Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

تنقید ہماری کس ضرورت کو پورا کرتی ہے

مظفر علی سید

تنقید ہماری کس ضرورت کو پورا کرتی ہے

مظفر علی سید

MORE BYمظفر علی سید

    ہمارے زمانے میں تنقید اور نقادوں سے بے مثال بے اطمینانی پائی جاتی ہے اور محبت بھرے گلے شکووں سے لے کر انتہائی جارحانہ قسم کی بیزاری کا اظہار اردو تنقید کے سلسلے میں کیا جاتا ہے۔

    اگر آپ آنکھیں اور کان رکھتے ہیں اور اردو تنقید کے بارے میں جو کچھ لکھا اور لکھنے سے زیادہ کہا جاتا ہے۔ اس سے ناواقف نہیں ہیں تو آپ اس صورتِ حال سے مطمئن نہیں ہوسکتے چاہے اس عام بے اطمینانی سے متفق ہوں یا نہ ہوں۔ اس کیفیتِ عامہ کا باعث کچھ بھی ہو، ہمارے نقادوں کی خطائیں یا ہمارے ادیبوں، شاعروں کی مجبوریاں، ہماری نشر و اشاعت کا نظام یا ہمارے معاشرے کا تار و پور، دیکھنے کی بات یہ ہے کہ اس بے اطمینانی کی حدود کیا ہیں۔ اور کہیں یہ بے اطمینانی اردو تنقید کی موت کاپیش خیمہ تو نہیں۔

    ابھی میں نے تنقید کی بات کرتے کرتے اسے اردو تنقید سے مخصوص کردیا ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ انگریزی زبان میں لکھی ہوئی تنقید سے کوئی ایسی بے اطمینانی پیدا نہیں ہوتی۔ کلیم الدین احمد صاحب نے کوئی پندرہ ایک برس پہلے ’’اردو تنقید پر ایک نظر‘‘ کے نام سے ایک کتاب لکھی تھی جس میں انہوں نے اردو تنقید سے بیزاری کااظہار، انگریزی تنقید کے حوالے سے کیا تھا۔ اس قسم کا کوئی اندازِ نظر ہمارے یہاں تھا تو اب نہیں ہے۔ یہ نہیں کہ ایسے لوگ ہمارے ملک میں نہیں پائے جاتے جو انگریزی تنقید پڑھ کر الحمدللہ اور اردو تنقید کانام سن کرلاحول پڑھتے ہوں۔ مگر ایسے لوگ اب اردو تنقید کیا اردو ادب ہی سرے سے نہیں پڑھتے بلکہ انگریزی میں بھی فقط تنقید ہی پڑھتے چلے جاتے ہیں۔ پھر ابھی سے ان کی تعداد تبرکات ونوارد کے برابر ہوتی جاتی ہے تو آئندہ کے بارے میں ان سے کیا پریشان ہوا جائے۔

    ویسے ہر ملک اور ہر زبان کے تقریباً ہردور میں تنقید کو شک و شبہ کی نظر سے دیکھا جاتا رہا ہے اور انگریزی زبان میں جو پچھلے پچاس ساٹھ برس سے تنقید طوفانِ نوح کی طرح آرہی تھی تو اس کامقابلہ کرنے کو وہاں کے ادیب و شاعر بھی ہمت سے بند باندھنے کی کوشش میں مصروف ہیں مگر ان کی جدوجہد ذرا فاعلانہ قسم کی ہے یعنی وہاں کے ادیب و شاعر عمدہ اورنفیس قسم کی تنقید لکھتے ہیں اور ہمارے یہاں کے ادیب و شاعر محض بے اطمینانی کا راگ الاپتے ہیں۔

    اس راگ کے چند ایک سُر تو ایسے ہیں کہ ہر ملک اور ہر زبان کے تقریباً ہر دور میں سنے گئے ہیں۔ مثلاً یہ کہ تنقید نگاری بیکاروں کامشغلہ ہے، بگڑے شاعر تنقید نگار بن جاتے ہیں۔ تنقید ایک غیر دلچسپ، غیر تخلیقی، بے اسلوب تحریر کانام ہے۔ علیٰ ھذا القیاس۔ مگر ہمارے یہاں کی بے اطمینانی میں کچھ دیسی تانیں بھی پائی جاتی ہیں۔ اس وقت یہی دیسی تانیں میرا موضوع ہیں۔

    سب سے پہلے اس بے اطمینانی کی حدود متعین کرنا ضروری ہے۔ یہ جذبہ اردو تنقید اور موجودہ نقادوں کو بہت پیچھے چھوڑ کر خود تنقید کے لفظ تک جاپہنچا ہے۔ چنانچہ ہمارے زمانے میں اس لفظ کے معنیٰ جانچنے اور پرکھنے کے نہیں رہے، بلکہ یہ لفظ ہماری عام بول چال سے لے کر ادبی گفتگو اور تحریر تک میں نکتہ چینی اور خوردہ گیری کے معنوں میں استعمال ہونے لگا ہے۔ عام لوگوں اور ادیبوں شاعروں کے علاوہ یہ لفظ ان معنوں میں، ارباب سیاست اور اربابِ صحافت کی زبان و قلم سے بھی اکثر نکلتا رہتا ہے۔ ہم دن رات سنتے ہیں کہ ’’تنقید دورِ غلامی کاورثہ ہے‘‘ ۔ ’’تنقید کرناآسان ہے اور تخلیق کرنا مشکل‘‘ ۔ ’’تنقید تعمیری ہونی چاہیے نہ کہ تخریبی‘‘ ۔ آپ کو تنقید کرنے کا حق حاصل ہے‘‘ ۔ ’’میں تنقید کی کوئی پروا نہیں کرتا‘‘ ۔ ’’نقاد عیب جوئی کرتے ہیں اور خود کوئی کام نہیں کرتے‘‘ ۔ ان سب فقروں میں فرض کرلیا گیا ہے کہ تنقید کے معنیٰ جانچنے اور قیمت لگانے کے نہیں ہیں بلکہ ذرا ذرا سے قصور پر واویلا مچانے اور دوسروں کی آنکھ میں شہتیر دیکھنے کو تنقید کہتے ہیں۔

    اس کی وجہ یقیناً کوئی نفسیاتی خوف ہے جو ہمارے ارباب سیاست سے لے کر اربابِ شعر و ادب تک کو لاحق ہوچلا ہے۔ اس لیے کہ نقاد اگر نکتہ چینی کے سوا کام نہ کرسکے تو اسے نظرانداز کردینا ہی کافی ہے۔ غالب کا مشہور مصرع ہے،

    نکتہ چیں ہے غم دل اس کو سنائے نہ بنے

    نقاد اگر نکتہ چیں ہوتے تو شاعر حضرات کبھی ان کو غمِ دل نہ سناتے اور سب جانتے ہیں کہ صورت حال یہ نہیں ہے۔ تنقید کو نکتہ چینی یا خوردہ گیری قرار دینا ہمارے ان اربابِ سیاست اور اربابِ علم و ادب کا دستور ہے جو اپنے بارے میں انصاف کیے جانے سے ڈرتے ہیں اور پیش بندی کے لیے کبھی تنقید کو دورِغلامی کا ورثہ قرار دیتے ہیں اور کبھی اس کی تخریبی اور تعمیری دوقسموں میں بانٹ کر ہر تنقید کرنے والے کو تخریب پسند قرار دے کر دل کابخار نکال لیتے ہیں۔ ان سے اگر کوئی پوچھے کہ تعمیری تنقید کیسی ہوتی ہے اور اپنے کس نکتہ چین کو آپ اس صفت سے متصف قرار دیتے ہیں تو شاید کوئی جواب نہ دے سکیں۔

    تنقید کا مفہوم اگر محض عیب جوئی، نکتہ چینی اور خوردہ گیری ہے تو کوئی بھی اہم کام کرنے والے کسی شخص کو اس سے خائف ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ اہم کام کرنے والوں سے اکثر یہ سلوک اہل دنیا نے کیا ہے اور اکثر وہ اس سلوک پر پچھتائے ہیں۔ اور اگر تنقید سے مراد کسی چیز یا کسی کام کو جانچنا، پرکھنا اور اس کی قدر و قیمت متعین کرنا ہے تو یہ مشغلہ تخریبی کبھی نہیں ہوسکتا۔ اگر کوئی اس کام میں غلطی کرتاہے تو وہ خود بھی جانچا اور پرکھا جاسکتا ہے اور اگر آپ اس جانچ پرکھ میں کم قیمت ثابت ہوتے ہیں تو پرکھنے والے کو کیا دوش۔

    اس موقعے پر اپنے ایک تین سال پرانے مضمون سے ایک ٹکڑا نقل کرنے کی اجازت دیجیے۔

    ’’ہماری زندگی کی طرح ہمارے ادب میں بھی زرِ خاصل عیار کی بے حد کمی ہے۔ وہ جو کہتے ہیں کہ ادب زندگی سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا تو شاید اس لیے کہتے ہیں کہ زندگی میں کھوٹ ہوگا تو ادب سوفی صدی کھرا نہیں ہوسکتا۔ آپ کہیں گے ادب قوم کاضمیر ہوتا ہے۔ بالکل ٹھیک ہے مگر اس میں ایک دشواری ہے۔ جس طرح ہمارے انفرادی ضمیر کی آواز کبھی خاموش ہوجاتی ہے اور کبھی ہم اپنے ہمزاد کو بہلاپھسلا کر اپنے ڈھب پر لے آتے ہیں یا کسی باہر کی آواز کو ضمیر کی آواز سمجھ بیٹھتے ہیں، بعینہ اسی طرح قوم کا ضمیر یعنی ادب بھی کبھی بے حد اور جامد اور کبھی خود فریبی کا شکار ہوجاتا ہے۔ اس صورتِ حال کا صرف ایک علاج ہے اور وہ ہے اپنا محاسبہ، اپنی شخصیت اپنے ادب اور اپنی قوم کو مختلف زاویوں سے دیکھنااور پرکھنا۔ اسی کو تنقید کہتے ہیں جو ادب کاضمیر ہے۔ جب ادب میں کھوٹا کھرا مخلوط ہوگیا تو یہ تنقید کا تیزاب ہی ہے جو دونوں کو الگ کرسکتا ہے۔ اس لحاظ سے ہم اس کو ’’ضمیر اندرضمیر‘‘ کانام بھی دے سکتے ہیں۔ (کھوٹا کھرا، مطبوعہ شعر کراچی نمبر۷)

    یہ تو ہوئی لفظ تنقید کی بات۔ اس کے علاوہ تنقید کے منصب اور فریضے کے بارے میں بھی اچھی خاصی بے اطمینانی پائی جاتی ہے۔ ابھی ان شاعروں ادیبوں کاتذکرہ ہوچکا ہے جو کہنے کو تو نقادوں کو نکتہ چیں کا لقب عطا فرماتے ہیں مگر غمِ دل بھی انہیں کو سنانے جاتے ہیں۔ ہمارے اربابِ اختیار کی طرح کئی ایک ادیبوں شاعروں کا بھی یہ وطیرہ ہوگیا ہے کہ ہر اس شخص سے جو ان کے کام پر رائے زنی کی ذرا سی اہلیت رکھتا ہے یہ توقع رکھتے ہیں کہ ہر وقت اور ہر لحظہ انہیں کی تعریف و توصیف قلم بند کرتا رہے۔ جبھی وہ تعمیری تنقید کافرض انجام دے سکتا ہے۔ گویا لے دے کے ہمارے زمانے میں نقاد کا یہ کام رہ گیا ہے کہ ادیبوں کی پبلسٹی کرتاپھرے۔

    جس طرح ہر بڑی سیاسی شخصیت کے ساتھ ایک عدد پبلک ریلیشنز آفیسر لگا ہوتا ہے اسی طرح ہر ادیب و شاعر کے ساتھ ایک ایک نقاد بھی چپکا ہونا چاہیے جو محل بے محل اُن کا بگل بجاتا پھرے۔ شاید ہمارے زمانے کے نقاد یہ فرض بھی انجام دے لیتے اور چند ایک نے اس کی کوشش بھی کی ہے مگر دقت یہ آں پڑی کہ اس مملکتِ خدا داد کا ہر تیسرا متنفس خود کو (اور فقط خود کو) ادیب و شاعر سمجھتا ہے اور اپنے ساتھ غالبؔ و اقبالؔ سے کمتر درجے کے کسی آدمی کانام دیکھ سن نہیں سکتا اس لیے نقاد بچارا کہاں تک تعمیری تنقید کرے۔

    دوسرے یہ تقاضا توآپ کسی ہمہ وقت مصاحب ہی سے کرسکتے ہیں جب کہ ادیب و شاعر بچارے نوحہ گر کی طرح نقاد کو بھی ساتھ رکھنے کا مقدور نہیں رکھتے۔ یہ کام ان کے ناشر کرسکتے تھے اور چند ایک نے یہ کوشش بھی فرمائی مگر بھلے وقت میں کسی نے ان کے کان میں یہ بات ڈال دی کہ ایسا کوئی نقاد اردو زبان میں نہیں جس کے منہ سے خیر کا کلمہ نکلنے کے بعد کسی کتاب کی بِکری میں کوئی اضافہ ہوسکے۔ پھر بھی جو دیباچے اور کتابوں کے سرورق اور اشتہاروں پر چھاپے ہوئے سرٹیفکیٹ آپ کو نقادوں کے قلم سے لکھے ہوئے نظر آتے ہیں اسی تنقیدی منصب کو پورا کرتے ہیں۔ اصل میں ادیبوں شاعروں کو یہ گلہ نہیں ہوناچاہیے تھا کہ نقادوں نے ان کے حق میں کوئی کلمۂ خیر نہ کہا، گلہ یہ ہونا چاہیے تھا کہ خیر کے بہت سے کلمے جمع کرنے کے بعد بھی خیر نہ ہوئی۔ یوں کہتے تو اس نتیجے پر پہنچ سکتے تھے کہ بے جان ادب کی تعریف اور تنقیص دونوں سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔

    ابھی کچھ دن ہوئے میرے ایک شاعر دوست نے بڑے افسوس کے لہجے میں مجھ سے فرمایا کہ (اردو ادیبوں کی) نئی نسل کو کوئی نقاد نہیں ملا۔ ہرچند کہ مجھے شک پڑا تھا کہ روئے سخن بندے کی طرف ہے جس سے کچھ اس قسم کی غلط سلط توقعات چند ایک غیر معروف اور نئے لکھنے والوں کے دل میں کبھی پیدا ہوئی تھیں مگر میں اس حسرت بھری خبر کے اسباب جاننے میں مگن ہوگیا تھا اس لیے کچھ عرض نہ کرسکا۔ اس کے بعد یہی خبر چند ایک اور نئے لکھنے والوں اور پرانے چھاپنے والوں کی زبان سے سنی تو یہاں درج کرنے کے بعد عرض کرتا ہوں کہ یہ بھی وہی پبلسٹی کاچکر ہے۔ ہم اس بات کے عادی ہوگئے ہیں کہ نقاد اپنے ہمعصر ادیبوں میں سے چند ایک کو چھانٹ کر ان کو بانس پر چڑھاتا ہے اور اٹھتے بیٹھتے بھی انہیں کے ذکر سے محفلیں گرم کرتا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ یہ عادت کیسے اور کب سے پڑی۔ کیا یہ تنقید کا ازلی اور ابدی منصب ہے یا کسی خاص وقت ضرورتاً ایجاد کرلیاگیا تھا۔ میرے خیال میں اس کی ضرورت اس زمانے میں پڑی تھی جس کو کبھی ترقی پسند ادب کا دور کہا جاتا ہے اور کبھی نئے ادب کا دور۔ جس میں چند ایک ایسے لوگ بھی شامل ہیں جو ترقی پسند تحریک کاجزو نہ تھے یا اس سے جدا ہوگئے تھے۔ اس زمانے میں ایسے نقاد پیدا ہوئے تھے جو اپنے قریب کے شاعروں اور افسانہ نگاروں یا زیادہ سے زیادہ اپنے حلقے اور دائرے کے ادیبوں کی مدح و ثنا فرماتے تھے اور ان کی الجھی ہوئی تحریروں کو تشریحی تنقید کے ذریعے سلجھانے کی کوشش کیا کرتے تھے۔ اس کام میں انہوں نے کسی حدتک غیرجانبداری اور وسیع القلبی کا ثبوت فراہم کرنے کی کوشش بھی کی مگر ان کی زیادہ تر مدح و ثنا اپنے خویشوں تک محدود رہی۔ اس دور میں ادیبوں اور شاعروں نے اپنی تخلیقات میں جو بے اعتدالیاں روارکھیں اور جو نقادوں کی شہ پاکر بے لگام ہوئے تو کسی نقاد کو توفیق نہ ہوئی کہ ان کو ٹوکے اور اپنی تخلیقی قوتوں کو ضائع کرنے او رغلط راہوں پر لگانے سے انہیں روکے۔ روک ٹوک کا کام انہوں نے ملاّؤں اور ایڈیٹروں پر چھوڑ دیا جو محض روکتے ٹوکتے ہیں سمجھتے سوچتے ذرا کم ہیں۔ چنانچہ احتشام حسین اور وقار عظیم، مجنوں گورکھپوری اور میراجی اس زمانے کے ادیبوں شاعروں کے پیچھے پیچھے چلتے نظر آتے ہیں اور روکتا کون ہے۔ مولانا اختر علی تلہری، نیاز فتحپوری اور ماہرالقادری۔

    اس دور کے بعد کامیاب نقاد کی ایک تصویر ہمارے ادیبوں شاعروں کے ذہن میں جاگزیں ہوگئی ہے، کامیاب نقاد وہ ہے جوادیبوں شاعروں کے قافلے میں گھنٹی بجانے کا فرض ادا کرے۔ اگر کسی نے دبی زبان سے کوئی گلہ شکوہ کیا بھی تو اس نقار خانے میں اس کی آواز کون سنتا اور آلِ احمد سرور نے تو آپ جانتے ہیں نئے چراغوں کی روشنی اور چراغ تلے کااندھیرا بہت بعد میں دیکھا جب کہ روکنے ٹوکنے کا وقت گزرچکا تھا۔ چنانچہ دیر میں آنے والوں کو بھی بالفرض جلد یا بدیر انجام دینا پڑا، عبادت بریلوی ہوں یا ممتاز حسین۔ اب اس دور کاکوئی نقاد اس درر کی بے اعتدالیوں اور بے لگامیوں کا گلہ کرتا ہے تو یوں لگتا ہے کہ سانپ نکل جانے کے بعد لکیر پیٹ رہا ہے۔

    اب اگر نئے اردو ادیب بھی بیس پچیس برس پہلے کے ادیبوں کی طرح اپنے زمانے کے نقادوں سے یہی تقاضا کرتے ہیں تو بے وقت کی راگنی کی فرمائش کرتے ہیں، ہاں اس میں شک نہیں کہ پرانے نقادوں نے جو پچھلے دور کا ماتم شروع کرکے نئے دور سے چشم پوشی کر رکھی ہے اس حد تک کہ نئی کتابوں کی رسید تک نہیں دیتے، یہ وطیرہ کوئی نیا نقاد برتے تو محض پرانے دور کا ردِّعمل ہوگا۔ یہ کوئی ضروری نہیں کہ نئے نقاد ہر نئی تحریر کی تنقیص ہی کریں کیونکہ پہلوں نے تعریف و توصیف میں مبالغہ کیا تھا مگر اس نئے زمانے میں تنقید وہی پرانا، گھنٹی بجانے کا منصب انجام دے یہ تنقید کے مقصد و مفہوم سے بے خبری بھی ہے اور اپنے عہد کے ادب کی ضرورتوں سے بھی ناواقفی کاثبوت۔

    یہ جاننا ادیبوں، شاعروں کے لیے بھی ضروری ہے اور نقادوں کے لیے بھی کہ ہمارے زمانے کا ادب کس دردِسر میں مبتلا ہے، ہم اس معاشرے میں کیا کرنا چاہتے ہیں اور ہماری منزل کدھر ہے۔ اس دردِسر اور اس تلاش میں تعریف و توصیف باہمی کی کچھ زیادہ گنجائش نہیں ہوسکتی کیونکہ ہمیں معاشرے کی روح تک اترناپڑرہا ہے اور اتنی گہرائی میں جانے کی ضرورت ہو تو سطحی پبلسٹی کوئی مرحلہ آسان نہیں کرسکتی۔ ہم سے پچھلے دور کے ادیب معاشرے کی روح میں نہیں اترسکے، جن معنوں میں غالبؔ اور میرؔ، حالیؔ اور اقبالؔ اس معاشرے کی روح میں جاری و ساری ہوچکے ہیں۔ انہوں نے یہ کام کسی قسم کی پبلسٹی سے بے نیاز رہ کے کیا تھا اور یہ کام ایسے ہی ہوتا آیا ہے، ایسے ہی ہوگا، چاہے زمانہ قلمی نسخوں کا ہو یا صحافت اور ریڈیو اور ٹیلی ویژن کا۔ اب بھی جن ملکوں میں ادب یہ کام سرانجام دے رہا ہے، نشر و اشاعت کے سب وسیلوں کو برتنے کے باوجود اِن سے اوپر اُٹھ کے انجام دے رہا ہے۔

    اس ساری بات کا ماحصل یہ نہیں کہ تنقید میں جو کچھ ہو رہا ہے ٹھیک ہو رہا ہے اور افسانہ، ناول اور شاعری میں جو کچھ ہو رہا ہے غلط ہو رہا ہے۔ ہمارے زمانے کی تنقید میں کئی ایک خرابیاں ہیں جو صرف پرانے نقادوں کی دین نہیں۔ ایسے ہی جیسے ہمارے موجودہ ادب کی بے اعتدالیاں ہمارے اپنے زمانے کی بے اعتدالیا ں ہیں۔ میں اپنے ہمعصر ادیبوں اور شاعروں سے یہ تو کہتا ہوں کہ جو نقاد آپ کانام نہیں لیتا، آج سے پہلے کے کسی شاعر ادیب پر قلم اٹھاتا ہے، کسی تنقیدی یا ادبی مسئلے پر بات کرتاہے اسے اپنا اور ادب کا دشمن تصور نہ کریں مگر ساتھ ہی یہ بھی کہتا ہوں کہ ایسے نقاد ہر دور اور ہر زبان میں ہوئے ہیں جو ماضی پرستی کی تبلیغ کرتے ہیں، جو ہر مردہ مصنف کو ہر زندہ مصنف سے بدرجہا بہتر سمجھتے ہیں، جو جس زبان میں لکھتے ہیں اسی میں چھید کرتے ہیں۔

    ہمارے زمانے میں بھی کئی ایک نئے نقاد ایسے ملیں گے جو کج مج بیانی اور چہ می گوئی کا اسلوب اختیار کرکے خدا جانے کس کس ملک اور زبان کے کون کون سے فلاسفہ اور ماہرین نفسیات کے اقوال زریں کے تصادم میں پس کر رہ جاتے ہیں۔ ادیبوں اور شاعروں کی تازہ خیالی اور شگفتہ نگاری کو ایسے نقادوں کی بقراطیت سے کبھی کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا۔ ایسے نقادوں کی تعریف سے خوف کھانا اور تنقیص پر بغلیں بجانا ہر ہوش مند فنکار کا فرضِ اولین ہے۔ علم و دانش کے ایسے مظاہروں سے تخلیقی فن کاروں نے ہمیشہ لطف و ظرافت کے پہلو نکالے ہیں اور یہی ان کا مصرف ہے۔ یہی اُن کا منصب۔

    شاید اسی طرح کی بقراطی تنقید کو سامنے رکھ کر جناب انتظار حسین نے ’’ادبِ لطیف‘‘ کی اداریت سنبھالتے ہی اعلان فرمایا ہے کہ اس پرچے میں علمی تنقید نہیں چھپے گی مگر سوال یہ ہے کہ کج مج بیانی اور چہ می گوئی قسم کی تنقید اظہارِ علم کا مظاہرہ تو ہے، علمی تنقید اسے کیسے کہاجاسکتا ہے۔ غالباً علمی تنقید سے انتظار صاحب کی مراد ایسی تنقید ہے جو اساتذۂ ادب ماضی کے ادبی کارناموں کے بارے میں لکھتے ہیں۔ مگر اس میں کیا خرابی ہے؟ ادب کا ہر نیادور پرانے ادب کو دیکھنے کا ایک نیا زاویہ نکالتا ہے اور بے شک یہ نیازاویہ عالم نقادوں کے پاس نہ ہو (اور ہو بھی کیسے سکتاہے؟) مگر علماء کاعلم۔ اس نئے زاویے کو نکالنے میں مدد گار ضرور ہوسکتا ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ اکثر علمائے تنقید درسی موضوعات سے آگے نہیں جاتے اور اردو کے شاید ہی کسی ایسے شاعر یا ادیب کو اپنی توجہ کا مرکز بناتے ہوں جو خود ان کی توجہ سے نصاب کا حصہ نہیں بنا۔ پھر بھی ہماری زبان کے چند ایک اہم ستونوں مثلاً میرؔ، حالیؔ، شبلی وغیرہ پر ان میں سے بعض کا کیا ہوا نیم تاریخی نیم ادبی کام ہمیں معلومات کاایک قابل اعتبار مجموعہ دے سکتا ہے۔ ایسا مجموعہ جسے بنیاد بناکر ہم ماضی کے حال کے آئینے میں دیکھ سکتے ہیں۔

    اس میں کسے کلام ہوگا کہ ہر نئی حکومت کی طرح ہر رسالے کے ایڈیٹر کو بھی حق پہنچتا ہے کہ اپنے اور دوسروں کے لیے ایک نیا دستور وضع کرے یا نیا قانون تخلیق کرے۔ کسی عدالت میں اس حق کو چیلنج نہیں کیا جاسکتا سوا اس تحریری عدالت کے جسے تنقید کہتے ہیں۔ جس طرح ادب و شعر کے میدان میں جھوٹے سچے ہر طرح کے ادیب پائے جاتے ہیں اور جعلی کو اصل سے ممیز کرنا ضروری ہے۔ اسی طرح سچے علم کو جھوٹے علم سے الگ کرنا بھی لازم ہے۔ ہماری تہذیب نے ہمیں علم کا احترام کرنا سکھایا ہے نہ کہ جعلی علم سے بیزاری کی بناپر خود علم ہی سے مایوس ہوجانا۔ یہ الگ بات ہے کہ عموماً جس چیز کو ’’علمی تنقید‘‘ کہا جاتا ہے وہ نہ تنقید ہوتی ہے نہ علمی۔ اگر ایسی تنقید کو آپ ادب کے دائرے سے نکال باہر کرناچاہتے ہیں تو بڑا نیک کام ہے مگر احتیاط لازم ہے کہ اس کے ساتھ حقیقی علم بھی رخصت نہ ہوجائے اور اپنی جگہ علم دشمنی اور ظلمت پرستی کے بھوت نہ چھوڑ جائے جو جعلی علم سے کم خطرناک نہیں ہوتے۔

    پہلے یہ بات ہوچکی ہے کہ ہم سب اپنی قوم کی روح میں اترناچاہتے ہیں، یہ کوئی آسان کام نہیں مگر ہم سے پہلے بھی کچھ لوگوں نے یہی کام کرنے کی کوشش کی ہے اور اس بات کی بھی سعی کی ہے کہ یہی روح ان کی تخلیق میں منتقل ہوجائے۔ ان کے ادبی کارناموں کا مطالعہ کرنا اور اس مطالعے کے ذریعے اپنے مسائل کا فہم اور بصیرت پیدا کرنا ہر اس آدمی کافرض ہے جو ادب، شعر یا تنقید سے کوئی بھی ربط رکھنا پسند کرتا ہے۔ اس روح کو ہمارے عالم نقادوں نے ’’روایت‘‘ کانام دیا ہے اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ تنقید کا منصب ہے روایت کو آج کے ادب سے مربوط کرنا۔ دقت صرف یہ ہے کہ اس’’روایت‘‘ کی حدیں زیادہ دور تک نہیں جاتیں، زبان و مکاں دونوں کے اعتبار سے۔ جو عالم نقاد روایت کی بات کرتے ہیں فقط اردو ادب کے حوالے سے کرتے ہیں اور ہندوپاکستان کے حوالے سے کرتے ہیں۔ فارسی، عربی اور دوسری ہندو پاکستانی زبانوں سے وہ بہت کم سروکار رکھتے ہیں اور اس کے علاوہ ہندوپاکستان کی سرزمین سے اِدھر اُدھر اس روح کی تلاش میں سرگردانی پسند نہیں کرتے۔ عالموں اور عاقلوں کی یہ دانش مندانہ پالیسی بھی کوئی نئی چیز نہیں اور خود کو خودساختہ حدود میں مقید کرنا بھی علمائے عصر کا ہمیشہ سے دستور رہا ہے اگرچہ وسیع القلب اور ادب دوست علماء نے ہمیشہ ادیبوں شاعروں کی مجنونانہ تلاش میں ان کا ساتھ دیا ہے اور جہاں تک مجھے معلوم ہے چند ایک (اگرچہ نہایت ہی چند ایک) آج بھی دے رہے ہیں۔ ایسے ہی لوگوں سے علم کی آبرو اس دور میں قائم ہے ورنہ تو وہ احترام بھی جو ہماری تہذیب نے ہمیں سکھایا ہے، خطرے میں آچلا تھا۔

    بہرحال آج کانقاد، اور کاموں کے علاوہ یہ فریضہ بھی سرانجام دے سکتا ہے کہ علم دشمنی اور جعلی علم دوستی کی انتہاؤں کے درمیان ایک متوازن نقطۂ نظر دریافت کرے۔ دونوں طرح کی انتہائیں طاقت حاصل کرنے کے بعد بے قابو ہوجاتی ہیں اور ناکامی کی صورت میں تندی اور تلخی میں پناہ ڈھونڈتی ہیں۔ تنقید نہ تو بے قابو ہونے کانام ہے اور نہ ذاتی ناکامی سے پیدا شدہ تندی اور تلخی کا۔ اس کے علاوہ سچے علماء کے علم میں گرفت ہوتی ہے جو تنقید میں بھی ہونی چاہیے اور سچے ادب و شعر میں، اور باتوں کے علاوہ کشش اور تاثیر کے سَو جادو۔ یہ جادو سب کے سب نہ سہی مگر چند ایک تو اچھی تنقید میں بھی چلتے نظر آتے ہیں۔ آج کی تنقید کو یہ طلسمی کشش بھی چاہیے اور وہ گرفت بھی۔ دونوں سے کوئی ایک اپنی جگہ ناکافی اورنامکمل ہے۔

    اور چونکہ اس دور میں دلبری اور دلداری دونوں چیزوں کا بہت توڑا ہے اس لیے تنقید کی ضرورت بھی رہے گی جس کی اعلیٰ صورت میں یہ دونوں خوبیاں جمع ہوسکتی ہیں۔

    تنقید کی ماہیت، نوعیت، منصب اور موجودہ صورت حال سب سے بے اطمینانی درست اور واجب ہے مگر یہ بے اطمینانی تخلیقی بھی تو ہوسکتی ہے۔

    مأخذ:

    ادب لطیف،لاہور (Pg. 14)

      • ناشر: دفتر ماہنامہ ادب لطیف، لاہور
      • سن اشاعت: 1963

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے