Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

تنقید اور سنجیدگی

مظفر علی سید

تنقید اور سنجیدگی

مظفر علی سید

MORE BYمظفر علی سید

    ایک مدت سے ہماری تنقید ادب کو خانوں میں بانٹنے کا فرض انجام دے رہی ہے اور ادیب لوگ ان خانوں کو پُر کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ چنانچہ کہا جاسکتا ہے کہ ہماری تنقید اور ہمارے ادب میں بہت کام ہو رہا ہے۔

    مگر یہ کوچہ بندی اورخانہ پُری قسم کا کام ادب سے یا تنقید سے کیا تعلق رکھتا ہے؟ کیا ادب کو اصناف و انواع، شاخوں اور شعبوں میں تقسیم کیاجاسکتاہے؟ اس بات پر غور کرکے ہم اپنے زمانے کی ظاہری ادبیت کے اس چکر سے نکل سکتے ہیں جس نے ہمیں ادب کے اصلی اور حقیقی کام کے قابل نہیں رہنے دیا۔ ذراسوچیے تو آج کتنے غزل گو ہیں جو کبھی کبھار بھی کسی شعر میں مزاح کا کوئی پہلو رکھتے ہوں، محبوب سے بات کرتے ہوئے خوش فعلی اور خوش فکری تو کہاں، معمولی درجے کی خوش گوئی بھی کبھی کرلیتے ہوں۔ اس کے باوجود ہم اردو غزل کی عظیم روایت کی بات کرتے ہیں اور اس روایت کے ایک اہم پہلو کو صاف نظر انداز کرجاتے ہیں۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ غزل اور چیز ہے اور مزاح و ظرافت اس سے مختلف چیزیں ہیں۔ اگر آپ کو دوسری چیز کاشوق ہے تو ظریف جبل پوری، مجید لاہوری اور راجہ مہدی علی خاں کا کلام دیکھیے اورتغزل سے رغبت ہو تو حضرت فراق گورکھ پوری، حفیظ ہوشیارپوری اور ناصر کاظمی کامطالعہ کیجیے۔ انشاء اللہ رہی سہی ظرافت بھی رفوچکر ہوجائے گی۔

    یہ زمانہ تقسیم کار کا ہے۔ کچھ کارخانوں میں کابلے اور پیچ بنتے ہیں، کچھ میں ٹونٹیاں اور کچھ میں صرف نل بنتے ہیں۔ مستری سب کو جوڑ جاڑ کے غسل خانے میں نلکا لگادیتا ہے اور یوں پانی بہنے لگتا ہے۔ اسی طرح کچھ لوگ غزل کہتے ہیں۔ کچھ لوگ ظریفانہ کلام کہتے ہیں، کچھ افسانہ لکھتے ہیں، کچھ طنزیہ مضامین اور کچھ انشائیے۔ نقاد لوگ جو ادب کے مستری ہیں ان کو یکجا کرکے ایک نصاب یا ایک کتاب میں جمع کردیتے ہیں۔ یوں ادب کانلکا بہنے لگ جاتا ہے اور تہذیب کا غسل خانہ مکمل ہوجاتا ہے۔

    اس تقسیم کار نے ادیب کو مشین بلکہ مشین سے بدتر بناڈالا ہے۔ آپ وقت پڑنے پر چاقو سے پیچ کش کا کام تو لے لیتے ہیں مگر ادیب کو زندہ فقرہ لکھنے کی اجازت نہیں دیتے۔ قطعہ لکھنے والے کو رباعی لکھنے سے منع کرتے ہیں اور رباعی لکھنے والے سے کہتے ہیں کہ تمہاری رباعی میں کچھ کچھ تغزل کارنگ آگیا ہے۔ مجھ ایسے نقاد سے کہ خود کو ادب سے بے تعلق نہیں سمجھتا کہتے ہیں کہ تم تنقید میں مزاح لکھنے کی کوشش نہ کیا کرو۔ انتظار حسین سے کہتے ہیں کہ تم فقرے بازی کرتے ہو۔ ذراسوچیے تو آپ شیخ سعدی کے زمانے میں ہوتے تو گلستان پڑھ کے بھی ان سے یہی کہتے؟ غالبؔ آپ کو غزل سناتا تو بھی یہی ارشاد کرتے؟

    نقادوں نے ادب کو خانوں میں تو بانٹ دیا مگر سعدیؔ اور فردوسی، چوسرؔ اور شکسپیئرؔ، دوستو یفسکی اورچیخوفؔ، رابلےؔ اور والٹیئرؔ، غالبؔ اور نظیر کو ان خانوں میں فٹ نہ کرسکے۔ چڑیوں کے پنجروں میں کبوتروں اور کبوتروں کے کابکوں میں شیروں کو کیسے رکھاجاسکتا ہے؟ پھر بھی کئی ایک نقاد اس کوشش میں محنت کیے جاتے ہیں۔ کیے جاؤ محنت مرے دوستو۔

    میتھیوآرنلڈ صاحب نے کوئی اسی برس پہلے فرمایا تھا کہ چوسرؔ کو کلاسیک کا رتبہ نہیں دیا جاسکتا کیونکہ اس میں اعلیٰ سنجیدگی نہیں پائی جاتی؟ یہ اعلیٰ سنجیدگی کیا ہوتی ہے اور چوسرؔ میں کیسے نہیں پائی جاتی، اس کاکوئی شافی جواب ان کے پاس نہ تھا۔ انہیں اعتراض تھا تو اس بات پر کہ چوسرؔ ہنستاہے اوردیکھیے صاحب، ہنسنے ہنسانے والے تو مسخرے ہوتے ہیں کلاسیک نہیں ہوتے۔ کلاسیک تو ہومرؔ ہے جواعلیٰ سنجیدگی کے ساتھ رزمیہ لکھتا ہے۔ میتھیو آرنلڈ صاحب پیر تسمہ پا کی طرح کوئی پچاس ساٹھ برس انگریزی ادب اور انگریزی تنقید کے سرپر سواررہے، جس طرح ان کے اردو مقلدین اب تک ہمارے سر پر سوار چلے آتے ہیں مگرآرنلڈ صاحب کابھرم رابرٹ گریوز نے یوں کھولاکہ حضرت نے ہومرؔ کو زندہ طریقے سے پڑھا ہی نہیں کیونکہ انہیں خبر بھی نہ ہوئی کہ ہومرؔ ہنستاہے، اعلیٰ سنجیدگی کے ساتھ رزمیہ لکھتے ہوئے بھی ہنستا ہے۔ یہ وہی کبوتر کے کابک میں شیر کو بند کرنے کی کوشش تھی۔ یا یوں کہہ لیجیے کہ چوسرؔ کو کلاسیک نہ ماننے کی سزا ادب نے یوں دی کہ ہومرؔ کامطالعہ بھی ٹھیک سے نہ ہوسکا۔

    یہی سزا نظیرؔ اکبرآبادی کے سلسلے میں اب تک ہمارے نقادوں کوملتی چلی آرہی ہے۔ ہمارے پرانے نقاد اس کو مسخرا سمجھتے تھے یعنی چوسرؔ کا بھائی بند اور اب بھی ایک آدھ نقاد ان کی ہمنوائی کرتاہوا پایا جاتا ہے۔ پھر ایک زمانہ آیا کہ نقادوں نے پوری سنجیدگی سے اسے پڑھنا شروع کیا اور اس کی ہنسی کے لیے اپنے کان بہرے کربیٹھے۔ ایک نقاد نے نظیراکبرآبادی کا اردو فارسی ہزل گوی سے کچھ تعلق نکالا ہے مگر یہ نہیں بتایا کہ اس تعلق کو اچھا کہاجائے یا برا۔

    نظیر کے کلیات میں بہت سے لفظوں کی جگہ نقطے چھپتے چلے آرہے ہیں مگر ان کے بعد ایسا کوئی شاعر کم ہی ملے گا جسے چھاپنے کے لیے نقطوں کی ضرورت پڑے۔ یوں ایسے شاعر ہوئے ہیں کہ ان کا کلام سینہ بہ سینہ منتقل ہوتاہے اور ایک آدھ ایسا بھی ہوا ہے جس کاپورا دیوان ہی چوری چوری چھپتا اور بکتا رہا ہے۔ مگرنظیر کے بعد (اکبرؔ کے سوا) شاید ہی ایسا کوئی شاعر اردو میں ہوا ہو جس کے یہاں سنجیدگی اور ظرافت یوں ایک ہوجائے کہ اس کا کلیات کھلے بندوں چھپے اور بکے بھی اور نقطوں کے سوا چارہ بھی نہ ہو۔

    اعلیٰ سنجیدگی اورمتانت کے مبلغوں نے اس معاشرے کو اس طرح بدل ڈالا ہے کہ اب نظیرؔ جیسا شاعر اردو میں پیدا ہونا ہی ناممکنات میں سے ہوگیا ہے۔ کیا ہماری معاشرت پہلے سے زیادہ مہذب ہوگئی ہے؟ یہ بات ماننے کی نہیں جب کہ جنسی جرائم اورنفسیاتی عوارض کا چاروں طرف دور دورہ ہو۔ شاید یہ سب اس لیے ہوتا ہے کہ ہم نے توانا زندگی اور تواناادب کو اپنے اوپر حرام کر رکھا ہے۔ اور دونوں کی باگ ڈور تنگ نظر مصلحین اورنقادوں کے ہاتھ میں دے رکھی ہے۔ اس کے علاوہ ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ نثر میں تو ہم کسی حدتک، یعنی منٹو اور عصمت کی حدتک، اس چیز کو گوارا بھی کرلیتے ہیں مگر غزل میں، مثلاً سلیم احمد کی غزل میں، یہ بات آجائے تو کانوں پہ ہاتھ رکھنے لگ جاتے ہیں کہ توبہ توبہ کیا زمانہ آگیا، غزل میں لوگ ایسی باتیں کرنے لگے۔ معلوم نہیں جن لوگوں نے انشاؔء اور نظیؔر کو پڑھا ہے انہیں کس نظر سے پڑھا ہے او رجن لوگوں نے غالبؔ اور داغ کو پڑھا ہے انہوں نے دماغ سے کام لینے کی زحمت کیوں گوارا نہیں کی۔ درحقیقت اس معاملے میں پڑھنے والے اور ان پڑھ سب برابر ہیں۔ جب کوئی معاشرہ زندگی سے قطع تعلق کرتا ہے تو اپنے ہی خوف کے زنداں میں گرفتار ہوجاتاہے۔

    کراچی سے ایک دو ورقی اخبار نکلتاہے۔ اس کی سنجیدگی کا اندازہ اس بات سے ہوسکتا ہے کہ اس پر نہ کسی ایڈیٹر کانام ہوتا ہے اور نہ زیادہ تر چیزوں پر لکھنے والوں کا یہ گزٹ تنقید کو ’’زردصحافت‘‘ کی زبان میں پیش کرتاہے۔ اور ’’ادیبوں پر اعتراض کرتاہے تو کہتاہے کہ فلاں سنسنی خیزی کرتا ہے فلاں فقرے بازی۔‘‘ اگر اس اخبار میں لکھنے والے اور اسے نکالنے والے ’’ادارہ ثقافت اسلامیہ‘‘ یا ’’بزم طلوعِ اسلام‘‘ سے متعلق ہوتے تو ان اعتراضات کی وجہ سمجھ میں آسکتی تھی۔ ایک گزٹ میں اس قسم کے اعتراضات؟ مگر آج کے کیا اخبار اور کیا رسالے، کیا گزٹ اورکیا نقاد، سب ادب کو کابکوں اور پنجروں میں گرفتار کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔

    آج سے کچھ عرصہ پہلے چند ایک نقادوں کو محمد حسن عسکری کی فقرے بازی سے گلہ پیدا ہوا تھا حالانکہ جس چیز کو عسکری کی فقرے بازی کہاجاتاہے وہ زیادہ تر اسلوب کی کرشمہ کاری ہے اس کے پیچھے کسی آسکر وائلڈ، کسی برنارڈ شا کاذہن موجود نہیں۔ بہرحال مطلب یہ ہے کہ فقرے بازی کاگلہ اصل میں اسلوب کاگلہ ہے اور یہ گلہ ان لوگوں کو ہوتا ہے جو ایسا نہیں کرسکتے۔ چند ایک گلہ گزاروں نے اپنی سی کوشش بھی کی مگر جب سیدھے سبھاؤ بات نہ بنی تو گزٹ کا پردہ تان کر بیٹھ گئے اور لگے کوسنے سنانے۔ ایسے لوگوں کو بنے بنائے تعصبات کا ایک ڈھانچہ بڑی آسانی سے وراثت میں مل جاتا ہے اور وہ معاشرت اور تنقید کے تیار کیے ہوئے پنجروں اورکابکوں کو مضبوط کرنے کی خدمت بھی انجام دینے سے باز نہیں آتے۔

    آج کے ادب سے یہ شکوہ صرف کراچی کے اس دو ورقی گزٹ تک محدود نہیں۔ ہمارے بہت سے بھاری بھرکم رسالوں میں بھی کوئی ایسی چیز خال خال ہی چھپتی ہے جس میں صداقت ہو، لگی لپٹی کے بغیر خدا لگتی بات کہی گئی ہو اور مرنجاں مرنج قسم کی مردہ تحریر سے پرہیز کیا گیا ہو۔ صرف ایک صورت میں اس کا امکان ہے اور وہ یہ کہ ان ایڈیٹر صاحب کی تعریف پر ٹوٹے اور اگر ان کے چند ایک ساتھیوں کے حق میں بھی خیر کاکوئی کلمہ ہوجائے تو سبحان اللہ۔ یعنی ہم معاشرت کے تعصبات سے بھی اسی وقت نکلتے ہیں جب ذات کا پرچم لہراناچاہتے ہوں۔ پھر یہ بات کراچی اور لاہور تک محدود نہیں، میں نے پشاور کے ایک پرچے میں بھی یہی کچھ دیکھا ہے۔ گویا ادیبوں کا’’ون یونٹ‘‘ ہی اس چیز کے خلاف ہے کہ تحریر میں کسی غیرسنجیدہ یا کم سنجیدہ بات کی آمیزش ہو۔ ویسے جغرافیائی جائزہ مکمل کرنے کے لیے عرض کردوں کہ مشرقی پاکستان سے بھی ایسی آوازیں آتی رہتی ہیں جوکہتی ہیں کہ ہم ایک ہی ملک کے دوحصے ہیں۔

    یہ مسئلہ انتظار حسین یا سلیم احمد یا میری یاکسی ایک آدھ آدمی کی تحریر کانہیں بلکہ مجھ سے پوچھیے تو کہوں گا کہ کم از کم انتظار حسین سے یہ گلہ نہیں ہونا چاہیے۔ کیونکہ ان کے یہاں کھلنڈرے پن کی ایک خواہش یا حسرت کے باوجود، ایک اس طرح کی سنجیدگی یا ثقافت ملتی ہے جو مولانا حالیؔ سے لے کر عبادت بریلوی صاحب تک پھیلتی چلی گئی ہے۔ مولاناحالیؔ کے یہاں ایسی نثراور شاعری تو مل جائے گی جسے پڑھ کر ہنسی آئے مگر وہ ہمارے ساتھ ہنستے ہوئے نظر نہیں آئیں گے۔ پھر بھی انہوں نے اپنی حدود میں رہ کر یہ بڑا کمال کیا کہ غالبؔ یا سعدیؔ جیسے اپنے سے مختلف آدمیوں کو سمجھنے اور ان سے حظ اٹھانے کی پوری کوشش کی۔ اگرچہ ان کے لفظوں سے غالبؔ یا سعدیؔ کی تصویر نہیں ابھرتی جس طرح کہ محمد حسین آزادؔ کے لفظوں سے دس بیس شاعروں کی زندہ تصویریں ابھرتی ہیں۔

    آزاد کے بارے میں آپ جانتے ہیں کہ آبِ حیات کے چھپتے ہی ایک غیرسنجیدہ غیرعلمی ’’خیالوں کے طوطے مینا اڑانے والے‘‘ کاتاثر قائم ہوگیا تھا مگر جیسے جیسے اردو ادب کی تاریخ ہم پر واضح ہوتی جاتی ہے۔ آب حیات کے مرقعوں کی صحت اور صلابت بھی ہمیں محسوس ہوتی جاتی ہے۔ آزاد نے جس طرح علم اور مشاہدے، تخیل اور زبان کو ملاجلاکر ایک مکمل تصویر معاشرتی پس منظر کے ساتھ کھینچی ہے اسی کانام ادب ہے اور اسی کانام تنقید بھی ہے۔ آزادکے سلسلے میں ایک اور بات آب حیات سے بھی زیادہ دلچسپی کی حامل ہے۔ اسے سننے سے پہلے یہ نوٹ کرلیجیے کہ اردو ادب میں طنز و مزاح کی کسی تاریخ یاجائزے میں ان کا یا ان کی کسی تحریر کا ذکر ابھی تک نہیں آیا۔ دوسرے یہ کہ انگریزی طنز کے بارے میں لکھتے ہوئے تقریباً ہر اچھے نقاد نے اٹھارویں صدی کے مورخ ایڈورڈگبن کو انگریزی زبان کاسب سے عمدہ نہیں تو نہایت عمدہ طنز نگار قرار دیا ہے۔ خصوصاً ان نقادوں نے جو میتھیو آرنلڈ صاحب کے اعلیٰ سنجیدگی والے تصور کے زیر اثرنہیں آئے۔

    اب دیکھیے دربار اکبری میں ملاں عبدالقادر بدایونی کا احوال۔ ملاں صاحب ایک دین دار بن کر ہمارے سامنے آتے ہیں۔ وہ اکبر کی مذہبی پالیسی کے خلاف جہاد بالقلم کا پرچم لہراتے ہیں۔ ابوالفضل اور فیضی کے خیالات و افکار کی تردید کرتے ہیں۔ اس عہد کی تاریخ لکھتے ہوئے ہر اس چیز کی مخالفت کرتے ہیں جو زمین کے اوپر اور آسمان کے نیچے ہے۔ ان کے مشاہدات اور دلائل میں کچھ صداقت بھی نظر آتی ہے، دین کہ ان کا معیار ہے ہماری نظر میں بھی محترم ہے۔ اس کے باوجود ان کو شیخ احمد سرہندی کا پیش رو کہنا بہت مشکل ہے۔ ان کی بات میں کسی خاص چیز کی کمی محسوس ہوتی ہے اور محمد حسین آزاد نے کچھ اس طرح ان کا نقشہ کھینچا ہے کہ آدمی اور عصر، مورخ اور تاریخ ایک ہوجاتے ہیں۔ شروع سے آخرتک کوئی ایسا فقرہ کیا لفظ بھی نہیں جو ان کی دینداری اور علم سے انکار پر دلالت کرتاہو۔ ساری بات اتنی ہمدردی، فہم اور تہذیب سے کہی گئی ہے کہ اختلاف کی گنجائش نہیں رہ جاتی۔ سارے مضمون میں کہیں ان کو تنگ نظر یا ظاہر پرست، خودغرض یا موقع پرست، شکست خوردہ اور یاس پرست نہیں کہا گیا مگر معنوں پر غور کیجیے تو شاید اردو ادب کی پوری تاریخ میں ایسی عمدہ طنزیہ تنقید یا شخصیت نگاری شاید ہی کہیں ملے، مہذب طنز کی اس سے اچھی مثال اردو ہی نہیں کسی بھی زبان میں کمتر دکھائی دے گی۔ اس کے باوجو دمحمد حسین آزاد کا اردو طنز کی تاریخ میں کہیں نام نہیں آتا کیونکہ دربارِ اکبری میں ہمارے نقادوں کو گمان تک نہیں گزرتا کہ طنز کاکوئی موقعہ یا کوئی گنجائش ہوسکتی ہے۔ تاریخ کو ہم لوگ ادب کی ایک شاخ نہیں سمجھتے اوراس میں چاہے وہ محمد حسین آزادکی لکھی ہوئی کیوں نہ ہو طنز کی کوئی ضرورت نہیں سمجھتے۔

    ایک طرف ہم ادب سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ کبھی غیرسنجیدہ بات نہ کرے یعنی دوسرے معنوں میں زندگی اور توانائی کا ثبوت ہی نہ دے اور دوسری طرف سنجیدہ نثر میں جو جو کمالات ہوئے ہیں ان سے بھی واقفیت رکھنا پسند نہیں کرتے۔ میں ایسے ادیبوں اور نقادوں سے واقف ہوں کہ حسرتؔ موہانی کی عشقیہ شاعری کو نصاب میں رکھتے ہوئے گھبراتے ہیں اور اپنے دور کی سنجیدہ تحریروں مثلاً مودودی کی نثر سے بھی یہ کہتے ہیں۔ دراصل انہیں ہر اس چیز سے دوری مطلوب ہے جو ان کو اپنی کابکوں سے باہر نکلنے پر مائل کرے یا کرسکتی ہو۔ چاہے وہ جدید ادب سے تعلق رکھتی یا قدیم ادب سے۔ میرؔ کو انہوں نے یاس پرست بناکے رکھ دیا ہے۔ غالبؔ کو مفکر اور اقبال کو پیغمبر۔ شیلے صاحب کی انسائیکلوپیڈیا آف ورلڈ لٹریچر میں اردو ادب پر جو مضمون ہے اس میں لکھا ہے کہ نظیر اکبر آبادی بچوں کا شاعر ہے۔ صرف نظیر پر کیا موقوف ہے ہمارے اساتذہ مکتب نے ہر شاعر کو بڑی عمر کے بچوں کاشاعر بناکے رکھ دیا ہے، بلوغتِ فکر و نظر سے ادب کا کوئی ربط ہی باقی نہیں رہنے دیا۔

    ہمارے کالجوں میں ادب اسی زاویے سے پڑھایا جاتا ہے کہ جسم یا ذہن میں ہلکا سا بھی ارتعاش پیدا نہ ہونے پائے۔ نصاب کی کتابیں اور مصنف اور دیوانوں کے اجزاء بھی اسی طرح درس میں شامل کیے جاتے ہیں اور طریقۂ تعلیم اس پر مستزادایک زمانہ تھا کہ ہمارے یہاں عربی اور فارسی ادب ایسے نہیں پڑھاجاتا تھا جیسے اب اردو ادب پڑھا یا جاتاہے۔

    اسی شہر لاہور کے ایک کالج میں ایک مولوی عبداللہ ٹونکی صاحب درس دیتے تھے جن سے پڑھنے شبلیؔ یہاں آئے تھے۔ ان کے زمانے میں جریرؔ اور فرزدقؔ کی باہمی ہجویات جو’’النقائض‘‘ کے نام سے موسوم ہیں درس میں شامل تھیں۔ ان ہجویات میں چند ایک الفاظ پر طالب علموں کواعتراض ہوا تو مولوی صاحب نے سمجھایا کہ آپ لوگ عربی زبان پڑھتے ہیں۔ اگر آپ کو یہ معلوم نہ ہوا کہ عرب کیسے گالی دیا کرتے تھے تو آپ کی زبان دانی مکمل نہ ہوگی۔ حیرانی ہے کہ کسی کالج کاپروفیسر ادب کے معاملے میں اتناوسیع القلب اوروسیع النظر ہو، پھر وہ بھی ایک مولوی۔ آج کل تو ہر بے ریش استاد تنگ نظری اوربے بصری میں کسی بھی بدنام مولوی سے میلوں آگے ہے۔ اب ادب میں ’’اعلیٰ سنجیدگی‘‘ نہ ہوگی تو اور کیا ہوگا؟ نظیرؔ اکبرآبادی اورغالبؔ اور داغ اور حسرتؔ موہانی تو اس زمانے میں نہیں ہوسکتے۔

    حیرت ہے کہ عربی والے تو جریرؔ اور فرزدقؔ پڑھیں، متنبیؔ اورابونواسؔ اور معریؔ کا مطالعہ کریں اور اردو والے نظیرؔ اکبر آبادی کو بچوں کاشاعر سمجھیں، باغی اقبالؔ کی بات نہ کریں، داغؔ اورحسرتؔ کو مخرب اخلاق قراردیں، سوداؔ کی ہجویات کو ہاتھ نہ لگائیں۔ ریختی کو زوال کی یادگار کہہ کے پس پشت ڈال دیں، باغ و بہارکاایک چوتھائی حصہ کاٹ کے پھینک دیں۔ کس لیے کہ ثقافت اس کی اجازت نہیں دیتی۔ ہمیں فیصلہ کرلینا چاہیے کہ ہماری قوم کو ثقاہت چاہیے یا ثقافت۔ ثقافت میں تو زندہ ادب ضرور آئے گا۔ جس کاایک بڑاحصہ ہم نے متروکات کے ضمن میں لکھ رکھا ہے۔

    اب جو لوگ مولوی عبداللہ ٹونکی کی مسند پر متمکن ہیں ان کی اخلاقیات میں بہت سی چیزیں جائز ہیں مگر مجمع عام سے ہٹ کر پڑھانا چونکہ کھلے بندوں پڑتا ہے اس لیے وہاں ان چیزوں کا گزر نہیں ہوسکتا جو خلوتِ استادی سے تعلق رکھتی ہیں۔ چلیے اگر اس کا مطلب یہ ہے کہ جعفر زٹلی کا کلام کلاس میں پڑھایا نہیں جاسکتا تو نہ سہی مگر یہ اصحاب تو غالبؔ کو حالیؔ اور حالیؔ کو اپنے جیسا بناکر دم لیتے ہیں۔ کیونکہ یہ لوگ تنقید بھی لکھتے ہیں اور ادبی بحثوں وغیرہ میں بھی شریک ہوتے ہیں۔ اس لیے اب یہ نظام تعلیم انہی کا نہیں، اردو ادب کا بھی دردِسر بن چکے ہیں۔

    ادب کو کابکوں میں تقسیم کرکے ادیبوں کو ان میں فٹ کرنا۔ ان اساتذہ ادب و تنقید کا مقصدِ حیات ہے۔ ان بزرگوں نے اپنی کتابوں، شاگردوں، حلقوں، دائروں اور امداد یافتہ اداروں کے ذریعے علمی کام کا ایک اتنا اونچا، پاکیزہ، سنجیدہ اور پست مذاتی سے مبرا معیار قائم کیا ہے کہ ادیب بچارا اس کے مقابلے میں سرکس کا بھانڈ بن کے رہ گیا ہے۔ اس بلندی، پاکیزگی اور سنجیدگی کی بنیاد ملکہ وکٹوریا کے زمانے کی دوہری اخلاقیات پر قائم ہے یا ہماری تہذیب کی وسعتِ قلب و نظر پر، اس کافیصلہ بڑی آسانی سے کیا جاسکتا ہے۔ اگر ان ہی لوگوں کے سامنے کسی غیردرسی ادیب کی اہمیت کا ذکر چھیڑا جائے یا محض ان کے ساتھ کسی کا نام ان کے سامنے لے دیا جائے تو ساری بلندی، سنجیدگی اور پاکیزگی پل بھر میں رخصت ہوجائے گی۔ شاید اسی اونچے معیار کی توقع وہ ادیبوں سے کرتے ہیں مگر سچا ادیب یوں کرنے لگے تو ایک سطر نہ لکھ سکے۔ یہ تو کچھ ان ہی بزرگوں کا جگرا ہے کہ کچھ بھی محسوس کیے بغیر لکھتے چلے جاتے ہیں۔

    ان بزرگوں کاتقاضا ہے کہ آپ طنز و مزاح لکھنے بیٹھیں یا اس قسم کا کوئی ارادہ یا خواہش آپ کے دل میں ہو تو پہلا مصرع یا پہلی سطر لکھنے سے پہلے عنوان یا انتساب یا کسی ذیلی سرخی کے ذریعے ہمیں بتادیجیے کہ آپ طنز و مزاح لکھنے جارہے ہیں۔ کیوں؟ تاکہ فیصلہ کرسکیں کہ اس تحریر کو کب اور کہاں پڑھا جائے او رپڑھا بھی جائے کہ نہیں۔ یہ نہیں کہ لکھنے تو آپ غالبؔ یا میرؔ پر بیٹھیں اور کوئی فقرہ ماردیں ہم پر یا حکومت کے کسی محکمے پر یا سرکاری امداد پانے والے کسی ادارے پر۔ گویا اردو تنقید میں طنزیہ مزاحیہ فقرے پر جو قدغن ان بزرگوں نے لگا رکھی ہے بہت سوچ سمجھ کر لگا رکھی ہے۔ ان کی خیریت اسی میں ہے کہ تنقید کی زبان سنجیدگی اور ثقافت سے مملو ہو۔ اساتذہ تو خیر ہوئے، جناب جمیل الدین عالیؔ بھی کہتے ہیں کہ سلیم احمد اچھا خاصا جدید شاعری پر لکھتے لکھتے فیملی پلاننگ کی گولیوں کو بیچ میں لے آتے ہیں۔ گویا تنقید صرف ادب کے ظاہری پہلوؤں پر ہوتی ہے۔ اس کے معنوں یا معنوں کی وساطت سے زندگی پر نہیں ہوتی۔

    چلیے تنقید کا زندگی سے کوئی ربط نہیں، پھر بھی ادب تو اس کاموضوع ہے ہی۔ جب ادب کی روایت میں سنجیدگی اورثقاہت، طنز اور مزاح کے ساتھ ہم بغل ہوکر ہمارے سامنے آتی ہے تو تنقید میں اس کا عکس کیوں کر نہ آئے گا۔ تنقید، ادب کی بجائے عمرانیات، معاشیات، نفسیات، تاریخ اور فلسفے وغیرہ کی ایک شاخ سہی پھر بھی ہر تحریر کا اسلوب اس کے موضوع سے متعین یا پیوست ہوتا ہے۔ ادب میں تو یہ کچھ ہو اور تنقید میں کچھ بھی نہ ہو۔ اس کامطلب تو یہ ہوا کہ تنقید میں ادب کا پرتو بھی موجود نہیں اور اگر واقعی ایسا ہونا ضروری ہے تو پھر ادب سے اس کا کیا تعلق؟

    بات کچھ یوں ہے کہ تخلیقی ادب کی طرح ادبی تنقید بھی زندہ اور مردہ دوقسم کی ہوتی ہے۔ جس تنقید کا پرچم سنجیدگی اور ثقاہت کانام لے کر بلند کرنے کی کوشش کی جاتی ہے وہ مردہ تنقید ہے۔ تنقید میں اس چیز کو کیسے حرام کیا جاسکتا ہے جس کانام ان لوگوں نے فقرے بازی رکھ چھوڑا ہے جب کہ اردو تنقید کی ابتدا اسی قسم کی فقرے بازی سے ہوتی ہے۔ غزلوں کے مقطعے، محفلوں میں کسے ہوئے فقرے اور تذکروں إ میں کی ہوئی چھیڑ چھاڑ۔ کیا اردو تنقید کا آغاز ان سے نہیں ہوا تھا؟ میرؔ یا غالبؔ کی تنقید میں کسی چیز کی کمی تھی تو اس کانام تجزیہ ہے۔ یہ تجزیہ بھی بہرحال کیمیاوی تجزیے سے مختلف چیز ہے۔ لیبارٹری میں آپ کے مزاج اور جذبات کا کوئی مصرف نہیں کیونکہ اس سے تجزیے میں کوئی مددنہیں مل سکتی مگر کسی ادب پارے، کسی ادیب، کسی ادبی دور کاتجزیہ اس قسم کا تجزیہ نہیں ہوتا کہ نقاد کے مزاج اور جذبات سے اس میں کوئی مدد نہ مل سکے۔ ہم تنقید کو کیمسٹری نہیں بناسکتے۔ کیونکہ تنقید کاموضوع، یعنی ادب اور زندگی، کسی کیمیاوی مرکب کا نام نہیں۔

    جناب احتشام حسین، وقار عظیم، آل احمد سرور، ممتاز حسین، مجتبیٰ حسین، عبادت بریلوی بلکہ جناب عابد حسن منٹو تک یعنی ترقی پسند تنقید کے سب چھوٹے بڑے، کوئی ایسا فقرہ نہیں لکھتے کہ پایۂ ثقاہت سے گراہوا ہو۔ کوئی ایسا شعر بھی کسی استاد کا درج نہیں کرتے کہ اس درجے کے فروتر ہو۔ ان کی گفتگو میں متانت اور لیے دیے رہنے کا جو انداز پایا جاتا ہے وہ ان کو ہماری نظروں میں قابل صد احترام بنادیتاہے۔ دیکھیے کتنے شائستہ بزرگ ہیں، ان کے مقابلے میں تو شبلیؔ اور محمد حسین آزادؔ بھی پھکڑ معلوم ہوتے ہیں۔ فراق گورکھ پوری، کلیم الدین احمد اور محمد حسن عسکری اس پائے کونہیں پہنچتے کہ وہ بھی کبھی چوک جاتے ہیں۔ سلیم احمد اور انتظار حسین اور مظفر علی سید کاتو ذکر نہ کیجیے، خصوصاً جب کہ ان سب لوگوں کے لیے ایک کابک ’’نئی نسل‘‘ کے سائن بورڈ کے ساتھ تیار ہوچکی ہے جس میں ان کے ساتھ کچھ ہندوستانی پاپیوں جیسے وحید اختر، خلیل الرحمن اعظمی وغیرہ کو بھی بند کیا جائے گا۔ یہ سب لوگ اپنے آپ کو تخلیقی فن کار سمجھتے ہیں (یوں تو احتشام صاحب بھی خود کو افسانہ نگار سمجھتے تھے مگر یہ مثال بے موقع ہے) ان کو نقاد کہنا تنقید کی تذلیل ہے۔ یہ لوگ تنقید کے نام پر جو کچھ لکھتے ہیں وہ تنقید نہیں کہی جاسکتی۔ تنقید میں ہلکی پھلکی نثر لکھنا کیا معنی؟ تنقید میں زٹل بھگار نے کی کیا گنجائش؟ ان میں سے ایک آدھ تو تنقید میں فحش نگاری پر اترآتے ہیں۔ کیا فرماتے ہیں مصلحین۔ قوم بیچ اس مسئلے کے؟

    ابھی تو منٹو اور عصمت بھی ہمارے امتحانی ادب کے نصاب میں جگہ نہیں پاسکے حالانکہ انہوں نے جو کچھ پست مذاقی کی افسانے میں کی جس میں چونکہ اہل تدریس ان کے حریف نہیں، اس لیے بات رفت گزشت کہنے کی ہے۔ اور یہ لوگ جو تنقید میں کالی شلواریں اور لحاف لہراتے ہوئے پھرتے ہیں، اردو تنقید کی عصمت کے لیے ایک خطرہ ہیں۔ ہم نے اپنے طالب علموں کو ہدایت کر رکھی ہے کہ مسلم الثبوت نقاد کی لکھی ہوئی تحریر کے سوا جسے تنقید کہتے ہیں اور کچھ نہ پڑھاجائے۔ اب تو خدا کے فضل، ناشروں کے کرم اور امدادی اداروں کی برکت سے اس کا بھی انتظام ہوگیا ہے کہ طالب علموں کو میرؔ اورغالبؔ پڑھنے کی زحمت نہ اٹھانی پڑے۔ ان کے بارے میں ہماری کتابیں مارکیٹ میں آچکی ہیں جن میں اتنی جامعیت اور اتنا توازن ہے، اتنی سنجیدگی اور پاکیزگی ہے کہ طلبا و طالبات ان کو جوشاندے کی طرح پی کر تمام امتحانی سوالوں کا، جو ہم خود بناتے ہیں، کافی وشافی جواب دے سکتے ہیں۔

    مأخذ:

    ادب لطیف،لاہور (Pg. 33)

      • ناشر: دفتر ماہنامہ ادب لطیف، لاہور
      • سن اشاعت: 1963

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے