Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

تاریخ اور تخلیق

مجنوں گورکھپوری

تاریخ اور تخلیق

مجنوں گورکھپوری

MORE BYمجنوں گورکھپوری

    انسان کے جملہ ثقافتی اکتسابات میں جو اس نے تاریک ترین زمانہ قبل تاریخ سے لے کر اب تک حاصل کئے ہیں سب سے اہم، سب سے اعلیٰ اور افضل اور سب سے زیادہ قابل فخر وہ اکتسابات ہیں جن کو مجموعی طور پر فنون لطیفہ کہا جاتا ہے اور جن کی ابتدا اتنی ہی قدیم ہے جتنی کہ ’’انسان دانا‘‘ (Homosapiens) کی ہستی۔ بلکہ ہم تو یہ کہیں گے کہ فنون لطیفہ کی پہلی داغ بیل اس وقت پڑی جب کہ اس نوع حیوانی نے جس کو ’’بشرنما‘‘ (Anthropoid) کہتے ہیں۔ خطرات کی مدافعت اور اپنی حفاظت اور زندگی کی روزمرہ ضروریات کے لئے درختوں کی ٹہنیاں اور پتھر کے ٹکڑے تراش کر اپنے لئے آلات بنانا سیکھا۔

    کیا جاوا میں کیا پیکنگ میں، کیا افریقہ میں اور کیا مغربی یورپ میں جہاں جہاں قدیم ترین ’’نیم انسانی‘‘ (Homonids) کے آثار پائے گئے ہیں وہاں وہاں یہ بھی شہادتیں ملی ہیں کہ وہ لکڑی چقماق اور دوسرے پتھروں سے ایسے اوزار بناتے تھے جن سے وہ مختلف موقعوں پر مختلف کام لیتے تھے۔ آج فنون لطیفہ ارتقا اور تہذیب کی بے شمار منزلیں طے کرکے جس بلندی پر ہیں، اس سے صحیح اندازہ لگانا بڑا تاریخی درک چاہتا ہے کہ ان کی بنیادیں کتنی ادنی اور کس قدر فطری محرکات پر ہیں اور ان کے اولیں نمونے ہمارے آج کے معیار سے کیسے بھدے اوربے قرینہ تھے، اس جگ کو گزرے ہوئے پانچ لاکھ سال نہیں تو کم سے کم ڈھائی لاکھ سال ضرور ہو چکے ہیں۔

    انسان کی اختراعی کوششوں میں سب سے زیادہ پرانی اور سب سے زیادہ مہتم بالشان اور جلیل القدر وہ کوشش ہے جو بعد کو فن کاری (Art) کے نام سے موسوم ہوئی اور جس کی جڑیں انسان کی ذاتی اور سماجی ضرورتوں میں اور اس کی زندگی کی ہمہ سمتی فلاح و بہبود کے اغراض میں دور تک پھیلی ہوئی ملیں گی۔ فن برائے فن کے تصور سے حیات انسانی کی تواریخ بالکل ناآشنا ہے۔ ہر زمانے کا فن اس زندگی کی بدولت زندہ رہا ہے جس کے نقش اس نے پیش کئے ہیں۔ فن ہمیشہ ایک مخصوص معاشرہ کے بطن سے پیدا ہوا ہے اور فن کا سرچشمہ ارضی اور مادی زندگی ہے۔

    فنون لطیفہ کی سب سے زیادہ تربیت اور سب سے زیادہ لطیف صورت ادب یعنی الفاظ کا فن ہے جو سنگ تراشی اور مصوری کے بعد وجود میں آیا اور ادب کی سب سے زیادہ قدیم، سب سے زیادہ فطری اور سب سے مقبول عام شکل شاعری ہے اور شاعری کی سب سے زیادہ بے ساختہ اور سب سے زیادہ پاکیزہ صنف وہ ہے جس کے لئے فارسی اور اردو میں عربی لفظ غزل ہوتا ہے اور جس کو دوسری زبانوں میں گیت، نغمہ یا مزماریہ یا غنائیہ یعنی (Lyric) کہتے ہیں۔ ہم کو یہ بات ذہن میں رکھنا ہے کہ شاعری معصوم انسان کی معصوم زبان اور اس کا پہلا ذریعہ اظہار و ابلاغ ہے۔

    ہم اس فضول اور لاحاصل بحث میں پڑنا نہیں چاہتے کہ دنیا کا سب سے پہلا شاعر کون ہے اور سب سے پہلے شعر کس نے کہا۔ سامی روایت کے مطابق سب سے پہلے جس نے شعر کہا وہ آدم تھے، ان کے صالح اور نیک بخت بیٹے ہابیل کو ان کے باغی اور سرکش بڑے بیٹے نے جذبہ رقابت سے مغلوب ہوکر قتل کر دیا اور یہی حادثہ ان کی شعرگوئی کا محرک ہوا۔ یعنی پہلے اشعار غم کے اظہار میں کہے گئے اور اصطلاحاً وہ مرثیہ کے تحت میں آتے ہیں۔ اس موقع پر ہم مولوی جماعت کی اس تکرار سے بھی گریز کریں گے جو ظہوراسلام کے بعد شروع ہوئی۔ شاعری کو جنون یا جادو ٹونے کی قسم قرار دیا گیا تھا۔ اس لئے آدم نے شعر نہیں کہا بلکہ نثر میں آپ نے غم کا اظہار کیا۔

    ان لوگوں نے دو نکتوں کو نہیں سمجھا۔ ایک تو یہ کہ اصلی شاعری کے لئے عروضی وزن اور قافیہ لاز م نہیں ہیں۔ دوسرے یہ کہ معیاری نثری پارہ کی اصل روح ایک اندرونی آہنگ ہوتا ہے جو شعر کے باہری اور ظاہری آہنگ سے کہیں زیادہ بلیغ اور پرکیف ہوتا ہے۔ بہرحال سامی روایت یہی ہے کہ دنیا کا سب سے پہلا شاعر وہ مخلوق ہے جس کو اساطیری تواریخ میں آدم کہتے ہیں۔ خسرو کا یہ شعر اسی روایتی عقیدہ کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

    ماہمہ دراصل شاعر زادہ ایم

    دل بایں محنت نہ از خود دادہ ایم

    اور صائب کا شعر تو ضرب المثل ہو گیا۔

    آں کہ اول شعر گفت آدم صفی اللہ بود

    طبع موزوں حجت فرزندی آدم بود

    یہ سب تخیلی باتیں صحیح ہوں، یا غلط لیکن ایک بات یقینی ہے کہ حیوان ناطق میں جس کسی نے بھی سب سے پہلے اپنے ذاتی تاثرات کا بےساختہ اظہار موزونیت کے ساتھ الفاظ میں کیا وہ دنیا کا پہلا شاعر ہے اور یہ خیال صحیح ہے کہ ایک آدم نہیں بلکہ سیکڑوں آدم گزرے ہیں، تو بیک وقت کئی شخصیتیں ایسی نکلیں گی جنہوں نے پہلے پہل شعر کہے ہوں گے۔ بہر صورت یہ دعویٰ تو اپنی جگہ ناقابل تردید ہی معلوم ہوتا ہے کہ ’’طبع موزوں‘‘ اور ’’شاعری‘‘ فرزندی آدم کی علامتیں ہیں اور جو حکم شاعری کے بارے میں لگایا گیا ہے، وہ انسان کے تمام جمالیاتی تجربات و اکتسابات پر صادق آتا ہے۔

    انسان کو دوسرے حیوانات سے جو خصوصیتیں ممتاز کرتی ہیں ان میں دو بہت اہم ہیں۔ ایک حسب حاجت آَلات و اوزار بنانے کی قابلیت اور دوسری قوت ناطقہ یا گویائی کی سب سے زیادہ رچی ہوئی صورت شاعری ہے جو بنی آدم کی ہمزاد اور رفیق ازلی ہے۔

    قدرت کی پیدا کی ہوئی تمام مخلوقات میں انسان سے زیادہ نازک، اس سے زیادہ مجبور اور ہر طرح کی آفات ارضی و سماجی میں گھری ہوئی او ر اس سے زیادہ غیرمحفوظ کوئی دوسری مخلوق نہیں۔ جب ہم سب سے پہلے انسان سے روشناس ہوتے ہیں تو اس کو ایک ننگا ضعیف الاعضاء وحشی پاتے ہیں جس کے پاس اپنی حفاظت کے لئے نہ تو قدرت کی طرف سے مہیا کئے ہوئے ذرائع ہیں اور نہ ابھی خود وہ اپنی آسائش اور تحفظ کے لئے اوزار اور اسلحہ اور دوسرے سامان ایجاد کر سکا ہے۔

    وہ ابھی جانوروں میں ایک ادنی جانور ہے اور سب سے زیادہ کمزور، بے بس، بزدل اور ہر وقت سہما رہنے والا جانور ہے جو چہار طرف اپنے سے زیادہ توانا اور ہیبت ناک درندوں اورگ زندوں میں گھرا ہوا ہے۔ ان خوفناک اور مہلک طاقتوں سے بچنے کے لئے اس کے پاس سوائے درختوں کی ٹہنیوں اور پتھر کے ٹکڑوں کے کچھ نہیں، آگ کی راحت بخش گرمی اور روشنی سے وہ بالکل ناآشنا ہے۔ دن بھر اپنی خوراک کے لئے چڑیوں کے انڈوں، جنگلی پھلوں اور ساگ پات کی جستجو میں سرگرداں رہنا اور رات کو کھلے میدان میں آسمان کی چھت کے نیچے خوف و ہراس کے عالم میں پڑ کر بسر کر دینا۔ یہ تھی ہمارے مورث اعلیٰ کی روزانہ کی زندگی۔

    انسان کو صیانت نفس اور بقائے نسل کے لئے کیسی کیسی مصیبتوں اور آزمائشوں سے گزرنا پڑا ہے اور عناصر قدرت اور کائنات کی تمام ناموافق قوتوں سے اپنے کو پہلے مامون رکھنے اور پھر بعد میں ان پر قابو پانے کے لئے کتنی محنت اور مشقت برداشت کرنا پڑی ہے؟ آج ہم تہذیب و ترقی کے اتنے مدارج طے کر چکنے کے بعد اس کا صحیح اندازہ نہیں کر سکتے۔ راحت کی خواہش، عیش و فراغت کی جستجو، فطرت حیوانی کا بہت عام اور ممتاز میلان ہے۔ بہایم بھی قدرت کی شدتوں سے پناہ مانگتے ہیں اور اپنے لئے سکون اور آسائش کی صورت تلاش کر لیتے ہیں۔ لیکن انسان صرف راحت طلب اور عیش کوش جانور نہیں۔ وہ جتناہی سست نہاد ہے اتنا ہی متحمل، جفاکش اور سخت کوش بھی ہے۔ تحمل اور جفاکوشی نے اس کے اندر وہ توانائیاں پیدا کیں جن سے دوسرے جانور محروم ہیں۔ مخالف خارجی حالات و عوارض کے مقابلے اور ان کی برداشت سے انسان میں ادراک، تعقل اور تفکر پیدا ہوا اور مسلسل محنت اور پے بہ پے سعی و عمل نے جمالیاتی شعور کی تخلیق کی اور یہ شعور ہر غلطی اور ہر نئی کوشش اور نئے تجربے کے ساتھ ترقی کرتا رہا۔

    وہ خصوصیت، جس کو جمالیات کی اصطلاح میں قرینہ یا آہنگ یاتال سم کہتے ہیں، ظہور انسان سے پہلے بھی نظام قدرت میں موجود تھا۔ غیرانسانی کائنات بھی قرینہ (Symmetry) یا آہنگ (Rhythm) سے کبھی خالی نہیں رہی۔ اس لئے کہ قوت کا وجود بغیر حکمت کے ناممکن ہے اور حرکت بغیر آہنگ محال ہے۔ آہنگ آفرینش کا پہلا عنصر ہے۔ انگریزی کے ایک شاعر کا قول ہے، ’’ایک آہنگ سے، ایک فردوسی آہنگ سے اس کائنات کے ڈھانچے کی ابتدا ہوئی۔‘‘ اسی آہنگ کو صوفی نے حسن ازل کہا اور شاعر نے محض حسن۔

    لیکن قدرت کی تخلیقات میں یہ آہنگ باوجود عالمگیر ہونے کے نہایت خام اور ناقص تھا۔ انسان نے اپنی مشقتوں اور ریاضتوں سے خلقت کو سنوارا ہے اور نظام قدرت میں جو بھداپن تھا اس کو دور کیا ہے۔ اس نے فطرت کے ناقص آہنگ کی تہذیب و تحسین کی ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ انسان کی فن کاری قدرت کی تخلیق پر اضافہ ہے۔ اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ چٹیل میدان، لق ودق دشت و بیابان، پرشکوہ پہاڑ اور وادی، ذخار دریا اور سمندرپیدا کرنا بڑی خلاق مشیت کا کام تھا، لیکن پھلواری لگانا، باغ مرتب کرنا، کھیت تیار کرنا، دریاؤں اور سمندروں میں کشتیاں رواں کر دینا، ہیبت ناک اندھیرے میں اپنی کوشش سے روشنی پیدا کرنا، مختصریہ کہ زمین اور آسمان کے عناصر اور قوتوں کو اپنے اختیار میں لاکر ان سے حسب مراد کام لینا، یہ سب بھی معمولی تخلیقی قوت کے مظاہرے نہیں ہیں۔

    فن کاری کی ابتدا براہ راست محنت سے وابستہ ہے، وہ محنت جس نے انسان کی زندگی کو دوسرے مخلوقات کی زندگی سے زیادہ مقدس، مبارک اور زیادہ خوش آئند بنایا اور فن کاری کی لطیف ترین صنف ہونے کی حیثیت سے شاعری انسان کی محنت آگیں زندگی کا بہترین حاصل ہے۔

    شاعری کا تعلق ابتداہی سے حیات انسانیت کے اغراض و مقاصد اور اس کی فلاح و ترقی سے ہے۔ اس کا آغاز تمدن کے اس زمانے میں ہوا جس کو خرافیات (Mythology) کا اولین دور کہتے ہیں۔ شاعری جادو ٹونے کے ساتھ وجود میں آئی۔ شعر کے قدیم ترین نمونے منتر یعنی جادو کے وہ بول ہیں جو قدرت کے بے درد فوق البشر عناصر اور ناقابل تسخیر قوتوں کو راضی رکھنے یا ان پر فتح پانے کے لئے بنائے گئے تھے۔ قدیم انسان عناصر قدرت کو ارواح سمجھتا تھا، اور نیک روحوں کو رام کرنے کے لئے ان کی شان میں بھجن کہتا تھا، یا پھر خبیث روحوں کو زیر کرنے لئے افسوں یا منتر بناتا تھا۔ یہ عناصر پرستی اور صنمیات کا دور تھا جو آگے ترقی کرکے مذہبی دور ہو گیا۔ آج جو کام حکمت اور فلسفہ سے لیا جا رہا ہے وہی کام ہمارے نیم مہذب اجداد نے مذہب سے لیا۔

    مذہب کائنات کو سمجھنے اور خلقت کی تشریح و تاویل کرنے کی قدیم ترین کوششوں میں سے ہے۔ علم اور اخلاق، معاشرت اور تمدن، اقتصادیات اور عمرانیات غرض کہ انسان کی ساری فکری اور عملی زندگی کی تہذیب و ترقی کا پہلا آلہ صنم پرستی تھا جس نے بعد کو مذہب کی ہیئت اختیار کی۔ پرانے زمانے کی شاعری کے جو نمونے ہم تک پہنچے ہیں، ان کے مطالعہ سے بھی نتیجہ نکلتا ہے کہ ہر ملک اور ہر عہدمیں شاعری اور زمانے کے اجتماعی اور تمدنی حالات و معاملات کا آئینہ رہی ہے اور اس سے انسان نے اپنے گردوپیش کی دنیا کو اپنی ضرورتوں اور مرادوں کے مطابق بنانے میں بڑی مدد لی ہے۔

    شاعری نہ صرف حال کی عکاسی کرتی رہی ہے بلکہ مستقبل کی تشکیل اور حیات انسانی کی تہذیب و ترقی میں ایک مؤثر قوت ثابت ہوتی رہی ہے۔ شاعری نے انسان کی زندگی کی قدریں اور ہیئتیں اسی طرح بدلی ہیں جس طرح آج سائنس کے نت نئے انکشافات و ایجادات بدل رہے ہیں۔ کہا جا چکا ہے کہ کسی زمانے میں سارا علم انسانی مذہب کی شکل اختیار کئے ہوئے تھا اور اس علم کی زبان شاعری تھی۔ شاعری کی قدیم ترین مثالیں بھجن اور اوراد وظائف ہیں اور ان کے سب سے پہلے مہذب نمونے وہ مقدس کتابیں ہیں جو صحف آسمانی کہلاتی ہیں اور جن کو ہمیشہ غیب کی آواز سے منسوب کیا گیا ہے۔ اوستا، وید، توریت، زبور، انجیل وغیرہ انسانی تمدن کے عہد ہائے پارینہ کے بہترین اکتسابات شعری ہیں۔

    ضمیات اور مذہب کے اس وسیع دور میں انسان کے تمام تجربات اور معلومات اشعار ہی میں مدون کئے جاتے تھے۔ یعنی شاعری کا رائج الوقت حکمت نظری اور حکمت عملی سے الگ کوئی وجود نہیں تھا۔ انگریزی کے مشہور شاعر شیلی (Shelley) نے شاعر کا جو جامع تصور پیش کیا ہے وہ غلط نہیں ہے۔ ’’یہ لوگ (شعراء) قوانین کے مرتب، مہذب وہیئت اجتماعی کے بانی اور زندگی کے علوم وفنون کے موجد ہیں۔ وہ ایسے معلم ہیں جو غیرمرئی دنیایا عالم غیب کے اسباب و محرکات کے اس ناقص ادراک کو، جس کو مذہب کہتے ہیں حسن اور حقیقت کے وجدان کے جوار میں کھینچ لاتے ہیں۔‘‘ سرفلپ سڈنی (Sir Phillip Sidney) نے شاعری کو’’علم انسانی کی دایہ‘‘ بتایا ہے۔

    شاعری یقیناً روشنی کی وہ پہلی کرن ہے جس نے جہالت کی ظلمت کو دور کیا۔ پرانی تاریخ کے اوراق الٹیے اور کال دیا، بابل، ایران، اشوریہ، چین، ہندوستان، مصر، فلسطین، یونان اور روما کے تمدن کا جائزہ لیجئے تو یہ بات دن کی طرح روشن ہو جائےگی کہ اگلے زمانے میں شاعری انسان کے تمام علمی اور عملی اکتسابات پر محیط تھی۔ وید کے اشلوک، اوستا کے فرگرد، کنفیوشیش کے ملفوظات، اسفار، موسوی کی تنبیہیں اور ہدایتیں، زبور کی مناجاتیں، سلیمان بن داؤد کے امثال اور گیت، انجیل کی بشارتیں، سب کی سب شاعر ی ہی کی مثالیں ہیں۔

    قدیم یونان کے حکماء شاعری ہی کا لباس پہن کر ظاہر ہوتے۔ نہ صرف میوزیوس (Musaeus) ہیسیڈ (Hesiod) اور ہومر (Homer) نے اپنے اختراعات شعر میں پیش کئے بلکہ طالیس (Thales) امپافلیس (Empedocles) اور فیثا غورث (Pythagoras) جیسے حکماء نے نظام کائنات اور حیات انسانی کے بارے میں اپنے سارے افکار و نظریات کو شاعری ہی کی زبان میں ادا کیا۔ سولن (Solon) نے تمدن اور تدبر سے متعلق جو کلیات مرتب کئے اور جو بعد کو روما کے توسط سے تمام مغربی دنیا کے لئے قوانین بنے وہ اشعار ہی کی شکل میں ہیں۔ اسی لئے یونانی زبان میں شاعر کو Poet یعنی صانع یا خالق کہتے تھے اور اہل روما شاعر اور نبی یعنی غیب کی خبر دینے والے کے لئے ایک ہی لفظ Yates استعمال کرتے تھے۔ عربی، فارسی اور اردو میں ’’شاعر‘‘ کا لفظ استعمال ہوتا ہے جس کے اصلی معنی باخبر اور خبر دینے والے کے ہیں۔ سنسکرت کے لفظ ’’کوی‘‘ کے بھی اصلی معنی دانشور اور عارف کے ہیں۔

    ہمارا یہ خیال بالکل بے بنیاد ہے کہ شاعری سکون، تنہا نشینی اور مطالعہ نفس کا نتیجہ ہے۔ شاعری تاثر و تفکر کا نتیجہ ہے اور تاثر و تفکر خارجی دنیا کے ساتھ مقابلہ اور کائنات کے مطالعے کے نتائج ہیں۔ شاعری کا آغاز اور اس کی غایت براہ راست جہدللبقا سے متعلق ہے۔ اجتماعی محنت اور متففہ سعی وپیکار سے الگ ہوکر کم سے کم انسان کی زندگی کے قدیم ترین زبانوں میں شاعر ی کا تصور نہیں کیا جا سکتا تھا۔

    ظہور انسان کے ابتدائی ایام میں ہمارے وحشی اسلاف اتنے شریف النفس نہیں تھے جتنا کہ ہم سمجھے ہوئے ہیں۔ خوفناک غیرانسانی مخلوقات میں ایک اجنبی اور بےبس مخلوق کی حیثیت سے ان کو اپنی زندگی گزارنا تھی۔ ممیتھ (Mammoth)، ماستودن (Mastodon)، دیناسار (Dinosaur) ترانوسا (Tyrannosaur) گینڈے، خنجر کی طرح دانت رکھنے والے چیتے، شیر، دیوزاد اژدہے اور دوسرے درندے اور بہائم ہر وقت ان کو کھا جانے کے لئے تیار تھے۔ سوا چٹانوں کی آڑ اور لمبی گھاسوں کے ان کے لئے کوئی جائے پناہ نہ تھی۔ شدید سردی، دل دہلانے والی بادل کی گرج، بینائی کو اچک لے جانے والی بجلی کی چمک، بھیانک اندھیرا، ان مہیب اور مہلک قوتوں سے محفوظ رہنے کی کوئی صورت نہ تھی۔ اس پر مصیبت یہ کہ بھوک، پیاس، رفع کرنے کے لئے پریشانی اور پے بہ پے ناکامی کے عالم میں دن کے دن اور رات کے رات دوڑ دھوپ میں گزر جاتا تھا۔ اکثر کئی روز بے کھائے پیے سخت مشقتوں اور صعوبتوں کے بعدوہ اپنے خوردونوش کے سامان مہیا کر پاتے تھے جو عام طور سے ناکافی ہوتے تھے۔

    اولیں انسان کی زندگی میں سب سے زیادہ ناگزیر اور اہم محرکات بھوک اور خوف تھے۔ خوف کے اسباب میں کچھ تواصلی وجود رکھتے تھے اور کچھ موہوم تھے جو اس کی جہالت کی پیداوار تھے مثلا ہوا، بادل، بجلی، اندھیرے جیسی دہشت انگیز چیزوں کو وہ غضب ناک اور ہلاک کرنے والی روحیں سمجھتا تھا اور ان کو رام کرنے کے لئے طرح طرح کی تدبیریں اختیار کرتا تھا۔

    ایسے حالات و اسباب میں رہ کر انسان قدرتی طور پر بزدل، خود غرض، حریص، جھگڑالو، چور اچکا اور فریبی تھا۔ وہ حیوانات میں سب سے زیادہ کمینہ اور بداطوار حیوان تھا۔ دوسروں کی خوراک چرا لینے، صرف اپنے لئے غذا فراہم کرلینے کی غرض سے دوسروں کو، کبھی کبھی خود اپنی اولاد کو بےدردی اور قساوت کے ساتھ مار ڈالنے میں اس کو کوئی دریغ نہ ہوتا تھا۔

    لیکن بہت جلد انسان کے اندر یہ شعور پیدا ہو گیا تھاکہ اکیلے اکیلے ’’ہر کوئی صرف اپنے لئے‘‘ کے اصول پرکاربند رہ کر آسمان اور زمین کی غارت گر قوتوں کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا، اگر تمام خطرات و مہلکات سے اپنے کو بچانا ہے تو تنہا گزینی اورنفس پروری سے کام نہیں چل سکتا۔ کائنات میں جتنے موجودات انسان کو ضرر پہنچانے والے ہیں اور اس کے بقا اور بہبود کے راستے میں جتنے حائلات و مزاحم ہیں، ان کو زیر کرنے کے لئے ضروری ہے کہ دس بیس پچاس مل کر زندگی بسر کریں اور متفقہ سعی و پیکار سے تمام مردم آزار طاقتوں کا مقابلہ کرکے ان پر قابو آئیں۔ اس شعور نے جلدہی انسان کو گروہ بندی اور جماعت آرائی کے لئے مجبور کر دیا۔ یہیں سے سماجی شعور کی ابتدا ہوتی ہے اوریہی سب سے پہلا عمرانی معاہدہ (Social Contract) ہے۔ انسان کے ان مساعی جمیلہ کی بنیاد، جن کو فنون لطیفہ کہتے ہیں، تمدنی تاریخ کے اسی دور میں پڑی۔ اجتماعی زندگی اور مشترکہ محنت نے فنون لطیفہ ایجاد کئے جن کا تعلق زندگی کے مقاصد اور مطالبات سے تھا۔ شاعری بھی ایک فن لطیف کی حیثیت سے اسی زمانہ کی تخلیق ہے۔

    کہا جاتاہے کہ شاعری سحر وافسوں کی بالیدہ اور بالغ صورت ہے اور اس کا آغاز اس احساس سے ہوا کہ ہم کو ایک مخالف اور غیرہمدرد دنیا سے سابقہ ہے جس کو اپنی ضرورتوں اور مرادوں کے مطابق بنانے کے لئے ہم کو سخت جہاد کرنا ہے۔ اس احساس کا ایک مہتم بالشان اظہار شاعری ہے اور اس کے پہلے ترکیبی عناصر وہ مواد و موثرات ہیں جو کائنات کے مواجہے اور مطالعے سے پیدا ہوئے۔ شاعری کی ترکیب میں مطالعہ نفس بہت بعدمیں داخل ہوا۔ شاعری کے بنیادی اجزا یقینا ًخارجی اور غیرذہنی ہیں، لیکن انہیں اجزا کو شاعری کی ساری کائنات سمجھ لینا ایک دوسرے قسم کی بربریت ہوگی۔

    شاعری فن کاری کے دوسرے اصناف کی طرح خلقی طور پر دو عنصری ہے (Bie Lemental) ہے۔ شاعری کسی مفرد کا نام نہیں ہے۔ وہ ایک مرکب ہے اور اگرہم علم کیمیا کی زبان میں گفتگو کرنا چاہیں تو شاعری کی ترکیب دو قسم کے اجزا سے ہوئی ہے۔ پہلے اجزا تو خارجی ہیں جو مجہول اور انفعالی ہیں، دوسرے اجزا جو اجزائے اعظم کا حکم رکھتے ہیں، داخلی اور انفرادی ہیں۔ پہلے اجزا یعنی خارجی مواد بسائط یا مفردات (Simple elements) کے مانند ہیں۔ دوسرے یعنی داخلی اجزا جو شاعری کے اصل محرکات ہیں عوامل (Reagents) کاحکم رکھتے ہیں۔ جن کے بغیر یہ مفردات نہ حرکت میں آ سکتے اور نہ کوئی کیمیاوی صورت اختیار کر سکتے۔

    ہم کہہ چکے ہیں کہ شاعری نام ہے خارجی اور مادی دنیا کو اپنی آرزوؤں اور حوصلوں کے مطابق بنانے کی خواہش اور اس کی کامیاب یا ناکامیاب کوشش کا اور اس کے مزاج میں خارجی حقائق اور داخلی واردات دونوں یکساں داخل ہیں۔ شاعری واقعہ اور تخئیل کا امتزاج ہے۔ کرسٹوفر کاڈویل (Christopher Caudwell) نے ’’التباس اور حقیقت‘‘ (Libusion and Realty) کے نام سے جوادق اور پیچیدہ کتاب لکھی ہے، اس کا خلاصہ یہی ہے۔

    انسان کے داعیات اور مقاصد اور کائنات یا نظام قدرت کی طرف سے جو جبر اس پر عائد کیا گیا ہے، دونوں کے درمیان سخت تصادم ہے۔ اس جبر و تصادم سے آزادہونے کی خواہش آدمی کے اندر شروع سے کام کرتی رہی ہے۔ اس خواہش کے اظہار کی ایک صورت شاعری ہے۔ شاعر کے جبلی میلانات اور خارجی تجربات کے درمیان جو تناقص ہے، وہی شاعری کا اصلی سرچشمہ ہے۔ یہ کشاکش شاعر کو مجبور کرتی ہے کہ وہ التباسی تمثال یا شبیہ (Illusory Phantasy) کی ایک نئی دنیا تعمیر کرے، جو اس حقیقی اور خارجی دنیا سے جس کاوہ لازمی نتیجہ ہے، بہرحال ایک فطری اور قطعی تعلق رکھتی ہے۔

    جارج ٹامس نے اپنے مختصر رسالہ ’’مارکسیت اور شاعری‘‘ میں اس نکتہ کو واضح کیا ہے۔ شاعری اس لئے وجودمیں آئی کہ انسان نقل یا تخلیقی عکاسی کے ذریعے خارجی دنیا میں اپنی ضرورتوں اور خواہشوں کے مطابق کچھ تبدیلی پیدا کر سکے۔ شاعری کا کام حقیقت پر التباس عاید کرنا ہے۔ دوسرے الفاظ میں شاعر ی کا اصل منصب یہ ہے کہ انسان خارجی مواد کو اپنے ذہنی میلانات کے سانچے میں ڈھال کر ان پر اپنی مہر لگائے اور اس طرح ان کو اپنی زندگی کے لئے سزاوار بنائے۔ جو لوگ اس التباس یا داخلی تحریک کو بیگانہ اصلیت سمجھتے ہیں وہ بڑے نادان ہیں۔ التباس خود اپنی جگہ ایک حقیقت ہے اور ایک فعال حقیقت ہے جس کا دوسرا نام تخیل ہے۔ شیلی نے شاعری کو تخئیل کا اظہار کہا ہے۔ یہ بہت صحیح ہے۔ تخئیل یا داخلی تحریک کے بغیر شاعری صورت پذیر نہیں ہو سکتی۔

    نیوزی لینڈ کے اصلی باشندوں ماوری (Maoris) اور دنیا کے بہت سے وحشی قبائل کی مثالیں سامنے ہیں۔ ان کے ملک کی آب وہوا کچھ ایسی ہے کہ ان کی بوئی ہوئی فصلوں کو قدرت کے شدائد، مثلاً انتہائی سرد یا جھلسا دینے والی گرم ہوا، طوفانی بار ش اور اولے برباد کر سکتے ہیں۔ یہاں کے مرد اور عورت کھیتوں میں جاکر ناچتے ہیں اور بدن کے حرکات و سکنات سے ہوا کے جھونکوں، بارش کے جھکوروں اور فصل کے اپجاؤ اور بارآوری کی نقلیں کرتے ہیں اور ناچتے وقت گاتے ہیں اور گانے میں فصل کو مخاطب کرکے کہتے ہیں کہ وہ ان کے حرکات و سکنات کی تقلید کرے۔ یعنی یہ بھولے بھالے لوگ اپنے خیال میں خارجی دنیا کی سنگین قوتوں کو اپنے مطالبات کے مطابق موڑنے کی کوشش کرتے ہیں اور ان کا عقیدہ یہ ہے کہ ایسا کرنے سے خارجی دنیا ان کی امیدوں کے مطابق بدل جائے گی۔ یہی ساحری ہے اور یہی شاعری۔

    یعنی ایک التباسی یا تخئیلی اسلوب کے زور سے کائنات کو اپنی زندگی کے موافق پھر سے تخلیق کرنے کی آرزو اور کوشش۔ لیکن یہ کوشش صرف اس لئے کہ التباسی ہے، بے اثر اور لاحاصل نہیں ہے۔ ظاہر ہے کہ اس ناچ اور گانے کا کوئی اثر براہ راست فصل کی بالیدگی پر نہیں پڑ سکتا، مگر خود ناچنے والے والوں پر اس کا زبردست اثر پڑتا ہے۔ ناچ اور گیت کا جوش اور یہ عقیدہ کہ اس طرح ان کی فصلیں محفوظ رہیں گی، ان کو اس قابل بنا دیتا ہے کہ وہ اپنی فصلوں کی داشت اور نگرانی زیادہ انہماک، زیادہ سرگرمی اور زیادہ اعتماد کے ساتھ کر سکیں۔ اس طریقے سے خارجی حقیقت کی طرف ان کا ذہنی میلان بدل جاتا ہے۔ جس سے بالآخر حقیقت بھی بدل کر رہتی ہے۔

    اس کے یہ معنی ہوئے کہ شاعری اپنی اصل وغایت کے اعتبار سے عملی اور افادی ہے۔ شاعری محض پیغمبری کا ایک جزو نہیں ہے۔ شاعری اپنی اصل کے اعتبار سے ساحری، کہانت اور پیغمبری رہتی ہے اور ساحریا کاہن یا پیغمبر کے سامنے زندگی کے عملی مسائل ہوتے ہیں جن کو وہ تخئیل کے زور سے حل کرتا ہے۔ اسی لئے ولیم بلیک (William Blake) نے اپنی مخصوص زبان اور اپنے نرالے اسلوب میں تخئیل کو ’’روح القدس‘‘ کا دوسرا نام بتایا ہے۔

    اگر قدیم ترین تاریخ میں سراغ لگایا جائے تو معلوم ہوگا کہ آغاز آدمیت ہی سے شاعری اور رقص و سرود باہم لازم و ملزوم ہیں۔ انگریزی کے مشہور انشا پرداز رابرٹ لنڈ (Robert Lynd) نے بڑے دل پذیر انداز میں اس خیال کو ادا کیا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ڈانٹے (Dante) کی ’’طربیہ ربانی‘‘(Divine Comedy) کی ہیروئن اور خود شاعر کی محبوبہ بیٹرس (Beatrice) کی طرح شاعری ایک رقصاں ستارے کے زیر اثر پیدا ہوئی۔ شاعری کے خمیر میں رقص و غناغالب عنصر ہیں۔ تال سم کے بغیر شاعری ظہور میں نہیں آ سکتی تھی جیسا کہ اس سے پہلے اشارہ کیا جا چکا ہے۔ جہاں جہاں زندگی تخلیقی قوت کارفرما ہے، وہا ں وہاں تال سم یارقص صوتی کہیں محسوس کہیں غیرمحسوس، کہیں ناقص کہیں مکمل صورت میں موجود ہے۔

    رقص و موسیقی شاعری سے زیادہ قدیم ہیں، مگر جب سے شاعری وجود میں آئی اس وقت سے شاعری و موسیقی کا چولی دامن کا ساتھ رہا ہے۔ جب موسیقی کے ساتھ گویائی یعنی بامعنی الفاظ شامل ہو گئے تو اس مرکب کا نام شاعری پڑا۔ یونان اور دوسرے ملکوں کی پرانی تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ موسیقی روز اول سے شاعری کی ایسی سہیلی ہے جس سے وہ دم بھر کے لئے جدا نہیں ہو سکتی۔ جب سے انسان اس قابل ہوا کہ اپنے جذبات اور خیالات کو بامعنی الفاظ میں ظاہر کر سکے اس وقت سے خالص موسیقی کم تر درجہ کا فن ہو گیا۔

    دنیا کے قدیم ترین متمدن ممالک میں شاعری کے بہترین نمونے وہ تھے جو ساز و نغمہ کے معیت کے لئے بنائے جاتے تھے۔ یونانی المیہ کالازمی اور اہم جز و کورس (Chorus) اس امر پر آج تک دلالت کرتا ہے کہ شاعری اور رقص و سرود کے درمیان ایک پیدائشی نسبت ہے۔ شاعری کی ایک مقبول عام صنف (Lyric) ہے جو داخلی شاعری کا منتہائے کمال ہے اور جس کی خالص مثال اردو اور فارسی میں غزل ہے۔ اس صنف کا نام ہی اپنی اصلیت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ یہ نظم اسی لئے ہوتی تھی کہ مزمار یا بربط پر گائی جائے۔ عربی اور فارسی میں نشید ایسے ہی اشعار کو کہتے تھے جو لحن اور ترنم کے ساتھ پڑھے جائیں۔ زمزمہ جواب موسیقی کی اصطلاح ہو گیا ہے اور جس کے معنی گٹکری کے ہیں، دراصل وہ دعائیں تھیں جن کو مجوس آگ کی عبادت کرتے وقت خوش الحانی ک ساتھ بلند آواز میں پڑھتے تھے۔ چونکہ اہل عرب کے لئے ان دعاؤں کے الفاظ ناقابل فہم تھے، اس لئے وہ ان کو زمزمہ کہنے لگے جو زمزم سے مشتق ہے جس کے معنی گڈمڈ اور بےمعنی آواز کے ہیں۔

    قبل اس کے ہم شاعری اور اس کی روح غزل کی بحث میں آگے بڑھیں، رقص و سرود کے بارے میں چند باتیں سمجھ لینا بے محل نہ ہوگا۔ جو کچھ اس سے پہلے کہا جا چکا ہے اس سے اتنا تو واضح ہو گیا ہوگا کہ فن کاری کے لئے مواد خارجی اور مادی دنیا مہیا کرتی ہے۔ لیکن فن کاری کی دل کشی کا اصل راز مواد میں نہیں ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو خارجی مواد کا وجود ہی ہمارے لئے کافی تھا اور فن کاری کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ فن کاری کی ناگزیر دل کشی کا راز اس کی ہیئت اور اسلوب میں ہے۔ غیر متمدن قبائل کے ناچ سے لے کر مہذب سے مہذب قوموں کی ناچ تک، چاہے وہ شکار کی تمہید ہو، چاہے وہ فصل کی برومندی کے لئے ہو، چاہے کرشن اور رادھا کے رومان کی تمثیل ہو چاہے آ ج کل کے کسی مشرقی یا مغربی ملک کا جدید ترین ناچ، سب میں بدن کے لوچ اور لچک اور بھاؤ سے اثر پیدا ہوتا ہے اور یہ عناصر داخلی میں جو انسان کے جذبات و تصورات کے اندرونی ابھار یعنی تخئیل کی نمائندگی کرتے ہیں۔

    فن کاری نام ہے مادی اور خارجی دنیا پر اپنی مرادوں یا تخئیل کی چھاپ لگانے کا۔ اول اول یہ تخئیل جماعتی تھی یعنی جماعت کے مختلف افراد مل کر اس تخئیل کو صورت دیتے تھے لیکن انفرادی کیفیت سے کبھی یک لخت حالی نہیں رہی۔

    سرود یا گانے کے متعلق بھی یہی حکم لگایا جا سکتا ہے۔ گانے میں علت مادی اور علت غائی جو خارجی اور اجتماعی دنیا سے تعلق رکھتی ہیں، لیکن علت فاعلی جس کے ساتھ علت صوری بھی شامل ہے خالصتاً انسان کی اندرونی کائنات کی پیداوار ہے اور ایک باطنی کیفیت رکھتی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ اس کیفیت کا اگر تجزیہ کیا جائے تو کہیں نہ کہیں پہنچ کر اس کا سبب بھی بیرونی محرکات میں ملےگا جو لوگ فن کاری کو محض کیفیت باطن کا نتیجہ سمجھتے ہیں۔ وہ زندگی کو ہوا اور بادل میں تحلیل کئے ہوئے ہیں لیکن جو لوگ ساری حقیقت کوصرف خارجی موجودات سے منسوب کرتے ہیں وہ زندگی کو گھور بنائے رکھنا چاہتے ہیں۔ زندگی کوئی سادہ اور اکہری حقیقت نہیں ہے۔ دوئی اور تضاد زندگی کے خمیر میں ہیں۔ تصادم اور پیکار ا س کی صحت کی علامت اور اس کی ترقی کی ضمانت ہیں۔ جدلیت نہ صرف حیات انسانی بلکہ سارے نظام کائنات کی فطرت اولی ہے۔

    یہ جدلیت طبعی طور پر مجبور ہے کہ جب اپنے کو ظاہر کرے تو ایک حرکت متبادل یعنی قرینہ یا آہنگ یا وزن یا تال سم کی صورت اختیار کرے۔ رقص و موسیقی کا حرکاتی یا صوتی آہنگ دراصل اس آہنگ کا بےساختہ اظہار ہے۔ جس کے بغیر زندگی ایک بے معنی لفظ کے سوا کچھ نہیں۔ اگر ذراتامل سے کام لیا جائے تو ہوا کے جھونکوں اور دریاکی لہروں میں ایک باضابطہ تال سم محسوس ہوگا۔ جاندار مخلوقات کی سانس اور نبض میں ایک مسلسل اور متواتر اتار چڑھاؤ ہوتا ہے، انسانی مخلوق میں یہ اندرونی آہنگ محنت کے وقت جسمانی حرکات کے تناسب یا آواز کے موزوں اور مترنم تموج کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔ یہی مترنم تموج موسیقی اور شاعری کی جان ہے۔

    فن کاری اور بالخصوص شاعری کا وہ لازمی ترکیبی جزو جس کو آہنگ یا مترنم تموج کہا گیا ہے یکسر داخلی ہے۔ اگر انفرادیت کا لفظ ایک اصطلاح بن کر آج بدنام نہ رہ گیا ہوتا تو ہم کہتے کہ یہ آہنگ انفرادی ہوتا ہے۔ پھر بھی ہم اتنا کہے بغیر نہیں رہ سکتے کہ تال سم کا تعلق عالم فردیت سے ہے۔ یہ اور بات ہے کہ انسان کے ایام طفولیت اور دوران بلوغیت تک انفرادی ہستی اور اجتماعی وجود کے درمیان کوئی فرق نہیں تھا، ایک فرد واحد کے جذبات و میلانات تمام تنوعات کے باوجود وہی ہوتے تھے جو جماعت کے تمام افراد کے ہوتے تھے۔

    مختصر یہ کہ شاعری کی ترکیب میں غالب اور حاوی عنصر وہی ہے جس کو رقص صوتی یا موسیقیت کہتے ہیں اور جو سرتا سر داخلی ہے۔ غنائیت یا مزماریت یا نغمگی شاعری کی اصلی روح ہے۔ آئندہ سطروں میں ہم شاعری کی اس روح کو غزل یا غزلیت یا تغزل کہیں گے۔ شاعری کی ہر صنف کا بنیادی سر وہی داخلی عنصر ہے جس کو مزماریت یا غنائیت یا تغزل کہتے ہیں۔

    مزماری شاعری ایک جداگانہ نوع کی حیثیت سے بہت بعد کی چیز ہے۔ سب سے پہلے جیسا کہ کہا جا چکا ہے ساحری اور شاعری دونوں ایک ہی قسم کی کوششیں تھیں اور دونوں نفس انسانی کی اس قدیم ترین تحریک کا مظاہرہ تھیں جس کو پرستش یا عبادت کہتے ہیں۔ اس تحریک کی ابتدا تو خارجی عالم اسباب سے ہوئی لیکن اس کو صورت دینے والی قوت انسان کے وہ تاثرات وجذبات ہیں جو خارجی دنیا کے تجربات سے اس کے اندر رونما ہوتے رہے۔ اسی لئے جب بدن کے حرکات و سکنات یا آواز کی شکل میں اس کا اظہار ہوا تو آپ سے آپ اس میں زیروبم، تال سم بھی آ گیا۔ کتب مقدسہ کی سورتیں اور آیتیں لحن کے ساتھ پڑھنے کے لئے ہوتی تھیں اور بلا استثناء ان میں غالب خصوصیت وہی غنائیت یا غزلیت ہے جو شاعری کا اصلی کمال ہے۔

    وید کے اشلوک، اوستا کی وہ دعائیں جو گاتھا کہلاتی ہیں، ’’عہد عتیق‘‘ (Old Testament) اور’’عہد جدید (New Testament) کے اہم اجزا سب کے سب نغمہ یا سرود کا انداز لئے ہوئے ہیں، چاہے عروض کی اصطلاحی معیار سے ان پر شاعری کا اطلاق نہ ہو سکے۔ ’’عہدعتیق‘‘ میں یسعیاہ، جزقیل، اور دانیال کی کتابوں میں جوتنبیہ وتہدید اور جو پیشین گوئیاں ہیں وہ اپنے تمام جلال و تمکنت کے باوجود اپنے لب و لہجہ میں وہی پروقار گداز رکھتی ہیں جس کو ہم غزل کی سب سے زیادہ پاکیزہ صفت سمجھتے ہیں۔ یرمیاہ کے نوحے (Lamentations) مسلسل غزل ہی کی دھن میں ہیں۔ روت یاراعوث (Ruth) کی کتاب اور استر (Esther) کی کتاب ان تمام نازک کیفیات کی حامل ہیں جن کو غزل سرائی کے ساتھ مخصوص کرتے ہیں۔ اگرچہ دونوں میں قصے بیان کئے گئے ہیں۔

    ’’ایوب کی کتاب‘‘(The Book Of Job) میں وہ خستگی و گداختگی بھرپور موجود ہے، جو تغزل کی سب سے زیادہ اہم اور نمایاں خصوصیات میں داخل ہیں۔ داؤد کے زبور تو گیت ہی ہیں۔ زبور کے معنی ہی گیت کے ہیں۔ ’’امثال سلیمان‘‘(Proverbs of Soloman) میں جو متانت اور سنجیدگی پائی جاتی ہے، اس کے لئے غزلیت کے سوا کوئی دوسرا لفظ نہیں اور سلیمان کی ایک کتاب کا نام ہی ’’گیت‘‘ یا’’گیتوں کا گیت‘‘ (Song of Songs) ہے۔ جس کو عربی میں ’غزل الغزلات‘‘ کہتے ہیں۔ مسیح کے یادگار ملفوظات میں جو بلیغ زمی اور جو لطیف گداز محسوس ہوتا ہے اس کو تغزل ہی سے تعبیر کیا جائےگا۔

    خالص مذہبی شاعری سے الگ ہوکر جملہ اصناف سخن کا جائزہ لیجئے تو یہ تسلیم کرنا پڑےگا کہ ہر صنف میں اعلیٰ شاہ کار وہی ہیں جن میں تغزل کا تیز رنگ موجود ہے۔ ایسکائیلس (Aeschylus) سفوکلیز (Sophocles) اور یوریپائیڈیز (Euripides) کے المیہ ڈراموں میں سب سے زیادہ توانا اور مؤثر پارے وہ ہیں جہاں شدید داخلیت کام کر رہی ہے۔ کالی داس کی ’’شکنتلا‘‘ میں وہی مواقع زیادہ پر تاثیر ہیں جہاں انہماک کے ساتھ کامیاب اسلوب میں داخلی کیفیات و واردات کا اظہار کیا گیا ہے۔ شیکسپئر کے المناموں (Tragedies) میں یادگار حصے وہ ہیں جن میں دل پذیر انداز کے ساتھ جذباتی ردعمل یا اندرونی پیکار کو پیش کیا گیا ہے۔ رزم ناموں (Epics) میں ہومر کی ’’الیڈ‘‘ سے لے کر ملٹن کی ’’فردوس گم شدہ‘‘ تک، ’’مہابھارت‘‘ سے تلسی داس کی ’’رامائن‘‘ تک اور ’’خدائے نامہ‘‘ سے ’’شاہ نامہ‘‘ اور ’’سکندرنامہ‘‘ تک غور سے مطالعہ کر ڈالئے، ان میں قابل انتخاب اور یادگار وہی اشعار ہوں گے جو داخلی تاثرات وجذبات کے آئینہ دار ہیں اورجن میں وہی کیفیت چھائی ہوئی ہے جس کو ہم نے غنائیت یا نغمگی کہا ہے۔

    دنیا میں شاعری کی جتنی بھی تعریفیں کی گئی ہیں، ان سب میں دو خصوصیات پر زیادہ زور دیا گیا ہے، ایک تو اس کی جذباتی ماہیت، دوسرے موسیقیت اور یہ دونوں داخلی حقیقتیں ہیں۔ ڈاکٹر جانسن نے شعر کو’’موزوں تصنیف‘‘(Metrical Composition) کہا ہے۔ جان اسٹیورٹ مل پوچھتا ہے، ’’شاعری ایسے خیال اور الفاظ کے سواجن میں جذبات کو بے ساختہ ظاہر کر سکیں اور کیا ہے؟‘‘ کارلائل شاعری کو ’’مترنم خیال‘‘بتاتا ہے۔ شیلی تخیل کے اظہار کو شاعری کہتا ہے۔ ہیزلٹ کے نزدیک شاعری ’’تخیل اور جذبات کی زبان‘‘ ہے۔ لے ہنٹ کا خیال ہے کہ ’’انسان کے اندر حقیقت، حسن اور قوت کی طلب کا جو پرخروش جذبہ ہے اسی کے بے اختیار اظہار کا نام شاعری ہے اور اس اظہار کے لئے تخیل اور الفاظ کا متناسب اتار چڑھاؤ لازمی ہیں۔‘‘ کولرج کے تصور میں ’’شاعری علم و حکمت کی ضد ہے اور اس کا نصب العین حقیقت کی تلاش نہیں بلکہ حصول انبساط ہے۔‘‘ ورڈسورتھ کی لغت میں ’’شاعری تمام علم انسانی کی جان اور اس کی لطیف ترین روح ہے۔ شاعری جذبات کی وہ پرجوش علامت ہے جو تمام علم و حکمت کے چہرے میں نمایاں ہوتی ہے۔‘‘ ایڈگر ایلن پو کے خیال کے مطابق ’’شاعری حسن کی پر آہنگ اور مترنم تخلیق کا نام ہے۔‘‘ وائس ڈنٹن (Wais Dunton) کاقول ہے کہ ’’شاعری جذباتی اور مترنم زبان میں شعور انسانی کے محسوس اور جمالیاتی اظہار کا نام ہے۔‘‘

    ان تمام اقوال وآراء کا خلاصہ عام فہم زبان میں یہ ہے کہ شاعری موزوں اور پرترنم الفاظ میں دلی جذبات کا اظہار ہے اور اس کامطلب صرف یہ ہے کہ شاعری کی ترکیب میں جو عناصر غالب ہیں وہ داخلی ہیں اور جو چیز داخل ہوگی اس کا انفرادی ہونا لازمی ہے۔ لیکن انفرادیت کے معنی اپنی ذات میں کھوئے ہوئے رہنے کے نہیں۔ سچی اور صحت مند انفرادیت اپنی جگہ خو دایک اجتماعی حقیقت ہے۔ مزماری شاعری کا (جس کی سب سے زیادہ رچی ہوئی صورت وہ صنف ہے جو فارسی اور اردو میں غزل کہلاتی ہے) اصلی جو ہر شخصیت یا انفرادیت ہے۔

    لیکن یہ یاد رکھنے کے قابل بات ہے کہ اس صنف شاعری کے بہترین شاہکاروں کی عظمت ادبی دنیا کی تواریخ میں اس لئے ہے کہ وہ انسان کے عامۃ الورود جذبات و افکار کی ترجمانی کرتے ہیں، جس سے ہر سننے والے یا پڑھنے والے کے اندر یہ احساس بیدار ہو جاتا ہے کہ یہ تو اسی کے دل کی باتیں ہیں۔ سچی غزلیت یہی ہے کہ سامع یا قاری کویہ زحمت اٹھانا نہ پڑے کہ وہ تخیل کے زور سے اپنے کو شاعر کے مقام پر پہنچائے بلکہ اس کے اندر یہ احسا س پیدا کر دیا جائے کہ خود شاعر پہلے ہی سے اپنے کو ہر سامع اور ہر قاری کی صورت حال میں تصور کئے ہوئے ہے۔ غر ض کہ شاعری کی اصل روح مزماریت یا غزلیت ہے۔ خارجی سے خارجی صنف شاعری کے اندریہ روح کام کرتی ہوئی ملےگی۔

    خارجی شاعری کی ایک بڑی پرانی اور مقبول عام صنف وہ ہے جو مغربی ممالک میں ’’بیلڈ‘‘ (Ballad) یا مختصر منظوم افسانہ کہلاتی ہے جو دنیا کی تقریبا ًہر پرانی زبان میں موجود ہے۔ یہ صنف بےساختہ خود بخود پیدا ہوئی اور فن شاعری کے ارتقا کی قدیم ترین منزلوں کی نمائندگی کرتی ہے۔ ہندوستان کی مختلف مقامی بولیوں میں اس کے نمونے بکثرت ملیں گے۔ اس کی بہترین مثال ’’آَلھا‘‘ ہے۔ جس کو گاکر سنانے کے لئے ایک خاص مہارت درکار ہے۔ اہیروں کا مشہور منظوم قصہ ’’لورکائن‘‘ (لورک اور سانور کی داستان) اسی عنوان کی چیز ہے۔ ’’راجہ بھرتری کی عبرت ناک سرگزشت‘‘ اور ’’رانی سارنگا‘‘ کا بلیغ الم نامہ اسی قسم کی تخلیقات ہیں۔

    یہ منظوم داستانیں خاص اسی غرض کے لئے ہوتی تھیں کہ سامعین کے مجمع میں گا کر سنائی جائیں۔ موضوع کے اعتبار سے ان کا تعلق عوام کی زندگی کے روزمرہ حالات و واقعات سے ہوتا تھا۔ خطرات ومہمات کے مقابلے میں جدال و قتال کے معرکے، جواں مردی اور شجاعت کے کارنامے، گھریلو زندگی کے محبوب ترین مشاغل، محبت، رشک و رقابت، رفاقت و عداوت، خلق دوستی اور خداترسی کی رومانی رودادیں یہ ہیں۔ اس صنف شاعری کے عام موضوعات اور سادگی اور بے تکلفی، بیان کی سرعت، لب و لہجہ کی متانت اور سنجیدگی کے ساتھ ایک معصومانہ انداز اس کے اسلوب کی ممتاز ترین خصوصیات ہیں۔

    اس بیانیہ صنف کی ترقی یافتہ صورت رزمیہ ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ مختلف منظوم افسانوں کو ایک رشتہ میں پروکر ایک طویل اور مفصل اور مربوط داستان بنا دیا گیا تو اس کا نام رزمیہ پڑا۔ ہومر کی ’’الیڈ‘‘ اور ’’اوڈیسی‘‘ سے اسپنسر کی ’’فیر ی کوئن‘‘ تک اور’’مہابھارت‘‘ سے ’’شاہ نامہ‘‘ تک دنیا کے بڑے سے بڑے رزمیہ اختراعات کا مطالعہ کر جائیے تو دو خصوصیتیں عام اور مشترک ملیں گی۔ ایک تو یہ کہ ایک مرکزی قصے کے گرد بہت سے قصے باہم منسلک اور ملفوف ہوں گے جو درمیانی یاضمنی قصے (Episodes) کہے جاتے ہیں، دوسرے یہ کہ رزمیہ نظموں میں اگرچہ اصل مقصد سورماؤں کے کارنامے بیان کرنا ہوتا ہے لیکن اس سلسلے میں ادنی سے اعلیٰ تک زندگی کا کوئی ایسا معاملہ یامسئلہ نہیں جس کے متعلق کوئی ضمنی قصہ نہ ہو۔

    دنیا کا کا شاید ہی کوئی شاہکار رزم نامہ ہو جو حسن وعشق کی حکایتوں کا مخزن نہ ہو۔ یہ امرتامل انگیزہے کہ عشق و محبت کی جن حدیثوں کو عالمگیرشہرت حاصل ہوئی اور جو آج کلاسیکی حیثیت کی مالک ہیں ان میں سے بیشتر رزمیہ منظومات ہی میں ملتی ہیں۔ ہومر کی ’’الیڈ‘‘ ورجل کی ’’اینیڈ‘‘ (Aeneid) طاسو (Tasso) کی ’’یروشلم آزاد‘‘ (Jerusalem Liberal) ایریسطو (Ariosto) کی ’’غضبناک آرلاندو‘‘ (Orlando Furiso) اسپنسر کی ’’فیری کوئن‘‘(Faerie Queen) ’’فردوسی کا شاہنامہ‘‘ یہ سب نظمیں ایسے تذکروں سے بھری پڑی ہیں جن میں محبت کی نہایت بلند اور پاکیزہ تخئیل پیش کی گئ ہے اور اگر دانتے (Dante) کی ’’طربیہ ربانی‘‘ (Divine Comedy) کو بھی رزمیہ شاعری میں داخل کر لیں، جیسا کہ اس کی ہیئت اور فنی اسلوب کا مطالبہ ہے، تو پھر ماننا پڑےگا کہ صرف محبت کی داستان پر بھی ایک مہتم بالشان رزمیہ کی عمار ت کھڑی کی جا سکتی ہے۔

    بیٹرس (Beatrice) سے زیادہ معصوم، زیادہ منزہ اور زیادہ بلند حسین اور محبوب عورت کی تخئیل دنیا میں آج تک نہ تو تاریخ پیش کر سکی ہے نہ اساطیر اور کہا جا سکتا ہے کہ ’’طربیہ ربانی‘‘ میں بیٹرس ہیرو اور ہیروئن دونوں کی جگہ لئے ہوئے ہے۔ ’’فیری کوئن‘‘ کی مختلف کتابوں میں کوئی کتاب ایسی نہیں جس میں شجاعت کے معرکوں کا مرکز عشق کا درد نہ ہو۔ ہر غازی ایک محبوبہ ہے جس کی یاد میں اور جس کا نام ورد کرتے ہوئے وہ مہلک سے مہلک خطروں پر قابو پا جاتا ہے اور بڑی سے بڑی مہم سر کر لیتا ہے۔

    اس سلسلے میں ایک اور بات یاد رکھنے کے قابل ہے۔ دنیا کا کوئی رزم نامہ ایسا نہیں ہے جو عورت کو مرکز بنائے ہوئے بغیر اپنی رفتار میں سرمو آگے بڑھ سکا۔ ’’رامائن‘‘ سے سیتا کو ’’الیڈ‘‘ سے ہیلن کو ’’طربیہ ربانی‘‘ سے بیٹرس کو نکال لیجئے تو رزمیہ داستان کی ساری تعمیر ڈھہ کر رہ جائےگی۔ ملٹن جیسے سخت اور بےانتہا سنجیدہ شاعر نے ’’فردوس گم شدہ‘‘ کے نام سے جو مشہور عالم رزمیہ نظم لکھی ہے اس میں شیطان ہیرو ہے تو حوا ہیروئن، اور سچی بات تو یہ ہے کہ شیطان اپنی فتح کے لئے حوا کا محتاج ہے۔ حوا سے بے نیا زرہ کر نہ تو شیطان اپنی مہم سر کر سکتا تھا اور نہ ملٹن کی ’فردوس گم شدہ‘‘ رزمیہ شاعری کا ایسا کامیاب نمونہ بن سکتی تھی۔ اس دعویٰ کا ثبوت یہ ہے کہ ’’فردوس بازیافتہ‘‘ (Paradise Regained) جس میں شاعر نے زبردستی آدم کو ہیرو بنانا چاہا ہے اور بالآخر یزداں کی فتح دکھائی ہے، ’’فردوس گم شدہ‘‘ کے مقابلہ میں بڑی ضعیف اور بےجان نظم ہے۔

    اس طویل کلام کا مقصد یہ ہے کہ جید سے جید اور انتہائی گھن گرج اور آواز کی رزمیہ نظم جذبات کے لطیف ارتعاشات سے بے نیاز نہیں رہ سکی ہے اور پھر چاہے وہ محبت کا کاروبار ہویا شجاعت کے معرکے ہوں یا اخلاقی محاسن کی تبلیغ ہو یا تمدن اور سیاست کے معیاری تصورات ہوں یا تدبیر منزل اور گھریلو زندگی کے مثالی نمونے ہوں، سب میں شاعر کی اپنی تخئیل کارفرما محسوس ہوگی۔ وہ ر ستم کی بہادری ہو یا منیژہ کاجاں بازانہ ولولہ عشق، سہراب کی جواں مردی ہو یا بیوی اور ماں کی حیثیت سے تہمینہ کی بلند شخصیت یا ایک کنواری ایرانی لڑکی کی حیثیت سے جو فن حرب و ضرب کی بھی ماہر ہوکر گرد آفرید کا کردار، اکیلیز (Achilles) کی عسکری شجاعت ہو یا افجینیا (Iphigenia) کی قربانی، یہ سب گویا خارجی موجودات پر شاعر کی اپنی تخئیل کی مہریں ہیں اور سرتاسر داخلی ہیں۔ شاعر کا کام ادنی کو اعلی بنانا ہے۔ فردوسی کا یہ کہنا کوئی تعلی نہیں ہے بلکہ شاعر کے اصلی منصب کی طرف نہایت بلیغ اشارہ ہے۔

    منش کردہ ام رستم داستاں

    و گرنہ یلے بود در سیستاں

    بعض مبصرین وسیع مطالعہ اور غائر تامل کے بعد اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ فن کاری کا اصلی محرک موجود سے ناآسودگی اور ممکن الوجود کی تمنا ہے اور ہم نے اسی کا نام تخئیل رکھا ہے جس کے بغیر شاعری کی کوئی صنف اچھے اور قابل قدر نمونے نہیں پیش کر سکتی۔ حال پر قناعت نہ کرنا اور ایک بہتر مستقبل کے حصول کی آرزو میں لگے رہنا، اسی کو تخئیل کہتے ہیں اور یہی شاعری کی جان ہے جو بالکل داخلی اور انفرادی اپج ہے۔

    اب خارجی شاعری کی کسی دوسری نوع کو لیجئے اور ہمارے قول کی روشنی میں اس پر نظر ڈالئے، مثلا تمثیل یا ٹانک، ڈرامہ کو خارجی شاعری ہی کی ایک صنف قرار دیا گیا ہے، مگر یہ ایک ایسی صنف ہے جس میں واقعہ نگاری، منظر کشی، اظہار جذبات، ہر قسم کے خارجی اور داخلی مواد اور محرکات شامل ہوتے ہیں اور شاعران تمام مختلف مواقع پر دو خاص طریقوں سے کام لیتا ہے۔ کردار اور مکالمہ اور ان دونوں میں جو توانائی اور تاثیر آئی ہے وہ شاعر کی تخئیل یا انفرادی قوت تخلیق سے آئی ہے۔ ڈرامہ میں بھی یادگار اجزا وہی ہوتے ہیں جن پر شاعر اپنی اختراعی قوت کو پوری سکت اور شدت اور تنہائی آزادی کے ساتھ صرف کرتا ہے۔

    یہاں ایک اور بات یاد رکھنا چاہئے۔ فنون لطیفہ خاص کر شاعری میں جتنے اسلوبی طریقے استعمال کئے جاتے ہیں وہ خارجی عالم کے ساتھ نسبت رکھتے ہوئے سب کے سب خالص ذہنی یا انفرادی اختراعات ہیں۔ مثلاً تشبیہ، استعارہ، کنایہ، مجاز مرسل، محاورہ وغیرہ ایسی صنعتیں جن کے بغیر شاعری تو ایک طر ف، سیدھی سادی روزمرہ کی بول چال میں بھی کام نہیں چل سکتا اور اگر لفظی اور معنوی صنعتوں کا تجزیہ کرکے ان پر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ہر صنعت تشبیہ یا استعارہ کا بدلا ہوا روپ ہے۔ تشبیہ یا استعارہ فنکار کی اپنی ذہنی اپج ہوتا ہے اور ہم لاکھ سادہ سے سادہ اور بے تکلف سے بے تکلف زبان میں باتیں کرنا چاہیں، کسی نہ کسی مقام پر اپنے کو مجبور پائیں گے کہ استعارہ یا محاورہ سے کام لیں۔

    استعارہ کی ایک بہت عام قسم وہ ہے جس کے لئے انگریزی میں رسکن (Ruskin) نے (Pathetic Fallacy) کی اصطلاح ایجاد کی تھی اور جس کو ہم ’’مغالطہ حسی‘‘ کہیں گے۔ شاعر اکثر اپنی ذہنی کیفیتوں اور قلبی حالتوں کو خارجی عناصر یا موالید سے منسوب کرتا ہے، اس کو سارا عالم اس کے اپنے ذاتی احساس کے رنگ میں ڈوبا ہوا معلوم ہوتا ہے اور چونکہ یہ ذاتی احساس تغیرپذیر ہے یعنی مختلف لمحوں اور مختلف موقعوں کے اعتبار سے بدلتا رہتا ہے۔ اس لئے عام عناصر بھی اس کو اپنے ذہنی عالم کی روشنی میں مختلف اوقات میں مختلف نظر آتا ہے۔ مثلا پو پھٹنے کو کبھی صبح کا ہنسنا کہا، کبھی گریباں چاک ہونا۔ گلاب کا کھلا ہوا پھول کبھی خنداں، کبھی سینہ فگا اور کبھی گریباں دریدہ چاک دامن ہوتا ہے۔ شبنم کبھی موتی کبھی آنسوؤں کا قطرہ۔ دریا کبھی گنگناتا کبھی روتا ہے۔ شفق کبھی گلگونہ ہے، کبھی کوئے قاتل کی زمین ہے وغیرہ وغیرہ۔ انسانی نطق ان استعارات کے بغیر اظہار سے قاصر رہا ہے۔

    رسکن (Ruskin) نے اس کو مغالطہ حسی کہہ کر ہم کو بلاوجہ مغالطہ میں ڈال دیا ہے۔ یہ التباس (Illusion) ضرور ہے لیکن یہ التباس خود اپنی جگہ ایک نہایت سنگین اور ناقابل تردید حقیقت ہے۔ تشبیہ یا استعارہ تکمیل آرزو کا تخئیلی پیکر ہے۔ تشبیہ یا استعارہ اس بات کی نہایت صحت مند علامت ہے کہ انسان حال سے ناآسودہ اور حسین تر مستقبل کی فکر میں بے چین ہے۔ ’’شرر‘‘ سے ستارہ اور ’’ستارہ‘‘ سے ’’آفتاب‘‘ کی جستجو کرنے کے لیے انسان مجبور ہے۔ ’’شمع کشتند وزخورشید نشانم دادند۔‘‘ سورج کا سراغ لگانے کے لئے نہ جانے کتنے روشن چراغوں کوبے دردی کے ساتھ گل کر دینا پڑتا ہے۔ یہی انسان کی زندگی کا المیہ ہے اور یہی اس کی ترقی کا راز۔ تشبیہات اور استعارات کی نفسیات بھی یہی ہے کہ،

    ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں

    اور یہ میلان جستجو تخئیل کا کرشمہ ہے۔ مشبہ بہ مشبہ پر اور مستعار منہ مستعار پر یقینا ًایک اضافہ ہے اور دونوں کے درمیان وہی نسبت ہے جو واقعہ اور تخئیل کے درمیان ہوتی ہے۔ مشبہ موجود یا حال ہے اور مشبہ بہ ممکن الوجود یا مستقبل۔ نہ صرف شاعری میں بلکہ فن کاری کی کسی صنف میں بھی آج تک بغیر استعارے کے کام نہیں چل سکا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ فن کاری کے مختلف انواع میں استعارے کے اسالیب مختلف ہوتے ہیں۔

    مأخذ:

    ادب اور زندگی (Pg. 97)

    • مصنف: مجنوں گورکھپوری
      • ناشر: اردو گھر، علی گڑھ
      • سن اشاعت: 1984

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے