Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

امراؤ جان ادا

محمد مجیب

امراؤ جان ادا

محمد مجیب

MORE BYمحمد مجیب

    پچیس برس پہلے کی بات ہے کہ میں نے ایک ادبی رسالے میں مرزا رسوا کے ناول ’’امراؤ جان ادا‘‘ پرایک تبصرہ پڑھا۔ اسے پڑھ کر مجھے حیرت ہوئی۔ یہ ناول ایک طوائف کی داستان حیات ہے۔ مجھے جس پر حیر ت ہوئی وہ تھی تبصرہ نگار کی بے پناہ تعریف۔ (اورتبصرہ نگار بھی) ایک ایسا ادیب جو اپنے کٹرپن کی وجہ سے بدنام تھا۔ میں نے فوراً یہ کتاب خرید کر پڑھی۔ تب میں سمجھا کہ اس ادیب کا کٹرپن کیوں رخصت ہو گیا اور احتیاط کا دامن اس کے ہاتھ سے کیوں چھوٹ گیا۔ امراؤ جان ادا کی شخصیت ہی ایسی ہے جس کی ہم نشینی اور اس سے تبادلہ خیال کرنے سے انداز نظر بالکل بدل جاتا ہے۔

    اس کی زندگی کسی اعتبار سے بھی قابل ذکر نہ تھی۔ انیسویں صدی کے وسط میں ہندوستانی ریاستوں میں ہنگاموں اور زوال پذیری کی مخصوص فضا میں کسی لڑکی کا اغوا ہو جانا اور صورت شکل کے اعتبار سے بازار میں جو کچھ بھی قیمت لگے اس پر بیچ دیا جانا کوئی انوکھی بات نہیں تھی۔ ایسی لڑکیوں کووہ لوگ خرید لیتے تھے جن کو گھریلو خادماؤں کی ضرورت ہوتی تھی یا وہ ڈیرہ دار طوائفیں خریدتی تھیں جو قحبہ خانے چلاتی تھیں یا جن کے ساتھ ناچنے گانے والیاں رہتی تھیں۔

    امراؤ جان ادا کو ایسی ڈیرہ دار طوائف نے خریدا جو اپنا کاروبار چلانا خوب جانتی تھی۔ اس نے امراؤ جان کو لکھنا پڑھنا سکھایا اور گانے بجانے کی تعلیم دلائی۔ امراؤ جان نے دوسری لڑکیوں کے مقابلے میں اپنے مواقع سے زیادہ فائدہ اٹھایا۔ اس نے اردو، فارسی اور عربی سیکھ لی۔ (اس زمانے میں) شعرگوئی پڑھے لکھے آدمی کا لازمی وصف سمجھا جاتا تھا۔ امراؤ جان ادا نے اپنی خداداد صلاحیتوں کی کافی کامیابی سے نشوونما کی اورجب وہ اپنے ماحول کی وجہ سے اپنی نائکہ کا پیشہ اختیار کرنے پر مجبور ہوئی تو اس نے ایک گانے والی کی حیثیت سے اپنی خوبیوں اور اس سے بھی زیادہ اپنی نکتہ سنجی اور انداز گفتگو کی وجہ سے امتیازی شان حاصل کرلی۔

    اس کی زندگی میں شاید اتنے حادثات نہیں ہوئے تھے جتنے اور لڑکیوں کی زندگی میں، جن کی پرورش اس کے ساتھ ہوئی تھی۔ وہ اپنی پسند کے لوگوں سے ملتی تھی اور ان سے بھی جو اسے پسند تھے۔ ان میں سے کچھ اس کے خواب بیدار کردیتے تھے۔ لیکن اس کی زندگی کا یہ درد دیکھتے ہی دیکھتے گزر گیا۔ وہ ایک ایسے شخص کے ساتھ بھاگ نکلی جو اصل میں ڈاکو تھا۔ ایک ایسے شخض نے اس کو دھوکہ دیا جس کو وفادار رہنا چاہئے تھا اور ایک ایسے شخص نے اس کو بچا لیا اور سہارا دیا جو خود ایک بدمعاش تھا۔ کہیں کہیں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کہانی میں جان ڈالنے کے لیے کوئی خوشگوار واقعہ ایک دم گڑھ لیا گیا ہے۔ لیکن (حقیقت یہ ہے کہ) امراؤ جان ایک ایسی دنیا میں رہتی تھی جو سماجی اور جغرافیائی اعتبار سے واقعی بہت محدود تھی۔ یہ دنیا تھی طوائفوں اور ان کے ملنے جلنے و الوں اور ان کے چاہنے والوں کی، امیروں اور ان کے طفیلیوں کی، جانبازوں، چوروں اور ڈاکوؤں کی اور شاعری اور موسیقی کے پرستاروں کی۔

    یہ سب کے سب اس چھوٹی سی ریاست اودھ میں رہتے تھے جس کے بارے میں یہ معلوم تھا کہ ۱۸۵۶ء میں اس کی خودمختاری ختم ہو چکی ہے۔ کہانی میں کوئی بات دو رازکار نہیں ہے۔ نہ امراؤ جان کی وہ مصلحت اندیشی جس سے کام لے کر اس نے کچھ پس انداز کیا یا خرچ کر دیا، نہ اس کی ہوشیاری جس کی وجہ سے اس نے اس وقت سے پہلے ہی گوشہ نشینی اختیار کر لی جب لوگوں کی بے اعتنائی سے یہ ظاہر ہو جائے کہ اب گوشہ نشین ہونے کا وقت آ گیا ہے۔

    ناول میں وہ ہمارے سامنے اس وقت آتی ہے جب وہ گوشہ نشین ہو چکی ہے۔ وہ اپنے ایما پر ان نومشق شاعروں کی محفل میں شرکت کرتی ہے جو کبھی کبھی اس کے پاس والے مکان میں جمع ہوتے ہیں۔ پہلے اس کی شاعری اور اس کے بعد اس کی کہانی اسی کی زبانی، دلکش مگر تصنع سے پاک، بےلاگ پیرایہ بیان میں ہمارے سامنے پیش کی جاتی ہے۔ اپنی کہانی بیان کرتے وقت امراؤ جان مختلف باتوں پر اپنے خیالات کا اظہار اور اپنے آپ پر اور دوسروں پر تنقید بھی کرتی جاتی ہے۔

    اس کی تنقیدیں ہمیشہ معقول اور جچی تلی ہوتی ہیں۔ لیکن زندگی کے بارے میں اس کے خیالات جدت پسند یا گہرے نہیں ہوتے۔ ہر ایک نظام زندگی رفتہ رفتہ اپنے آپ ایک مخصوص فلسفے کو جنم دیتا ہے اورعقل وحکمت کا پہلا ثمر ان کو ملتا ہے جو سب سے زیادہ یقینی طور پر سچائی کی حمایت کرتے ہیں اور اس فلسفے کے پیچھے جو اصول کارفرما ہوتے ہیں، ان کے برحق ہونے کووضاحت سے بیان کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ اسی (حکمت اور) عقل مندی کے علاوہ امراؤ جان کو اور کوئی آرزو نہیں۔ وہ اپنے غم کو بڑھا چڑھاکر بیان نہیں کرتی اورنہ وہ علم و آگہی، اخلاق وتمیز یا پاکبازی کا دعوی کرتی ہے۔ وہ تو ہر وقت بالکل ویسی ہی رہتی ہے جیسی کہ وہ اصل میں ہے۔ (وہ اپنی شخصیت پر پردے نہیں ڈالتی) اور ہم اس کے اس طرح بےنقاب رہنے سے ایسے مسحور رہتے ہیں کہ ہمارے دل میں کسی قسم کے شبہات یا اختلافات پیدا نہیں ہوتے۔

    ہم تو اس وقت چونکتے ہیں جب آخری واقعات اور آخری اشعار برمحل پیش کر دیے جاتے ہیں، جب ہمارے سامنے پکی عمر کی عورت رہ جاتی ہے، جس نے اپنے بارے میں سب کچھ بتا دیا ہے اور اب ہم کو جرأت آزما تبسم سے دیکھ رہی ہے۔ کیا ہم اس کی بات سمجھتے ہیں؟ کیا اس نے یہ خواہش کی ہے کہ اسے سمجھا جائے؟ وہ ہمدردی کی مستحق ہے یا معافی کی؟ یا وہ صرف یہ چاہتی ہے کہ اس کے بہت سے خداداد اوصاف اور ہر قسم کی صورت حال سے عہدہ بر آ ہونے اور بغیر کسی پچھتاوے اور رنج وملال کی زندگی گزارنے کی صلاحیت کا اعتراف اور قدر کی جائے؟ اس نے کتنے خلوص اور صاف گوئی سے کام لیا ہے۔ کتنی ہی مرتبہ اس نے ہمیں موقع دیا ہے کہ ہم اسے برا بھلا کہیں کیوں کہ وہ ہے ہی ایسی۔ اس کی شدید خواہش ہے کہ ہم اس پردے کو نہ اٹھائیں جو اس نے نمایاں طور پراپنی زندگی کی ساری غلاظت پر ڈال رکھا ہے۔ اس کی یہ خواہش تصنع اور بناوٹ سے اس قدرپاک ہے کہ یہ زیادتی بلکہ بدتہذیبی (اور اوچھاپن) ہوگا اگر ہم اس پر کسی قسم کا اخلاقی فیصلہ صادر کرنے کی کوشش کریں۔ لیکن ایسی صورت میں ہمیں عظمت ووقار، طبعی پاک نفسی اور ماحول سے بے تعلقی کے اس گہرے تاثر کو سمجھنا ہوگا جووہ ہمارے دل پر قائم کرتی ہے، ایسی بے تعلقی جس نے نہ صرف زندگی کے نشیب وفراز سے نکلنے میں اس کی مدد کی ہے بلکہ جس میں بھرپور روحانی خوبی بھی شامل ہے۔

    یہ بالکل واضح ہے کہ امراؤ جان کوئی اینگلوسیکسن ہیروئن نہیں ہے جس کو کسی جانباز بانکے سورما کا انتطار ہو اور جو تکمیل آرزو کے لیے عشق اور عاشق کے سہارے کی محتاج ہو۔ وہ اس منزل سے کہیں آگے ہے۔ کسی بھی قسم کی اطاعت قبول کر لینا اب اس کے لیے ممکن نہیں ہے۔ وہ اچھی طرح جانتی ہے کہ دو آدمی روحانی کایا پلٹ یا تزکیہ نفس کے کسی طریقے سے ایک نہیں بن سکتے اور اگر ایسا ممکن بھی ہوتا تو بھی وہ اسے قبول نہ کرتی۔ وہ تو صرف ایک آزاد اور خودمختار ہستی کی حیثیت ہی سے زندہ رہ سکتی ہے لیکن اس میں بہت سے خطرے ہوتے ہیں —ذاتی تحفظ، اپنی سماجی حیثیت برقرار رکھنا، بڑھتی ہوئی عمر کا پریشان کرنے والا خیال اور ناآسودہ خواہشوں کی خلش کی وجہ سے ملامت کر کر کے عمل پر اکسانے والا ضمیر۔ ان سب کا مقابلہ کیسے ہوگا؟ کیا ہوگا اس زندگی کے خلا کا جو تن تنہا اور محض اپنے لیے ہی بسر کی جائے؟

    یہ عام اندیشے ہیں۔ بجائے خود شاید ان میں اصلیت نہ ہو لیکن یہ ایک سے دوسرے تک مسلسل پہنچتے رہتے ہیں اور ایسی بیماری کی شکل اختیار کر لیتے ہیں جس سے کوئی نہیں بچ سکتا؟ صرف بہت سی اعلیٰ انسانی صفات کی قربانی کے ذریعہ ہی ان سے بچا جا سکتا ہے۔ امراؤ جان اس کے لیے اچھی طرح تیار معلوم ہوتی ہے۔ وہ ایسا کر سکتی ہے کیونکہ وہ خاصی محفوظ ہے، ایک تو اپنی قوت کی وجہ سے اور دوسرے اپنے کلچر (یا تہذیب) کی وجہ سے۔

    اس کی قوت کا راز کیا ہے؟ میرے خیال میں اس کی وجہ یہ ہے کہ جو کچھ یقینی طور پر ہونے والا ہو، اسے عقل کا تقاضا سمجھ کر تسلیم کر لیا جائے۔ یہ وہی بات نہیں ہے جسے (عقیدہ قضا وقدر یا) تقدیر پرستی کہتے ہیں اور جس کا مشرق کے لوگوں اور بالخصوص مسلمانوں پر اکثر و بیشتر اور بےسوچے سمجھے الزام لگا دیا جاتا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ ہم میں بہت سے ایسے لوگ ہیں جو تقدیر کا ذکر کرتے رہتے ہیں لیکن ایک سرسری مطالعے ہی سے یہ ظاہر ہو جاتا ہے کہ یہ ذکروفکر محض ایک آڑ ہے جہالت، کاہلی یا صحیح کام نہ کرنے سے قطعی انکار کی۔ جو یقینی طور پر ہونے والا ہے اسے امراؤ جان زندگی کے محدود مطالعہ کی بنیاد پر ہنسی خوشی اور خوب سوچ سمجھ کر تسلیم کر لیتی ہے اور ان جان لیوا دلدلوں میں، جن میں وہ پھنسی ہوئی ہے، لوگ اس کا بڑا سہارا بن جاتے ہیں۔

    اسے (محبت و) رومان سے کوئی تعلق نہیں۔ اسے انسانی جذبے کی ناقابل اعتبار فراو انی سے بھی تعلق نہیں اور نہ گمنام عوامل سے جو انسانی طور طریق متعین کرتے ہیں۔ محبت اور شادی کی قربان گاہ پر اپنے ا ٓپ کو قربان کر دینے کی بجائے وہ بغیر کسی قصور ہی کے حالات کا شکار ہونے کو ترجیح دیتی ہے۔ وہ خوشی سے جرم کا اقبال کر لینا اور سحر زدہ عدالت سے اپنی معصومیت (اور بے گناہی) کا فیصلہ سن لینا بہتر سمجھتی ہے، بجائے اس کے کہ جوش میں آکر اپنے آپ کو لعنت ملامت کرنے لگے اور ایسی ناانصافی کے خلاف جو بہت کچھ اپنی ہی عائد کردہ ہے، ان لوگوں کے جہاد کی رہنمائی کرنے لگے جن کے بارے میں وہ جانتی ہے کہ خود ناانصاف ہیں۔

    حقیقت یہ ہے کہ وہ اتنی مہذب ہے کہ اخلاقیات کے بارے میں جو کچھ عام طور پر کہا جاتا ہے وہ اسے قابل اعتنا نہیں سمجھتی۔ جن چیزوں کی اس کی نظر میں اہمیت ہے وہ ہیں ہم نشینی اور تبادلہ خیال۔ کئی کئی دن اور رات وہ بڑے شوق سے ایسے علمی مباحثے کے لیے خیالات پکاتی رہےگی جو بہت ممکن ہے کہ پانچ منٹ یا اس سے بھی کم وقت میں ختم ہو جائے۔ جس چیز کی اس کو لوگوں سے طلب ہے وہ قدردانی یا محبت نہیں ہے۔ وہ ان دونوں کو شبہ کی نظر سے دیکھتی ہے اور انہیں اتنا قابل قدر نہیں سمجھتی جتنا کہ عام طور پر انہیں سمجھا جاتا ہے۔ وہ انہیں رائج الوقت سکے کی طرح تسلیم نہیں کر لیتی جب تک کہ اس پر یہ ثابت نہ ہو جائے کہ ان کے پیچھے واقعی ذہانت، نکتہ رسی اور اس کی اپنی جیسی مہذب قوت اظہار بھی موجود ہے۔

    وہ کسی کو اپنے برابر کا نہیں پاتی۔ نہ اسے اس کی تلاش ہے لیکن وہ ان لوگوں کی آزمائش کے لیے تیار رہتی ہے جنہیں آزمائش کی خواہش ہوتی ہے۔ آخرکار وہ ہم کو یقین دلا دیتی ہے کہ و ہ جیت گئی اور کلچر کی بہت سی تعریفوں میں سے کم از کم ایک تعریف ضرور صحیح ہے اور وہ ہے خود اس کی اپنی کی ہوئی تعریف یعنی کلچر کا تعلق دماغ سے ہے جو آزادانہ (بغیر کسی تعصب کے) ساری دنیا کا جائزہ لیتا ہے۔ دنیا جس میں پاک دامنی ترغیب گناہ کی قید میں ہے اور کفارہ گناہ کے اشارہ چشم وابرو کا منتظر!

    مأخذ:

    ہندوستانی سماج پر اسلامی اثر اور دوسرے مضامین (Pg. 112)

    • مصنف: محمد مجیب
      • ناشر: دہلی کتاب گھر، دہلی
      • سن اشاعت: 2011

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے