسے رہنماؤں سے متاثر ہو رہے تھے۔

     

    اس دور کی تمام ہندو تحریکیں اصلاحی تحریکوں کی حیثیت سے وجود میں آئیں۔ وہ ہندو معاشرے کی بہت سی معاشرتی رسوم کی، جو اس وقت تک ہندو مذہب کا جزو بن چکی تھیں، اصلاح کرنا چاہتی تھیں۔ بالکل فطری طور پر ان کے مخاطب ہندو ہی تھے۔ اسی سبب سے بالکل واضح طور پر ان تحریکوں کے رہنما عملی اور روحانی رہنمائی کے لیے مسلمانوں کے کے دور سے پہلے کی تاریخ پر نظر جمائے ہوئے تھے۔ ہندو مذہب کے احیاء کی یہ کوششیں سر سید کے لیے کوئی راز نہ تھیں۔ اس کے باوجود انہیں توقع تھی کہ ایک نہ ایک دن وہ قلبی و ذہنی ترغیب دے کر ہندوؤں کو قومیت کے ایک بلند تصور کو قبول کرنے پر آمادہ کر لیں گے۔


    ۱۸۶۷ء کے لگ بھگ کچھ ہندوؤں نے، جو بیشتر بہار اور مشرقی یوپی کے باشندے تھے اور جن کے ساتھ بعد میں اور بہت سے لوگ شریک ہو گئے تھے، ایک تحریک شروع کی کہ اردو زبان کو جو کھڑی بولی ہندی اور فارسی کا مرکب تھی، ہندی زبان سے بدل دیا جائے جو اردو سے مختلف طرز تحریر رکھتی ہے۔ سر سید اس تحریک کو معروضی اندازِ نظر سے نہ دیکھ سکے، وہ بد دل سے ہوگئے۔ اس مطالبے اور ہندو احیاء پسندوں کی دوسری تحریکوں نے انہیں یقین دلایا کہ ہندوؤں میں جو اس حد تک ذات پات کے نظام میں جکڑے ہوئے تھے کہ انہیں ایک ملت ہونے کا احساس نہ تھا، اب گروہی اور ملی شعور ابھر رہا تھا اور اپنے علیحدہ تہذیبی وجود کا، مسلمانوں کے مقابلے میں دعوی لے کر اٹھنے اور اپنے خصوصی مفادات کے تحفظ کی کوششوں کے سلسلے میں ان کے اعلی اور درمیانی طبقات باہم ملتے جا رہے تھے۔ 1 اپنی اس مایوسی کے عالم میں انہوں نے کہا تھا،

    ’’میں نے کہا اب مجھ کو یقین ہو گیا ہے کہ دونوں قومیں کسی کام میں دل سے شریک نہ ہو سکیں گی، ابھی تو بہت کم ہے۔ آگے آگے اس سے زیادہ مخالفت اور عناد ان لوگوں کے سبب جو تعلیم یافتہ کہلاتے ہیں، بڑھتا نظر آتا ہے۔‘‘ 2

    اپنی اس رائے کو سر سید نے ۱۸۷۶ء میں اپنے ایک دوست مسٹر شیکسپیر، کمشنر بنارس کے سامنے ظاہر کیا۔ اس کے باوجود سر سید کے اس بیان سے اس نتیجے کے اخذ کرنے میں احتیاط سے کام لینا چاہیے۔ یہ ثابت کرنے کی کوشش کہ، اب آئندہ دونوں قوموں کے لیے کبھی یہ ممکن نہ ہوگا کہ وہ کسی مشترکہ مہم میں شریک کار بن سکیں، 3 ان کا عقیدہ بن گیا تھا، گمراہ کن اور غلط ہے۔ اپنے مذکورہ بالا بیان میں سر سید نے انگریزی لفظ نیشن نہیں بلکہ اردو لفظ قوم استعمال کیا تھا۔ جو، جیسا کہ ہم دیکھ چکے ہیں لازماً نیشن کے معنی نہیں دیتا۔ اپنی مذکورہ بالا بحثوں کی روشنی میں جو ہم نے لفظ قوم کا مفہوم متعین کرنے کے لیے کی تھیں، واحد منصفانہ فیصلہ جو اخذ کیا جا سکتا ہے، یہی ہوگا کہ سر سید کو یہ کہنے اور سوچنے پر مجبور ہونا پڑا کہ ان مسائل پر جو ہندوستانی قوم کے مستقبل پر اثر انداز ہو سکتے ہیں، دونوں گروپوں یا ملتوں کے تعاون کے امکانات بہت تاریک ہیں۔ مگر یہ بہر حال ان کا آخری فیصلہ نہ تھا۔ یہ اس لیے کہ ہم انہیں ۱۸۸۴ء میں اپنے مذکورہ بیان میں آٹھ سال بعد یہی کہتے ہوئے پاتے ہیں کہ مسلمان اور ہندو ایک ہی ہندوستانی قوم کے اجزاء ہیں۔

    اب یہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ مسلمانوں اور ہندوؤں دونوں ہی نے غدر میں حصہ لیا تھا۔ لیکن جب وہ دبا دیا گیا تو برطانوی لوگوں نے عموماً مسلمانوں کو غدر کے لیے ذمے دار ٹھہرایا اور انہیں اپنے انتقام کا خصوصی نشانہ بنایا۔ شرفاء خصوصا ًمسلمان شرفاء تقریباً فنا کر دیے گیے۔ 4 نہ صرف مسلمانوں کو انفرادی طور پر ایذائیں دی گئیں اور انتقاماً سزائے موت دی گئی بلکہ گورنمنٹ کی ملازمتوں میں تمام مسلمانوں کے خلاف امتیازی سلوک کی ایک منظم پالیسی تھی۔ یہاں تک کہ ۱۸۶۹ء میں کلکتہ کے ایک فارسی اخبار دور بین نے شکایتاً لکھا تھا،

    ’’بتدریج مسلمانوں کو ملازمتوں سے نکالا جا رہا ہے اور ہندوؤں کو بڑی تعداد میں بھرتی کیا جا رہا ہے۔ سرکاری گزٹ میں اعلان ہوا تھا کہ کسی مسلمان کا تقرر نہ کیا جائے۔ حال ہی میں سندر بن (بنگال) کے کمشنر کے دفتر میں چند آسامیاں خالی تھیں۔ ان کے اشتہار کے ساتھ ایک سرکاری نوٹ بھی تھا کہ صرف ہندو ان جگہوں کے لیے درخواست دے سکتے ہیں۔‘‘

    یہی پالیسی ایک دوسرے مسلمانوں کی اکثریت والے صوبہ پنجاب میں اپنائی گئی۔ تعلیم کے بارے میں پہلی رپورٹ سے جو ۵۷۔ ۱۸۵۶ میں شائع ہوئی تھی، ظاہر ہوا کہ (مقامی زبان کے) اسکولوں میں مسلمان استادوں اور طالب علموں کی تعداد دوسرے گروہوں کے مقابلے کہیں زیادہ تھی۔۔۔ یہ تجویز ہوا کہ حکومت اس رجحان کو روکنے کی کوشش کرے۔ ۶۱۔ ۱۸۶۰ کی رپورٹ میں بھی اسی جذبے کا اظہار ہوا تھا کیوں کہ اعداد و شمار سے مسلمان اساتذہ کی نمایاں اکثریت ظاہر ہوتی تھی۔ حکام کو مشورہ دیا گیاکہ وہ ہندوؤں کو اس پیشے کے اختیار کرنے کی ترغیب دلائیں اور اس طرح ایک محتاط تدریجی عمل کے ذریعہ پہلے دونوں گروہوں کے اساتذہ کی تعداد کو برابر کرنے کی کوششیں کی گئیں اور پھر اس محکمے میں مسلموں کو کم کرنے کی تدابیر کی گئیں۔

    اس پالیسی پر اس وقت ہندوؤں نے تنقید نہ کی، بلکہ واقعہ تو یہ ہے کہ اسے بہت پسند کیا گیا۔ لیکن جب گو ناگوں اسباب کی بناء پر حکومت نے اپنی ظلم و تعدی کی پالیسی پر نظر ثانی کی، اور پہلے رویے کے بجائے مسلمانوں کے سلسلے میں، مسلمانوں کی موافقت کی پالیسی اختیار کی تو ہندوؤں نے اسے عام طور پسند نہیں کیا، ان کے اخبارات نے اس موضوع پر طویل مضامین چھاپے کہ ناقابل مصالحت لوگوں کے ساتھ مصالحت کی کوششیں غیر دانش مندانہ ہیں۔ 5 ۱۸۷۰ء میں ہندو پیٹر یاٹ نے حکومت سے اپیل کی کہ وہ اس پالیسی سے باز رہے۔ کیوں کہ سارے مسلمان انگریزوں کے غدار اور دشمن ہیں۔

    بہر حال ہمارا مقصد یہاں ہندوؤں کی سرگرمیوں کا جائزہ لینا نہیں ہے۔ اس میں صرف اس صورت حال کا پس منظر دکھانا ہے جس نے سر سید جیسے لوگوں کو مجبور کردیا کہ وہ زیادہ سے زیادہ مسلمانوں کے گروہی معاملات میں منہمک ہوتے چلے گئے اور یہ بھی دکھانا ہے کہ ہندوؤں نے بھی اس وقت نیشن کے بارے میں اس کے اس مفہوم میں جو آج کل سمجھا جاتا ہے، غور نہیں کیا تھا۔ ہندوستان میں ہر گروہ اور ملت کے لیے یہ بالکل جائز سمجھا جاتا تھا کہ وہ صرف اپنے مفادات کے تحفظ کی فکر کرے۔ سر سید نے اپنی ملت کا نمائندہ بننا اختیار کیا مگر وہ دوسروں کے ساتھ نا انصافی نہیں کرنا چاہتے تھے جیسا کہ ان کے سوانح نگار حالی لکھتے ہیں، ’’کبھی گورنمنٹ سے اس بات کی شکایت نہیں کی کہ مسلمانوں کی تعداد بہ نسبت ہندوؤں کے سرکاری ملازمت میں بہت کم ہے، کبھی کسی ہندو عہدیدار کی ترقی پر اعتراض یا ناگواری کا اظہار نہیں کیا بلکہ بر خلاف اس کے ہمیشہ مسلمانوں کو یہ نصیحت کی کہ سرکاری ملازمت کا استحقاق پیدا کریں۔‘‘

    یہ اس لیے کہ سر سید کی نظر میں ہندوستان ایک حسین دلہن کی مانند ہے۔ ہندو اور مسلمان اس کی دو آنکھیں ہیں۔ جب تک کہ اس کی دونوں آنکھیں اچھی حالت میں رہیں گی تو دلہن کی دلکشی اور حسن باقی رہے گا لیکن اگر ایک آنکھ جاتی رہی تو دلہن بھینگی ہو جائےگی۔ 6 یہی وہ جذبہ تھا جس کے تحت سر سید نے ہندوستانی قوم کا تصور قائم کیا تھا اور یہ انڈین نیشنل کانگریس کے وجود میں آنے سے پہلے کی بات ہے، جس کا مقصد ( اس کے پہلے اجلاس بمبئی میں ہونے والی تقریروں کی روشنی میں) ہندوستان کے لوگوں کے مختلف اور متصادم عناصر کو متحد کرکے ایک قوم بنانا تھا۔

    اپنے مقاصد میں کامیابی کے لیے سر سید کی رائے تھی کہ ہندوستانیوں کو یہ حقیقت اپنے ذہنوں بٹھانی ہوگی کہ ہندوستان کی تاریخ کے اس موڑ پر برطانوی حکومت ایک نعمت ہے۔ زیادہ تر اس غرض سے وہ برطانوی حکومت کے وفادار تھے اور کسی ایسی تحریک میں حصہ لینے کے خیال کو بھی نا پسند کرتے تھے جو ملک کو کسی دوسرے غدر سے دوچار کردے۔ اس لیے انہوں نے ہندوستانیوں سے عمومی طور پر اور مسلمانوں سے بالخصوص کانگریس سے اجتناب کرنے کے لیے کہا تھا۔

    سر سید پر اب عام طور پر الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ نیشنلزم کے مخالف تھے، کیوں کہ وہ کانگریس کے مخالف تھے۔ لیکن ہم ایسا محسوس نہیں کرتے کہ ہمارے اس زیر مطالعہ زمانے میں کانگریس مخالف اور نیشنلزم مخالف ہونا ایک ہی بات تھی۔ ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ انیسویں صدی کی انڈین نیشنل کانگریس، بیسویں صدی کی انڈین نیشنل کانگریس سے بہت مختلف تھی۔ سر سید کی سیاسی فکر اور ان کے ہم عصر سر بر آوردہ کانگریسی ممبروں کی فکر کے غیر متعصبانہ مطالعے سے واضح ہوگا کہ سر سید اتنے ہی بڑے نیشنلسٹ تھے جتنی کانگریس ہو سکتی تھی۔ حقیقتاً دونوں برطانوی حکومت کے وفادار تھے کیوں کہ دونوں کو یقین تھا کہ اسی میں ان کے ملک کی بہتری ہے۔ کانگریس کے ابتدائی دور کے ممبروں کے وفادارانہ انداز کے بارے میں کانگریس کی سرکاری تاریخ کے مؤلف ڈاکٹر پٹما بھی سیتارمیہ کہتے ہیں،

    ’’کانگریس کے ممبر ابتدائی دور میں اپنی وفاداری کا علی الاعلان اظہار کرنا پسند کرتے تھے۔ ۱۹۱۴ء میں جب لارڈ پنٹیلنڈ، گورنر مدراس، کانگریس کے پنڈال میں آئے تو تو نہ صرف یہ کہ پورے اجلاس کے لوگ کھڑے ہو کر تعظیم بجا لائے اور تالیاں بجا کر ان کی آمد پر مسرت کااظہار کیا بلکہ مسٹر اے۔ پی پیٹرو جو اس وقت ہندوستانی مہماتی فورس کے بھیجے جانے پر تقریر کر رہے تھے، انہیں اچانک تقریر کرنے سے روک دیا گیا اور سریندر ناتھ بنرجی سے تاج و تخت برطانیہ سے کانگریس کی وفاداری کے بارے میں تجویز پیش کرنے کے لیے کہا گیا، جسے انہوں نے اپنی عادت کے مطابق مبالغہ آمیز تقریر کے ساتھ پیش کیا۔ ایک ایسا ہی واقعہ اس وقت پیش آیا جب ۱۹۱۶ء میں لکھنو کانگریس کے موقع پر سر جیمس میسٹن اجلاس میں پہنچ گئے تو اجلاس نے کھڑے ہوکر ان کی پذیرائی کی۔‘‘

    سر سید کے کانگریس مخالف رجحان کا خاص سبب ملک کی سیاسی صورتِ حال کا فہم وشعور تھا۔ خصوصا ًمسلمانوں کے تعلق سے، 7 جو ان کی رائے میں ایسی پوزیشن میں نہیں تھے کہ ایسی سر گرمیوں میں حصہ لے سکیں جو ملک کو ایک دوسرے غدر کی طرف لے جائیں۔ اپنے ایک مضمون ’’ہندوستان اور انگلش گورنمنٹ‘‘ میں انہوں نے کہا تھا، ’’جو لوگ ایجی ٹیشن کی مخالفت کرتے ہیں ان کی نسبت ایجی ٹیشن کرنے والے کہتے ہیں کہ وہ گورنمنٹ کی خوشامد کرتے ہیں مگر ان کا جو دل چاہے کہیں۔ ایجی ٹیشن سے مخالفت کرنے والے اپنے دلی یقین سے یہ سمجھتے ہیں کہ گورنمنٹ اگر ان ایجی ٹیشن کرنے والوں کی درخواستیں منظور کرلے (حالانکہ ایسا ہونا ممکن ہے) تو ہندوستان کے انتظام اور اس کے امن و امان میں خلل عظیم واقع ہوگا۔‘‘

    سر سید کو بہت سے دوسرے لوگوں کی طرح ہندوستا ن میں برطانوی حکومت کی ضرورت کا اس قدر یقین تھا کہ وہ کسی ایسی تحریک میں حصہ لینے کے خلاف تھے جس میں کوئی باغی عنصر پایا جاتاہو۔ ان کا یہ مشورہ صرف مسلمانوں کے لیے نہ تھا بلکہ ہر ہندوستانی کے لیے تھا۔ ان کی کانگریس مخالف روش کی یہی بنیاد ہے۔ بہت ہندو ان سے اس امر میں اتفاق کرتے تھے۔ ڈبلیو۔ سی۔ اسمتھ کے الفاظ میں، ’’اب صورت معاملہ یہ ہے کہ وہ علاقے (جہاں سے کانگریس وجود میں آئی) ہندوؤں کی غالب اکثریت کے تھے (کم از کم بنگال میں متوسط اور اعلی طبقے میں مسلمانوں کے ہیں، مگر ان میں بیشتر زراعت پیشہ لوگ ہیں اور وہ اسی لیے متاثر نہ ہو سکے) اس طرح کانگریس کے حامی اور کانگریس مخالف موقف کسی حد تک مبہم طور پر سہی ہندو او ر مسلم نقطہ ہائے نظر معلوم ہونے لگے۔ مگر در حقیقت امر واقع یہ نہ تھا۔‘‘

    وہ ہندو جو سر سید کے ہم خیال تھے بیشتر یوپی کے اعلی طبقے پر مشتمل تھے، اعلی طبقے کے ہندو کانگریس کے اس قدر مخالف تھے کہ انہوں نے حکومت کو اس امر کی ترغیب بھی دلائی کہ وہ ایک ایسا قانون پاس کردے جس سے اس ہندوستانی کو سزا دی جا سکے جو دیسی زبانوں میں تقریر کرکے برطانوی حکومت کے خلاف لوگوں کے جذبات بھڑکائے۔ اس بارے میں ایک تجویز اودھ کے تعلقہ داروں کی ایک میٹنگ میں جو ۲۲ اکتوبر ۱۸۸۸ء میں لکھنو میں منعقد ہوئی تھی۔ راجہ شیو پرساد بہادر، سی۔ ایس۔ آئی نے پیش کی تھی۔ سر سید اس میٹنگ میں جوجود تھے اور اس سے پہلے کی ایک تجویز کے حق میں تقریر کر چکے تحھے جو ایک دوسرے ممتاز ہندو منشی نول کشور، سی۔ آئی۔ ای نے پیش کی تھی اور جس میں کانگریس کی سر گرمیوں کے توڑ کے لیے ہندووں اور مسلمانوں دونوں میں سخت محنت سے کام کرنے کا مشورہ دیا گیا تھا۔ لیکن جہاں تک کانگریسی ذہن رکھنے والے مقرروں کے خلاف کوئی قانون بنانے کے مطالبے کی تجویز کا تعلق تھا، سر سید نے دھمکی دی کہ اگر اس تجویز کو مسترد نہیں کیا گیا تو وہ اس ایسو سی ایشن سے اپنا تعلق منقطع کر لیں گے۔ انہوں نے کہا تھا،

    ’’بنگالیوں کو ہر گز میں بد خواہ گورنمنت کا نہیں سمجھتا گو کہ انہوں نے نہایت بری طرح پر کارروائی کی ہے۔ کانگریس والوں سے ہم کو کچھ عداوت نہیں ہے کہ ان کو فوجداری میں ماخوذ کرانے کی تدبیر کریں۔ ہم میں اور ان میں رائے کا اختلاف ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ جو کچھ وہ چاہتے ہیں، ہم مسلمانوں کے لیے اور راجپوتوں کے لیے، بالتخصیص ملک کے امن کے لیے نہایت مضر ہے۔ اس لیے ہم اس کے بر خلاف ہیں۔ اگر ان کی کارروائی سے ملک میں فساد ہونے کا اندیشہ ہے اور میری سمجھ میں بلا شبہ اندیشہ ہے تو یہ گورنمنٹ کا کام ہے، جو کچھ چاہے وہ کرے ہم کو کسی درخواست کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘

    ہو سکتا ہے کہ سر سید سے ملک کی سیاسی حالت کے جائزے میں غلطی ہوئی ہو، مگر یہ حقیقت اپنی جگہ ہے کہ برطانوی حکومت سے ان کی وفاداری بہت سے عناصر پر مبنی تھی۔ برطانوی حکومت کے انتقام کا خوف، ہندوؤں کا مسلمانوں سے عناد اور ملک کے روشن مستقبل کی امید، وہ ملک جو ان کے بقول بیوگی سے دوچار تھا اور اس نے اپنی مرضی سے انگریز قوم کو اپنے شوہر کی حیثیت سے قبول کر لیا تھا۔ 8 سر سید نے ہندوستان میں برطانوی حکومت کے دوام کی خواہش ایک عوامی جلسے میں ظاہر کی تھی۔ یہ خواہش انگریز سے محبت کی بناء پر نہ تھی بلکہ ان کے اپنے اس خیال پر مبنی تھی کہ ملک کے لیے اور ان کی اپنی ملت کی بھلائی کس چیز میں تھی۔ 9

    حالی بھی، جن کا مطالعہ ہم نے پہلے بھی کیا ہے، اسی رجحان سے متاثر تھے جو یہاں زیرِ بحث ہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ دن بہ دن انہوں نے مسلمانوں کے مختلف فرقوں کے اتحاد پر زیادہ سے زیادہ زور دینا شروع کیا۔ ان کی رائے میں بڑھتی ہوئی قوت کو روکنے کا صرف یہی ایک طریقہ تھا۔ مسلمانوں کے مختلف فرقوں کے درمیان موجودہ مناظروں پر تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا، ’’خصوصا ًمسلمانوں کو بہ نسبت دیگر اقوام کے اتفاق کی زیادہ ضرورت ہے۔ کیوں کہ ہندوستان میں ایرین (آریائی) نسل کی جتنی قومیں آباد ہیں، سب غلطی سے مسلمانوں کو ایک اجنبی اور بے گانہ قوم تصور کرتی ہیں۔ حالانکہ وہ خود بھی بہ مقابلہ اصلی باشندوں کے اس ملک میں ویسے ہی بے گانہ ہیں جیسے کہ مسلمان۔ بس تا وقتیکہ یہ غلطی رفع نہ ہو او آریا قومیں مسلمانوں کو بھی دل سے اپنا وطنی بھائی نہ سمجھنے لگیں، اس وقت تک مسلمان اس ملک میں بغیر اسلامی اخوت کے اپنا وزن قائم و بر قرار نہیں رکھ سکتے۔‘‘ 10

    حالی اخوت اسلامی کی فکر سے اس قدر متاثر ہوئے کہ ان کے تصور قوم (نیشن) کے فہم میں ایک انقلابی تبدیلی آگئی۔ جب انہوں نے کہا تھا کہ سارے ہندوستانی، ہندوستانی قوم کا ایک جزو ہیں تو وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ وہ سب ایک ہی اصل، زبان اور مذہب سے تعلق نہ رکھتے تھے۔ صرف ایک ہی جغرافیائی علاقے میں رہنے کے باعث وہ ایک قوم بن گئے تھے۔ مگر اب وہ ان لوگوں کا استہزاء کرتے جو اتنے اختلافات کے باوجود ایک ہندوستانی قوم کے وجود کے امکان کا دعوی کرتے۔ انہوں نے کہا تھا،

    یہ ہے مانی ہوئی جمہور کی رائے
    اسی پر ہے جہاں کا اتفاق اب

    کہ نیشن وہ جماعت ہے کم از کم
    زباں جس کی ہو ایک اور نسل و مذہب

    مگر وسعت اسے بعضوں نے دی ہے
    نہیں جو رائے میں اپنی مذبذب

    وہ نیشن کہتے ہیں اس بھیڑ کو بھی
    کہ جس میں وحدتیں مفقود ہوں سب

    زبان اس کی نہ ہو مفہوم اس کو
    ہوں آدم تک جدا سب کے جد و اب

    جو واحد لاشریک اس کا خدا ہو
    تو لاکھوں اس کے ہوں معبود اور رب

    ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ اس قطعے میں حالی ہندوستانی قوم کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کے حامی ہیں ؛ مسلمان قوم اور ہندو قوم۔ یہ صحیح ہے کہ انہوں نے ان لوگوں سے اختلاف کیا ہے جو یہ ایمان رکھتے تھے کہ ہندوستانیوں کو جدید معاشرتی مفہوم میں ایک قوم کہا جا سکتا ہے، لیکن اس اس کا یہ مفہوم نہیں ہے کہ وہ ہندوستانی مسلمانوں کو ایک قوم سمجھتے ہیں۔ اگر ہم یہ دوی کرنے لگیں کہ ان کی قوم (نیشن) میں یہ بات مضمر ہے کہ ہندوستان میں ایک مسلم قوم کا وجود ہے تب ہمیں اسے اس طرح بیان کرنا ہوگا کہ حالی کی رائے میں ہندوستان کے سارے مسلمان ایک ہی زبان بولتے ہیں اور ان سب کا تعلق بھی ایک ہی نسل سے ہے۔ ایسا نہ جب تھا اور اب بھی ایسا نہیں ہو سکا ہے۔ شاید یہ مایوسی اور جھنجھلاہٹ کا اثر تھا جس کے تحت ان کی فکر میں یہ انتشار اور الجھاو پیدا ہوا اور انہوں نے متضاد باتیں کہنی شروع کیں۔

    یہ ہم پہلے ہی دیکھ چکے ہیں کہ حالی نے ان مسلمان بادشاہوں کو مجرم ٹھہرایا ہے جنہوں نے ہندوستان پر حملہ یہاں قیام کے لیے نہیں بلکہ صرف لوٹ مار کے لیے کیا۔ 11 لیکن بعد میں وہی حالی افسوس کرتے نظر آتے ہیں کہ مسلمان ہندوستان میں کیوں مستقلاً مقیم ہو گئے۔ اپنے شکوہ ہند میں وہ ہندوستان کو اکال الامم کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ 12 وہ اپنے شکوے میں کہتے ہیں کہ جب مسلمان ہندوستان آئے تو ان میں وہ سارے اوصاف موجود تھے جن پر لوگ فخر کر سکتے تھے،

    جب تک اے ہندوستاں ہندی نہ کہلاتے تھے ہم
    کچھ ادائیں آپ میں سب سے جدا پاتے تھے ہم

    حال اپنا سخت عبرتناک تونے کر دیا
    آگ تھے اے ہند ہم کو خاک تونے کر دیا

    سر سید کے بر عکس حالی نے اپنے آخری دور میں بھی یہ نہیں کہا کہ ہندوؤں اور مسلمانوں میں اتحاد نا ممکن ہے۔ 13 لیکن انہوں نے مسلمانوں کو متنبہ کرنا شروع کیا،

    دیکھنا پیچھے نہ ہم چشموں سے رہ جانا کہیں
    حق میں ہمسائے کے ہمسائے کا بڑھتا ہے ستم

    اس مرحلے پر حالی اور سر سید جیسے لوگ اپنے مشن میں ناکام نظر آتے ہیں۔ ابتدا میں وہ ایک قوم کی تشکیل میں مصروف نظر آتے ہیں جو دو مختلف مذاہب کی پیرو ملتوں پر مشتمل ہو۔ لیکن انہیں اس راہ کی مشکلات کا احساس نہیں تھا۔ وہ دوسرے گروہوں کے ساتھ رواداری کا سلوک کرتے جب کہ محض رواداری کافی نہ تھی۔ رواداری صرف اسی صورت میں قدر کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہے جب کہ کوئی بڑی طاقت اسے چھوٹی قوت کے ساتھ برتے۔ لیکن اگر مختلف گروہ ایک ہونے کی کوشش کر رہے ہوں تو ہر ایک کو قربانی کا رویہ اپنانا پڑتا ہے۔ سر سید کا یہ مفروضہ صحیح ہو سکتا ہے کہ ہندوؤں میں ایثار کا جذبہ نہیں پایا جاتا، لیکن یہ حقیقت بھی اپنی جگہ ہے کہ انہوں نے بھی اپنی ملت کے مفادات کو ملک کے عظیم تر مفاد کے حق میں قربان کردینے کے لیے آمادگی ظاہر نہ کی۔ مثال کے طور پر زبان کے مسئلے پر اختلاف میں سر سید نے مسئلے کی بنیادی اہمیت کو نہیں سمجھا۔ انہوں نے اپنے چاروں طرف بہت سے ہندوؤں کو اردو بولتے دیکھا تھا اور بہت جلد فیصلہ کر لیا کہ یہ ان کی مادری زبان ہے۔ لیکن ایسا نہیں تھا۔

     یہ صحیح ہے کہ بہت سے ہندو، بیشتر یوپی کے باشندوں میں سے اردو جانتے ہیں لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ اردو ان کی مادری زبان نہیں تھی۔ (جب ہم اردو کہتے ہیں تو ہماری مراد اس ہندوستانی زبان سے ہوتی ہے جو عربی اور فارسی الفاظ سے مرکب ہوتی ہے اور فارسی رسم الخط میں لکھی جاتی ہے ورنہ دونوں ملتیں ایک ہی بنیادی زبان بول رہی تھیں) سر سید کو اس مسئلے پر اور زیادہ معروضی انداز سے غور کرنا چاہیے تھا۔ قطع نظر اس سے کہ اردو کی نشو و نما کس طرح ہوئی اور اردو کے نشو و نما اور ارتقاء میں ہندوؤں نے کتنا حصہ لیا، اس سے اس حقیقت میں کوئی فرق واقع نہیں ہوتا کہ ہندوؤں کی اکثریت خصوصاً ہندو عورتیں اس زبان کو، اگر وہ د یونا گری رسم الخط میں نہ لکھی ہو، نہیں پڑھ سکتیں۔ یہ معاملہ آج کے ہندوستان میں انگریزی زبان کی پوزیشن سے مشابہ تھا۔ ہندوستان کے تعلیم یافتہ طبقے کی غالب اکثریت انگریزی زبان سے اچھی طرح واقف ہے، اور بہت سے ہندوستانی اہل قلم کی انگریزی زبان کو نمایاں دین بھی ہے مگر یہ حقیقت اپنی جگہ رہتی ہے کہ انگریزی ہندوستانیوں کی مادری زبان نہیں ہے۔

    سر سید کی فکر میں یہ بنیادی نقص تھا۔ ان کی رائے میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے مفادات مشترک تھے، اس کے باوجود وہ حقیقت پسندانہ نقطہء نظر اختیار کرنے پر آمادہ نہ تھے۔ ڈاکٹر سید عابد حسین کے الفاظ میں شاید اس کا سبب درج ذیل تھا، ’’وہ شمالی ہند کے مسلمانوں کے اونچے اور متوسط طبقوں یعنی امراء اور اشراف کی بہترین روایات کے وارث تھے۔ یہی ان کی عظمت کی بنیاد اور یہی اس کی حد تھی۔ وہ سچا مذہبی جوش رکھتے تھے مگر ان کا رویہ مذہب کی طرف زیادہ تر ذہنی تھا اور اس میں خالص روحانی عنصر بہت کم تھا۔ وہ ہندوؤں، عیسائیوں اور دوسرے مذہب کے لوگوں کے ساتھ سچی رواداری برتتے تھے مگر نہ یہ صوفیوں کی قلبی رواداری تھی نہ جدید جمہوریت پسندوں کی ذہنی رواداری بلکہ محض ہندوستانی تہذیب کی روایتی رواداری۔‘‘ 14

    سر سید کی زندگی میں یہ فیصلہ کن مرحلہ تھا۔ انہیں اس الجھن سے نکلنے کا راستہ نہیں مل رہا تھا جس سے وہ دوچار تھے۔ در پیش صورت حال سے سمجھوتے کے بجائے انہوں نے اپنی سپاہ کو میدان جنگ سے نکال لیا اور ایک دوسرے محاذ پر جنگ شروع کر دی۔

    موجودہ تحقیقی مطالعے میں ہم سر سید اور ان کے پیروکاروں کی ان سر گرمیوں سے بحث نہیں کریں گے جو بالآخر ملک کی تقسیم پر منتج ہوئیں، اگر چہ مناسب مقامات پر بعض حوالے دیے جاسکتے ہیں، اگر وہ زیر بحث مسئلے کی تفہیم میں معاون ہو سکیں۔ اس مطالعے میں ہم ان لوگوں کا جائزہ لیں گے جو سر سید کے اس اعلان کے باوجود کہ ہندو اور مسلمان مل کر کام نہیں کر سکیں گے، ہندوستانی قوم کے وجود میں آنے کے امکان سے مایوس نہ ہوئے اور اس لیے انہوں نے اس فکر کو اپنے ذہن مین سختی سے جمالیا کہ ہندوستان، ہندوستانی مسلمانوں کا ویسا ہی وطن تھا جیسا کہ دوسرے مذاہب کے پیروؤں کا۔ دوسرے الفاظ میں انہوں نے یہ پوزیشن قبول کر لی تھی کہ وطن اور قومیت کے مسائل میں فیصلوں کے معاملے میں مذہب بنیادی عنصر نہیں ہے۔

    حواشی
    (۱) سید عابد حسین، دی ڈیسٹینی آف انڈین مسلمس (لندن ، ۱۹۶۵ء) صفحات ۳۹، ۳۰
    (۲) حالی، حیات جاوید (لاہور، جدید ایڈیشن ۱۹۵۷ء) ص ۱۹۴
    (۳) حفیظ ملک، مسلم نیشنلزم ان انڈیا اینڈ پاکستان (واشنگٹن، ۱۹۶۳ء) ص ۲۱
    ملک کا کہنا ہے کہ یہ بیان ۱۸۸۲ء کا ہے جو بہر حال سر سید کے سوانح نگار، حالی کی شہادت سے مطابقت نہیں رکھتا۔ (دیکھیے حالی، حوالہ بالا ' ص ۱۹۴) 
    (۴) دیکھیے باب ۲
    (۵) بی۔ پٹمابی سیتارمیہ، دی ہسٹری آف انڈین نیشنل کانگریس ۱۸۵۵ء تا ۱۹۳۵ء ' مدراس؛ ۱۹۳۵ء) ص ۸
    (۶) ڈبلیو۔ ڈبلیو۔ ہنٹر، دی انڈین مسلمان (کلکتہ، ۱۹۴۵ء) ص ۱۶۷ (یہ کتاب پہلی بار ۱۸۷۱ء میں شائع ہوئی، تیسرے ایڈیشن کی طباعت دوم ۱۸۷۶ء) اس خبر کے بارے میں ہنٹر (صفحہ ۱۷۶ حاشیہ ۲) لکھتا ہے ؛ میرے پاس اس فارسی صحافی کی بیان کی صحت کی جانچ کا کوئی سرکاری ذریعہ موجود نہیں ہے۔ مگر اس وقت جب یہ خبر اخبار میں شائع ہوئی ہے تو اس نے لوگوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کرائی تھی اور جہاں تک میں نے سنا ہے اس کی تردید نہیں ہوئی۔
    (۷) بشیراحمد ڈار، ریلیجیس تھاٹ آف سر سید احمد خاں (لاہور، ۱۹۵۷ء) ص ۷۱
    (۸) سید محمود، ہندو مسلم کلچرل اکارڈ (بمبئی، ۱۹۴۹ء) ص ۶۶
    (۹) بحوالہ ڈار، حوالہ بالا، ص ۷۶
    (۱۰) حالی، حیات جاوید، ص ۸۷۴
    (۱۱) سید احمد خاں، آخری مضامین، پہلی بار ۱۸۹۸ء میں شائع ہوئے (لاہور، دوسرا ایڈیشن ۱۹۲۴ء) ص ۷۰
    (۱۲) عابد حسین، حوالہ بالا، ص ۳۵
    (۱۳) سیتا رمیہ، حوالہ بالا، ص ۳۵
    (۱۴) حالی، مقالات، جلد اول، ص ۲۶
    (۱۵) سید احمد خاں، آخری مضامین، ص ۶۸ نیزمقالات سر سید، مرتبہ، محمد اسماعیل پانی پتی دس جلدیں، ( لاہور، ۱۹۶۳ء) ص ۲۱
    (۱۶) ڈبلیو۔ سی۔ اسمتھ ماڈرن اسلام ان انڈیا؛اے سوشل اینیلیسز، (لندن، ۱۹۴۶ء) طبع بارد گر (لاہور، ۱۹۶۳ء) ص ۲۱
    (۱۷) سید احمد کا خط پانیر، لکھنو کے ایڈیٹر کے نام۔ بعد میں یہ علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ ' ۲۷/ نومبر ۱۸۸۸ء میں شائع ہوا ' ص ۱۳۶۲ نیز سر سید کے مکاتیب میں شامل کیا گیا۔ دیکھیے مکاتیب سر سید احمد خاں ؛ مرتبہ، مشتاق حسین (علی گڑھ، ۱۹۶۰ء) صفحات ۷۴-۷۳
    (۱۸) حالی، حیات جاوید، ص ۴۰۳
    (۱۹) ایضا، ۴۰۴
    (۲۰) حالی، مقالات، جلد اول، صفحات ۲۸۴-۲۸۳
    (۲۱) حالی، دیوان، حوالہ بالا، ص ۲۷
    (۲۲) دیکھیے باب ۲، حوالہ ۲۹
    (۲۳) حالی، شکوہ ہند (علی گڑھ، ۱۸۹۵ء) ص ۳
    (۲۴) ایضا، ص ۶
    (۲۵) دیکھیے حوالہ نمبر ۲
    (۲۶) کلیات نظم حالی، جلد دوم، صفحہ ۱۱۱، اقتباس معین احسن جذبی، حالی کا سیاسی شعور، (علی گڑھ، ۱۹۵۹ء) ص ۱۶۱۔ (جزبی صاحب کی کتاب کے اس حوالے کے اندراج میں سہو ہوا ہے۔ یہ صفحہ ۱۸۳ پر ہے۔ مترجم) 
    (۲۷) سید عابد حسین، حوالہ بالا، صفحات ۳۲-۳۱

     

    مأخذ:

    جامعہ،نئی دہلی (Pg. 175)

      • ناشر: عبداللطیف اعظمی
      • سن اشاعت: 1998

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے