Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

تحقیقی مقالے کے تقاضے

مشتاق احمد وانی

تحقیقی مقالے کے تقاضے

مشتاق احمد وانی

MORE BYمشتاق احمد وانی

    ’’تحقیق‘‘کو میں سچ کا کاروبار کہتا آیا ہوں۔لفظ تحقیق کے معنی حقیقت کی تلاش یا کھوج کے ہیں ۔یہ کائنات اور اس کی ہر شے انسان سے تحقیق کا تقاضہ کرتی ہے ۔تحقیق کا جذبہ وہ پاک جذبہ ہے جو انسان کو نہ صرف معلومات فراہم کرتا ہے بلکہ انسان کو عقل وشعور ،فکر وبصیرت اور تہذیب وشائستگی سے بھی روشناس کراتا ہے ۔مزید برآں یہاں یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ دُنیا میں جتنی بھی عظیم اور حیرت انگیز ایجادات ہوئی ہیں ۔وہ سب تحقیقی جذبے کا نتیجہ ہیں۔ابتدائے آفرینش سے تحقیق کا جذبہ انسان کی زندگی میں کار فرما رہا ہے کیونکہ مظاہر فطرت کی تمام پوشیدہ طاقتوں کو جاننے ،اُن پہ سوچنے ،اُن سے فیضیاب ہونے اور خوب سے خوب تر کی جستجو اور کرید کا جذبہ فطری طور پر انسان کی سرشت میں موجود ہوتا ہے ۔چنانچہ یہ وہ جبلی قوت ہے جس نے تہذیبی ،ادبی ،تمدنی اورسائنسی سفر کو جاری رکھنے کے لئے انسان کو ہر دور میں مجبور کیا ہے ۔

    تحقیق ایک مشکل اور صبر آزما عمل ہے ۔ادبی تحقیق کی اگر بات کریں تو سندی تحقیق کے مقالے میں موضوع کے انتخاب سے لے کر مواد کی فراہمی ،حوالوں کے معتبر اور غیر معتبر کی پہچان ،صحیح معلومات اخذ کرنے یا چھان پھٹک کے بعد مقالے کی تسوید ایسے دشوار گزار مراحل ہیں جو بغیر اُصول تحقیق کی پیروی کے طے نہیں کیے جاسکتے ہیں ۔دیدہ ور محققین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ تحقیق بلاشبہ ایک کٹھن اور محنت ودِقت طلب کام ہے ۔تحقیقی مقالہ تحقیق کار سے یہ تقاضہ کرتا ہے کہ وہ اُسے تحقیقی اُصولوں کے مطابق لکھے ۔اس سلسلے میں سب سے پہلے موضوع کے مطابق مقالے کا خاکہ تیار کرنا ہوتا ہے اور پھر اُسی کے مطابق مواد اکٹھا کرنا پڑتا ہے ۔مواد کی فراہمی کے بعد تحقیق کار کے لئے یہ لازم ہے کہ وہ اُس کا مطالعہ ذہنی یکسوئی سے کرے۔یہاں تحقیق کار کی موضوع سے فطری دلچسپی اور ذہنی میلان کو خاصا عمل دخل ہوتا ہے ۔غیر دلچسپ موضوع کا انتخاب بعض اوقات تحقیق کار کے لئے دردِ سر بن جاتا ہے ۔

    معیاری تحقیقی مقالے کے مقتضیات میں یہ بات اساسی حیثیت رکھتی ہے کہ تحقیق کار اپنے موضوع سے متعلق زیادہ سے زیادہ مواد مستند ومعتبر کتب ورسائل سے حاصل کرے ۔اپنے تحقیقی خاکے کے تمام ابواب کو ہر وقت مدنظر رکھے اور اُسی کے تحت مواد کی فراہمی میں لگ جائے ۔کون سی چیز ضروری ہے اور کون سی غیر ضروری ہے ۔اس بات کا خاص دھیان رکھنا چایئے۔ایک سنجیدہ اور محنتی تحقیق کار مواد کی ترتیب وتنظیم کے مرحلے پر پہنچ کر اپنے خیالات اور علم کی شکل مقرر کرتاہے۔ادبی تحقیق نہ صرف حقائق تلاش کرنا ہے بلکہ اپنے موضوع کی علمی وادبی اہمیت وافادیت کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک ایسی عالمانہ بحث وتمحیص بھی سامنے لانی چاہیے جس سے نئی نسلیں مستفید ہوتی رہیں ۔

    مواد کی ترتیب وتہذیب اور چھان پھٹک میں خاکے کی اہمیت یہ ہے کہ اس کی روشنی میں ابواب کے عنوانات اور ذیلی سرخیاں بنائی جاسکتی ہیں ۔اس عمل میں احتیاط نہایت ضروری ہے کیونکہ یہ سرخیاں قاری کے لئے تمام مواد کو پیش کرتی ہیں ۔

    ایک معیاری اور معلومات افزا تحقیقی مقالے کی تسوید بہت عمدہ ہونی چاہیے ۔تسوید کا مطلب یہ ہے کہ تحقیق کار جب اپنے مقالے سے متعلق بہت سی معلومات اکٹھی کرلے اور اُن کا مطالعہ کرنے کے بعد لکھنے بیٹھتا ہے تو اُسے تسوید کہتے ہیں یعنی مقالے کا پہلا مسودہ تیار کرنا۔اس مرحلے پر تحقیق کار کو واضح

    فکر ،مواد کی منطقی ترتیب ،غیر جانبداری اور موثر طرزِ تحریر کا خاص خیال رکھنا پڑتا ہے ۔یہی وہ نازک مرحلہ ہوتا ہے جس سے مقالے کی تحریر میں عالمانہ شان اور محققانہ وقار پیدا ہوتا ہے ۔

    ہر مقالہ نگار کے لئے یہ لازم ہے کہ وہ مقالے کی تحریر کی شروعات اپنے موضوع کے حوالے سے کرے۔طویل تمہید اور بے جا تبصروں سے احتراز کرنا چاہیے کیونکہ ایک عمدہ تحقیقی مقالہ ضخامت کی بنیاد پر عمدہ قرارنہیں پاتا بلکہ دیکھا یہ جاتا ہے کہ تحقیق کار کا مطالعہ کتنا وسیع ہے اور اُس نے حقائق کو کس اندازِ تحریر سے پیش کیا ہے ۔

    تحقیقی مقالے میں اسلوب تحریر کافی معیاری ہونا چاہیے کیونکہ ایک عمدہ بات کو اگر دلکش انداز میں بیان نہیں کیا گیا تو قارئین اُس کی طرف کیونکر متوجہ ہوں گے ۔اس مقصد کے حصول کے لئے تحقیق کار کو خوب محنت ،مطالعے اور لگن کی ضرورت ہوتی ہے ۔اُس کی ہربات سوچی سمجھی اور موقع محل کے مطابق راست بیانیہ انداز میں ہونی چاہیے تاکہ قاری اُسے دلچسپی سے پڑھے ۔جہاں تک تحقیقی مقالے میں زبان کا تعلق ہے وہ عام فہم ،سادہ وسلیس اور دلکش ہونی چاہیے۔دقیق ،بوجھل اور ثقیل نوعیت کے جملوں سے گریز کیا جانا چاہیے۔زیادہ طویل،مرکب ،غیر مستعمل اور فرسودہ الفاظ کے استعمال سے مقالے کا مفہوم اور اُس کی اہمیت ختم ہوجاتی ہے ۔

    تکرارِ کلمات سے اجتناب برتنا بھی ایک سنجیدہ تحقیق کار کی ذمہ داری ہے ۔اس لئے جملوں کی بناوٹ میں ایسے کلمات کو استعمال میں لانا ضروری ہے جو مروج اور عام فہم ہوں ۔غیر مستعمل اورمتروک الفاظ وکلمات کسی بھی مقالے کے حُسن کو زائل کردیتے ہیں ۔چنانچہ کم الفاظ میں زیادہ سے زیادہ مفہوم ادا کرنا اور جملوں کو اختصار ،پُر مغز،سادہ ،آسان اور مربوط ہونا چاہیے تاکہ قاری مفہوم کو واضح طور پر سمجھ سکے۔

    تحقیقی مقالے میں حوالے اور حواشی کی بڑی اہمیت ہوتی ہے کیونکہ اپنے نظریے یا مفروضے کو باوزن بنانے کے لئے حوالہ جات کا اہتمام کیا جاتا ہے ۔مقالے میں چونکہ اقتباسات کو نقل کیا جاتا ہے ۔اس لئے حاشیہ میں حوالے کی صورت میں اُن کتابوں کا اعتراف کرنا لازمی ہوتا ہے جن سے مواد اخذ کیا جاتا ہے ۔یہاں اس بات کا تحقیق کار کو خاص دھیان رکھنا ہوتا ہے کہ حوالے معتبر اور مستند لوگوں ہی کے دیے جائیں ۔غیر معتبر حوالے گمراہی کا باعث بنتے ہیں۔

    مقالے کی تسوید کی تکمیل کے بعد اُس پہ جب نظرثانی کی جاتی ہے تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ بہت سے جملوں کو بدل دیا جائے یا حذف کردیا جائے۔کبھی یہ احساس ہوتا ہے کہ غیر ضروری باتیں شامل ہوگئی ہیں اور کچھ اہم باتیں شامل نہیں ہوپائی ہیں ۔اس لئے نظر ثانی سے وہ تمام خامیاں دُور کی جاتی ہیں ۔اس لحاظ سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ نظرِ ثانی کرتے ہوئے تحقیق کار کو چاہیے کہ تمام ابواب میں شامل مواد اور جمع شدہ حقائق کو شک کی نظر سے دیکھے ۔اپنے مقالے میں زبان وبیان کی تمام خامیوں کو دُور کرنے کی کوشش کرے تاکہ وہی مقالہ جب کتابی صورت میں چھپے تو دوسروں کے لئے حوالہ بنے۔یہاں یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ تحقیقی مقالہ شاعری یا فکشن کی زبان کا متحمل نہیں ہوتا ہے ۔اپنے نظر یات کو دلائل وشواہد کے ساتھ عام فہم زبان اور سیدھے جملوں میں بیان کرنا تحقیقی مقالے کی روح سمجھا جاتا ہے ۔

    تحقیقی مقالے لکھنے والوں کو دو گروہوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے ۔پہلے گروہ کا تعلق اُن افراد سے ہے جو تحقیق جیسے ایماندارانہ اور منصفانہ فریضے کو انفرادی طور پر انجام دیتے ہیں ۔عشق اور ہوس کی تفریق کو وہ بہتر جانتے ہیں ۔تحقیق اُن کے نزدیک علمی فریضے کا درجہ رکھتی ہے ۔اُن کے پاس علم وعمل اور کام کرنے کی لگن ہوتی ہے ۔وہ شہرت اور دولت کی خاطر تحقیق نہیں کرتے مگر ایسے مخلصین کی تعداد بہت کم ہے ۔دوسرا گروہ اُن لوگوں کا ہے جو علمی وادبی دانش گاہوں میں استاد کے عہدے پر فائز ہیں ۔اُن کی دوہری ذمہ داری ہے ۔ایک یہ کہ بذات خود بہترین تحقیقی کارنامے انجام دیں ۔دوسرے اپنی زیر نگرانی طلبہ وطالبات کو اُن کے منتخبہ موضوع پر اتنی محنت کرائیں کہ ریسرچ اسکالر موضوع کے ساتھ صحیح انصاف کرسکے ۔یہاں اس بات کو ذہن نشین کرلینا چاہیے کہ تحقیق ایک وادیٔ پُر خار کی مانند ہے جس میں چلنا ہر کس وناکس کاکام نہیں ۔

    اکیسویں صدی حیرت انگیز سائنسی وتکنیکی ترقی کی صدی ہے کہ جس میں انٹر نیٹ نے انسان کے لئے معلومات اور علمی وادبی واقفیت کے تمام دروازے کھول دیے ہیں ۔سہولیات کے اس دور میں تحقیقی مقالے لکھنا بہت آسان ہوگیا ہے ۔اس آسانی کا ایک قابل افسوس پہلو یہ ہے کہ اب تحقیق جیسے کٹھن ،صبر آزما ،محنت طلب اور دیانتدارانہ فریضے کو تحقیقی اصولوں کے مطابق انجام نہیں دیا جاتا !زیادہ تر تحقیق کار ایسے نظر آتے ہیں جو محض ڈگری حاصل کرنے کے لئے دانش گاہوں میں آتے ہیں تاکہ سند حاصل ہونے کے بعد اُنھیں ملازمت مل سکے ۔اُن میں حقائق کی کھوج ،اہمیت اور تجربہ ،معتبر حوالے و حواشی اور شہادتوں سے صحیح نتائج اخذ کرنے اور اُس کے ساتھ ہی نتائج کی اہمیت کا مناسب شعور ،زبان کی باریکیوں اور اسلوب تحریر پر دسترس رکھنے کی صلاحیت نہیں ہوتی ہے ۔بہر حال یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ جب تک دانش گاہوں میں تحقیق اور بالخصوص ادبی تحقیق کے لئے محنتی،باذوق اور باصلاحیت طلبہ وطالبات کا انتخاب نہیں کیا جائے گا تب تک ادبی تحقیق کا معیار ہرگز بلند نہیں ہوگا ۔ہاں تحقیق کے نام پر ہزاروں صفحات توسامنے آئیں گے لیکن سوائے توارد،سرقہ اور ہوبہو نقل کے اور کچھ نہیں ہوگا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے