Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

طنزومزاح کا ادبی زاویہ: واہی یا تباہی؟

سید عین الحسن

طنزومزاح کا ادبی زاویہ: واہی یا تباہی؟

سید عین الحسن

MORE BYسید عین الحسن

    ای نام تو بہترین سرآغاز

    بی نام تو نامہ کی کنم باز

    طنزیہ اسلوب کی ادب میں ایک الگ سی شناخت ہے۔ابتدائے مشاغل ادبی سے آج تک شاید ہی کوئی ایسا دور گزراہو جس میں صاحبان قلم نے اس رجحان سے کنارہ کشی کی ہو۔ہزار برسوں پر مشتمل ایرانی ادب ، خواہ رمز وکنایہ میں یا علامت واشارے میں، اس اسلوب سے سرشار نظرآتاہے ، اور کیوں نہ ہو جب آزادی خیال کم ہو اور جان کاخطرہ زیادہ! یہاں چونکہ مجھے عصری شاعری کا تنقیدی جائزہ لینا ہے اس لیے میں اپنے آپ کو شعروسخن تک ہی محدود رکھنا چاہتاہوں ورنہ لکھنے کے لیے یہ زمین لا محدود ہے۔تاریخ کے صفحات پر وہ نام بھی رقم ہیں جنہوں نے بڑی بے باکی سے اپنی جان کی پروا نہ کرتے ہوئے وہ سب بیان کردیا جن سے بر سر اقتدار افرادمتنفر ہواکرتے ہیں۔فردوسی کا وہ مشہور کلام جس نے محمود غزنوی کو کہیں کا نہ چھوڑا، زبان زدخاص وعام ہوگیا۔ کسی تیغ برہم کے سامنے اس کی نااہلی کا بیان معمولی جرأت نہیں!

    زناپاک زادہ مدارید امید

    کہ زنگی بہ شستن نگردد سپید ؎1

    طنز کی بھی کئی قسمیں ہیں۔سب سے پہلی قسم وہ ہے جس میں تمسخر شامل ہوتا ہے۔ ایرانیوں کو عجمی کہنا تمسخر نہیں تو کیاہے! اسی بناپرفارسی ادب میں عربوں کو برابر نشانہ بنایاگیا، شاہنامہ کا سب سے بڑا مجرم ضحاک تازی بنا جس کے شانوں پرسنپولیے بٹھا دیے گئے۔عربوں سے ایرانیوں کی مخاصمت کوئی نئی بات نہیں۔ایرانیوں کے دل میں نسلی احساس برتری بھی اسی امر کی جانب اشارہ ہے۔دور بیداری میں ملائوں کے خلاف مہم تیز ہوگئی اورآخوندزادہ جیسے فاضل نے روسیوں کو خوش رکھنے کی خاطر ایرانی ملائوں کی تحقیر شروع کردی۔دوسری مثالیں بھی ہیں جن کا ذکرکبھی اور کروں گا۔اردو میں بھی تمسخر بدرجہ اتم موجود ہے۔ نواب رامپور کا وہ مصرع’’دیکھا ہے ہم نے چاند محرم میں عید کا‘‘ کسی اور تضمین کا مستحق نہ تھا بجز اس کے ’’نواب رامپور ہے نطفہ یزید کا‘‘۔یا وہ مصرع کہ ’’طوطی کو ت سے لکھا تھا خانہ خراب نے‘‘دلی اور لکھنؤکی کشیدگی تھی جو تمسخر تک چلی گئی۔طنز کی دوسری قسم چشمک ہے۔ معمولاً یہ چشمک ہم عصر شاعروں کے درمیان ہوتی ہے۔

    لگا رہا ہوں مضامینِ نو کے پھر انبار

    خبر کرو مرے خرمن کے خوشہ چینوں کو

    (میرانیسؔ)

    مگر فوراً ہی خیال خاطر احباب نے میر انیسؔ کو سنبھال لیا۔ میرصاحب نے اپنے خوشہ ہائے طبع کو دوسروں کی جھولی میں جاتے دیکھ کریوں بھی اظہار فرمایا:

    کوفے سے مل رہے ہیں کسی شہر کے عدد

    ڈرتاہوں اے انیسؔ کہیں لکھنؤ نہ ہو

    اس ’’کٹ پیسٹ‘‘ کے دورمیں اگرمیرصاحب زندہ ہوتے توگھرسے باہر نہ نکلتے،خدا ان پر رحمت نازل کرے! اور پھر ایسے طنز کس نے نہیں لکھے، کیا غالبؔ اس سے بری ہیں!

    بنا ہے شہ کا مصاحب پھرے ہے اتراتا

    وگرنہ شہر میں غالبؔ کی آبرو کیا ہے

    طنز کی ایک اور قسم تفریح ہے اور اس میں الفاظ کی بندشوں کاسلسلہ زیادہ ہے اس کے معانی سے زیادہ کچھ لینا دینا نہیں۔ مثال کے طورپر:

    نظر باغ میں نظر کو میں نے نظر ملاتے نظر سے دیکھا

    نظر کے اوپر نظر پڑی جب نظر کو نظریں جھکاتے دیکھا

    یا

    کچھ اتنا زور تھا اس کی تڑی میں

    اندھیرا چھا گیا تھا روشنی میں

    یا

    کون کہتاہے کہ معشوق مرا گنجا ہے

    چاند کے سرپہ کہیں بال اگا کرتے ہیں!

    آج موبائل اور فیس بک کے تشدّدپسند’’دل پہ لکھ لیتے ہیں اشعار بھی دوچار غلط‘‘۔

    سہرا لکھنے کا رواج بھی اردو شاعری میں موجود ہے۔ ایسے کلام کی نوعیت وہی پھبتیاں ہیں جو دبستان دہلی و دبستان لکھنؤ کی دل آویزیاں بنیں، اور پھر خدا نہ کرے کہ دونوں کے درمیان سمدھیانہ ہوجائے!حضرت نیرنگؔ کی سہرا اور وداع نگاری پر ڈاکٹر تقی عابدی یوں فرماتے ہیں، ’’ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ نیرنگؔ سرحدی جب پشاور میں تھے تو سہرے بہت لکھتے تھے جیسا کہ خود لکھتے ہیں‘ راقم نے بہت سے سہراہان سپرد قلم کیے ہیں جن میں اکثر صنعت توشیخ میں ہیں‘۔ (لکھ کے لایا ہے ترے واسطے تیرا نیرنگؔ۔ غالبؔ و ذوقؔ کے سہروں کے برابر سہرا۔2؎

    یہاں مجھے مرحوم دلاور فگارؔ صاحب کا وہ ملاجلا سہرا اور مرثیہ یاد آرہاہے جس میں موصوف نے ایک تیر سے دو نشانے سادھے ہیں:

    اچھے میاں کا عقد ہوا ہے بہار میں

    کہہ دو کسی سے پھول بچھا دے مزار میں

    پیارے میاں کی موت پہ دل سوگوار ہے

    ساون کے گیت گائو فضا خوشگوارہے

    روئے حسیں پہ سہرے کی کیسی بہار ہے

    اے موت آبھی جا کہ ترا انتظار ہے

    دولہا دلہن شریف گھرانے میں ہیں پلے

    ’’لائی حیات آئے قضا لے چلی چلے‘‘

    نوشاہ کو عروس بڑی ذی ہنر ملی

    مرحوم کو حیات مگر! ختصر ملی

    یارب بنی کے ساتھ ہمیشہ بنا رہے

    یہ کیا رہیں گے جب نہ رسول خدا رہے

    (مطلع عرض ہے،،دلاور فگار،صفحہ13،14)

    طنز کی آخری قسم تصحیح ہے۔یہ تصحیح انفرادی ہو یا اجتماعی، معاشرے سے تعلق رکھتی ہو یا سیاست سے؛ دین سے وابستہ ہو یا دنیاسے، شاعروں سے ہو یا شاعر نوازوں سے۔۔۔طرح طرح کے مضامین اس طنز کے دائرے میں آتے ہیں۔ ترقی پسند تحریک سے وابستہ افراد نے تو عوام الناس سے قربت اختیار کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ یہاں تک کہ وہ شے جو محبت کی یادگار ہے، اگر استعماریت کا تصور پیش کرتی ہے تو قابل قبول نہیں۔ ’تاج محل‘ کا جو حشر ساحر لدھیانوی کے ہاتھوں ہوا اور ہاتھوں ہاتھ لیا گیا شاید اس سلسلے کی بہترین مثال ہو سکتی ہے:

    یہ چمن زار، یہ جمنا کا کنارہ، یہ محل

    یہ منقّش درو دیوار یہ محراب یہ طاق

    اک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لے کر

    ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق

    میرے محبوب کہیں اور ملاکر مجھ سے3؎

    یہاں مجھے یاس یگانہ چنگیزی کا وہ شعر یاد آرہاہے کہ:

    الٹی سیدھی سنتا رہ، اپنی کہہ تو الٹی کہہ

    سادہ ہے تو کیا جانے، بھانپنے کا ہے ڈھب کیا

    (اردو شاعری انتخاب، ڈاکٹر خورشید عالم، ڈاکٹر وسیم بیگم، قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، دہلی، 2002، ص109)

    رضا نقوی واہیؔ عظیم آباد کی اردو برادری میں کافی مقبول ہوئے۔ ان کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ موصوف نے تفنّن طبع کے لیے کلام نہیں لکھے۔ انہوں نے جو کچھ لکھا وہ اصلاح کے لیے لکھا۔ان کے کلام میں وہ درد ہے جو بگڑے ہوئے حالات نے دیے ہیں۔اردو زبان سے ان کی والہانہ محبت اس کے زوال کودیکھنا نہیں چاہتی۔اردو اکیڈمی کا غیر ذمہ دارانہ رویہ ان کے لیے ناقابل تحمل تھا اسی بناپروہ کہتے نظر آئے:

    سرکار کی عنایت وبخشش سے جب بنی

    یوپی میں اور بہار میں اردو اکیڈمی

    پٹنہ سے لکھنؤ تلک آنے لگے نظر

    اک اک گلی میں صاحب دیواں کئی کئی

    سعیٔ بلیغ پر بھی نہ برآئی آرزو

    دوایک جلد بھی نہ کتابوں کی بک سکی

    ٹھونگا بنانے والے بھی کچھ لے گئے کلام

    شاعر کے خون دل کی کھپت یوں بھی کچھ ہوئی

    جیسے کوئی فروش لیے سر پہ ٹوکرا

    بازار میں پکارتا پھرتا ہے…لے دہی

    واہی بھی باوجود ضعیفی ہے ان کے ساتھ

    گٹھری ہے اس کے کاندھوں پہ بھی ’’واہیات‘‘ کی ؎4

    یہی صورتحال جب موصوف نے ادبی مشاعروں میں دیکھی کہ نااہل شعرا دادو تحسین سے نوازے جارہے ہیں اور صاحبان شعورحاشیے پرہیں تو وہ پامالی سخن کواپنی آنکھوں سے نہ دیکھ سکے اور یوں گویا ہوئے:

    ان سے ملیے آپ ہیں وہ شاعر رنگیں نوا

    جن سے بزم شعر کی مرطوب رہتی ہے ہوا

    آپ کی رنگیں نوائی کا ہے یہ ادنیٰ کمال

    شعر بے معنی بھی بن جاتا ہے اک سحر حلال

    آپ سے واہی کا ہے یہ دست بستہ مشورہ

    آپ کو فطرت نے بخشاہے مغنّی کا گلا

    آپ سے شفقت کا ہے محتاج رقّاصی کا فن

    کیوں نہ بزم رقص میں تبدیل ہو بزم سخن

    پھیل جائے چارجانب پھر تو شُہرا آپ کا

    اور ہر تقریب شادی میں ہو مجرا آپ کا(گویّا شاعر)

    ناظمین وسامعین سے بھی وہ برابر مخاطب رہے، ان سے جس طرح کی توقعات ہوتی ہیں اگر ان پر وہ کھرے نہیں اترتے تو اس میدان میں قدم ہی کیوں رکھتے ہیں! اور یہ کیا کہ مطلب نکل گیا ہے تو پہچانتے نہیں۔ اہل فن کی صلاحیتوں سے استفادہ اوران کے احترام سے بے توجہی، واہیؔ صاحب کی نگاہوں سے بچ کر کہاں جاتی! چنانچہ فرماتے ہیں:

    منعقد ہونے کو ہے اک صحبت شعروسخن

    آج سارے شہر میں اک زندگی اک جوش ہے

    بزم میں آنے سے پہلے شاعران خوش نوا

    ہیں وہ مہماں جن کی خاطر وا ہراک آغوش ہے

    آتے ہی پنڈال میں پھولوں کی بارش یوں ہوئی

    لوگ یہ سمجھے کہ ڈائس مرقد گل پوش ہے

    بعد محفل آگیا ہے انقلاب نو مگر

    شمع کی گردش رکی ہے انجمن خاموش ہے

    کس سے مانگیں جاکے اب اپنے کرائے کی رقم

    حد تو یہ ہے بانیِ محفل بھی اب روپوش ہے

    اتنی درگت پربھی شاعر کی طبیعت رات دن

    شعرخوانی کے لیے رخت سفربردوش ہے

    (مشاعرے سے پہلے…اور بعد)

    آزادی ہندوستان میں اردو کے سخن گستروں نے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور جب آزادی حاصل ہوگئی تو اس کے مابعد جو حوادث سامنے آئے ان پر بھی اپنے غم و غصے کا اظہار کیا۔ تقسیم ہند ایک ایسا مرحلہ تھا جو ناخوشگوار راستوں سے ہوکر طول پکڑتا گیا۔ رنج اتنا بڑھ گیا کہ خود پر ہنسی آنے لگے! واہیؔ بھی اس رنج و تبسم کے شاہد بنے اور یوں اظہار نظر فرمانے لگے:

    بھارت کا کرکے بٹوارا

    بھاگا جب انگریز بے چارا

    آزادی کی جے کار ہوئی

    خالص دیسی سرکار ہوئی

    آزادی کے دن پہلا کام

    اس دیش کے اندر قتل عام

    لیکن بپتا کی ماری جنتا

    بھوکی، ننگی، ہاری جنتا

    اک اک کا منھ تکتی ہی رہی

    روتی اور بلکتی ہی رہی5؎

    واہی ایک ایسے شاعر تھے جن کی پرواز فکر اپنے زمانے سے آگے تھی۔کئی نظمیں انہوں نے شاعروں کی مختلف حیثیت کو مد نظر رکھ کر لکھی ہیں۔ شعرستان کا خیال بھی ان کی اپنی اپج ہے۔ اس طرح کی نظمیں اسی سلسلے کی کڑی ہیں جس کوامیجری کا نام دیاگیاہے اور براہ راست جس کا ربط رومانیت سے ہے۔اس رومانیت میں الگ طرح کے تیر اور مختلف زاویوں سے نشتر چلتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ ملاحظہ فرمائیے:

    مختلف اقسام کی ہوتی ہیں جیسے مچھلیاں

    یوں ہی شعرستان میں ہیں شاعروں کے خانداں

    کوئی فاروقی ہے کوئی جعفری، حنفی کوئی

    ایک ہی سرکٹ میں مثبت ہے کوئی منفی کوئی

    کوئی پاشی کوئی منصوری فضیلی ہے کوئی

    ہے خلیلی نسل کا کوئی طفیلی ہے کوئی

    جذبی وکیفی ہے کوئی، خانقاہی ہے کوئی

    کوئی سودائی ہے اور واہی تباہی ہے کوئی

    اور جتنے خانداں ہیں ذکر کے قابل نہیں

    مثل ماضی ان کا کوئی حال ومستقبل نہیں

    (شاعروں کے خاندان)

    انتقال کے بعد، فیوچرزم کا جو بیان واہی صاحب کے قلم سے نکلاہے اپنی مثال آپ ہے۔یوں تومناظر عدم حیات پر شاعروں نے اظہار خیال کیے ہیں مگر موصوف کی برجستگی لائق ستائش ہے۔ بے محل کسی کام کا ہونا معیوب ہے خواہ وہ شاعری ہی کیوں نہ ہو!

    آخرش دنیا سے واہی کا ہوا جب انتقال

    اس کے گھروالوں پہ کیا گزری نہ پوچھو اس کا حال

    ایک شاعر اشکباری جن کی گوہربارتھی

    لاش ابھی اٹھی نہ تھی ، نظم ان کی اک تیار تھی

    قطعۂ تاریخ اک شاعر نے برجستہ کہا

    نام سے مرحوم کے نکلاتھا پورا مادّہ

    ایک ناقد نے یہاں تک بڑھ کے لکھا جوش میں

    اس کا فن اکبر سے بالاتر تھا تن میں توش میں

    تھا الکشن کا زمانہ اس لیے سرکار کی

    مرنے والے پر نظر جانے لگی کچھ پیار کی

    کردیا اس موت نے ثابت یہ ہم پہ کم سے کم

    زندگی سے موت بہتر ہے پَے اہل قلم

    اہل فن کو موت سے ہرگز نہ ڈرنا چاہیے

    بلکہ ممکن ہو تو کوشش کرکے مرنا چاہیے

    (انتقال کے بعد)

    ایسے بھی شاعرمشاعروں کی زینت بنتے ہیں جوصرف اپناکلام سنانے کا جذبہ اور جاذبہ رکھتے، دوسروں کے کلام سے نہ تو انہیں رغبت ہے اور نہ ان کا احترام کرتے ہیں اور اسی بناپرسب کچھ قے کردینا چاہتے ہیں، واہی انہیں کیا مشورہ دیتے ہیں، ملاحظہ فرمائیے:

    شاعر بسیارگو سے ہے یہ میری التماس

    آپ یوں لِلّٰہ سامع کو نہ کیجیے بدحواس

    آپ کے اشعار ہیں یا ٹڈیوں کی فوج ہے

    اک بلائے ناگہانی موج اندر موج ہے

    مختصر سی رسم ختنہ اور اس پر تیس شعر

    عقد کے دوبول کی تقریب اور چالیس شعر

    آپ کے سرپر مسلّط جذبۂ تحسین ہے

    اور ادھر سب کی زباں پر سورۂ یٰسین ہے

    (شاعر بسیارگو)

    بسا اوقات واہیؔ صاحب طنز کی نازک لکیروں کو بھی عبور کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے تھے۔ نام سے مخاطب کرنا بظاہر ممنوع سمجھا جاتا ہے مگر وہ اپنی اس بلندی پر فائز تھے کہ حظ اٹھانے کے سوا کوئی چارا نہ تھا:

    شعر کہتے کہتے تھک جاتے ہیں جب اہل سخن

    اس ریاض مستقل سے جب اکڑ جاتا ہے تن

    اپنی اپنی ہابیوں سے شغل فرماتے ہیں سب

    اس طرح اعصاب کو آرام پہنچاتے ہیں سب

    شاعران کانپور و غازی پور و سہسرام

    زیبؔ و فاروقیؔ و سلطانؔ اخترؔ عالی مقام

    جوکہ ہندستان میں نامی کبوتر باز تھے

    رات دن جن کے گرہ بازؔ و لقاؔ دمساز تھے

    آرہے تھے جب مہاجر بن کے شعرستان میں

    چند کابک بھی چھپاکر لائے تھے سامان میں

    تھے کسی کابک میں شیرازیؔ کسی میں کلسرےؔ

    کاغذیؔ تھے ایک میں اور ایک میں ریشم پرےؔ

    ایک میں سبزےؔ ہرےؔ تھے ایک میں چینیؔ ختنگؔ

    جو فضا میں چھوٹ جائیں تو اڑیں مثل پتنگ

    لوٹنؔ و ہومرؔ بھی تھا گولہؔ بھی تھا دوبازؔ بھی

    نامہ برؔ چپّارؔ چاہےؔ اور فلک پردازؔ بھی

    الغرض ان شاعران نو کا یہ شوق قدیم

    بن گیا اوقات فرصت میں یہاں ان کا ندیم6؎

    شعرا کی بدحالی بھی شاعر سے دیکھی نہیں جاتی۔ایک طرف اظہار تأسف اور دوسری جانب چائے خانوں کی روایت کالطف ،دونوں پہلواس شاعرکے یہاں قابل ملاحظہ ہیں:

    پٹنہ کی سیاحت پہ جب آیا ہے تو اے شخص!

    اس شہر کے رحمانیہ ہوٹل کو بھی آ دیکھ!

    دروازے پہ صف باندھ کے بیٹھے ہیں بھکاری

    اور ان سے ذرا ہٹ کے گروہ شعرا دیکھ!

    (رحمانیہ ہوٹل)

    کس قدر خوبصورت لہجے میں یہ شکایت درج ہورہی ہے:

    کیا بودوباش پوچھو ہو پورب کے ساکنو!

    ہم کو غریب جان کے ہنس ہنس پکار کے

    گو آج تیل بیچ رہے ہیں گلی گلی

    لیکن کبھی تھے ہم بھی چراغ اس دیار کے

    اس دھاندلی کے دور میں ذی علم کیا کریں

    بیچیں اگر نہ تیل امنگوں کو مارکے

    (ملازمت)

    وقت جتنی تیزی سے گزرتا جارہاہے اس کا احساس بھی اگر شاعر نہ کرے تو کون کرے! یہ بے حسی کاوہ عالم جس نے ترقّی کی راہوں کومسدود کردیاہے کیا اسے آزادی کی دین کہاجائی؟ جشن کس چیز کا منایاجائے، اس پروگرام کاجس کا افتتاح تو ہوا مگر رسم اجرا نہ ہوسکی۔ اور ادھر ’’گاڑی تھی اتنی لیٹ کہ بچے جواں ہوئے‘‘۔

    وہ ریل کی رفتارہو یا وقت کی رفتار

    اس ملک میں دونوں کو تساہل کی ہے عادت

    پابندی اوقات میں ہے رنگ غلامی

    آزاد ہواہند تو کیا اس کی ضرور ت

    (ریل کا سفر)

    وہ لیڈرکہاں گئے جنہوں نے ہندوستان کو صرف آزادی ہی نہیں دلائی بلکہ ان کے خوابوں کو بھی شرمندۂ تعبیر بنانے کی کوشش کی جو آزاد ہوائوںمیںصاف ستھری سانسوں کو جنم دیتی ہیں۔ وہ ذمہ داران مملکت کہاں گئے جنہوں نے اپنے لیے کوئی دعا نہ مانگی، دعا بلب ہوئے تو قوم کی خاطر،اپنی ڈوبتی ہوئی نبضوں کی پروا نہ کی اورہم شہریوں کی نبضوں پر ہاتھ رکھے۔یہ افسوس بھی شاعر کی آہوں میں موجودہے:

    بھگوان مرے دل کو وہ زندہ تمنا دے

    جوحرص کو بھڑکادے اور جیب کو گرمادے

    القصہ مرے مالک تجھ سے یہ گزارش ہے

    مرغی وہ عنایت کر جو سونے کا انڈا دے

    (نئے لیڈر کی دعا)

    اور اس میدان میں کیا مولوی اور کیا کامریڈ!

    کہنے کو جو دماغ ترقی پسند ہے

    کھڑکی اسی دماغ کی واللہ بند ہے

    ( مولوی اور کامریڈ)

    اور ادھر دیکھیے توسازمان امنیت کا بھی وہی حال ہے!

    فسانہ عدل کا واہی سے سن لیا تم نے

    اب اس کے بعد نہ پوچھو کہ یو۔این۔او۔ کیا ہے

    واہیؔ صاحب ہر قسم کے توازن پر اعتماد رکھتے تھے۔ کسی غیر متوازن امر کے قائل نہ تھے۔ ان کے ذہن عالیہ میں امتیاز اور برتری علمی سطح پر تھی، کسی نااہل کو اہلیت بخشنے کے وہ بھی قائل نہ تھے۔ عورتوں کو برابری کا درجہ دینا ان کے لیے پیروی پیغمبر اکرمؐ کے سوا اور کچھ نہ تھی۔اسی کے ساتھ، وہ اس بات سے قطعی طورپر راضی نہ تھے کہ جہاں جس کا مقام نہ ہو وہاں اسے بٹھا دیاجائے۔ امورزندگی میں سب شریک ہیں مگر اپنی اپنی جگہ پر۔ اور اگر جگہ بدل جائے تو اس کا انجام بھی عجیب ہوگا۔دیکھیے عورتوں کا سال کس صورت سے منایاگیا:

    مردسارے دوسرے درجے کے شہری بن گئے

    یعنی جتنے بھی مگرمچھ تھے، گلہری بن گئے

    چھا ئونی جاکربسائی عورتوں کی فوج نے

    لفٹ رائٹ کی جگہ لے لی ’اوئی‘اور’نوج‘ نے

    حال پتلا ہوگیا ہرشاعر دلگیر کا

    ’’صبح کرنا شام کا لانا ہے جوئے شیر کا‘‘

    (عورتوں کاسال)

    مردوں کی بے راہ روی بھی انہیں پسند نہ تھی۔غیر شرعی امور ان کے پیش نظرقابل لعنت تھے:

    جیسے ہی نورچشم نے بی اے کیا ادھر

    بزنس کا مال ان کو سمجھنے لگے پدر

    بیٹے کو چِک سمجھ لیا اسٹیٹ بینک کا

    سمدھی تلاش کرنے لگے ہائی رینک کا

    نور نظر کو مال تجارت بنائیے

    لیکن زباں پہ نام شریعت نہ لائیے

    (معرکۂ جہیز ودین مہر)

    صادقانہ جذبہ وہ خودبھی رکھتے تھے اوردوسروں میں بھی اسے تلاش کرتے تھے۔مگر نیم حکیموں اور نیم ملائوں سے دور ہی رہتے تھے۔وہ حکیم بھی حکیم کیا جسے مریضوں کا خیال نہ ہو ، اپنی جیب میں کیاہے اس کی فکر ہو۔ایسے میں صلواۃ تو سننی ہی پڑے گی:

    دن رات حکیموں کو یہ شکوہ ہے خداسے

    یہ فصل بھی خالی گئی ہیضے کی وباسے

    پوشیدہ ہے اس قوم کا جب رزق وبا میں

    تو چھوڑدے زہریلے جراثیم ہوا میں

    (حکیم)

    انڈسٹری کا ترقّی نہ کرنا، سازوسامان کی ساخت میں اسٹینڈرڈ کی کمی، روزمرہ استعمال ہونے والی اشیا میں خامی وغیرہ وغیرہ واہی صاحب کے پیش نظربے اصولی کا نتیجہ ہیں۔ فارسی کے بامحاورہ شعر کو بروئے کار لاتے ہوئے کیا حسین نظم لکھتے ہیں:

    علی الصباح چو مردم بہ کاروبارروند

    بلاکشانِ محبت بہ کوئے یار روند

    مگر میں صبح کو ہرروز شیو کرتا ہوں

    اور اس عمل کے نتیجے میں آہیں بھرتا ہوں

    وہ ایک لوہے کی پتی کہ جس میں دھار نہ ہو

    چلے جو رخ پہ تو کیوں دل میں خلفشار نہ ہو

    بلیڈ کی یہ خرابی تو اک علامت ہے

    کہ کس ڈگر پہ رواں کاروان صنعت ہے

    بتائیں آپ کو ہم اس کا حشر کیا ہوگا

    پلائوکھائیں گے احباب فاتحہ ہوگا

    (بلیڈ)7؎

    انگریزی زبان کے وہ الفاظ جو بظاہر اردو ادب کا حصہ نہ بن سکے مگر عام بول چال میں ان کا تصرف ہوتا چلا آیاہے۔ واہیؔ صاحب اپنے مخصوص انداز میں ان غیرمستعمل الفاظ کو جملوں میں پروکر لائق تصرف بنا دیتے ہیں۔ کیا ایسے موارد استعمال کو بلیغ کہنا مناسب ہوگا؟ پروفیسر علیم اشرف جائسی صاحب نے اپنی کتاب’’ اردو زبان و ادب پر عربی کے اثرات‘‘ میں کچھ اس طرح رقم فرمایا ہے’’عربی میں لفظ بلاغت بولا جاتا ہے تو اس سے تین فنون: معانی، بیان اور بدیع مراد ہوتے ہیں اور عام طورپر ان تینوں سے قبل لغوی اور اصطلاحی طور پر فصاحت و بلاغت کی تعریف ہوتی ہے اور مختلف نوع کی دلالتوں کا بیان ہوتا ہے، کیونکہ ان کا موضوع سے گہرا تعلق ہے‘‘۔(قومی کونسل برائے فروغ زبان اردو،2019، ص257)

    واہیؔ گوکہ طنز ومزاح کے شاعر تھے مگرمتقدمین ومتاخرین کے کلام پر ان کی بھرپور نگاہ تھی۔ سودا ومیروغالب ہی نہیں بلکہ وہ تمام مغازلہ نویسان ادب جنھوں نے نئے چراغ روشن کئے تھے، ان کی طبع سے ہم آہنگ تھے۔تغزل کی روش کو وہ پہچانتے تھے اور یہ بھی سمجھتے تھے کہ زندہ رہنے والا ادب اس چاشنی سے معمور ہونا چاہیے۔مندرجہ ذیل مثالیں اس بات کا پختہ ثبوت فراہم کرتی ہیں۔8؎

    ان سے ملیے آپ ہیں جوہرشناس نقد فن

    کانپتی ہے دبدبے سے آپ کے روح سخن

    یا

    گندم کے عوض وعدۂ فردا کا بتاشا

    حصے میں ملا سب کو، ہواختم تماشا

    یا

    تیور کو ان کے تولیے اپنی نگاہ میں

    بچھئے چٹائیوں کی طرح ان کی راہ میں

    یا

    گیسوئے اردو ابھی منت پذیر شانہ ہے

    شمع یہ سودائی دل سوزی پروانہ ہی

    ان کے یہاں زبان کا رکھ رکھاو بھی وہی ہے جو متقدمین کی زبان کا تھا۔ محاوروں کو استعمال بھی کرتے ہیں اور محاورے بناتے بھی ہیں۔انگریزی الفاظ کا استعمال بربنائے مصلحت کرتے ہیں تاکہ عوام اچھی طرح باتوں کو سمجھ لیں۔کمبی نیشن، ہسٹری، ٹرام، ماسٹر پلان، انتلکچوئل، ٹی کورنر، فیلڈ مارشل، ڈبل، کرپشن، کامریڈ، جنرل، انٹرویو، اسٹوڈنٹ، ایڈیٹر، فلم اسٹار، ویلفیئر اسٹیٹ، ٹیڈی گرل، لیبر لیڈر، بلیک مارکٹ وغیرہ وغیرہ۔

    حیرت مجھے اس بات کی ہے کہ اس شاعر کو کچھ ایسے بھی فنون کی معلومات ہے جس سے شاعری کا کوئی واسطہ نہیں۔کبوتر بازی کہاں اور واہی جیسا مصروف ادب کہاں! مگر وہ اس پرندے کی اقسام اور ان کے نام ونمود سے اچھی طرح واقف نظر آتے ہیں۔ چنانچہ گرہ باز، لقا، شیرازی، کلسرے، کاغذی، ریشم پرے، سبزے، ہرے، ختنگ، لوٹن، ہومر، گولہ، دوباز، نامہ بر، چاہے، فلک پرداز، سلطان، زیب، فاروقی…ارے کوئی انتہا ہی نہیں…کمال ہے!

    وہ سمجھتے ہیں کہ جو شاعر کبوتربازہے

    شاعرانہ فکر اس کی آسماں پرداز ہے

    فلمی اور مصنوعی دنیا بھی ان کی دسترس سے خالی نہیں:

    میں فلمی ستارہ ہوں دنیا مری اجیالی

    جیون مرا مصنوعی، پیشہ مرا نقّالی

    یوں تو اور بھی زاویے ہیں جن کو سامنے رکھ کر واہی صاحب کے کلام پر تبصرہ کیا جا سکتاہے مگر اس موقع پر اگران کے منظوم خطوط کا ذکر نہ ہو تو یقیناً ناانصافی ہوجائے گی۔ اپنے معاصرین کووہ جس اعتبار سے خطوط لکھتے ہیں اسی انداز سے ان کے جوابات کیوں نہیں آتے،یہ بھی ایک بہت بڑا سوال ہے۔آ ئیے ذرا خطوط پر نظر ڈالی جائے:

    دلاور فگارکے نام:

    بھائی فگار شوق سے پھر ڈاک بھیجئے

    جی کھول کے مزاح کے اسٹاک بھیجئے

    حکیم غبار بھٹی:

    اپنے بیمار کا حال آپ نے پوچھا ہی نہیں

    ہم نے ایساتو معالج کوئی دیکھا ہی نہیں

    عزیز تمنائی:

    بے اعتنائیوں کی بھی کچھ حد ہے محترم

    کب تک زباں پہ حرف شکایت نہ لائیں ہم

    خلیل الرحمٰن اعظمی :

    خلیل صاحب بہت دنوں سے رکی ہوئی ہے خط وکتابت

    کچھ اس میں میرا قصور بھی ہے، کچھ آپ سے بھی ہوئی ہے غفلت

    مجتبیٰ حسین:

    واللہ تم بھی خوب ہو اے یار مجتبیٰ

    خط کا مرے جواب ابھی تک نہیں دیا

    گوپال متل:

    اے حضرت متل، یہ کرم ہے کہ ستم ہے!

    کیوں لطف نظر آپ کا ناچیز پہ کم ہے

    وفا ملک پوری:

    لفظ وفا کی خوب حجامت بنائیے

    دن رات بے وفائی کے جوہر دکھائیے

    دراصل خط کی یہی زبان ہے۔ اے فیس بک والو! ایسی زبان کیوں نہیں استعمال کرتے جس میں احوال پرسی بھی محبتانہ ہو اورجس کا جواب بھی مخلصانہ ہو!

    اکثر اوقات وہ اپنے قریبی دوستوں کو مرزا غالبؔ کے انداز میں خطوط بھی لکھتے تھے جس میں نظم و نثر کا ایک ایسا خاکہ ملتا ہے جو اپنے آپ میں قابل ملاحظہ ہے۔ مثال کے طور پر علامہ رضامظہری کو لکھا گیا یہ خط:

    نہ کوئی نامہ و پیغام ہے نہ خط کا جواب

    میاں امیر رضا یہ بھی کوئی بات ہوئی

    یہ سچ ہے میرا تخلّص ضرور واہی ہے

    مگر ادا یہ تمہاری ہی واہیات ہوئی

    پہنچ رہا ہوں میں پھر اگلے ماہ کلکتہ

    نہ اس خیال میں رہنا تمہیں نجات ہوئی9؎

    اس سلسلے میں مخمور سعیدی نے کیا خوب لکھا ہے،’’جہاں تک میری یادداشت ساتھ دیتی ہے، منظوم خطوط کا کوئی مجموعہ اردو میں اس سے پہلے کبھی شایو نہیں ہوا۔اگر میرا یہ خیال صحیح ہے تو زیر نظر مجموعے کو بجا طورپرشعری ادب میں ایک اضافہ قرار دیا جا سکتا ہے‘‘(دہلی،8؍فروری1974 عیسوی)

    اتنا کچھ لکھنے کے بعد بھی میری تشنگی باقی ہے۔پتہ نہیں مرحوم کے حق میں یہ تبصرہ کسی حیثیت کے لائق ثابت ہوگا یانہیں!بہرحال میں شکرگزار ہوں واہی اکیڈمی کا جس نے مجھے رضانقوی واہی کے کلام کا مطالعہ کرنے کی دعوت دی۔اس سے قبل میں نے ان کے بارے میں سنا تو بہت تھا مگر ان کے کلام کو نزدیک سے دیکھنے کا موقع حاصل نہ ہو سکا تھا۔خوش اس بات پرہوں کہ اس بھری بزم میں اپنے ٹوٹے پھوٹے لہجے میں خراج عقیدت پیش کرنے والوں میں شامل ہوگیا۔خدائے متعال مرحوم کو جوار رحمت میں جگہ دے۔ آمین! بہتر یہ ہے کہ موصوف کے کلام سے ہی اس گفتگو کا اختتام ہو:

    اپنا احساس جوتھا مختصراً عرض کیا

    دل کو منظور نہیں طول کلامی صاحب

    منابع وماخذ:

    .1 ہادی حسن، گولڈن ٹریزری آف پرشین پوئٹری، آئی۔سی۔سی۔آر،1972، ص23

    .2 تقی عابدی،تعمیر بقا، ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس نئی دہلی،2022، ص332

    .3 بیسویں صدی کی اردو شاعری، اوصاف احمد، ثمر آفسٹ پرنٹرز، نئی دہلی،2001، ص171

    .4 لے دہی، متاع واہی، ماڈرن پرنٹرز ،پٹنہ،1977

    .5 آزادی، باقیات واہی، ڈاکٹر شہناز فاطمی،سید جعفر رضا نقوی، گنگا جمنا پرکاشن، پٹنہ،2004، ص 73-74

    .6 شعرستان واہی،شعرستان میں کبوتر بازی، جے۔ٹی۔ایس۔پرنٹرز، پٹنہ،1983

    .7 اردو زبان و ادب پر عربی کے اثرات،پروفیسر علیم اشرف جائسی ،قومی کونسل برائے فروغ زبان اردو،2019، ص257

    .8 رضا نقوی واہی کی دیگر تصنیفات کچھ اس طرح سے ہیں: واہیات۔1950، طنز وتبسم۔1963، نشتر و مرہم۔1968، کلام نرم و نازک۔1972، نام بنام۔1973، متاع واہی۔1977،’بہار اور اردو شاعری‘ اور’چٹ پٹی نظمیں‘ ،1857 میں شائع ہوئیں۔

    .9 شعرستان واہی، جے ٹی ایس پرنٹرز، پٹنہ،1983، ص7

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta 10th Edition | 5-6-7 December Get Tickets Here

    بولیے