Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ترقی پسند ادب

حیات اللہ انصاری

ترقی پسند ادب

حیات اللہ انصاری

MORE BYحیات اللہ انصاری

    بہت دنوں سے کوششیں ہو رہی تھیں کہ ترقی پسند ادب کی منظم مخالفت کی جائے۔ آخر ۷/اگست ۱۹۴۳ء کو ان کوششوں نے عملی جامہ پہن لیا۔ ’’اردو اصلاح ادب‘‘ کے نام سے ایک کانفرنس بمبئی میں منعقد ہوئی۔ اس میں ترقی پسند ادب پر ’’فحاشی اور عریانی‘‘ کی آڑ لے کر خوب خوب لعن طعن کیا گیا۔ آخر میں صدر صاحب نے فرمایا کہ ’’یہ آواز جو بھیگی ہوئی رات کے پرسکون لمحوں میں باب الہند سے بلند ہو رہی ہے ہندوستان کے ہر گوشے سے اس کی صدائے بازگشت آنی چاہیے۔‘‘ چنانچہ پہلی صدائے بازگشت لکھنؤ کی انجمن بہارِ ادب سے اٹھی۔ اور یہاں بھی سارے ترقی پسند ادب پر لعنت بھیجی گئی۔

    انجمن ترقی پسند مصنفین کے سکریٹری ڈاکٹر عبدالعلیم نے فحاشی اور عریانی کے اعتراضوں کا جواب ’’منزل‘‘ لکھنو میں بہت مدلل دیا ہے۔ یہ جواب دیکھ کر اعتراض کرنے والوں کو مطمئن ہوجانا چاہیے۔

    میرے اوپر اس کانفرنس کا دوسرا اثر پڑا۔ آٹھ برس ہوئے انجمن ترقی پسند مصنفین کو قائم ہوئے۔ تب سے اب تک نہ جانے کتنی بار اپنے مقصد کی صفائی پیش کی جاچکی ہے۔ اور اب پھر سکریٹری صاحب کو صفائی پیش کرنا پڑی۔ بہتر یہ ہے کہ ایک بار ترقی پسند ادب پر ہر پہلو سے روشنی ڈال دی جائے تاکہ ان ابتدائی بحثوں سے نجات مل جائے۔ اس بات کو پیش نظر رکھ کر میں مضامین کا یہ سلسلہ شروع کر رہا ہوں۔ یہ حصہ محض تمہید ہے۔ دوسرے حصے میں پرانے ادب کاآج تک جائزہ لے کر بتایا جائے گا کہ (۱) ادب کس طرح تاریخی حالات سے چسپاں رہا ہے (۲) ان میں اب تک کون کون جذباتی عناصر شامل ہوئے ہیں۔ (۳) کس کس پہلو سے اصلاح کی کوششیں کی گئی ہیں۔ تیسرے حصے میں یہ بھی ہوگا کہ اب ادب کو اگر زندہ رہنا ہے (جو یقینی بات ہے) تو کتنے شرائط کی پابندی کرنا ہوگی۔

    ہم سے پہلے تھا۔۔۔

    زیادہ نہیں صرف آٹھ سال پیچھے گھوم کر دیکھ لو اے ادب کی اصلاح کرنے والو۔ تب انجمن ترقی پسند مصنفین کا پتہ بھی نہ تھا۔ اس پاک و صاف فضا میں بہت سے رسالے سانس لیتے تھے۔ سال میں کئی کئی سالنامے نکالتے تھے۔ نہ جانے کتنے علامہ، ادیب جمیل، مصور رنج و الم اور الہامی شاعر ان میں ادرخشاں ہوتے تھے۔ کچھ یاد ہے کہ باغ و بہار میں کیسی کیسی کیاریاں ہوتی تھیں؟

    سب سے زیادہ مقبول چیز تھی اپنی ذاتی بیوی کی باتیں۔ وہ یوں بولیں، یوں ہنسیں، یوں آئیں، یوں گئیں، بھلا کیسی ہنسی کی بات ہے! اچھے اچھے رسالے اس صنف میں اور اس صنف پر طبع آزمائی کرتے تھے۔ اس وجہ سے نہیں کہ یہ مذاق اخلاق کے حدود کے اندر تھا۔ بلکہ اس وجہ سے کہ اس بدمذاقی پر بنتی تھی اور ایسے مضامین کے مجموعے ہاتھوں ہاتھ بکتے تھے۔

    اس کے بعد درجہ تھا عشقیہ افسانوں کا۔ پلاٹ صرف ایک ہوتا تھا۔ دیکھا، عشق ہوا، ہجر ہوا پھر وصال یا خود کشی۔ اسی سے صفحوں پر صفحے رنگ دیے جاتے تھے۔ رسالے بھر دیے جاتے تھے۔ اس پلاٹ میں اگر کوئی خوبی تھی تو ایک پڑھنے والے روز پڑھتے تھے لکھنے والے مسلسل لکھتے تھے۔ مگر وہ نہ ان کو یا دہوتا تھا نہ ان کو۔

    نظمیں زیادہ تر ایسی ہوتی تھیں جن کو نہ لکھنے والے سمجھتے تھے اور نہ واہ وا کرنے والے مگر مزا دونوں کو آجاتا تھا۔ جو نظمیں سمجھ میں آتی تھیں وہ شروع یہاں سے ہوتی تھیں۔

    یاد ایّا میکہ جب عذرا تھی مجھ سے ہم کنار

    مگر عبارت ایسی دبیز ہوتی تھی کہ اخلاق پردہ دری سے بال بال بچ جاتا تھا۔

    علمی مضامین بھی چھپتے تھے۔ مگر ان پر تبصرہ کرنا مشکل ہے کیونکہ غیرعلمی ہوتے تھے۔ ایک آدھ جو ٹھوس نکل گئے، سو پڑھنے والے ان کا عنوان اور شروع کی چند سطریں رکھ دیتے تھے کہ فرصت سے پڑھیں گے۔ سردست ان قیمتی باتوں کی ضرورت نہیں۔

    معلوماتی مضامین بھی ہوتے تھے۔ یونانی دیومالامیں یہ ہے، مصری تمدن میں یہ تھا، سورج میں اتنی روشنی ہے، معارف میں توباقاعدہ معلومات کا عنوان دے کر ایسی بہت سی باتیں ایک ایک دو دو جملوں میں بیان کردی جاتی تھیں۔ نیک نیت لکھنے والوں کا منشاء یہ تھا کہ پڑھنے والے ان کو سبقاً سبقاً یاد کرتے رہیں اور ۳۰ برس میں انسائیکلوپیڈیا بن جائیں۔

    معمولی سے معمولی انگریزی مصنف کا کتنا رعب تھا! افوہ! اس کی صرف اتنی خوبی کافی تھی کہ اے۔ بی۔ سی۔ ڈی والی زبان میں لکھتا ہے۔ آسکر وائلڈ تو خدائی کر رہا تھا۔ اس وجہ سے کہ اس کی تشبیہیں اور استعارے ترجمہ کرنے والوں اور پڑھنے والوں دونوں کے لیے زلف پیچاں کے لچھے تھے۔ ان کا اور چھور نہیں، نہ سہی رومان ہے، ایک مکر مفر ماہارڈی کو لے کر چلے تھے۔ فرمان تھا۔ کرو اسے پسند۔ یہ جزنیہ جوٹھہرا۔

    ناولوں میں عبدالحلیم شرر کے بہرام نے چھکے چھڑا دیے تھے۔ اور پھر خود عشقیہ الہامی افسانوں سے مارا گیا تھا۔ کچھ فلسفیانہ ناولیں تھیں جیسے شہاب کی سرگزشت۔ مگر ان؟ ناولوں میں تھی نہ فلسفے میں۔ رقیق القب لوگوں کا انتظام علامہ راشد الخیری نے کیا تھا۔ آتے جاؤ، روتے جاؤ، یہی نجات کا ذریعہ ہے اور اصلاح کا بھی۔ ہنسانے والوں میں عظیم بیگ چغتائی تھے۔ ان ماہرین قلم کے خلاف کوئی انگلی اٹھاتا۔ بھلا کیا مجال تھی۔

    اب داستان زبان اردو سنئے۔ تمام رسالوں میں انگریزی ترکیبوں پر بے محل فارسی کے الفاظ چن دیے جاتے تھے۔ جملے طویل ہوئے تو ادبِ لطیف چھوٹے؟ تو نیازیت یا ٹیگوریت یا کوئی اور ’’ای یت‘‘ ۔ علمی زبان کو ہجے لگاکر پڑھنے کی ضرورت ہوئی تھی۔ لائق لوگ ذرا سی بات بھی ایسی گھن گرج سے کہتے تھے کہ پڑھنے والے کے اوسان خطا ہوجاتے تھے۔ ہاں جامعہ، معارف اور تہ ماہی ضرور ٹھوس رسالے ہوتے تھے۔ مگر ان کو ٹھوس ہی لوگ پڑھتے تھے۔ اخباروں کو لیجیے۔ ان کے زبردست مزاحیہ اور ان کے سنسنی خیز جملوں کی پریڈ سے کانوں میں خراش اور دماغ میں خلاپیدا ہوجاتا تھا۔ بات نہ جانے کہتے کیا تھے۔

    ذرا اڈیٹر صاحبان سے ملاقات کیجیے! اور رسالوں کے حرم سرا کی سیر کیجیے۔ مگر یہ بات ذاتی تجربوں سے اچھی واضح ہوگی۔ بھگتی ہوئی باتیں سنئے۔ اس وقت تک میرے مجموعے ’’انوکھی مصیبت‘‘ کے چار افسانے تیار ہوچکے تھے۔ ان میں سے ہر ایک نے بڑے سے لے کر چھوٹے سے چھوٹے ادبی رسالے کی چوکھٹ کی جبیں سائی کی مگر باریابی نہیں ہوئی۔ ہر ایک کی سرگزشت یہی ہے کہ کسی رسالے کے نام رجسٹری کرو۔ واپسی کے ٹکٹ رکھ دو۔ ہر پندرھویں دن یاد دہانی کرو۔ ڈھائی مہینے کے بعد ایک بے رنگ لفافہ ملتا ہے۔ افسانہ واپس ’’ذراخشک ہے۔‘‘ ’’عبارت میں رنگینی نہیں ہے۔‘‘ ’’مملؤ ازیبوست ہے۔‘‘ نیرنگِ خیال اس وقت (بقول خود) اپنے تیسرے دور سے گزر رہا تھا۔ پھربھی ’’انوکھی مصیبت‘‘ کو جو ’’حسن و عشق کی چاشنی کی کمی‘‘ کی وجہ سے ہر جگہ سے مسترد ہوچکا تھا اس شرط پر چھاپنے پر تیار ہوا کہ اس کا عنوان ’’میری زندگی کا سب سے براوقت۔۔۔ ایک کلکٹر کی زبانی‘‘ کردیا جائے۔ کسی دلیل نے کام نہ دیا، مجھے ادبی رسالے میں جگہ پانے کے شوق میں یہ سنسنی خیز اصلاح، خون کے گھونٹ پی کر قبول کرنا پڑی۔ جامعہ نے اپنی ساکھ کے زور پر اس کو چھاپ تو دیا، مگر افسانے کی تعریف و تشریح میں صفحے کا طویل نوٹ دے کرکہ کہیں پڑھنے والے اچھل نہ پڑیں۔ کہئے گا ’’انوکھی مصیبت‘‘ فحش یاعریاں تو نہیں مگر ہاں ہے کچھ اسی ذات کے آس پاس کی چیز۔ ’’ادا یا قضا‘‘ تو ایسا نہیں؟ ’’ڈھائی سیر آٹا‘‘ تو بالکل معصوم چیز ہے؟ یہ دونوں ۳۳ء اور ۳۴ء میں لکھے گئے تھے جن کو ۳۵ء میں جگہ ملی۔ اور وہ بھی جامعہ اور نگار میں جو علمی اور مذہبی زیادہ تھے ادبی کم۔

    میں بچارا کس کھیت کی مولی تھا۔ اب تک اکا دکا چیزیں جامعہ اور اودھ پنچ میں چھپی تھیں جن کو ادبی رسالوں کے اڈیٹر صاحبان چھوتے تک نہ تھے۔ بیخود موہانی مرحوم نے جن کی قابلیت اس وقت مسلم تھی کسی ادبی رسالے کو مضمون بھیجا، مگر شامت کی مار نام کے ساتھ پروفیسر نہیں لکھا۔ مضمون غیر علمی و غیر فکری قرار پایا۔

    ایک واقعہ اور سن لیجیے۔ عظیم بیگ کے افسانے شہزوری پر میں نے ایک مضمون لکھا جس میں دکھایا کہ یہ کردار محال ہے۔ آخر میں التجا کی کہ ایسی غیر ضروری چیز ہی کیوں لکھیے۔ زندگی کی حقیقتوں کو دیکھیے۔ جس رسالے میں وہ افسانہ چھپا تھا اس کے لائق ایڈیٹر کو مجھ سے اور جس رسالے میں وہ مضمون چھپا تھا اس کے اڈیٹر دونوں سے ذاتی شکایت ہوگئی۔ ان کا خیال تھا کہ میرے رسالے اور اس زبردست افسانہ نگار پر اعتراض ہو نہ ہو کسی گہری سازش کانتیجہ ہے۔

    یہ ماننا پڑے گاکہ اس دور کے رسالوں میں کچھ چیزیں نکلی ہیں۔ پطرس کی ’’سائیکل‘‘ اور ’’لاہور کا جغرافیہ‘‘ ، امتیاز علی تاج کا ’’چچا چھکن نے تصویر ٹانگی‘‘ محترمہ حجاب کا ’’؟ کے سالے‘‘ شوکت تھانوی کی ’’سودیشی ریل‘‘ نیازمندانِ لاہور کے طنزیہ مضامین۔ فرحت اللہ بیگ کا ’’مشاعرہ‘‘ اور کچھ مضامین۔ اختر شیرانی کی نظمیں کبھی کبھی جوشؔ اور اقبال بھی رسالوں میں آجھلکتے تھے۔ افادی ادب کی شرطوں کو قطع نظر کرکے ان چیزوں کی ادب اردو میں جگہ ہے اور رہے گی۔

    ان لکھنے والوں نے اپنے مضامین کے جو دوسرے اڈیشن دوسرے عنوانوں سے نکالے ہیں، مثلاً امتیاز علی تاج نے ’’چچاچھکن نے ردی نکالی‘‘ یا پھر دوسرے لوگوں نے ازراہِ عنایت جو ایسے اڈیشن نکال دیے ہیں مثلاً ’’لاہور کا جغرافیہ‘‘ کا دوسرا اڈیشن سندباد جہازی نے ’’پنجاب کا جغرافیہ‘‘ نکالا۔ یہ بھی بری چیزیں نہیں ہیں۔ مگر ان مضامین کو دیکھ کر اگر کچھ پتہ چلتا ہے تو صرف یہ کہ زمانہ ایک مسلسل چیز کانام ہے۔ عید کا چاند پہلے بھی نکلتا تھا۔

    مشاعروں کا جو حال تھا وہ اس دور کے ایک استاد سخن حضرت سیماب کی زبان سے سنئے۔ وہ نیرنگِ خیال کے سالنامے ۳۴ء میں لکھتے ہیں،

    ’’ایک انقلاب اور پیدا ہوا۔ یعنی غزل خوانی کے ساتھ ترنم کارواج ہوگیا۔ غزل خواہ کتنی ہی ناکام ہو۔ لیکن اگر غزل خواں حوش الحان ہے تو اس کی غزل پر مشاعرے میں قیامت برپا ہوجانا یقینی سمجھیے۔ اب عوام غزل کے مضامین اور معیار کو نہیں دیکھتے بلکہ آواز کے اتار چڑھاؤ پر ان کے کان لگے رہتے ہیں۔ یوں تو ڈاکٹر اقبال، سائل دہلوی اور مضطر خیرآبادی مترنم غزل پڑھنے میں اب سے پہلے میدان مارچکے تھے۔ مگر ان کے زمانے میں آواز کے ساتھ کسی اور چیز کا بھی مطالبہ تھا جس کے پورا کرنے میں کاوش وکاہش کی ضرورت ہوتی تھی۔ اب یہ حال ہے کہ ہرخوش الحان غزل گو خواہ وہ کتنا ہی مبتدی کیوں نہ ہو جانِ مشاعرہ ہے۔‘‘

    اب یہ استادِسخن کی خاکساری ہے کہ وہ یہ نہیں بتاتے کہ خود کیسے کیسے میدان مارتے تھے اور بلاکسی خالص کاوش وکاہش کے۔ مگر افسوس ’’جانِ مشاعرہ‘‘ نے اس مرغ قبلہ نما کو بھی نہ چھوڑا۔

    یہ ’’جانِ مشاعرہ‘‘ ایک سے دو اور دو سے بہت ہوگئے تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ’’بہارِادب‘‘ والوں کو جیسے اب فرصت رہتی ہے تب بھی رہتی تھی۔ ان کے لے میں سوز ہوا کرے گٹکری نہ تھی۔ جوش حیدرآباد میں پھنسے ہوئے تھے۔ ہاں جگر جگر ہی تھے۔

    یہ تو اوپر اوپر کی باتیں تھیں۔ نہ ہی اس دور کی شاعری کے بادشاہ اساتذہ فن تھے۔ ’’استاد‘‘ اس کو کہتے تھے جو ہر مضمون پر کہے۔ جتنا چاہے اتنا کہے۔ جب چاہے تب کہے اور نہ بھی چاہے تو بھی کہے۔ مگر زمانہ کچھ ایسا آگیا تھا کہ ایک صاحب اتنی ہمت کر بیٹھے کہ کسوٹیوں کو پرکھنے نکلے۔ ایک غزل کہی اور سب استادوں کے پاس اصلاح کے لیے بھیجی۔ پھر ایک کی اصلاح کی ہوئی چیز دوسرے کے پاس بھیجی۔ جب اس ایرپھیر کا بھانڈا پھوٹ گیا تو انہوں نے یہ ستم کیا کہ تمام استادوں کی تنقیدیں، اصلاحیں، نصیحتیں اور لڈو کی فرمائشیں یہ سب ایک کتاب ’’اصلاح سخن‘‘ میں چھاپ دیں۔ کتاب میں ہراستاد کا پینترا الگ تھا۔ ایک جس چیز کو سنگ ریزہ کہتا تھا، دوسرا اس کو ریزہ مینا، تنقیدوں یں بعدالمشرقین تو اصلاحوں میں زمین آسمان کا فاصلہ۔ اگر یہ کتاب دس سال پہلے چھپتی تو سڑکوں پر چاقو چل جاتے۔ مگر اس وقت کیا استادی، کیا شاگردی اور کیا معیاری شاعری ہر چیز کارنگ ہی دوسرا ہوچکا تھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ادھر کتاب نکلی ادھر سویرا تھا۔

    سنجیدہ بزرگ زمانے کی اس بے راہ روی پر کڑھتے تھے۔ ا دبی خزانے پر جو ناگ آکر بیٹھ گئے تھے ان سے بہت چڑھتے تھے۔ نیازمندان ِلاہور کے مضامین اس طوفانِ بے تمیزی کے خلاف فریادیں ہیں۔ ۱۹۳۴ء میں ڈاکٹر عبدالحق نے مسلم یونیورسٹی میں ایک تقریر میں اس بدذوقی پر اظہار افسوس کیا تھا۔ ظریف لکھنوی نے مشاعرہ میں نظم پڑھی جس میں مشاعروں اور شاعروں کا خوب مذاق اڑایا اور یہ خواہش کی کہ شاعری کا کام ہونا چاہیے ملک و قوم کی خدمت، لکھنؤ کے اساتذہ بچارے جب بھی ان جھگڑوں سے فرصت پاتے تھے کہ کون کس کا استاد ہے اور سجدے تڑپنا محاورہ ہے یا نہیں، تو مل بیٹھتے تھے اور ملک کی اس بدمذاقی پر چار آنسو بہا لیتے تھے۔ جگہ جگہ سے معیاری پرچے نکل آئے، خیاباں لکھنؤ، ادب لکھنؤ، شمع آگرہ اور کون اور کون۔ وہ سب آواز ملاکر اس ہنگامے کے خلاف چیخ پکار مچانے لگے۔

    مخالفت چلتی رہی۔ چلتی رہی۔ مگر پھر نظر آنے لگا کہ خالی خولی ڈھول پیٹنے سے کام نہیں چلنے کا۔ رسالوں کے پڑھنے والے اور مشاعروں کے سننے والے کچھ تخلیقی چیز یں چاہتے ہیں۔ پرانی چیزوں میں لاکھ تعریفیں ملاکر پیش کرو ان کو مزا نہیں ملتا۔ وہ چاہتے ہیں افسانے، چاہتے ہیں نظمیں اور ان چیزوں میں بھی کچھ خاص لذتیں تلاش کرتے ہیں۔ یہ چیزیں اگر ہم لکھیں تو ان میں کہیں کیا؟ حسن و عشق؟ بہرام چور؟ یعنی وہی باتیں جن کی مخالفت کر رہے ہیں؟ یہ نہیں تو پھر اور کیا ہو؟ زبان اچھی لکھنا آتی ہے۔ اوروں کی باگ ہاتھ میں ہے۔ نزاکتوں پر قبضہ ہے۔ مگر کوئی بات بھی تو ہو جوان میں ادا کی جائے۔

    اودھ پنچ نے گھبراکر الف لیلےٰ کی کہانیاں اپنے طرز میں لکھنا شروع کردیں۔ پھر یہ کہہ کر بند کردینا پڑیں کہ ہم ٹھہرے اگلے وقتوں کے۔ ہم کو تو ایسی ہی کہانیاں ملتی ہیں۔ لکھنؤ کے اساتذہ کو جب کچھ نہیں ملا تو پھر اپنا چلتا دھندا کیا۔ آپس میں الجھ پڑے کہ شعر کو ڈوب دینا محاورہ ہے یا نہیں۔ اس کے بعد جو چپ لگی تو آج تک منہ سے پھول نہ جھڑے۔ یونیورسٹی کے مفکرادیبوں نے اپنے ہی ایسے انگریزی کے ادیبوں کے ترجمے چھاپ چھاپ کر ایک دوسرے کو دکھائے۔ رفتہ رفتہ مخالفت کرنے والوں کی آوازیں دھیمی پڑنے لگیں۔ وہ دل ہی دل میں کہنے لگے۔ مقامِ شوق ترے قدسیوں کے بس کا نہیں۔ مانو چاہے نہ مانو جانِ مشاعرہ کا قبضہ برحق ہے۔ مشہور نظم مشاعرہ کے مصنف تک کو ان باتوں کا احساس ہوگیا۔ ان کی مسوری کے مشاعرے ۳۴ء والی غزل میں اس بات کے سب رخ آگئے ہیں۔ استادی والے دور پر کہتے ہیں،

    کہہ گل و بلبل کا قصہ کیوں کلب میں بیٹھ کر

    محفلِ نو میں پرانی داستانوں کو نہ چھیڑ

    پھر ان کی طرف سے عذر خواہی کرتے ہیں،

    تجھ کو آثارِ قدیمہ کی حفاظت چاہیے

    اَے نئی تہذیب کے پتلے پرانوں کو نہ چھیڑ

    اور شاید ’’جان مشاعرہ‘‘ کی طرفداری میں کہتے ہیں،

    باغ اگراجڑا تو پھر بولیں گے الو اس جگہ

    ہم صفیر اچھانہیں ہے باغبانوں کو نہ چھیڑ

    یہ حالت تھی۔ سنجیدہ لکھنے والے بے دخل تھے۔ عام ذوق کا سنبھالنا کسی کے بس کی بات نہ تھی۔ لچر لوچ خیالات اور غیرضروری بدیسی ترجموں کی بھرمار تھی۔ زبان ٹھس اور بے اثر ہو کر رہ گئی تھی۔ اچھوں کی قدر صرف انی گنی صحبتوں میں ہوئی تھی۔ ایسی حالت میں ترقی پسند مصنفین آئے، پوپھٹی، علامہ اور جانِ مشاعرہ اور شعراء جن جن کو الہام ہوتا تھا اور مصور درد و غم اپنی اپنی بیاضیں سنبھال کر رخصت ہوگئے۔ عام ذوق اک دم اونچا ہوگیا۔ مضامین، خیالات اور مواد کا یا تو قحط تھا یا افراط ہوگئی۔ مقالوں میں غور و فکر اور تنقیدوں میں گہرائی اآ گئی۔ نظمیں اور افسانے تو نہ جانے کہاں سے کہاں جاپہنچے۔ زبان کا رنگ ایسا بدلا کہ اونچی سے اونچی بات روزمرہ کے تیوروں میں کہہ دی جاتی ہے جیسے کوئی بات ہی نہیں۔ کتابوں کی مانگ بڑھ گئی۔ ان کی سجاوٹ ترقی کرگئی۔ نئے خیالوں کے لیے سڈول الفاظ اور رواں ترکیبیں بن گئیں۔ عام فضا میں ایسی ادبیت آگئی کہ آج ہم اور ہمارے اصلاح کرنے والے انجمنیں بتاتے ہیں، کانفرنسیں کرتے ہیں۔ پھر ان کے چرچے اخباروں میں ہوتے ہیں۔ یہ ہیں ہماری خدمات!

    پھر بھی ہم سے یہ گلہ ہے کہ وفادار نہیں

    اَے بھیگی ہوئی رات کے پرسکون لمحوں میں آواز دینے والے

    تو ہی کہہ دے کہ اکھاڑا درِخیبر کس نے

    کہیے گا کہ یہ ادبی انقلاب تو زمانے کا عطیہ ہے۔ زمانہ رنگ بدلتا ہی رہتا ہے۔ ہاں، ٹھیک بات ہے۔ مگر آپ جانئے زمانہ جو بات کہتا ہے ہاتف کی زبان سے سنی۔ مادی زبان سے کہتا ہے۔ اس دور میں اس نے اپنی بات کن لوگوں کی زبان سے کہی؟ ترقی پسند مصنفین کی زبان سے یا کسی اور کی؟

    ابھی سال بھر ادھر کی بات ہے کہ ترقی پسند مصنفین پر بہت سے اعتراض تھے۔ کوئی کہتا تھا کہ یہ تو ادب کی ریشمی ریشمی تھیلی میں ہنسیا اور ہتھوڑا ٹھونسنا چاہتے ہیں۔ کوئی یہ کہتا تھا دیکھیے تو بھلا ان لوگوں کو رہیں محلوں میں اور خواب دیکھیں جھونپڑیوں کا۔ مگر اب یہ سب باتیں آئی گئی ہوگئیں۔ بھلا ہو گورنمنٹ کے پروپیگنڈا ڈیپارٹمنٹ اور عوامی جنگ کی تحریک کا۔ سب ہی مخالف تو ہنسیا اور ہتھوڑا اور جو بھی اورزار ہاتھ میں آیا لے کر قومی جنگ گڑھنے میں لگ گئے۔ اب لے دے کے ایک اعتراض اور رہ گیا ہے وہ یہ کہ اس میں عریانی اور فحش نگاری ہے۔

    مگر یہ اعتراض نہیں، پہلو ہے اعتراض کا۔ مار اس مورچے پر ہے کہ ایسی گولہ باری کرو کہ قلعہ ہی اڑجائے۔ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری۔ چنانچہ جو مرد میدان تھے، نہ آؤ دیکھا نہ تاؤ، نہ مورچے کی ڈسپلن کا خیال کیا اور نہ نقشہ جنگ کا، قلعہ ہی پر پھاند پڑے۔ تقریریں سنو تو معلوم ہوتا ہے کہ ترقی پسند مصنفین کی ساری پونچی فحش چیزیں ہیں اور اصلاح کرنے والوں کی زندگی کا مصرف محض ان کی مخالفت۔

    اصلاح کرنے والو! خوش آمدید۔ تمہاری جگہ مدتوں سے خالی پڑی تھی۔ حیرت ہے تو یہ کہ اتنی دیر کیوں لگائی۔ ’’بارے زمانہ نیند کے ماتوں کو لایا ہوش میں۔‘‘ آؤ شوق سے کرو۔ پاک زبان سے برا بھلا کہو۔ فحاشی کی روک تھام کے لیے سوا فحاشی کرو۔ سب سر آنکھوں پر۔ مگر یہ تو بتاؤ کہ مخالفت کی یہ گاڑی کہاں تک گھسیٹوگے؟ کیا تمام رسالوں، مشاعروں، کتب خانوں کو انہیں مخالفانہ باتوں سے بھروگے؟ سالہا سال بھرتے رہوگے؟ ہمیشہ بھرتے رہوگے؟ بابا کبھی کوئی تخلیقی چیز بھی لکھوگے؟ جو چیز لکھوگے اس میں کوئی بات، بات کی تہ میں زندگی کا کوئی نظریہ ہوگا؟ وہ کیا ہوگا؟

    سچی بات کہیں جی تو ہمارا بھی چاہتا ہے کہ ایسی پیاری پیاری چیز لکھنے جوان کو لبھاتی ان کو اچھاتی۔ ان کو گدگدتی، ان کو لوریاں سناتی۔ اندر نہ کوئی مقصود ہوتا اور نہ روٹھتا۔ بقول کسی کے ؎

    میں ننھی سی جان غریب بڑی، کبھی بھول کے دکھ نہ کسی کو دیا

    نہ تو روٹھی کبھی نہ کسی سے لڑی، میری باتوں نے گھر ہی کو موہ لیا

    مختصر یہ کہ ایک بات کہتے جو نہ ایسی ہوتی نہ ویسی۔ کاش یہ بات، اجتماع نقیضین ہو چاہے ارتفاع نقیضین ممکن ہوتی!

    ادیب جو مقصد کا قائل نہیں ہے دراصل اپنے شاہکار کے اثر سے خود نہیں واقف ہے۔ وہ یہ تو دیکھ لیتا ہے کہ میرے شعر سن کر لوگوں کاچہرا بدل جاتا ہے۔ مشاعروں میں سردھننے لگتے ہیں۔ میری کتابیں آندھی کی طرح ملک کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک پھیل جاتی ہیں۔ مگر یہ نہیں دیکھتا کہ میرے کلام میں کس قسم کی بجلی ہے اور کتنی دیر پا ہے، اس کی لہریں دلوں میں کیسے کیسے دوڑتی ہیں اور حرکات اور سکنات میں کس کس انداز سے ظاہر ہوتی ہیں۔

    پرانے قسم کی ایک ناول کے اثر کا تماشا میں نے دیکھا ہے۔ ایک صاحب کے دل پر اس کا تیاگ کاپیام ایسا کاری لگا کہ عین جوانی میں وہ دنیا پر لات مار کر گوشہ نشین ہو گئے۔ اب سرشادی کی حالت یہ ہے کہ بڑی سے بڑی حق تلفیاں ان سے سرزد ہوجاتی ہیں اور بچارے کو احساس تک نہیں ہوتا۔

    مأخذ:

    ادب لطیف،لاہور (Pg. 104)

      • ناشر: چودھری برکت علی
      • سن اشاعت: 1943

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے