Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

تاج محل بھی۔۔۔ قطب مینار بھی

اختر اورینوی

تاج محل بھی۔۔۔ قطب مینار بھی

اختر اورینوی

MORE BYاختر اورینوی

    مولوی عبدالحق ایک ادیب ہیں، ایک بڑی شخصیت ہیں، ایک سنگِ میل ہیں، ایک علامت ہیں اور ایک مینارِ ہدایت ادیب ہونے کی حیثیت سے عبدالحق صاحب کے تین نمایاں پہلو ہیں۔ وہ ایک منفرد طرز کے انشاءپرداز ہیں، ایک صاحبِ بصیرت اور ایک غائر نگاہ رکھنے والے محقق، تفصیلات پیش کرنے کا یہ موقع نہیں۔ میں سرسری طور پر محض اپنے تاثرات پیش کر رہاہوں۔

    سرسید مرحوم اور حالی کی رہبرانہ انشاء پردازی کو عبدالحق صاحب نے نئے امکانات، نئی سلاست، نئی آہنگ اور نیا مستقبل بخشا ہے۔

    عبدالحق صاحب کے اسلوب میں طاقت، عصریت اور استواری پائی جاتی ہے۔ اس میں سادگی کے ساتھ ہلکی سی نمکینی ملتی ہے۔ سطحیت کہیں نہیں۔ مگر سنجیدہ تیکھاپن موجود ہے۔ عبدالحق صاحب نے اردو نثر کی صحت مندانہ روایت کو آگے بڑھانے میں بڑا اہم کام کیا ہے۔

    ناقد کی حیثیت سے عبدالحق صاحب نے انفرادی نظر، غیر جانب داری اورجراتِ اظہار کا ہمیشہ ثبوت دیا ہے۔ ان کی سخن شناسی نے بہل منساہت کا ساتھ نہیں چھورا۔ ان کی تنقید میں اقدار کی چھان پھٹک تو نہیں ملتی۔ لیکن مسلمہ قدروں کے برتاؤ میں مولوی عبدالحق بڑی ذہانت اور متانت کو راہ دیتے ہیں۔ یہ بڑی بات ہے اور مشکل کام ہے۔ میرے خیال میں حالی کے ساتھ ساتھ عبدالحق نے بھی اردو تنقید کی فضاء، سمت اور مزاج و میلان بدلنے میں بڑی مدد کی ہے۔

    تحقیق کے میدان میں عبدالحق صاحب میرِ کارواں ہیں۔ انہوں نے اردو دنیا کو مائل بہ تحقیق کیا اور خود بھی عملی طور پر نوادر پیش کرتے ہیں۔ عبدالحق صاحب کی روشِ تحقیق شتربے مہار نہیں۔ اس کی منزل اور منہاج واضح ہے۔ وہ مخطوطات کی محض نقطہ شماری نہیں کرتے۔ ان کا مقصود نکتہ رسی ہے۔ ان کے ہاں انتخابِ موضوع کے معاملے میں بھی توازن پایا جاتا ہے۔ وہ تحقیق مہمل نہیں کرتے۔ بعض محقق ہر مفقود و نامشہور کو مشہور و معدود بنانے کے خبط میں رہتے ہیں۔ میرؔ کے سر کے بالوں کی تعداد کیا تھی؟ یا وفات کے وقت مصحفیؔ کے کتنے دانت تھے؟ غالب نے فلاں فلاں لفظوں کو کتنی بات استعمال کیا ہے؟ ایسے ہی سوالات کے محققانہ جواب دے کر وہ جی کے حوصلے نکالتے ہیں۔ وہ بڑے فن کاروں کی صرف و نحو کی غلطیاں گنتے۔ ادیبوں کی مٹی پلید کرتے اور ادب و شعر میں کیڑے ڈال کرمسرور ہوتے ہیں۔

    دوسرے محققوں سے خار کھاتے ہیں اور اپنی ذہنی کوتاہ قدی کو گردناکڑاکر دور کرنا چاہتے ہیں۔

    مولوی عبدالحق کی تحقیق کارآمد، عظیم اور بصیرت افروز ہوتی ہے۔

    تحقیق حق میں لغزش و افتاد سے کو ن بری ہوسکتا ہے؟ لیکن دوسروں کی چوک یا نارسائی پر بغلیں بجانے والے اپنی ذہنیت اور ظرف کا ثبوت دیتے ہیں۔ سچائی کے اظہار اور سوقیانہ دندان نمائی میں فرق ہے۔ انکشافِ حقائق اور تکبرانہ عیب جوئی میں بڑا بعد ہے۔ مولوی عبدالحق کی تحقیقات یا کسی محقق کے انکشافات حرفِ آخر کبھی نہیں ہوتے۔ سچااور بھلا محقق وہ ہے جو انکسار و تعاونِ باہمی کے ساتھ بڑی لگن سے اہم کاموں میں لگا رہے۔ مولوی صاحب نکتہ چینیوں کے نیش اور مداحوں کے موش کے باوجود باوصف مخلصانہ طور پر اپنی تحقیق میں مشغول رہے ہیں۔

    مولوی عبدالحق کی شخصیت نہایت بالیدہ و منفرد ہے اس میں ارادہ، غور، تدبر، قوتِ فیصلہ، صلاحیت کارکردگی، دور بینی، معاملہ فہمی، مادہ ایثار کے ساتھ ساتھ اخلاص، محبت، وفاداری، بے غرضی، وقار، حسنِ اخلاق، شگفتگی اور بذر سنجی کے کچھ عناصر بھی بدرجہ اتم موجود ہیں۔

    وفاداری و دوست پرستی مولوی صاحب کی شخصیت کی بڑی مشکل گر ہیں ہیں۔ اس عقدہ لاینحل کی وجہ سے خود انہیں اور ان کے مداحوں کو بڑی آزمائشوں سے گزرنا پڑا ہے۔ آپ میں خودشناسی اور پندار بھی ہے۔

    اردو کی مہموں میں وقار و پندار سے بڑے بڑے فوائد حاصل ہوئے ہیں۔ لیکن کبھی خودشناسی خود بینی میں اور وقار عیب میں بدل جاتا ہے اور انفرادی و اجتماعی نقصان کا باعث بنتا ہے۔ بہرکیف مولوی صاحب کی شخصیت مجموعی طور پر بڑی متحرک، محمود و محبوب ہے۔ ایسی شخصیتیں نادر اور بے بہا ہوتی ہیں۔

    یہ اردو کلچر کی سعادت تھی کہ اسے ایسا سالارِ کارواں ملا جس نے ہر محاذ پر اس کی حفاظت میں سینہ سپر کیا اور ہر میدان میں اس کی ترقی کے لیے اقدامات کیے۔

    بابائے اردو روحِ عصر اور مسیحائے اردو ہیں۔

    عبدالحق تاریخِ اردو کے ایک روشن باب ہیں۔ جب بھی جہادِ اردو کی تاریخ لکھی جائے گی مولوی صاحب اس کی سرخی افسانہ ہوں گے اور تمت بالخیر بھی۔

    مولوی عبدالحق صاحب بڑی فعال و متحرک قوت کے مالک ہیں۔ انہوں نے اپنے دلِ گرم و جانِ بے تاب کا سوز و ساز، ذوق و شوق اس برصغیر کے سارے اردو دوستوں کو عطا کیا۔

    قریباً نصف صدی سے مولوی صاحب اردو تحریک کی برقی مقناطیسی لہریں اپنی ذات سے ایک عظیم ڈئنموں کی طرح بکھیر رہے ہیں۔ مولوی صاحب کی طبیعت میں سیمابیت نہیں بلکہ پہاڑوں جیسا جماؤ ہے۔

    وہ اردو تحریک کی راہ میں بڑے بڑے پہاڑوں سے ٹکرائے ہیں اور ماضی قریب کی تاریخ ہند گواہ ہے کہ انہوں نے کبھی شکست نہیں کھائی۔

    میں نہایت قریب سے جانتا ہوں کہ وہ بڑے استوار مزاج کے آدمی ہیں۔ لیکن وہ صلح جوئی اور مفاہمت سے گریز نہیں کرتے۔

    ڈاکٹر سید محمود سابق وزیر تعلیمات، بہار نے ایک ہندوستانی کمیٹی قائم کی تھی۔ برادر گرامی پروفیسر سید نجم الہدی صاحب اس کے معتمد تھے ’’ہندوستانی‘‘ کا تصور خود گاندھی جی کا پروردہ تھا۔ لیکن حقیقی وعملی دنیا میں ’’ہندوستانی‘‘ زبان کی تعریف بڑی کشاکش کی بات اور تصادم خیز مسئلہ بن گئی تھی۔ اس معاملے میں ہندوستان کے موجودہ راشٹرپتی جی شری راجندر پرشاد اور مولوی عبدالحق صاحب کے درمیان ایک معاہدہ ہوا جسے ’’راجندر عبدالحق پیکٹ‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس معاہدے سے ’’ہندوستانی‘‘ کی تعریف نے قطعیت اختیار کی اور ایک ایسا فضا ملک میں پیدا ہوئی جس میں سادہ و سلیس اردو کی ترقی کے بڑے امکانات تھے۔ اتری ہندوستان کی عام بول چال، شبدِ ساگر (لختِ ہندی اور فرہنگ آصفیہ کو معیار دیا گیا۔ بہار کی ہندوستانی کمیٹی کے معزز اراکین میں مولوی عبدالحق صاحب بھی تھے۔ ڈاکٹر ذاکر حسین (موجودہ گورنر بہار) ڈاکٹر سچتانند، ڈاکٹر تاراچند، ڈاکٹر عابد حسین وغیرہ سے اس اہم مجلس کی زیب و زینت تھی۔ ہندوستانی کمیٹی کے لیے مولوی عبدالحق ایک بسیط ہندوستانی لغت بھی تیار کر رہے تھے۔ غالباً اس کی تکمیل ہوگئی تھی کیونکہ جب پروفیسر سید نجم الہدی صاحب کے بعد میں ہندوستانی کمیٹی کا سکریٹری مقرر ہوا تو میں نے دہلی سے ۱۹۴۶ء میں لغت کامسودہ منگوایا تھا۔ اور اسے بہار کے شعبہ تعلیم میں داخل کردیا تھا۔ نہ معلوم اس گراں قدر امانت کا حشر کیا ہوا۔

    اردو کے ارتقائی سفر میں زائرِ اردو کے لیے مولوی عبدالحق کی ان تھک کوششیں سنگ ہائے میل کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ان سے بصیرت، تقویت اور ہمت حاصل ہوتی ہے۔ اردو کی نشر واشاعت، صحافت، کتابت اور اقامت میں مولوی صاحب کے کارنامے روشن ہیں۔ آپ جامع اردو ہیں۔ کتب خانہ، پریس، جرائد اور کارکنوں کے اکٹھا کرنے میں مولوی صاحب نے رہبرانہ کام کیے ہیں۔ اردو دنیا ان سے منتظیمی سلیقہ سیکھتی رہی ہے۔

    عبدالحق صاحب اردو کی ایک زندہ علامت ہیں۔ ان کا تن، من، دھن اردو ہے۔ انہوں نے اپنا سب کچھ اردو پر قربان کردیا۔ ان کی پوری زندگی اردو پر نچھاور ہوگئی۔

    اردو کے پودے کو عبدالحق نے اپنے خون دل و جگر سے سینچا ہے۔ اردو کے چاہنے والوں کے ذہن و قلب میں جو اردو لغت ہے اس میں لفظ اردو کے معنی یوں لکھے ہوئے ہیں۔۔۔ ’’عبدالحق‘‘

    حال و مستقبل کے لیے مولوی عبدالحق اردو کے تاج محل بھی ہیں اور قطب مینار بھی

    عبدالحق کے عزائم اور فتوحات کی مثال روشنی ہمیشہ کڑی اور تاریک راہوں کو روشن کرتی رہے گی۔

    مأخذ:

    ادب لطیف،لاہور (Pg. 60)

      • ناشر: افتخار علی چودھری
      • سن اشاعت: 1961

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے