Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

اونا مونو اور ادب

قمر جمیل

اونا مونو اور ادب

قمر جمیل

MORE BYقمر جمیل

    اونا مونو اور ادب

    ’’جب ایک آدمی چیختا چلاتا ہے یا دھمکاتا ہے ہم دوسرے تمام جانور اسے اچھی طرح سمجھتے ہیں تب آدمی کی توجہ کسی دوسری دنیا میں نہیں ہوتی۔ تاہم وہ اپنے ہی انداز سے بھونکتا ہے بات کرتا ہے اور اس چیز نے اسے اس قابل بنا دیا ہے کہ وہ ان چیزوں کو ایجاد کرے جو موجود نہیں ہوتیں اور ان چیزوں سے چشم پوشی کرے جو موجود ہوتی ہیں۔ آدمی کے لیے دنیا کی ہر چیز صرف ایک بہانہ ہے دوسروں سے بات کرنے کا یا اپنے آپ سے بات کرنے کا۔

    (اگسٹو کی موت پر کتے کا خطبہ تجہیز و تکفین)

    یہ وہی اونا مونو ہے جس کی کتاب زندگی کے المیہ مفہوم سے متاثر ہو کر محمد حسن عسکری صاحب نے انسان اور آدمی والا مضمون لکھا تھا۔ اونا مونو نے اپنی اس کتاب کے پہلے ہی باب میں لکھا ہے کہ:

    ’’: میرے لیے گوشت پوست کا آدمی اجنبی نہیں ہوتا بلکہ میں انسانیت کے کسی خاص تصور یا انسان کے کسی تجریدی تصور میں یقین نہیں رکھتا میں اس آدمی میں یقین رکھتا ہوں جو گوشت پوست کا آدمی ہے جو پیدا ہوتا ہے، مرتا ہے، کھاتا پیتا ہے، کھیلتا ہے، سوچتا ہے، ارادہ کرتاہے، وہ آدمی جسے آپ دیکھ سکتے ہیں، سْن سکتے ہیں، وہ آدمی جو ہمارا پڑوسی ہے، دوست ہے، بھائی، سگا بھائی لیکن ایک آدمی ایسا بھی ہوتا ہے جس کا ہم صرف مجرد طور پر تصور کر سکتے ہیں۔ ارسطو کا دو پاؤں والا حیوان، روسو کا معاہدہ عمرانی کا انسان، مانچسٹر کا معاشی انسان۔ ایسا انسان جو کسی جگہ سے تعلق نہیں رکھتا جس کا کوئی خاص ملک نہیں ہوتا، جس کی کوئی خاص جنس نہیں ہوتی، جو صرف ایک خیال ہوتا ہے اور بس اس کے سوا کچھ نہیں۔ چاہے کچھ نام نہاد فلسفی یہ سننا پسند کریں یا نہ کریں کہ فلسفہ کا موضوع بھی یہی گوشت پوست کا آدمی ہے چاہے وہ کسی قسم کا فلسفیانہ نظام کیوں نہ ترتیب دے۔ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ ایک فلسفیانہ نظام دوسرے فلسفیانہ نظام کی ضد میں کھڑا کیا گیا ہے اور چاہے وہ کتنی ہی کوشش اس بات کی کیوں نہ کر لیں کہ خود ان فلسفیوں کی زندگی کے حالات یا ان کی سوانح عمری کوئی اہمیت نہیں رکھتی یا ثانوی حیثیت رکھتی ہے۔ ہم یہ جانتے ہیں کہ یہ ان کی باطنی سوانح عمری ہی ہے۔

    انسان اور آدمی کے اس فرق پر جس کی وضاحت اونا مونو نے کی ہے حسن عسکری صاحب نے پورا ایک مضمون لکھ رکھا ہے اور بات سے بات نکالتے چلے گئے ہیں۔ کچھ نتائج شاید غلط بھی نکال لیے ہیں مثلاً یہ کہ اونا مونو کے نزدیک آدمی کی سب سے بڑی پہچان یہ ہے کہ وہ مرجاتا ہے۔ اونا مونو نے تو صرف یہ کہا ہے کہ گوشت پوست کا آدمی، وہ آدمی ہے جو پیدا ہوتا ہے دکھ اْٹھاتا ہے اور مرجاتا ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ مرجاتا ہے وہ آدمی جو کھاتا ہے، پیتا ہے، کھیلتا ہے اور سوتا ہے اور ارادہ کرتا ہے، وہ آدمی جسے ہم دیکھتے ہیں، سنتے ہیں۔ حسن عسکری صاحب نے روسو کے معاہدہ عمرانی والے تصور انسان پر تنقید کرتے ہوئے روسی اشتراکیت کی بھی خوب خبر لی ہے۔ روسو کی رومانیت کے جو بْرے اثرات ادب پر مرتب ہوئے ان کا بھی عسکری نے تفصیل سے ذکر کیا ہے لیکن دلچسپ مقام در اصل اس وقت آتا ہے جب وہ یہ بتانے کے بجائے کہ وہ اونا مونو سے متاثر ہوئے ہیں یہ بتانے لگتے ہیں کہ ان کے اندر انسان اور آدمی کا فرق دراصل خودان کے اپنے تجربے سے پیدا ہوا ہے۔ اونا مونو نے تو صرف اس کی گواہی دی ہے۔ میں عسکری صاحب کو ایک دیانت دار ادیب اور سچا آدمی جانتا ہوں اس لیے مجھے یقین ہے کہ وہ اس نتیجہ پر خود ہی پہنچے ہوں گے یہ اور بات ہے کہ اونا مونو کی اس کتاب کے پہلے باب سے ان کے اس احساس کو مزید تقویت ملی ہواس لیے،انھوںنے لکھا ہے کہ :

    ’’ اپنے محسوسات کو میں عملی استدلال تو نہیں بنا سکا مگر ایک عام آدمی کی طرح مجھے یہ مضمون لکھنے میں جو ہچکچاہٹ ہوتی رہی ہے اس کا تقاضا ہے کہ اور نہیں تو کم سے کم ایک اور آدمی کے محسوسات ہی کو اپنا گواہ بنا لوں۔ اس کام کے لیے مجھے اسپین کے فلسفی اور شاعر اونا مونو سے بہتر کون آدمی ملے گا جنہیں اپنی پروفیسری کا بھی لحاظ نہ آیا اور بڑی ڈھٹائی سے قبول کر لیا کہ مجھے مرنے سے ڈر لگتا ہے، زندگی کے متعلق انھوں نے جو کچھ سوچا سمجھا تھا جب وہ اسے اپنے فلسفے کی شکل میں مرتب کرنے بیٹھے تو انھیں سب سے پہلے ایک باب فالتو لکھنا پڑا یہ بتانے کے لیے کہ جو فلسفہ انسان کے بارے میں ہو وہ آدمی کے کام نہیں آ سکتا ان دونوں کے فرق کا انہیں ایسا شدید احساس ہے کہ اس باب میں بھی پہلی بات یہی کہی ہے کہ میرے نزدیک انسان اور انسانیت بڑی مشتبہ چیزیں ہیں۔ اب یہ دیکھیے کہ عسکری صاحب اونا مونو کے تصور آدمی سے کس قدر ملتا جلتا تصور پیش کرتے ہیں۔

    ’’اب قدرے اطمینان کے ساتھ بتا سکتا ہوں کہ میرے ذہن میں ان دونوں الفاظ کا مفہوم کیا ہے آدمی تو وہ ہے جس کی مادی ضروریات بھی ہیں اور غیر مادی بھی جو کھاتا ہے، پیتا ہے، سوتا جاگتا ہے، جنسی خواہش محسوس کرتا ہے وغیرہ وغیرہ۔

    (انسان اور آدمی)

    اونا مونو کی تحریروں کا اثر اسپین پر بھی ہوا ہے اور آج آرٹیگا کے ساتھ اونامونو کا شمار اسپین کے دوسب سے بڑے ادیبوں اور فلسفیوں میں ہوتا ہے۔ ملاحظہ کیجیے اونا مونو ایک لانبے قد اور چوڑے کاندھوں والا آدمی جس کے جسم میں ہڈیاں نمایاں ہیں۔ چونچ کی طرح کی ناک اور اس کے ساتھ نوکدار بھوری ڈاڑھی آنکھوں کے اطراف گہرے حلقے سر پر چھوٹے چھوٹے بھورے بال، سرخ رنگ کی اونچی پیشانی، عینک کے شیشوں میں سے دنیا کو دیکھتا ہوا آدمی ایسی عینک سے جو خوردبین کی طرح اپنے معروض پر مرکوز رہتی ہو چہرا لڑا کا آدمیوں جیسا، مگر اس میں بھی شریفا نہ لڑائیوں کا انداز جھلکتا ہے، سیاہ لباس پہنے ہوئے پادری کی طرح کا سلامنکا یونیورسٹی کا یونانی زبان کا پروفیسر اونا مونواسپین کی جس نشاۃ الثانیہ کا نمائندہ ہے اس کا پس منظر دراصل امریکہ کے ہاتھوں اسپین کی شکستِ فاش سے مرتب ہوتا ہے۔ اسپین کی نو آبادیاں اس کے ہاتھ سے نکل گئیں مثلاً کیوبا، گوام اور مریانہ ….. اسپین کا غرور مٹی میں مل گیا لیکن اسپین کی اس شکست میں اسپین کا ایک فائدہ یہ بھی چھپا ہوا تھا وہ یہ کہ اسپین دوبارہ زندہ ہونے لگا اس کا نشاۃ الثانیہ شروع ہوا۔ ۱۸۹۸ء کی شکست سے اسپین میں ایک بیداری کی روح پیدا ہوئی جدید اسپین کی روح بیدار ہوئی اور اسپن کو ایک یورپین ملک بنانے کے ساتھ ساتھ یہ خواہش بھی ہوئی کہ اندلس کی بازیابی کی جائے، اونامونو اور آرٹیگا کے علاوہ مکاڈو اور جیمنیز بھی اس نشاۃ الثانیہ کے نمائندے بن گئے۔ جیمنیز اور ٹیگور سے استفادہ اور ان شاعروں کے ترجمے اسپینی زبان میں کیے۔ ان کاوشوں کا ایک نتیجہ یہ بھی نکلا کہ نیرودا اور اکتاویو پاز جیسے شاعر اسپینی زبان میں پیدا ہوئے۔ اونامونو شاعر بھی تھا۔ روبن ڈاریو پہلا آدمی تھا جس نے اونامونو کو شاعر کی حیثیت سے تسلیم کیا لیکن اونامونو نے روبن ڈاریو کی جدیدیت قبول کرنے کے بجائے ایک بھدا اسلوب تخلیق کیا اور اسی اسلوب کی نشوونما کی۔ اونامونو کی شاعری کو کسی مخصوص مکتبہ فکر کا نمائندہ نہیں کہا جا سکتا لیکن جدید اسپینی شاعری میں اس کے منفرد مقام کو رد بھی نہیں کیا جا سکتا۔ وہ اپنے مسئلوں پر براہ راست اور متغزلانہ انداز میں لکھنے کا اہل تھا اور خاص طور پر موت کے سلسلے میں کرب اور تشویش کا بڑی خوبی سے اظہار کر سکتا تھا اس کے کلام میں گرمی ہے اور آمد۔ وہ وجدانی حال میں لکھتا ہوا دکھائی دیتا ہے اس کی زبان میں بلا کی روانی ہے۔ بہت سے نقادوں کا خیال ہے کہ اس کی طویل نظم معریٰ The Christ of Velazquez(۱۹۲۰) اس کی بہترین نظم ہے لیکن اس کی شاعری زیادہ اثر انگیز اور متحرک شاعری مختصر نظموں اور متغزلانہ ہیتوں میں نظر آتی ہے۔ اس کی بہترین مثال اس کی مختصر نظم In a Castilian Village Cemetery ہے جو۱۹۱۳ء تھی لیکن ۱۹۲۲ء تک شائع نہیں ہو سکی تھی اس نظم میں شاعروں کی زبان متفکرانہ جذبے سے پیدا ہوئی ہے شاعر اپنے آپ کو Castilian پس منظر اور اسپین کی سرزمین کے تضادات سے ہم آہنگ سمجھتا ہے۔ اس گاؤں کے ایک قبرستان میں بغیر کٹی گھاس والے ایک گوشے میںمُردے پڑے رہتے ہیں لیکن جب آسمان سے ان پر بارش ہوتی ہے تو یہ مردے اپنی ہڈیوں میں سے زندگی کا پانی پھوٹتا ہوا محسوس کرتے ہیں یہ نظم کچھ اس طرح شروع ہوتی ہے۔

    مردوں کا اصطبل

    مٹی کی بنی ہوئی ٹوٹی پھوٹی

    دیواروں کے بیچ

    مردوں کا اصطبل

    جہاں فصل کاٹنے کے لیے

    کوئی درانتی نہیں ہے

    صرف ایک صلیب ہے

    جوان کی تقدیر کا نشان ہے

    او نامونو کی شاعری میں ایک اشتعال انگیز کیفیت ملتی ہے اس کا خیال تھا کہ احساس کو فکر انگیز ہونا چاہیے اور فکر کو محسوس او نامونو یونانی اور لاطینی ادب کا پروفیسر تھا اور۱۹۰۱ء میں وہ سلامنکا یونیورسٹی کا ریکٹر مقرر کیا گیا تھا اس نے شاعری اور ڈرامے کے علاوہ ناول کثرت سے لکھے۔ اونامونو کے ناولوں میں شاعری کے جذبات کو ابھارنے والی کیفیت بھی ملتی ہے۔ اس کا پہلا ناول جنگ میں امن جو بل باؤ کے محاصرہ کے بارے میں تھا۔ محاصرہ کے دوران وہ خود اس تجربے سے گزرا تھا جسے اس نے ناول میں بیان کیا ہے اس کی تحریر کا انداز حقیقت پسندانہ ہے اس کے سارے ناول جدیدیت کے مزاج کے مطابق ہیں۔ اسی زمانے میں اس کے ناولوں پر شدید حملے بھی کیے گئے اور یہ بھی کہا گیا کہ یہ ناول نہیں مضامین ہیں۔ ۱۸۹۸ء سے اسپین کی خانہ جنگی تک مضامین ہی کو اسپین کی نمائندہ صنف سمجھا جاتا تھا یہ اسپینی ادب کا عہد زریں کہلاتا ہے۔ اونامونو کہتا تھا کہ یہ ناول نہیں ہیں نہ سہی حقیقتوں کا بہت قریب سے تجربہ کیا ہوا بیان ضرور ہیں۔ اس کے ناول ’’کُہرمیں‘‘اس کا ایک کردار غیر معمولی خود مختاری کا مظاہرہ کرتا ہے دراصل یہ کردار ایسا ہے جو پیرا ندیلو کے ناول چھ کردار اک مصنف کی تلاش میں سے چھ سال پہلے تخلیق کیا گیا ہے۔ اس میں خود اونامونو کی خصوصیات موجود ہیں اس طرح اس نے خود اپنی شخصیت کو کردار بنا کر پیش کیاہے تاکہ اْسے اس طرح ابدیت حاصل ہو سکے۔ ایک اور ناول میں ہابیل اور قابیل کا موضوع پیش کیا گیا ہے اس کے علاوہ(The Good Martyr ST Emmanuel)۱۹۳۳ء میں لکھا گیا۔ اس میں ایک پادری ہے جو خود تو روح کی لافانیت میں یقین نہیں رکھتا لیکن دوسرے پادریوں سے اس کی تلقین کرتا ہے۔ اس کے فکشن میں کردار کرب میں مبتلا رہتے ہیں مبلغ نہیں ہوتے۔ اونامونو کو اس بات پر یقین تھا کہ انسان کو مایوسیوں سے اپنے آپ کو بچانا چاہیے۔ مہملیت سے ڈرنا نہیں چاہیے اور موت سے گھبرانا نہیں چاہیے وہ کہتا تھا احساس کو سوچنے کا موقع دیجیے اور خیال کو محسوس کرنے کا۔ اونا مونو ڈراما نگار بھی تھا۔ اس کا ایک بہت دلچسپ ڈراما جو ہابیل اور قابیل کے موضوع پر ہے اس کے علاوہ Brother John ہے جو Don Juan کی اساطیری حکایت پر مبنی ہے اس کے علاوہ اس نے اپنے بہت سارے ناولوں کو ڈراما بنا دیا ہے۔

    فکشن کے علاوہ جو چیزیں اس نے لکھی ہیں ان میں زندگی کا المیہ مفہوم(The Tragic Sense of life) بہت ممتاز ہے۔ المیہ احساس یہ ہے کہ انسان میں ذاتی ابدیت کی خواہش ہوتی ہے یہی فرد کا بنیادی احساس ہے جوا سے کبھی حاصل نہیں ہو سکتا۔۱۸۹۸ء کی نسل کا سب سے نمائندہ شخص او نامونو کا کوئی شاگرد نہیں اور نہ کوئی پیروکار وہ ہمیشہ انسان کی داخلی کیفیت کو خارجی زندگی کی تجرید سے افضل سمجھتا ہے وہ باطنی زندگی کو تاریخی اور عمرانی یا سماجی زندگی پر ترجیح دیتا ہے۔ اس پر برگساں، کیر کے گار اور ولیم جیمس کی نتائجیت کے بڑے گہرے اثرات ہیں اس کو کیر کے گار ہی سے خدا کے وجود کا سب سے بڑا ثبوت ملا اور وہ یہ کہ خدا کی ضرورت ہی خدا کا سب سے بڑا ثبوت ہے اسے سارتر کی وجودیت کا پیش رو بھی کہا جاسکتا ہے وہ ایک اسپینی وجودی ہے دوسرے تمام وجودیوں سے بالکل مختلف اور دوسری تمام قومیتوں کے وجودیوں سے مختلف وہ مذہب کے انکار اور مہملیت اور بیزاری کے احساس سے لڑتا رہا وہ جس طرح برنارڈشا سے نفرت کرتا ہے اسی طرح وہ ان احساسات سے بھی گریزاں ہے۔ برنارڈشا سے اس لیے نفرت کرتا ہے کہ اس کے خیال میں برنارڈشا انسانی زندگی کی اہمیت کو سماجی کارناموں اور سماجی تجربے تک محدود کر دیتا ہے۔ خود او نامونو کی زندگی کا آغاز ایک سوشلسٹ کی حیثیت سے ہوا تھا لیکن آخر کار وہ جماعتی سیاست سے بلند ہو گیا۔ ساری عمر اس نے اپنے ہم وطنوں کو یہی پیغام دیا کہ وہ اسپینیت سے بلند ہونے کی کوشش کریں اس کا خیال تھا کہ اسپین کی عظمت اس کے شاندار ماضی اور فتوحات میں نہیں ہے بلکہ اس کی اْس روایت میں ہے جو واقعات سے بلند ہے جو ایک عہد سے دوسرے عہد میںعوام کے ذریعے منتقل ہوتی رہی ہے۔

    اسپین کی ٹریجڈی دراصل یہ ہے کہ اسپین کی ۱۸۹۸ء کی نسل کے آئیڈیل اس صدی کے آغاز تک پورے نہیں ہو سکے۔ ۱۸۹۸ء کی نسل کے سب سے بڑے نمائندے اونامونو اور آرٹیگا ۳۲- ۱۹۳۱ء کی دوسری جمہوریہ سے بیزار تھے۔ جنرل فرانکو کی کامیابیوں نے ان کی یہ امیدیں ختم کر دی تھیں کہ اسپین کو سچا یورپین ملک بنایا جا سکتا ہے یعنی ایسے اسپین کو جنم دینے میں وہ ناکام ہو گئے جو یورپ کو متاثر کر سکے۔ ویسے اونا مونو اور آرٹیگا مختلف قسم کے انسان ضرور ہیں لیکن ان دونوں کو اس صدی کی فکر کی تشکیل میں بڑی اہمیت حاصل ہے۔ آرٹیگا سمیت ۱۸۹۸ء کی نسل کے سارے ادیب فردیت پسند تھے ان میں سے کوئی در خائیم کی طرح فکر نہیں رکھتا تھا جس کی نگاہیں ان سماجی خصوصیات کودیکھ لیتیں جو افراد سے ماوراء بھی ہوتی ہیں۔ اجتماعی ضمیر کا خیال در خائیم نے۱۸۹۳ء میں کتابی شکل میں پیش کر دیا تھا۔

    بنیادی طور پر تین ہی قسم کے ناول ہوتے ہیں۔ رزمیہ، ڈرامائی اور غنائی دوسرے لفظوں میں موضوعی یا معروضی ناول۔ جدید عہد میں ناول کا رجحان معروضیت کی طرف ہے۔ یہ تصویر جدید عہد کی زندگی کے سائنسی تصور سے مطابقت رکھتا ہے آج کل تو ناول کو معلومات کا ایک ذریعہ ، ایک دستاویز، ایک ادبی تصویر یا زندگی کی ایک قاش سمجھا جاتا ہے۔ اس قسم کا ناول او نامو نو کو ناپسند تھا وہ افادیت پسند تھا لیکن یہ افادیت پسندی دنیاداری کی افادیت پسندی نہیں تھی۔ یہ افادیت پرستی ہمارے روزمرہ کے معاملات سے ماوراء ہماری ابدی خواہشات کو پورا کرنے کا نام ہے۔ اونامونو کے خیالات مخروطی شکل میں سفر کرتے ہیں۔ اونامونو کے ناول اس کے باطن میں تخلیق ہوتے ہیں یہ ناول اس کی روح کی مملکت میں تخلیق ہوتے ہیں۔ مثلاً اس کے ایک ناول میں اس قصبہ کا نام بھی نہیں دیا گیا ہے۔ جہاں ناول کے اہم واقعات ظہور کرتے ہیں کیوں کہ یہ واقعات اسپین کے کسی بھی علاقے میں ظہور پذیر ہو سکتے تھے چنانچہ اس کے ناول میں مکانات اور دکانیں اور شہر ایک کر گھے کی طرح بن جاتے ہیں جس پر مرد اور عورتیں اپنی روزمرہ کی زندگی کا کپڑا بنتی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ اس کے ناول روحانی ڈھانچے بن کر رہ گئے ہیں کیوں کہ ان ناولوں میں روحوں کے درمیان تصادم ہوتا ہے۔ نقادوں کا خیال ہے کہ اونامونو کے ناولوں کے سارے کردار خود او نامونو کی مختلف تجسیمی شکلیں ہیں جیسے یہ کردار نہیں ہیں بلکہ خیالات ہیں جنہوں نے شخصیتوں کا روپ دھار لیا ہے اس کے باوجود اس کے کردار زندہ کردار ہیں۔ اونامونو جمالیات پرست نہیں تھا اس لیے اسے رومانی نہیں کہا جا سکتا۔ اونامونو کے کھیل ڈرامائی ہونے کے باوجود غنائی ہیں۔ اسپین کے مختلف فنکار اس سے مختلف جہتوں میں آگے نکل چکے ہیں لیکن پھر بھی اونامونو اور آرٹیگا اسپین کی سب سے بڑی علمی اور ادبی شخصیتیں ہیں۔

    اونامونو انسان کو حیوانِ ناطق سے زیادہ محسوسات رکھنے والا حیوان سمجھتا ہے اس کے خیال میں انسان کو دوسرے حیوانوں سے جو چیز ممتاز کرتی ہے وہ عقل نہیں ہے احساسات ہیں لیکن اونامونو میں ایک خوبی یہ بھی ہے کہ وہ ہمیں مجبور نہیں کرتا کہ ہم اس کے اس طرح کے خیالات من و عن قبول کر لیں وہ کہتا ہے کہ خدا کائنات کا شعور ہے ظاہر ہے کہ اونامونو کے اس تصور سے ان گنت لوگ اتفاق نہیں کریں گے کیوں کہ خدا صرف شعور نہیں ہے وہ کہتا ہے کہ یہ ممکن ہے کہ ہر شخص کی روح لافانی نہ ہو جس طرح حافظہ شخصیت کی بنیاد ہوتا ہے اسی طرح روایت اجتماعی شخصیت کی بنیاد ہے۔ ہم تبدیلی ضرور قبول کرتے ہیں لیکن صرف اس حد تک کہ یہ تبدیلی ہمارے تسلسل کا حصہ بن جائے۔ انسان خود ایک مقصد ہے کسی مقصد کے حصول کا ذریعہ نہیں۔ انسان کا المیہ یہ ہے کہ اس میں غیر فانی ہونے کی خواہش موجود ہے لیکن وہ غیر فانی نہیں ہو سکتا فلسفہ کا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ انسان اپنی فکری ضرورتوں کو قلب اور ارادہ کی ضرورتوں سے ہم آہنگ کر دے۔ اونامونو کہتا ہے کہ آدمی اپنے بچوں میں زندہ رہتا ہے یا اپنی تخلیقات میں یا کائناتی شعور میں یہ بات مبہم لفاظی کے سوا کچھ نہیں ہے اس سے صرف احمق ہی مطمئن ہو سکتے ہیں۔

    اونامونو نے انسانوں کے بارے میں بڑی دلچسپ باتیں لکھی ہیں مثلاً یہ کہ انسان باشعور ہونے کے باعث کیکڑے کے مقابلے میں ایک بیمار جانور ہے۔ عقل سماجی تخلیق ہے سوچنا اپنے آپ سے ہم کلام ہونا ہے، خیال باطنی زبان ہے یہ باطنی زبان خارج میں پیدا ہوتی ہے۔ بھوک انسانی فرد کی بنیاد ہے اور محبت معاشرے کی بنیاد ہے۔ تخیل انسان کے ہمیشہ باقی رہنے کے لیے ابدیت کا تصور تخلیق کرتا ہے۔ فلسفی جب فلسفہ تخلیق کرتا ہے تو صرف اپنی عقل سے کام نہیں لیتا بلکہ اپنے احساسات اور گوشت پوست سے بھی کام لیتا ہے اپنے پورے وجود سے کام لیتا ہے۔ یہ دراصل آدمی ہے جو فلسفہ تخلیق کرتا ہے۔ علم صرف علم کے لیے اور صداقت صرف صداقت کے لیے نہیں ہوتی یہ غیر انسانی تصورات ہیں خیر وہی ہے جو انسان کے زندہ رہنے میں نسل کے فروغ دینے میں اور شعور کی ترقی میں مدد دے۔ انسان یہ سوچ بچار کیوں کرتا ہے کہ وہ کہاں سے آیا ہے اور کہاں جائے گا اور اس کائنات کے معنی کیا ہیں؟ اس لیے کہ وہ ہمیشہ کے لیے ختم نہیں ہونا چاہتا وہ جاننا چاہتا ہے کہ اسے ہمیشہ کے لیے مرنا ہے کہ نہیں؟ زندہ رہنا اور چیز ہے اور جاننا اور چیز… ہر توانا چیز Rational Anti ہوتی ہے اور ہر معقول چیز Anti Vital ہوتی ہے۔ حقیقت یہ نہیں ہے کہ میں سوچتا ہوں اس لیے میں موجود ہوں بلکہ یہ ہے کہ میں سوچتا ہوں اس لیے میں مفکر ہوں۔ ابدیت کی پیاس انسانوں سے محبت میں ظاہر ہوتی ہے جو بھی محبت کرتا ہے وہ دراصل اپنے آپ کو کسی غیر کے روپ میں دیکھتا ہے جو چیز بدی نہیں ہے وہ حقیقی نہیں ہے۔

    روح کی ابدیت کا مسئلہ نہ عقلی تجربیت سے حل ہوتا ہے اور نہ وحدت الوجود سے وہ کہتا ہے کہ اگر ہم مرنے کے بعد خدا میں مل جائیں گے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ پیدائش سے پہلے بھی ہم خدا میں تھے۔ اونامونو کے خیال میں وحدت الوجود کفر ہے وہ کہتا ہے کہ اسپنوزا کا نظام سب سے زیادہ عقلی وحدت الوجود کا نظام ہے اس لیے وہ سب سے بڑا کافر ہے اور یہ کہ وہ دینیات جو عقلی ہونے کا دعویٰ کرتی ہے وہ وکالت کے سوا کچھ نہیں ہے وہ کہتا ہے کہ عقل اور ایمان دونوں ایک دوسرے کے دشمن ہیں لیکن ان میں سے کوئی ایک دوسرے کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔ قوت ارادی یہ چاہتی ہے کہ ہم دنیا کو اپنے اندر جذب کر لیں اور ذہانت یہ چاہتی ہے کہ ہم دنیا میں جذب ہو جائیں۔ ذہانت وحدت الوجود ہوتی ہے اور قوتِ ارادی ایک خدا کو مانتی ہے۔ ذہانت کے لیے خیالات کافی ہیں لیکن قوتِ ارادی کے لیے مادی چیزوں کا ہونا ضروری ہے۔فلسفہ اور مذہب ایک دوسرے کے دشمن ہیں اس لیے انھیں ایک دوسرے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسپین میں اونا مونو کی پبلک زندگی کا آخری سین دیکھیے۔

    ہر طرف یہ شور مچا ہوا ہے کہ اسپین کے سب سے بڑے باغی اونامونو کے خلاف کارروائی کی جائے۱۲ اکتوبر۱۹۳۱ء کو اسپین کی حب الوطنی کا جشن سلامنکا یونیورسٹی کے تقریباتی ہال میں منایا جا رہا ہے پلیٹ فارم پر بشپ بیٹھا ہوا ہے۔ مجسٹریٹ، گورنر اور کئی سینئر فوجی افسر موجود ہیں۔ حاضرین میں سب سے ممتاز جنرل فرانکو کی بیوی ہے جس کا جلا ہوا پتلا دیواروں میں سے اب تک ایک دیوار سے لٹکتا ہوا نظر آ رہا ہے۔ حاضرین میں سے ایک شخص اٹھتا ہے اس کی ایک آنکھ ضائع ہو چکی ہے ایک بازو کٹ چکا ہے اور ایک پاؤں بھی غائب ہے وہ اسپین کی Foreign Legion کا بانی ہے یعنی جنرل میلان آسٹرے مراقس کی جنگ میں اس کے ہاتھ کی انگلیوں پر بھی گولی لگ چکی ہے اس نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ جنرل فرانکو دونوں سرطانوں کو اپنے چاقو سے کاٹ کر پھینک دے۔ ایک Catalonia کا کینسر اور دوسرے Basque کا کینسر یعنی خود او نامونو جنرل میلان آسٹرے کے جذبات اس قدر مشتعل تھے کہ وہ دیوانوں کی طرح چلانے لگا۔ فرانکو۔ فرانکو حاضرین میں سے اور لوگ بھی اٹھ کھڑے ہوئے اور اس کی آواز میں آواز ملانے لگے فرانکو، فرانکو، لیکن او نامونو …. چوڑے کاندھے والا او نامونو اس وقت تک کھڑا نہیں ہوا جب تک کہ یہ سارا شور ختم نہیں ہو گیا۔ جب شور ختم ہو گیا تو اس نے آہستہ آہستہ کھڑے ہو کر کہا۔

    ’’ میں اب خاموش نہیں رہ سکتا میں نے اپنی تہتربرس کی عمر میں یہ سیکھا ہی نہیں ہے میں اب خاموش نہیں رہ سکتا میں اب جنرل میلان آسٹرے کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کروں گا سچائی دراصل اسی وقت سچائی ہوتی ہے جب اسے آرائش اور لفاظی سے پاک کر دیاگیا ہو۔

    اونا مونو نے کہا۔

    ’’میں نے ابھی ایک مکروہ اور لغو نعرہ سنا ہے موت زندہ باد۔ میری ساری زندگی ایسے اقوال محال کو جنم دینے میں گزری ہے۔ مجھے ایک ماہر کی حیثیت سے یہ ضرور کہناچاہیے کہ میرے لیے یہ نعرہ سخت مکروہ اور نفرت انگیز ہے۔ جنرل آسٹرے ایک معذور آدمی ہے کسی اجازت کے بغیر میں کہنا چاہتا ہوں کہ وہ ایک جنگی معذور ہے اور ایسا ہی سروانٹس بھی تھا لیکن بد قسمتی سے اصول نہیں بنتے بد قسمتی سے آج فرانس میں بہت معذور لوگ موجود ہیں اور اگر خدا ہماری مدد نہ کرے تو نہ جانے اور کتنے لوگ معذور ہو جائیں گے۔ ہر چند کہ جنرل آسٹرے بہت نا مقبول ہے لیکن اس کا شمار منتخب ذہنوں میں نہیں ہوتا وہ اسپین کو بھی معذور بنانا چاہتا ہے۔

    اس پر جنرل آسٹرے نے مداخلت کی اور چلایا

    ’’دانشوری مردہ باد۔‘‘

    اونا مونو نے کہا۔

    ’’یہ علم و دانش کی عبادت گاہ ہے اور میں اس کا بڑا پادری ہوں تم اس کے مقدس احاطہ کو دنیاداری سے آلودہ کر رہے ہو۔ ہاں تم جیت جاؤ گے کیوں کہ تمھارے پاس وحشیانہ قوت ہے لیکن تم قائل نہیں کر سکتے کیوں کہ قائل کرنے کا مطلب ہے ترغیب دینا اور ترغیب دینے کے لیے وہی چیز تمہارے اندر کم ہے جس کی ضرورت ہوتی ہے۔یعنی عقل۔ میرے خیال میں تم سے یہ کہنا بیکار ہے کہ کم سے کم اسپین کا خیال کرو۔

    اور پھر اونامونو ہال سے اْٹھ کر چلا گیا اس کے ساتھ قانون کا پروفیسر بھی۔ فرانکو کی بیگم جس نے اپنے شوہر کو جو مذہبی نہیں تھا مذہبی بنا دیا تھا حیرت زدہ تھی اور مشینی انسان کی طرح چل رہی تھی جب فرانکو کو اس واقعہ کی خبر ہوئی تو اس نے اونامونو کو سزا سنادی (جنرل فرانکو خود ایک مصنف تھا لیکن پھر اسے خیال آیا کہ یہ فیصلہ غلط ہے کیوں کہ اس سے نجات کی تحریک کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔

    چنانچہ او نا مونو کو اپنے گھر بھیج دیا گیا جہاں پولیس نے اس کے گھر کا محاصرہ کر لیا ۳۱ دسمبر ۱۹۳۶ء کو وہ اس دنیا سے رخصت ہو گیا۔ اس کی پہلی کتاب۱۹۰۲ء میں شائع ہوئی تھی لیکن آج بھی وہ اسپینی ادب کا مرکزی حوالہ ہے۔ اونامونو وہ چوڑے کاندھوں والا آدمی جس کی عینک کے شیشے اپنے معروض پر مرکوز رہتے تھے۔

    RECITATIONS

    ظفر جمیل

    ظفر جمیل,

    ظفر جمیل

    volume01 article08 ظفر جمیل

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے