Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

تایا ابا

محمود حسین

تایا ابا

محمود حسین

MORE BYمحمود حسین

    ’’میں اصل کا خاص سومناتی

    آبا میرے لاتی و مناتی‘‘

    دہلی سے چھتیس میل دور مرادآباد کی جانب ضلع میرٹھ میں ایک قصبہ ہاپڑ واقع ہے ہم لوگ اس قصبہ کے رہنے والے ہیں اگر آپ ہاپڑ جائیں تو کوئی بھی آپ کومحلہ قانوں گویاں میں پتھروالے کنوئیں کاپتہ بتادے گا۔ اسی کنوئیں کے سامنے ایک بڑی سی عمارت دکھائی پڑتی ہے جو آج تک سے تقریباً چالیس برس پہلے مٹی گارے کے ایک کچے مکان کو منہدم کرکے نئے سرے سے تعمیر کی گئی تھی۔ یہی بابائے اردو علامہ مولوی عبدالحق اور ہم سب کا آبائی مکان ہے۔

    ہمارے آبا و اجداد یہیں رہتے تھے اور ان کے سپرد دَورِ مغلیہ میں محکمہ مال کی قانون گوئی کی خدمات تھیں۔ یہ سب ہندو تھے اور کایستھ برادری سے تعلق رکھتے تھے۔ ان میں سے ایک صاحب عہدِ شاہجہانی میں مشرف بہ سلام ہوئے اور شیخ عبدالدائم نام پایا۔ ان کیاولاد شمالی مغربی ہندمیں جس کو آج کل اترپردیش کہا جاتا ہے، کے تمام اضلاع میں پھیل گئی۔ ان ہی میں سے ہمارے مورثِ اعلیٰ شیخ صادق حسین تھے۔ جن کی قبرآج بھی ہمارے خاندانی قبرستان ہاپڑ میں موجود ہے۔

    شیخ صادق حسین مرحوم سے جو سلسلہ چلا اس میں میرے دادا شیخ علی حسین صاحب مرحوم تھے جن کی آٹھ اولادیں ہوئیں چار لڑکے اور چار لڑکیاں۔ اولادِ نرینہ میں سب سے بڑے شیخ ضیاء الحق صاحب مرحوم تھے اور اس کے بعد مولوی عبدالحق۔ اب صرف میرے والد جو بابائے اردو کے چھوٹے بھائی ہیں۔ بقیدِ حیات ہیں باقی سب بہن بھائیوں کا انتقال ہوچکا ہے۔

    ہمارا خاندان اوسط درجے سے تعلق رکھتا تھا اور دادا صاحب مرحوم معانی کی آمدنی کے علاوہ خود ملازمت بھی کرتے تھے وہ بہت سوجھ بوجھ کے دور اندیش بزرگ تھے۔ اور اسی لیے اپنی معمولی حیثیت کے باوجود انہوں نے اپنے لڑکوں کی تعلیم پر خاص توجہ دی۔ یہاں تک کہ زمین بیچ دی اور قرض بھی حاصل کیا، ہر طرح کی مصیبت اٹھائی لیکن اپنے لڑکوں کی تعلیم کے لیے کوئی دقیقہ نہ اٹھارکھا۔ مولوی صاحب مرحوم کے بڑے بھائی نے زیادہ تعلیم حاصل نہ کی۔ لیکن مولوی صاحب نے نہ صرف اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ بلکہ خداداد قابلیت و ذہانت سے اپنے آپ کو اس مقام پر پہنچایا کہ رہتی دنیا تک ان کا نام باقی رہے گا اور ہم نیز ہماری نسلیں ان پر فخر کریں گی۔

    جیسا کہ کئی اصحاب نے اپنے مضامین میں لکھا ہے مولوی صاحب بچپن سے ہی نہایت خاموش اور سنجیدہ واقع ہوئے تھے۔ علی گڑھ کی صحبت اور تعلیم نے وہ کام کیا کہ آج ہم انہیں بلا جھجک سرسید ثانی کہہ سکتے ہیں۔ سرسید سے جو ایک خاص لگاؤ مولوی صاحب کو تھا اور خود سرسید جو شفقت اور مہربانی ان پر فرماتے تھے۔ اس کا ذکر کئی مضامین میں آچکا ہے۔ ملازمت، علمی مشاغل وغیرہ کے بارے میں بہت کچھ لکھا جاچکا ہے اور لکھا جائے گا۔ میرا مقصد یہاں بابائے اردو کے صرف دو پہلوؤں کو اجاگر کرنا ہے۔ ایک تو یہ کہ وہ کیا چیز ہے جو مولوی صاحب کو دوسرے ادیبوں، شعراء اور مصنفین سے ممتاز بناتی ہے۔ دوسرے ان کا تعلق اپنے رشتہ داروں سے کیا اور کس حد تک تھا۔

    ہمیں یہ کبھی نہیں بھولنا چاہیے کہ ایک انسان خواہ وہ سرسید ہو یا مرزا غالب، اقبال ہو یا بابائے اردو مولوی عبدالحق، اپنی فطری کمزوریوں اور خوبیوں پر اختیار نہیں رکھتا۔ انسان اچھائی اور برائی کا مجموعہ ہے اور کسی بھی شخص کو اگر ہم فرشتہ تصور کرلیں تو خود یہ ہماری فہم کاقصور ہے۔ دیکھنا یہ چاہیے کہ ایک شخص میں خوبیاں زیادہ ہیں یا برائیاں اور ان میں سے جن کی تعداد مجموعی طو رپر زیادہ ہو ان کی روشنی میں رائے قائم کی جانی چاہیے۔ پس مولوی عبدالحق بھی ایک انسان تھے اور جہاں ان میں خوبیاں تھیں وہاں کمزوریاں بھی تھیں جن کی وجہ سے انہیں کافی نقصانات اٹھانا پڑے لیکن مرتے دم تک وہ اپنی کمزوریوں پر قابو نہ پاسکے۔ جہاں تک ان کی خوبیوں کا تعلق ہے بے شک وہ اس قدر زیادہ اور زندگی کے ہر پہلو پر اتنی غالب تھیں کہ ان کی برائیاں ماند ہوکر رہ گئیں۔ جو عملِ پیہم، یقینِ محکم مولوی صاحب کی پوری زندگی میں نظر آتا ہے اس کی مثال مشکل سے ملے گی۔ اسی طرح جو ایثار اور قربانی انہوں نے اپنی قومی زبان بالفاظِ دیگر اپنی قوم کے لیے کی۔ اس کامقابلہ بھی شاید کوئی اور مشکل ہی سے کرسکے۔ جس ہمت، خلوص اور پختہ ارادہ کے ساتھ انہوں نے جوانی میں اردو کی خدمت کا بیڑا اٹھایا وہ اکانوے برس کی عمرتک بسترِمرگ پر بھی قائم رہا۔ دنیا کی کوئی طاقت، کوئی لالچ یا کوئی اور دلچسپی ان کو اپنی راہ سے نہ ہٹاسکی اور یہی ایک انسان کا کمال ہے،

    یقینِ محکم، عمل پیہم، محبت فاتح عالم

    جہادِ زندگانی میں یہ ہیں مردوں کی شمشیریں

    ہمیں دنیا میں بہت سے بڑے بڑے ادیب اور شاعر ملیں گے۔ ان میں سے بہت سے ایسے ہیں جن کا مرتبہ بحیثیت ایک ادیب کے مولوی صاحب مرحوم سے بہت بلند ہے۔ لیکن میرا یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ اپنی زبان کی خدمت اور تحفظ کے لیے جو کچھ مولوی عبدالحق نے کیا اس کی مثال دنیا کے کسی ادب میں نہ مل سکے گی۔ ہر شاعر اور مصنف جو کچھ لکھتا ہے۔ اس سے کسی نہ کسی صورت خود اس کی ذات کو بھی کچھ فائدہ ضرور پہنچتا ہے۔ میرا مقصد صرف نام و نمود سے نہیں بلکہ دیگر مادی فوائد سے ہے جس میں روپیہ پیسہ جائداد سب کچھ شامل ہیں۔ ہمیں مولوی عبدالحق کی ایک تنہا ذات نظرآتی ہے جنہوں نے اپنے فن اور کمال کو اپنی گزر اوقات کا ذریعہ نہیں بنایا۔ ملازمت کی اور تقریباً پینتالیس سال تک بڑے اچھے اور اونچے عہدوں پر فائز رہے۔ ہندوستان کی تقریباً تمام یونیورسٹیوں کے اعلیٰ امتحانات کے ممتحن رہے۔ غرص اپنی محنت سے انہوں نے لاکھوں روپیہ کمایا لیکن ایک انچ زمین، کوئی مکان، جائداد یا بنک بیلنس اپنے پیچھے نہیں چھوڑا اور ہمیشہ تہی دست ہی رہے۔ آخر کیوں؟ جواب یہ ہے کہ ہمیشہ اپنی آمدنی کاایک بڑا حصہ انجمن اور اردو کی نذر کرتے رہے۔ انجمن کے کام اور اردو کے پروپیگنڈے کے لیے انہیں طول و عرض ہندوستان اور پھر پاکستان میں لمبے لمبے سفر کرنے پڑتے تھے۔ وہ ہمیشہ سکنڈ کلاس، فرسٹ کلاس یا ہوائی جہاز میں سفر کرتے تھے اور ایک معتمد اور ملازم بھی ان کے ہمراہ رہتا تھا۔ یہ تمام اخراجات وہ اپنی جیب سے برداشت کرتے تھے اور کبھی انجمن کے بجٹ پر اس کا بار نہیں ڈالا گیا۔ جب کبھی انجمن کو روپیہ کی ضرورت ہوتی وہ بلاتکلف اپنے پاس سے دے دیا کرتے تھے۔ خواہ بعد میں ایسی رقومات واپس ملیں یا نہ ملیں یہاں تک کہ سولہ اگست ۱۹۶۱ء کو جب انہوں نے دنیائے فانی سے ابدی دنیا کی طرف کوچ کیا اس وقت بھی انجمن ان کی چار ہزار روپیہ کی مقروض تھی۔ یہ رقم انہوں نے وفات سے چند روز قبل انجمن کو عنایت کی تھی۔

    تایا ابا بے حد کھلا ہاتھ رکھتے تھے اور انتہائی فضول خرچ بھی تھے۔ بلاضرورت دعوتیں کرنا، دوسروں پر پیسہ خرچ کرنا ان کی عادت تھی۔ لہٰذا وہ کبھی حسب حیثیت بڑی رقم پس انداز نہ کرسکے۔ پھر بھی جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے بلکہ یقین ہے ۱۹۴۲ء میں جب انجمن کا دفتر دہلی میں تھا ان کے پاس ۵۵ہزار روپیہ بنک میں جمع تھا اور یہ وہ زمانہ تھا جب وہ انجمن کی اپنی عمارت پریس اور کالج کے لیے ہندوستان بھر میں چندہ جمع کرتے پھر رہے تھے۔ میں اس زمانہ میں عربک کالج دہلی میں پڑھتا تھا اور ہر اتوار کو نیز دوسری تعطیلات میں تایا ابا کے پاس جایا کرتا تھا۔ انجمن کا دفتر اور خود ان کی رہائش کوٹھی دارالسلام دریاگنج نمبر (رہائش گاہ مرحوم ڈاکٹر انصاری) میں تھی۔ ایک دن شام کو جب میں پہنچا تو مولوی صاحب کوٹھی کے وسیع صحن میں اکیلے بیٹھے حقہ پی رہے تھے اور باہر لان پر ان کے معتمدِ خاص رفیق الدین صاحب ٹہل رہے تھے۔ کچھ دیر میں نے رفیق صاحب سے باتیں کیں۔ جس سے اندازہ ہوا کہ اس دن تایا ابا کسی گہری فکر اور سوچ میں ڈوبے ہوئے تھے۔ کچھ دیر بعد میں ان کے پاس گیا لیکن انہیں معلوم بھی نہ ہوا کہ کوئی آیا ہے۔ یہاں تک کہ رات کے کھانے کا وقت آگیا۔ یہ سردیوں کا زمانہ تھا اور دسمبر کا مہینہ تھا، بڑے دن کی تعطیلات قریب تھیں۔ کھانے کی میز پر اپنے کتب خانے کے متعلق کچھ باتیں کرتے رہے اور آئندہ ان کا کیا پروگرام تھا۔ اس پر بھی کچھ اظہارِ خیال کیا حالانکہ ہم لوگوں سے وہ انجمن کے بارے میں یا اپنی پبلک لائف کے متعلق کبھی کوئی بات نہیں کرتے تھے۔ کتب خانے، انجمن اور فراہمی چندہ کے متعلق جن خیالات اور تاثرات کا انہوں نے اظہار فرمایا تھا متعدد وجوہ کی بناپر اس وقت ان کا اظہار کرنا مناسب نہ ہوگا۔ البتہ میں جس نتیجہ پر پہنچا وہ یہ تھا کہ فراہمی چندے کے سلسلے میں کہیں کوئی گفتگو ایسی ضرور ہوئی تھی جس سے انہیں روحانی اذیت پہنچی۔ اسی وقت شاید زندگی میں پہلی اور آخری بار انہوں نے مجھ سے ایک خاص کام کے لیے فرمایا، یہ ایک جداگانہ قصہ ہے۔ بہرحال میں کھانے کے بعد کچھ دیر بیٹھا اور پھر چلا آیا۔ کچھ دن بعد تعطیلات میں میں بھوپال چلا گیا اور وہیں تھا کہ ایک دن اخبار میں پڑھا کہ مولوی عبدالحق سکریٹری انجمن ترقی اردو ہند نے اپنا تمام تر سرمایہ انجمن کے نام منتقل کردیا ہے اور مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اس کے بعد ماہانہ پنشن کے علاوہ جو ان کو ریاست حیدرآباد سے ملتی تھی کوئی اور سرمایہ یا مستقل ذریعہ آمدنی باقی نہیں بچا تھا۔

    پاکستان آجانے کے بعد ان کی پنشن جو حیدرآباد سے ملتی تھی بند ہوگئی اور حکومتِ پاکستان نے ان کا وظیفہ مقرر کردیا۔ زندگی کے آخری ایام میں ان کی مالی حالت بے حد خراب اور کمزور ہوگئی تھی لیکن اخراجات اور طریقہ کار میں کوئی فرق نہیں پڑا تھا۔ ۱۹۸۹ء میں ان کی بے مثال خدمات کے پیش نظر انہیں شانِ قائد اعظم کے ساتھ دس ہزار روپیہ بطور نقد انعام صدرِ مملکت پاکستان نے مرحمت فرمایا۔ تایا ابا کی وفات کے بعد مجھے معلوم ہوا کہ اس دس ہزار روپیہ کے چیک کو بھی انہوں نے محض اتنی سی دیر اور اس لیے ہاتھ میں لیا تھا کہ اس کو اردو نیورسٹی کے نام منتقل کرکے دستخط کردیں۔

    بڑے اور مخلص لوگ دماغی، جسمانی محنت کرتے ہیں، وقت صرف کرتے ہیں، بڑی بڑی مشکلات کا سامنا کرتے ہیں۔ لیکن اپنا کام کئے جاتے ہیں۔ تایا ابا نے بھی یہ سب کچھ کیا لیکن اس کے ساتھ ہی سب سے بڑھ کر یہ کیا کہ اپنے تن من اور زندگی کے ساتھ تمام عمر کی کمائی بھی انجمن اور اردو کی نذر کردی۔ اور یہی وہ چیز ہے جو مولوی عبدالحق کو دوسرے ادیبوں اور قومی خدمت کرنے والوں سے ممتاز کرتی ہے، یہی وہ حقیقت ہے جس نے انہیں بابائے اردو کالقب دلوایا اور یہی وہ راز ہے جس کی بناپر اپنی زندگی میں اور مرنے کے بعد انہوں نے وہ عزت اور شہرت حاصل کی جو کسی بڑے سے بڑے ادیب اور مصنف کو بھی مشکل ہی سے حاصل ہوتی ہے۔

    مولوی صاحب نے عمر بھر شادی نہیں کی۔ ایک دفعہ جب دادا اور دادی نے ان کی زبردستی شادی کرانا چاہی تو منہ سے تو کچھ نہ کہہ سکے۔ لیکن ایسا طریقہ اختیار کیا کہ یہ زنجیر ان کے پاؤں میں نہ پڑسکی۔ میں نے بعض لوگوں کو یہ کہتے سنا ہے کہ ’’بھوپال میں شادی کی تھی‘‘ یا ’’کچھ عرصہ ازدواجی زندگی گزاری تھی۔‘‘ بالکل غلط اور بے بنیاد ہے۔ صحیح اور حقیقی معنی میں ان کی شادی کبھی ہوئی ہی نہیں۔ دراصل ان کی شادی جیسا کہ خود مرحوم نے ایک دفعہ فرمایا تھا۔ اردو سے ہوچکی تھی وہی ان کی محبوب تھی۔ وہی ان کی اولاد۔ دہلی کے ایک شاعر نے خوب کہا تھا،

    باقی ہے ترے دم سے جہانِ اردو

    قائم ہے ترے دم سے نشانِ اردو

    اس خدمتِ بے لوث کی کیا ہو تعریف

    اردو ہے تری جان، تو جانِ اردو

    ان تمام بے مثل خوبیوں، جذبہ ایثار و قربانی، دوسروں کی امداد اور ہمدردی اور بہت سے ان محاسن کے ساتھ ہی ساتھ جو اس زمانے میں مفقود ہیں۔ تایا ابا میں بحیثیت ایک انسان کے خامیاں بھی تھیں۔ مثلاً وہ مردم شناس بالکل نہیں تھے، کبھی صحیح اور مخلص آدمی کو انہوں نے نہیں پہچانا، مدد وہ سب کی کرتے تھے، خلوص ہر ایک کے ساتھ تھا اس میں اچھے اور برے کی قید نہیں تھی لیکن کون کیسا ہے یہ وہ زندگی بھر تمیز نہ کرسکے۔ چونکہ وہ اپنے عزیز و اقارب سے علیحدہ رہ کر تنہا زندگی گزارنے کے عادی تھے اور گھر میں بھی کوئی عورت رہی نہیں جو امورِ خانہ داری کا انتظام و انصرام کرتی، وہ ہمیشہ کسی ایک شخص پر اس کی ظاہری خوبیاں دیکھ کر بھروسہ کرلیا کرتے تھے۔ مرحوم کے سر پر تو ہمیشہ اردو کی دھن سوار رہتی تھی۔ اور ان کے گھر کاانتظام اور تمام تر اخراجات کسی ایک ایسے آدمی کے سپرد رہاکرتے تھے جس کو وہ غلط یا صحیح اپنا سمجھ لیتے تھے۔ جب سے مجھے ہوش ہے میں نے ہمیشہ ان کے ساتھ کسی ایک ایسے آدمی کو نتھی دیکھا، جو سیاہ و سفید کا مالک ہوتا تھا۔ ان اصحاب میں سے آج کئی ایسے ہیں جو ہمارے ملک اور قوم میں نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ بہت سے بڑے بڑے آدمی ایسے بھی ہوئے ہیں اور ہیں جنہوں نے مولوی صاحب کے وظیفوں سے تعلیم پائی ہے۔ میں بلاجھجک یہ کہہ سکتا ہوں کہ سوائے دو اصحاب کے جو مولوی صاحب مرحوم کے خاص معتمد بن کر رہے کوئی ایک بھی ایسا نہ نکلا، جس کے دل میں ان کے لیے سچی ہمدردی اور خلوص ہوتا۔ سب نے اپنا مطلب نکالا، کھایا، کمایا، مولوی صاحب کو بدنام کیا بڑھاپے میں ان کو رسوا کیا اور پھر اپنی راہ لی۔ یہ محض تایا ابا کی خود ایک بہت بڑی کمزوری اور سادہ لوحی کا نتیجہ تھا۔

    اس کی ذمہ داری ہم نہ تو کسی پر ڈال سکتے ہیں اور نہ ہی کسی کو موردِ الزام ٹھہرا سکتے ہیں۔ ہم ظاہراً حالات دیکھ کر صرف اس قدر ہی کہہ سکتے ہیں کہ اپنی ذاتی زندگی اور معاملات میں تایا ابا کو اچھے برے کی تمیز نہ تھی۔

    اقبال کاایک شعر ہے،

    اچھا ہے دل کے ساتھ رہے پاسبانِ عقل

    لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑدے

    اقبال نے صرف ’’کبھی کبھی‘‘ کے لیے مشورہ دیا ہے لیکن جہاں تک نجی معاملات اور ذاتی زندگی کا تعلق ہے، تایا ابا نے اس ’’کبھی کبھی‘‘ کو اپنے لیے لفظ اکثر و بیشتر میں تبدیل کرلیا تھا۔ اور مرتے دم تک وہ اس پر عامل رہے۔

    بے شک وہ بے حد سنجیدہ اور خاموش طبع واقع ہوئے تھے لیکن بے حد کچے کان کے تھے۔ جس نے جو کہہ دیا اس پر یقین کرلیتے تھے اور ایسا یقین ایک آدمی کے لیے بے حد نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔ یہ مانا ہوا اصول ہے اور تایا ابا بھی اس نقصان سے محفوظ نہ رہ سکے، جب ان کو غصہ آتا تھا تو وہ آپے سے باہر ہوجاتے تھے اور پھر کچھ نہ سوچتے تھے۔ سازش یا کسی کی مخالفت سے ان کو دور کا بھی واسطہ نہیں تھا لیکن پھر بھی وہ اپنی افتادِ طبع سے خواہ مخواہ اچھے لوگوں کو بھی اپنا مخالف بنالیتے تھے۔ حالانکہ حقیقت کھلنے پر ایسی مخالفتیں باقی نہ رہتی تھیں۔

    مرحوم ہاپوڑ کے قانون گوؤں کے خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ لہٰذا جب غصہ میں بکنے جھکنے پر آتے تو کوئی کمی نہ چھوڑتے تھے۔ یہ خاندانی وصف تھا۔

    اکثر لوگوں کو غلط فہمی ہے کہ وہ منکر اور ملحد تھے لیکن یہ غلط ہے۔ اس سے تو انکار نہیں کیا جاسکتا کہ وہ پابندِ صوم و صلوٰۃ نہیں تھے اور بظاہر مذہب سے کوئی واسطہ نہ معلوم ہوتا تھا لیکن حقیقت میں وہ خدا اور اس کے رسولؐ پر پورا پورا ایمان رکھتے تھے۔ اور دل سے مسلمان تھے۔

    جہاں تک ان کی خامیوں کاتعلق ہے وہ ان کے نجی اور ذاتی معاملات سے زیادہ تعلق رکھتی ہیں، وہ ایک سچے عاشق تھے اور بلاشک و شبہ اردو ان کی معشوق تھی۔ عاشق کے سوچنے اور کام کرنے کا طریقہ بالکل نرالا اور سب سے الگ ہوتا ہے۔ ایک عاشق جو کچھ کرتا ہے وہ اپنے محبوب کی بھلائی اور بہتری کے ہی لیے کرتا ہے۔ اس کی نیت اور ارادہ کبھی غلط نہیں ہوتا۔ یہ الگ بات ہے کہ دنیاوی اصولوں کے پیش نظر ہم ایک عاشق کے جذبات اور کاموں پر نکتہ چینی کریں۔ اگر اردو اور اس کے متعلقہ کاموں اور جدوجہد میں دنیاوی اعتبار سے تایا ابا سے کوئی لغزش ہوئی تو اس کی حیثیت اس سے زیادہ کچھ نہیں کہ اپنی محبت، دھن اور پختگیٔ ارادہ کے سامنے وہ سوچ ہی نہیں سکتے تھے کہ مصلحتاً ایسا کرنا درست ہوگا یا نہیں۔

    میں نے اکثر احباب اور دیگر اصحاب کو یہ کہتے سنا ہے کہ مولوی عبدالحق صاحب کو اپنے عزیز و اقارب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ تایا ابا کے دورانِ علالت بھوپال میں میری ایک شفیق و مہربان نے جن کا برتاؤ میرے ساتھ بالکل ماں جیسا ہے یہی سوال مجھ سے کیا اور اسی وقت میرے دل میں اس غلط فہمی کو دور کرنے کا خیال پیدا ہوا۔ بظاہر دور سے دیکھنے والوں کا ایسا محسوس کرنا کچھ غلط بھی نہ تھا لیکن حقیقت بالکل اس کے خلاف ہے جیسا کہ میں اوپر بھی عرض کرچکا ہوں۔ ہمارے خاندان کی کوئی خاص حیثیت نہ تھی اور جو کچھ تھی بھی وہ تایا ابا مرحوم اور ان کے بڑے بھائی کی تعلیم و دیگر اخراجات کے سلسلے میں بالکل ختم ہوچکی تھی۔ تعلیمی اعتبار سے بھی ہمارا خاندان کوئی نمایاں حیثیت نہ رکھتا تھا۔ یہ صرف مولوی عبدالحق ہی کی ذات تھی۔ جس نے تعلیم سے فارغ ہوکر سب کو سنبھال لیا۔ اپنے چھوٹے بھائی والدین بڑے بھائی غرض کہ سب کی ذمہ داری اپنے سر لے لی۔ اور آخر میں میں یا میرا بھائی بھی جو کچھ پڑھ سکے تو خدا اور رسولؐ کے بعد یہ صرف تایا ابا ہی کے طفیل تھا۔ اس کے علاوہ ہمارے خاندان میں مولوی عبدالحق کا پیدا ہونا ہم سب کے لیے، نیز آنے والی نسلوں کے لیے خدا کی رحمت ثابت ہوا۔ مولانا حالی نے خوب کہا ہے۔ اور تایا ابا پر ان کا یہ شعر حرف بحرف صادق آتا ہے،

    قیس سا پھر نہ اٹھا کوئی بنی عامر میں

    فخر ہوتا ہے گھرانے کا سدا یک ہی شخص

    مولوی صاحب نے علی گڑھ سے بی۔ اے کرنے کے بعد فوراً حیدرآباد کا رخ کیااور نواب محسن الملک کے توسط سے آصفیہ اسکول کے ہیڈماسٹر مقرر ہوئے۔ بعد ازاں بڑے سے بڑے عہدوں پر فائز رہے اور جو ترقی کی وہ سب پر ظاہر ہے۔ ملازم ہوتے ہی اپنے چھوٹے بھائی یعنی میرے والد کو اپنے پاس بلالیا اور ان کو تعلیم دلائی۔ ابتدائی تعلیم کے بعد اپنے خرچ سے انجینئر کی تعلیم کے لیے رڑکی بھیجا۔

    دادا اور دادی کو برابر ماہانہ معقول رقم اخراجات کے لیے تاحینِ حیات بھیجتے رہے اور دادا دادی کے انتقال کے بعد یہی رقم اپنے بڑے بھائی شیخ ضیاء الحق صاحب مرحوم کو بھیجتے تھے۔ ان کے صاحبزادے شیخ ممتاز حسین کو بلاکر اپنے پاس اورنگ آباد میں رکھا اور تعلیم دلائی۔ اپنی مرحوم بہن کے لڑکے شیخ حامد حسین کو بھی ہمیشہ اپنے پاس رکھا اور ان کی کفالت کرتے رہے۔ اس کے علاوہ گھر کے دیگر اخراجات اور اپنے بھائیوں کی ہر ضرورت ہمیشہ پوری کی۔ خاندان کے کتنے ہی لوگوں کی پرورش کی اور کتنے بچوں کو تعلیمی وظیفے دیے اس کا حساب یا اندازہ لگانا مشکل ہے۔

    تایا ابا ہمیشہ سے بہت کم سخن اور سنجیدہ واقع ہوئے تھے۔ طبیعت میں ظرافت ضرور تھی لیکن بلاضرورت بات نہ کرتے تھے۔ ان کی سنجیدگی، عمر اور پوزیشن کے اعتبار سے ان کے بھائی اور دیگر خاندن کے افراد کا بے حد ادب و لحاظ کرتے تھے۔ یہاں تک کہ میرے سب سے بڑے تایا بھی مولوی صاحب کے سامنے آزادانہ گفتگو نہیں کرسکتے تھے۔ پورے خاندان میں میں ہی ایک ایسا تھا جو تایا ابا سے بہت بے تکلف تھا اور ہرقسم کی بات نہایت آزادانہ کرلیا کرتا تھا۔ ۱۹۴۹ء تک یعنی پاکستان آنے سے قبل مجھے ان کے ساتھ کچھ مدت تک رہنے کا اتفاق ہوا۔ میں اپنے ذاتی مشاہدے کی بناپر یقین سے یہ کہہ سکتا ہوں کہ اپنے عزیز تو ایک طرف وہ غیروں کی امداد بھی دل کھول کرکرتے تھے۔ اس کے علاوہ غریب طلباء، مساکین اور بیواؤں کی امداد کے لیے ان کا دروازہ ہمیشہ کھلا رہتا تھا۔ جہاں تک ہم لوگوں کا تعلق ہے میں چند مثالیں پیش کروں گا۔ جن سے معلوم ہوجائے گا کہ تایا ابا کو اپنے عزیز و اقارب کا کس درجہ خیال رہتا تھا۔

    تایا ابا حیدرآباد میں ملازم تھے اور میرے والد بھوپال میں انجینئر تھے۔ اسی بھوپال میں تایا ابا کے احباب میں سرسید، راس مسعود، ڈاکٹر بجنوری اور جناب شعیب قریشی جیسی ہستیاں موجود تھیں۔ یہ اصحاب وزارت اور دوسرے بڑے عہدوں پر مامور تھے۔ تایا ابا اکثر بھوپال آتے رہتے تھے۔ اس کے علاوہ حیدرآباد سے دہلی اور شمالی ہند کے دوروں پر جاتے ہوئے بھی ہمیشہ گرانڈ ٹرنک ایکسپریس سے سفر کرتے تھے جو بھوپال ہی سے گزرتی ہے۔ میری یادداشت میں کبھی ایسا نہیں ہواکہ وہ بھوپال آئے ہوں یا بھوپال سے گزرے ہوں اور انہوں نے مجھے یا میرے والد کو اطلاع نہ دی ہو، جب تک میرے والد بھوپال میں رہے انہوں نے کبھی اپنے کسی وزیر دوست کے یہاں قیام نہیں کیا بلکہ ہمیشہ ریت گھاٹ پر ہمارے چھوٹے سے مکان میں ٹھہراکرتے تھے اور اسی مکان کی چھوٹی سی بیٹھک میں بڑے بڑے آدمی اور وزیر ان سے ملنے آتے تھے، لوگ اصرار بھی کرتے، جھگڑا بھی ہوتا لیکن مرحوم نے کبھی یہ گوارا نہ کیا کہ اپنے چھوٹے بھائی کے علاوہ کسی اور کے بنگلہ پر یا محل میں قیام فرمائیں۔ جب میرے والد کا تبادلہ سیہور ہوگیا تو پھر ضرور شعیب صاحب کے یہاں قیام کرلیا کرتے تھے، لیکن پھر بھی ہم لوگ کو سیہور سے بلواتے یاخود سیہور تشریف لے آتے تھے۔

    میں ایک بار ان کے پاس حیدرآباد گیا تھا جب کہ بنجارہ ہل کی ایک کوٹھی میں ان کا قیام تھا۔ میں تقریباً پندرہ دن ان کے پا س ٹھہرا۔ اس دوران میں انہوں نے میرے لیے نہایت قیمتی اور اعلیٰ کپڑے بنوائے۔ نقد روپیہ دیا۔ بھوپال تک کا اس زمانے کا سیکنڈ کلاس کا ٹکٹ دلوایا اور چلتے وقت مجھے چھوڑنے اسٹیشن تک آئے۔ میں نے اپنی موٹر کے لیے جب ان سے کہا تو فوراً ایک چیک موٹر خریدنے کے لیے عنایت فرمایا۔ اس رقم سے میں نے بعد میں موٹر خریدی جو ۱۹۵۰ء تک میرے پاس رہی۔

    سیہور میں میرے والد ایک دفعہ بیمار ہوئے اور بیماری نے طول پکڑا تب تایا ابا کو حیدرآباد میں اس کا علم ہوا تو انہوں نے اپنے ایک معتمدِ خاص عبدالرحیم صاحب کو ایک بڑی رقم دے کر سیہور بھیجا کہ وہ میرے والد کے پاس رہیں۔ علاج و تیمارداری کا انتظام کریں اور روزانہ میرے والد کی حالت سے تایا ابا کو مطلع کرتے رہیں۔

    دہلی سے بی۔ اے کرنے کے بعد میں ایم۔ اے کرنے علی گڑھ چلا گیا اور اردو ایم۔ اے میں داخلہ لیا۔ ابھی میں پڑھ ہی رہا تھا کہ معلوم ہوا کہ سیہور میں ایگزیٹو آفیسر کی اسامی خالی ہوئی ہے۔ سیہور میرا مولد و مسکن ہے۔ لہٰذا میں نے چاہا کہ سیہور ہی میں ملازمت مل جائے اور اس کے لیے جدوجہد شروع کی۔ ایک دن بیٹھے بیٹھے دفعتاً مجھے خیال آیا کہ قاعدے اور ضابطے میں میری جدوجہد ناجائز اور نامناسب نہیں ہے۔ اب اگر تایا ابا کے ذریعہ بھی کوشش کرلی جائے تو زیادہ اچھا ہوگا۔ لہٰذا میں فوراً دہلی کے لیے روانہ ہوگیا۔ صبح کا وقت تھا اور تایا ابا ناشتہ کے بعد دھوپ میں بیٹھے حقہ پی رہے تھے۔ سلام کرکے میں نے اپنا مدعا بیان کیا۔ صرف ایک سوال مجھ سے کیا ’’کیا میرے چلنے سے تیرا کام بن جائے گا‘‘ میں نے کہا ’’ضرور‘‘ بس فوراً اٹھ کھڑے ہوئے اور اپنے سکریٹری رفیق صاحب کو بلاکر کہا کہ میں آج ہی بھوپال جارہا ہوں۔ سیٹ ریزرو کرادی جائے۔ اسی دن شام کو میرے ساتھ بھوپال کے لیے روانہ ہوگئے۔ اب اس کے بیان کی چنداں ضرورت نہیں کہ چھ مہینے کے بعد جب میں امتحان دے کر بھوپال آیاتو کچھ ہی دن بعد میرا تقرر حسبِ خواہش ہوگیا۔

    میری شادی میں شروع سے اخیر تک برابر شریک رہے حالانکہ ایسا کرنا ان کی طبیعت اور مزاج کے بالکل خلاف تھا۔ میری بیوی کو قیمتی تحفہ بھی دیا۔ یہاں ایک دلچسپ واقعہ بھی بیان کردوں، نکاح کے بعد جب سہرے پڑھے گئے توایک صاحب بقاؔ پانی پتی کا سہرا بھی پڑھا گیا۔ ان صاحب نے میرے سہرے میں حسبِ ذیل دوشعر بھی داخل کردیے تھے،

    مبارک ہو دولھا کے تایا کے سر پر

    فراست اور حسنِ لیاقت کاسہرا

    حقیقت میں اس پاک ہستی کے سر پر

    ہے اردو زبان کی اشاعت کا سہرا

    مولوی صاحب نے فوراً کسی سے کہا کہ بھئی یہ سہرا محمود کا ہے یا میرا اور یہ کیا موقع تھا۔ میرے متعلق اس طرح سے اشعار کو سہرے میں شامل کرنے کا۔ مجھے محمود کی شادی کی مبارک باد دیتے تو کچھ بات بنتی۔

    اپنے بڑے بھائی اور بہنوں کی بیماری سکھ دکھ میں ہمیشہ شریک رہتے کیونکہ ان لوگوں کی مالی حالت کبھی اچھی نہیں رہی تمام تر اخراجات بھی خود ہی برداشت کرتے تھے اور ایسے کاموں سے خوش ہواکر تے تھے۔

    میں جب تک دلی میں پڑھتا رہا گھر سے جو معقول رقم اخراجات کے لیے آتی تھی۔ اس کے علاوہ ہمیشہ تایا ابا سے روپیہ وصول کرتا رہتا تھا اور ان کو کبھی ناگواری نہیں ہوئی، زمانہ تعلیم میں صرف ان کی بدولت کالج میں میری ایک نمایاں پوزیشن رہی اور جہاں تک اخراجات کا سوال ہے یہی وہ وقت تھا جب مجھے جا اور بے جا خرچ کرنے کی عادت پڑی اور آج تک کبھی بھی پیسے کی محبت یا عزت میرے دل میں پیدا نہیں ہوسکی گو کہ بعد میں مجھے مالی پریشانیاں اور مختلف تکالیف کا سامنا کرناپڑا۔ لیکن میں خوش ہوں کہ پیسہ ان چیزوں میں سے نہیں جو مجھے عزیز ہیں۔

    ۱۹۴۶ء میں میں اپنی تایا زاد (شیخ ضیاء الحق صاحب مرحوم کی صاحبزادی) بہن کی شادی میں شرکت کرنے دہلی گیا۔ میرے ساتھ میری بیوی اور بڑی لڑکی نادرہ اقبال بھی تھیں۔ شادی کے بعد ہم لوگ تگایا ابا کے گھر گئے، میری لڑکی کی عمر اس وقت تقریباً ڈیڑھ سال کی تھی۔ تایا ابا اس کو لے کر اپنی کوٹھی کے لان میں اس طرح کھیلتے پھر رہے تھے۔ جیسے ایک بچہ دوسرے بچہ کے ساتھ کھیلے اس کو پھول توڑ کر دیتے تھے پھر پھول پھینک دیتے تھے۔ عرض کہ اس وقت وہ بابائے اردو علامہ ڈاکٹر عبدالحق نہیں تھے بلکہ تمام تر محبت اور ان جذبات کا مجسمہ تھے جو عام طور پر ایک اپنے دادا کے دل میں ایک پوتی کے لیے پیدا ہو سکتے ہیں۔ بعد میں نادرہ نے ان کا نام ’’پھول والے ابا‘‘ ہی رکھ دیا تھا۔ جب تایا ابا کا انتقال ہوا تو نادرہ کراچی میں ہی تھی۔ آخری دیدار کے وقت میرے والد نے اس کو یہی کہہ کر میت کا دیدار کرایا کہ لو اپنے پھول والے ابا کو آج اور دیکھ لو پھر کبھی نہ دیکھ سکوگی۔ خوش قسمت ہے میرا چھوٹا بھائی مسعود اور میری اولاد کہ بیماری میں اخیر دم تک یہ لوگ تایا ابا کے پاس موجود تھے اور مسعود نے تو ان کی نہ صرف خدمت ہی کی بلکہ قبر میں اپنے ہاتھوں سے اتارا بھی۔ میں بدقسمت ہوں کہ ۱۹۴۹ء کے بعد ان کی شکل بھی دیکھنا نصیب نہ ہوا اور اب کبھی بھی نہیں دیکھ سکوں گا۔

    ۱۹۶۰ء میں میرے والد کراچی میں پھر سخت علیل ہوئے لیکن سب کو ہدایت کردی کہ محمود کو اطلاع نہ دی جائے وہ خود بے حد پریشان ہے۔ میرا حال سن کر اور زیادہ گھبراجائے گا۔ افاقہ نہ ہونے کی صورت میں مسعود نے خاموشی سے مجھے بھوپال اطلاع کردی۔ میں اور تو کچھ نہیں کرسکتا تھا صرف تایا ابا کو تار دے دیا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ وہ خود علیل تھے اور بغیر سہارے چل پھر بھی نہیں سکتے تھے۔ لیکن میرا تار ملتے ہی بے چین ہوگئے اور دو آدمیوں کے سہارے پانچ سو روپیہ لے کر موٹر میں میرے والد کے گھر پہنچے، روپیہ دیا۔ علاج کا معقول انتظام کیا۔ خدا کا شکر ہے کہ والد صحت یاب ہوگئے۔

    یہ اور ایسی سینکڑوں مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں جو تایا ابا مرحوم کی فراخ دلی اپنے عزیز و اقارب کاخیال رکھنا اور ان کی امداد کرنے کی بین ثبوت ہیں لیکن مرحوم کاایک خاص مشن تھا اور وہ ایک خاص نظریہ واصول رکھتے تھے۔ مرحوم اس کے قائل نہ تھے کہ بلا ضرورت اور بلاوجہ وہ اپنا اوردوسروں کا وقت ضائع کریں۔ خواہ مخواہ لوگ انہیں پریشان کریں۔ نام و نمود اور شہرت سے انہیں نفرت تھی۔ اس کے علاوہ کوئی شخص خواہ ان کاعزیز ہو یا غیراگر کام نہیں کرتاہے یا تعلیم سے اس کو دلچسپی نہیں ہے تو پھر وہ اس سے متنفر ہوجاتے تھے۔ بات کرنا بھی گوارا نہیں کرتے تھے اور اپنے مشن اور مقصد کے لیے وہ ضروری سمجھتے تھے کہ سب سے الگ رہ کر کام کریں۔ جس سے بعض کوتاہ فہم لوگوں کو غلط فہمی ہوجاتی تھی ورنہ ان کے دل میں جذبات ہمدردی و محبت و خلوص کوٹ کوٹ کر بھرے تھے۔ وہ جائز امداد کرنے، تعلیمی اخراجات برداشت کرنے اور شفارش کرنے سے کبھی گریز نہیں کرتے تھے۔ لیکن ایک آدمی کو با عزت زندگی گزارنے اور روزی کمانے کا اہل بنادینے کے بعد پھر وہ اس کی امداد کرنا برداشت نہیں کرتے تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ کوئی انہیں دھوکہ دے کر ان سے فائدہ اٹھالے۔ وہ چاہتے تھے کہ جب تم کام کے لائق ہوگئے ہو تو پھر خود کام کرو، جدوجہد کرو اور اپنی دنیا خود بناؤ۔ دوسروں کے سہارے جینا زندوں کا کام نہیں۔

    اپنی دنیاآپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے

    سرِ آدم ہے ضمیر کن فکاں ہے زندگی

    آج جب میں یہ سطور لکھ رہا ہوں تایا ابا کو اس دنیائے فانی سے کوچ کیے تقریباًدو مہینے ہوچکے ہیں۔ دنیا کہتی ہے کہ بابائے اردو کبھی نہیں مرسکتے، زندہ ہیں اور زندہ رہیں گے۔ ہر خیال اور ہر طبقے کے لوگوں نے اپنے تاثرات کااظہار کیا ہے ان کی خدمات، ایثار، قربانی کے پیش نظر ان کو زندہ جاوید ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ برعظیم ہندو پاکستان کے اور لوگوں کی طرح میں بھی اس رائے اور خیال سے متفق ہوں لیکن مولوی عبدالحق کا سب سے زیادہ چہیتا بھتیجا ہونے کی حیثیت سے میں قدرتی طور پر اس دل و دماغ سے نہیں سوچ سکتا، جس سے دوسرے سوچتے ہیں۔ میرے باپ کا عزیز ترین بھائی اٹھ گیا، میرے تایا ابا ہمیشہ کے لیے مجھ سے جدا ہوگئے۔ نادرہ اب کس کو ’’پھول والے ابا‘‘ کہے گی اور ہم سب اپنے بدترین دور میں کس کے برتے پر ہر مصیبت اور تکلیف کو ہنس کر گزاردیں گے۔ محض اس امید پر کہ خدا نے ہمیں ایک مستقل سہارا دے رکھا ہے جس کے پاس پہنچ کر ہماری ہر مصیبت ختم ہوجائے گی۔

    افسوس صد افسوس کہ اپنے اعمال اور بدقسمتی کے ہاتھوں ایسا جکڑا ہوا ہوں کہ بیماری کی خبریں سن کر بھی ان کے پاس نہیں پہنچ سکا۔ وہ ختم ہوگئے اور میری ’’آہِ سحر گاہی اور فغانِ نیم شبی‘‘ کسی کام نہ آئیں۔

    آج بھوپال میں ہزارمیل دور بیٹھ کر خدائے ذوالجلال کی بارگاہ میں دست بدعا ہوں کہ وہ تایا ابا کی روح کو ابدی سکون عطا فرمائے اور ان کو بلند سے بلند مرتبہ دے۔

    میرے آنسو کراچی نہیں پہنچ سکتے لیکن عالمِ تصویر میں میں تایا ابا کی قبر پر کھڑا ہوں اور یہ میرے دل کی آواز ہے،

    مثل ایوانِ سحر مرقد فرزاں ہو ترا

    نور سے معمور یہ خاکی شبستاں ہو ترا

    آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے

    سبزۂ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے