Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

سر سید کا نظریۂ تعلیم

معین الدین

سر سید کا نظریۂ تعلیم

معین الدین

MORE BYمعین الدین

     

    سر سید ایک ہمہ گیر شخصیت کے مالک تھے۔ ایک روشن خیال مدبر اور ایک مخلص مصلح قوم تھے۔ وہ عصر نو کے نقیب اور جدید تعلیم کے معمار تھے۔ ان کی قومی خدمات کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ ان کا گراں قدر کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے مغرب کے اس جدید ذہن سے قوم کو متعارف کرایا جس کی بنیاد عقلیت اور روشن خیالی پر تھی۔ وہ چاہتے تھے کہ ہندوستانی ذہن جو فرسودہ روایات میں جکڑا ہے، قدامت پسندی اور توہم پرستی کی گرفت سے آزاد ہوکر ایک نئی روشنی سے ہم کنار ہو۔
     
    سر سید کے خیالات میں روشنی اور حرارت مغرب سے در آئی۔ وہ انگلستان میں قیام کے دوران مغربی علوم اور فکر و فلسفے سے بے حد متاثر ہوئے تھے۔ اٹھارہویں اورانیسویں صدی میں سائنسی علوم کے فروغ کے ساتھ ساتھ حجابات فطرت سے پردے اٹھنے لگے اور جب انسان، فطرت اور کائنات کے رشتوں پر از سر نو غور و خوض ہونے لگا تو عقلیت کا دور دورہ شروع ہوا۔ سر سید نے عقلیت کو مشعل راہ بنایا اور ہر مسئلے کی صحت اور عدم صحت کو عقل کی کسوٹی پر پرکھنے کا حکم لگایا۔
     
    ۱۸۵۷ء کے قومی انقلاب 1 میں ناکامی کے بعد ہندوستانیوں بالخصوص مسلمانوں کے لیے بے حد آزمائش کا دور تھا۔ انگریز حکمراں مسلمانوں سے ناراض تھے اور انہیں شک و شبہے کی نظر سے دیکھتے تھے۔ مسلمانوں کا اقتدار چھن چکا تھا۔ ان کے حوصلے پست تھے ان پر ہر اس و پژمردگی طاری تھی۔ ان حالات کے رد عمل کے طور پر مسلمانوں میں دو قسم کے رجحانات پرورش پا رہے تھے۔ ایک رجحان کی نمائندگی علماء دین کر رہے تھے اور دوسرے رجحان کے علم بردار سر سید تھے۔ علماء دین شاہ ولی اللہ کی تحریک احیاء سے متاثر تھے۔ انہیں دینی تعلیم کی فکر تھی۔ سیاسی اعتبار سے وہ انگریزوں کے تسلط سے بیزار تھے اور یہ سمجھتے تھے کہ انگریزی راج میں ان کے مذہب، ان کی تعلیم اور ان کی تہذیب کو زبردست خطرات لاحق ہیں اور دینی تعلیم کی راہ میں زبردست رکاوٹیں ہیں۔
     
    یہ تھا وہ سیاسی اور تہذیبی پس منظر جس کے رد عمل کے طور پر علماء دین نے مذہبی تعلیم کے لیے اپنے ادارے قائم کرنا شروع کر دیے۔ چنانچہ ۱۸۶۶ء میں دار العلوم دیوبند کا قیام عمل میں آیا۔ اس ادارے کے بانیوں میں مولانا قاسم نانوتوی کا نام سر فہرست نظر آتا ہے۔ دیوبند کے بنیادی اصولوں میں ایک اہم اصول یہ تھا کہ قوم کو انگریزی اثرات سے محفوظ رکھا جائے۔ اس احساس کے تحت دار العلوم دیوبند احیائے مذہب کی تحریک کامرکز بن گیا اورسیاسی اور مذہبی دونوں اعتبار سے اہل دیوبند کو اس تحریک سے جذباتی لگاؤ تھا۔ شیخ الہند مولانا محمود حسن نے اس جذبے کو زندہ جاوید بنا دیا۔
     
    عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ علمائے دین انگریزی تعلیم کے خلاف تھے اور اسی رجحان کی وجہ سے مسلمان اپنے ہم عصروں سے تعلیم میں سیکڑوں برس پیچھے رہ گئے۔ مذہبی رجحانات کے بعض مکاتیب فکر اس کو بہتان تراشی سے تعبیر کرتے ہیں۔ ان کے خیال میں مذہبی رہنماؤں نے کبھی بھی انگریزی تعلیم کی مخالفت نہیں کی۔ اگر مخالفت تھی تو سر سید کے مذہبی خیالات سے، جنہیں وہ گمراہ کن سمجھتے تھے۔ سر سید سے سیاسی طور پر بھی علماء کا ایک گروپ بے زار تھا۔ وہ سمجھتے تھے کہ انگریز اور انگریزی حکومت کی خوشامد سر سید کا اولین مقصد ہے۔ جب کہ علماء کا ایک گروپ محض انگریزی حکومت اور انگریزی تہذیب کے خلاف تھا۔ وہ انگریزی تعلیم کے مخالف نہیں تھے۔ قاضی محمد عدیل عباسی نے اس رجحان کو انگریزی پروپیگنڈے کا ایک مظاہرہ بتایا ہے۔ ان کی کتاب تحریک خلافت کے مطالعے سے اس کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔
     
    قاضی محمد عدیل عباسی نے مختلف علماء کی رائے کا حوالہ دیتے ہوئے اس امر کی وضاحت کی ہے اور بتایا ہے کہ علوم جدید اور سائنس وغیرہ کی تعلیم حاصل کرنے کی کبھی بھی علماء نے مخالفت نہیں کی ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے سید جمال الدین افغانی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ سر سید پر کفر کا فتوی دینے والے علماء انگریزی تعلیم کے مخالف نہیں تھے بلکہ ان علوم کے زبردست حامی تھے۔ ایک اور جید عالم شیخ الہند مولانا محمود حسن کا قول نقل کرتے ہوئے قاضی محمد عدیل عباسی نے بتایا کہ ان کے بزرگوں نے کبھی بھی کسی غیر قوم کے علوم و فنون سیکھنے پر کفر کا فتوی نہیں دیا اور آخر میں انہوں نے اسباب بغاوت ہند سے درج ذیل اقتباس پیش کیا ہے،
     
    ’’بڑے بڑے کالج شہروں میں قائم تھے۔ اول اول ان سے بھی کچھ وحشت لوگوں کو ہوئی۔ اس زمانے میں شاہ عبد العزیز تمام ہندوستان میں نامی مولوی تھے، زندہ تھے۔ مسلمانوں نے ان سے فتوی پوچھا۔ انہوں نے صاف صاف جواب دیا کہ انگریزی کالج میں جانا اور پڑھنا اور انگریزی زبان کا سیکھنا بموجب مذہب سب درست ہے۔ اس پر سیکڑوں مسلمان کالج میں داخل ہوئے۔‘‘
     
    جیسا کہ پہلے ذکر کیا جا چکا ہے مسلمانوں میں دوسرے رجحان کے علمبردار سر سید تھے۔ انہوں نے مسلمانوں کی پژمردگی اور قنوطیت کو شدت کے ساتھ محسوس کیا اور ان کی اصلاح و ترقی کا بیڑہ اٹھایا۔ وہ مسلمانوں میں نئی روشنی پھیلانا چاہتے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ مسلمان جدید علوم سے آراستہ ہوں اور سائنسی طرز فکر اختیار کریں۔ روایتی رسم و رواج اور قدامت پرستی ترک کرکے مغربی طرز معاشرت اپنائیں، مغرب کی روشن خیالی پیدا کریں اور معاملات زندگی میں عقل اور استدلال کو رہبر بنائیں۔ سر سید ہندوستانی قوم میں ایک سماجی انقلاب لانا چاہتے تھے لیکن اس سے پیشتر فکری انقلاب کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس فکری انقلاب کے لیے سر سید مغربی علوم اور انگریزی تعلیم و تہذیب کو ذریعہ بنانا چاہتے تھے۔
     
    سر سید کے نظریات تعلیم کے فروغ میں ان کے تصور قوم کا بھی دخل تھا۔ بیشتر ارباب فکر و نظر نے اس بات کااعتراف کیا ہے کہ سر سید شروع شروع میں مشترکہ قومیت کے حامی تھے اور انہوں نے قوم کا لفظ عام ہندوستانیوں کے لیے استعمال کیا ہے۔ سید عابد حسین نے اپنی کتاب قومی تہذیب کا مسئلہ میں اس بات کا ذکر کیا ہے، ’’سب سے پہلے انہوں نے اردو میں قوم کے لفظ کو جو پہلے ذیلی معنوں میں آتا تھا ’’ نیشن‘‘ کے معنی میں استعمال کیا ہے۔‘‘ 

    اسی لیے قوم کی فلاح و بہبود کا ذکر کرتے ہوئے سر سید جب لفظ قوم کا استعمال کرتے ہیں تو ان کی مراد عام ہندوستانیوں سے ہوتی ہے۔
     
    پروفیسر خورشید الاسلام نے سر سید ایک قوم کے عنوان سے اپنی تقریر میں سر سید کے نظریہ قومی پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا، ’’سر سید نے لفظ قوم کو بیشتر ان معنوں میں استعمال کیا ہے جس کی بنیاد جغرافیائی حدود، تاریخ و تہذیب کے اشتراک اور مستقبل کے یکساں خوابوں پر ہے۔ اس لفظ کو انہوں نے کہیں کہیں ملت کے معنی میں بھی استعمال کیا ہے۔‘‘
     
    سر سید کے نظام فکر میں استدلال کو ایک مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ چنانچہ قومیت کے مسئلے پر بھی انہوں نے طریقہ استدلال سے کام لیا۔ ان کے خیال میں کسی بھی ملک کے رہنے والے چاہے وہ کسی مذہب یا لسانی گروپ سے تعلق رکھتے ہوں، ایک قوم کہلائیں گے جیسے افغانستان کے رہنے والے افغانی یا ایران کے رہنے والے ایرانی کہلاتے ہیں۔ اسی طرح ہندوستان کے رہنے والے ہندوستانی کہلائیں گے۔ انہوں نے اپنی ایک تقریر میں ہندوؤں اور مسلمانوں کو خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ اے ہندو اور مسلمانو، تم سب ہندوستان کے رہنے والے ہو، اسی پر بستے ہو، اسی پر مرتے ہو، اسی پر جیتے ہو۔ اس اعتبار سے تم سب ایک قوم ہو۔
     
    سر سید کے قومی نظریے کا اثر ان کے تعلیمی منصوبوں پر بھی پڑا۔ اسی لیے قومی تعلیم کے پس منظر میں ان کی تعلیمی پالیسی کو سراہا گیا۔ ۱۸۸۲ء میں ہندوستان کی تعلیمی ترقی کا جائزہ لینے کے لیے حکومت ہند نے جو ایجوکیشن کمیشن مقرر کیا تھا، اس نے اپنی رپورٹ میں سر سید کی تعلیمی کوششوں کی تحسین کی ہے۔ بعد کے حالات کے تقاضوں سے مجبور ہو کر سر سید کے خیالات میں بڑی تبدیلی آئی۔ اس تبدیلی کے باعث ہندوستان میں علیحدگی پسندی کا رجحان پیدا ہو گیا، اس کے اثرات سیاسی اعتبار سے بہت دور رس تھے۔ لیکن فی الوقت اس سے صرف نظر کیا جا سکتا ہے۔
     
    سر سید نے یہ بات اچھی طرح سمجھ لی تھی کہ برطانوی حکومت کے تسلط کے ساتھ ساتھ ہندوستان میں ایک نیا سیاسی نظام قائم ہو چکا ہے۔ اس نظام کے ساتھ لعنتیں بھی آئیں اور برکتیں بھی۔ لہذا برکتوں سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ ان کے نزدیک مسلمانوں کی پسماندگی کا ایک بڑا سبب یہ ہے کہ وہ قدیم نظامِ تعلیم سے چمٹے ہوئے ہیں اور فرسودہ روایات میں الجھے ہوئے ہیں اور جدید زندگی کے تقاضوں سے گریز پا ہیں۔ اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ ان کے اندر جدید زندگی کے تقاضوں کا شعور پیدا کیا جائے اور انگریزی تعلیم کے لیے ذہنی طور پر آمادہ کیا جائے۔
     
    سر سید کے پیش نظر جو مقاصد تھے وہ عہد حاضر کے تقاضوں سے عبارت تھے۔ سر سید انگریزی تعلیم اور مغربی تہذیب کے دلدادہ تھے اور سائنسی طرز فکر کے حامی تھے لیکن وہ حاکم وقت کی خوشنودی بھی چاہتے تھے اور اس بات کے خواہاں تھے کہ مسلمانوں میں انگریزوں کی جانب وفاداری اور تابعداری کا جذبہ پیدا ہو اور وہ من حیث القوم برطانوی حکومت کی سر پرستی سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا سکیں۔
     
    سر سید نے اسی احساس کے تحت ایک تحریک شروع کی اور چونکہ اس تحریک کا مرکز علی گڑھ تھا، اس لیے یہ علی گڑھ تحریک کے نام سے مشہور ہوئی۔ شروع شروع میں اس تحریک کی بہت مخالفت ہوئی۔ لیکن سر سید اس مخالفت سے بد دل نہیں ہوئے اور اپنی کوششوں میں مصروف رہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمانوں کا ایک باشعور طبقہ اس تحریک سے منسلک ہو گیا۔ اس میں شبلی، حالی، نذیر احمد، ذکاء اللہ، چراغ علی اور محسن الملک خاص طور سے قابلِ ذکر ہیں۔ علی گڑھ تحریک محض علمی یا سیاسی تحریک نہیں ہے بلکہ ایک خاص طرز زندگی بھی ہے جس کے اوصاف میں خوش گفتاری، خوش باشی، خوش پوشی اور اور آزاد خیالی کو نمایاں حیثیت حاصل ہے۔
     
    علی گڑھ تحریک کے اثرات اردو کی ادبی اور ثقافتی زندگی پر نمایاں طور سے نظر آتے ہیں۔ ان کی ترویج و اشاعت میں سائینٹفک سوسائٹی، انسٹی ٹیوٹ گزٹ اور تہذیب الاخلاق کا بہت دخل ہے۔ نئی نسل کو فکر جدید سے روشناس کرانے میں ان کی بڑی اہمیت ہے۔ سر سید نے اپنے خیالات کی ترویج و اشاعت کے لیے سب سے پہلے ۱۸۶۳ء میں ایک سائنٹیفک سوسائٹی قائم کی۔ اس سوسائٹی کا مختصر خاکہ آل احمد سرور نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے، ’’انہوں نے ۱۸۶۳ء میں التماس بخدمت ساکنان ہندوستان در باب ترقی تعلیم، اہل ہند شائع کیا اور اس میں ایک سائنٹیفک سوسائٹی کے قیام کی تجویز پیش کی۔ اس سوسائٹی کا مقصد انگریزی کتابوں کا اردو میں ترجمہ شائع کرانا اور مغربی علوم کو ہندوستان میں مقبول بنانا تھا۔‘‘
     
    سر سید کے علمی منصوبوں میں ایک دوسرا منصوبہ انسٹی ٹیوٹ گزٹ کے نام سے منظر عام پر آیا۔ اس کا اجراء ۱۸۶۶ء میں ہوا۔ یہ اردو کے ساتھ ساتھ انگریزی زبان میں بھی چھپتا تھا۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ اس کے ذریعے ملک میں سنجیدہ اور تعمیری جذبے کی اشاعت کی جائے اور جدید خیالات و افکار سے مسلمانوں کو روشناس کرایا جائے۔ گزٹ کے اجراء کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ کہ اس کے ذریعے حکومت اور قوم میں قربت پیدا کی جائے تاکہ قوم، حکومتِ وقت کی عنایات سے مستفید ہو سکے۔
     
    سر سید نے قیام انگلستان کے دوران مغربی علوم اور طرز معاشرت کو بہت قریب سے دیکھا۔ اس زمانے میں وہاں کے دو جرائد اسپکٹیٹر او رٹیٹلر اپنی طرزِ نگارش کی وجہ سے بہت مشہور تھے۔ ان دونوں جرائد نے سر سید کے ذہن کو بہت متاثر کیا۔ انہی کے نقش قدم پر سر سید نے ۱۸۷۰ء میں تہذیب الاخلاق کا اجراء کیا۔ در اصل اس کی تیاری سر سید نے لندن ہی میں شروع کر دی تھی۔ اس کے سر ورق کا بلاک لندن میں ہی تیار کروا لیا تھا۔ تہذیب الاخلاق کا مقصد در اصل اپنی قوم میں ذہنی انقلاب اور جدید تعلیمی تقاضوں کا شعور پیدا کرنا تھا۔ اس کے ذریعے وہ قومی اخلاق کی بھی تہذیب کرنا چاہتے تھے۔ اس پرچے کے اجراء سے مذہبی امور میں فکر و نظر کی آزادی اور جدید تعلیم کی اہمیت کا احساس پیدا ہوا۔ ملک کے دانشوروں اور ادیبوں نے اس کا خیر مقدم کیا۔
     
    سر سید کے تعلیمی نظریات کی نشو و نما میں مغربی علوم اور سائنسی طرزِ استدلال اور مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی اور معاشی بدحالی کی گہری بصیرت کابڑا دخل ہے۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ مغربی تہذیب و معاشرت اور حکومتِ وقت سے وفاداری کا جذبہ بھی کار فرما ہے۔ اسی لیے سر سید کے تعلیمی نظریات کے فروغ میں سیاسی اور تعلیمی عوامل پورے طور سے ہم آہنگ نظر نہیں آتے۔ یہاں چونکہ سر سید کے نظریات تعلیم کا ذکر مقصود ہے، اس لیے سیاسی پہلو سے گریز کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔
     
    سر سید انگلستان میں قیام کے دوران دو مشہور یونیورسٹیوں، آکسفورڈ اور کیمبرج سے بے حد متاثر ہوئے۔ یہ دونوں یونیورسٹیاں اپنے مشاغل علمی کی وجہ سے بہت مشہور تھیں لہذا ان کے دل میں انہی یونیورسٹیوں کے نقش قدم پر علی گڑھ میں مدرسۃ العلوم قائم کرنے کا خیال پیدا ہوا۔ اس خیال کو عملی شکل دینے کے لیے انہوں نے ایک کمیٹی کی تشکیل کی۔ اس کمیٹی نے پانچ سال اس مسئلے پر غور خوض کیا اور بالآخر ایم۔ اے۔ او ہائی اسکول کے قیام کی تجویز پیش کی، چنانچہ اس کا قیام عمل میں آیا اور دو ہی برس کے اندر اس اسکول نے ایسی ترقی کرلی کہ کالج کا مرتبہ حاصل ہو گیا۔
     
    ایم۔ اے۔ او کالج کا سنگ بنیاد لارڈ لٹن نے ۱۸۷۷ ء میں رکھا۔ اس کی باقاعدہ تعلیم ۱۸۷۸ء میں شروع ہو گئی۔ ایم۔ اے کا کورس ۱۸۸۳ ء میں شروع ہوا اور قانون کے درج بھی شروع ہو گئے۔ اس طرح کالج نے ترقی کی منزلیں طے کرنی شروع کر دیں۔ یہاں یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ اس وقت تک یہاں کے طلباء کے درمیان کسی قسم کا امتیاز نہیں برتا جاتا تھا، دونوں کی تعداد تقریباً برابر تھی۔ یہ بات خصوصیت کے ساتھ قابل غور ہے کہ سب سے پہلا فارغ التحصیل طالب علم ایک ہندو تھا۔
     
    یہ امر قابل ستائش تھا کہ جہاں علی گڑھ کالج میں طلباء کے درمیان کسی قسم کا امتیاز نہیں کیا جاتا تھا وہاں مسلمانوں کی تعلیم کا خاص طور سے انتظام مقصود تھا۔ اس کی وجہ سر سید نے اپنے ایک لکچر میں ۳/ فروری ۱۸۸۴ ء کو بمقام لاہور ایک تقریر کے دوران بیان کی تھی، ’’مجھ کو افسوس ہوگا کہ اگر کوئی شخص یہ خیال کرے کہ یہ کالج ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان امتیاز ظاہر کرنے کی غرض سے قائم کیا گیا۔ خاص سبب جو اس کالج کو قائم کرنے کاہوا، یہ تھا جیسا کہ میں یقین کرتا ہوں آپ واقف ہیں کہ مسلمان روز بروز زیادہ تر ذلیل و محتاج ہوتے جاتے تھے۔ ان کے مذہبی تعصبات نے ان کو تعلیم سے فائدہ اٹھانے سے باز رکھا تھا، جو سرکاری کالجوں اور مدرسوں میں مہیا کی جاتی تھی اور اسی وجہ سے یہ امر ضروری خیال کیا گیا کہ ان کے واسطے کوئی خاص انتظام کیا جائے۔‘‘
     
    سر سید کی اصلاحی اور تعلیمی کوششوں کا علی گڑھ کالج پر بہت گہرا اثر پڑا۔ تعلیم کی سیکولر نوعیت، درسیات میں جدت، مواد تعلیم میں تنوع، فکر جدید سے آراستہ اساتذہ اور اقامتی زندگی کی تنظیم نو نے طلباء کی طرز فکر اور طرز معاشرت کو بہت متاثر کیا۔ علی گڑھ کالج کی اقامتی زندگی کا جو خواب سر سید نے دیکھا تھا اس کی ایک جھلک درج ذیل اقتباس میں نظر آتی ہے، ’’ہم سے لوگ باصرار پوچھتے ہیں کہ مدرسۃ العلوم مجوزہ میں جو لڑکے رہیں گے، کیوں کر تربیت پائیں گے۔ ہم اس دار العلوم کو محمڈن یونیورسٹی یعنی دار العلوم مسلمانی بنانا چاہتے ہیں اور بالکل آکسفورڈ اور کیمبرج کی یونیورسٹیوں (جس کو ہم دیکھ آئے ہیں ) کی تقل اتارنا چاہتے ہیں۔‘‘
     
    ایسا لگتا ہے کہ سر سید کا وسیع قومی تصور سمٹ کر ملت کے تصور میں مدغم ہو گیا۔ ان کے نظریات قومی میں اس تغیر کے مختلف اسباب بیان کیے گئے ہیں اور اس بات کا اظہار کیا گیا ہے کہ سر سید کے خیالات میں یہ تبدیلی ان حالات کے رد عمل کے طور پر رونما ہوئی جن کا اس وقت ملک کے مختلف حصوں میں مظاہرہ ہوا۔ شروع شروع میں سر سید ایک متحدہ قومیت کے قائل تھے اور ان کا خطاب ہندوستان کی مختلف قوموں سے تھا۔ خاص طور سے ہندوؤں اور مسلمانوں سے۔ شمالی ہندوستان کی یہی دو بڑی قومیں تھیں۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ حالات تبدیل ہوتے رہے۔
     
    انیسویں صدی کے ہندی ادیبوں اور حامیوں میں تہذیبی احیاء پرستی کا رجحان پرورش پانے لگا، ہندی اور اردو کے بیچ خلیج حائل ہوتی گئی، اس رجحان کو انگریز افسروں نے اور ہوا دی اور معمولی اختلافات کو بڑھا چڑھا کر اس طرح پیش کیا کہ دونوں کی الگ الگ پہچان بن گئی۔ لیکن اس اختلاف کے باوجود سر سید کے قومی نظریے میں تبدیلی نہیں آئی، ان کے نظریات میں تبدیلی ۱۸۶۷ء کے بعد ہوئی، جب بنارس سے یہ تحریک شروع ہوئی کہ سرکاری عدالتوں، دفتروں سے اردو زبان اور فارسی رسم خط کو خارج کر دیا جائے اور اس کی جگہ سنسکرت آمیز ہندی، دیونا گری رسم خط میں جاری کی جائے۔ اس جداگانہ تہذیبی پالیسی کی وجہ سے سر سید نے اپنے فکر و عمل کے دائرے کو تنگ کر لیا اور محض مسلمانوں سے خطاب کرنے لگے۔
     
    ’’سر سید مسلمانوں کی قومی زندگی کا ایک قصر تعمیر کرنا چاہتے تھے جس میں بہت سے گوشے تھے۔ وہ اس پورے قصر کو تعمیر نہ کرسکے۔۔۔ انہوں نے قصر کا وہ حصہ بنایا جس سے انہیں یہ توقع تھی کہ بعد میں آنے والے نقشے کو سمجھیں گے اور اس کی تکمیل کریں گے۔‘‘
     
    علی گڑھ کالج اسی قومی قصر کا ایک گوشہ تھا جس کا نقشہ سر سید کے ذہن میں یہ تھا کہ یہ ایک آزاد قومی ادارہ ہوگا۔ مگر اس کے قیام میں بقول عابد اللہ غازی قوم نے ساتھ نہیں دیا۔ حکومت وقت کی سر پرستی ضرور حاصل ہوگئی اور ادارہ قائم ہو گیا لیکن اس کی آزادی ختم ہو گئی اور سر سید کا نصب العین بھی گمراہ ہوگیا۔ وہاں تو انگریزوں کا رسوخ بڑھ رہا تھا اور انگریز اور مسلمان کی دوستی کے پردے میں انگریزاپنی قوم اور حکومت کا کھیل کھیل رہے تھے۔
     
    علی گڑھ کالج کے اغراض و مقاصد کی عملی شکل جو کالج میں نظر آئی، اس کی تصویر سید عابد حسین نے ان الفاظ میں کھینچی ہے، ’’علی گڑھ کالج کا تو بنیادی مقصد یہ تھا کہ ان کے طلباء میں ایک ظاہری چستی، ایک نمائشی صیقل اور انگریزی حکومت کی ساختہ وفاداری اور پرداختہ رضاجوئی کا سلیقہ پیدا ہو جائے جس کی بدولت ڈگری، نوکری اور نیشن کے مرحلے آسانی سے طے ہو سکیں۔‘‘
     
    خلیق احمد نظامی نے علی گڑھ تحریک کا پس منظر پیش کرتے ہوئے سر سید کے نظریہ تعلیم کی جانب بعض بلیغ اشارے کیے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ سر سید مغربی تعلیم کے ذریعہ مسلمانوں میں زندگی کے جدید تقاضوں کا شعور پیدا کرنا چا ہتے تھے۔ ان کے نزدیک علم اور تعلیم کا مفہوم بہت وسیع تھا۔ ان کے ذہن میں تعلیم کی انفرادی کوششوں کے مقابلے میں اجتماعی اور قومی تعلیم کا ہمہ گیر تصور تھا۔ اس سلسلے میں نظامی صاحب فرماتے ہیں، ’’سر سید کا مقصد مغربی تعلیم کے ذریعے کلرک یا انگریزی حکومت کے غلام پیدا کرنا نہیں تھا۔ وہ ملازمت کو ذلیل ترین پیشہ سمجھتے تھے۔‘‘ 2 لکھنو میں ایک تقریر کا حوالہ دیتے ہوئے خلیق احمد نظامی نے وضاحت کی کہ ان کا مطمح نظر یہ تھا کہ علی گڑح کالج کے فارغ التحصیل طلباء، علوم و فنون حاصل کرکے دنیا کی ترقی یافتہ قوموں میں شامل ہو سکیں اور سیاسی اور معاشی فائدے اٹھا سکیں۔
     
    سر سید نے اردو کی خدمت میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ ان کی کوششوں سے اردو زبان وادب کو ایک نئی تونائی حاصل ہوئی۔ اس سلسلے میں ان کا اہم کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے اردو زبان کو علم وادب کے مختلف شعبوں میں جدید خیالات کے اظہار کے قابل بنایا لیکن ان کا اردو یونیورسٹی کا خواب پورا نہ ہوسکا۔ لیکن بقول ڈاکٹر سلامت اللہ انہیں ایک اور طرح کا امتیاز حاصل ہے۔ وہ سب سے پہلے تعلیمی مفکر ہیں جنہوں نے اردو زبان کو ابتدائی منزل سے اعلی منزل تک ذریعہ تعلیم بنانے کا خیال پیش کیا۔‘‘
     
    سر سید کی تعلیمی پالیسی کا ذکر کرتے ہوئے مختلف دانشوروں نے اس بات کا ذکر کیا ہے کہ ان کا مدرسۃ العلوم کا خواب ادھورا رہ گیا۔ وہ اس مدرسے میں تین قسم کی تعلیم کا نتظام چاہتے تھے۔ ان کی خواہش تھی کہ ایک مدرسے میں ذریعہ تعلیم انگریزی ہو اور اس میں تمام علوم و فنون انگریزی میں پڑھائے جائیں تاکہ اس کے فارغ التحصیل طلباء سرکاری ملازمتوں پر فائز ہو سکیں اور ان میں اس بات کی بخوبی صلاحیت پیدا ہو جائے کہ وہ انگریزی سے اردو میں ترجمہ کرنے پر قادر ہو سکیں۔ دوسرے قسم کے مدرسے میں ذریعہ تعلیم اردو ہو، ان کا خیال تھا کہ جو طلباء انگریزی میں خاطر خواہ ملکہ پیدا نہ کر سکیں وہ اردو کے ذریعے تعلیم حاصل کریں۔ تیسرے قسم کے مدرسے میں ایسے طلباء کی تعلیم مقصود تھی جو کلاسیکی زبانوں کے ذریعہ تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں اور عربی اور فارسی کا خاص طور سے مطالعہ کرنا چاہتے ہیں تاکہ وہ اس قابل ہوسکیں کہ اپنے مذہبی اور علمی سرمائے کو اگلی نسل تک منتقل کر سکیں۔
     
    سر سید کی تعلیمی کوششوں میں آل انڈیا ایجوکشنل کانفرنس کا قیام ایک خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ یوں تو اس کانفرنس کے مقاصد بہت وسیع تھے لیکن عملاً اس بات پر زیادہ زور دیا گیا ہے کہ اس کے ذریعے مسلمانوں میں جدید علوم کی اشاعت کی جائے تاکہ وہ ان علوم سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کر سکیں۔ علی گڑھ کالج اپنی طبقاتی نوعیت کے باعث عام مسلمانوں کی دسترس سے باہر تھا۔ ڈاکٹر سلامت اللہ نے اس کالج کی طبقاتی صورتِ حال کا بہت واضح الفاظ میں ذکر کیا ہے،
     
    ’’سر سید ایم۔ اے۔ او کالج قائم کرکے مطمئن نہیں ہو گئے۔۔۔۔ یہ کالج تو زیادہ سے زیادہ مسلمانوں کی اعلی تعلیم کی ضرورتوں کو کسی حد تک پورا کر سکتا تھا اور وہ بھی مسلمانوں کے متوسط اور اعلی طبقے کی ضرورتوں کو تاکہ وہ حکومت کے مختلف شعبوں میں نفع بخش اور باوقار عہدوں پر کام کرنے کے لائق ہو سکیں۔ سر سید نے پورے ملک کے مسلمانوں کی تعلیم کو ترقی دینے کے لیے ایک باضابطہ تنظیم کی ضرورت محسوس کی۔ چنانچہ ان کی کوششوں سے دسمبر ۱۹۸۶ء میں محمڈن ایجوکیشنل کانگریس کی بنیاد پڑی جو بعد میں آل انڈیا ایجوکیشنل کانفرنس کہلائی۔‘‘

    مسلم ایجوکیشنل کانفرنس اپنے اغراض و مقاصد اور دائرہ کار کے اعتبار سے علی گڑھ تحریک کا ہی ایک حصہ تھی، اس کا ایک فائدہ تو یہ ہوا کہ مسلمانوں میں تعلیم کی جانب ایک مثبت رویہ پیدا ہونے لگا اور لوگوں نے جگہ جگہ اپنے ادارے قائم کرنے شروع کر دیے۔ ان اداروں میں دینی علوم کے ساتھ ساتھ مغربی علوم کی بھی تعلیم دی جانے لگی۔ مسلم ایجوکیشنل کانفرنس کے دائرہ عمل میں مرکزی تنظیم کے ساتھ صوبوں کے ساتھ ساتھ ضلع کی سطح پر کمیٹیاں بنانے کا کام شامل تھا۔ ان کمیٹیوں کی سفارش پر نئے نئے ادارے قائم کیے گئے۔ اس کمیٹی کے فرائض میں یہ بھی شامل تھا کہ کسی ایک ہونہار اور ممتاز طالب علم کو اعلی تعلیم کے لیے وظیفے کی رقم فراہم کرے۔
     
    مسلم ایجوکیشنل کانفرنس کے پروگرام میں یہ بھی شامل تھا کہ مکتبوں اور مدرسوں میں دینی تعلیم کا جائزہ لے، ان کی تعلیم و تدریس کو بہتر بنانے کی سہولتیں فراہم کرے، اساتذہ کا تقرر کرے اور جن اداروں میں اردو کے اساتذہ نہ ہوں ان میں اردو کے اساتذہ کا بھی تقرر کرائے۔ اس طرح دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ جدید تعلیم فراہم کرنا اس کانفرنس کا ایک اہم مقصد تھا۔ مسلم ایجوکیشنل کانفرنس کی کوششوں سے تمام ضلعوں کو گشتی مراسلے بھیجے گئے جن میں معاینے کی ایجنسیاں قائم کرنے کی تجویز کی سفارش کی گئی۔ ان تمام کوششوں کے باوجود مسلم ایجوکیشنل کانفرنس عملی طور پر اپنے منصوبوں میں کامیاب نہ ہوسکی۔ اس کی بڑی وجہ یہ نظر آتی ہے کہ قوم میں اس تحریک کے لیے وہ جوش و خروش نہ تھا جس کی یہ تحریک متقاضی تھی اور ملک کے سیاسی و سماجی حالات بھی سازگار نہ تھے۔
     
    اس پس منظر میں جب ہم سر سید کے نظریہ تعلیم کا جائزہ لیتے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ ان کا نظریہ تعلیم بہت ہمہ گیر اور وسیع تھا لیکن ان نظریات میں سیاسی اور سماجی حالات کی بناء پر تبدیلی بھی ہوتی رہی اور یہ تبدیلی ان کے تمام تعلیمی پروگرام پر اثر انداز ہوئی۔ سر سید تعلیم میں مکمل آزادی کے قائل تھے اور یہ چاہتے تھے کہ مسلمانوں کی تعلیم ان کے ہاتھ میں رہے، وہ خود اپنی تعلیم کے مالک ہوں اور بغیر کسی مداخلت کے اپنی قوم میں علوم پھیلائیں۔ چنانچہ انڈین ایجوکیشن کمیشن کے سامنے شہادت دیتے ہوئے انہوں نے کہا تھا، ’’جب تک لوگ اپنی تعلیم کا تمام اہتمام اپنے ہاتھ میں نہ لیں گے اس وقت تک مناسب طور پر ان کی تعلیم کا ہونا ممکن نہیں۔۔۔ تعلیم کو حکومت کی گرفت سے آزاد ہونا چاہیے۔‘‘

    انہی اسباب کی بناء پر سر سید اپنے آئیڈیل کو حاصل نہیں کر پائے۔ وہ تو قومی زندگی کے قصر کی تعمیر کرنا چاہتے تھے لیکن ان کا یہ خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا اور ان کا ’’قصر امید‘‘ ادھورا ہی رہ گیا۔
     
    حواشی
    (۱) سبط حسن، موسی سے مارکس تک، ص ۴۳۳
    (۲) نوٹ، مارکس ایک خبرنامے میں برطانوی پارلیمینٹ کے لیڈر بنجامن ڈزریلی کی تقریر کے اقتباسات دیتا ہے اور اس کی رائے سے اتفاق کرتا ہے کہ ہندوستان کی شورش فوجی بغاوت نہیں بلکہ قومی انقلاب ہے۔ سبط حسن
    (۲) قاضی محمد عدیل عباسی، تحریک خلافت، ص ۶۲
    (۳) ڈاکٹر سید عابد حسین، قومی تہذیب کامسئلہ، ص ۱۶۳
    (۴) خورشید الاسلام، علی گڑھ میگزین، ۷۴-۷۳ء، ص ۲
    (۵) ڈاکٹر سید عبداللہ، میر امن سے عبد الحق تک، ص ۱۰۰
    (۶) آل احمد سرور، سر سید نمبر ماہنامہ جمیلہ ۱۹۶۸ء
    (۷) سر سید، لکچروں کا مجموعہ، ص ۱۹۸
    (۸) خلیق احمد نظامی، Sir Syed speaks to you
    (۹) عابد اللہ غازی، رسالہ جامعہ ۷، ۸، ۹ص ۱۰۲، ۱۰۳
    (۱۰) خلیق احمد نظامی، فکر و نظر، (ناموران علی گڑھ نمبر) ص، ۳۲
    (۱۱) ڈاکٹر سلامت اللہ، ہندوستان میں مسلمانوں کی تعلیم، ص ۵۴
    (۱۲) ایضاً۔ ص ۵۴
    (۱۳) پروفیسر رشید احمد، مسلمانوں کے سیاسی افکار، ص ۳۱

     

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے