aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

سر سید، ریل گاڑی اور کوکاکولا

سلیم احمد

سر سید، ریل گاڑی اور کوکاکولا

سلیم احمد

MORE BYسلیم احمد

    اہل انگلستان کی کیا بات ہے۔ ان کی دھواں گاڑی جب ہندوستان آئی اور مشرق کے عظیم دیدہ ور غالب نے اس کی زیارت کی تو حیران رہ گیا۔ مہوشان کلکتہ کے چلائے ہوئے تیر اس پر مستزاد، ہائے ہائے کرتا ہوا کلکتہ سے واپس ہوا اور جب تک زندہ رہا اہل انگلستان کے قصیدے پڑھتا رہا۔ سرسید بعد کو چاہے جتنے جدید یے بنے ہوں، اس معاملے میں غالب سے بہت پیچھے تھے۔

    غالب کا شعور جس وقت جدیدیت کی کئی منزلیں طے کر چکا تھا، اس وقت سرسید ابھی ’’آئین اکبری‘‘ ہی میں الجھے ہوئے تھے۔ انہوں نے غالب سے تقریظ لکھنے کو کہا تو غالب نے اپنی تقریظ میں صاف لکھ دیا کہ میاں یہ مردہ پرستی میں کیا پڑ ے ہوئے ہو۔ دیکھو دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی اور اہل انگلستان کیسے کیسے کمالات دکھا رہے ہیں۔ سرسید بڑے آدمی تھے۔ غالب کی بات کا برا مان گئے۔ لیکن تاریخ کی ایک اپنی منطق ہوتی ہے اور اہل انگلستان اس وقت اس کے قضیہ اولی کی حیثیت رکھتے تھے۔ اس لیے سرسید کو بھی بالآخر تاریخ کی راہ پر آنا پڑا۔ بہرحال مجھے تو غالب اور سرسید دونوں پسندہیں۔ اس اختلاف کے باوجود جو برادران امروہہ میں بھی پایا جاتا ہے اور غالب اور سرسید کے سے اہل انگلستان بھی اور ان کی دھواں گاڑی بھی۔

    پھر اہل انگلستان برصغیر میں صرف دھواں گاڑی ہی تو نہیں لائے اور بہت کچھ لائے، مثلا ًپہیہ گاڑی، پوں پوں گاڑی، چیل گاڑی، ریکارڈوں والا بھونپو، دور سے بات کرنے والا چونگا، گانے سنانے والا ڈبا اور گانوں کے ساتھ ناچ دکھانے والا اس سے بھی بڑا ڈبا اور خدا آپ کا بھلا کرے، بجلی کی بتی اور بجلی کا پنکھا اور بجلی کی جھاڑو۔ میرا تو خدا جانتا ہے کہ میں جب اہل انگلستان کی بخشی ہوئی ان نعمتوں کو دیکھتا ہوں تو میری سمجھ میں نہیں آتا کہ ان میں سے کون کون سی نعمت کا کس کس طرح شکریہ ادا کروں۔ چنانچہ دھواں گاڑی اور اس کے پورے سائنٹیفک کنبے کے ساتھ میرا پورا رویہ کچھ اس شاعر جیسا ہے جس نے اپنے محبوب سے کہا تھا،

    تیرے سب خاندان پر عاشق

    میرا سب خاندان ہے پیارے

    اور یقین کیجئے کہ میرے ایسا کہنے میں کوئی ذرا سا بھی مبالغہ نہیں۔ واقعی ان چیزوں کی قدردانی میں سچ مچ میرا پورا خاندان (یعنی جتنا خاندان مشترکہ خاندانی نظام ٹوٹنے کے بعد میرے ساتھ رہ گیا ہے) میرا ہم نوا ہے بلکہ بعض اوقات میری طرف سے کوئی کوتاہی ہو جاتی ہے تو میرے بچے مجھے یاد دلاتے ہیں کہ میں ایسی نعمتوں کی پوری قدر نہ کرکے قدامت پسندی کا شکار ہو رہا ہوں۔ اب قدامت پسندی ایک ایسی چیز ہے جس کا میرے بچے ہی نہیں، قمر جمیل بھی برا مناتے ہیں لیکن قدامت پسندی صرف میرا تنہا اور ذاتی مرض نہیں ہے، شاید یہ پورے معاشرے میں موجود ہے اور اس طرح کہ بڑھے چلو، بڑھے چلو کے سارے نعروں کے باوجود معاشرہ اڑیل ٹٹو کی طرح اپنی جگہ اڑ کر رہ گیا ہے اور بقول نثار عزیز بٹ، آگے کھسک کر نہیں دیتا۔

    بہرحال ذاتی طور پر میری قدامت پسندی کی شاید ایک وجہ یہ بھی ہو کہ میں نے غالب اور سرسید کے ساتھ تھوڑا بہت اکبرالہ آبادی کو بھی پڑھا ہے اور یہ صاحب تصوف کی راہ سے میرے قریب آکر مجھے ورغلاتے رہتے ہیں۔ معاف کیجئے یہاں ایک بات کی وضاحت ہونی چاہئے۔ میں اپنی قدامت پسندی کی معذرت میں اکبر کی پناہ لینے کے باوجود خدانخواستہ ان پر یہ الزام نہیں لگا رہا ہوں کہ وہ دھواں گاڑی جیسی اچھی چیز کے خلاف تھے۔ وہ دھواں گاڑی کے مخالف نہیں تھے صرف اس بات کے شاکی تھے کہ اہل انگلستان انہیں دھواں گاڑی کی سیر تو کرا دیتے ہیں مگر دھواں گاڑی بنانے کا علم نہیں سکھاتے۔

    یوں ان پر انگریزی کی تعلیم کی مخالفت کا بھی الزام لگایا جاتا ہے مگر وہ انگریزی تعلیم کے نہیں، اس نظام تعلیم کے مخالف تھے جو لارڈ میکالے سے منسوب تھا۔ وہ انگریزی کے مخالف ہوتے تو عشرت حسین کو ولایت کیوں بھیجتے۔ البتہ باپ بیٹے کی یہ ذاتی بات تھی کہ انہیں عشرت سے یہ بھی شکایت ہوئی کہ وہ کیک کھاکر سویوں کا مزہ بھول گئے۔ لیجئے انگلستان کا اتناقصیدہ پڑھا اور کیک کو پھر بھی بھول گیا۔ حالانکہ کیک، پیسٹری اور کوکا کولا مجھے کمزوری کی حد تک پسند ہے۔ یقیناً اکبر بھی اتنے خلاف نہ ہوں گے کہ انہیں یہ چیزیں پسند نہ ہوں۔ شاید اکبر کو کیک کھانے پر اعتراض نہیں تھا، سویوں کا مزہ بھول جانے پر اعتراض تھا۔ اکبر چاہتے ہوں گے کہ اگر کیک چلے تو سویاں بھی چلیں۔ خیر اس میں بھی کیا مضائقہ ہے مگر اکبر کو سویوں، عطر حنا اور پشواز اور پازیب وغیرہ سے واقعی اتنا لگاؤ تھا کہ وہ کبھی کبھی سچ مچ بڑی دقیانوسی باتیں کرنے لگتے ہیں اور مجھے بھی ورغلاتے ہیں۔

    بہرحال آدمی کوئی ایسا منطقی جانور تو نہیں ہے کہ جب تک یہ پسند و ناپسند کی مساوات پوری نہ کرے، لقمہ نہ توڑے۔ اس لیے اکبر کی اس کمزوری کو کمزوری ہی سمجھنا چاہئے۔ البتہ ایک چیز ایسی ہے جسے اکبر کی شخصی کمزوری کہہ کر ٹالا نہیں جا سکتا۔ مذہب۔ اکبر دھواں گاڑی کے کتنے ہی قائل ہو ں مگر اس کے لیے مذہب کو ہاتھ سے نہیں دے سکتے تھے، تو اکبر نے دونوں کو ملانے کا سیدھا سادا فارمولا یہ نکالا تھا کہ دھواں گاڑی تو کیا چیل گاڑی میں اڑ جائیے مگر خدا کو نہ بھولئے۔ یعنی جس طرح دیہاتی لوگ ایک زمانے میں حقہ لے کر دھواں گاڑی میں بیٹھا کرتے تھے، اس طرح اکبر کا خیال تھا کہ دھواں گاڑی میں تسبیح لے کر بیٹھنے سے کام چل جائےگا۔ بہرحال سرسید اب اتنے بھی جدید کیا ہوں گے کہ انہیں اکبر کے اس فارمولے پر بھی اعتراض ہو بلکہ شاید وہ خود بھی یہی چاہتے تھے۔

    چنانچہ اکبر زندگی بھر سرسید پر فقرہ بازی کرنے کے بعد بالآخر یہ کہہ کر ان کے قائل ہو گئے کہ سید کام کرتا تھا۔ اب سید کے کام کو دیکھئے تووہ زندگی کے کئی گوشوں میں پھیلا ہوا ہے۔ جدید مسلمانوں کا یہ سب سے بڑا آدمی واقعی اس توقیر کا مستحق ہے کہ بعض اوقات جی چاہتا ہے کہ حالی کی طرح سچ مچ اس کے ہاتھ پر بیعت کر لی جائے۔ پھر بھی بہت سے لوگوں کو سرسید سے اختلاف ہے۔ ان میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جنہیں سرسید پر یہ اعتراض نہیں ہے کہ وہ دھواں گاڑی کو کیوں پسند کرتا تھا یا انگریزی تعلیم کیوں پھیلانا چاہتا تھا۔ ان مقاصد میں وہ سرسید کے ہم نوا ہیں۔ مگر انہیں اعتراض یہ ہے کہ سرسید انگریز کا وفادار کیوں تھا۔

    دوسرے لفظوں میں سرسید کے مخالف سرسید سے تہذیبی یا تعلیمی اختلاف نہیں رکھتے، سیاسی اختلاف رکھتے ہیں۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ اس سیاسی اختلاف نے بھی مسلمانوں کو یہ فائدہ پہنچایا کہ وہ سرسید کے پیچھے چل کر جب تک مصلحت کا تقاضا تھا انگریزوں کی وفاداری کا دم بھرتے رہے اور جب حالات نے دوسرا رخ اختیار کیا تو وہ انگریزوں سے ایک آزاد وطن حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ خیر، یہ ایک دوسری بحث ہے۔ ذکر تھا سرسید اور اکبر کے الگ الگ تہذیبی رویوں کا۔ آپ یہ دیکھ چکے ہیں کہ جہاں تک اہل انگلستان کی دھواں گاڑی کا تعلق ہے، سرسید اور اکبر دونوں اس کے نعمت ہونے پر متفق ہیں، فرق صرف یہ ہے کہ سرسید دھواں گاڑی میں بیٹھنے کے ساتھ چھری کانٹے سے کھانا بھی ضروری خیال کرتے تھے جبکہ اکبر کو اپنا سیدھا سادا دسترخوان اچھا لگتا ہے۔

    حالی نے کہ ان کی سلاست روی کے دوست دشمن سب قائل ہیں، اس جھگڑے کا حل یہ نکالا کہ چھری کانٹے سے کھانے کو خود اسلامی تہذیب کا جزو ثابت کر دیا اور بتایا کہ یہ تو اندلس کے مسلمانوں کی ایجاد تھی۔ مسلمان ایسی باتیں سنتے ہیں تو ظاہر کریں یا نہ کریں اندر سے بہت خو ش ہوتے ہیں کہ اہل انگلستان کے مقابلے پر اس وقت ہم موچی سہی مگر کسی وقت ہمارے آبا و اجداد اس شان کے تھے کہ یورپ والے ان سے سیکھتے تھے۔ امیر علی جیسے مؤرخ جب اس قسم کی مثالوں سے اسلامی تہذیب کی عظمتوں کا حوالہ دیتے ہیں تو ہم میں سے کون ہے جو اپنی ہی عظمت پر سر نہیں دھننے لگتا۔ حالی نے صرف چھری کانٹے سے کھانے کو اسلام ثابت نہیں کیا بلکہ یہ بھی بتایا کہ لباس کا یا بالوں کی وضع قطع کایا دوسرے تمدنی اوضاع کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ انہوں نے کہاکہ مذہب کا تعلق معاد سے ہے اور دوسری چیزوں کا معاش سے۔ چنانچہ معادی ضرورت کے لیے مذہب پر عمل کر لیا جائے تو معاش میں پوری آزادی ہے کہ حالات کے مطابق جو مناسب ہو وہ کیا جائے۔

    یہ پوری بات اس دلیل میں موجود ہے کہ اہل انگلستان اگر اسلام قبول کر لیں تو اپنی تہذیبی اور تمدنی خصوصیات کے ساتھ مسلمان ہی کہلائیں گے۔ حالی خود شیروانی پوش تھے مگر سرسید کے کوٹ کے حق میں انہوں نے ایسی ایسی دلیلیں دیں کہ آج ۱۹۷۵ء میں شیروانی یا تو میرے جسم پر نظر آتی ہے یا قائد اعظم کی تصویر میں۔ اکبر نے کہا تھا: دب گئی میری مسلمانی تری پتلون سے۔

    لیکن حالی کہتا تھا کہ مسلمانی میں دم ہو تو پتلون میں بھی اپنا رستہ نکال لیتی ہے۔ بہت بعد میں میراجی نے دریافت کیا کہ پتلون کی جیب میں استر نہ ہو تو معاملہ بہت ہی آسان ہو جاتا ہے۔ سرسید نے ایک مرتبہ کہا تھا، خدا اگر حشر میں مجھ سے پوچھےگا کہ تو دنیا سے کیا لایا ہے تو میں جواب دوں گا حالی سے ’’مسدس مدوجزر اسلام‘‘ لکھوا لایا ہوں۔ حالی تھے ہی اتنے شریف آدمی کہ زندگی بھر سرسید کو بخشوانے کا سامان کرتے رہے۔ قدامت پسندوں کو حالی کی یہ کوشش پسند نہیں آئی اور انہوں نے جوابی کاروائی کے طور پر سرسید کو کرسٹان اور نیچری بھی کہا اور کفر کے فتوے بھی نکالے۔ آخرت میں سرسید کا حساب کتاب کیا ہوگا یہ توخدا ہی کو معلوم ہے لیکن ابھی یہ بحثیں چل رہی تھیں کہ اقبال اکبر کے رنگ میں یہ شکایت لے کر کھڑے ہو گئے کہ،

    ہم نے سمجھا تھا کہ لائےگی فراغت تعلیم

    کیا خبر تھی کہ چلا آئےگا الحاد بھی ساتھ

    یہ انگلستان کی دھواں گاڑی، کیک، چھری کانٹے اوردم دریدہ کوٹ کے بعد نئی صورت حال کا ایک مخصوص پہلو تھا۔ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ سرسید نے اس پہلو پر نظر نہیں ڈالی تھی یا کسی طرح بھی اسے غیراہم سمجھا تھا۔ سرسید کے اپنے زمانے کے لوگوں کا ردعمل جو کچھ بھی رہا ہو لیکن سرسید نیچریت اور ان کی وہ تفسیر قرآن جو ان کے لیے کفر کے فتوے اور بےدینی کے طعنے لائی اور ان کا وہ سب مذہبی اضطراب جو انہیں بار بار کھینچ کر علم الکلام کے خارزار میں لے جاتا ہے، اسی الحاد کو روکنے کی ایک سعی مسلسل کے سوا اور کچھ نہیں تھا۔ سرسید نے بہت ہی ابتدا میں محسوس کر لیا تھا کہ اہل انگلستان کی دھواں گاڑی کے ساتھ تہذیب وتمدن، اخلاق اور عقائد سب میں تبدیلی کی ضرورت پیدا ہو گئی ہے اور یہ ان کا حوصلہ تھا کہ وہ ہرچند ممکنہ تبدیلی کی داغ بیل ڈالنے میں سب سے پیش پیش رہنا چاہتے تھے۔

    اب ایک نظر میں اس ساری گفتگو کو دیکھا جائے تو برصغیر میں اہل انگلستان اوران کی دھواں گاڑی کی آمد ایک ایسی صورت حال تھی جس کو ہم ایک انقلاب عظیم ہی سے تعبیر کر سکتے ہیں۔ یہ انقلاب اتنا بڑا تھا کہ عقائد سے لے کر روزمرہ زندگی کی چھوٹی موٹی چیزیں تک اس کی زد سے باہر نہیں تھیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس انقلاب کے وقت زمین کے نیچے روایتی گائے نے اپنا سینگ بدل لیا تھا اور اس سے پیدا ہونے والے زلزلے سے ہماری قدیم روایتی تہذیب کی ہر چیز اپنی جگہ سے ڈانوا ڈول ہو گئی تھی۔ اب میں یہ مضمون ایک ایسے لمحے میں لکھ رہا ہوں جب اس زلزلے کے دھماکوں سے ہمارے چاروں طرف قدیم تہذیب کے ملبے کے سوا اور کچھ باق ی نہیں ہے۔

    معاف کیجئے، اپنے اس آخری فقرہ کی رقت مجھے خود بری لگی۔ تاریخ میں زلزلے اور دھماکے تو ہوتے ہی رہتے ہیں۔ تہذیب کی روح اگر اتنی کمزور چیز ہے کہ ایسے زلزلوں اور دھماکوں کو برداشت نہ کر سکے تو اسے مٹ ہی جانا چاہئے۔ ہم کسی زندہ تہذیب کوشیشے کے مرتبان میں بند کرکے اس کی حفاظت نہیں کر سکتے، نہ کسی مردہ سڑی گلی چیز کو زمین سے کھودکر اسے زندہ کر سکتے ہیں۔ ہند اسلامی تہذیب میں اگر جان ہے تو آپ اس کی کتنی ہی شاخوں کو کاٹ دیجئے، وہ اپنے پر پرزے پھر نکال لےگی۔ خیر ذکر ہو رہا تھا سرسید سے بلکہ غالب سے اقبال تک ان تبدیلیوں کا جو ہماری تہذیب میں بظاہر رونما ہوئیں۔ ان تبدیلیوں کے مادی مظاہر اپنے روحانی مظاہر کے بغیر وجو دمیں نہیں آئے ہیں۔ دھواں گاڑی ہے تو اس کے ساتھ غالب کی ’آئین اکبری‘ کی تقریظ ہے۔ چھری کانٹے سے کھانا ہے تو اس کے ساتھ سرسید کا ’’تہذیب الاخلاق‘‘ ہے۔

    اس سلسلے کو آگے بڑھاتے سپتنک ایج آ جائیں تو ٹیڈی بوائے اور افتخا ر جالب کی شاعری سے ملاقات ہو جائےگی۔ اکبر اور اقبال نے ایک نقطہ نظر سے ان مادی اور روحانی تبدیلیوں کے خلاف بند باندھنے کی کوشش کی اور بقول شیخ اکرام مغرب کے خلاف ردعمل کا اظہار کیا۔ اکبر نے تو اپنے آخری دور میں ’’نیا کعبہ بنےگا مغربی پتلے صنم ہوں گے‘‘ کی دکھ بھری پیش گوئی کرتے ہوئے یہ کہہ کر صبر کی تلقین کی تھی کہ تم ہوگے نہ ہم ہوں گے۔ مگر اقبال کی ’’ضرب کلیم‘‘ کا آغاز تہذیب حاضر کے خلاف اعلان جنگ سے ہوتا ہے۔ میں اکبر اور سرسید کے ان دونوں رججانات کوان کی فکر اور شاعری میں اتنی اہمیت دیتا ہو ں کہ میرے نزدیک یہ ان کے شخصی رجحانات نہیں ہیں بلکہ یہ مشرقی تہذیب کی سخت جان روح ہے جو اکبر اور اقبال کو اپنا آلہ کار بنا رہی ہے اور ان کے ذاتی اضطراب، الجھنوں اور مایوسیوں سے الگ اس بات کا اعلان کر رہی ہے کہ وہ مغربی تہذیب کے پے درپے حملوں کے باوجود زندہ ہے۔

    لیکن اس کے ساتھ ہی میری بات پوری نہ ہوگی اگر میں ایک اور نقطہ نظر سے اس حقیقت کا اظہار نہ کروں کہ اکبر اور اقبال جس حد تک مغربی تہذیب سے متاثر ہیں، اسی حد تک وہ ہند اسلامی تہذیب میں تبدیلی کا دروازہ بھی کھولتے ہیں۔ اکبر چاہتے ہیں کہ بیگم کی پشوا تو سلامت رہے مگر مسلمان دھواں گاڑی بنانے کا علم سیکھ لیں۔ وہ خاتون خانہ کی حیثیت کو قائم رکھنے کی شرط کے ساتھ عورتوں کی مغربی تعلیم کی ضرورت کو بھی تسلیم کر لیتے ہیں اور آخر میں مذہب کو برقرار رکھتے ہوئے سائنس کی برکات سے فائدہ اٹھانے کا درس دیتے بھی نظر آتے ہیں۔ اقبال اس سے بھی آگے جاکر یہ حیرت انگیز موقف اختیار کرتے ہیں کہ مغربی تہذیب خود اسلامی تہذیب کے بعض پہلوؤں کی ترقی یافتہ شکل ہے اور بعض پہلوؤں کی تشریح کرتے ہوئے وہ مغربی تہذیب اور اسلامی تہذیب کی روح کو ایک ثابت کر دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک مغربی تہذیب کا ارتقا تین چیزوں کا مرہون منت ہے۔ (۱) عقل استقرائی (۲) ادراک بالحواس پرزور اور (۳) اختیاریت اور اقبال کے نزدیک یہی وہ تین چیزیں ہیں جن کو دنیا کی تمام تہذیبوں کے مقابلے پر سب سے پہلے اسلام نے ترقی دی ہے اور مزید ترقی کا دروازہ کھولا ہے۔

    یوں اکبراور سرسید کے یہاں اسلامی تہذیب کی حدی خوانی میں مغربی تہذیب کی لے بھی صاف سنائی دینے لگتی ہے۔ شاید اس وقت میں ایسا ہونا ناگزیر بھی تھا۔ مغربی تہذیب اپنی روح کے اعتبار سے ہر روایتی تہذیب سے ایک الگ چیز ہے اور اتنی کہ ایک کی موجودگی میں دوسری کی بقا کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس بات کے واضح ہونے میں ابھی ایک مدت کی ضرورت تھی۔ بہرحال قیام پاکستان تک ہم اکبر اور اقبال کے زیر سایہ ہی اپنا راستہ طے کر رہے تھے۔

    قیام پاکستان کے بعد ہماری تہذیبی صورت حال میں دو تبدیلیاں بہت واضح طور پر ظاہر ہوئیں۔ ہمارا اوپری طبقہ بہت تیزی کے ساتھ مغرب کی طرف اڑنے لگا، گو بعدمیں معلوم ہوا کہ یہ اڑان ایک کٹی ہوئی پتنگ کی اڑان تھی اوراس کے ساتھ ہی متوسط طبقہ بھی اوپری طبقے کی نقالی میں تیزی سے اس طرف قدم بڑھانے لگا۔ دوسری طرف عوام اپنے ہی دو طبقات کو رفع بیگانگی اختیار کرتے دیکھ کر اپنے ہی خول میں سمٹنے لگے۔ یہ وہی عوام تھے جن کے آباواجداد جنگ بکسر، جنگ پلاسی، جنگ میسور اور جنگ آزادی میں مغرب کے خلاف ہتھیار اٹھا چکے تھے اور جب ان کے ہتھیار چھین لیے گئے تو اکبر کے ساتھ کالے ’’صاحب لوگوں‘‘ کی کوٹ پلتون، چھری کانٹے، دم بریدہ کتے اور دم دریدہ کوٹ، کالج اور ہوٹل پر قہقہے لگا چکے تھے۔

    قیام پاکستان ان کے لیے خلاف راشدہ کی طرف واپسی کا عمل تھا۔ لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ ہم مکہ اور مدینہ کے بجائے ماسکو اور واشنگٹن کی طرف دوڑ رہے ہیں تو انہوں نے اپنی چادریں اپنے سروں پر لپیٹ لیں اور اس سارے عمل سے منہ پھیر کر یا تو اپنی کمائی میں مگن ہو گئے یا پھربے دلی سے کسی مرد غیب کا انتظار کرنے لگے جو پاکستان کو پاکستان بنائےگا۔ مختصر لفظوں میں یوں کہیئے کہ ہند اسلامی تہذیب کا سر اور دھڑ ایک دوسرے سے الگ ہو گئے۔ سر مغرب کی گود میں تڑپنے لگا اور دھڑ اپنے مقام پر ایڑیاں رگڑنے لگا۔

    مسٹر پرویز اور مولانا مودودی نے بعض اختلافات کے ساتھ اقبال ہی کی فکر کے بعض پہلوؤں کی پیروی کی۔ لیکن ان کا اثر تعلیم یافتہ طبقے کے چند لوگوں ہی تک محدود رہا۔ اقبال ہی کی زندگی میں کمیونسٹ پارٹی اور ترقی پسند تحریک مغربی روح کے ایک پر قوت نمائندے کی حیثیت سے مشرقی پیکر میں سمانے کی پر زور کوشش شروع کر چکی تھی۔ لیکن تقسیم ہند کے ساتھ اس غبارے سے بھی پھونک نکل گئی۔ رہی سہی کسر اسٹالن کی موت، بقائے باہمی کی پالیسی اور جنگ اقتدار کے بدلتے ہوئے پینتروں نے پوری کر دی اور اب تصوف کے حلقوں کی طرح یہ تحریک بھی خانقاہ نشینی کی منزل تک پہنچ چکی ہے۔

    یوں بھی چوتھائی صدی کے الٹ پھیر میں یہ حقیقت کھل کر ہمارے سامنے آ گئی ہے کہ مغربی تہذیب کو اسلامی تہذیب سے ہم آمیز کرنے کی کوشش نہ صرف کامیاب نہیں ہوئی بلکہ اس چکر میں ہند اسلامی تہذیب کے ساتھ مغربی اثرات کا بھی دیوالیہ نکل گیا اور دو روایتی بھوکوں کی طرح اب دونوں بے ہوش پڑے ہیں۔ ٹھیک یہی صورت حال تھی جب محمد حسن عسکری نے مشرق و مغرب کی دو سو سالہ آویزش کا جائزہ لیتے ہوئے اس بات کا کھلے لفظوں میں اعلان کیا کہ مشرق ومغرب ایک دوسرے سے اتنے مختلف ہیں کہ ایک کی موجودگی میں دوسرا زندہ نہیں رہ سکتا۔ انہوں نے اپنے مخصوص اندازمیں ثابت کیا کہ ان دونوں میں کسی قسم کالین دین ممکن ہی نہیں ہے۔ اس لیے ان کے امتزاج کی ہر کوشش بےسود ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ سرسید سے اب تک تہذیبی زندگی کے مختلف شعبوں میں جوکچھ کرنے کی کوشش کی گئی، اس کی حیثیت ایک سعی رائیگاں سے زیادہ نہیں ہے۔

    خیر، یہاں تک بھی غنیمت تھا، ہمیں اگر یہ معلوم ہو جائے کہ مشرق ومغرب کا امتزاج نہیں ہو سکتا تو اس کے بعد ہمارے لیے دو راستے باقی رہ جاتے ہیں۔ یا تو ہم پورے مغربی ہو جائیں یا پورے مشرقی۔ اب پورے مغربی ہونے کے بارے میں حسن عسکری دو باتیں کہتے ہیں۔ اول یہ ہونا ناممکن ہے کیوں کہ مغرب کی روح سے ہم بالکل مختلف ہیں اور اس کے ساتھ مشرقی روح بھی ہمارے پیروں کی زنجیر ہے۔ بہت ہوا تو ہم مغرب کے سطحی نقال بن سکتے ہیں۔ دوم مغربی تہذیب خود اپنے دن پورے کرکے ختم ہونے والی ہے۔ اس لیے اگر ہم اس کے نقال بھی ہو جائیں تو اس کے ساتھ ہی ہمارا خاتمہ بھی ہو جائےگا اور گیہوں کے ساتھ بےچارہ گھن بھی پس جائےگا۔ اس کے بعد آخری صورت پورے مشرقی بننے کی ہے۔ کیا یہ ممکن ہے؟

    عسکری صاحب کہتے ہیں کہ ہاں یہ ممکن ہے مگر اس کی شرط اتنی کڑی ہے کہ سن کر ہوش اڑ جاتے ہیں۔ محمد حسن عسکری کہتے ہیں کہ مشرقی بننے کی سب سے بڑی شرط یہ ہے کہ ہم ان تمام چیزوں کو ترک کر دیں جنہیں مغرب میں ترقی کی علامات سمجھا جاتا ہے۔ لیجئے، کوکاکولا پینے کا سارا مزہ کر کرا ہو گیا۔ پچھلے دو سو سال کے تجربات کو غور سے دیکھئے اور ان کے تمام نتائج پر پوری نظر ڈالنے کے بعد جہاں تک میری ذات کا تعلق ہے، مجھے اس بات کا پورا یقین ہے کہ محمد حسن عسکری کا تجزیہ قیامت کی طرح اٹل اور سچ ہے اور دراصل اس کے سوا اور کوئی نتیجہ نکالا ہی نہیں جا سکتا۔ مگر اب سوال یہ ہے کہ ہم دھواں گاڑی کو مشرق سے کیسے نکال باہر کریں؟ اور یہ ایک ایسا سوال ہے جس کے بعد ذہن اتنا ماؤف ہو جاتا ہے کہ ٹی وی دیکھنے کے سوا اور کوئی کام نہیں کر سکتا۔

    مأخذ:

    مضامین سلیم احمد (Pg. 275)

    • مصنف: سلیم احمد
      • ناشر: اکیڈمی بازیافت، کراچی
      • سن اشاعت: 2009

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے