Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

تہذیب

محمد مجیب

تہذیب

محمد مجیب

MORE BYمحمد مجیب

    وہ لوگ جن کے پاس اور سب چیزیں ہوتی ہیں، یہ فرض کر لیتے ہیں کہ ان میں تہذیب بھی ہے اور وہ لوگ جن کے پاس اور کچھ نہیں ہوتا بس اس بات پر فخر کرتے رہتے ہیں کہ ان کے پاس تو تہذیب ہے۔ وہ فنکار جس کا موضوع گفتگو صرف اپنی ہی ذات تک محدود رہتا ہے، وہ ادیب جو اپنے مکان کی زیریں منزل کی کھڑکی سے ساری دنیا کو حقارت کی نظر سے دیکھتا ہے، وہ ناقد جو ہر شخص اور ہر چیز کو ہدف ملامت بنائے رہتا ہے، اس لیے کہ ان میں سے کوئی اس کے معیار پر پوری نہیں اترتی، محفلوں میں شریک ہونے والی وہ خاتون جو اپنے دل بہلاوے کے لیے شخصیتوں یا افکار کی تلاش میں رہتی ہے، یہ سب یہ دعوی کرتے ہیں کہ ہم تہذیب کے خالق ہیں۔

    آج کل ہندوستان میں تہذیب سے مراد لی جاتی ہے فنون لطیفہ اور ادب، بلکہ اس سے بھی زیادہ محفلیں جن میں فنون لطیفہ اور ادب کے بارے میں گفتگو ہوتی ہے۔ وہ لوگ جن میں زندگی کا نہ کوئی سلیقہ نمایاں ہوتا ہے، نہ ذوق، نہ لطافت، یہ بلند دعوے کرتے ہیں کہ وہ ایک ایسی تہذیب کے وارث ہیں جو ہزارہا برس سے زندہ ہے۔ میں سب سے زیادہ جس کی تہذیب و شائستگی سے متاثر ہوا ہوں وہ ایک ہندو عورت تھی، جس سے بیس برس پہلے میری ملاقات ہوئی تھی۔ اس کی کمر میں کبھ تھا، اپنی گھرداری کے معاملات اور اپنے خاندان کے علاوہ اسے اور کسی بات سے کوئی دلچسپی نہیں تھی، لیکن جو بات بھی وہ کہتی یا جو کام بھی وہ کرتی، مجھے اس میں تہذیب وشائستگی نظر آتی تھی۔ یہ سچ ہے کہ اپنے خصوصی تعلقات کی وجہ سے مجھے حکیم اجمل خاں، ڈاکٹر مختاراحمد انصاری اور ڈاکٹر ذاکرحسین جیسی شخصیتوں کو مثال بناکر تہذیب کی تعریف وتوضیح کرنی چاہئے لیکن مجھے ڈر ہے کہ ایسی مثالوں کی وجہ سے میں اور مشکل میں پڑ جاؤں گا۔

    تہذیب دراصل لیاقت کا نام نہیں ہے چاہے وہ کتنی بھی ہمہ جہتی کیو ں نہ ہو۔ یہ کامیابی کا نام بھی نہیں ہے کیونکہ کامیابی کی قیمت اکثر تہذیب کی قربانی دےکر چکانی پڑتی ہے۔ ہم کسی بھی تفریط یا کاٹ چھانٹ کے عمل سے تہذیب کو اور سب باتوں سے علیحدہ کرکے نہیں جان سکتے، نہ ہم ایسی خوبیاں جمع کرکے انہیں تہذیب کا نام دے سکتے ہیں جو ہمیں سب سے زیادہ لبھاتی ہیں۔ تہذیب تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اپنے ہونے ہی سے پہچانی جاتی ہے، اس کا ہونا یا نہ ہونا کسی دکھا وے یا کسی خاص روے یا مخصوص حالات زندگی پر منح صر نہیں ہے۔ یہ تو ہوتی ہی ہے یا پھر ہوتی ہی نہیں۔

    تو کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ تہذیب کوئی ایسی چیز ہے جو وراثت میں نہیں مل سکتی یا جسے کوشش کرکے حاصل نہیں کیا جا سکتا؟ ایسی بہت سی مثالیں مل جائیں گی جن سے اس بات کی تصدیق یا تردید میں جیسا جی چاہے نتیجہ نکالا جا سکتا ہے لیکن یہ کہنا تہذیب کا ابلاغ یا ترسیل نہیں کی جا سکتی یا اس کا اکتساب نہیں کیا جا سکتا، تعلیم کے امکانات ہی سے انکار کر دینے کے مترادف ہوگا، خواہ تعلیم سے کچھ بھی مراد لی جائے اور یہ کہنا مضحکہ خیز بات ہوگی کہ کوئی انسانی وصف ایسا نہیں ہے جس کا کسی نہ کسی طور پر کسی نہ کسی اعتبار سے اکتساب نہ کیا جا سکتا ہو یا جو وراثت میں نہ مل سکتا ہو۔ بغیر تربیت اور تعلیم کے تہذیب میں تسلسل قائم ہی نہیں رہ سکتا۔ لیکن یکساں تربیت اور ایک سی تعلیم کسی بھی ایک پیڑھی یا نسل کویکساں طور پر مہذب نہیں بنا سکتی۔ معلوم ہوتا ہے کہ تہذیب کے ہونے یا نہ ہونے میں وہی کیفیت ہوتی ہے جو اتفاق سے کسی بات کے ہو جانے میں یا نہ ہونے میں۔

    یہ اتفاقی بات یا حادثہ کیسے رونما ہوتا ہے اور کیا شکل اختیار کرتا ہے؟ میں سمجھتا ہوں کہ اس کا جواب دینے سے پہلے سماجیات اور علم النفس کی بہت سی کتابوں کو ہمیں ایک طرف رکھ دیناچاہے اور جوکچھ ان سے ہم نے سیکھا ہے اسے بھلادینا چاہئے۔ خدا کے بعد۔۔۔ یہ میں ان لوگوں کے خیال سے کہہ رہا ہوں جو خدا کو مانتے ہیں۔۔۔ آدمی ہی کی وہ ہستی ہے جسے کم سے کم سمجھا گیا ہے اور جسے کم سے کم سمجھا جا سکتا ہے۔ میرے ذہن میں اس وقت وہ کثیر عوام نہیں ہیں جوبڑے بڑے شہروں میں اژدہام کی صورت میں ایک جگہ رہتے سہتے ہیں اور جن کا مطالعہ اور تجزیہ اس طرح کیا جا سکتا ہے جیسے وہ محض اشیا ہوں۔ میرے ذہن میں اس وقت وہ لوگ ہیں جن میں قوت ارادی ہوتی ہے اور یہ قوت بھی کہ وہ اپنے آپ کو بالکل الگ تھلگ نہیں بلکہ زندگی کے اس کھیل میں شریک رہتے ہوئے بے ہمہ ہوکر زندگی پر غور کر سکیں، جو اپنا اور دوسروں کا جائزہ لے سکیں اور ایسے غوروفکر سے وہ اپنے طور پر کوئی نتیجہ بھی نکال سکیں۔

    دوسرے لفظوں میں میں ان لوگوں کی بات کر رہا ہوں جو اصلی ہوں، ان لوگوں کی بات نہیں کر رہا ہوں جو نقلچی ہوتے ہیں چاہے ان میں کسی مشینی تہذیب کے پروردہ وہ لوگ ہوں جواپنے آپ پر بس حیرت واستعجاب کی نظر ڈال لیتے ہیں یا وہ لوگ ہوں جو کسی ذات پات یا ایسے کسی اور سماجی نظام کے پروردہ ہوں جو اتنے طویل عرصے سے قائم ہو کہ اس کی وجہ سے تمام افراد کی اپنی اپنی انفرادیت ہی مٹ گئی ہو۔ تہذیب کے حادثے کے رونما ہونے کا امکان سب سے کم اس سماجی صورت حال میں ہوتا ہے جس میں استحکام ہو، جس میں تبدیلی کی کوئی امید (یاخوف) نہ ہو یا جہاں تبدیلی تو ہو مگر اس کا مقصد استحکام حاصل کرنا نہ ہو۔

    استحکام کا مطلب ہے ایسی صورت حال جس میں کچھ اخلاقی اور سماجی اقدار کو دوام حاصل ہو، جس میں کچھ خاص خاص باتوں کو حکمیہ مان کر ان کی پابندی کی جا رہی ہو۔ تہذیب کے سلسلے میں تبدیلی کے معنی یہ ہوں گے کہ فرد کو اس بات کی آزادی ہو کہ وہ خود فیصلہ کر سکے کہ کون سی قدر زیادہ اہم ہے اور کون سی کم اور ان قدروں کو اپنا کر وہ انفرادی طور پر ان کا اظہار کر سکے۔ تہذیب اس وقت تک نصیب نہیں ہو سکتی جب تک ایسی اقدار نہ ہوں جن کا فرد احترام کرتا ہو اور جنہیں وہ اپنی شخصیت اور اپنی روزمرہ کی زندگی میں اپناکر ان کا اظہار نہ کر سکے۔

    آدمی میں تہذیب اس وقت آتی ہے جب وراثت یا تعلیم کے ذریعہ وہ اپنے لیے اقدار کا انتخاب کر سکے، جن کا وہ اپنے ذوق کے مطابق حسن وخوبی سے اظہار کرتا ہو اور وہ اس حد تک اس کی شخصیت میں رچ بس جائیں کہ ان کا اظہار بےساختگی سے ہو سکے۔ تہذیب میں تبدیلی کے معنی ہیں ان لوگو ں کے اظہار نفس کا نیاپن جو موجود و مروج اقدار کو اپنانے کے ساتھ ساتھ یہ فیصلہ بھی کر سکیں کہ تبدیلی کی کہاں ضرورت ہے اور کہاں نہیں۔

    اگر ہم تہذیب کو آرائشی خاصے یا اکتسابی لیاقت سے خلط ملط نہ کر دیں تو یہ بات صاف ہو جائےگی کہ حقیقت میں تہذیب کی ایک ہی شکل ہوتی ہے اور وہ شکل متعین ہوتی ہے عقیدے سے۔ لیکن ظاہر ہے کہ ہمیں اصلی سچے اور پکے عقیدے اور کٹرپن، رسم ورواج کی پابندی کی عادت اور ان تعصبات میں فرق کرنا ہوگا جو بقائے نفس کی خواہش سے پیدا ہوتے ہیں۔ سچے عقیدے میں تہذیب کی ساری باتیں ہوتی ہیں اور تہذیب عقیدے کی سچائی اور کھرے پن کی زندہ مثال ہوتی ہے اور یہی بات دوسروں کی نظر میں سب سے پہلے نمایاں ہوتی ہے۔

    مہذب آدمی خوف سے آزاد ہو تا ہے۔ لہذا وہ ان تمام نفسیاتی حجابات یا موانعات سے آزاد ہوتا ہے جن کی وجہ سے ہم دوسروں کی فلاح اور خواہشوں اور دلچسپیوں یا مفادات کا احترام نہیں کر پاتے، اس میں سوجھ بوجھ ہوتی ہے، بے لاگ انداز نظر ہوتا ہے اور وہ امید کا دامن کبھی نہیں چھوڑتا۔ اس کے لیے زندگی کا مزہ اس انداز نظر میں ہے جس سے وہ دنیا کو دیکھتا ہے۔

    کیا وراثت اور تعلیم سے تہذیب کے ایسے خوش آئند اتفاقات اکثرپیدا ہوتے رہتے ہیں کہ ہم یہ کہہ سکیں کہ ان سے تہذیب کا امکان لازمی طور پر پیدا ہو جاتا ہے؟ سنجیدہ لوگوں کا کہنا ہے کہ تہذیب اور تہذیبی اقدار موروثی ہو سکتی ہیں اور ان کے تحفظ اور بقا کی ذمہ داری طبقہ اشرافیہ یا عمائد وخواص پر عائد ہوتی ہے۔ اوسوالڈ اسپینگلر تہذیبوں کے عروج وزوال کے اپنے مشہور تخلیقی جائزے میں اس نتیجہ پر پہنچا تھا کہ جہاں تک جرمنی کا تعلق ہے وہاں تہذیب کی بقا صرف ایک ہی بات کی وجہ سے تھی، وہ تھی سماج کی ایسی درجہ بندی جس میں درجوں کے اونچے ہونے کے ساتھ ساتھ ذمہ داریاں بھی بڑھ جاتی تھیں۔ ہم میں سے بہت سے لوگ غالباً غیرشعوری طور پر یہ سمجھ لیتے ہیں کہ تہذیب کا تعلق تو بس طبقہ اشرافیہ میں جنم لینے یا اس میں تربیت پانے سے ہے۔

    یہ ٹھیک ہے کہ اچھے خاندان اور تمول کے ہونے سے ایسی خوداعتمادی کے پیدا ہونے میں کافی مدد مل سکتی ہے جو ہمیں تمام تہذیب یافتہ افرادمیں نظر آتی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ رائے قائم کرنے کرانے کے معاملے میں رہنمائی کرنے والوں کی حیثیت سے طبقہ اشرافیہ کے افراد معیاروں یا قدروں کو قائم رکھنے میں اتنے نمایاں نہیں ہوتے جتنے ان کی غلط سلط تعبیر کی پہل کرنے میں۔ تعلیم بھی بذات خود تقریباً بے اثرہی رہتی ہے۔ اس سے زیادہ سے زیادہ چال چلن کے قائم شدہ مروجہ معیاروں کے استحکام میں مدد تو مل سکتی ہے مگر یہ ان معیاروں کو جنم نہیں دے سکتی، بلکہ یہ تو ان معیاروں کو بلند بھی نہیں کر سکتی، کیونکہ لوگوں کو جو کچھ بتایا جاتا ہے یا جو کچھ وہ پڑھتے ہیں، اگر ان کا ان پر اثر ہو بھی جائے تو بھی ان پر اس سے زیادہ گہرا اثر اخلاقی اور سماجی اقدار کے بارے میں سماج کے رویے اور ان افراد کے رنگ ڈھنگ یا اطوار کا ہوتا ہے جنہیں ’کامیاب‘ سمجھا جاتا ہے۔ سماج تعلیم کا انتظام اپنے مقاصد کے لیے کرتا ہے۔ تعلیم ان نقوش کو ابھار تو سکتی ہے جو پہلے ہی سے موجود ہوں مگر یہ از خود ایسے نقوش کی طرح نہیں ڈال سکتی۔

    ہم تہذیب پر کسی اعتبار سے بھی غور کریں، تہذیب کے پیدا ہونے میں بہرحال اتفاقی حادثے ہی کی سی کیفیت نظر آتی ہے۔ یہ ویسی ہی کیفیت ہوتی ہے جسے عیسائی ’گریس‘ (grace) اور مسلمان ’توفیق‘ کہتے ہیں لیکن گریس یا توفیق کے درجے ہوتے ہیں اور ہم میں سے اکثر کسی نہ کسی طرح یا کسی نہ کسی وقت یہ مل جاتی ہے، جس سے ہماری زندگی میں تھوڑا بہت فرق ضرور پڑ سکتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ہم میں کوئی بھی ایسا نہ ہو جسے مہذب آدمی کا مکمل نمونہ کہا جا سکے لیکن اتنا ضرور ہے کہ ہم میں اکثر کسی نہ کسی اعتبار سے یا بعض بعض موقعوں پر ضرور مہذب ہو جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم اس پر بھی بحث کر لیتے ہیں کہ آخر تہذیب ہے کیا اور پھر شاید سمجھ بھی سکتے ہیں کہ اس کا صحیح مفہوم کیا ہے۔

    مأخذ:

    ہندوستانی سماج پر اسلامی اثر اور دوسرے مضامین (Pg. 49)

    • مصنف: محمد مجیب
      • ناشر: دہلی کتاب گھر، دہلی
      • سن اشاعت: 2011

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے