Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ترقی پسندی، جدیدیت، مابعد جدیدیت

گوپی چند نارنگ

ترقی پسندی، جدیدیت، مابعد جدیدیت

گوپی چند نارنگ

MORE BYگوپی چند نارنگ

    ان تینوں میں سے کوئی بھی میرا ذاتی مسئلہ نہیں، ترقی پسندی، جدیدیت نہ مابعد جدیدیت۔ لیکن اس وقت صورت حال کیا ہے، کیا ہو رہا ہے اور ہم کدھر جا رہے ہیں؟ نئی نسل کے لکھنے والے بالخصوص پچہتر اسّی کے بعد ابھرنے والے شاعر و افسانہ نگار کیوں بار بار اپنی برات کا اظہار کرتے ہیں، کیوں کہتے ہیں کہ وہ نہ جدیدیت کا حصہ ہیں نہ ترقی پسند تحریک کا، بلکہ ان کی پہچان الگ ہونی چاہیے کیونکہ وہ اگلوں سے الگ ہیں۔ لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ اگلوں کی صفوں سے جواب آتاہے کہ وہ اگلوں سے الگ نہیں اور ان کی کوئی الگ پہچان نہیں اور وہ اگلوں ہی کا حصہ ہیں۔ اور نئے بہر حال یہ بالاصرار کہتے ہیں کہ وہ ان کا حصہ نہیں۔


    یہ صورت حال دلچسپ ہو نہ ہو انوکھی ضرور ہے۔ اس سے پہلے جب جب بھی تحریکیں بدلی ہیں یا میلانات تبدیل ہوئے ہیں، کشاکش تو ہوئی ہے لیکن اس نوع کا کنفیوژن کبھی نہیں پھیلایا گیا۔ گویا تاریخ اپنے آپ کو دہراتی بھی ہے اور نہیں بھی دہراتی، کیونکہ اس طرح کی سچویشن فقط موجود کا مسئلہ ہے۔ ماضی میں ایسا کبھی نہیں ہوا۔ ایسے مضامین ہندوستان میں بھی اور پاکستان میں بھی برابر شائع ہو رہے ہیں جن میں جدید تر غزل یا جدید تر افسانے سے بحث کی جاتی ہے۔ اس میں جن خصوصیات پر زور دیا جاتا ہے، ان میں سے بعض مشترک بھی ہیں۔ اس کا بھی احساس عام ہے کہ ترقی پسند تحریک تو بہت پہلے دم توڑ چکی تھی، اب جدیدیت بھی بے جان اور بے اثر ہو چکی ہے لیکن جدیدیت کے ایک حلقے سے اس کی تردید بھی کی جاتی ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ کسی تحریک کے نام لیوا اس تحریک کی پسپائی کا اقرار کرنے کو آسانی سے تیار نہیں ہوتے، خصوصاً جب وہ اس کے قافلہ سالار بھی رہے ہوں۔ ایسے میں شمس الرحمن فاروقی کا سات آٹھ سال پہلے کا یہ بیان خاصا حوصلہ مند انہ تھا،

    ’’مجھے اس بات سے کوئی خوف نہیں آتا کہ نئے لکھنے والے جدیدیت سے انحراف کریں گے یا کرنا چاہیں گے۔ ادبی اصول ونظریات کو میں ترقی پسندوں کی طرح مطلق اور آفاقی اور ہمہ وقتی نہیں سمجھتا۔ میں امید کرتا ہوں کہ ادب کے بارے میں کئی طرح کے نظریات صحیح ثابت ہو سکیں گے۔ جدیدیت کوئی مذہب نہیں، کوئی الہامی فلسفہ نہیں، جس سے انحراف کفر ہو۔ ایک دن وہ بھی ہوگا جب جدیدیت اپنا کام اچھا برا کر چکےگی۔ کوئی اور نظریہ ادب اس کی جگہ لےگا۔ میں اس دن کا منتظر ہوں۔‘‘ (ہماری ادبی صورت حال۔ شب خون)

    یہ 1988 کا بیان ہے۔ کیا ان سات آٹھ برسوں میں کوئی اور نظریہ ٔ ادب سامنے نہیں آیا۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک نہیں کئی نظریۂ ادب زیر بحث رہے ہیں اور ان سب کا تعلق مابعد جدیدیت کے دور سے ہے۔ جہاں تک جدیدیت کا تعلق ہے، جدیدیت تو دنیا میں دوسری جنگ عظیم کے بعد یعنی 1946-47 ہی سے روبہ زوال ہو گئی تھی، لیکن ہر زبان میں رجحانات و میلانات ہوں یا تحریکیں، اس زبان کے مخصوص حالات کے پیش نظر ہی پنپتی ہیں۔ اردو میں ان تحریکوں کے ماڈل لاکھ عالمی ہوں لیکن ان کے بعض خصائص اور Timings خاص ہمارے حالات کے مطابق ہوں گے۔ سامنے کی بات ہے کہ اردو میں جدیدیت عین اس وقت شروع ہوئی جب وہ دنیا میں تقریباً ختم ہو چکی تھی۔ مزید یہ کہ دنیا میں جدیدیت روشن خیالی کا حصہ تھی اور اس میں ترقی پسندی ایک جوہر تھا۔ اردو میں جدیدیت ترقی پسندی کی ضد کے طور پر ابھری اور مارکسزم دشمنی (بالخصوص ماسکو برانڈ مارکسزم دشمنی) اس کی اساسی پہچان تھی۔ سردست اس سے بحث نہیں کی صحیح کیا اور غلط کیا تھا، ترقی پسندی کی طرح جدیدیت نے بھی بیس پچیس برس اردو کو سیراب کیا اور پھر اس کی قوت ختم ہو گئی۔

    اس بات سے شاید ہی کسی کو اختلاف ہوکہ جب تک اردو میں جدیدیت کا زور تھا، کوئی نظریاتی خلا نہیں تھا۔ جیسے جیسے جدیدیت کمزور ہوتی گئی اور اس میں تکراروتعمیم کی صورت پیدا ہوئی اور ذہن وشعور کو انگیز کرنے والی تازگی ختم ہو گئی، نظریاتی خلا پیدا ہوتا گیا۔ مابعد جدیدیت جو دنیا میں کئی دہائیاں پہلے شروع ہو چکی تھی اور کئی فکری کروٹیں لے چکی تھی، اردو میں اس نظریاتی خلا میں داخل ہونا شروع ہوئی۔ ادب میں بھی زندگی کی طرح چونکہ جدلیاتی عمل جاری رہتا ہے اور نئے پرانے کی کشمکش جاری رہتی ہے، بالآخر نئے نظریات پرانے نظریات کو رد کر کے یا ان کی تقلیب کرکے سامنے آ ہی جاتے ہیں۔ کبھی ان کی آمد کا اعلان زور شور سے ہوتا ہے اور ان کے مؤیدین شدت اور انتہا پسندی کا اظہار کرتے ہیں، کبھی یہ کام نسبتاً پرسکون اور گہرے طریقے پر ہوتا ہے لیکن ہوتا ضرور ہے۔

    اس بات سے شاید ہی کسی کو اتفاق ہو کہ اردو ادب میں اس وقت نظریاتی خلا ہے یا شاعری یا فکشن کے تخلیقی رویوں میں تبدیلی نہیں آئی، یا ادبی فکر میں نئے نظریات کا خون شامل نہیں ہوا، یا ہماری شعریات میں جن باتوں پر ساٹھ کی دہائی میں اصرار تھا آج اس میں تبدیلی نہیں آئی، اگر یہ سب تبدیلیاں حقیقت ہیں تو پھر یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہماری شعریات بدل نہیں رہی اور نئے نظریات کا عمل دخل شروع نہیں ہو چکا ہے۔

    جنریشن گیپ اور فوری پیشرووں سے انکار
    نئی نسل کے ایک نمائندے کا یہ بیان خالی از دلچسپی نہیں، ’’اردو ادب میں ایک ذہین، حساس اور باشعور نسل رفتہ رفتہ سامنے آ رہی ہے جو تحقیق، تنقید اور تخلیق تینوں سطحوں پر تازہ دم اور حوصلہ مند ہے۔ یہ نئی کھیپ ماضی کے صحت مند اقدار کی بازیافت، حال کے ہمہ جہت عرفان اور مستقبل کی روشن سمت کے لیے مصروف ریاضت ہے۔‘‘ 
    (خورشید اکبر، دیباچہ: مخدوم محی الدین؛ حیات اور شاعری)

    اس ضمن میں عمروں کا فرق یا زمانی بعد بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ شمس الرحمن فاروقی نے بھی اس کا اقرار کیا ہے،

    ’’ایسا تو نہیں ہے کہ ہمیں لوگ بڈھے ہو گئے ہیں، کیونکہ اس وقت ہمیں لوگ اعتراض کرتے تھے اپنے بزرگوں پر کہ صاحب آپ لوگ بوڑھے ہو گئے ہیں اور اب آپ لوگوں کو اپنی کرسیاں ہلتی ہوئی نظر آرہی ہیں اور ایسے بھی پرانے ہو جانے کی بنا پر آپ کے نظریے میں وہ لچک نہیں ہے جس سے آپ ہم لوگوں کو پڑھ سکیں۔ کیا اس طرح کا الزام یا اعتراض ہم پر بھی عائد ہو سکتا ہے کہ اب تم بوڑھے ہو گئے ہو۔ لہٰذا تم لوگوں میں یہ کمزوری آ گئی ہے جو تمہارے پیشرووں میں تھی کہ تم اپنے سامنے کی چیزوں کو نہیں پڑھ سکتے۔ ہم لوگ، کم از کم میں بوڑھا ہو چکا ہوں اور اس لیے مجھے اپنے بعد والوں کی تحریریں دکھائی نہیں دے رہی ہیں جس طرح سے کہ ہم لوگ اپنے بزرگوں سے شکایت کیا کرتے تھے۔‘‘ (ایوان اردو، اپریل۹۵، ص۱۶)

    لیکن سچائی فقط اتنی نہیں۔ بیشک زمانی فاصلہ یا نسلی بعد ایک عمومی حقیقت ہے، مذاق اور مزاج بدلتے ہیں اور اگلے پچھلوں کی بہت سی باتوں کو انگیز نہیں کر سکتے۔ لیکن اتنی ہی بڑی سچائی یہ بھی ہے کہ جہاں بعض لوگ بعض رجحانات یا نظریات کا بت بنا لیتے ہیں یا ان سے اس حد تک وابستہ ہو جاتے ہیں کہ ان خیالات کو دنیا کی آخری سچائی سمجھ لیتے ہیں، وہاں کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو عمروں کے فرق کے باوجود اپنی کشادہ نظری کی بدولت سچ کی جستجو میں نہ صرف نئے کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں بلکہ خود بھی بدلتے ہیں اور نئے کی افہام وتفہیم میں بھی حصہ لیتے ہیں۔ گویا زمانی بعد فقط زمانی ہی نہیں ہوتا یہ ذہنی بھی ہوتا ہے۔

    سامنے کی مثال ہے کہ آل احمد سرور ترقی پسندوں میں پیش پیش تھے اور بہت سے جدید ادیبوں کی بہ نسبت بزرگ تھے لیکن جب جدیدیت کا آغاز ہوا تو وہ جنریشن گیپ کا شکار نہیں ہوئے بلکہ ان کا شمار جدیدیت کے ہر اول دستے میں ہوتا رہا اور انہوں نے جدیدیت کی افہام وتفہیم میں خاصا اہم حصہ لیا۔ خلیل الرحمن اعظمی مرحوم اور باقر مہدی بھی بہت سے جدیدیوں سے ایک آدھ نسل آگے تھے لیکن خود انہوں نے بھی زندگی بھر اپنے سے بعد کی نوجوان نسل کا ساتھ دیا اور سچائی کی تلاش میں اپنے موقف میں تبدیلی کو کبھی عار نہیں سمجھا، نتیجتاً ان کی معنویت برقرار رہی۔ اس کے برعکس جن لوگوں کے ذہنی رویوں میں کٹر پن یا سخت گیری تھی، وہ اپنے بعد آنے والوں کے مسائل اور دردکو نہ سمجھ سکے اور جنریشن گیپ کا شکار ہو گئے۔

    غالب نے بار بار اپنے معاصرین کے بارے میں لکھا ہے کہ فلاں کا قول وحی یا الہام نہیں ہے کہ اس کو ایمان کا درجہ دوں۔ ادب پنپتا ہے انحراف واجتہاد واختلاف سے۔ یہ کھیل ہی افتراق وانفراد کا ہے، سوآڈن کا قول کہ ’’کوئی نسل اس وقت تک جدید ہو ہی نہیں سکتی جب تک وہ اپنے فوری پیشروؤں کا سراسر انکار نہ کرے۔‘‘ بھی ایسا فارمولا نہیں جس میں کوئی سقم نہ ہو۔ بعد کے آنے والے فوری اگلوں سے انحراف کرتے بھی ہیں اور نہیں بھی کرتے۔ اس کا کیا کیا جائے کہ اگلوں ہی میں بعض شخصیتیں تخلیقی رویوں کے اعتبار سے نمو کرکے بدل جاتی ہیں اور بعد والوں سے مل جاتی ہیں۔ سواس صورت میں تمام اگلوں سے سراسر انکار کا سوال پیدا نہیں ہوتا۔ پھر یہ انکارواقرار ENBLOC بھی نہیں ہوتا، تخلیقی رویوں اور نظریاتی ترجیحات کی بنا پر ہوتا ہے۔

    دور کیوں جائیں، جدیدیت نے جہاں بقول شخصے سردار جعفری یا مخدوم یا مجاز سے انکار کیا، وہاں راشد یا میرا جی سے انکار کیوں نہیں کیا جبکہ ان کا تعلق بھی فوری پیش روؤں سے تھا۔ اسی طرح جہاں فیض کے لب ولہجے کو روایتی کہہ کر رد کیا گیا، فراق و یگانہ کو رد نہیں کیا گیا، حالانکہ یہ بھی فوری پیش روؤں میں سے تھے۔ کم وبیش یہی صورت حال فکشن میں بھی جاری رہی کہ پریم چند اور کرشن چندر سے تو انکار کیا گیا لیکن منٹو اور بیدی ہمیشہ IN رہے۔ غرضیکہ آڈن کے قول کو رہنما اصول بناکر، آج کی صورت حال کو سمجھنا ممکن نہیں۔ یہ صورت حال میری حقیر رائے میں اتنی سادہ اور آسان بھی نہیں کہ سابقہ فارمولوں کی مدد سے اس کو انگیز کر سکیں۔ ہو سکتا ہے کہ اس وقت بھی اگلوں میں کچھ کی سوچ میں لمحہ بہ لمحہ تبدیلی آ رہی ہو اور ان کے تخلیقی رویے بدل رہے ہوں اور نئی پیڑھی کے ادیب اور شاعر ان بدلتے ہوئے اگلوں میں اور اپنے رویوں میں زیادہ فرق نہ دیکھتے ہوں۔

    کیا ہر تبدیلی یکتا نہیں ہوتی؟
    اس کا اعتراف ’’ایوان اردو‘‘ والی بحث (اپریل 1995) میں اگلوں نے کیا ہے کہ نئی پیڑھی کے لوگ برابر کہہ رہے ہیں کہ وہ اپنے پیش روؤں سے الگ ہیں اور ان کا اعتراف الگ ہونا چاہیے۔ ظاہر ہے کہ نئی پیڑھی کے ادعا میں یہ بات بھی موجود ہے کہ اعتراف اس لیے الگ ہونا چاہیے کہ ہم لوگ اپنے پیش روؤں سے الگ ہیں، لیکن کیوں الگ ہیں؟ اس لیے کہ ان کے ایشو الگ ہیں، اس لیے کہ ان کا تخلیقی رویہ الگ ہے، اس لیے کہ ان کی سوچ الگ ہے۔ دوسرے لفظوں میں الگ ہونے کا احساس تو ہے لیکن شاید بہت سوں کے ذہنوں میں تھیور یٹیکل فریم ورک واضح نہیں۔ یہ ایک عجیب وغریب صورت حال ہے جس کی کوئی نظیر اس سے پہلے اردو میں نہیں ملتی۔ مثلاً سرسید تحریک کی سماجی اور اصلاحی ترجیحات خاصی واضح تھیں۔ ترقی پسند ی کا مقابلہ دقیانوسیت سے تھا اور ہندوستان کی آزادی اور عوامی جدوجہد کا تصور بھی خاصا واضح تھا اور تخلیقی ذہنوں کو اس جانب مائل کرنے میں کوئی پیچیدگی یا دقت نہیں تھی۔

    جدیدیت اس معنی میں آئیڈیو لوجیکل نہ تھی جس معنی میں سرسید تحریک آئیڈیولوجیکل تھی یا ترقی پسند تحریک آئیڈیولوجیکل تھی۔ جدیدیت کا دعویٰ تھا کہ وہ غیر سیاسی ہے، نیز وجودیت اور اجنبیت Alienation کا ایجنڈا ہر چند کہ پیچیدہ تھا، لیکن ترقی پسندی کے سیاسی یعنی مارکسی ایجنڈے کی تردید آسان راہ تھی، اس لیے جدیدیت میں سب سے زیادہ زور اسی پر دیا گیا۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اردو میں جدیدیت ترقی پسندی کے ردعمل کے طور پر ابھری اور جدیدیت کو اتنی نظریاتی تقویت وجودیت یا اجنبیت سے نہیں ملی جتنی ترقی پسندی کے اینٹی ایجنڈے سے ملی، بلکہ وجودیت یا اجنبیت کی نظریاتی بنیادوں کو بھی اس اینٹی ایجنڈے کے ایندھن کے طور پر استعمال کیا گیا۔

    کہنے کامطلب یہ ہے کہ سابقہ ادبی تحریکوں میں ایشو صاف تھے اور صف آرائی آسان تھی۔ اب صورت حال بہت مختلف ہے۔ تبدیلی تو ہے لیکن صف آرائی بالکل نہیں۔ چنانچہ جن کو صف آرائی کی توقع ہے یا جو صف آرائی کے خواہاں ہیں، ان کی خواہش کے پورے ہونے کے آثار بھی نہیں۔ موجودہ حالات میں دوتین باتوں پر غور کرنا بہت ضروری ہے۔ اول یہ کہ کیا ہر ادبی تبدیلی یا انحرافی صورت حال کے لیے لازم ہے کہ وہ سابق کے پیرا میٹرکی پیروی کرے اور نوعیت کے اعتبار سے واضح متوازی خطوط پر عمل آرا ہو۔ کیا یہ صحیح نہیں کہ ہر ادبی تبدیلی یا تحریک یکتا (Unique) ہوتی ہے۔ یہ فقط تاریخ کا عمل ہے جو اسے سانچے میں بٹھا دیتا ہے۔

    مثلاً سرسید نے جب اپنا تعلیمی مشن شروع کیا تھا، جس کاحلقۂ اثر نصف صدی سے بھی زیادہ زمانے کو محیط ہے تو تقریباً دو دہائیوں تک سرسید یا ان کے رفقا میں سے کسی نے ادعانہیں کیا کہ یہ کوئی ادبی تحریک بھی ہے۔ جتنی تبدیلیاں بشمول حالی وآزاد کی جدید شاعری کے منشور کے یا نذیر احمد کی ناول نگاری کے واقع ہوئیں، ان کو ’’سرسید تحریک‘‘ کا نام بہت بعد کو تاریخ نے دیا۔ اور تو اور شبلی کے سرسید سے نظریاتی اختلافات کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں، لیکن شمار شبلی کابھی سرسید تحریک ہی میں کیا گیا۔ اسی طرح ترقی پسندی بھی اس اعتبار سے یکتا تھی کہ سرسید تحریک کے محرکات مقامی ومذہبی تھے، لیکن ترقی پسند تحریک کے محرکات مقامی سے بڑھ کر بین الاقوامی، غیرمذہبی اور سیاسی تھے۔ ترقی پسندوں کو جہاں اس کا پورا احساس تھا کہ وہ شدومد سے ایک سیاسی وادبی تحریک میں شریک ہیں، جدیدیوں میں آج تک یہ بحث چلی آتی ہے کہ جدیدیت تحریک ہے یا میلان۔ آل احمد سرور نے 1995 میں بھی اپنے ’’ایوان اردو‘‘ والے انٹرویو میں اس بات کو دہرایا ہے کہ میں جدیدیت کو آج بھی ایک میلان سمجھتا ہوں۔

    بہرحال اتنی بات تو معلوم ہے کہ جدیدیت نے بخلاف ترقی پسند تحریک کے نہ کوئی باضابطہ منشور جاری کیا نہ کوئی تنظیم بنائی، نہ عہدہ دار مقرر کیے، نہ آئے دن ریزولیوشن پاس کیے، نہ مخالفین کو برادری باہر کیا۔ گویا سرسید تحریک ہو یا ترقی پسند تحریک یا جدیدیت، تغیر وتبدل کی ہر کروٹ کی یکتائی مسلم ہے۔ سب سے بڑی قدر مشترک نقطہ نظر اور تخلیقی رویے کی تبدیلی ہوا کرتی ہے جو تاریخی حالات کی اور خود ادب کے اپنے داخلی محرکات اور تقاضوں کی زائیدہ ہوتی ہے۔ باقی تمام تفاصیل تضادات کا مجموعہ ہوتی ہیں جنہیں ادبی تاریخ چھیل چھال کر ایک دور کا نام دے دیتی ہے۔

    چنانچہ جدیدیت کے بے اثر ہو جانے کے بعد اگر نئی تبدیلیاں اور ان کے نقیب نئی پیڑھی کے لوگ پہلے جیسی شدومد کے ساتھ اگلوں سے انکار نہیں کر رہے یا ان میں جذباتی بغاوت کے وہ آثارنہیں تو یکتا ئی کے اصول کی روسے کیا ایسا کرنا تبدیلی کے جوازکے لیے لازم ہے؟ یہ کیا ضروری ہے کہ ہر تبدیلی ہذیانی کیفیت کی حامل ہو؟ تغیر وتبدل کا ہر عمل چونکہ یکتا ہے، کبھی وہ بظاہر پرسکون اور نسبتاً خاموش عمل کی صورت میں بھی رونما ہو سکتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں کسی آئندہ کے عمل تغیر کو پہلے کے پیمانوں اور اصولوں سے ناپا جا سکے، یہ ضروری نہیں۔ واضح رہے کہ ہر تبدیلی چونکہ اپنی خاص نوعیت رکھتی ہے، اس لیے اپنا پیمانہ بھی وہ خود ہی ہوا کرتی ہے۔ اس کو دوسرے پیمانوں سے ناپنا مناسب نہیں۔ چنانچہ جدید ترتبدیلی کو بھی سابقہ پیمانوں کی مدد سے ناپا یا سمجھا نہیں جا سکتا۔

    کیا موجودہ دور مابعد جدیدیت کا دور نہیں؟
    دوسری غور طلب بات یہ ہے کہ مابعد جدیدیت ایک تاریخی دور بھی ہے جس میں دنیا داخل ہو چکی ہے اور اردو ز بان خواہ ہندوستان میں یا پاکستان میں، اس سے باہر نہیں۔ برقیاتی میڈیا کی یلغار سے پوری دنیا زیروزبر ہو رہی ہے۔ نئی تکنیکی ایجادات، مصنوعی سیاروں، ترسیل وتبلیغ کی بڑھتی ہوئی سہولتوں، کمپیوٹر ٹکنالوجی، کمرشل تقاضوں، صارفیت کی ریل پیل اور منڈی معیشت نے جہاں بظاہر نئی ترقیوں کے دروازے کھول دیے ہیں وہاں مسائل بھی پیدا کر دیے ہیں، جن کا کوئی آسان حل سامنے نہیں ہے۔ فیصلوں کی طاقت اب ’’سیاسی قدر‘‘ سے زیادہ ’’کمر شل قدر‘‘ کے ہاتھوں میں آ گئی ہے۔ یہ معمولی تبدیلی نہیں۔ جس ’’انفارمیشن ہائی وے‘‘ کا چرچا ہے ہم سب اس کی زد میں ہیں۔ خریدوفروخت، حصول علم، تجارت، ترسیل سب پر اس کا اثر پڑ رہا ہے۔

    جب پوری زندگی، سماج کا ڈھانچہ، انسان کے رویے اور ثقافتی ترجیحات ہر چیز بدل رہی ہے تو کیا زبان وادب اس فضا سے الگ ہیں۔ پھر ہمارے اپنے مسائل بھی کم لرزہ خیز نہیں، کشمیر کا مسئلہ، بابری مسجد کا المیہ، پنجاب کی صورت حال، آئے دن کے بم دھماکے اور فسادات، قبائلی اور پہاڑی علاقوں کے مسائل، بڑھتی ہوئی آبادی، سکے کی گرتی شرح، بے روز گاری، کرپشن، سیاسی قدروں کی پامالی۔ بہر حال یہ ایک مختلف تاریخی دور ہے اور اردو بھی اسی دور میں سانس لے رہی ہے۔ خارجی عوامل تو سب زبانوں کے لیے ایک جیسے ہیں اور یکساں ہو سکتے ہیں، لیکن ثقافتی ادبی رویے زبان وادب کے اپنے مزاج اور داخلی تحریک کی بنا پر طے پاتے ہیں۔

    اردو میں ہرگز ضروری نہیں کہ مابعد جدیدیت کی تبدیلیاں مغرب کا چربہ ہوں یا یورپ کی زبانوں کا ظل ثانی ہوں۔ اردو میں رویوں کی تبدیلی اردو کے اپنے مخصوص ادبی حالات اور تخلیقی ضرورتوں اور تہذیبی مزاج وافتاد کی زائیدہ ہوگی اور سردست غور طلب یہی ہے۔ نیز یہ تبدیلیاں فقط اردو ہی میں نہیں، ہندوستان کی دوسری زبانوں میں بھی ان کے اپنے اپنے حالات کی رو سے رونما ہو رہی ہیں۔

    مابعد جدیدیت ردعمل نہیں بلکہ کشادہ ذہنی رویہ ہے
    تیسرے یہ کہ یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ جس طرح ترقی پسندی دقیانوسیت کی ضد تھی یا جدیدیت اور ترقی پسندی سیاسی اور غیر سیاسی ایجنڈے کی بنا پر ایک دوسرے کی ضد تھیں، مابعد جدیدیت، جدیدیت کی ضد نہیں ہے۔ یہ دونوں سابقہ تحریکوں کی طرح (Diametrically Opposed) نہیں ہیں۔ مابعد جدیدیت بلا شبہ جدیدیت سے الگ بھی ہے اور اس سے انحراف بھی ہے لیکن اس میں لاحقہ ’’مابعد‘‘ بے مصرف نہیں۔ یعنی زمانی اعتبار سے مابعد جدیدیت، جدیدیت کے بعد بھی ہے اور اس سے الگ بھی ہے۔ الگ اس معنی سے کہ اس کی ترجیحات کا انحراف اس کی حاوی ترجیحات سے ہے۔ گویا اس کے فلسفیانہ قضا یا اس کے فلسفیانہ قضا یا سے نمو کرتے ہیں اور اس کو سمجھنے کے لیے سابق کے قضایا کا حوالہ ضروری ہے۔

    دوسرے لفظوں میں مابعد جدیدیت کی متعدد انحرافی ترجیحات جدیدیت کی ترجیحات کی ارتفاعی صورت ہیں۔ یعنی ضروری نہیں کہ ہراہر نکتے سے اختلاف کیا گیا ہو لیکن جن نکات سے اختلاف وانحراف کیا گیا ہے، وہ اس درجہ بنیادی ہے کہ مابعد جدیدیت کا نظریاتی کردار جدیدیت سے الگ قرار پایا جاتا ہے۔

    مابعد جدیدیت کی وحدانی تعریف ناممکن: بتِ ہزار شیوہ
    چوتھی بات یہ کہ ترقی پسندی کی طرح جدیدیت بھی نظریاتی اعتبار سے یک نوعی (Monolithic) اور وحدانی تھی۔ اس کی تعریف او رتعین آسان تھا۔ مابعد جدیدیت کے جو روپ اب تک سامنے آئے ہیں، اس کی بنا پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ مابعد جدیدیت نہ تو وحدانی ہے اور نہ یک نوعی۔ ترقی پسندی یا جدیدیت کا بنیادی محرک وحدانی نظریۂ ادب تھا جس کو دو اور دوچار کی زبان میں بیان کرنا ممکن تھا۔ جدیدیت کے بعد جو فلسفۂ ادب سامنے آیا ہے اور ادبی تھیوری میں جو ترقی ہوئی ہے، اس کی کوئی نظیر سابقہ زمانوں میں نہیں ملتی۔ یعنی موجودہ زمانہ کسی ایک نظریہ ادب کا نہیں نظریہ ہائے ادب کا ہے۔ ساختیات ہو یا پس ساختیات، مظہریت ہو یا قاری اساس تنقید، تفہیمیت ہو یا رد تشکیل، نسوانیت ہو یا نئی تاریخیت، یہ سب ادبی نظریے کم وبیش اسی زمانے میں سامنے آئے ہیں یا ادب کی دنیا میں ان کا عمل دخل جدیدیت کے بعد ہوا ہے۔ ان نظریوں کے نشوونما اور فروغ کی کہانی عالمی سطح پر جدیدیت کی پسپائی کی کہانی ہے۔

    ادھر کے بیس پچیس برس فلسفہ ادب میں کشمکش اور صف آرائی کے برس ہیں اور کئی مقامات پر یہ صف آرائی ہنوز جاری ہے۔ بہرحال مابعد جدیدیت سے ان نظریہ ہائے ادب کا ٹانکا بھڑا ہوا ہے اور اس اعتبار سے مابعد جدیدیت یک نوعی یا وحدانی نہیں، یہ متنوع اور تکثیری ہے۔ یعنی یہ واحد المرکز نہیں بلکہ کثیر المراکز اور رنگا رنگ ہے۔ نظریاتی اعتبار سے دیکھیں تو مابعد جدیدیت بت ہزار شیوہ ہے۔ ترقی پسندی اور جدیدیت تک ہمارے ذہن سیدھی سادی وحدانی تعریفوں کے عادی رہے ہیں۔ اس وقت ہماری سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ مابعد جدیدیت کی کوئی سکہ بند یافارمولا بند تعریف ممکن نہیں، کیونکہ مابعد جدیدیت بنیادی طور پر فارمولے وضع کرنے یاہدایت نامے جاری کرنے کے خلاف ہے۔

    عام سوجھ بوجھ پر مبنی چلے آرہے فرسودہ مفروضات کو چیلنج
    پانچویں اور آخری بات یہ کہ ادھر فلسفۂ معنی ہو کہ فلسفۂ حقیقت، ساری ترقی اسی بات میں ہوئی ہے کہ حقائق وہ نہیں ہیں جو نظر آتے ہیں۔ ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ۔ سوسیئر کا فلسفۂ لسان ہو یا ہرسرل کی مظہریت یا دریدا کی ردتشکیل، ان کا سیدھا وار عام سوجھ بوجھ پر مبنی یعنی Common Sense مفروضات پرہے۔ ہوسرل کو سب سے زیادہ اصرار اسی بات پر تھا کہ Common Sense نے انسان کو اندھا کر دیا ہے، حقیقت ہرگز وہ نہیں ہے جونظر آتی ہے۔ انسان نے اپنی عام سوجھ بوجھ کی بنا پر جو مفروضات گڑھ لیے ہیں، انہیں کے بل پر ہم جیتے ہیں حالانکہ وہ حددرجہ مغالطہ آمیز ہیں۔ صدیوں کے عمل نے انسان کو Common Sense کا اسیر بنا دیا ہے۔

    چنانچہ نئے فلسفوں کا براہ راست چیلنج Common Sense کے خلاف ہے جس کا سیدھا اثر فلسفہ ہائے ادب پر بھی پڑا ہے اور بہت سے سابقہ مفروضات رد ہو گئے ہیں، مثلاً معنی کا وحدانی یعنی متعین ہونا، مصنف کا مقتدر ہونا، یا متن کی خود مختاریت یا خود کفالت، ادب اور آئیڈیولوجی یا ادب اورتاریخ کے رشتے کی نوعیت وغیرہ۔ ان مباحث میں پہلے سے چلے آرہے مفروضات پر جو ضرب پڑی ہے، بہت سوں کو اس سے شدید صدمہ ہوتا ہے۔ چونکہ ہم میں بہت سے سابقہ مفروضات کے اسیر ہیں اور ان سے ہاتھ اٹھانے کو تیار نہیں، اس لیے نئے قضایا نے جو نئی روشنی دی ہے، اس کو اکثر لوگ دیکھ ہی نہیں پاتے۔ تبدیلی کی نوعیت کو چونکہ وہ سمجھ نہیں سکتے، اس لیے اکثر بیشتر ان کا ردعمل یہ ہوتا ہے کہ تبدیلی گویا ہے ہی نہیں۔

    مابعد جدیدیت کے اکثر قضایا چونکہ نئے فلسفۂ معنی اور نئے فلسفۂ حقیقت سے مربوط ہیں، چنانچہ وہ احباب جو اپنی ناک سے آگے نہیں دیکھ سکتے، وہ اگر اپنے مفروضات اور مفادات کے باعث نئے کو سمجھنے سے قاصر ہوں تو اس پرتعجب نہ ہونا چاہیے۔ اس کا ایک رخ یہ بھی ہے کہ نئی تھیوری بجائے خود اتنی صدمہ زا نہیں، جتنا صدمہ ان مفروضات کی شکست کے باعث پہنچتاہے جن کے کچھ لوگ اسیر ہیں۔ مختصر یہ کہ مابعد جدیدیت کے قضا یاوہ نہیں ہیں جو ترقی پسندی یا جدیدیت کے ہیں یا سابقہ نظریوں کے تھے۔ جب تک ہم ان مفروضات سے دست بردار نہ ہوں گے، قدم قدم پر یہ مفروضات ہمارا راستہ روکیں گے اور ہم نئے کو سمجھ نہیں سکتے۔

    مابعد جدیدیت کاچیلنج مشکل اور پیچیدہ اسی لیے ہے کہ ہم ایک غیر Common Sense سچویشن کو Common Senseمفروضات کی مدد سے، (جو رد ہو چکے ہیں ) سمجھنا چاہتے ہیں اور یہی وہ رویہ ہے جس کی نیافلسفۂ ادب شدت سے نفی کرتا ہے۔ یہ بالکل ویسی بات ہے کہ جب تک انسان نے یہ سمجھنا نہیں چھوڑا تھا کہ زمین چپٹی ہے اس وقت تک وہ یہ یقین نہیں کر سکا کہ زمین گول ہے اور وہ گردش کر رہی ہے۔

    فلسفے کی دوبڑی روایتیں اور نیا ریڈیکل نقطۂ نظر
    ان پانچ نکات کو ذہن نشین کر لینے کے بعد آئیے دیکھیں کہ فلسفے میں یہ صف آرائی ہوئی کیسے اور کس طرح ادب قدم بہ قدم اس میں شریک رہا۔ افلاطون اور ارسطو سے کانٹ وہیگل تک فلسفے کا سارا سفر دراصل شعور انسانی کو سمجھنے کا سفر ہے جس پر زبردست جلا مارکس نے کی اور ارتقائے انسانیت کو مہمیز کرکے تاریخ کو موڑنا چاہا۔ ہیگل اور مارکس کے بالمقابل نطشے ہے جو بالکل دوسری بات کہتا ہے یعنی ’’ضروری نہیں کہ تاریخ کا سفر ہمیشہ انسانی ترقی کی راہ میں ہو۔‘‘ دیکھا جائے تو مارکس سے وہ تمام فلسفے وجود میں آئے جو انسانی ترقی میں اعتقاد رکھتے ہیں اور نطشے کے اثر سے وہ تمام فلسفے وجود میں آئے جو انسانی ترقی کو واہمہ قرار دیتے ہیں اور حقیقت کا دوسرا رخ دیکھنے پر مجبور کرتے ہیں۔

    طرفہ لطیفہ یہ ہے کہ حقیقت کا دوسرا رخ دکھانے کے عمل میں خود مارکس بھی شریک ہے، کیونکہ خود مارکس نے تاریخ کے معمولہ Common Sense تصور کو بےدخل کر دیا اور اس کی کایا پلٹ دی۔ لگ بھگ اسی زمانے میں سوسئیر نے زبان کے مانوس تصور کو ہمیشہ کے لیے بے دخل کر دیا۔ ان بنیادی تبدیلیوں کے بعد تغیر کی ان قوتوں کو ہوسرل کی مظہریت نے مہمیز کیا اور اس کے بھی بعد لاکاں، فوکو بارتھ اور آلتھیو سے کی غیر مقلدانہ پس ساختیاتی فکر اور جولیا کرسٹیو ا اور دوسروں کی نسوانیاتی فکر نے اور Common Sense مفروضات کو پاش پاش کرنے کے اس تاریخی عمل کو انتہا تک پہنچایا دریدا کی رد تشکیل نے، جس نے مانوس ونامانوس اور حاضروغائب کو بیک وقت مسلسل گردش میں دکھا کر گویا تصور حقیقیت اور معنی کی طرفوں کو ہمیشہ کے لیے کھول دیا اور ایک نئے ریڈیکل نقطۂ نظر کی طرح ڈالی۔

    اس پس منظر میں دیکھیں تو نئے فلسفے کی رو سے سابق کی وہ تمام تحریکیں اور نظریے خواہ وہ کتنے باغیانہ اور انقلابی کیوں نہ رہے ہوں، وہ سب کے سب بشمول جدیدیت وترقی پسندی جو اپنی ضابطہ بندی کرتے ہیں یا فارمولا سازی کرتے ہیں یا لائحۂ عمل دیتے ہیں، کسی نہ کسی منزل پر ادعائیت کا شکار ہو جاتے ہیں، اس لیے تخلیقیت اور آزادی کے منافی ہیں۔ اس کی سب سے بڑی مثال جدلیت اساس مارکسیت تھی جو اسٹالینیت کی زد میں آکر آزادی دشمن اور بے روح ہوتی چلی گئی۔ اردو میں ترقی پسندی نے جو اصلاً باغیانہ تحریک تھی، جب ضابطہ بندی اور سکہ بندی کا حصار کھینچا تو گویا خود ہی ادعائیت کے خنجر سے خودکشی کرلی۔

    جدیدیت بھی مزاجاً اتنی ہی باغیانہ تھی۔ اس نے ادیب کی آزادی کا نعرہ بھی دیا لیکن ابہام واشکال کو فارمولا بناکر اور اجنبیت اور مریضانہ داخلیت کو ایمان کا درجہ دے کر نیز سیاسی ڈسکورس کو یکسر شجر ممنوعہ قراردے کر اور ادبی چھوت چھات کو فروغ دے کر کیا جدیدیت بھی اپنی فارمولا زدگی کی بدولت خشک اور بےجان نہیں ہوتی چلی گئی؟ غلط یا صحیح، اس وقت صورت حال یہ ہے کہ مابعد جدید فلسفۂ ادب کی تقریباً تمام شاخیں نظریاتی ضابطہ بندی کے سخت خلاف ہیں اور کسی طرح کا نظام مرتب کرنے یا لائحۂ عمل دینے کے حق میں نہیں۔

    ادب، آرٹ اور فلسفہ زندگی اور انسانی سوچ کے جزرومد سے جڑے ہوئے ہیں، چنانچہ تخلیقیت زندگی کی طرح کسی نظریے یا فارمولے یا درجہ بندی کی تابع نہیں۔ یہ ایک ریڈیکل رویہ ہے، سابقہ مارکسیت اور جدیدیت سے بھی زیادہ ریڈیکل جن کے ماننے والوں نے نظریوں کو خانہ زاد کرکے گویا ان کو بے روح کر دیا اور ان کی آزادی اور حرکیت کو ختم کرکے تخلیقیت کو نقصان پہنچایا۔ سو عجب نہیں کہ مابعد جدیدیت کے متنوع اور رنگا رنگ منظر نامے کی (جہاں ایک رنگ دوسرے کو کاٹتا ہے) کوئی ایسی تعریف متعین نہ ہو سکے جو ترقی پسندوں یا جدیدیت پسندوں کی فارمولائی یا ضابطائی توقعات کو پورا کر سکے۔

    میں یہ بات پورے وثوق سے عرض کرنا چاہتا ہوں کہ تھیوری یعنی ادبی نظریہ سازی یا فلسفۂ ادب ایک مکمل مثالی (آدرشی) صورت حال ہے، یعنی Ideal State جبکہ ادیب و شاعر اپنی تخلیقات میں اس کو اپنے ذوق وظرف کی بنا پر فقط جزوی طور پر انگیز کر سکتے ہیں اورجدت ونادرہ کاری وتازگی کی تلاش میں نئے تجربوں کا سفر ہمیشہ جاری رہتا ہے۔ یعنی نظریے سے ادب اور ادبی تجربوں سے نظریہ سازی تشکیل پاتی رہی ہے۔ یہ دوہرا تخلیقی عمل ہے جو ایک دوسرے کا ایندھن بنتا رہتا ہے اور ہمیشہ جاری وساری رہتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ زماں کی طرح رجحانات اور میلانات میں بھی تسلسل ہے۔ کہیں کوئی وقفہ یا مکمل انقطاع نہیں۔ نئے میں پرانا برابر ضم ہوتا رہتا ہے اور پرانا بھی نیا ہونے کے عمل سے گزرتا رہتا ہے۔ اس لیے کسی زمانے کے ادب کو تمام وکمال کسی ایک نظریے کا پابند سمجھنا اور اس سے ضابطہ بندی کی توقع کرنا ایک ایسا عمل ہے جس کو مابعد جدید ذہن سادہ لوحی ہی قرار دےگا۔

    جدیدیت کی چار شقیں اور ان کارد
    البتہ ہر دور میں ایسے غالب رویے ضرور ملیں گے جن کی بنا پر ادبی ترجیحات کو Approximate کیا جا سکتا ہے یعنی قریب قریب اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ان رویوں کا ذکر کرنے سے پہلے ان Categories کو بھی ذہن میں رکھنا ضروری ہے جن کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ Categories جدیدیت کا امتیازی نشان تھیں اور اگر آج بھی یہ باقی ہیں تو گویا جدیدیت باقی ہے اور ختم نہیں ہوئی۔ قطع نظر اس سے کہ اگر ان امتیازی نشانات کے باوصف کچھ اور امتیازی نشانات ایسے بھی وجود میں آ گئے ہیں جو ان کی نفی کرتے ہیں اور ان سے ہٹ کر ہیں توخواہ یہ اندازہ نہ ہو کہ کیا ختم ہوا کیا نہیں، اتنا تو پتہ چلتا ہی ہے کہ کچھ اور ہو رہا ہے اور منظرنامہ بدل چکا ہے۔

    واضح رہے کہ مابعد جدیدیت کے پاس ایسا کوئی اینٹی ایجنڈا نہیں جیسا جدیدیت کے پاس ترقی پسندی کے خلاف تھا۔ مابعد جدیدیت کا مسئلہ سرے سے کسی کا اینٹی ایجنڈا ہے ہی نہیں، اس کا مسئلہ زندگی اور انسان کا کرائسس ہے جس میں اکیلے جدیدیت کا رد کوئی مرکزی مسئلہ نہیں، اس لیے کہ بدلی ہوئی ترجیحات اور کامن سنس کے چیلنج میں جدیدیت تو اپنے آپ ہی کالعدم ہو جاتی ہے۔ بہرحال آئیے دیکھیں کہ جدیدیت کی وہ Categories کیا تھیں جن کو جدیدیت کی پہچان قرار دیا گیا۔ اول یہ کہ فنکار کو اظہار کی پوری آزادی ہے۔ دوسرے یہ کہ ادب اظہار ذات ہے، تیسرے یہ کہ فن کی تعیین قدر فنی لوازمات کی بنا پر ہوگی نہ کہ سماجی اقدار کی بنا پر اور چوتھے یہ کہ فن پارہ خود مختار وخود کفیل ہے۔ کہا جارہا ہے کہ یہ چاروں Categories آج بھی ترجیحی حیثیت رکھتی ہیں اورValid ہیں جبکہ ایسا نہیں ہے۔ آئیے ان پر ایک نظر ڈالیں۔

    سچائی یہ ہے کہ ان چاروں کایا تورد ہو چکا ہے یا ارتفاع ہو چکا ہے اور ان میں سے کوئی بھی Category آج اپنی سادہ شکل میں صحیح یا قابل قبول نہیں۔ وقت کی یہی وہ گردش ہے کہ جس کو ہم میں سے بعض اپنے سابقہ مفروضات یا مضمر مفادات کی بنا پر سمجھنے سے قاصر ہیں۔ ادیب کی آزادی کا نعرہ ترقی پسندی کی کمٹ منٹ یاسیاسی ایجنڈے کی نفی میں دیا گیا تھا۔ دیکھا جائے تو آزادی کے اس نعرے کا مطلب سی پی آئی کے منشور سے آزادی یا ماسکو نواز مارکسیت سے آزادی تھا۔ ورنہ حقیقت یہ ہے کہ جہاں جدیدیت نے آزادی اظہار پر زور دیا وہاں سیاسی موضوعات کو یکسر Downgrade کرکے گویا ہر طرح کے آئیڈیولوجیکل ڈسکورس کو ادب سے خارج کر دیا۔

    اکاّ دکّا آوازیں اٹھتی رہیں لیکن عام منظر نامہ یہ تھا کہ آئیڈیولوجیکل ڈسکورس کو یکسر نظروں سے گراکر گویا ادیب کی آزادی کے مؤیدین نے تخلیق کی آزادی پر بالواسطہ پابندی لگا دی کہ آئیڈیولوجی کا رخ نہ کیجو، یہ سارے مسائل غیر ادبی ہیں۔ ایک طرح سے یہ بھی ہدایت نامہ وضع کرنے کا ویسا عمل تھا جس سے ترقی پسندی بدنام ہوئی تھی۔ آزادی کو مشروط بناکر جدیدیت نے بھی وہی کیا یعنی ایں گناہیست کہ در شہر شما نیز کنند۔ گویا جدیدیت کا آزادی اظہار کا نعرہ اصلاً ایک خوبصورت متھ تھا۔ ادھر نیا فلسفہ آزادی کے بارے میں جدیدیت کی دی ہوئی مغالطہ آمیز لیک کو یکسر رد کرتا ہے اور آزادی کے مسئلے کو بالکل نئی سطح پر لیتا ہے یعنی مسئلہ فقط اس موضوع یا اس موضوع کے ادبی یاغیر ادبی ہونے کا نہیں ہے۔

    آئیڈیولوجیکل ڈسکور س کے رد یا قبول کا سوال تو تب پیدا ہو جب ادیب کو اس کا اختیار ہو۔ ادیب اور ادب تو خود آئیڈیولوجی کے اندر ہیں یعنی متن آئیڈیولوجیکل فضا سے باہر ہے ہی نہیں۔ مزید یہ کہ جب ابہام واشکال واجنبیت وذات پرستی کو فارمولا بنایا گیا تو یہ بھی تو ایک لیک تھی۔ جہاں لیک دی جائے، وہاں آزادی کا فقدان لازمی ہے۔ مزید یہ واضح رہے کہ آئیڈیولوجی فقط مارکسیت ہی نہیں، ہر نظریۂ حیات یا ہرنظریۂ اقدار جس کی رو سے ہم گزران کرتے ہیں اور زندگی کو جھیلتے ہیں، وہ کسی نہ کسی آئیڈیولوجی سے مربوط ہے۔ گویا لکھنے والے کو اس کا احساس ہو یا نہ ہو، اس کی کچھ نہ کچھ آئیڈیولوجیکل ترجیحات ضرور ہوتی ہیں جو اس کے نظریۂ حیات میں ظاہر ہوتی رہتی ہیں، اور اس کے تخلیقی عمل کا حصہ ہوتی ہیں۔

    مختصر یہ کہ ادب اور آرٹ ہیں ہی آیئڈیولوجی کی تشکیل، اور ادب اور آرٹ میں کوئی موقف خواہ وہ کتنا غیر آئیڈیولوجیکل نظر آئے، وہ ’’معصوم‘‘ ہو ہی نہیں سکتا، یعنی آئیڈیولوجی سے عاری ہو ہی نہیں سکتا۔ اور تو اور آئیڈیولوجی زبان کے اندر لکھی ہوئی ہے اور ادیب کے اظہار واسلوب کاپیرایہ تک آئیڈیولوجی سے یکسر مبر انہیں۔ پس واضح ہوا کہ ادب میں آزادی ہر ہر قدم پر مشروط ہے، غیر مشروط آزادی جس کا نعرہ جدیدیت نے دیا تھا، اول وآخر ایک متھ ہے۔

    دوسری بات یہ کہی گئی کہ ادب اظہار ذات ہے۔ حقیقتاً یہ شق ادیب کی آزادی والی پہلی شق کا لازمہ ہے اور اسی کی طرح بظاہر تو خوش آئند معلوم ہوتی ہے لیکن تضاد سے خالی نہیں۔ یہ دراصل اجنبیت Alienation یعنی لایعنیت اور لغویت کے منفی فلسفے کی خوش آئند (Euphemistic) شکل ہے۔ ادب میں داخلیت اور باطنی منظر نامے کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا، لیکن جدیدیت میں شکست ذات اور لایعنیت کی لے اس قدر بڑھائی گئی کہ ایک غیرصحت مند داخلیت کی تکرار ہی باقی رہ گئی۔ زندگی کے فقط منفی پہلو پر زور دیے جانا اتنا ہی غلط ہے جتنا فقط رجائی پہلو کا راگ الاپتے رہنا۔ مزید یہ کہ ذات پر ساری توجہ مرکوز ہو جانے سے ادب موضوعیت کا اسیر ہو گیا۔ قطع نظر اس سے کہ یہ بھی ایک طرح کی لیک تھی اور آزادی کی نفی تھی۔ نہیں بھولنا چاہیے کہ یہ حد درجہ انفرادیت اور ذات پرستی یک گونہ بورژوائیت کا پہلو بھی رکھتی ہیں۔ نتیجتاً ادب ایک پر تکرار داخلیت کا شکار ہوکر بڑی حد تک انسانی درد مندی اور اس تپش وحرارت سے محروم ہو گیا جو زندگی کے بے محابا عشق اور تڑپ سے پیدا ہوتی ہے۔

    تیسرے یہ کہ اینگلو امریکی تنقید کی بنا پر خاصا زور اس بات پر دیا گیا کہ فن کی تعیین قدر فنی لوازم کی بنا پر ہوگی نہ کہ سماجی اقدار کی بنا پر۔ بظاہر اس سے زیادہ ا چھی بات کہی ہی نہیں جا سکتی کیونکہ ادب کی تعیین قدر اگر ادبی قدر کی بنا پر نہیں ہوگی تو کس بنا پر ہوگی۔ یہ تو ایک مسلمہ امر ہے جو ہر ادب کے لیے شرط ہے خواہ وہ سرسید تحریک کے زمانے کا ہو یا ترقی پسند دور کا یا جدیدیت کا۔ ادب اور غیرادب میں مابہ الامتیاز بہر حال ادبی قدر ہی ہے۔ یعنی ادب کو ادب تو ہونا ہی چاہیے۔ اس میں فقط جدیدیت کی کیا تخصیص ہے۔ یہ امر تو مسلمہ ہے اور یہ بات تو محمد قلی قطب شاہ کی بارہ پیاریاں کے زمانے سے چلی آتی ہے۔ مزید یہ کہ میر کی شاعری ہو یا متن غالب، مضامین سرسید ہوں یا مسدس حالی یا اکبر کی شاعری، ان میں ادبی قدر ہے تبھی تو زندہ ہیں۔ ادبی قدر پر فقط جدیدیت کی اجارہ داری کیوں؟

    جدیدیت میں اس پر اصرار اس لیے کیا گیا کہ ترقی پسندی نے ادب اور پروپیگنڈہ کی تمیز اٹھاکر گویا ادبی قدر کو تحلیل کر دیا تھا۔ اگرچہ بعض ترقی پسندوں نے بھی ادب کے فنی تقاضوں کا لحاظ کیا اور اعلیٰ درجے کا ادب پیش کیا، لیکن اس میں کلام نہیں کہ عام فضا یہ تھی کہ ادب سے اشتہار کا کام لیا گیا۔ پس یہ کمی اور کوتاہی تھی جو ترقی پسندی میں واضح ہوئی، بعد میں ادب کے ادب ہونے کے لیے اس کوتاہی کو دور کرنا شرط اول ٹھہراتو اس میں جدیدیت کا کمال کیا ہے؟ ادب کو ادب تو ہونا ہی چاہیے۔ غرض ادبی قدر جدیدیت کا مابہ الامتیاز نہیں، یہ تو ادب کا مابہ الامتیاز ہے۔ اس Category میں جدیدیت کا اضافہ اس کی دوسری شق ہے، یعنی تعیین قدر سماجی اقدار کی بنا پر نہ ہوگی۔ واضح رہے کہ ایسا جولا ہے کہ ضد میں ہوا۔

    ترقی پسند ادیب بالعموم عوام، کسان، مزدور، طبقاتی کش مکش، پیداواری رشتے، انقلاب انقلاب یعنی صرف موضوع ہی موضوع الاپتے تھے۔ جدیدیت نے موضوع کے الاپ کی مخالفت کی تو موضوع کے ساتھ معنی کوبھی القط کر دیا گیا۔ کسی نے نہ سوچا کہ کیا ادبی قدر بے تعلق معنی ہے؟ اگر معنی زندگی یا سماج کے تجربے سے نہیں آتا تو کہاں سے آتا ہے؟ یعنی کیا فنی لوازم مقصود بالذات ہیں یعنی فن اپنا مقصود خود ہے یعنی استعارہ یا علامت یا پیکر قائم بالذات ہیں یا یہ معنی کے حسن کو قائم کرنے کا ذریعہ ہیں؟ اگر یہ قائم بہ معنی نہیں ہیں تو پھر ان کا تفاعل کیا ہے؟

    یہاں اس وضاحت کی ضرورت ہے کہ ادبی قدراور فنی لوازم بالکل ایک چیز نہیں ہیں۔ فنی لوازم وسیلہ ہیں ادبی قدرکا، فنی لوازم بجنسہ ادبی قدر نہیں ہیں۔ مثلاً تشبیہ واستعارہ وسیلہ ہیں حسن معنی کا جوادبی قدر ہے۔ یہ اگر حسن معنی میں شریک نہیں تو فقط تکنیکیں ہیں یعنی لوازم محض ہیں ادبی قدر نہیں۔ سامنے کی مثال ہے کہ ناسخ اور ذوق نے بھی فنی لوازم کو برتا ہے اور خوب خوب برتا ہے، لیکن ان کے مقابلے میں میر وغالب کے یہاں فنی لوازم حسن معنی کے فروغ کا وسیلہ ہیں اور ادبی قدر کو قائم کرتے ہیں جبکہ ناسخ یا ذوق کے یہاں یہ اپنا مقصود آپ ہو جاتے ہیں اور ان کا عمل فقط تکنیکی اور میکانکی رہ جاتا ہے۔

    جدیدیت کے یک سرے ہو جانے کی ایک وجہ یہ بھی رہی ہے کہ مقصود بالذات فنی لوازم کو ادبی قدر کابد ل سمجھ لیا گیا اور زیادہ توجہ عروض وآہنگ وبیان اور رعایت لفظی وغیرہ پر مرکوز ہوتی چلی گئی اور میکانکیت نے ادبی قدر کی جگہ لے لی جبکہ وسائل وسائل ہیں وہ قدر نہیں ہیں۔ دوسرے یہ کہ معنی ہمیشہ زندگی کے تجربے سے، ثقافت سے یا سماج سے آتا ہے۔ ظاہر ہے کہ ادبی قدر کا مجرد تصور انتہائی مغالطہ آمیز اور گمراہ کن ہے۔ ادبی قدر معنی کے جزرومد سے اس قدر مربوط ہے کہ جو ادبی وسیلہ معنی کے حسن کو جتنا زیادہ قائم کرتا ہے یعنی جتنی زیادہ تاثیر یا جمالیاتی اثر پیدا کرتا ہے وہ اتنا ہی زیادہ اہم ہے ورنہ مجرد فنی لوازم مثلاً استعارہ یا علامت یا پیکر یاتشبیہ یا اوزان بجنسہہ فنی تکنیکیں ہیں۔ یہ ادبی حسن کی افزائش کا وسیلہ اس وقت بنتی ہیں جب یہ معنی کا نظام قائم کرتی ہیں، ورنہ ذہنی ورزش سے زیادہ کچھ نہیں۔

    جس شاعر کا نظام معنی یا جہان معنی جتناتہ درتہ اور نیرنگ نظر ہوگا، اتنا وہ فن کار بڑا ہوگا۔ ورنہ فنی لوازم تو ناسخ وذوق کے یہاں بھی ہیں اور شاید کچھ زیادہ ہی ہیں۔ لیکن افضل ٹھہرتے ہیں میر وغالب نہ کہ ناسخ وذوق۔ ادبی قدر کا حسنِ معنی سے مربوط ہوکر عمل آرا ہونا اتنی کھلی ہوئی حقیقت ہے کہ اس بارے میں کسی بحث کی گنجائش ہی نہیں۔ تاہم مغالطہ اس شدومد اور پر اعتماد طریقے سے پھیلا اور سماجی قدر کو (بوجہ مارکسیت) مذموم قرار دے کر اس قدر پیٹا گیا کہ کسی کا بھی دھیان اس طرف نہیں گیا کہ کلاسیکی سرمایہ تو الگ رہا، سرسید ہوں یا حالی یا اکبر ان کی ادبیت کی بحث میں تو سماجی قدر برابر شریک رہتی ہے بلکہ ان کی ادبیت تو قائم ہی سماجیت اور قوم کے درد سے ہوتی ہے تو پھر جدید دور سے سماجی معنویت کا اخراج کیوں؟ کیا انسان کے سب دکھ درد اور مسائل حل ہو گئے ہی؟

    تعجب ہے کہ وہی لوگ جو کہتے تھے کہ معنی وحدانی ہے اور لفظ ومعنی میں دوئی نہیں، اردو میں انہیں نے ادبی قدر اور سماجی معنی کے افتراق پر اصرار کیا، گویا ایک سانس میں جو بات کہی، دوسری سانس میں اس کی تردید بھی کردی۔ طرفہ لطیفہ یہ ہے کہ اس نظریاتی تضاد پر کسی کو اچنبھا نہیں ہوا۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ وہی لوگ جو ادبی قدرکو بےتعلق معنی سمجھنے اور برتنے پر اصرار کرتے ہیں، غالب اور میر کی تفہیم وتشریح میں ان شعرا کی ادبی قدر سے بحث کرتے ہوئے ان کو سب سے زیادہ توجہ حسن معنی کی گرہ کشائی پر کرنا پڑی۔ میر وغالب کے یہاں حسن معنی خواہ وہ تصور عشق کاہو یاتصور کائنات کا یا تصور انسان کا، کیا وہ اس زمانے کی مابعد الطبیعیاتی، ثقافتی یاسماجی قدر سے ہٹ کر ہے؟

    اب رہی چوتھی (Category) یعنی فن پارے کا خود مختار وخود کفیل ہونا تو اس بارے میں میں اپنی کتاب میں اتنا لکھ چکا ہوں کہ مزید کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ یوں بھی چونکہ یہ شق ادیب کی آزادی اور ادبی قدر کے تصور سے جڑی ہوئی ہے اور اسی موضوعیت (بورژوائیت) کی پیدا کردہ ہے جس سے ابھی اوپر ہم بحث کرآئے ہیں، مزید کچھ کہنے کی ضرورت بہت کم ہے۔ اگرچہ یہ بھی ایک خوش کلامی Euphemism ہے لیکن دیکھا جائے تو ادب کو سیاسی شعبدہ گروں سے بچانے کے لیے بیشک اس کی ضرورت بھی تھی لیکن اب تو یہ طے ہے کہ فن خود آئیڈیولوجی کی تشکیل ہے اور فن پارے کا سفر تاریخ کے محور پر اور ثقافت کے اندر ہے، نیز معنی وحدانی نہیں ہے یعنی معنی کی تعبیریں قرأت کے تفاعل سے بدلتی رہتی ہیں تو پھر فن کی کلی خود مختاری اور خود کفالت کا بھرم اپنے آپ ٹوٹ جاتا ہے۔

    غالب یا ناسخ کا متن معین ہے، لیکن ناسخ کی اہمیت کم ہوتی گئی ہے اور غالب کی عظمت کا نقش روشن ہوتا گیا ہے جبکہ متن وہی کاوہی ہے۔ ہر قرأت نئی توقعات اور قاری کے ذوق وظرف وتجربے کی بنا پر ہوتی ہے اوراس میں ثقافتی ترجیحات اور تاریخ کا جزرومد شامل رہتا ہے۔ پچھلے تیس برسوں میں نئے فلسفۂ ادب کاسارا سفر فن پارے کی کلی خود کفالت کے بھرم کے ٹوٹنے کا سفر ہے۔ لیکن فن پارے اور تاریخ کا رشتہ اس طرح سے دو اور دو چار کا بھی نہیں جیسا ہمارے ترقی پسند احباب سمجھتے تھے۔ بائیں بازو کا نوفلسفی آلتھیو سے بھی اس کا اقرار کرتا ہے کہ سماجی تشکیل میں ادب (یا آرٹ) ایک طرف آئیڈیولوجی سے اور دوسری طرف سائنس و ٹکنالوجی سے برابر فاصلے پر ہے۔ ادب ان دونوں سے الگ ہے، اس کے ساتھ ساتھ وہ دونوں سے متاثر بھی ہوتا ہے اور دونوں سے گریز بھی کرتا ہے اور دونوں سے آگے بھی جاتا ہے۔ گویا ادب کی خود مختاری اس کی مجبوری بھی ہے۔ یوں دیکھیں تو مابعد جدیدیت تک آتے آتے ادب کی خودکفالت کی Category جہاں رد ہوئی ہے وہاں اس کا ارتفاع بھی ہوا ہے۔

    آپ نے دیکھا جدیدیت کی یہ ساری ترجیحیں اور شقیں یاتو رد ہوگئی ہیں یا بدل گئی ہیں۔ تبدیلی کایہ عمل ذہنی اور فکری عمل ہے جو تھیوری کی بحثوں میں نسبتاً خاموشی سے ہو رہا ہے۔ اس کے لیے نہ تو کوئی نعرہ بازی کی گئی ہے نہ بغاوت کا پرچم لہرایا گیا ہے۔ یہ سیاسی مسائل نہیں، یہ فلسفۂ ادب کے مسائل ہیں اور فلسفۂ ادب یعنی تھیوری کی سطح پر طے پا رہے ہیں۔ اردو میں ان مسائل کی تفہیم میں کچھ وقت لگے گا۔ اس لیے کہ جب تک ہم سابقہ مفروضات سے ہاتھ نہیں اٹھائیں گے اور مانوسCategories سے ہٹ کر سوچنے کے لیے (جنہیں ہم نے ایمان کا درجہ دے رکھا ہے) خود کو تیار نہیں کریں گے، ہم برابر مغالطوں اور خوش فہمیوں کاشکار ہوتے رہیں گے۔

    اس کی تازہ ترین مثال یہ ہے کہ ’’ایوان اردو‘‘ کے جس مکالمے کا ذکر اوپر آیا ہے، اس کا سابقہ ترقی پسندوں پر یہ اثر ہوا کہ وہ فوراً اس خوش فہمی میں مبتلا ہو گئے کہ جدیدیت کا زور ٹوٹنے اور متن کے آئیڈیولوجیکل تشکیل طے پاجانے کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ روایتی ترقی پسندی کو مراجعت کی راہ ہموار ہو گئی۔ حالانکہ ایں خیال است ومحال است وجنوں! ویسے بعضوں نے یہ بھی کہا کہ وہ نہیں کہتے کہ 70 کے آس پاس یا بعد میں سامنے آنے والے فن کاروں پر ترقی پسندی کا لیبل لگایا جائے یا انہیں ترقی پسندوں کا جانشین گردانا جائے۔ سوال کسی کے لیبل لگانے کا یانہ لگانے کا تو تب پیدا ہوتا ہے جب نئی پیڑھیاں اس لیبل یا اس لیبل کی روادار ہوں۔

    ہمارے ترقی پسند دوستوں نے اس بات پر بہت خوشی کا اظہار کیا ہے کہ نئی پیڑھیوں نے نہایت بے رحمی کے ساتھ جدیدیت کے گمراہ کن رویوں سے انحراف کیا ہے۔ انہوں نے ناموں کی ایک لمبی فہرست پیش کرکے معلوم کیا ہے کہ ’’ان میں کون سا فن کار ایسا ہے جو جدیدیت کے سائے میں پلا بڑھا ہو یاجس کی تخلیقات ابہام زدہ ہوں یا فہم سے عاری ہوں۔۔۔ ان میں کسی نظریے اور منشور سے نہ سہی انسان کے مقدر اور انسان دوستی کی ارفع قدروں سے کمٹ منٹ ملتا ہے۔‘‘ (اداریہ ’’نیا سفر‘‘) یہ وہ سادگی ہے جس پر مر جانے کو جی چاہتا ہے۔ ’’کمٹ منٹ‘‘ کا ایک خاص مفہوم تھا اور نظریہ ومنشور کا بھی، اور یہ بات تاریخ کا حصہ ہے کہ اسی لیک کی بناپر بدترین قسم کی جکڑ بندی اور ادعائیت کو روا رکھا گیا، اور یہ منشور ہی کا تقاضا تھا کہ ادیبوں شاعروں کو پابند کر دیا گیا کہ وہ سیاسی انقلاب کی راہ ہموار کریں، یعنی ادیب اور پارٹی کارکن میں کوئی فرق نہ تھا بلکہ ادیب کے لیے یہ اعزاز تھا کہ وہ پارٹی کے رکن کا رتبہ پالے۔

    سیاسی وابستگی بمنزلہ ایک فارمولے کے تھی اوراس سے انحراف گردن زدنی۔ ادب کی حیثیت ایک کھلے اشتہار کی تھی جس میں جتنی اشتہاریت زیادہ پائی گئی، اتنا زیادہ اس کو اچھالا گیا اور جو جتنا زیادہ زندگی کی کشادہ قدروں یا حسن معنی سے جڑا ہواتھا اس کو اتنا ہی زیادہ نظرانداز کیا گیا۔ ترقی پسندی کے تضادات پر اتنا لکھا جا چکا ہے کہ ان کا ادنیٰ ذکر بھی تکرار کا پہلو رکھتا ہے۔ یہاں اس اشارے سے فقط یہ بتانا مقصود ہے کہ نئی پیڑھیاں جہاں جدیدیت سے انکار کرتی ہیں وہاں ترقی پسندی کی جکڑ بندی، ادعائیت اور خوش آئند تصورات کے کھوکھلے پن سے بھی خوب واقف ہیں اور اس کو بھی رد کرتی ہیں۔ وہ اس یا اس کے چکر ہی میں نہیں پڑتیں، بلکہ جیسا کہ کہا گیا ان کو احساس ہے کہ ان کا معاملہ الگ ہے، ان کے مسائل الگ ہیں اوران کی پہچان الگ ہونا چاہیے۔ آل احمد سرور نے اس سلسلے میں ٹھیک ہی کہا تھا،

    ’’قدرتی طور پر ادب میں تبدیلیاں آتی رہتی ہیں۔ ایک میلان زور پکڑتا ہے اور اس کے بعد وہ اپنے عروج کو پہنچتا ہے۔ پھر اس کا ردعمل شروع ہوتا ہے اور دوسرا میلان سامنے آتاہے۔ یہ گویا ادب کا قانون ہے کہ جو نئی رو آتی ہے وہ صرف پچھلی روکی بازگشت نہیں ہوتی بلکہ کچھ اور نئی چیزیں لیے ہوتی ہے۔‘‘ 
     (ایوان اردو، اپریل1995، ص8)

    مابعد جدیدیت: تخلیقیت کی نئی لہر
    موجودہ منظر نامے پر جہاں ایک طرف پرانے ترقی پسندہیں اور دوسری طرف جدیدیت کی جاتی بہار کا نظارہ کرنے والے اس کے مؤیدین ہیں، وہیں ان دونوں کے بیچوں بیچ نئی پیڑھی کے ادیبوں، شاعروں کا کارواں اپنی آوازوں اور زمزمہ سنجیوں کے ساتھ وقت کی تال پرسر دھنتا ہوا مستانہ وار آگے بڑھ رہا ہے۔ ان میں بہر حال کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جن کو نئی تخلیقیت کا شدید احساس ہے اور جو آج کے دور کو ’’تخلیقیت کی تیسری لہر‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں،

    ’’فی زمانہ روایتی ترقی پسندی بے معنی آموختہ اور روایتی جدیدیت بھولا ہوا حافظہ ہے۔ بیسویں صدی کی آخری دہائی کے اس اختتامیت انگیز Endism تناظر میں نہایت مثبت طور پر مابعد جدیدیت سے نئے عہد کی تخلیقیت کا بسیط دور ہے۔ اس میں نئی وجودیت، ساختیات، مابعد ساختیات، مظہریات، تفہیمیات، رد تشکیل اور قاری اساس تنقید کی لہریں بیک وقت رواں دواں ہیں اور آہستہ آہستہ اپنے منفی عناصر کا ارتفاع کرکے نئے عہد کی تخلیقیت سے ہم آہنگ ہو رہی ہیں۔

    سکہ بند محدود معنوں میں فیشن گزیدہ جدیدیت کی جو تحریک 1953 میں ادارہ رسیدہ ترقی پسندی کے آہن پوش معتقدات کی فصیلوں کی شکست وریخت میں کامیاب ہوئی تھی، آج وہ خود حنوط شدہ دقیانوسیت، عصبیت اور ادعائیت کے مترادف ہو گئی ہے۔ یہ اپنے کو محفوظ گھونسلوں میں سمیٹنے کا ایک آسان وسیلہ بن چکی ہے اور مابعد جدیدی منظر نامے میں نئی فکر کی تازہ ہواؤں کو روکنے میں ناکام ہوکر خود اپنی شکست کی آواز بن گئی ہے۔

    مابعد جدیدیت موضوعاتی، اسلوبیاتی، ساختیاتی، لفظیاتی اور نحویاتی سطح پر بہت حد تک جدیدیت سے متغائر اور متمائز ہے۔ اس کو اپنے فوری پیش روؤں سے سراسر انکار کرنے کی ضرورت نہیں ہے جو خود ہی اختتامیت (Endism) بہ کنار ہیں۔ مابعد جدید تنقید کے نئے جمالیاتی اور اقداری معیار (موٹے طور پر)

    (1) باغیانہ ریڈیکل کردار (2) وفور تخلیقیت (3) کثیر معنیات، (4) متن کا لاشعور، (5) ادب میں سیاسی اور سماجی معنویت، (6) آئیڈیولوجی کی ہمہ گیر کارفرمائی، (7) قاری اور قرأت کا خلاقانہ تفاعل، (8) حسن پارے کی تمام طرفوں کی واشگانی ہے۔ ان مابعد جدید ادبی اور فکری معیاروں اور قدروں کی نسبت جدیدیت گزیدہ، منجمد جمالیاتی فکر سے نہیں ہے۔ یہ اکثر متجسس، تازہ کار اور متحرک جمالیاتی اور اقداری فکر ہے۔ عصری سیاق میں نئی قدریں، نیاحسن، نیا آدمی، نئی دنیااورنیا انصاف ہی یکسر غیر مرئی ہے۔

    اس لیے آج کی سب سے بڑی ضرورت ہے کہ نئی فکر، معیار اور قدر کی بابت سمجھوتہ پرست اور مصلحت گزیدہ رویے اور برتاؤ کو ختم کیا جائے اور ہر نوعیت کے تنظیم پرور اور فرقہ پرست فکری اور فنی جمود سے بے محابا نبرد آزما ہوا جائے جو یکسر روایت (ادبی فرقہ واریت یا مردہ روایت) کے مترادف ہے۔ ان کے برخلاف اپنے قومی اورعالمی سیاق سے جڑ کر اپنی عظیم تر، زندہ اور متحرک روایت کی روشنی میں مابعد جدید معاشرے کی نوزائیدہ اور پروردہ نئے عہد کی تخلیقیت کی پرورش کی جا سکے۔‘‘ 
    (نظام صدیقی؍ ایوان اردو، فروری 1996)

    جدیدتر شاعری
    اس نئی تخلیقی فضامیں پرورش پانے والی نئی نظم اور نئی غزل کا تذکرہ کئی لوگوں کی تحریروں میں آ رہا ہے۔ وزیر آغا، حامدی کاشمیری، فضیل جعفری، قمر جمیل، نظام صدیقی، فہیم اعظمی، عتیق اللہ، مظفر حنفی اور کئی دوسرے حضرات جدید تر شاعری اور نئے رویوں پر بالعموم اظہار خیال کرتے رہے ہیں اور ان سب نے اپنے اپنے نتائج اخذ کیے ہیں جن سے اختلاف واتفاق کی گنجائش ہو سکتی ہے۔ کچھ لوگوں نے البتہ بالخصوص نئی غزل پر توجہ کی ہے۔ ایسے مطالعات میں ڈاکٹر سید محمد عقیل (نئی غزل کا بدلتا ہوا رنگ۔ اندازے، الہ آباد، 1985)، ڈاکٹر اسعد بدایونی (نئی غزل نئی آوازیں۔ دائرے علی گڑھ1987)، ڈاکٹر ابوالکلام قاسمی (جدید غزل کی صورت حال۔ قومی آواز دہلی 1994)، ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی (جدید تر غزل کا رنگ وآہنگ۔ صریر کراچی 1995)، ڈاکٹر شہپر رسول (جدید تر غزل کی شناخت۔ کتاب نما، دہلی1995) اس اعتبار سے قابل ذکر ہیں کہ ان میں مثالوں کی روشنی میں جدید تر (مابعد جدید) غزل کے تخلیقی خدوخال کا تجزیہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

    کچھ مضامین ایسے بھی لکھے گئے ہیں جن میں توجہ پاکستان کی جدید غزل پر ہے، مثلاً یوسف حسن (اولین پاکستانی نسل کی غزل۔ اردو ادب، اسلام آباد۔ جنوری 1994)، خاور اعجاز (ستّر کی دہائی کے چند غزل گو۔ اردو ادب، اسلام آباد 1994) قرۃ العین طاہرہ (نئے پاکستانی غزل گو۔ اردو ادب، اسلام آباد 1994)، ان مضامین میں جدید تر غزل کے خدوخال سے بحث کی گئی ہے اور امتیازی خصوصیت کا تجزیہ بھی ہے، نیز دونوں ملکوں سے بیسیوں نام گنوائے گئے ہیں۔ اگر نام دیکھنا مقصود ہوں تو ان مضامین سے رجوع کیا جا سکتا ہے۔ ان کی تمام باتوں سے اتفاق ہو یانہ ہو، اتنی بات اظہر من الشمس ہے کہ شاعری میں تبدیلی آ چکی ہے۔

    جدید تر فکشن
    چند الفاظ فکشن کے بارے میں۔ علاوہ ازیں تمام بدلتی ہوئی ترجیحات اور میلانات کے، جن کا ذکر پہلے کیا گیا اور جن کا اثر ناول اور افسانے پر بھی پڑ رہا ہے، افسانے میں سب سے بڑی تبدیلی نظریاتی طور پر ’’کہانی کی واپسی‘‘ ہے۔ بعض لوگ اس کو بیانیہ کی واپسی بھی کہنے لگے ہیں جو صحیح نہیں۔ بیانیہ تو بیانہ ہے جس میں کوئی بھی تجربہ جائز ہے۔ بیانیہ اگر اکہرایا رومانی یا حقیقت پسندانہ ہو سکتا ہے تو علاماتی یاتجریدی بھی ہو سکتا ہے۔ بیانیہ تو فکشن کا پیرایہ ہے۔ کہانی اس کا جز ہے بمعنی Storyline جو بیانیہ میں جاری رہتی ہے، یا جس سے پلاٹ بنا جاتا ہے یا جو کرداروں یا واقعات یا مکالموں یامناظر کی تشکیل کرتی ہے اور یہ سب مل کر بیانیہ بناتے ہیں۔

    جدیدیت کی بعض انتہائی شکلوں میں کوتاہی یہ ہوئی کہ علامتیت اور تجریدیت کو حرف آخر سمجھ لیا گیا اور فیشن پرستی کی مقلدانہ روش کے تحت یہ لے اس قدر بڑھادی گئی کہ دوسرے تیسرے درجے کے بعض فنکاروں کے ہاتھوں کہانی کی صورت ہی مسخ ہو گئی۔ اس میں افسانے کے فن اور صدیوں کے ثقافتی تقاضوں سے عمداً چشم پوشی بھی کی گئی۔ اس زمانے کا ایک عام نعرہ تھا کہ جدید افسانے کو جدید بنانے کے لیے اس سے کہانی پن کا اخراج ضروری ہے۔ کتھا کہانی اور حکایت کی جو روایت صدیوں سے ہمارے تہذیبی مزاج اور اجتماعی لاشعور کا حصہ ہے اور ہمارے خون میں شامل ہے، اسے نظرانداز کیا گیا۔

    ہرچند کہ کہانی پن افسانے سے کبھی پوری طرح غائب نہیں ہو سکا، (قرۃالعین حیدر، انتظار حسین، سریندر پرکاش (بعد کی کہانیاں) محمد منشایا اور بہت سے دوسرے سامنے کی مثالیں ہیں) لیکن جدیدیت کی تھیوریٹکل ترجیحات میں کہانی کی بے حرمتی شامل رہی۔ 1980 میں جامعہ ملیہ اسلامیہ میں اردو افسانے پر جو ہندوپاک سمینار ہوا تھا، راقم الحروف نے اس میں پہلی بار جدیدیت کی اس کوتاہی کے خلاف آواز اٹھائی تھی۔ ’’اردو افسانہ، روایت ومسائل‘‘ کا آخری مضمون ’’نیاافسانہ: روایت سے انحراف اور مقلدین کے لیے لمحہ فکریہ‘‘ اسی مسئلے کو لے کر لکھا گیا تھا۔ پھر1985 میں میں نے جو سمینار غالب اکادمی میں نئے اردو افسانے پر کرایا تھا، اس میں شامل ’’نیا اردو افسانہ: علامت، تمثیل اور کہانی کا جوہر‘‘ میں بھی اسی نکتے کو بالتفصیل اٹھایا گیا۔

    اب جو اردو میں بچوں کو بھی اس کی خبر ہو گئی ہے تو سمجھا یہ جا رہا ہے کہ بیانیہ کی واپسی ہو رہی ہے اور اسے گویا ترقی پسند افسانے کی بحالی سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔ فکر ہر کس بقدر ہمت اوست۔ ترقی پسندی کے بعد جس چیز سے گریز تھا، وہ تھی جذباتی رومانیت، کھلی نعرے بازی، سیاسی تبلیغ وتلقین یا اکہری حقیقت نگاری جس کو ’’سماجی حقیقت نگاری‘‘ کا مثالی نام بھی دیا گیا تھا، چنانچہ ’’کہانی پن کی واپسی‘‘ کا مطلب اشتہار زدہ سیاہ وسفید میں زندگی کو دیکھنے والی سماجی حقیقت نگاری کی بحالی ہرگز نہیں۔ مجھے افسوس ہے کہ بعض لوگوں کی یہ خوش فہمی مبنی بر حقائق نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ نہ صرف ہندوستان کی دوسری زبانوں میں بلکہ مابعد جدید عہد کے عالمی منظرنامے میں بھی بے معنی اور بے مصرف تجریدیت، ابہام واشکال واہمال کی منطق رد ہو گئی ہے۔ ملان کندیرا، گار سیامارکیز، بورخیس، امبر ٹوایکو سامنے کی مثالیں ہیں۔ اردو اور ہندی ہی میں نہیں، بنگالی، گجراتی، مراٹھی، کنڑ، ملیالم ہر جگہ واضح طور پر تبدیلی آ رہی ہے۔ یہ تبدیلی نئے لکھنے والوں میں تو ہے ہی، پرانے لکھنے والے بھی بدل رہے ہیں۔

    دوسری زبانوں میں کیا تبدیلی آ رہی ہے، اگر اس میں کسی کو شبہ ہوتو رسالہ ’’انڈین لٹریچر‘‘ کا شمارہ (۴۷۱) دلچسپی کا خاصا سامان رکھتا ہے۔ اس میں گجراتی کے بارہ مشہور لکھنے والوں (کانجی پٹیل، موہن پرمار، ہمانشی شیلت، بابو ستھر، بھارت نائک، بھوپن کھاکھر، کرت دودھت، ہر شد ترویدی، اجیت ٹھاکر، جنک ترویدی، بندو بھٹ اور بپن پٹیل) کی منتخب کہانیاں شامل ہیں اور سمن شاہ نے گجراتی کہانی پر تنقیدی جائزہ لکھا ہے۔ اس پر انڈین لٹریچر کے مدیر سچدانندن نے جو اداریہ سپرد قلم کیا ہے، وہ ہم سب کے لیے توجہ طلب ہے۔ سچدانندن کا کہنا ہے کہ ان کہانیوں کے لیے انڈین لٹریچر کی خصوصی اشاعت وقف کرنے کا مقصد قارئین کو یہ بتانا ہے کہ گجراتی کہانی میں ایک مثبت تبدیلی رونما ہو چکی ہے اور کہانی بیمار منفیت اور شہری زندگی کی پر تصنع اور اوڑھی ہوئی اجنبیت کے آسیب سے نکل کر قصبے اور گاؤں کی کھری اور جنیوین زندگی اور اس کے سچے مسائل کی طرف مڑ گئی ہے۔ سچدانندن نے اس رجحان پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ جدیدیت جس طرح شہری زندگی کی تنگ نائے اور منفی ذات پرستی کے حصار میں گھر گئی تھی، کہانی میں نئی تبدیلی اس سے واضح انحراف ہے۔ سچدانندن نے یہ بھی لکھا ہے کہ اس نوع کی تبدیلی فقط گجراتی ہی میں نہیں ہوئی، دوسری زبانوں میں بھی فضا بدل رہی ہے۔ بنگال کی ’’اترآدھونک‘‘ یعنی مابعد جدید کہانی بھی اپنے آس پاس کی سچی زندگی کی حرارت کو پیش کرنے لگی ہے۔

     سچدا نندن خود ملیالم کے ادیب اور شاعر ہیں۔ اپنی زبان ملیالم کے بارے میں انہوں نے لکھا ہے کہ ملیالم کے نئے ادیب جدیدیت سے منحرف ہو چکے ہیں۔ جدیدیت مخالف نئے ملیالی ادیبوں کے موقف کے بارے میں انہوں نے جو کچھ لکھا ہے غور طلب ہے۔ ان کے الفاظ یہ ہیں،

    “The Anti modernist Fiction Writers of Malayalam Refuse to Share The Modernist Ideology Of Solipsism Exile, Ennui, Absurdity Futility And Alienation”

    سچدا نندن نے مزید لکھا ہے کہ تمل، تیلگو، کنّڑ اور اڑیا کے ادیب اپنی جزوں سے کبھی دور نہیں گئے اور جہاں تک دلت لٹریچر کا تعلق ہے، دلت لٹریچر کی نوعیت ہمیشہ زمینی اور قصباتی اور دیہاتی رہی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ دوسری زبانوں میں نیا رجحان بے یقینی سے یقین کی طرف، اجنبیت سے سماج کی طرف اور ذہنی تنہائی اور اکیلے پن سے جذباتی وابستگی کی طرف ادب کا سفر ہے، موضوعات اور تخلیقی رویوں میں بھی فرق آیا ہے اور ان تبدیلیوں کا اثر زبان اور اظہار وبیان پر بھی ہو رہا ہے۔ نئے آواں گارد نے اشکال سے مملو یافیشن گزیدہ تجریدی، علاماتی، نیز پیچیدہ یا خواہ مخواہ مرعوب کرنے والی منجمد زبان کو بھی ترک کردیاہے اور عام زندگی کے تجربے سے ابھرنے والی زندہ، سچی، گرم اور دھڑکتی ہوئی زبان، نیز روز مرہ اور کہاوتوں اور بولیوں پر توجہ کی ہے۔

    ان نئے لکھنے والوں نے اہمال کی منطق کو رد کرکے کتھا کہانی کی صدیوں پرانی روایت یعنی کہانی پن کے تخلیقی تفاعل اور کہانی کہنے اور سننے کے عمل سے بھی از سرنورشتہ جوڑا ہے۔ ہندوستانی زبانوں میں مابعد جدیدیت کے جلو میں جو تبدیلیاں آرہی ہیں، ان میں ایک واضح، مثبت اور صحت مند فضا ہے۔ سچدانندن کا کہناہے کہ ان نئی تبدیلیوں سے کہانی ایک بار پھر ہندوستانی زندگی کی جدوجہد کے بڑے ڈسکورس سے جڑرہی ہے اور اس میں زمینی رشتوں کا کھر اپن آ رہا ہے۔

    آج اردو افسانہ نگاروں میں شاید ہی کوئی ہو جو بے مقصد ابہام یا فیشن گزیدہ تجرید واہمال کی منطق کی تائید کرتا ہو یا کہانی پن کے خلاف ہو یا کہانی کی سماجی معنویت سے انکار کرتا ہو۔ ویسے دیکھا جائے تو اردو میں تجربات کی زدمیں افسانہ ہی زیادہ رہا ہے، ناول جس فنی حوصلہ مندی کا متقاضی ہے وہ ویسے ہی خال خال تھی۔ اردو ناول ترقی پسندی کے محدود اشتہاری دور سے قطع نظر زیادہ تر تاریخی ڈسکورس سے جڑا رہا ہے اور ناول کے سماجی منصب سے انکار کم ہی کیا گیا۔ پھر ایک بڑا Watershed قرۃ العین حیدر کی تخلیقی شخصیت بھی ہے جس کی جاری وساری روح ہی تاریخ کا جزرومد، وقت کا بہاؤ، اور ملی جلی تہذیب کی وہ خوشنما دھنک ہے جس کے رنگوں میں ہندی اور اسلامی اقدار کا رنگ گھلا ملا ہے اور اس سے بھی بڑھ کر انسانی مقدر کی کشمکش، جس کاالمیہ زماں کی گردش ہی میں رقصاں وگرداں نظر آتا ہے۔

    انتظار حسین کا داستانی اسلوب بھی ثفاقتی جڑوں کی تلاش کاعمل ہے۔ ہندوستانی مسلمانوں کی ایک ہزار برس کی تہذیبی تاریخ کے نقوش انتظار حسین کے ذہن میں مستحضر ہیں۔ ان کے یہاں ماضی اور حال دونوں ایک دوسرے کی طرف سفر کرتے ہیں۔ ادھر پاکستانی معاشرے کی ناولاتی تشکیل جیسی ان کے ناولوں میں ملتی ہے اور کہیں نہیں ملتی۔ ان کے علاوہ دوسرے لکھنے والوں کے یہاں بھی معاشرے کے تضادات اور مسائل پوری فنی آب وتاب سے نمایاں ہیں۔ کہنے کا مقصد ہے کہ ناول نے تحریکاتی اتھل پتھل میں اپنی راہ کھوٹی کم ہی کی ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ غیرضروری تجریدیت تو اردو ناول کو کبھی ہضم ہوئی ہی نہیں، جو دو ایک مثالیں ہیں وہ بھی تمثیلی اور داستانی اسلوب کی زائیدہ ہیں، مثلاً مظہر الزماں خاں کا ’’آخری داستان گو‘‘ غضنفر کا ’’پانی‘‘ یا عشرت ظفر کا ’’آخری درویش‘‘ ان سب کی فضا ثقافتی ہے اور داخلی استعاراتی پیرایہ اول وآخر داستانی ہے۔

     قطع نظر ایسی خال خال مثالوں سے ادھر جو ناول سامنے آئے ہیں مثلاً ’’دو گز زمین‘‘، ’’خوابوں کا سویرا‘‘ (عبدالصمد) ’’فائر ایریا‘‘ (الیاس احمد گدی)، ’’گیان سنگھ شاطر‘‘ (گیان سنگھ شاطر)، ’’ندی‘‘ (شموئل احمد) ’’بیان‘‘ (مشرف عالم ذوقی)، ’’مکان‘‘ (پیغام آفاقی)، ’’کہانی انکل‘‘ (غضنفر) یا بعض دوسرے، ان میں کسی کا بیانیہ تجریدیت یا اشکا ل واہمال کی منطق پر قائم نہیں، بلکہ سب کے سب مسائلی ناول ہیں اور معاشرت کے ہلکے گہرے رنگوں سے گندھے ہوئے ہیں۔ ان تازہ ترین اردو ناولوں کی موجودگی میں ناول کے سماجی منصب سے یا آئیڈیولوجیکل تشکیل ہونے سے انکار کرنا اپنی ادب نافہمی کا ثبوت دینا ہے۔

    جدیدتر تنقید
    رہی تنقید اور نئی ادبی تھیوری تو اس پر بہت کچھ پہلے عرض کر چکا ہوں۔ مزید کچھ کہنے کی گنجائش ہے نہ ضرورت۔ فقط یہ کہ ادھر ایک کرم فرما نے لکھا کہ اینگلو امریکی تنقیدی ماڈل رد ہو چکا، جو معروضی تھا، تو کیا اب تنقید نظریاتی ہوگی۔ لیکن فلاں صاحب تو کہتے ہیں کہ تنقید نظریاتی ہوہی نہیں سکتی۔ یہ سوال ایک بہت بڑے مغالطے کا حصہ ہے جس کو نوآبادیاتی ذہنیت برسوں تک پیدا کرتی اور پروان چڑھاتی رہی ہے۔ بہتوں کو اس کا اندازہ نہیں کہ جدید تنقید کی معروضیت نظر کا دھوکا ہے جو زندگی کی کشاکش کے زندہ ڈسکورس سے توجہ ہٹا کر تکنیکی بحثوں میں الجھاتی ہے۔

    سوال کرنے والے کو یہ معلوم ہی نہیں کہ بنیادی طور پر اینگلو امریکی تنقید کا ماڈل موضوعی اور بورژوائی تھا اور اس لیے رد ہوا کہ معنی کے اس نیرنگ نظر کی جو ادب میں زندگی اور ثقافت اور تاریخ کے بڑے پے نوراما سے آتا ہے، یہ تنقید متحمل ہوہی نہیں سکتی کیونکہ معنی وحدانی ہے ہی نہیں، سیال ہے اور وقت کے محور پر گردش میں ہے۔ ادبی حسن معنی کی بحثوں سے وقت اور ثقافت اور آئیڈیولوجیکل ڈسکورس کا اخراج ممکن ہی نہیں۔ یہ ادب کو بے روح کرنے کی آسان ترین اور خوش آئند راہ تھی جو نوآبادیاتی ذہنیت کو خوب راس آتی تھی۔ اب مابعد نوآبادیاتی عہد میں اگر ہیئتی ماڈل رد ہو چکا تو کیا تنقید نظریاتی ہو جائےگی۔ یہ خدشہ ہمارے اسی ذہنی رویے کا غماز ہے کہ اگر یہ لیبل نہیں تو اس لیبل کی جگہ دوسرا لیبل لگانا ضروری ہے۔ یا یہ لیک نہیں تو کوئی دوسری لیک تو ہوگی ہی۔ یعنی جدیدیت نہیں تو مراجعت اور اگر ہیئتی نہیں تو پھر نظریاتی۔

    اس کا ابھی اندازہ ہی نہیں کہ ادبی سوچ کے یہ دونوں زاویے رد ہو چکے ہیں اور ان کے بعد ادبی تھیوری کی نئی صورت ان جکڑ بندیوں اور فیشن وفارمولے سے ہٹ کر بھی ہو سکتی ہے۔ اول تو یہ ذہن نشین رہے کہ اگر نظریے سے مراد نظریۂ حیات، نظریۂ اقدار یا آئیڈیولوجی ہے تو ادب ہے ہی یکسر نظریاتی۔ اور جب ادب اس معنی میں نظریاتی ہے تو تنقید کیسے غیرنظریاتی ہو سکتی ہے۔ لیکن نظریاتی سے مرادپارٹی نوسٹ کی محتاج اور تبلیغ پر مامور اشتہار سازی بھی نہیں، بلکہ واضح رہے کہ اپنے عہد کے ذہنی ڈسکورس سے آگاہ ’’حریت کوش سوچ‘‘ ہے۔ نئی تھیوری کی سب سے بڑی دین اگر کچھ ہے تو یہ کہ اس نے ہر طرح کی کلیت پسندی اور جبریت کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ہے۔ وہ سرے سے لیبل لگانے، ضابطے بنانے یالائحہ عمل دینے کے یکسر خلاف ہے کیونکہ ضابطے خواہ وہ کیسے ہوں، ادعائیت اورجبریت کی طرف لے جاتے ہیں یا اسٹبلشمنٹ بناتے ہیں جو تخلیقیت کی آزادی کے منافی ہیں۔

    نئی ادبی تھیوری نہ کوئی لائحہ عمل دیتی ہے نہ کوئی نظریاتی تعریف ہی وضع کرتی ہے کیونکہ ایسا کرنا فکری وتخلیقی آزادی پر پہرہ بٹھانے کے مترادف ہے۔ اس بات کو ذہن نشین کرنے کی ضرورت ہے کہ نئی تھیوری تخلیق وتنقید کو لائحہ عمل یا ضابطہ نہیں، نئی بصیرتوں کی روشنی دیتی ہے کہ ادب کیا ہے، زبان ومعنی کی نوعیت کیا ہے، ادب بطور ادب قائم کیسے ہوتا ہے اور پڑھا اور سمجھا کیسے جاتا ہے، یا لطف اندوزی اور جمالیاتی حظ کی نوعیت کیا ہے یاقاری اور قرأت کا تفاعل کیا ہے وغیرہ۔ اس کی سب سے بڑی یافت جیسا کہ میں عرض کر چکا ہوں، زبان وادب وثقافت کی نوعیت وماہیت کی وہ آگہی ہے جو معنی پر چلے آرہے جبر کو توڑتی ہے اور معنی کی طرفوں کو کھول دیتی ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو تنقید اول تو قرأت کا استعارہ ہے، دوم ادب فہمی کا وظیفہ ہے اور سوم ثقافتی عمل کا حصہ ہے۔

    مابعد جدید عہد میں جو تنقید رائج ہوگی اس کی اصل آزمائش اسی میں ہے کہ وہ سکہ بند ترقی پسندی اور فیشن گزیدہ جدیدیت دونوں کے کلیشے آلود معینہ معنی اور کلیت پسندانہ تصورات سے آزاد ہو اور نوعیت کے اعتبار سے غیرمقلدانہ ہوتا کہ کوئی ادبی اسٹبلشمنٹ پہرہ نہ بٹھا سکے اور تخلیق کے لیے تازہ کار فکر ونظر کی راہ کھلی رہے اور غیرمقلدانہ اسی لیے ہوگی کہ اس کا World View اور نظریۂ اقدار پہلے والوں سے ہٹ کر ہوگا۔

    سیل وقت میں نئے پرانے کاساتھ
    آخر میں اس بات کی طرف بھی اشارہ ضروری ہے کہ یہ بات معلوم ہے کہ ادبی رجحانات کلینڈر کے اوراق کی طرح نہیں بدلا کرتے اور اکثر و بیشتر تحریکوں کے لیے جن سنین کا تعین کیا جاتا ہے، وہ رجحانات ان سے بہت پہلے اپنے قدم جمانا شروع کر چکے ہوتے ہیں۔ مثلاً محمڈن اینگلو اورینٹل کالج 77 18 میں قائم ہوا۔ مسدس حالی 1879 میں لکھی گئی اور مقدمہ 1893 میں منظر عام پر آیا لیکن سرسید تحریک ان سنگ میل کارناموں سے دہائیوں پہلے شروع ہو چکی تھی، جب دہلی میں ٹرانسلیشن سوسائٹی قائم ہوئی اور ماسٹر رام چندر اور ان کے رفقا کی مساعی سے محب ہند اور فوائد الناظرین جاری ہوئے تھے، نیز جب ڈاکٹر اشپرنگر کے اشتیاق دلانے پر سید احمد خاں نے دہلی کی عمارتوں کا احوال بطور آثار الصنادید لکھنا شروع کیا اور کچھ بعد سائنٹفک سوسائٹی کا قیام عمل میں آیا۔

    اسی طرح ترقی پسندی کا رسمی افتتاح خواہ 1936میں ہوا، لیکن ’’انگارے‘‘ تین برس پہلے منظر عام پر آکر شعلہ سامانی کر چکی تھی، مزید برآں جوش کی ’’گرمی او ردیہاتی بازار‘‘ یا ’’کسان‘‘ جیسی نظمیں شعلہ وشبنم (اشاعت 1936) سے برسوں پہلے رسائل میں نکل چکی تھیں اور عوامی وانقلابی شاعری کی فضا تیار کر چکی تھیں۔ جدیدیت کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ جدیدیت کا باقاعدہ آغاز تو آزادی کے بعد کی دہائیوں میں ہوا لیکن حلقۂ ارباب ذوق نے بیج بہت پہلے ڈال دیا تھا اور اسی زمانے کے ابھرنے والے میراجی اور راشد بعد میں جدیدیت کے نمائندہ ترین شعرا قرار پائے۔

    ایسی کچھ زمانی کیفیت مابعد جدیدیت کی بھی ہے۔ عالمی منظر نامہ تو اینگلو امریکی موضوعی بورژوائیت کے رد ہوتے ہی بدلنا شروع ہو گیا تھا۔ اردو میں بھی نوآبادیاتی ذہنیت سے چھٹکارا پانے اور دونوں تحریکوں کے متعینہ معنی کے جبر سے رہائی پانے اور دی ہوئی لیک سے گریز کا عمل جدیدیت کے عروج ہی کے زمانے میں شروع ہو گیا تھا اور دونوں رویوں سے ہٹ کر ایک متبادل تخلیقی فضا بھی بننا شروع ہو گئی تھی، البتہ مسائل صاف ہونا شروع ہوئے نئی ادبی تھیوری کی پیش رفت کے بعد، جس کے کچھ مقدمات کا ذہن نشین ہونا ہنوز باقی ہے، اس لیے کہ اس کی بہت سی بصیرتیں مثلاً کسی بھی نظریے کا مطلق اور حتمی نہ ہونا، ہر طرح کی مرکزیت کا زوال اور تکثیر یت کابرحق ہونا، آئیڈیولوجی اور ثقافت کا زبان میں نقش ہونا، معنی کا وحدانی نہ ہوکر مسلسل گردش میں ہونا، فن پارے کا کلی طور پر خود مختار یا خود کفیل نہ ہونا، یا معنی کو موجود بنانے کے عمل میں مصنف کے علاوہ قاری اور قرأت کے تفاعل کا شریک ہونا اور اس عمل کا تاریخ کے ڈسکورس کے اندر اور بدلتی ہوئی ذہنی توقعات کے افق پر واقع ہونا ایسے مقدمات ہیں جن کو انگیز کرنے کے لیے پہلے سے چلے آ رہے سکہ بند مفروضات اور ذہنی تحفظات سے ہاتھ اٹھانا بہت ضروری ہے۔

    ویسے دیکھا جائے تو مابعد جدید چیلنج میں اکیسویں صدی کے قدموں کی چاپ صاف سنائی دے رہی ہے۔ اس کے بہت سے ریڈیکل رویوں کا رخ ہے ہی مستقبل کی طرف۔ جیسے وضاحت کی گئی، وقت سے پہلے آنے والے وقت کی پرچھائیں پڑنے لگتی ہے، گویا بیسویں صدی کی آخری دہائی ہی سے اکیسویں صدی کا عمل دخل شروع ہو چکا ہے۔ ویسے تو نئے منظرنامے کی تشکیل اصلاً نئی پیڑھی کے ہاتھوں ہو رہی ہے لیکن ادب چونکہ ایک سلسلۂ جاریہ ہے، اس میں نیا پرانا ساتھ ساتھ بھی چلتا رہتا ہے، بالکل جیسے پریم چند اور ملک راج آنند اور جوش بہت پہلے سے لکھ رہے تھے، پھر یہی لوگ نئے رجحان کے نقیب بھی ٹھہرے، یا جیسے راشد یا میرا جی یاآل احمد سرور نے اپنے بعد آنے والی نوجوان نسلوں کا ساتھ دیا، اسی طرح جدیدیت کے بہت سے نامو ر شعرا اور فکشن لکھنے والوں میں بھی آج سے بہت پہلے تبدیلی آنا شروع ہو چکی تھی، اور اندر ہی اندر انہوں نے دونوں طرح کی لیک کو تخلیقی طور پر مسترد کرنا شروع کر دیا تھا۔

    قرۃ العین حیدر، انتظار حسین، سریندر پرکاش (دوسرے دور کا) محمد منشا یاد ہوں یا منیر نیازی، شہر یار، محمد علی، ندا فاضلی، صلاح الدین پرویز، سارہ شگفتہ یا بہت سے دوسرے، جدیدیت کی محدود تعریف سے بہت کچھ ہٹ کر ہیں۔ ان کے یہاں آگے کاعمل خاصا نمایاں ہے۔ تبدیلی کا یہ عمل وقت کے ساتھ ساتھ روشن ہو رہا ہے۔ ویسے بھی ادب کی دنیا آزادی اور اختلاف کی دنیا ہے۔ مابعد جدیدیت یوں بھی طرفوں کو کھولنے، ہر طرح کے جبر اور کلیت پسندی کو رد کرنے اور تخلیق کے جشن جاریہ میں سب کو شریک کرنے سے عبارت ہے۔ اس میں کسی طرح کے ردعمل، تنگ نظری، تشدد اور ادعائیت کے لیے قطعاً کوئی گنجائش نہیں۔ یہ کسی نوع کی دشمنی یا مخاصمت کی روادار نہیں بلکہ اس طرح کے رویوں کو بھی رد کرتی ہے۔

    ادب میں متوازی دھاروں کا بہتے رہنا کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ جدیدیت کی مقبولیت کے زمانے میں ترقی پسند بھی اپنا کاروبار کرتے رہے بلکہ اب تک اپنے جشن چہل سالہ منا رہے ہیں۔ سومابعد جدید چیلنج کے بعد اگر جدیدیت بھی اپنا جلوۂ جانا نہ دکھاتی رہتی ہے تو اس میں حرج کی کوئی بات نہیں۔ ایک لطیفہ بلکہ واقعہ سن لیجیے۔ آل انڈیا ریڈیو میں جب اردو سروس کا آغاز ہواتو ساغر نظامی ڈپٹی چیف پروڈیوسر بنائے گئے۔ سلام مچھلی شہری پروگرام کو ترتیب دیتے تھے۔ ایک سلسلہ شروع کیا گیا ’’یادرفتگاں‘‘، جس میں مرحومین کا کلام ان کی آواز میں سنایا جاتا تھا۔ ایک بار اناؤنسر کی غلطی سے ساغر نظامی کا کلام ’’یادرفتگاں‘‘ میں نشر ہو گیا۔ اگلی صبح جب برآمدے میں ساغر نظامی کروفر سے سیاہ شیروانی پر سرخ پھول لگائے نمودار ہوئے تو بیچارے سلام کی سٹّی گم۔ ساغر نے کہا، چہ خوب، بازی بازی بہ ریش باباہم بازی۔

    سلام نے کہا حضرت خیریت کیا ہوا۔ ساغر نے پوچھا ابے عقل ماری گئی ہے۔ ہم تمہیں زندہ نظر نہیں آتے۔ ہمیں ’’یادرفتگاں‘‘ میں بجا دیا۔ سلام نے جواب میں کہا، ’’ساغر صاحب آپ زندہ ہیں تو کیا شاعری تو مرحوم ہو چکی ہے۔‘‘ بعینہٖ یہی معاملہ تحریکوں اور ادوار کا ہے، رجحانات بدل جاتے ہیں، لیکن لوگ چلتے رہتے ہیں۔ یہ ادب کے پے نوراما کا کمال ہے کہ جہاں ایک طرف مجاز ومخدوم کی ترقی پسند زمزمہ سنجیاں سنائی دے رہی ہوتی تھیں، اسی اسٹیج سے استاد ناطق گلاؤٹھوی اور نوح ناروی بھی اپنا روایتی کلام معجز بیان عطا فرما رہے ہوتے تھے۔

    ادب کی جمہوریت عجب جمہوریت ہے۔ اس میں نیا پرانا، ادنیٰ اعلیٰ، قدیم جدید، چھوٹا بڑا، جوان رعنا اور پیر فرتوت سب کی گنجائش ہے۔ وقت دیر سویر سب کا حساب کر دیتا ہے۔ ہم آپ نہیں، خیال خیال سے، دلیل دلیل سے اور ڈسکورس سے ڈسکورس ٹکراتا ہے، اور یوں فرسودہ اور ازکار رفتہ اپنے آپ منہدم ہو جاتا ہے۔ نئی پیڑھی اگر آج اپنی شناخت الگ چاہتی ہے تو ہم آپ روکنے والے کون ہیں۔ یہ بہر حال بشارت کی گھڑی ہے اور اس کا خیر مقدم برحق ہے۔

    دیکھیے اس بحر کی تہہ سے اچھلتا ہے کیا
    گنبدِ نیلوفری رنگ بدلتا ہے کیا

    مأخذ:

    جدیدیت کے بعد (Pg. 40)

    • مصنف: گوپی چند نارنگ
      • ناشر: ایجو کیشنل پبلشنگ ہاؤس، نئی دہلی
      • سن اشاعت: 2005

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے