Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

تہذیب کیا ہے؟

محمد مجیب

تہذیب کیا ہے؟

محمد مجیب

MORE BYمحمد مجیب

     

    سیاسی تاریخ کا موضوع قوموں کی تنظیم، حکومتوں کی کارگزاری اور خارجی سیاست کی کاروائیاں ہیں۔ اسے شخصیتیں اور کارنامے، ترقی اور کامیابی یا زوال اور تباہی کی مثالیں بہت مؤثر اور سبق آموز بنا دیتی ہیں۔ لیکن تاریخ کی ساری حقیقت اس میں بیان نہیں ہو جاتی اور اس میں زندگی کی وہ مکمل صورت پیش نہیں کی جاتی جو سیاست کے مسائل کو سمجھنے کے لیے بھی ضروری ہے۔

    سیاست کو قوم کا میدان عمل، قومی زندگی کاسب سے نمایاں پہلو کہا جا سکتا ہے، لیکن خود سیاست معاشرتی حالات اور تہذیبی منصوبوں کا عکس ہوتی ہے۔ وہ شخصیتیں جن کے ہاتھوں میں سیاست کی باگ ڈور ہوتی ہے، فروغ نہیں پا سکتی ہیں اگر زمانہ موافق نہ ہو۔ تدبربے بسی کا نمونہ بن جاتا ہے اگر زمانہ اس کا ساتھ چھوڑ دے۔ کشت وخون بےکار، ملک گیری بےسود ہوتی ہے اگر اس کی پشت پر تہذیبی مقاصد نہ ہوں۔ زمانہ یا ماحول مجموعی نام ہے ان تہذیبی یاتمدنی حالات کا جو قومی زندگی کو بالکل اپنے رنگ میں رنگ دیتے ہیں، شخصیت کی پرورش، سیاست کی رہنمائی کرتے ہیں۔ اس لیے ہم کسی ملک کی تاریخ پر حاوی نہیں ہو سکتے جب تک کہ ہم اس کی سیاست کے ساتھ اس کی تہذیب کا مطالعہ نہ کریں۔

    تمدن یا تہذیب کے معنی ہیں انسان کا اپنی ذہنی اور اخلاقی قوتوں کو ترتیب دینا اور انہیں کام میں لانا۔ جماعتوں کی تہذیب افراد کی محنت، صلاحیت، ذوق یا فکر کی ہوئی چیزوں کا مجموعہ ہوتی ہے۔ تہذیب کے کام بنتے رہتے ہیں تو جماعت کو تقویت پہنچتی ہے اور اس کی قوت بڑھتی ہے، جماعت کو اپنے منصوبوں اور حوصلوں کو پورا کرنے کا موقع ملتا ہے تو تہذیب پروان چڑھتی ہے۔ افراد کی تہذیب مشتمل ہوتی ہے اس مادی، ذہنی اور اخلاقی دولت پر جس کے وہ مالک ہوں اور اس محنت پر جس کے بار آور ہونے سے ان کی یہ دولت بڑھتی ہے۔

    جماعت کے تہذیبی سرمایے میں اس کے تمام افراد برابر کے حصہ دار نہیں ہوتے، اس سے فائدہ اٹھانے یا اس میں اضافہ کرنے کی صلاحیت بھی سب میں برابر نہیں ہوتی۔ افراد کی طرح جماعتیں بھی مخصوص صلاحیتیں رکھتی ہیں یا کبھی تہذیب کے ایک پہلو پر زیادہ توجہ کرتی ہیں کبھی دوسرے پر، اور اس صورت سے مختلف جماعتوں اور مختلف زمانوں کی تہذیبی خدمات سے عام انسانی تہذیب کی تشکیل ہوئی ہے۔ اس عام انسانی تہذیب میں کسی قوم کا حصہ کم کسی کا زیادہ ہوتا ہے، کوئی قوم تہذیب کی علمبردار ہوتی ہے تو کوئی اپنی نااہلی یا مجبوریوں کی وجہ سے اکثر نعمتوں سے محروم رہتی ہے۔ لیکن ترقی کا سلسلہ بھی برابر جاری رہتا ہے۔ تہذیب کی اعلی قدریں مٹتی نہیں ہیں صرف ان کے حامل بدل جاتے ہیں۔

    تہذیب کی قدریں
    ہم کسی جماعت کی تہذیب کا جائزہ لینا چاہیں تو ہم ان قدروں کو جانچیں گے جو اس کی تہذیب کا سرمایہ ہیں۔ یہ قدریں داخلی ہوتی ہیں اور خارجی۔ افراد کی ذہنیت، ان کا علم، ان کی استعداد، ان کے احساسات، ان کے حوصلے اور وہ اصول جن کے مطابق ان کے باہمی تعلقات متعین ہوتے ہیں، داخلی قدریں ہیں۔ خارجی قدروں میں سب سے اہم ملک ہے، یعنی وہ زمین جس پر یہ قوم آباد ہو اور مملکت یاسیاسی نظام، معاشری ادارے، وہ دولت جو صنعتوں کو برتنے اور سرمایے کو کاروبار میں لگانے سے پیدا ہوتی ہے، فنون لطیفہ کے کارنامے، اکتساب کا شوق اور محنت کرنے کامادہ، یہ سب بھی خارجی قدریں ہیں۔

    ہم زیادہ تفصیل سے غور کریں تو یہ دیکھیں گے کہ جماعت میں عملی استعداد کتنی ہے اور تنظیم اور دولت آفرینی کے وہ سارے کام جن کے لیے اس استعداد کی ضرورت ہے، کس طریقے پر انجام پاتے ہیں۔ زمین کو زرخیز اور سر سبز بنانے کی کتنی کوشش کی گئی ہے، مملکت اور سیاسی نظام حاکموں کی مرضی پر چھوڑ دیا گیا ہے یا عام تہذیبی مقاصد کا خادم مانا گیا ہے، بستیاں کتنی ہیں اور کیسی ہیں، شہروں کی حیثیت کیا ہے، ایسے کون سے معاشری ادارے ہیں جو انفرادی اور اجتماعی زندگی کو ہم آہنگ کرتے ہیں، صنعت کون سی ضرورتوں کو کس طرح پورا کرتی ہے اور اس میں افادیت اور حسن کی آمیزش کتنے سلیقے سے کی گئی ہے۔

    ہم یہ ضرور دیکھیں گے کہ گھر کیسے ہیں، کیونکہ گھروں کا نقشہ صحیح اور اچھی زندگی کے اس تصور کا عکس ہوتا ہے جو جماعت میں عام طور پر مقبول ہو۔ گھروں میں ان افراد کی پرورش ہوتی ہے جو تہذیب کی داخلی قدروں کے حامل ہوتے ہیں۔ رسم ورواج گھروں میں ہی برتا جاتا ہے، اس لیے خانگی زندگی کو قومی تہذیب کی نبض قرار دیا جائے تو بیجا نہ ہوگا، کہ اسی سے تہذیب کی اصلی حالت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔

    اس کے بعد پھر ہم دیکھیں گے کہ جماعت کا مذہب کیا ہے، اس کے عقائد میں علم، عقل اور اخلاق کو کتنا دخل ہے، اس نے مشاہدے، تجربے، غوراور تحقیق سے تہذیبی دولت کو محفوظ رکھنے اور اسے بڑھانے کا کیا انتظام کیا ہے، یعنی اس کا نظام تعلیم کیا ہے، اس میں جمالیات کا ذوق کتنا ہے اور اس نے اپنی جذباتی زندگی کو فنون لطیفہ، شاعری اور ادب کے زیوروں سے کس طرح سنوارا ہے۔

    فنون لطیفہ
    تہذیب کا جو تصور یہاں پیش کیا گیا ہے وہ ہمہ گیر ہے اور فنون لطیفہ صرف اس کا ایک رخ دکھاتے ہیں۔ لیکن بہت سی پرانی تہذیبیں ایسی ہیں جن کے بیشتر آثار مٹ گئے ہیں یا ایسے واضح نہیں ہیں کہ ان کی مدد سے ہم ان تہذیبوں کا کوئی نقشہ اپنے ذہن میں قائم کر سکیں۔ ان کی خصوصیات کا جو کچھ اندازہ ہم کر سکتے ہیں وہ فنون لطیفہ یا صنعت کے ان نمونوں سے، جو دستیاب ہوئے ہیں۔ اس وجہ سے تہذیب کی تاریخ کو سمجھنے کے لیے بہت ضروری ہے کہ ہم فنون لطیفہ کی نوعیت اور حیثیت سے اچھی طرح واقف ہوں اور ممکن ہو تو ایسی نظر پیدا کر لیں کہ ہمارے لیے فنون لطیفہ کے نمونے زندگی کی جیتی جاگتی تصویریں بن جائیں۔

    تاریخی نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو فنون لطیفہ صنعتوں کی اعلی شکلیں ہیں، جنہیں انسان کی محنت اور مشق، ذوق اور اولو العزمی نے صنعتوں سے الگ اور برتر مرتبہ دے دیا۔ صنعتیں اس لیے وجود میں آئیں کہ انسان کو بہت سی مادی ضروریات مہیا کرنے اور زندگی کو آسان بنانے کی خواہش تھی مگر اس کی طبیعت میں شروع سے ہی حسن کی طلب اور تخلیق کی امنگ بھی تھی، اس نے اپنی ضرورت کے لیے جو کچھ بنایا وہ بھی خوبصورت تھا۔

    اس نے ہر کام کی چیز کی ایک موزوں شکل سوچی اور اسے رنگ اور نقش و نگار سے آراستہ بھی کیا۔ ذہنی ارتقا کے ساتھ حسن کا ذوق لطیف ہوتا گیا، انسان نے محسوس کیا کہ گانے، ناچنے اور خوبصورت چیزیں بنانے سے اس کی شخصیت اور زندگی کی ویسی ہی تکمیل ہوتی ہے جیسی درخت کی پھول اور پھل آنے سے۔ محض ضرورت پوری کرنا اسے کافی معلوم نہیں ہوا۔ صنعتیں ترقی کرتی رہیں مگر ان کے برتنے والوں میں ایسے لوگ بھی پیدا ہونے لگے جو حسن کے تصور میں ڈوبے رہتے تھے اور اپنے احساسات کو دوسروں تک پہنچانے کی خاص استعداد رکھتے تھے۔ الفاظ اور تصورات کا ذخیرہ بڑھ گیا اور انسان بے تکلفی سے اپنے مطالب اداکرنے لگاتو زبان تبادلۂ خیال کے علاوہ جذبات اور واردات قلبی کو بیان کرنے کا ذریعہ بن گئی اور فنون لطیفہ میں خوش گفتاری اور ادب کا اور اضافہ ہو گیا۔

    ہم اس وقت ادب لطیف کو آرٹ کے دوسرے شعبوں کی بہ نسبت زیادہ اہمیت دیتے ہیں کیونکہ اس کا رواج زیادہ ہے اور اس کا سمجھنا نسبتاً آسان معلوم ہوتا ہے۔ لیکن حقیقت یہ کہ بہت سے تصورات ایسے ہوتے ہیں جنہیں براہ راست یعنی استعارہ اور تشبیہ کی مددکے بغیر ظاہر کرنے کی زبان میں پوری قدرت نہیں ہوتی، جیسے کہ جسامت، قوت، حرکت وغیرہ، اور بہت سے آدمی ایسے ہوتے ہیں جو اپنا مافی الضمیر الفاظ کے پیرایے میں ادا نہیں کر سکتے ہیں۔

    شاعر الفاظ کے ذریعہ اپنی کیفیت کو بیان کرتا ہے، مصور رنگ اور شکل کے پیرایے میں، موسیقی کا ماہر دل کی بات ساز یا آواز کی زبانی کہتا ہے، سنگ تراش اسے مورت یا منبت کاری میں مجسم کر دیتا ہے مگر شاعر، مصور، سنگ تراش سب ایک ہی چیز کو مختلف طریقوں سے پیش نہیں کرتے۔ فنون لطیفہ کی ہر صنعت کا اپنا الگ منصب اور مقصد ہے۔ عظمت، استقلال اور نزاکت کو اس طرح ہم آہنگ کرنا جیسے کہ تاج محل کے معمار نے کیا ہے، شاعری، مصوری یا موسیقی کے بس میں نہیں۔ شیونٹ راج کی مورت میں قدرۃ ًساکت چیز کو جس طرح دائمی حرکت کا نمونہ بنایا گیا ہے، وہ سنگ تراشی کا حصہ ہے۔

    اس لیے ہمیں یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ فنون لطیفہ کی کسی صنف کو فضیلت حاصل ہے اور یہ بھی ذہن نشین کر لینا چاہیے کہ آدمی کو پورا آدمی، زندگی کو پوری زندگی بنانے کے لیے جمالیات کا ایسا ذوق اور ایسا چرچا لازمی ہے کہ فن لطیف کا حق ادا کیا جا سکے۔ ہم آرٹ کی کسی صنعت کو توجہ کے قابل نہ سمجھیں یا اس سے تعصب برتیں تو ان لوگوں کی تخلیقی قوتیں سلب ہو جائیں گی جو اس فن کو احساسات کا مظہر بنانے کی قدرتی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اسی نسبت سے طبیعت اور فکر کی تشکیل اور تکمیل کے امکانات محدود ہو جائیں گے اور یہ ایک مانی ہوئی بات ہے کہ زندگی جتنی محدود ہو، اتنی ہی ناقص اور ناکام رہتی ہے۔

    فنون لطیفہ کا ذوق انسان کی سرشت میں ہے، تہذیب کی پیدا کی ہوئی خصوصیت نہیں۔ اس کا ثبوت صرف یہ تاریخی حقیقت نہیں ہے کہ انسان نے اس وقت سے جب کہ اسے اپنے اعضا پر قابو ہو گیا، رنگ اور شکل اور نغمے کو اپنا رازداں بنایا۔ ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ انسان کو فنون لطیفہ کا اصل سرمایہ قدرت سے ملا ہے اور شاید یہ کہنا بھی غلط نہ ہوگا کہ اس نے حسن کا معیار اپنی طرف سے نہیں بلکہ قدرت کے نمونوں کو دیکھ دیکھ کر قائم کیا ہے۔ اب علم طبیعیات اس کی تصدیق کرتا ہے کہ مصور مختلف رنگوں کی جو تاثیر فرض کرتے رہے ہیں، وہ سائنس کے نقطۂ نظر سے صحیح ہے، جن سروں کو فن موسیقی کی بنیاد مانا گیا ہے وہ آوازوں میں سب سے زیادہ دور رس اور ممتاز ہیں۔ مصوری، سنگ تراشی اور فن تعمیر میں اقلیدس کی شکلوں کی جو حیثیت ہے، اسے بیان کرنے کی ضرورت نہیں۔

    علوم صحیحہ اور فنون لطیفہ کی اساس ایک ہے۔ ان میں جو فرق ہے وہ مقاصد کاہے۔ علم کے مدنظر صحت ہوتی ہے اور فن کا نصب العین حسن آفرینی ہے۔ علم چاہتا ہے کہ قدرت پر قابو پائے، فن چاہتا ہے کہ خود قدرت بن جائے۔ یہ خصوصیت ساری دنیا کے فنون لطیفہ میں عام ہے۔ انسان ہمیشہ اور ہر جگہ ان رنگوں اور شکلوں اور سروں کی تلاش میں رہا ہے جو اس کے مافی الضمیر کو ظاہر کر سکیں اور اس کے دل کو تسلی دے سکیں اور اس جستجو میں اسے بہت کچھ کامیابی قدرت کی دست گیری سے ہوئی ہے۔ اس نے پہاڑوں سے عظمت، میدانوں سے وسعت، پھول پتیوں سے سجاوٹ کے پہلے سبق سیکھے، جانوروں کے مشاہدے سے جسم اور حرکت کے تعلق کو سمجھا اور پھر جب اس میں اتنی استعداد ہو گئی کہ جسم کو پتھر یا کاغذ پر بنا سکے تو رنگ، حرکتیں اور اشارے ہزار کیفیتوں اور اداؤں کے مظہر بن گئے۔

    لیکن جیسے کہ ایک ماں کی گود میں پلے ہوئے بچے اپنی الگ صورت، شکل اور طبیعت رکھتے ہیں، ویسے ہی انسان کی مختلف نسلوں اور گروہوں کی اپنی سیرت اور اپنا الگ مذاق ہوتا ہے اوریہ آہستہ آہستہ قومی عادت بن کر اور پختہ ہو جاتا ہے۔ فنون لطیفہ پر قدرتی ماحول اور ضروری سامان کی کمی یا افراط کابھی بہت اثر پڑتا ہے۔ ان سب باتوں کا مجموعی نتیجہ یہ نکلا ہے کہ مختلف قوموں نے کامل حسن کی منزل تک پہنچنے کے الگ الگ راستے اختیار کیے یعنی انہوں نے حسن کا اپنا ایک خاص معیار قائم کیا اور اسی کے مطابق وہ فنون لطیفہ کی تعلیم دیتی اور کارناموں کو جانچتی رہیں۔

    وہ ایسا نہ کرتیں تو مذاق کی تربیت ناممکن ہوتی، لیکن چونکہ لوگ انہیں چیزوں کو پسند کرتے ہیں جنہیں دیکھنے کے وہ عادی ہوں اور حسن اور تناسب پیدا کرنے کے خاص طریقے ان کے ذہن نشین ہو جاتے ہیں، اس لیے ان کا ایک عقیدہ سا ہو جاتا ہے کہ حسن کو اسی پہلو اور اسی نظر سے دیکھا جا سکتا ہے جس سے کہ وہ اسے دیکھتے ہیں۔ یہ تعصب کی ایک شکل ہے جس سے ہمیں بچنا چاہیے۔

    ہم میں دوسری قوموں کے مذاق کی قدر کرنے یا نئے اثرات کو قبول کرنے کی صلاحیت نہ ہو تو ہمارا اپنا معیار حسن، خواہ وہ کتنا ہی اعلی کیوں نہ ہو، رفتہ رفتہ محض پیمائش کا آلہ بن جائےگا۔ تخلیق کا شوق اسی وقت پورا ہوتا ہے جب نئے خیال کو نئے طریقے پر برتنے کا امکان ہو۔ آرٹ پر ہمیشہ کے لیے کسی ایک طرز کی تقلید فرض کر دی جائے تو اس کا تخلیقی امنگوں سے رشتہ ٹوٹ جاتا ہے اور اس سے اتنی ہی تسلی حاصل ہو سکتی ہے جتنی کہ نقل یاچوری کرنے سے نصیب ہوتی ہے۔

    آج کل ہم آرٹ کے مسائل میں عموماً صحیح رائے نہیں رکھتے، اس لیے کہ ہم نے تنقید کے جو معیار مقرر کیے ہیں وہ بالکل غلط ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ آرٹسٹ کا کام نقل کرنا ہے۔ ساز آواز کی نقل ہے، مصوری یا سنگ تراشی موجود نمونوں کی نقل۔ مگر ہم یہ نہیں کہتے کہ ہر شاعر کو بھی موجود نمونوں کی صحیح صحیح نقل کرنا چاہیے۔

    اس کے برخلاف ہم شاعر سے مطالبہ کرتے ہیں کہ کوئی نئی بات نئے انداز سے کہے یا شاعری کا حوصلہ نہ کرے۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ دراصل ہم فنون لطیفہ کو نقالی نہیں سمجھتے اور اگر ہم کسی مصور پر اعتراض کرتے ہیں کہ اس نے شکل کو قدرت کے مطابق نہیں بنایا ہے تو اس کا سبب یہ ہے کہ ہم مصور ی کے منصب سے واقف نہیں ہیں یا یہ بھول جاتے ہیں کہ شاعر ی کی طرح وہ بھی احساسات کو ظاہر کرنے کا ذریعہ ہے کہ ہم نے یورپی آرٹ کے سو ڈیڑھ سو برس پرانے نمونوں کو کامل حسن کے نمونے مان لیا ہے اور ان سے انحراف کرنا ایک دائمی حقیقت سے انکار کرنے کے برابر جانتے ہیں۔ یہ بھی آرٹ کے منصب سے چشم پوشی کی دلیل ہے۔

    یورپ کے لوگوں نے یہاں تک کہ انگریزوں نے بھی اپنے پرانے طرز کو چھوڑ دیا ہے۔ حسن کے ہر شیدائی کو وہ اپنا ہم مذہب، حسن کے ہر معیار کو حقیقی مانتے ہیں اور اس کے علاوہ انہوں نے ہر فن میں اس علم سے فائدہ اٹھایا ہے جو انہیں اس عرصے میں حاصل ہوا ہے۔ اسلامی آرٹ کا معیار بھی جیسا کہ چاہیے تھا، ماحول، علم اور نئے تجربات سے اثر لیتا رہا۔ تعمیر کے جس فن نے تاج محل جیسا کامل نمونہ تیار کیا، وہ ارتقا کی کئی منزلیں طے کر چکا تھا اور اس نے ہر منزل پر یادگاریں چھوڑی تھیں۔

    غالباً اگر شاہ جہاں کے خاندان میں فن تعمیر کا اتنا ہی بڑا قدرداں پیدا ہوتا اور اس کو تمام وسائل میسر ہوتے تو وہ اس فن کو کسی نئی راہ پر لگاتا، تاج محل سے بڑا تاج محل بنوانے کی مہمل کوشش نہ کرتا، اس لیے کہ یہ کسی اعتبار سے مناسب نہیں کہ ہم ایک کارنامے یا ایک دور کو ترقی کی انتہا مان لیں اور کہہ دیں کہ آب آگے نقل کرنے کے سوا اور کچھ نہیں ہو سکتا۔ جب زندگی کاسلسلہ کسی مقام پر پہنچ کرختم نہیں ہو جاتا تو جمالیات کا معیار اور اس کی قدریں نئے اور بدلتے ہوئے احساسات اور واردات قلبی کی حامل ہونے سے کس طرح انکار کر سکتی ہیں۔

    یہ قوموں کے زندہ ہونے کی ایک علامت ہے کہ ان میں ایسے لوگ پیدا ہوتے رہیں جو حسن کو دوسروں کی آنکھوں سے نہ دیکھیں، خود اس کے دیدار کے طالب ہوں اور اپنے کام کو نئی اخلاقی قدروں اور تازہ قلبی واردات کا حامل بنائیں۔ یورپ میں انیسویں صدی کے نصف آخر سے اس وقت تک آرٹ کی ماہیت پر بحث جاری ہے اور اس کے جاری رہنے کا سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ مصور، سنگ تراش، شاعر، ڈرامانویس، غرض ہر قسم کے آرٹسٹ اپنے فن کے ایسے نمونے پیش کرتے رہے ہیں جن کو جانچنے کے لیے نئے معیاروں کی ضرورت تھی۔

    جو آرٹسٹ محض جدت کرنا چاہتے تھے وہ جدت کرکے رہ گئے، جو سچے آرٹسٹ تھے وہ اپنے خاص طرز کے امکانات کو آزماتے اور اس میں پختگی پیدا کرتے رہے، یہاں تک کہ ان کا طرز خود معیار بن گیا۔ انہوں نے تقلید کے مسلک کو اس لیے چھوڑا تھا کہ تقلید کرکے وہ اپنی شخصیت کو ظاہر نہیں کرسکتے تھے اور اسی کو ظاہر کرنا وہ آرٹ کا منصب اور اپنا حق سمجھتے تھے۔ آرٹسٹ کے حق کا یہ مطالبہ آزادی کے اس دریا کی لہر نہیں تھی جو اس وقت یورپ میں موجیں مار رہا تھا۔

    فنون لطیفہ کی تاریخ سے اگر ایک طرف یہ بات واضح ہے کہ ہر زمانے میں اور ہر جگہ حسن کا ایک خاص معیار تھا تو دوسری طرف یہ بھی ثابت ہے کہ فن کے وہ اصول جو اس معیار کی ترجمانی کرتے تھے آہستہ آہستہ بدلتے رہے اور آخر میں ایک زمانہ آیا جب کہ ان اصولوں کو ترک کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ رہا اور آرٹسٹ اس پر مجبور ہوئے کہ ہر پرانے نقش کو مٹا کر حسن کی ایک بالکل نئی تصویر بنائیں۔

    فنون لطیفہ کا ہر طرز جس کی پوری نشوونما ہو، تین بڑی منزلوں سے گزرتا ہے۔ پہلی منزل وہ ہوتی ہے کہ جب آرٹسٹ کا علم اور فنی استعداد اتنی نہیں ہوتی کہ وہ اپنے خیال کو پورا پورا ادا کر سکے، لیکن خود خیال میں اتنا زور ہوتا ہے کہ اس کی خوبی فنی خامیوں کے باوجود ظاہر ہوجاتی ہے، جیسے کوئی خوب صورت تندرست بچہ بے ڈھنگا لباس پہنے ہو تب بھی پیارا لگتا ہے۔ یہ فن کے بچپن کا زمانہ ہوتا ہے۔ علمی اصلاح میں یہ (PRIMITIVE) یعنی قدیمی یاابتدائی دور کہلاتا ہے اور اس کے کام میں ایسا بھولاپن، بداہت اور سادگی ہوتی ہے کہ وہ آسانی سے پہچانا جا سکتا ہے۔

    ارتقا کی دوسری منزل وہ ہے کہ جب آرٹسٹ اپنے فن میں ایسا ماہر ہوتا ہے کہ تخیل کی بلند پروازی اسے عاجز نہیں کر سکتی اور اس کاتخیل اپنی طرف فن کا ایسا نکتہ شناس ہو جاتا ہے کہ لازمی پابندیوں کو خوشی سے قبول کرتا ہے۔ اس لیے اس دور کی خصوصیت فن اور تخیل کی ہم آہنگی، خیال اور خیال کو پیش کرنے کے طریقے کی ایک لطیف مناسبت ہوتی ہے۔ یونان اور روما کی تاریخ کے ایک خاص دور کے فنون لطیفہ میں سادگی اور نفاست، ضبط اور بلند آہنگی کی ایسی صحیح آمیزش پائی جاتی ہے کہ اسے معیار مان کر فن کے اس دور کو CLASSICALیا کلاسیکی کہا جاتا ہے۔ وہ عروج کا زمانہ ہوتا ہے، اس میں عموماً فن کے تمام امکانات آزما لیے جاتے ہیں۔

    اس کے بعد انحطاط لازمی ہے، کیونکہ وہ ذہنی قوتیں جن کی بدولت فن کی نشوونما ہوتی ہے، آہستہ آہستہ زائل ہو جاتی ہیں۔ آرٹسٹ کے سامنے معیاری کام کے نمونے اس افراط سے موجود ہوتے ہیں کہ اس کا تخیل ان میں الجھ کر رہ جاتا ہے اوراس کی طبیعت میں خود بخود یہ جذبہ پیدا ہو جاتا ہے کہ دوسروں نے جو کچھ کیا ہے اس سے بڑھ کر کچھ کر دکھا ئے۔ یہ جذبہ صحیح نہیں، اس لیے کہ آرٹسٹ کی نظر اپنے دل پر ہونا چاہیے اور اسے دوسروں کے کام کا مطالعہ صرف اس نیت سے کرنا چاہیے کہ فن میں ملکہ پیدا کر سکے۔

    جب وہ دوسروں کے کام کو سامنے رکھ کر ان سے بازی لے جانے کا حوصلہ کرتا ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ نقل کرتا ہے اور اس سے جو نقصان ہوتا ہے اس کی تلافی کے لیے یہ کافی نہیں کہ نقل کو اصل سے بہتر بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ انحطاط کے دور کا اصطلاحی نام بروک ہے۔ اس میں آرٹسٹ کا نصب العین یہ ہوتا ہے کہ فنی مہارت کے کرشمے دکھائے، کام کوحد سے زیادہ پیچیدہ کر دیا جاتا ہے، سادگی تخیل کی بےمائیگی، خلوص، تربیت کی خامی سمجھی جاتی ہے۔ فن کے ماہر اور قدرداں دونوں مبالغہ پسند ہوتے ہیں، اور تصنع کی ایک وبا پھیلتی ہے جس کے مہلک اثرات سے بچنے کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ زندگی اور فنون لطیفہ کے تصور میں کوئی بڑا انقلاب ہو۔ ایسے انقلاب ساری دنیا میں ہوتے رہے ہیں اور عمل کے لیے نئے میدان، حسن کے لیے نئی جلوہ گاہیں فراہم کرتے رہے ہیں۔

    ہندوستان کی تاریخ میں بھی ہمیں فنون لطیفہ کے عروج وزوال کے کئی دور ملتے ہیں۔ یہ اس کی علامتیں ہیں کہ کئی تہذبیوں نے ترقی کی، عروج پر پہنچیں اور پھر انہیں زوال ہوا۔ ان کے حالات ہمیں کبھی کبھی کتابوں کے ذریعہ معلوم ہوتے ہیں لیکن کتابوں میں وہی درج ہے جو ان کے لکھنے والوں نے دیکھا یاسنا، یعنی صرف ظاہری باتیں جن سے تہذیب کے باطن کا پورا بھید نہیں کھلتا۔ ہم صرف کتابوں پر بھروسہ کرنے کے بجائے اگر یہ ذہن نشین کر لیں کہ فنون لطیفہ کا مقصد انسان کی انسانیت کو ابھارنا اور شکل دینا ہے اور وہ تہذیبی خصوصیت کے اصل حامل ہوتے ہیں تو ان کا ہر نمونہ معلومات کا ایک خزانہ بن جائےگا، ہماری تاریخ جاگ اٹھے گی، ہم اپنے پیش رووں کی نظر اور ان کے ذوق کی پوری قدر کرسکیں گے اور ہم پر واضح ہو جائےگا کہ ان کا معجز نگار ہاتھ بے جان چیزوں کو ایسی شکل اور وضع دے سکتا تھا کہ وہ ہمیشہ کے لیے ان کے تصور حیات کی یاد تازہ رکھیں۔

    تاریخ تمدن کے مسائل
    (۱) انسانی تہذیب: ہم فن کے نمونوں کے جانچنے کی استعداد پیدا کر لیں اور تہذیب کی خارجی قدروں کو پرکھنے کی مشق کر لیں، تب بھی تاریخ تمدن کا حق ادا کرنے میں دشواریاں پیش آ سکتی ہیں۔ انسانی زندگی تمدن اور تہذیب کے اعتبار سے کبھی ہموار نہیں تھی، آج کل کی طرح پہلے بھی بعض قومیں ایسی تھیں جنہوں نے بہت ترقی کرلی تھی اور بعض ایسی جو بالکل وحشی تھیں۔ ترقی کرنے والی قوموں میں ہر ایک کی رفتار الگ تھی اور اس کی ترقی کا میدان الگ۔ بعض کی ترقی برابر جاری رہی، بعض کی ایک حد پر پہنچ کر رک گئی۔

    قدیم یونانیوں نے تھوڑی سی مدت میں فکر اور عمل، فن اور ادب کے لاجواب کرشمے دکھائے اور دنیا سے رخصت ہو گئے۔ رومیوں نے علم اور فن میں دریوزہ گری کی مگر سیاست، تنظیم اور استقلال کی ایک مثال قائم کر گئے جس سے دنیا صدیوں تک سبق لیتی رہی۔ مسلمانوں کی سیاست میں بہت جلد انتشار پیدا ہو گیا لیکن وہ نسل اور مقام کی حد بندیوں کو برابر توڑتے اور الگ الگ جماعتوں کے علم کو اپنا کر اسے نوع انسانی کا عام سرمایہ بناتے رہے۔ انہوں نے جتنا فائدہ خود حاصل کیا اس سے زیادہ دوسروں کو پہنچایا اور یہ ایک خدمت ہے جو اور کسی ملت یا سیاسی جماعت نے انجام نہیں دی۔

    ترقی اور کامیابی کی صورتوں میں جو اختلاف رہا ہے اس کے علاوہ ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ جماعتوں اور قوموں کی ترقی کبھی پیہم کوشش اور محنت، شوق اور جستجو کی بدولت ہوئی ہے، کبھی کسی حادثے یا انقلاب کی بدولت، کبھی انقلاب کا مادہ جماعت کے اندر ہی جمع ہوتا رہا ہے، جیسے بدھ متی انقلاب کا آریوں کے معاشرے میں، کبھی انقلاب کی نوعیت ایک حادثے کی سی تھی، جیسے کہ مسلمانوں کا ہندستان کو فتح کر لینا۔

    قوموں کا عروج اور زوال بھی اپنی جگہ پر ایک معمہ ہے جو کسی طرح حل نہیں ہوتا۔ اگر ہم قوموں کی اس حالت کو دیکھیں جب وہ گمنامی سے اچانک ابھر کر دنیا کے سامنے آ جاتی ہیں تو ان میں بہت سی اخلاقی اور معاشری خوبیاں ہوتی ہیں مگر تمدن اور تہذیب میں اپنے زمانے کی ممتاز قوموں سے لگا نہیں کھا پاتی ہیں۔ لیکن جب وہ ترقی کرکے تمدن اور تہذیب کی علم بردار بن جاتی ہیں تو ان میں اکثر وہی اخلاقی اور معاشری خوبیاں نہیں رہتی ہیں، جن کی بدولت انہوں نے دنیا میں نام پیدا کیا تھا اور مؤرخ کسی طرح حساب لگاکر نہیں بتا سکتا کہ تہذیب کا نمونہ بننے سے قوموں کو نفع ہوتا ہے یا نقصان۔

    (۲) قومی تہذیب: تاریخ تمدن کا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہر جماعت اور ہر قوم اپنی الگ اور مخصوص تہذیب رکھنے کا دعوی کرتی ہے اور اگر قوموں کی سیاست کامیاب ہو تو وہ اس کا دعوی کرنے لگتی ہیں کہ جنگ جوئی میں ان کا مقصد خود فائدہ حاصل کرنا نہیں بلکہ وہ اپنی اعلی تہذیب پھیلاکر دنیا کو فیض پہنچاتی ہیں۔ اس سے انکار بھی نہیں کیا جا سکتا کہ جلد اور بڑے پیمانے پر تہذیب پھیلانے کی خدمت سیاست ہی نے انجام دی ہے۔ سیاست نے بڑی سلطنتیں نہ قائم کی ہوتیں، تجارت کے رستے نہ کھولے ہوتے، اس تہذیبی دولت پر جو چھپی پڑی تھی یاجسے اس کے مالک کسی کو دینا نہیں چاہتے تھے، زبردستی قبضہ نہ کیا ہوتا تو ترقی کی رفتار بہت سست رہتی۔

    بے شک تہذیب کا سرمایہ لین دین سے بھی بڑھا ہے، یعنی قوموں نے ایک دوسرے سے واقفیت پیدا کرکے اچھی باتیں سیکھیں اور سکھائی ہیں، اپنے عقائد کی صلح وآشتی سے تبلیغ کی ہے اور دوسروں کی معلومات سے اپنے علمی ذخیرے میں اضافہ کیا ہے، لیکن تہذیب کے بعض اصولوں کو، جیسے کہ مساوات کی وہ تعلیم جو اسلام نے دی ہے، سیاست ہی رائج اور مقبول کرا سکتی تھی۔ بالعموم معاشری تنظیم کے نئے اور بہتر طریقے سیاست ہی نے سکھا ئے ہیں۔ قومیں دوسروں کے کام کو دیکھ کر اپنی صنعت اور تجارت، ادب، فنون لطیفہ اور علم کو ترقی دے سکتی ہیں۔ معاشری تنظیم کی خامیوں کااحساس انہیں اسی وقت ہوتا ہے جب کوئی غیرقوم ان پر غالب آ جاتی ہے اور سیاسی شکست ثابت کر دیتی ہے کہ معاشری تنظیم میں اصلاح نہ کی گئی تو ترقی کے سارے راستے بند ہو جائیں گے۔

    اس طرح سیاست کو تہذیب پھیلانے میں دخل تھا۔ مگر دنیا کی ہر چھوٹی بڑی جماعت غالب اور مغلوب رہ چکی ہے اور اسی کے ساتھ تہذیبی لین دین کا سلسلہ بھی برابر جاری رہا ہے۔ اس لیے کسی قوم کی تہذیب کے بارے میں کیسے طے کیا جا سکتا ہے کہ اس کا کون سا اور کتنا حصہ خالص قومی ہے اور اس میں کیا کیا دوسروں سے حاصل کیا گیا ہے۔ عموماً تہذیب میں قوموں کا اپنا حصہ بہت کم ہوتا ہے، اس حصے کے مقابلے میں جو انہیں پچھلی قوموں سے ورثے میں ملتا ہے یاجو وہ دوسری ہم عصر قوموں سے حاصل کرتی ہیں۔ لیکن انسانیت کی موروثی تہذیب کووہ کسی نہ کسی حد تک ایک نئی شکل ضرور دیتی ہیں اور اس سبب سے ان کا یہ دعوی رد بھی نہیں کیا جا سکتا کہ ان کی تہذیب ان کی اپنی ہے اور دوسری تہذیبوں سے جداگانہ حیثیت رکھتی ہے۔

    اس دعوے کو رد یا نظر انداز کرنا مؤرخ کے لیے ایک اور وجہ سے بھی مشکل ہے۔ وہ یہ اصول بیان تو کر سکتا ہے کہ تہذیب نوع انسانی کی عام ملکیت ہے اور اسے قوموں میں تقسیم نہیں کیا جا سکتا، لیکن اپنی مجبوریوں کے سبب سے اس برت نہیں سکتا۔ انسان ہر چیز کی قدر دوسری چیزوں سے مقابلہ کرکے قائم کرتا ہے۔ بعض چیزوں کی قدر کرنا اسے بچپن سے سکھایا جاتا ہے، بعض اسے اس لیے پسند ہوتی ہیں کہ وہ اس کی طبیعت یا مذاق کے موافق ہوتی ہیں۔

    ہر مؤرخ قدرتی طور پر اپنے عقائد اور اپنی تہذیب کو دوسروں پر ترجیح دیتا ہے اور اگر وہ اس قدرتی میلان پر قابو حاصل کر لے تب بھی یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ کسی تہذیب کا دوسری تہذیبوں سے مقابلہ نہ کرے، اپنے ذہن کو ایک آئینہ بنالے کہ جس میں ہر چیز کا عکس نظر آتا ہے اور کسی عکس کا اثر باقی نہیں رہتا۔ اس کے پاس تہذیب کو پرکھنے کے لیے کوئی کسوٹی، اچھے اور برے میں تمیز کرنے کے لیے کوئی معیار بھی ضرور ہونا چاہیے اور یہ کسوٹی یا معیار مؤرخ کی اپنی تہذیب، اس کے اپنے عقائد ہوتے ہیں۔


    حاشیہ
    (۱) ہسپانیہ اور فرانس میں اٹھارہویں صدی میں آرائش کا ایک طرز رائج ہوا جو بروک (BAROQUE) کہلاتا تھا۔ اس میں وہ تمام خصوصیات پائی جاتی ہیں جو فن کے دور انحطاط کی خاص علامتیں ہیں۔ 

       

    مأخذ:

    مجیب صاحب:احوال و افکار (Pg. 345)

      • ناشر: ڈائرکٹر قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی
      • سن اشاعت: 2011

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے