Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

تبتی ادب

فضل حق قریشی

تبتی ادب

فضل حق قریشی

MORE BYفضل حق قریشی

    سفید برف سے ڈھکے ہوئے پہاڑوں کی ملکہ یعنی ایورسٹ کی چوٹی کے دامن میں بسنے والا تبت سطح سمندر سے اوسطاً تیرہ ہزار فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔ اس کے بعض آباد حصے اس قدر اونچے ہیں کہ وہاں سورج کی کرنیں بھی ایک بار سخت سردی سے کپکپا اٹھتی ہیں۔

    دنیا کی اکثر قوموں کی طرح تبت کے لوگ بھی اپنے آپ کو دیوتاؤں کی اولاد سمجھتے ہیں۔ ان کا بیان ہے کہ ’’مغربی جنت‘‘ کے بڑے دیوتا ’’اوپاک می‘‘ نے بڑی تپسیا کے بعد اپنے جسم میں یہ کمال پیدا کیا کہ وہ جب اور جتنے دیوتا چاہتا، تخلیق کردیتا۔ اس کے روحانی بیٹوں میں سب سے زیادہ بزرگی اور فضیلت ’’چن ریسی‘‘ کو حاصل ہوئی جسے بندر کے روپ میں آنے کے لیے کئی بار اپنی جون بدلنی پڑی۔ اس نے ہمالیہ پہاڑوں کو طے کرنے کے بعد برفانی چٹانوں کی ایک دیونی سے شادی کرلی۔ شادی کے بعد ان کے ہاں ایسے بہت سے بچے پیدا ہوئے جو لوٹ پیٹ کر انسان بن گئے اور انہوں نے تبت کی سرزمین کوآباد کردیا۔

    اہل تبت شروع میں ’’بون‘‘ مذہب کے پیروتھے جس کی رو سے صرف شیطان کی پوجا کی جاتی تھی۔ لیکن ساتویں صدی عیسوی میں ایک انقلاب رونما ہوا۔ اس وقت ملک میں ’’سرونگ تسان گیمپو‘‘ نامی بادشاہ کی حکومت قائم تھی۔ اس نے تین تبتی بیگمات کے زندہ اور موجود ہونے کے باوجود دومزید شہزادیوں سے شادی کرلی۔ ان میں سے ایک چین کے شہنشاہ ’’ھائی تسنگ‘‘ کی بیٹی ’’وین چنگ‘‘ تھی اور دوسری نیپال کے بادشاہ کی بیٹی ’’تری تسن‘‘۔ اس زمانے میں چین اور نیپال کے لوگ بدھ مت اختیار کرچکے تھے۔ لہٰذا ان دونوں غیرملکی شہزادیوں نے مل کر سرونگ تسان گیمپو کومجبور کیا کہ وہ بھی بدھ مت اختیار کرلے۔ بادشاہ نے ان کی بات مان لی اور اس طرح سارے تبت میں ایک نئے مذہب کا رواج ہوگیا۔ بدھ کے پجاریوں کو لاما کہا جانے لگا کیونکہ لاما ایک ایسی اعلیٰ ہستی کو کہتے ہیں جس کی قدر دیوتا بھی کرتے ہوں۔ اسی بادشاہ نے لہاسا میں گوتم بدھ کی پوجا کے لیے ایک بڑا بھاری مندر بنوایا جس کا نام ’’پوٹالا‘‘ رکھا۔ یہ نئے سرے سے کئی بار بننے کے بعدآج تک اپنی جگہ قائم ہے۔ اس واقعہ کے بعد بون مذہب کے نام لیوا صرف صوبجات ’’یو‘‘ اور ’’تسانگ‘‘ میں باقی رہ گئے اور اب تقریباً ناپید ہیں۔

    اس بادشاہ کے مرنے کے بعد اس کا بیٹا ’’تری سرون دی تسان‘‘ گدی نشین ہوا تو اس نے باپ کے نقوش قدم پر چلتے ہوئے بدھ مت کو زیادہ فروغ دینا چاہا۔ اور اس مقصد کے لیے اس نے ہندوستان سے ’’پدم سمبھو‘‘ نامی ایک بدھی پجاری کو بلایا جس نے وہاں پہنچ کر ۸۷۰ء میں بمقام ’’سام لیے ‘‘ ایک درسگاہ قائم کی اور اس طرح تبت کی تاریخ میں پہلی بار ملکی زبان کے لکھے اور پڑھے جانے کا سلسلہ شروع ہوا۔ چونکہ اس وقت تک وہاں کوئی طرزِ تحریر رائج نہیں تھا، اس لیے دیوناگری رسم الخط ہی اختیار کرنا پڑا۔

    عہدقدیم سے تبت پر اہل چین کا بھی اثر قائم ہے، لہٰذا سنسکرت کے ساتھ ساتھ چینی زبان کے الفاظ بھی ان کی بول چال میں اپنی جھلک دکھانے لگے۔ تری سرون دی تسان نے علم و ہنر کی سرپرستی کرتے ہوئے بڑی کاوش سے اہل ملک کی آسانی کے لیے صرف و نحو کے قاعدے مرتب کرائے۔ نیز چینی، سنسکرت اور پالی زبانوں سے فلکیات، طب او رمذہب کی بے شمار کتابوں کے ترجمے بھی تبتی میں کراڈالے۔

    تبت میں ادبی کارگزاریوں کے تین دور قابل ذکر ہیں۔

    پہلا دور اس وقت شروع ہوا جب سنسکرت کے ادب عالیہ کو اخذ و تلخیص یا ترجمے کے ذریعہ تبتی میں منتقل کیا جانے لگا۔ اس عہد کے بعض ایسے ترجمے بھی دستیاب ہوئے ہیں جن کے اصل مسودے اب سنسکرت زبان میں بھی ناپید ہوچکے ہیں۔ اس وقت مذہبی اصول و عقائد کے علاوہ گوتم بدھ کی وہ کہانیاں خاص طور پر جاذب نظر رہیں۔ جو پنچ تنتر اور پھر ہت اُپدیش کے نام سے یکجا اورمشہور تھیں۔ اس دور کو ایک ہچکولا اس وقت محسوس ہوا جب ایک غاصب حکمراں ’’لانگ درما‘‘ نے ناکام کوشش کی کہ کسی طرح بدھ مت کو مٹاکر بون مذہب دوبارہ رائج کردے۔ اس نے نہ صرف فاضل مترجمین کو تہ تیغ کیا بلکہ بہت سے نوشتے جلوادئے۔ تاہم ۱۰۲۵ء میں دگنے جوش و خروش کے ساتھ علمی اور ادبی کاوشوں نے زور پکڑا۔ اس عہد کے معقول مصنفین میں ’’ملا ریپا‘‘ ’’آتشا‘‘ اور ’’بردم تون‘‘ اص طو رپر قابل ذکر ہیں۔ ان لوگوں نے بالکل نئے انداز سے بدھی روایات کا ترجمہ کرنے کے علاوہ اپنے ہی ملک کی صنمیاتی کہانیوں، حکایتوں اور گیتوں کو دلپذیر انداز میں قلم بند کیا۔ حکایتوں کا اسلوب زیادہ تر وہی ہے جو پنچ تنتر اور ہت اپدیش کی کہانیوں میں پایا جاتا ہے اور جسے سنسکرت اثرات کا نتیجہ کہا جاسکتا ہے۔

    دوسرا دور پندرہویں صدی میں اس وقت شروع ہوا جب چین کے منگِ خاندان کے شہنشاہوں نے تبت کی سیاست میں غیر معمولی اثر و رسوخ حاصل کیا۔ انہوں نے تبت کے حاملانِ ادب کی سرپرستی کرتے ہوئے ان کو ترغیب دی کہ وہ چینی خیالات و طرز بیان اختیار کریں۔ چینی ادب میں اس وقت کہانیوں کا حصہ محض برائے نام تھا لیکن اعلیٰ منظومات کی کمی نہیں تھی۔ لہٰذا اس دور کے شاعر زیادہ مشہور ہوئے۔ انہوں نے کچھ تو ان ہی جواہر ریزوں کو جو پہلے دور کے نثر نگار لکھ گئے تھے، نئے انداز میں منظوم کرکے زیادہ موثر اور دلپذیر بنادیا اور کچھ چینی اشعار کے ترجمے کیے۔ اس دور کے ادیبوں کی سرپرستی زیادہ تر ’’تسونگ کاپا‘‘ نے کی جو اپنے عہد کا بہت بڑا مذہبی پیشوا تھا۔

    تھوڑے ہی عرصہ بعد تیسرا دور شروع ہوا جب دلائی لاما نے مذہبی وقار کے علاوہ دنیاوی اقتدار بھی حاصل کرلیا۔ کہا جاتا ہے کہ تسونگ کاپا کے مرجانے کے بعد جب اس کے پوتے ’’جے گیدن گیاتشو‘‘ نے جنم لیا تو اسے دیکھ کر لوگوں نے محسوس کیا کہ وہ ہرلحاظ سے تسونگ کاپا ہے۔ اس وقت پہلی بار سب کے دل میں یہ بات بیٹھ گئی کہ لاما بدھ کے پجاری ہونے کی وجہ سے کبھی مرتے نہیں بلکہ کسی نہ کسی بچے کی جون میں جنم لیتے رہتے ہیں اور اسی اعتبار سے ملک کا سب سے بڑا لاما خود مہاتما بدھ کا اوتار سمجھا جانے لگا۔ جے گیدن گیا تشو جب بڑا ہوا تو ایک بار اسے منگول بادشاہ التھان خاں کے دربار میں جانے کاموقع ملا، جو چنگیز خاں کا پوتا اور منگول قوم کا واحد حکمراں تھا۔ گیاتشو کا استقبال بہت شاندار طریقے پر ہوا اور واپسی سے قبل التھان خاں نے خوش ہوکر اسے ’’دلائی‘‘ کا خطاب عطا کیا۔ دلائی منگولی زبان میں ایک ایسے سمندر کو کہتے ہیں جو سچائی سے بھرا ہوا ہو۔ یہ محض اتفاق تھا کہ تبتی زبان میں بھی گیاتشو کا مطلب تقریباً یہی ہے۔

    منگولی قوم کے ساتھ ربط ضبط بڑھنے کے باعث جب وہاں کے حالات کا مطالعہ کیا گیا تو تبتی ادب میں بہادری اور قتل و غارت کی کہانیاں جھلک دکھانے لگیں۔ اسی دور میں ایسے قصے بھی لکھے گئے جن سے ’’آواگون‘‘ پر عقیدہ رکھنے کی اہمیت ظاہر ہوتی ہے۔ نیز دلائی لاما کے ایما پر تبت کی سب سے زیادہ مشہور کتاب ’’کانگ پور‘‘ لکھی گئی جس کو بدھ مت کے شاستروں کا ترجمہ کہا جاسکتا ہے۔ اس کتاب کی وہ کہانیاں ادبی اعتبار سے لائق مطالعہ ہیں جو مذہبی اصول و قواعد کو عام فہم انداز میں سمجھانے کے لیے شامل کی گئیں۔ اکثر کہانیاں رشیوں، منیوں یا پجاریوں سے منسوب یا ان کی زندگی کا آئینہ بناکر پیش کی گئی ہیں۔ یہ کتاب ایک سو آٹھ جلدوں میں ہے۔ کچھ عرصے بعد اس کتاب کی شرح ’’تنگ یور‘‘ لکھی گئی جو دوسو پچیس جلدوں میں ہے۔

    تبتی کتابیں ظاہری اعتبار سے بھی د یکھنے اور دکھانے کے لائق ہیں۔ شاید ان میں سے ایک بھی ایسی نہیں ہے جس کا وزن پندرہ سیر سے کم ہو۔ عموماً یہ کتابیں دوفٹ لمبی، چھ انچ چوڑی اور ایک فٹ موٹی ہوتی ہیں۔ جلد لکڑی کے تختوں سے بناتے ہیں اور چونکہ جزو بندی کا طریقہ رائج نہیں ہے، اس لیے صفحات بالکل منتشر ہوتے ہیں۔ ٹائپ کا تو ذکر ہی کیا، اہل تبت لیتھو کے کام سے بھی ناواقف ہیں۔ اس لیے سخت لکڑی کے موٹے تختوں یا دھات کی چادروں پر الٹے حروف کندہ کرکے مستقل طور پر بلاک محفوظ کرلیے جاتے ہیں تاکہ جب ضرورت ہو سیاہی لگالگاکر ساری کتاب چھاپ لی جائے۔

    تنگ یور کے صفحات کی تعداد پچیس ہزار ہے۔ اس سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ کتابوں کے بلاک جمع رکھنے کے لیے چھاپہ خانے کو کس قدر اہتمام کرنا پڑتا ہوگا۔ البتہ قلمی مسودوں کا بھی رواج ہے۔ خانقاہوں میں رہنے والے لاماؤں کے علاوہ عام آبادی کے معدودے چند اشخاص لکھنا پڑھنا جانتے ہیں۔ تاہم سینہ بہ سینہ منتقل ہوتے رہنے کے باعث انہیں سینکڑوں کہانیاں وغیرہ یاد ہوتی ہیں۔

    تبت میں ڈرامے کو بھی خاص اہمیت حاصل ہے۔ دونوں قسم کے ناٹک موجود ہیں۔ محض پڑھنے اور کھیلے جانے کے لیے۔ اداکار جن کو وہ اپنی زبان میں ’’آچھے لھامو‘‘ کہتے ہیں، پورے سازوسامان کے ساتھ شہر بہ شہر چکر لگاتے رہتے ہیں۔ عموماً ڈراموں کا موضوع مذہبی یا تاریخی ہوتا ہے۔ دلچسپی بڑھانے کے لیے مزاحیہ حصے بھی شامل کیے جاتے ہیں جن کو اداکار عجیب و غریب قسم کے کاغذی چہرے منہ پر لگاکر پیش کرتے ہیں۔ ڈرامے میں جن، بھوت، پریاں، چڑیلیں، عارضی طور پر انسانی جامہ پہن کر نظر آنے والی روحیں حتی کہ درندے اور پرندے تک اپنی اپنی کارگزاریاں دکھاتے ہیں۔ ڈرامہ نگار کی نظر تمام جزئیات پر حاوی رہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ڈرامے غیرمعمولی طور پر نہایت طویل ہوتے ہیں۔

    عموماً چھ گھنٹے روزانہ کی مسلسل نمائش کے بعد بعض ڈرامے تین تین چار چار دن میں ختم ہوتے ہیں۔ ماحول تبت لیکن کبھی کبھی چین، منگولیا، نیپال اور ہندوستان کا بھی پیش کیا جاتا ہے۔ خالص تبتی مذاق کے ڈراموں میں ’’درد و ازانگمو‘‘ (پری) ’’نانگ سا‘‘ (نورِ درخشاں) ’’ترائم کندن‘‘ (مخیر شہزادہ) ’’خیوپدما اوبار‘‘ (چمکتے کنول کانوجوان) ’’نورزانگ‘‘ (بادشاہ) اور ’’گیازابوزا‘‘ (چین اور نیپال کی شہزادیاں) خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔

    تبت میں موسم کی تکالیف شدید اور ذرائع آمد و رفت محدود ہونے کے باعث آپس کا میل جول بہت کم ہے۔ اس لیے کیونکر ممکن ہوسکتا ہے کہ وہ غیرملکوں کے ساتھ کسی پیمانے پر ربط و ضبط بڑھا کر ادبیاتِ عالم سے استفادہ کرتے ہوئے اپنی معیارِ زندگی کو بلند کریں۔ اس لیے وہ تہذیب و تمدن کی جس سطح پر ایک ہزار سال پہلے تھے، آج بھی وہیں قناعت کیے پڑے ہیں۔

    مأخذ :

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے